Was Muhammad Prophesied in the

Torah of Moses?


We have found the one Moses wrote about in the Law, and about whom the prophets also wrote--Jesus of Nazareth, (John 1:45)

BY

The Venerable Archdeacon Barakat Ullah. M.A

’’جس کا ذکر موسیٰ نے تورات میں کیا ہے وہ ہم کو مل گیا ہے وہ یسوع ناصری ہے ‘‘(یوحنا۱: ۴۵)

توریت موسوی اور محمدی عربی

مصنف

علامہ برکت الله ایم۔اے

۱۹۵۱ء



1891-1972

ALLAMA BARAKAT ULLAH, M.A.F.R.A.S

Fellow of the Royal Asiatic Socieity London


دیباچہ

مدت مدید سے مسلم علماء نبوت محمدیہ کو تورات شریف کے مختلف مقامات سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے چلے آئے ہیں او رمسیحی فضلاء (فاضل کی جمع ،علماء)ان کا جواب دیتے رہے ہیں۔چنانچہ ممالک ِ اسلامیہ میں مناظرہ کی کوئی مشہور کتاب ایسی نہیں ہے جس میں مسلمانوں اور مسیحیوں نے اس مضمون پر بحث نہیں کی۔ بلکہ طرفین کے بعض علماء نے تو اس موضوع پر مستقل رسالے بھی لکھے ہیں ۔ پنجاب میں ان رسالوں میں آنجہانی مولوی غلام نبی صاحبکی کتاب " تحقیق الاسلام" خاص طور پر قابل ِ غور ہے کیونکہ اس میں تورات کی کتب کی بنا ء پر مولوی صاحب نے اسلامی نقطہ نظر کے مختلف پہلوؤں کو یکجا کرکے ایک جامع رسالہ تیار کیا تھا۔ امام المناظرین حضرت اکبر مسیح مرحوم نے ۱۸۹۳ء میں اس کتاب کا جواب رسالہ" ادعائے اسماعیل " میں دیا۔ اسی موضوع پر جناب پادری ٹامس ہاول صاحب مرحوم نے ایک رسالہ "بائبل میں محمد" لکھا جس میں انہوں نے سرسید احمد مرحوم کی دلائل کا جواب باصواب دیا۔ اس سلسلہ میں پادری گولڈسیک صاحب کا رسالہ " کتاب ِ مقدس اور حضرت محمد " بھی پڑھنے کے قابل ہے۔

یہ بحث واقعی دلچسپ ہے جس کو از سر نو چھيڑنے کے لئے معذرت کی ضرورت نہیں ۔کیونکہ اس بحث سے بہت سے متنازعہ امور جن کے حل کرنے لئے مسلم علماء مدت سے اپنے دماغ لڑارہے ہیں خود بخود حل ہوجاتے ہیں۔ خصوصاً وہ پیچیدہ وسیع میدان جس میں نبوت محمد یہ کے لئے عہدِ عتیق کی پیش گوئیوں کی راہ لی جاتی ہے ، باوجود وسعت کے طے ہوسکتاہے ۔ کیونکہ اس کا دارومدار اس ایک مفروضہ امر پر ہے کہ بنی اسماعیل سے کوئی جلیل القدر نبی برپا ہونے والا تھا جس کی خبر انبیائے سابقین نے ضرور بالضروری ہوگی۔ اس مفروضہ کی وجہ سے کتب ِ عہد عتیق کی عبث ورق گردانی کی جاتی ہے اور آیات کی بلالحاظ سیاق ِ عبارت تاویل کی جاتی ہے ۔ لیکن اگر یہ ثابت ہوجائے کہ خدا نے حضرت اسماعیل سے برکت ِ نبوت کا کوئی وعدہ نہیں کیا تھا اوربنی اسماعیل سے کوئی نبی مبعوث ہونے والا نہیں تھا توپھر ان تمام مقامات کی جن کا اطلاق حضرت محمد پر کیا جاتا ہے ایک ایسی کلید(چابی) ہاتھ لگ جاتی ہے جو طرفین کے لئے عقدہ کشائی(مشکل آسان کرنا،مسئلہ حل کرنا) کا موجب ہوسکتی ہے ۔

تحقیق کا میدان منزل ِِ ہفتخواں(کیکاوس کی رہائی کے واسطے ماژندران تک رستم نے جو راستہ سات دن میں طے کیا اسے ہفت خوان رستم کہتے ہیں۔کنایتہً اس کا مطلب ہے نہایت کٹھن اور مشکل کام) سے کم وشوارگذار نہیں ہے۔ ہمارے ملک کے مناظرین اس پُر خار راہ(کانٹوں سے بھری راستہ) سے دامن کشاں(پہلوبچا کر) گذرجاتے ہیں کیونکہ وہ اپنے امورایمانیہ کو پہلے سچ مان لیتے ہیں اورپھر ان کو ثابت کرنے کے لئے ایسی دلائل ڈھونڈتے ہیں جن سے یہ ظاہر ہوسکے کہ ان کے مفروضات برحق ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اس قسم کا شخص۔

نہ محقق بود نہ دانش مند

چار پائے برو کتابے چند

محقّق (جانچ کرنے والا)کے لئے پہلی شرط یہ ہے کہ وہ کسی قضیہ(عبارت کے ٹکڑے) کو اپنا جزوایمان نہ بنائے تاوقت یہ کہ وہ پہلے ازروئے عقل ثابت نہ ہوجائے ۔ پس اس موضوع پر بحث کرنے سے پہلے یہ لازم تھا کہ طرفین اپنے اپنے مفروضہ کی بخوبی چھان بین کرتے۔لیکن مسلم مناظرین نے اس کے برعکس یہ وطیرہ(رویہ ،طریقہ کار) اختیار کیاکہ اپنے دماغ پرزور لگا کر یہ فرض کرلیا کہ مدعی نبوت میں فلاں فلاں شرط ہونی چاہیے۔ اورپھر اس مفروضہ کے مطابق تورات وانجیل میں سے ادھر اُدھر سے ایسے ثبوت مہیا کئے جوان کے زعم میں ان شرطوں کو حضرت محمد کی ذات میں پورا کرسکتے تھے۔ واجب تو یہ تھا کہ وہ اپنے دماغوں کی اختراع(نئی بات نکالنا) کی بجائے کتاب الله کے اوراق کو پہلے پلٹتے اور انبیائے سابقین کے حالات وپیغامات پر غور وخوض کرکے معلوم کرتے کہ کتاب الله نبوت کے مفہوم کو کس طرح متعین کرتی ہے اورپھر اس مفہوم کی روشنی میں اپنے خیالات اور معتقدات(اعتقاد) کی صیقلی(صفائی) کرکے دیکھتے کہ انبیائے سابقین کی کتابیں ان کے مفروضات کی تائید وتصدیق کرتی ہیں ۔ یا ان کے مزعومات(مزعوم کی جمع ،گمان کیا ہوا) کی تردید کرکے ان کو غلط اورباطل قرار دیتی ہیں۔

ہم نے اس کتاب کےشروع میں انہی اساسی امور پر بحث کرکے نبوت کے صحیح مفہوم کو متعین کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ اس صحیح مفہوم کی روشنی میں طرفین انبیاء الله کے مبعوث ہونے کی اصلی غایت(انجام ) اور حقیقی مقصد کو بخوبی سمجھ سکیں اورایسے استد لال (دلیل) سے قطعی پرہیز کریں جو الہٰی مقصد اورنبوت کے حقیقی منشاء کے منافی ہو۔ لہٰذا اس رسالہ میں یہ بحث ایک نئے زاویہ سے کی گئی ہے اوراس لحاظ سے یہ رسالہ بالکل نیا ہے گو بحث کا موضوع پرُانا ہے۔ اُمید ہے کہ مسلم مناظرین ٹھنڈے دل سے غور سے کام لے کر اس کتاب کا مطالعہ کرکے حق کو اختیار کریں گے۔

مسلمان مناظرین اپنے مفروضات کو مدِ نظر رکھ کر تورات شریف کی کتاب استثنا کی مشہور آیات (۱۸: ۱۵تا ۱۸) کو دعویٰ ِنبوت محمدیہ کے حق میں ایک بڑی مضبوط اور زبردست دلیل سمجھتے چلے آئے ہیں ۔ چنانچہ آنجہانی مولوی صاحب مذکور کے رسالہ کا معتدبہ حصر (قابل ِاعتماد احاطہ)انہی آیات کی بحث پر مشتمل ہے۔پس ہم نے بھی اپنی کتاب کے بیشتر حصہ میں انہی آیات پر بحث کی ہے۔اس کتاب کے لکھنے سے پہلے ہم نے کوشش کرکے مسلمان اوراحمدی مناظرین کی مختلف کتابوں کو جو انہوں نے گذشتہ نصف صدی کے دوران میں اس مضمون پر لکھی ہیں، بایں خیال پڑھا کہ شاید کسی نے اس بحث میں کوئی نیا پہلو نکالا ہو۔ لیکن سب بے سود(بے فائدہ) ۔ تمام نے اس پرُانی بحث کی فرسودہ (پرانا،خستہ حال)دلائل ہی رٹ سنائی ہیں۔ بقول شخصے ع۔

آنچہ استاد ِ ازل گفت ہماں مے گوئم

جہاں تک ہمیں معلوم ہے دورِ حاضرہ کے کسی مسلم مناظر نے بھی اس پرانی لکیر سے تجاوز نہیں کیا۔ حالانکہ گذشتہ پچاس سال کے اندرذہن انسانی نے مغربی علوم کی روشنی میں تحقیق حق اور جستجو ئے صداقت کے نئے معیار مقررکردئیے ہیں۔ ان کو دیکھتے ہوئے ایسی کتابیں اب بالکل دفتر ِ پارینہ(پرانے کاغذ) کی حیثیت رکھتی ہیں۔ آج کل کے مناظروں میں ان فرسوددہ دلائل کو پیش کرنا دماغ کی بجائے پیٹ کو تقویت دینا ہے۔ افسوس ہے کہ تعصب نے مسلم مناظرین کے ذہن ودماغ کو روشنی کے نور ُ سے متاثر ہونے نہیں دیا اور وہ تاحال انہی تاریکیوں میں بھٹک رہے ہیں جن میں ایک صدی پہلے کے قدامت پسند (پرانی باتوں کو پسند کرنے والا)مسلمان پڑے تھے۔ سچ ہے " نو ر تاریکی میں چمکتا ہے لیکن تاریکی نے اس کو قبول نہ کیا"(یوحنا ۱: ۵)۔ پس لاچار ہوکر ہم نے بھی مسلم دلائل پربحث کرتے وقت کسی نئی کتاب کاحوالہ نہیں دیا بلکہ آنجہانی مولوی غلام نبی کی دلیلوں کے اقتباسات پر ہی اکتفا کیاہے۔ سرسید احمد مرحوم کی تمام دلیلیں بھی اس رسالہ میں موجود ہیں پس ہم نے اس کتاب میں سرسید مرحوم کے الفاظ کا صرف کہیں کہیں اقتباس کیا ہے ۔

قریباً پنتالیس (۴۵)سال ہوئے اس کتاب کی بعض دلائل مجھے دائرہ اسلام سے منجی جہان المسیح کے قدموں میں لائیں۔ پس مدت سے آرزو تھی کہ یہ کتاب لکھوں ۔ الحمد الله کہ آج یہ آرزو پور ی ہوگئی ۔ میں نے اس کتاب کی تالیف میں دیگر کتب مناظرہ اور بالخصوص حضرت امام المناظرین اکبر مسیح مرحوم کے رسالہ ’’ادعائے اسماعیل ‘‘سے استفادہ حاصل کیاہے۔

میری دعا ہے کہ خدا اس رسالہ کے ذریعہ متلاشیان ِحق پر اپنی نجات کا نور چمکائے تاکہ وہ بھی میری طرح منجی عالمین کے قدموں میں آکر نجات ِ ابدی سے بہر ہ اندوز ہوں۔

۱۵ ستمبر ۱۹۵۱ء

برکت الله

باب اوّل

نبوت کا صحیح مفہوم

ضرورت تنقیح

ہمارے مسلم برادران کا یہ خیال ہے کہ نبوت او رپیش گوئی مترادف الفاظ ہیں۔ نبی وہ ہے جو غیب کی خبریں دیتاہے اور جو غیب کی خبریں نہیں دیتا وہ نبی نہیں ہوسکتا۔ مثلاً قادیانی فرقہ کے بانی مرزا غلام احمد آنجہانی کہتے ہیں ۔

"ہم خدا کے ان کلمات کوجو نبوت یعنی پیش گوئی پر مشتمل ہوں نبوت کے اسم سے موسوم کرتے ہیں اورایسا شخص جس کو بکثرت ایسی پیش گوئیاں بذریعہ وحی دی جاتی ہیں اس کا نام نبی رکھتے ہیں"

(چشمہ معرفت صفحہ ۱۸۰)

"خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک کلام پاکر جو غیب پر مشتمل زبردست پیشگوئیاں ہوں مخلوق کوپہنچانے والا اسلامی اصطلاح میں نبی کہلاتاہے "

(حجتہ الله صفحہ ۲)

" جس شخص کو بکثرت مکالمہ ومخاطبہ سے مشرف کیا جائے اور بکثرت امورِ غیبیہ اس پر ظاہر کئے جائیں وہ نبی کہلاتا ہے"

(حقیقت الوحی صفحہ ۳۹۰)

"جبکہ وہ مکالمہ اورمخاطبہ اپنی کیفیت اور کمیت (مقدار)کی رو سے کمال درجہ تک پہنچ جائے اورکھلے طورپر امور غیبیہ پر مشتمل ہو تو وہی دوسرے لفظوں میں نبوت کے نام سے موسوم ہوتاہے ۔ جس پر تمام نبیوں کااتفاق ہے"

(الوصیت صفحہ ۱۱)

سورگیہ مرزا جی ایک اور جگہ لکھتے ہیں :

" میرے نزدیک نبی اس کو کہتے ہیں جس پر خدا کاکلام یقینی یعنی قطعی بکثرت نازل ہو جو غیب پر مشتمل ہو۔ اس لئے خدا نے میرا نام نبی رکھا مگر بغیر شریعت کے"

(تجلیات ِ الہیہٰ صفحہ ۲۶)

یوں مرزا جی نبی او ر نبوت کے معنوں کی تخصیص(محفوظ کرنا،خصوصیت) وتعریف کرکے اعلان کرتے ہیں ۔

"ہمارا صدِق وکذب (سچ اور جھوٹ)جانچنے کے لئے ہماری پیش گوئی سے بڑھ کر کوئی امتحان نہیں ہوسکتا "۔

(وافع الوسادس صفحہ ۲۸۸)

مرزا صاحب کے مسلمان مخالفین نے بھی آپ کے پیش کردہ مفہوم نبوت کو تسلیم کرکے بیسیوں کتابیں تصنیف کرکے آپ کی پیش گوئیوں کے ایک ایک لفظ کو غلط ثابت کردیا اورآپ پر کذاب (جھوٹا)ہونے کا فتویٰ صادر کردیا۔

سطور بالا سےظاہر ہوگیا ہوگاکہ مسلمان علماء اور فرقہ قادیانی کے فضلاء سب کے سب اس ایک بات پر متفق ہیں کہ" اسلامی اصطلاح" میں خدا کے ان کلمات کو جو نبوت یعنی پیش گوئیوں پر مشتمل ہوں نبوت کے اسم سے موسوم کیا جاتاہے۔

اصول تنقیح وتنقید

یہاں سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ آیانبوت کی مذکورہ بالا تعریف اصل حقیقت اور امر واقعہ کے مطابق ہے یا وہ ہمارے مسلمان برادران کا محض ایک خیال ظن اور قیاس ہے جس کو اہل ِ بصیرت کے نزدیک کوئی وقعت حاصل نہیں۔ پس لازم ہے کہ ہم اس " اسلامی اصطلاح" کو واقعات کی کسوٹی پر جانچیں اور حقیقت کے معیار سے پرکھیں تاکہ نبوت کی اس تعریف کی صحت پر روشنی پڑسکے ۔

مقدمہ

اس امر کو جانچنے کے لئے ہمیں انبیائے سابقین کی زندگی کے واقعات پیغامات او رکلمات کی جانچ پڑتال کرنی ہوگی۔ یہ باتیں کتاب ِ مقدس یعنی عبرانی کتب ِ مقدسہ اورانجیل جلیل کے مجموعہ میں مذکور ہیں۔پس لازم ہے کہ ہم نبوت کی مذکورہ بالا تعریف کو مد ِ نظر رکھ کر انبیائے اسرائیل کے بیانات اور سوانح حیات کا غور وتدبر سے مطالعہ کریں تاکہ اصل حقیقت کی تہ کو پہنچ سکیں۔ یہ طریقہ کار اصول ِ تنقید کے مطابق ہے جس پر عمل درآمد کرکے ہم ہر قسم کے سوظن(وہم ) سے بچ کر نبوت کے حقیقی مفہوم کو دریافت کرسکتے ہیں۔

کتاب ِ مقدس اورنبوت

کتاب ِ مقدس میں " نبی" کے لئے چند خطابات مستعمل ہوتے ہیں جن پر غور کرنے سے ہم نبوت کے مفہوم کوصحیح طورپر سمجھ سکتے ہیں۔

عبرانی کتب ِ مقدسہ میں " نبی " کو " مردِ خدا " کا خطاب دیا گیا ہے (۱۔سموئيل ۹: ۶ وغیرہ)۔ وہ " خدا کا خادم" ہے(یسعیاہ۴۲: ۱۹ وغیرہ) وہ "خداکا رسول" ہے جو خدا کے آگے " راہ درست کرنے والا ہے"(ملاکی ۲: ۱) وہ خداکی طرف سے " تفسیر کرنے والا " ہے(یسعیاہ۴۳: ۲۷) ۔ وہ " اپنی دیدگاہ پر کھڑا ہوکر اور برُج پر چڑھ کر انتظار کرنے والا " ہے (حبقوق ۲: ۱) گو وہ خدا اورانسان کے بیچ ایک " درمیانی " کی حیثیت رکھتاہے۔ وہ خدا کا"منہ" ہے جو خدا کا پیغام اپنی قوم کے لوگوں تک پہنچاتا ہے(خروج ۴: ۱۶۔ ۷: ۱۔ یرمیاہ ۱۵: ۱۹ وغیرہ) نبی خدا کے نام سے کلام کرتاہے اورالہٰی اختیار سے لوگوں کو پیغام دیتاہے اوراس کے پیغام کا تعلق بالخصوص اس کے اپنے زمانہ کے ساتھ ہوتاہے۔ لیکن زمانہ ماضی کے گذشتہ واقعات سے وہ مثالیں دے کر اپنے پیغام کو مضبوط کرتاہے اوراپنے قریب کے زمانہ مستقبل کی نسبت اپنے لوگوں کو آگاہ اور خبردا ر کرتا ہے ۔

انبیاء کے فرائض منصبی

(۱) انبیاء الله خدا کی ذات وصفات کے بیان کرنے والے تھے۔ خدا نے ان کی معرفت " طرح بہ طرح اورحصہ بہ حصہ کلام کرکے " (عبرانیوں ۱: ۱) بنی اسرائیل کو یہ تعلیم کہ وہ صرف بنی اسرائيل کا ہی معبود نہیں بلکہ اکیلا ، واحد اور لاشریک ، حقیقی معبود اور زندہ خدا ہے جو تمام کائنات کا خالق ومالک اورایک ایسی قدوس رحمان ورحیم ہستی ہے ، جس کی رضا یہ ہے کہ اس کے پرستار اس کی مانند پاک اور رحم د ل ہوں۔

ہر نبی کا پیغام اس کے اپنے حالات ِ زمانہ او ر دور کی ضروریات سے تعلق رکھتا تھا۔ انبیاء اپنے زمانہ کے واعظ تھے جن کا فرض ِ منصبی یہ تھاکہ وہ بنی اسرائیل کو ہر وقت اورہر جگہ خدا کی ذات وصفات بتلا کر رضائے الہٰی کو ان پر ظاہر کریں۔ اوران الہٰی احکام کو واضح کریں جو ضرورت ِ زمانہ کے مطابق خدا کی طرف سے ان پر واجب تھے۔

(۲) انبیاء زمانہ ماضی کے دنیا وی تاریخی واقعات پر نظر ڈال کر ان کی تاویل وتفسیر خدا کی ذات وصفات کی روشنی میں کیا کرتے تھے ۔ اسی لئے کتاب ِ مقدس کے مجموعہ میں تواریخی کتابیں بھی شامل ہیں جن کے مصنف انبیاء الله تھے۔ ان کتابوں کی تالیف کی غرض یہ تھی کہ قوم اسرائیل جان لے کہ خدا کی پروردگاری کا ہاتھ اس دنیا کے واقعات اور قوم اسرائیل کی تاریخ میں موجود ہے اورکہ خدا کا مقصد دنیا میں اوربالخصوص قوم اسرائيل میں ظاہر ہے(زبور ۷۸: ۔ عاموس ۲: ۱۰تا ۱۲۔ ۳: ۱۔ ۹: ۷۔ ہوسیع ۹: ۱۰۔ ۱۲: ۹تا ۱۳۔ ۱۳: ۴ وغیرہ) ۔جو زمانہ مستقبل میں پورا ہوکر رہے گا۔

(۳) انبیاء الله اپنی قوم کی توجہ نزدیک کے زمانہ مستقبل کی جانب بھی منعطف(موڑنے والا،متوجہ ہونے والا) کیا کرتے تھے تاکہ ان کوآنے والے الہٰی غضب سے آگاہ کریں یا ان کو امید دلا کر ان کی ڈھار س باندھیں اور تسلی دے کر ان کا حوصلہ بلند کریں۔ وہ اپنے لوگوں کو کہتے تھے کہ اگر وہ راستی اورانصاف کو مد ِ نظر رکھیں گے تو خدا کی بادشاہت تمام دنیا میں قائم ہوجائے گی لیکن اگر وہ اپنے گناہوں سے توبہ نہ کریں گے تو خدا ان کو فتح امن اور سلامتی نہیں بخشے گا بلکہ ان کو سزا دے گا(عاموس ۵: ۱۸۔ یرمیاہ ۱۹ باب وغيرہ)۔ وہ کہتے تھے کہ گو خدا قوم اسرائيل کوان کے گناہوں کی سزا دے گا تاہم یہ سزا واجبی ہوگی اور سزا کے زمانہ اختتام کے بعد قوم کی حالت روبہ اصلاح ہوجائے گی۔

مثلاً جب آخز جیسابدکار شخص یہوداہ کا بادشاہ تھا اس تاریک زمانہ میں حضرت یسعیاہ نےقوم کو کہا کہ موجودہ حالات کے باوجود خدا صلح اور راستی کی سلطنت قائم کرے گا (یسعیاہ۹: ۲تا ۷) ۔ یہوداہ کی بادشاہت کے زوال کے شروع میں حضرت یرمیاہ ایک ایسے بادشاہ کی آمد کی خبر دیتا ہے جو نیک لوگوں پر خدائے برحق کے احکام کے مطابق حکمرانی کرے گا (یسعیاہ۳۳: ۵تا ۶) جب قوم اسرائیل کے حالات نہایت حوصلہ شکن اورمایوس کن تھے۔ اس زمانہ میں بھی نبی قوم کی ڈھارس باندھ کر بشارت دے کر کہتا ہے کہ صیون اقوام ِ عالم کی عبارت کا مرکز ہوگا(یسعیاہ ۴۰باب وغیرہ)۔

" پس انبیا ء الله خدا کا " منہ" تھے جو قومی اور ملی زندگی کے ہر پہلو کو خدا کی ذات وصفات کی روشنی میں دیکھ کر اور خدا کی رضا کا قوم وملت کے ہر شعبہ پر اطلاق پر احکام ِ الہٰی کو لوگوں پر ظاہر کرنے والے تھے۔ ان کا پیغام لوگوں کے لئے چراغ راہ ہوتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مقدس پطرس فرماتاہے " ہمارے پاس نبیوں کا وہ کلام ہے جو زیادہ معتبر ٹھہرا اور تم اچھا کرتے ہوجو یہ سمجھ کر اس پرغور کرتے ہو کہ وہ ایک چراغ ہے جو اندھیری جگہ میں روشنی بخشتاہے (جب تک پو نہ پھٹے اور صبح کا ستارہ تمہارے دلوں میں نہ چمکے"(۱۔پطرس ۱: ۱۹)۔

ہم نے نہایت مختصر طورپر انبیاء الله کے کام وپیغام پر تبصرہ کیاہے تاکہ اس کی روشنی میں ہم اپنے مسلمان بھائیوں کی تعریف نبوت کو جانچ سکیں۔ اس تبصر ہ سے ظاہر ہے کہ انبیاء کے فرائض منصبی کا تعلق خاص طورپر صرف ان کے اپنے زمانہ اور دور سے ہی ہوتا تھا اورکہ ان کے پیغام کا اہم ترین عنصر روحانی اور اخلاقی پہلوؤں سے ہی متعلق تھا۔

پیش گوئی کی حقیقت

اس میں کچھ شک نہیں کہ جیسا ہم اوپر ذکر کرچکے ہیں انبیاء اپنے قریب کے زمانہ مستقبل کی نسبت پیش گوئی کرتے تھے ۔ لیکن ان کی نبوتوں کا مطالعہ یہ امر ظاہر کردیتاہے کہ ان کا خاص کام پیش گوئیاں کرنا نہ تھا اورنہ ان کی پیش خبریاں ان کی نبوت کا اہم ترین جزوہوتی تھیں۔ ان پیش خبریوں کی بنیادانبیاءالله کا یہ ایمان تھا کہ خدا اپنے مقصد کو اپنے فرمانبردار خادم انبیاء پر ظاہر فرماتاہے (عاموس ۳: ۷) اور وہ اپنے اس مقصد کے مطابق دنیا کا کاروبار چلاتا ہے کہ زمانہ ماضی اور دورِ حاضرہ کی طرح زمانہ مستقبل میں بھی خدا کی پروردگاری کا ہاتھ موجود رہے گا۔

پس انبیاء الله کی نبوت میں مقدم امر رضائے الہٰی کا مکاشفہ ہوتاہے اور نبی کے پیغام کا اصل مرکز خدا کی مرضی کو قوم وملت پر ظاہر کرنا ہے۔ اگرچہ اس مکاشفہ میں بعض اوقات مستقبل کا جزو ہوتاہے ۔ لیکن اس جزو کا ہونا نبوت کے لئے لازمی اورلابدی (ضروری)نہیں ہے۔ بالعموم نبی کے مکاشفہ کا ہم حصہ یہ ہوتاہےکہ وہ اپنے دور اور زمانہ کے واقعات پر الہٰی نقطہ نظر سے نگاہ ڈالتاہے ۔ مثلاً ٹڈیوں کا آنا (یوا يل نبی کی کتاب) یا کسی فاتح کا سزا وجزا کے لئے برپا ہونا(یرمیاہ ۲۵: ۹۔ یسعیاہ ۴۵: ۱ وغيرہ)۔

پیش گوئی کا پورا ہونا نبوت کے صدق کا معیار نہیں ہوسکتا

سطور بالا سے ظاہر ہوگیا کہ سچے نبی کا حقیقی معیار یہ ہے کہ نبی کا پیغام خدائے قدوس وبرتر کی رضا کو انسان پر ظاہر کرتاہے او رکیا یہ پیغام قوم کے لئے " چراغ راہ" ہے اس پیغام کا پیش خبریوں کے ساتھ کوئی لازمی رشتہ نہیں ہے ۔ نبی کے صدق وکذب کو جانچنے اوراس کی پیش گوئی کے پورا ہونے میں کوئی باہمی واسطہ یا تعلق نہیں ہے۔ کتاب ِ مقدس کا مطالعہ ہم پر ظاہر کردیتاہے کہ انبیاء کی پیش گوئیوں کے الفاظ کابہ تفصیل پورا ہونا ان کے پیغام کی سچائی کا معیار اوران کے برحق ہونے کی کسوٹی نہیں ہے۔ چنانچہ اس میں کلام نہیں ہوسکتا کہ بعض پیش گوئیوں کے الفاظ بجنسہ (ہوبہو)پورے نہیں ہوئے۔ مثلاً اگر چہ دمشق کو شکست نصیب ہوئی لیکن یہ الفاظ پورے نہ ہوئے کہ وہ " شہر نہ رہے گا بلکہ کھنڈر ہوگا"(یسعیاہ ۱۷: ۱)۔ اسی طرح اگرچہ بائبل کو شکست ملی لیکن نبی کے تفصیل وار پورے نہ ہوئے (یسعیاہ ۱۳: ۱۵تا ۱۸)۔

حق تو یہ ہےکہ خود انبیاء کو یہ احساس تھاکہ اگر خدا کے فضل وکرم سے قوم اپنے گناہوں سے توبہ کرکے خدا کی جانب رجوع کرے گی اورحالات بدل جائیں گے تو ان کی پیش خبریاں بھی پوری نہ ہوں گی (یرمیا ۱۸: ۷تا ۱۰)۔

ناظرین کو یاد ہوگا کہ حضرت یوناہ نبی کوخدا سے یہ شکایت تھی کہ خدانے اس کو نذیر بنا کر اورتباہی کا پیغام دے کر بھیجا۔ لیکن اس نے اپنے رحم کو کام میں لاکر نینوہ کے لوگوں کی توبہ قبول کی فرمائی اورا س کی پیش گوئی کو پورا نہ ہونے نہ دیا (۳: ۴تا ۱۰۔ ۴: ۱)۔

پس انبیاء الله کے پیغام کا وہ حصہ جس کا تعلق زمانہ مستقبل سے تھا ہمیشہ مشروط ہوتا تھا۔ اگر انسان توبہ کرکے خدا کی طرف رجوع کرے تو نبی کی پیش خبری کے الفاظ پورے نہیں ہوسکتے کیونکہ خدا رحیم وکریم ہے اوراپنے لوگوں کے گناہ معاف فرماتاہے(یرمیاہ ۱۸: ۱تا ۱۲۔ ۲۶: ۱۲تا ۱۹ وغیرہ) ۔ہم اس بات کو ایک عام مثال سے واضح کردیتے ہیں۔ کسی پی گوئی میں اوراس کے پورا ہونے میں بعینہ وہی تعلق جو بیج اور درخت میں ہوتاہے۔ ہر پیش خبری خدا کی راست بازی اور قدوسیت کے اصول اپنے اندر رکھتی ہے جو تخم کی طرح ہے۔ جس طرح سازگار حالات میں تخم نشوونما پاتاہے اور رفتہ رفتہ تناور درخت ہوجاتاہے اسی طرح خدا کی راست بازی کے اٹل اصول کی وجہ سے پیش خبری موافق ماحول میں نشوونما پاک کر زبردست واقعہ کی صورت اختیار کرلیتی ہے اور یہ واقعہ قوم کی ترقی یاتنزل کا باعث ہوتاہے۔ کسی پیش گوئی کی تکمیل اور اس ازمی اور اٹل قانون ِ فطرت پر منحصر ہے کہ جو شخص یا قوم خدا کے احکام سےبرگشتگی اختیار کرلیتی ہے اس کا انجام تباہی ہے۔ برعکس اس کے جب کوئی شخص یا قوم رضائے الہٰی کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالتی ہے اس کا قدرتی نتیجہ انفرادی فلاح بہبودی اور قومی ترقی ہے ۔انبیائے سابقین کی کتب کا مطالعہ یہ ثابت کردیتاہے کہ انبیاء صرف ان معنوں میں ہی آئندہ واقعات کی خبریں دیا کرتے تھے اور صرف انہی معنوں میں پیش گوئی نبوت کا جزو ہوسکتی ہے ۔ لیکن اگر پیش گوئی اورنبوت سے یہ مراد ہو کہ انبیاء کرام نے ایسے واقعات کی خبردی ہے جو ان کے مرنے کے صدیوں بعدظہور میں آئے اوران کے الفاظ لفظ بلفظ اور حرف بحر ف پورے ہوئے تو کتاب مقدس سے اس قسم کے نظر یہ کوکوئی سہارا نہیں ملتا۔

مثال کے طورپر سیدنا مسیح کی پیش گوئی کو لیں۔ آپ نے یروشلیم کی تباہی اور قوم یہود کی بربادی کی خبر دی (مرقس ۱۰باب۔لوقا ۲۱باب۔ متی ۲۳باب ۲۹تا ۳۶ وغیرہ)۔آنخداوند کی ان پیش خبریوں سے (جن کا تعلق نزدیک کے مستقبل سے ہی تھا) یہ واضح ہوجاتا ہے کہ انبیاء الله کن معنوں میں مستقبل کی خبریں دیا کرتے تھے۔ آنخداوند اپنی قوم کو توبہ کی دعوت دیتے رہے تاکہ خدا کی بادشاہت اوراس کی راست بازی دنیا میں قائم ہوجائے۔ لیکن رؤسائے (رئیس کی جمع ) قوم یہود شیطانی تحریکات پر چل کر خدا کے پاک قوانین کی خلاف ورزی کرتے رہے۔ پس آنخداوند نے ان کو خبردار کیا اورفرمایا کہ خدا کے روحانی قوانین اٹل ہیں جن کو توڑنے کانتیجہ قومی بربادی ہوگی۔ بلاآخر ۷۰ء میں بنی اسرائیل کو وہ دن دیکھنا پڑا کیونکہ انہوں نے توبہ نہ کی اور آنخداوند کی یہ پیش گوئی پوری ہوئی کیونکہ خدا کے ازلی قانون فطرت کے مطابق اس کی تکمیل لازمی تھی۔

کاذب نبی کی شناخت

کتاب مقدس کا مطالعہ یہ ظاہر کردیتاہے کہ جھوٹے نبی کی شناخت یہ نہیں ہے کہ اس کی پیش گوئیاں پوری نہیں ہوتیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جھوٹے نبی مختلف قسم کے ہوا کرتے تھے اور قوم کےسامنے مختلف رنگوں میں آیا کرتے تھے۔ وہ گرگٹ کی طرح قوم کے مذہبی اور سیاسی حالات اور پارٹیوں کی طاقت کے مطابق اپنا رنگ بدل لیا کرتے تھے ۔ جب بادشاہ ِ وقت بُت پرستی کی جانب مائل ہوتا تو وہ بت پرستی کے حامی ہوجاتے ۔کبھی وہ کسی سیاسی پارٹی کے لیڈروں سے مل کر ان کے پروگرام کے مطابق ان کی سی باتیں کرتے اور قوم کو کہتے کہ یہ خدا کا پیغام ہے (یرمیاہ ۱۴: ۱۴۔ ۲۳: ۱۶تا ۲۶ وغیرہ) کبھی وہ اپنا پیٹ پالنے کے لئے امراء اور رؤسائے ملک کو خوش کرنے کی خاطر ان کی طرفداری کرکے اپنے کلام کو خدا کی جانب منسوب کردیتے تھے (حزقی ایل ۱۳: ۲تا ۷۔ میکاہ ۳: ۱۱۔ رومیوں ۱۶: ۱۸۔ ۲۔پطرس ۲: ۳)۔

چنانچہ حضرت یرمیاہ کہتاہے "نبیوں کی بابت میرا دل ٹو ٹ گیا۔ میری ہڈیاں تھرتھراتی ہیں۔ نبی اورکاہن دونوں ناپاک ہیں۔ انہوں نے بعل کے نام سے نبوت کی اورمیری قوم اسرائیل کو گمراہ کیا۔نبی زناکار، جھوٹ کے پیرو اوربدکاروں کے حامی ہیں ۔ان کی وجہ سے تمام ملک میں بے دینی پھیلی ہے۔ وہ بطالت کی تعلیم دیتے ہیں وہ اپنے دلوں کے الہٰام بیان کرتے ہیں نہ کہ خداوند کے منہ کی باتیں ۔ میں (خدا) نے ان نبیوں کو نہیں بھیجا پر یہ دوڑتے پھرتے۔ میں نے ان سے کلام نہیں کیا پر انہوں نے نبوت کی لیکن اگر وہ میری مجلس میں شامل ہوتے تومیری باتیں میرے لوگوں کو سناتے اوران کو ان کی برُی راہ سے اوران کے برُے کاموں کی برائی سے باز رکھتے۔ کب تک یہ نبیوں کے دل میں رہے گا کہ جھوٹی نبوت کریں۔ وہ اپنے دل کی فریب کاری کے نبی ہیں۔ خداوند فرماتاہے میں ان نبیوں کا مخالف ہوں جو اپنی زبان کو استعمال کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خدا فرماتاہے "(یرمیاہ ۲۳باب ۔ ۶: ۱۳ وغیرہ)۔

سیدنا مسیح نے بھی جھوٹے نبیوں کا یہی معیار مقرر فرمایا ہے"جھوٹوں نبیوں سے خبردار رہو جو تمہارے پاس بھیڑوں کے بھیس میں آتے ہیں۔ لیکن باطن میں پھاڑنے والے بھیڑئیے ہیں ۔ ان کے پھلوں سے تم ان کو پہچان لوگے کیا جھاڑیوں سے انگور یا اونٹ کٹاروں سے انجیر توڑتے ہیں۔ پس ان کے پھلوں سے تم ان کو پہچان لوگے "(متی ۷: ۱۵تا ۲۰)۔

کتاب مقدس میں چند جھوٹے نبیوں کا احوال اوران کی عبرت ناک سزا کا ذکر بھی آیا ہے (استثنا ۱۳: ۱تا ۳؛ ۱۔سلاطین ۱۲: ۱۸۔ ۲۲: ۶تا ۱۲؛ ۲۔تواریخ ۱۸: ۵؛ یرمیاہ ۱۴: ۲۰، ۲۳، ۲۸، ۲۹باب ؛ نوحہ ۲: ۱۴؛ زکریا ۱۳ : ۳ وغیرہ) مقدس پولوس رسول ایسے ہی لوگوں کی نسبت فرماتاہے کہ" ان کا خدا پیٹ ہے اوروہ دنیا کی چیزوں کے خیال میں رہتے ہیں۔ وہ خدا کی نہیں بلکہ اپنے پیٹ کی خدمت کرتے ہیں اور چکنی چپڑی باتوں سے سادہ لوحوں کو بہکاتے ہیں (فلپیوں ۳: ۱۹۔ رومیوں ۱۶: ۱۸)۔

لیکن یہ ظاہر ہےکہ خدا اس قماش کے لوگوں کی معرفت کلام نہیں کرتا کیونکہ ان کے ذہن الہٰی عرفان کےنور سے منو رنہیں ہوتے۔ سچی نبوت کا تعلق حقیقی دین داری سے ہے جس کا اولین اصول یہ ہےکہ جو عہد خدائے قدوس برحق نے قوم اسرائیل سے باندھا تھا اس پر عمل درآمد ہوا اوریہی بات سچے اور جھوٹے نبی کے درمیان مایہ الامتیاز ہے۔ خدا کےعہد کے اصولوں کو فراموش کرکے پس ِ پشت پھینک دینا ہی نبوت کی روح کو گم کردینے کے برابر ہے۔ سچے نبی اور حقیقی دین داری کے حقائق اور اصول بیان کرنے والے اوراپنے اپنے دور اورزمانہ کے حالات میں اپنی قوم کو ان کے اصولوں پر چلانے والے انسان تھے۔ ان کے کلام کا تعلق براہ راست اور خاص طورپر ان کے اپنے زمانہ اوران کے اپنے ہمعصروں کے ساتھ ہوتا تھا جن کو وہ راہ ِ ہدایت پر چلانا اپنا فرض منصبی سمجھتے تھے۔

عبرانی لفظ "نابی " کا مفہوم

عبرانی زبان میں لفظ" نابی " کے صرفی اور لغوی معنی میں پیش خبری کا مفہوم موجود نہیں ۔ مثلاً جب حضرت ابراہام کو " نبی " کہا گیا (پیدائش ۲۰: ۷) یادیگر بزرگان اسرائیل کو " نبی " کا خطاب دیا گیا ہے (زبور ۱۰۵: ۱۵) تو اس سے یہ مراد نہیں کہ وہ پیش گوئیاں کرنے والے تھے بلکہ اس لفظ سے مراد یہ تھی کہ ان بزرگان ِ قوم کو خدا کی قربت حاصل تھی اور وہ رضائے الہٰی کو لوگوں پر ظاہر کرنے والے قومی پیشواتھے۔ بالفاظ ِ قرآن وہ " امام" اور" رہنما" تھے۔ علیٰ ہذا القیاس (اسی طرح)حضرت موسیٰ کو " نبی" اس واسطے کہاگیا ہے کہ وہ اس پرانے عہدکے اعلان کرنے والے تھے جو خدا نے بنی اسرائيل سے باندھا تھا ۔ وہ خدا کی مرضی کو اپنی قوم پر ظاہر کیاکرتے تھے ،لیکن ان کا کلام پیش گوئی کرنا نہ تھا بلکہ اس کا فرض منصبی یہ تھا کہ وہ قوم کے ہادی اورراہنما ہوں۔ اسی واسطے تورات شریف میں حضرت موسیٰ میں اور پیش گوئیاں کرنے والوں میں تمیز کی گئی ہے(گنتی ۱۲: ۶تا۷)۔ جس طرح حضرت ہارون ، حضرت موسیٰ کے پیامبر تھے اسی طرح حضرت موسیٰ خدا کے نبی او رپیامبر تھے (خروج ۷: ۱)۔ علیٰ ہذا لقیاس حضرت سموئيل خدا کے نبی اس لئے نہیں تھے کہ وہ پیش گوئیاں کیا کرتے تھے بلکہ وہ خدا کے نبی تھے کیونکہ وہ اپنی قوم کے ہادی تھے۔ انہوں نے " انبیا زادوں" کے مدرسے قائم کئے (۱۔سموئيل ۱۰: ۵۔ ۱۹: ۱۹؛ ۲۔سلاطین ۲: ۳تا ۵۔ ۴: ۳۸؛ ۶: ۱ وغيرہ)۔ تاکہ ان میں تورات شریف کا مطالعہ کیا جائے۔

پس حقیقت یہ ہے کہ عبرانی میں لفظ" نبی " کے مفہوم میں پیش خبری کے عنصر کو کوئی خاص جگہ حاصل نہیں ہے۔ بلکہ لفظ نبی کے معنی یہ ہیں کہ خدا اپنے پیامبر کی پشت پر ہے اور اپنی ربانی تحریک سے اس کو اپنےزمانہ اور قوم کے لوگوں سے بولنے پرمجبور کرتاہے ۔ نبی کو یہ پیغام خدا کی طرف سے ملتا تھا اوراسے پیغام دیئے بغیر چین نہ آتا تھا (۱۔سموئيل ۹: ۱۵ ؛یرمیاہ ۱: ۶ ؛حزقی ایل ۳: ۱۴؛ عاموس ۳: ۸ وغیرہ)۔ خوا ہ نبی پیغام پہنچانا نہ بھی چاہے تاہم وہ اس کو پہنچائے بغیر نہ رہ سکتا تھا (خروج ۴: ۱۰ تا ۱۳ وغیرہ) بقول شخصے۔

مراد ردیست اندردل اگر گوئم زباں سوزد

وگردم درکشم ترسم کہ مغز استخواں سوزد

نبوت اور فلسفہ تاریخ

ناظرین پر اب ظاہر ہوگیا ہوگاکہ انبیاء سابقین کی زندگی کے واقعات ، پیغامات اورکلمات اس نظریہ کے سراسر خلاف ہیں کہ نبوت اور پیش گوئی مترادف الفاظ ہیں۔ خدا اپنے انبیاء کو اس مقصد کےلئے برپا نہیں کرتاکہ وہ بنی نوع انسان پر دور ونزدیک کے مستقبل کے حالات ظاہر کرے ۔کتاب ِ مقدس کا مطالعہ اس قسم کے قیاس کو باطل ثابت کرتاہے کہ انبیاء کو نبوتیں گویا معکوس تاریخ Inverted History ہوتی ہیں۔ ایساکہ اگر دنیا کے تواریخی واقعات کی ترتیب کو شروع سے آخر تک الٹ دیا جائے تو وہ انبیاء الله کی نبوتیں بن جاتی ہیں اور اگر ان نبوتوں کو زمانہ مستقبل میں پھیلادیا جائے تو وہ قیامت تک کےتاریخی واقعات بن جاتی ہیں۔ لیکن نبوت کوئی معکوس تاریخ نہیں ہے۔ اس کے برعکس نبوت کا فلسفہ تاريخ ہے جس میں دورِحاضرہ کے واقعات پر خدائے برتر وقدوس کی ذات وصفات کی روشنی میں تبصرہ کیا جاتا ہے ۔ اور یہ بتایا جاتاہےکہ اگر افراد یا قوم نے خدا کے احکام کی خلاف ورزی کی تو مستقبل میں ان کا کیا حشر ہوگا۔ نبی دنیاوی تاریخی واقعات کے اندرونی مطالب۔ پنہانی مقاصد اور پوشیدہ معانی کو قوم پر ظاہر کرتاہے۔ یہی وہ فرض تھا جو خدا تعالیٰ نے اپنے خدمت گزار نبیوں کے سپردکیا تھا۔ انبیاء کرام کا یہ کام نہیں تھا کہ ان لوگوں اور واقعوں کو خبر یں جوہزار وں سال بعد ہونے والے تھے۔ وہ فالگیر اورنجومی یا رمال اور جوتشی نہیں تھے بلکہ خدائے قدوس کے فرمانبردار پیامبر اور برگزیدہ تھے۔

نبوت کا مفہوم اورانجیل

پس عہد ِ عتیق کی کتب کا مطالعہ ہم پر ثابت کردیتاہے کہ انبیائے کرام کا اولین فر ض یہ تھا کہ قوم اسرائیل کو ہدایت کی راہ پر چلائیں۔ انجیل جلیل کا مطالعہ بھی يہ ظاہر کردیتا ہے کہ خدا کے نبی کا یہ فرض تھاکہ لوگوں کو " آنے والے غضب" کی اطلا ع دے (لوقا ۳: ۷تا ۲۰)۔ اورمنادی کرے کہ " توبہ کرو اورتوبہ کے موافق پھل لاؤ"(متی ۳: ۲، ۸)۔ حضرت ابن الله نے بھی اپنی نبوت کا زمانہ اسی طرح شروع کیا(متی ۴: ۱۷)اوراسی طرح ختم کیا(متی ۲۳باب) خداوند کا رسول مقدس پولوس مختلف نعمتوں کے تذکرہ کےدوران میں فرماتاہے کہ " تم محبت کے طالب ہو اور روحانی نعمتوں کی بھی آرزو رکھو خصوصاً اس کی کہ نبوت کرو"۔ اورنبوت کا مفہوم ان الفاظ میں بتلاتاہے کہ " جونبوت کرتاہے وہ کلیسیا کی ترقی کرتاہے ۔ پس میں زيادہ تر یہی چاہتا ہوں کہ تم نبوت کرو۔" (۱کرنتھیوں ۱۴: ۱تا ۵)۔ رسول مقبول انبیائے سابقین کی نبوتوں کی نسبت فرماتاہے ۔ " جتنی باتیں پہلے لکھی گئیں و ہ ہماری تعلیم کے لئے لکھی گئیں تاکہ صبر سے اور کتاب ِ مقدس کی تسلی سے امید رکھیں (رومیوں ۱۵: ۴) وہ اپنی نبوت کی نسبت فرماتاہے کہ وہ جھوٹے نبیوں کی باتوں کی مانند نہیں ہے بلکہ خدا کو حاظر وناظر جان کر کہتا ہےکہ " ہماری نصیحت نہ تو گمراہی سے ہے ،نہ ناپاکی سے نہ فریب کے ساتھ بلکہ جیسے خدا نے ہم کو مقبول کرکے انجیل ہمارے سپرد کی ویسے ہی ہم بیان کرتے ہیں۔ آدمیوں کو نہیں بلکہ خدا کو خوش کرنے کے لئے جو ہمارے دلوں کو آزماتاہے۔ نہ کبھی ہمارے کلام میں خوشامدپائی گئی اور نہ وہ لالچ کا پردہ بنا خدا اس کا گواہ ہے"(۱۔تھسلنیکیوں ۲: ۳تا ۵)۔

پس تورات مقدس ،انبیائے سابقین کی کتابیں۔ اہل یہود کی کتب تواريخ اورانجیل جلیل کی تمام کتابیں سب کی سب اس بات پر گواہ ہیں کہ نبی کاپہلا اور اولین فرض یہ تھا کہ خدا کے پیغام کو اپنی قوم کے لوگوں تک پہنچا دے تاکہ وہ خدا کے احکام نصیحت اور تسلی کے کلمات سن کر صراط مستقیم پر قائم رہیں۔ نبی کا یہ کام نہ تھاکہ دنیا کوہزاروں برس کے بعد ہونے والے واقعات یا آنے والے پیغمبروں کی اطلاع دے بلکہ اس کا فرض منصبی یہ تھا کہ وہ نذیر اوربشیر ہوکر مخلوق خدا کو راہ ِ ہدایت پرچلائے ۔

نبی کس کے حق میں کہتا ہے؟

معترض(اعتراض کرنے والا) یہ سوال کرسکتاہے کہ اگر نبوت کا مفہوم یہی ہے اورانبیاء کا یہ کام نہیں تھاکہ صدیوں بعد کے کسی آنے والے پیغمبر یا واقعہ کی خبردیں تو سیدنا مسیح کے رسول اورانجیل نویس کیوں کہتے ہیں " جو خداوند نے نبی کی معرفت کہا تھا وہ پورا ہوا ؟"(متی ۱: ۲۲ وغیرہ) جواباً عرض ہے۔

سیدنا مسیح نے خود فرمایا اورآپ کے رسول اورمبلغ بھی یہی سمجھے کہ آپ کی آمد کی علت غائی(نتیجہ) یہی تھی کہ آپ کے مشن سے تورات اور انبیاء کی ہستی کا اصل مقصد تکمیل پایاجائے(متی ۵: ۱۷؛ رومیوں ۱۳: ۸تا ۱۰ ؛ گلتیوں ۳: ۲۴ وغيرہ) وہ یہ بھی سمجھتے تھے کہ انبیائے سابقین کی کتب آنخداوند کے کام اور پیغام کی روشنی میں معنی خيز ہوجاتی ہیں(لوقا ۴: ۱۸تا ۲۲۔ ۲۴: ۲۷۔ یوحنا ۱: ۴۵۔ ۵: ۳۹۔اعمال ۸: ۳۵ وغيرہ) وہ منجی عالمین کی مبارک زندگی کے مختلف مراحل ومنازل پرباریک نگاہ کرکے انبیائے سابقین کی کتب مقدسہ کے الفاظ کو ان پر چسپاں کرکے تفصیل وار یہ بتلائیں کہ آپ کے سوانح حیات، معجزات بینات اورکلمات ِ طیبات میں اور ان کی کتابوں کی پیش خبریوں میں ہر پہلو سے مطابقت موجو دہے۔حضرت کلمة الله نے کبھی اپنی مقدس زندگی کے خفیف واقعات میں اور انبیائے سابقین کی کتابوں کے الفاظ میں مطابقت دکھلا کر اہل یہود سے نہ فرمایاکہ پیش گوئیوں کے الفاظ (جو صدیوں پہلے کے ہیں ) ہو بہو واضح اور صاف طورپر ایک ایک کرکے میرے لئے اور صرف میرے لئے ہی لکھے گئے ہیں۔ اور ان کا تعلق انبیاء سابقین کے زمانہ سے یاان کے نزدیک کے مستقبل سے نہ تھا۔ جب حضرت کلمة الله انبیائے سابقین کا ذکر کرتے ہیں۔ تو ان مقامات کا سطحی مطالعہ بھی یہ ظاہر کردیتاہے کہ آپ کے ذہن مبارک میں تاکید لفظی کا خیال تک موجود نہیں ہے بلکہ آپ کا زوربیان ان کتابوں کے روحانی مفہوم کی جانب سے ان انبیاء کے پیغام کا ماحصل تھا۔ آپ بتاکیدفرماتے ہیں کہ بنی اسرائیل کے شارع سلاطین،انبیاء سب کے سب اس روحانی مقصد کے حصول اور تکمیل کے دیکھنے کے خواہشمند تھے جو آپ کی مبارک آمد سے کامل ہوا(متی ۱۳: ۱۷؛ لوقا ۱۰: ۲۳تا ۲۴؛ ۱۷: ۲۲؛ یوحنا ۸: ۵۷؛ عبرانیوں ۱۳: ۱۳، ۲۹، ۴۰؛ ۱۔پطرس ۱: ۱تا ۱۲ )۔

ہاں یہ ایک قدرتی بات تھی کہ جب آنخداوند کے رسول انجیل نویسوں اور مبلغوں نے منجی عالمین کی ظفریاب قیامت کے بعدآپ کے سوانح حیات ،صلیبی موت اور قیامت کی روشنی میں انبیائے سابقین کی کتب ِ مقدسہ کا مطالعہ کیا تو ان کو جگہ جگہ ایسے مقامات نظر آئے جو حضور کی زندگی موت اور قیامت پر عین بعین صادق آتے تھے۔

مثلاً جب ہم انبیاء الله کی کتب کا مطالعہ کرتے ہیں توہم پر ظاہر ہوجاتاہے کہ قوم اسرائیل کے نبی خدا کی سلطنت کے قائم کرنے میں سدا کوشاں رہتے تھے۔ لیکن جب انہوں نے دیکھاکہ شاہان ِ اسرائیل ان کے لائحہ عمل پر نہیں چلتے بلکہ متعدد نالائق بادشاہ خدا کی بادشاہت کے قوانین کی صریح خلاف ورزی کرکے قوم اسرائیل کے زوال کا باعث بن رہے ہیں (۲۔تواریخ ۱۸باب تا آخر) تو وہ ایک صادق بادشاہ اور راستباز حکمران کی نبوت کرتے جو ارض ِ مقدس پر صداقت سے سلطنت کرے گا اور خدا کی بادشاہت زمین پر قائم کرے گا ایساکہ ایک نئی زمین اور نیا آسمان معرض ِ وجود میں آجائیگا ۔ مثال کے طورپر یسعیاہ نبی کی نبوت ملاحظہ فرمائیں:

"یسی کے تنے سے ایک کونپل نکلے گی اوراس کی جڑوں سے ایک بارآور شاخ پیدا ہوگی اور خداوند کی روح اس پر ٹھہرے گی ۔ حکمت اور خردکی روح مصلحت اور قدرت کی روح ، معرفت اور خداوند کے خوف کی روح، وہ راستی سے مسکینوں کا انصاف کرے گا۔ وہ اپنے لبوں کے دم سے شریروں کو فنا کر ڈالے گا۔ اس کی کمر کا پٹکا راست بازی ہوگی اوراس کے پہلو پر وفاداری کا پٹکا ہوگا۔ پس بھیڑ یا برہ کے ساتھ رہے گا اور چیتا بکری کے بچے کے ساتھ بیٹھے گا اور بچھڑا اور شیر بچہ اورپلاہوا بیل مل جل کر رہیں گے۔ دودھ پیتا بچہ سانپ کے بل کے پاس کھیلے گا۔ جس طرح سمندر پانی سے بھرا ہے اسی طرح زمین خداوند کے عرفان سے معمو رہوگی۔ لوگ یسی کی اس جڑ کے طالب ہوں گے جو لوگوں کے لئے ایک نشان ہے اور اس کی آرام گاہ جلال ہوگی"۔(یسعیاہ۱۱: ۱تا ۱۱؛ ۴: ۵؛ ۹: ۶؛ یرمیاہ ۲۳: ۵ وغيرہ)۔

اسی طرح جب انبیاء الله نے قوم اسرائيل کی زبون حالی اورابتر حالت کا ملاحظہ کیا تو وہ دست ِ تاسف (افسوس)مل کر با ربار اپنی قوم کو وہ عہد یاد دلاتے تھے جوانہوں نے خدا سے کیا تھا اورجس کو قوم نے اپنی برگزیدگی کو فراموش کرکے پس پشت پھینک دیا تھا۔ ا ن انبیاء نے ان کو جتلادیا کہ خداکے لوگ کامل ہوں گے جب خدا خود ان کے درمیان سکونت کرے گا (یسعیاہ ۹باب۔ صفنیاہ ۳: ۱۶۔ ۴۰: باب ۔زبور ۱۰۲ وغیرہ)۔

لیکن اہل یہود کے انبیاء میں اس قدروسعت نظری نہ تھی کہ وہ مذکورہ بالا دونوں تصورات کو یعنی ایک کامل سلطان اورایک کامل قدوس ہستی کے تصورات کو کسی ایک شخصیت میں یک جا کرکےکہتے کہ خدا کی بادشاہت کا بادشاہ یعنی خود خدا لوگوں کے درمیان سکونت کرے گا۔ لیکن جب سیدنا مسیح مبعوث ہوئے تو آپ کے رسولوں اور مبلغوں نے دیکھاکہ یہ دونوں تصورات آپ کی پاک اور کامل ذات میں بوجہ احسن پائے جاتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اناجیل اربعہ میں یسعیاہ کے چالیسویں (۴۰)باب کا اطلاق آنخداوند پر کیا گیا ہے اور عبرانیوں کے خط کا مصنف زبور ۱۰۲ کو مسیح موعود کی جانب منسوب کرتاہے ۔علیٰ ہذا القیاس سیدنا مسیح کے رسولوں نے آپ کی زندگی میں خدا کودیکھا (یوحنا ۱۴: ۸تا ۱۰) اور ان کو انبیائے سابقین کی کتب مقدسہ کے وہ مقامات یاد آگئے جن میں لکھا تھاکہ خدا خود اپنی قوم کے درمیان سکونت کریگا(حزقی ایل ۳۷: ۲۶تا ۲۸)۔

لیکن جب انبیائے سابقین نے یہ نبوتیں کی تھیں توان کے الفاظ کا ہرگز یہ مقصد نہ تھاکہ ان کے کام کرنے کے صدیوں بعدان کے الفاظ کا اطلاق کسی خاص مسیح موعود پر ہوگا۔ ان کتب مقدسہ کے مسیحی ناظرین ان انبیاء کے کلام کی صداقت کو سیدنا مسیح کی زبان ِ حقیقت ترجمان کی تعلیم، معجزاتِ بینات، واقعات زندگی ، ظفر یاب قیامت اور صعود آسمانی میں پاتے تھے۔ پس وہ طبعاً ان کتابوں کےمختلف مقامات کوجو منجی جہان کے سوانح حیات کی روشنی میں معنی خيز ہوجاتے تھے آنخداوند کی جانب منسوب کرتے تھے۔ یہ مسیحی ناظرین انبیائے سابقین کے کلام کو آنخداوند کی ذات ِ بابرکات پر چسپاں کرکے اپنے ہم عصر یہود پر ثابت کرتے تھے کہ سیدنا مسیح سرورانبیاء ہے جس کی ذات میں استثنا (۱۸: ۱۵) کے الفاظ بدرجہ احسن پورے ہوتے ہیں (اعمال ۳: ۱۴تا آخر ۔ ۷باب وغیرہ) وہ نئے عہد کے درمیانی ہیں اور آسمان کی بادشاہت کے حقیقی فرماں روا ہیں ۔(متی ۲۵: ۳۱تا ۳۴۔ لوقا ۱۹: ۳۸۔ مکاشفہ ۱۷: ۱۴۔ ۱۹: ۱۶ وغيرہ)۔

اس سلسلہ میں ایک اور امر قابل ذکر ہے۔ انبیائے اکبر میں سے حضرت یسعیاہ نبی کی کتاب میں " خادم یہوواہ" کا عالی مقام تصور موجود ہے(ابواب ۴۰تا آخر) مثلاً لکھاہےکہ خداوند فرماتاہے ۔

" میرا خادم بہت سی قوموں کو پاک کرے گا۔ وہ آدمیوں میں حقیر مردِغمناک اور رنج کا آشنا تھا۔ اس کی تحقیر کی گئی اور ہم نے اس کی کچھ قدر نہ جانی توبھی اس نے ہماری مشقتیں اٹھالیں اورہمارے غموں کو برداشت کیاپرہم نے اسے خدا کا مارا کوٹا اور ستایا ہوا سمجھا۔حالانکہ وہ ہماری خطاؤں کے سبب سے گھائل کیاگیا اورہماری بدکرداری کے باعث کچلاگیا۔ ہماری ہی سلامتی کے لئے اس پر سیاست ہوئی تاکہ اس کے مارکھانے سے ہم شفاپائیں۔ ہم سب بھیڑوں کی مانند بھٹک گئے۔ ہم میں سے ہر ایک اپنی راہ کو پھرا پر خدا نے ہم سب کی بدکرداری اس پر لادی۔ وہ ستایا گیا توبھی اس نے برداشت کی اورمنہ نہ کھولا ۔ جس طرح برہ جسے ذبح کرنے کو لے جاتے ہیں اورجس طرح بھیڑ اپنے بال کترنے والوں کےسامنے بے زبان ہے اسی طرح وہ خاموش رہا۔ وہ ظلم کرکے اور فتوےٰ لگا کر اسے لے گئے پراس کے زمانہ کے لوگوں میں سے کس نے خیال کیاکہ وہ زندوں کی زمین سے کاٹ ڈالایا گیا؟ میرے لوگوں کی خطاؤں کے سبب سے اس پر مار پڑی حالانکہ اس نے کسی طرح کا ظلم نہ کیا اوراس کے منہ میں ہر گز چھل نہ تھا"(۵۳: ۳تا ۹)۔

یسعیاہ نبی کی کتاب کے آخری ۲۶باب کے مقامات اوربالخصوص مذکورہ بالا مقام کا ایک ایک فقرہ منجی عالمین کی زندگی اورصلیبی موت کی روشنی مں معنی خیز ہوجاتاہے ۔کیا یہ جائے تعجب ہے کہ خود سیدنا مسیح نے اورآپ کے رسولوں اور مبلغوں نے ان ابواب کے مقامات کا اطلاق آپ کی مبارک ذات پر کیا؟(لوقا ۴: ۱۸؛ ۲۴: ۲۵؛ ۲۲: ۲۲؛ اعمال ۲: ۲۳؛ ۸: ۳۲تا ۳۸ وغیرہ)۔

اس مسئلہ پر ایک اورپہلو سے نگا ہ کیجئے۔ انبیاء الله کی کتب میں کاہنوں کے متعلق ایسے مقامات وارد ہوئے ہیں ۔جن کو سیدنا مسیح کےرسولوں نے اپنی منجی کی زندگی اورموت کی روشنی میں پڑھ کر آپ کی ذات ِ پاک پر چسپاں کئے کیونکہ وہ آپ کے سوانح حیات کی روشنی میں پرُمعنی ہوجاتے ہیں(زکریاہ ۴: ۸؛ ۶: ۱۲؛ زبور ۱۱۰ وغیرہ)یہودی مسیحی مبلغین نے ان مقامات کے ذریعہ اپنے ہم عصر اہل یہود کو سمجھایا کہ اعلیٰ ترین کہانت کا بہترین مفہوم سیدنا مسیح اور سیدنا مسیح کی کہانت میں ہی کامل طورپر ظہورپذیر ہوا (عبرانیوں ۴: ۱۴؛ ۱۰: ۲۵) ۔علی ٰ ہذا القیاس زبور کی کتاب میں جابجا ایک قدوس ہستی کا ذکر آتاہے(زبور ۱۶: ۴۰ وغيرہ)۔ مسیحی مبلغین نے حضرت روح الله کے سوانح حیات کی روشنی میں ان مقامات کا جب مطالعہ کیا تو ان پران مقامات کا صحیح مفہوم روشن ہوگیا۔

پس انبیائے سابقین کے وہ الفاظ جن کا ذکر انجیل جلیل میں آتاہے دراصل صدیوں بعد کے کسی آنے والے شخص کے لئے خاص طور پر پیش گوئیوں کے طور پر نہیں لکھے گئے تھے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ ان الفاظ کا تعلق ان انبیاء کے زمانہ یا اس زمانہ کے نزدیک کےمستقبل کے کسی تواریخی واقعہ یا شخص کے ساتھ تھا ۔ مثلاً یسعیاہ نبی کی یہ عبارت ملاحظہ ہو۔

"خداوند نےآخز بادشاہ سے فرمایا، خداوند اپنے خدا سے کوئی نشان طلب کرلیکن آخز نےکہا میں طلب نہیں کرؤں گا اور خداوند کونہیں آزماؤں گا تب اس نے کہا اے داؤد کے خاندان اب سنو۔ کیاتمہارا انسان کو بیزار کرنا کوئی ہلکی بات ہے کہ میرے خدا کو بھی بیزار کروگے؟ لیکن خداوند آپ تم کو ایک نشان بخشے گا۔ دیکھو ایک کنواری حاملہ ہوگی اوربیٹا پیدا ہوگا اور وہ اس کا نام عمانوئیل رکھے گی۔ پر اس سے پیشتر کہ یہ لڑکا نیکی اوربدی کے ردوقبول کے قابل ہو یہ ملک جس کےدونوں بادشاہوں سے تجھ کو نفرت ہے ویران ہوجائے گا"( یسعیاہ ۷: ۱۰تا ۱۶)۔ ظاہر ہے کہ اس نبوت کا تعلق نزدیک کے مستقبل کے ساتھ ہے ۔ لیکن انجیل نویس کی نظروں میں آیت ۱۴ کے الفاظ حضرت کلمة الله کی پیدائش کی روشنی میں نہایت معنی خيز ہوگئے اوراس کو ایسا دکھائی دیا کہ گویا یہ آنخداوند کی پیدائش کا ہو بہو نقشہ ہے(متی ۱: ۲۲تا ۲۳)۔اسی طرح جب مختلف زمانہ کے انبیاء یہودی قوم اور افراد کے اخلاقی احیاء کی ضرورت جتلاتے ہیں یا بہترین بادشاہ کا تصور پیش کرتے ہیں یا خدا کے اس خادم کاذ کر کرتے ہیں جس پر قوم کے گناہوں کی خاطر سیاست ہوئی تاکہ قوم کو خلاصی حاصل ہو تو اگر چہ وہ اپنے ہی دور کے خاص حالات اور تاریخی واقعات کو مدِ نظر رکھ کر خدا کا پیغام اپنی قوم اورنسل کو پہنچاتے ہیں تاہم کتب ِ مقدسہ کے مسیحی ناظرین کے دلوں میں وہ پیغام ایسے خیالات قدرتاً پید ا کردیتے ہیں جن کی تکمیل انجیل جلیل کے اوراق میں نظر آتی ہے ۔ کیونکہ تمام انبیاء الله کی نبوت کا منتہیٰ خدا کا وہ مقصد ہے جو سیدنا مسیح میں کامل اور اکمل طورپر پورا ہوا۔

حق تو یہ ہے کہ جب آنخداوند آئے اور روح القدس نے آپ کے رسولوں کے ذہن کھولے تو ان پر ظاہر ہوگیاکہ حضرت کلمة الله کی زندگی،موت اور قیامت کےمعنی خیز واقعات اور ان کے پنہانی مطالب انبیاء ئے سابقین کے تصورات سے کہیں زیادہ بڑھ چڑھ کرتھے۔ یہ انبیاء سیدنا مسیح جیسے مسیح کی صدیوں پہلے توقع ہی نہ رکھتے تھے کیونکہ ان کےخواب وخیال میں بھی اس قسم کی حقیقی ہستی نہیں آسکتی تھی جس میں وہ تمام صفات موجود ہوں جو مختلف انبیاء مختلف زمانوں میں اپنی قوم میں دیکھنا چاہتے تھے ۔ انبیائے یہود کی پیش خبریاں منتشر تھیں اوران کا تعلق مختلف زمانوں کی مختلف ہستیوں کے ساتھ تھا۔ اگرایک نبی کسی معیاری (Ideal) بادشاہ کی نبوت کرتا ہے تو دوسرا کسی معیاری کاہن کی خبر دیتاہے۔ تیسرا ایک معیاری "خادم یہوواہ" کی خبردیتاہے جو اپنی جان دوسروں کی خاطر فدیہ کے طورپر نثار کردیتاہے۔ چوتھا ایک قدوس ہستی کی نبوت کرتاہے جس کی زندگی عالم وعالمیان کے لئے ایک معیار ہوگی وغیرہ وغیرہ ۔ یہ مختلف قسم کی پیش گوئياں کسی ایک ذات اور شخص سے منسوب نہیں تھیں۔ یہ بات کسی شخص کے خواب وخیال میں بھی نہ آئی تھی اور نہ آسکتی تھی کہ مختلف زمانوں اورمختلف قسموں کی یہ پیش گوئیاں کسی ایک ذات میں مجمع ہوسکتی ہیں۔لیکن جب رسولوں نے آنخداوند کی زندگی ، موت اور قیامت کی روشنی میں ان پر نظر کی تو ان کے ہاتھ ایک ایسی کلید آگئی جو انبیاء الله کی تمام پیش خبریوں کا واحد حل تھی ۔ چنانچہ حضرت موسیٰ ،ناتن نبی (۲۔سموئيل ۷باب) حضرت عاموس، حضرت ہوسیع، حضر ت یسعیاہ، حضرت یرمیاہ ، حضرت میکاہ ،ملاکی نبی ، حضرت دانی ایل ،(زبور ۲، ۱۶، ۲۲، ۴۰، ۶۹، ۱۰۲، ۱۱۰ )کے لکھنے والوں کی پیش خبریاں اور دیگر ملہم انبیاء کی معنی خیز پیش گوئیاں ہر پہلو سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں لیکن عیسیٰ ناصری کی ذات ِ قدسی صفات پر وہ سب کی سب بدرجہ احسن کامل واکمل طورپر صادق آتی ہیں۔ حضرت کلمة الله بادشاہ ہے لیکن سچائی کی سلطنت کا بادشاہ ہے (یوحنا ۱۸: ۳۷) ۔وہ تاجدار ہے لیکن اس کا تاج کانٹوں کا ہے(متی ۲۷: ۲۹تا ۳۸؛ لوقا ۲۳: ۴۲) ۔وہ مسیح ہے لیکن مسیح مصلوب بھی ہے (متی ۱۶: ۲۱تا ۲۶؛ مرقس ۱۰: ۳۲تا ۳۳ وغيرہ) وہ " خادم یہوواہ" ہے جو ہماری خاطر دکھ اٹھاتا ہے اوراپنی جان بہتروں کے بدلے میں فدیہ دیتاہے (متی ۲۰: ۲۸) وہ خدا ہے جو ہمارے درمیان سکونت کرتاہے(یوحنا ۱: ۱۴؛ ۱۴: ۹؛ ۱۲: ۴۵ وغیرہ) وہ کاہن ہے جو ملک ِ صدق کے طریقہ کا سردار کاہن ہے (عبرانیوں ۷تا ۱۰باب) غرضیکہ انجیل جلیل میں ایک مسیح کا نقشہ موجود ہے جس میں وہ تمام صفات ایک جگہ جمع ہیں جو بنی اسرائیل کے مختلف انبیا مختلف زمانوں اور حالتوں میں اپنے اپنے معیاری اشخاص میں دیکھنا چاہتے تھے (لوقا ۱۰: ۲۴؛ عبرانیوں ۱۱: ۱۳؛ ۱۔پطرس ۱: ۱۰تا ۱۲ وغيرہ)۔

حضرت سعدی علیہ الرحمة کا مصرعہ

ع حسنت جمیع خصالہ

سیدنا مسیح اور صرف سیدنا مسیح کی ذات ِ پاک پر چسپاں ہوسکتا ہے۔

پس حضرت کلمة الله کے رسول ، مبلغ اورانجیل نویس اس واضح حقیقت سے آنخداوند کی مسیحائی کی صداقت ثابت کرتے ہیں اوراپنے یہودی ہم عصروں کے علیٰ الاعلان (کھلے عام)کہتے ہیں " جو خداوند نے نبی کی معرفت کہا تھا پورا ہوا "(متی ۱: ۲۲ وغيرہ)۔ " سموئیل نبی سے لے کر پچھلوں تک جتنے نبیوں نے کلام کیا ان سب نے ان دنوں کی خبردی ہے۔ تم نبیوں کی اولاد اوراس عہد کے شریک ہوجو خدا نے تمہارے باپ دادا سے باندھا جب ابراہام سے کہا کہ تیری اولاد سے دنیا کے سب گھرانے برکت پائیں گے ۔ خدا نے اپنے خادم عیسیٰ کو اٹھاکر پہلے تمہارے پاس بھیجا تاکہ تم میں سے ہر ایک کو اس کی بدیوں سے پھیر کر برکت دے"(اعمال ۳: ۲۴تا ۲۶) جونبوت کا اصل مقصد اورحقیقی مفہوم ہے۔

نبوت کا مفہوم اور قرآن

گو سورگیہ مرزا جی کہہ گئے ہیں (اور مسلم علما بالعموم ان سے متفق ہیں)کہ " نبوت " اور’’ پیش گوئی" مترادف الفاظ ہیں اور کہ" اسلامی اصطلاح" میں صرف وہی شخص " نبی " کہلانے کا مستحق ہے جس پر "کھلے طورپر" اور" بکثرت " امور غیبیہ ظاہر کئے جائیں " لیکن جیسا ہم دیکھ چکے ہیں کہ کتاب ِمقدس کا مطالعہ مرزا جی کی اس تعریف کو باطل قرار دیتاہے اورآپ کے اس دعویٰ کی تکذیب کرتاہے کہ نبوت کے اس مفہوم پر " تمام نبیوں" کا اتفاق ہے" ہم دکھلا چکے ہیں کہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ حق تو یہ ہے کہ " تمام نبیوں" کو چھوڑ " کوئی ایک شخص بھی محض پیش گوئیاں کرنے کی خاطر اور صرف پیش گوئی کی بنا پر کبھی اس جلیل القدر منصب پر سرفراز نہیں کیا گیا۔

قرآن دانی کے دودرجے ہیں ۔ ایک درجہ تلاوت کا ہے جس کی نسبت قرآن میں آیا ہے "یتلون کتاب الله "۔لیکن اس سے اوپر کا درجہ قرآن کو غور اور تدبر کے ساتھ پڑھنے کا ہے (پ ۲۶۔ ع ۱۷)۔ اگرہمارے مسلمان بھائی مندرجہ بالا نظر یہ قائم کرنے سے پہلے قرآن شریف کا غور وتدبر سے مطالعہ کرلیتے تواپنے غلط رویہ کو اختیار نہ کرتے۔ قرآن کے مطابق صرف الله ہی عالم الغیب ہے (سورہ حجر ات ع ۲۔ آیت ۱۶ وغیرہ) تمام قرآن کو چھان مارو اس صفت میں تم کو الله کا کوئی شریک نہیں ملے گا چہ جائیکہ وہ محض انسان ضعیف البیان (آدم)ہو۔

قرآن مجید صاف کہتاہےکہ آنحضرت بھی انہی معنوں میں " نبی" ہیں جن معنوں میں انبیائے سابقین نبی تھے۔ چنانچہ مشتے نمونہ ازخروار(ڈھیر میں سے مٹی بھر ،چند) ہے ذیل کی چند آیات ملاحظہ ہوں۔ عربی کی عبارت کو بخوف طوالت چھوڑ دیا گیا ہے ۔

" اے محمد ہم نے تیری طرف ایسی وحی بھیجی ہے جیسی ہم نے نوح اوراس کے بعد اورنبیوں اورابراہیم اور اسماعیل اوراسحاق اور یعقوب اوراس کی اولاد اورعیسیٰ اورایوب اور یونس اورہارون اورسلیمان کی طرف بھیجی تھی اور داؤد کو ہم نے زبور کی کتاب دی۔ ان کے علاوہ کئی رسول ہیں جن کا احوال ہم نے تجھے پہلے سنایا اورکئی رسول ہیں جن کا احوال ہم نے تجھے نہیں سنایا خدا نے موسیٰ سے باتیں کی تھیں۔ بہت دیگر رسول آچکے ہیں جو بشارت دینے والے اور ڈرانے والے تھے تاکہ ان رسولوں کے بعد لوگوں کو خدا پر الزام لگانے کا موقع نہ رہے ‘‘۔

(سور ہ نساء ع ۲۳۔ آیت ۱۶۱)۔

" اے محمد ۔ تجھ سے بھی وہی کہا جاتاہے جوپہلے رسولوں سےکہا گیا تھا۔ بے شک تیرے رب کے مغفرت ہے اور دردناک عذاب بھی ہے " (سورہ حم سجد ع ۵۔ آیت ۴۲)۔

قرآن آنحضرت کی بعثت(رسالت کازمانہ،رسالت) کے مقصد کو نہایت وضاحت کے ساتھ بتلاکر کہتاہے ۔

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا

" اے نبی ۔ ہم نے تجھے گواہ اوربشارت دینے والا اورڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے اورخداکی طرف اس کے حکم سے بلانے والا ہے اور روشن چراغ ہے"(سورہ احزاب ع ۶۔ آیت ۴۴)۔

پس قرآن شریف بھی کتاب مقدس کے ہم زبان ہوکر کہتاہےکہ نبی کا کام پیش گوئیاں کرنا نہیں ہے بلکہ عامتہ الناس(لوگوں) کو راہ ِ ہدایت کی طرف دعوت دیناہے۔ لہٰذا یہ " اسلامی اصطلاح" باطل ہے کیونکہ قرآن کے خلاف ہے۔ علاوہ ازیں جب ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن باربار آنحضرت کی بابت کہتاہےکہ آپ امور غیبیہ سے ناواقف ہیں تو یہ بات اہل بصیرت پر روشن ہوجاتی ہے کہ یہ اصطلاح "اسلامی " ہو تو ہو لیکن " قرآنی" اور " محمدی" اصطلاح ہرگز نہیں ہوسکتی۔ چنانچہ چند آیات ملاحظہ ہوں۔

قُل لَّا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللَّهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ لَكُمْ إِنِّي مَلَكٌ

" تو(اےمحمد) کہہ کہ میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس خدا کے خزانے ہیں۔ میں یہ بھی نہیں کہتا کہ میں غیب دان ہوں۔ اور میں یہ نہیں کہتاکہ میں فرشتہ ہوں"(سورہ انعام ع ۵آیت ۵۰)۔

پھر تاکید وتکرار فرمایا۔

وَلَا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللَّهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ إِنِّي مَلَكٌ وَلَا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ لَن يُؤْتِيَهُمُ اللَّهُ خَيْرًا اللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا فِي أَنفُسِهِمْ إِنِّي إِذًا لَّمِنَ الظَّالِمِينَ

" میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ خدا کے خزانے میرے پاس ہیں۔ میں نہیں کہتاکہ میں غیب دان ہوں اور میں نہیں کہتا کہ میں فرشتہ ہوں اورمیں ان کے حق میں کو تمہاری آنکھیں حقارت سے دیکھتی ہیں نہیں کہتا کہ خدا ان کو کچھ بھلائی دےگا۔ جو کچھ ان کے دلوں میں ہے خدا خوب جانتا ہے ۔ لیکن اگر میں ایسا کہوں توبیشک ظالموں میں ہوں گا "(ہود آیت ۳۱۔نیز دیکھو اعراف ع ۲۳ وغیرہ)۔

قُلْ مَا كُنتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ وَمَا أَدْرِي مَا يُفْعَلُ بِي وَلَا بِكُمْ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ وَمَا أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُّبِينٌ

" تو(اے محمد) کہہ کہ میں کچھ نیا رسول نہیں ہوں۔ میں نہیں جانتاکہ میرے ساتھ کیا ہوگا اورنہیں جانتاکہ تمہارے ساتھ کیا ہوگا۔ میں تو صرف کھول کر ڈرسنانے والا ہوں"(سورہ احقاف ع آیت ۸)۔

محمد عربی کی پیش خبریاں

مندرجہ بالا صاف صریح اور واضح آیات ِ قرآنی کی عین ضد میں مفسروں، راویوں اور ارباب سیر نے حضرت محمدکی طرف متعدد پیش گوئیاں منسوب کی ہیں اور یہ ثابت کرنا چاہا ہے کہ چونکہ یہ پیش گوئیاں پوری ہوئیں اس واسطے آنحضرت صادق نبی تھے لیکن بالفاظ سرسید مرحوم ۔

’’اہل سیر نے سیر کی کتابیں تصنیف کرتے وقت راویوں کے متعبر یا غیر معتبر ہونے کا کچھ خیال نہیں کیا۔ جس کسی جو قصہ ان سے بیان کیا انہوں نے اس کو نہایت اشتیاق سے سنا۔ لیکن اس قصہ کی اصلیت اور راوی کے چال چلن کی نسبت ذرا بھی تفتیش نہیں کی اوراس قصہ کو اپنی کتاب میں لکھ لیا‘‘۔

(خطبات احمدیہ صفحہ ۳۲۰)۔

پس یہ تمام قصے مطلق قابل ِ التفات نہیں ہیں اور ان کی وقعت صفر سے بھی کم ہے کیونکہ وہ صریح قرآنی آیات کے خلاف ہیں۔ حیرت تو یہ ہے کہ موجود ہ زمانہ کے بعض مسلمان مصنف جواپنی تحقیق پر نازاں ہیں ایسے بے سروپا(بے معنی ،بے بنیاد) قصص کو اپنی کتب میں بے سوچے سمجھے جگہ دے دیتے ہیں۔مثلاً سیرة النبی مصنفہ سید سلیمان مجلد سوم وغيرہ۔

محمد عربی کی نسبت کتاب ِ مقدس میں پیش گوئیاں

چونکہ مسلمان مصنفین کے دماغوں میں یہ خبط (جنون) سمایا ہوا ہے کہ

"کسی پيغمبر کادعویٰ نبوت اس وقت تک مسلم نہیں جب تک یہ ثابت نہ ہوجائے کہ پہلے پیغمبروں نے اس کی آمد کی پیش گوئی کی ہے"۔

(سیرة النبی مجلد سوم صفحہ ۵۳۴)

لہٰذا ان کو انبیائے سابقین کی کتب کے اوراق پلٹنے پڑے تاکہ آنحضرت کی نبوت ثابت کرسکیں ۔ پس انہوں نے تورات وانجیل اور یہودی روایات میں تلاش ِ بسیار (بہت زیادہ تلاش )کے بعد وہ مقام ڈھونڈ نکالےجہاں ان کےزعم میں محمد عربی کے مبعوث ہونے کی بشارتیں موجو دہیں۔ ان مقامات کو بنظر ِ تحقیق دیکھ کر مرحوم سید لکھتے ہیں ۔

’’اگرچہ میں ان بزرگ عالموں کی کوشش اورمحنت کی نہایت قدر کرتاہوں مگر ان سب کا ذکر کرنا ضرورنہیں سمجھتا کیونکہ جو کچھ ان عالموں نے اپنی ان تھک محنت سے نکالا ہے وہ کیسا ہی مفید ہو، الانقص (مگر کوتاہی)سے خالی نہیں‘‘۔

سید مرحوم ان میں سے اکثر مقامات کو ردکرنے کے چھ سبب بتلاتے ہیں (صفحہ ۵۸۳) اورجن کو وہ مقبول کرتےہیں ان کی نسبت بھی لکھتے ہیں۔

"توریت وانجیل میں آنے والے پیغمبروں کی بشارتیں ایسی مہمل اور مجمل طورپربیان ہوئی ہیں کہ پہیلی اورمعمے کی مانند ہوگئی ہیں اورجب تک ان کی تشریح نہ کی جائے اوران کا حل نہ بتلایا جائے ان کا مطلب ہر ایک کی سمجھ میں نہیں آسکتا"

(صفحہ ۵۸۵)۔

بعض بشارتیں جن کو سرسید قبول کرتے ہیں ایسی مضحکہ خیز ہیں کہ ہمیں یقین ہے کہ اگر سید مرحوم جیسے محقق عبرانی زبان سے خود واقف ہوتے تو ان کو بے تامل رد کردیتے۔ ان کا جواب مرحوم پادری ٹامس ہاول صاحب نے رسالہ" بائبل میں محمد" میں دیا ہے۔ اس معاملہ میں سید مرحوم نے " جناب مولانا بالفضل اولیناجناب مولوی عنایت رسول صاحب چڑیا کوٹی" کی کورانہ تقلید کی ہے۔ کیونکہ مرحوم کے خیال میں یہ مولوی صاحب "عبرانی زبان اور توریت مقدس کے بہت بڑے عالم" تھے

(صفحہ ۶۰۵)

حالانکہ یہ صاحب (جیسا ہم انشاء الله آگے چل کر دکھلادیں گے)عبرانی سے محض کورے تھے۔ سرسیدمرحوم کے بعد کے مسلمان مصنفین نے سرسید کی اندھا دھند پیروی کی ہے۔ اور قادیانی مناظر تو کاسہ لیسی(خوشامدی،لالچی) کے لئے چاردانگ(چاروں طرف) عالم میں مشہور ہیں۔

قرآن کے سورہ اعراف میں ہے

الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ

" جولوگ اس رسول نبی امی کے تابع ہوتے ہیں جس کو وہ اپنے یہاں توریت اورانجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں "(ع ۱۹۔ آیت ۱۵۶)

سورہ صف میں ہے

" جب عیسیٰ ابن مریم نے کہا اے بنی اسرائیل میں تمہاری طرف الله کا رسول ہوکر آیا ہوں میں اس توریت کا جو مجھ سےآگے ہے مصدق ہوں اورایک رسول کی بشارت دیتا ہوں جو میرے بعد آئے گا۔ اس کا نام احمد ہوگا "(آیت ۶)

ان دوآیات کی بناء پر اہل اسلام (جیسا ہم اوپر کہہ چکے ہیں ) شروع ہی سے تورات وانجیل کی عبث ورق گردانی کرتے رہے تاکہ کسی نہ کسی طرح ان مقامات کا پتہ لگائیں جہاں محمد عربی کی بشارت ہے۔ان میں سے متعدد مقامات کو سرسید جیسے محقق نے مختلف وجوہ کے باعث ردکردیاہے۔ ان مسلمان علماء کو قرآن میں یہ توملا کہ کسی آنے والے احمد کا ذکر توریت وانجیل میں ہے۔ لیکن قرآن سےان کو یہ پتہ نہ چلاکہ " نبی امی" اور"احمد" کا ذکر ان کتابوں کے کن مقاموں میں پایا جاتاہے۔

انجیل کی آیت

بالآخر مسلمان مناظرین کے ہاتھ دومقام آئے جن کی نسبت ان کو یقین ہے کہ وہ " ایسی صاف صاف بشارتیں ہیں جن میں کچھ شبہ نہیں ہوسکتا"۔چنانچہ پہلا مقام انجیل یوحنا کے چودھویں باب کی ۲۵ویں اور ۲۶ویں آیات میں ہے جہاں یونانی لفظ "پیراکلی توس" آیاہے جس کے معنی ہیں"تسلی دینے والا "۔ یہ مسلم علماء یونانی زبان سے ناواقف تھے۔ انہوں نے سن لیاکہ ایک یونانی لفظ ہے" پیری کلوتوس" جس کے معنی " مشہور یا معروف" ہیں۔ لیکن بخیالی ایشا ں اس کا ترجمہ عربی زبان میں ٹھیک ٹھیک لفظ " احمد " ہے (صفحہ ۶۳۹)۔ اوران کے زعم میں بلاشبہ اس بات کا ثبوت ہے کہ انجیل میں اصل لفظ" پیراکلی توس" نہیں تھا بلکہ" پیری کلوتوس" تھا۔ مسیحی مصنفین نے ہزارسمجھا یاکہ دونوں لفظوں میں اوران کے معنوں میں بعدالمشرقین ہے جن کا " نبی امی " اور" احمد" سےکسی قسم کا تعلق نہیں ۔ چہ جائیکہ وہ " محمد" کی بشارت ہو لیکن

ع دیوانہ راہوئے بس است۔

سرسید بجاکہہ گئے ہیں کہ

" توریت وانجیل میں آنے والے پیغمبر کی بشارتیں ایسی مہمل اور مجمل طور سے بیان ہوئی ہیں کہ پہیلی اورمعمے کی مانند ہوگئی ہیں"۔

حق بات تو یہ ہے کہ ہمارے مسلم علماء پہلے تو میدان مناظرہ کی راہ خاک چھان کر فضا کو اپنے مفروضہ قضایا سے غبارآلودکردیتے ہیں اورپھر خودہی شکایت کرتے ہیں کہ ان کو کچھ سجھائی نہیں دیتا! لیکن اصل حقیقت یہی ہے کہ اس مقام میں کسی آنے والے نبی کی بشارت سرے سے موجود ہی نہیں۔

قرآنی آیت کی قادیانی تاویل

مسلم مناظرین کی یہ پیش کردہ بشارت ایسی "پہیلی اورمعمہ" ہے کہ ایک طرف توبحوالہ ترمذی فتح الباری یہ دعویٰ کیا جاتاہے کہ حضرت رسول عربی اس آیت کے مصداق ہیں اور دوسری طرف آنجہانی مرزائے قادیانی اوران کے حواری یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ "اسمہ احمد" کی پیش گوئی مرزا غلام احمد اور صرف مرزا غلام احمد کے حق میں ہے اور کہ وہ کسی دوسرے (یعنی بانی اسلام) کے حق میں ہر گز نہیں، چنانچہ سورگیہ مرزا جی حقیقت (النبوة صفحہ ۲۶۵، ۲۶۶) میں کہتے ہیں ’’خدا نے آج سے بیس (۲۰)برس پہلے براہین احمد یہ میں میرا نام محمد اور احمد رکھا ہے آپ کا یہ شعر بھی مشہور ہے۔

منم مسیح زماں ومنم کلیم خدا

منجم محمد واحمد کے مجتبیٰ باشد

(تریاق القلوب صفحہ ۳)

اور سنیے:۔

"اشتہار " ایک غلطی کا ازالہ میں ہے" کہ

محمد الرسول الله والذین معہ اشداء علی الکفار رحماء بینھمہ

کے الہٰام میں محمد رسول الله سے مراد میں ہوں اورمحمد رسول الله خدا نے مجھے کہا ہے۔

اب اس الہٰام میں سے دوباتیں ثابت ہوتی ہیں :

(۱۔) یہ کہ آپ محمد ہیں اورآپ کا محمد ہونا بلحاظ رسول الله ہونے کے ہے نہ کسی اور لحاظ سے (۲۔) آپ کے صحابہ آپ کی حیثیت سے محمد رسول الله کے ہی صحابہ ہیں جو اشد علی الکفار اور رحماء بینھمہ کی صفت کے مصداق ہیں"

(الفضل قادیان جلد ۲ جلد نمبر ۱۰۔ ۱۵جولائی ۱۹۱۵ء)۔

مرزا جی مرحوم کے خلیفہ میاں محمود احمد صاف صاف الفاظ میں کہتے ہیں ۔

" اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ وہ کون رسول ہے جو حضرت عیسیٰ کے بعدآیا اورجس کا نام ’’احمد‘‘ ہے۔میرا اپنا دعویٰ ہے اورمیں نے یہ دعویٰ یونہی نہیں کردیا۔ بلکہ حضرت مسیح موعود کی کتابوں میں اسی طرح لکھا ہوا ہے اورحضرت خلیفة المسیح اوّل نے بھی یہ ہی فرمایا ہے کہ مرزا صاحب احمد ہیں ۔چنانچہ ان کے درسوں کےنوٹوں میں بھی چھپا ہوا ہےاور میر ا ایمان ہے کہ اس آیت ( اسمہ احمد) کے مصداق حضرت مسیح موعود ہی ہیں"۔

(انوارِ خلافت صفحہ ۲۱)۔

" جب اس آیت (اسمہ احمد) میں ایک رسول کا جس کا اہم ذات احمد ہے ذکر ہے دوکا نہیں اور اس شخص کا یقین ہم حضرت مسیح موعود پر کرتے ہیں کہ تو اس سے خود نتیجہ نکل آیا کہ کوئی دوسرا اس کا مصداق نہیں۔ اورجب ہم یہ ثابت کردیں کہ حضرت مسیح موعود اس پپش گوئی کے مصداق ہیں تویہ بھی ثابت ہوگیا کہ دوسرا کوئی شخص (یعنی محمد عربی) اس کا مصداق نہیں ہے "۔

(اخبار الفضل قادیان ۲، ۵ دسمبر ۱۹۱۶ء)۔

جس طرح مسیحی علماء مسلم مناظرین کو یہ کہتے ہیں کہ آنحضرت کا نام تو " محمد" تھالیکن یہاں بقول شماکسی" احمد" کی پیش گوئی ہے اسی طرح جب کسی بھلے مانس مسلمان نے قادیانیوں سے یہ سوال کیاکہ مرزا جی کا نام تو " غلام احمد" تھالیکن قرآن میں " احمد" ہے تو اس سوال کا یہ الہٰامی جواب ملتا ہے۔

" آپ کا یہ سوال ہے کہ اسمہ احمد میں بشارت تواحمد کی ہے اور مرزا صاحب غلام احمد ہیں۔ جواباً عرض ہے کہ مطلق غلام احمد نہ عربی ہے کیونکہ اس حالت میں غلامُ احمد ہوتا اور نہ یہ نام فارسی بن سکتا ہے کیونکہ غلامِ احمد ہوتا اوریہ یہ نام اُردو ہوسکتاہے کہ کیونکہ اس صورت میں احمد کاغلام ہونا چاہیے تھا۔ اصل بات یہ ہے کہ چونکہ حضرت صاحب کے خاندان میں غلام کا لفظ اصل نام کے ساتھ اضافہ کے طورپر اس ملک کےرواج کے مطابق چلا آتا تھا اس واسطے آپ کے نام کے ساتھ بھی لگادیاگیا ۔ احادیث میں آیا ہے کہ مسیح جوان ہوگا اور غلام کے معنی جوان کے ہیں جس سے یہ بتایا گیا کہ اس کے کام جوانوں کے سے ہیں "

(الفضل قادیان جلد ۳ نمبر ۱۰۷۔ مورخہ ۲۸اپریل ۱۹۱۶ء)۔

ان لغویات سے ارباب ِ دانش کی نظروں میں سرسید احمد کا مقولہ بالکل درست ثابت ہوتاہے کہ

" توریت وانجیل میں آنے والے پیغمبر کی بشارتیں مہمل اور مجمل ہیں اور پہیلی اور معمے کی مانند ہیں"۔ اس کا اصلی اور حقیقی سبب صرف یہ ہے کہ وہ سرے سے اس قسم کی بشارتیں ہیں ہی نہیں۔

تورات کی آیت

دوسری بشارت جس کو سرسید مرحوم " صاف اور مستحکم" کہتے ہیں کہ )استثنا ۱۸: ۱۵ (سے پیش کی جاتی ہے۔ اس پر ہم اگلے ابواب میں مفصل بحث کرکے انشاء الله ثابت کردیں گے کہ اس میں بھی کسی ایک خاص آنے والے شخص کی پیش گوئی موجود نہیں ہے ۔

دنیا بھر کے مسلم علماء کی گذشتہ چودہ(۱۴) صدیوں کی کاوش کے باوجود ان کو تمام کتاب مقدس میں سے کوئی ایسا " صاف اور مستحکم" مقام نہ مل سکا جو"پہیلی اورمعمے کی مانند مہمل" نہ ہو اورجس میں صدیوں بعد کے کسی آنے والے شخص کی واضح طورپر پیش گوئی گئی ہو۔ کیا یہ امر ان کے اس مفروضہ کو باطل ثابت کرنے کے لئے کافی نہیں ہے کہ

" کسی پیغمبر کا دعوائے نبوت اس وقت تک مسلم نہیں جب تک یہ ثابت نہ ہوجائے کہ پہلے پیغمبروں نے اس کی آمد کی پیش گوئی کیہے"

(سیرة النبی مجلد سوم صفحہ ۵۳۴)

اورکہ

" خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک کلام پاکر جو غیب پر مشتمل زبردست پیش گوئیاں مخلوق کوپہنچانے والا اسلامی اصطلاح میں نبی کہلاتا ہے"

(حجتہ الله صفحہ ۲)

ہم دکھلا چکے ہیں کہ خود قرآنی آیات اس مفہوم کو باطل اور مردود(لعنتی) قرار دیتی ہیں۔

روشن خیال مسلمان اور مفہوم نبوت

موجودہ زمانہ کے روشن خیال تعلیم یافتہ مسلمان اس قسم کے غیر قرآنی خیالات کے معتقد نہیں۔ چنانچہ چودہری غلام احمد صاحب پرویز اس طبقہ کے خیالات کی یوں ترجمانی کرتے ہیں ۔

" آج کل کے معقولیت پسندوں کی جماعت کے نزدیک رسول کا تصور یہ ہے کہ وہ ایک سیاسی لیڈر او رمصلح قوم ہوتاہے جو اپنی قوم کی نکیت(بد حالی ،افلاس) اور زبون حال سے متاثر ہوکر ان کو افلاح وبہبود کی طرف بلاتا ہےا ور تھوڑے ہی دنوں میں ان کے اندر انضباط(مضبوطی ، ڈھنگ) وایثار کی روح پھونک کر زمین کےبہترین خطوں کا ان کو مالک بنادیتاہے۔ اس کی حقیقت قوم کے ایک امیر قسم کے ہوتی ہے جن کے ہر حکم کااتباع (اطاعت،پیروی)لازمی ہوتا ہے کیونکہ انحراف (انکار)سے قوم کی اجتماعی قوت میں انتشار پیدا ہوجانے کا خطرہ ہوتاہے۔ اس کا حسن تدبیر ، عقل، حکمت ،ذہن انسان کے ارتقاع کی بہترین کڑی ہوتاہے۔ لیکن اس کی حقیقت دنیاوی مصلحین اور بدترین سے بالکل جداگانہ ہوتی ہے جو اپنے ماحول کی پیداوار ہوتے ہیں ان کا فلسفہ ء اصلاح وبہبود ان کے اپنی پرواز ِ فکر کا نتیجہ ہوتاہے۔ جو کبھی صحیح اورکبھی غلط ہوتاہے۔ برعکس اس کے انبیائے کرام مامور من الله ہوتے ہیں اور ان کا سلسلہ اس دنیا میں خاص مشیت باری تعالیٰ کے ماتحت چلتاہے۔ ان کا انتخاب مملکت ایزدی سے ہوتاہے اور ان کا سرچشمہ علوم وہدایت باری تعالیٰ سے ہوتاہے ۔ دنیاوی سیاست وتفکر صفت ہے جو اکتساباً حاصل ہوتی ہے اور مشق ومہارت سے یہ ملکہ بڑھتاہے۔ لیکن نبوت ایک موہبت(بخشش، پیش کش) ربانی اور عطا ئے یزدانی ہے جس میں کسب اور مشق کودخل نہیں۔ قوم وامت کی ترقی ان کے بھی پیش نظر ہوتی ہے۔ لیکن سب سے مقدم اخلاق انسانی کی اصلاح مقصود ہوتی ہے۔ اس کا پیغام زمان ومکان کی قیود سے بالاتر ہوتاہے۔ اس کی اطاعت میں خدا کی اطاعت اورا س کی معصیت خداکی معصیت ہے۔ ان کو خداکا پیغام ملتاہے جو اگرچہ عالم امر سے متعلق ہونے کی وجہ سے سرحد ادراک انسانی سے بالا تر ہے لیکن اس کا وجود محض انسان کی ملکوتی(فرشتوں جیسی) قوتیں نہیں ہوتیں "

( ماخوذ از مقدمہ بہاول پور صفحہ ۷۷تا ۷۹)۔

ناظرین پر ظاہر ہوگیا ہوگاکہ یہ خیالات گو" اسلامی اصطلاح" سے کوسوں دورہیں لیکن وہ کتاب ِ مقدس اور قرآن شریف کے تصورِ نبوت کے زیادہ نزدیک ہیں۔ نبوت کا یہ مفہوم کٹھ ملانوں کےقیاس اورظن پرمبنی نہیں ہے بلکہ حقیقت اورامر واقعہ اورانبیائے کرام کے حالات وپیغامات اور منصبی فرائض کی محکم بنیادوں پر قائم ہے۔

نتیجہ

اب جو یہ ثابت ہوگیاکہ انبیاء الله کا کام صرف یہ تھا کہ وہ اپنی قوم کے لوگوں کو خدا کی طرف دعوت دیں اورکہ صدیوں بعد کے آنے والے اشخاص اور واقعات کی نسبت پیش گوئیاں کرنا ان کے فرائض منصبی میں داخل نہ تھا۔ ہم کو امید ہے کہ ہر صاحب ِ عقل پر یہ روشن ہوگیاہوگاکہ کوئی ایسی دلیل قابل ِ قبول نہیں ہوسکتی جس کا مقصد یہ ثابت کرنا ہوکہ فلاں نبی نے بذریعہ الہٰام وحی ایک ایسے شخص یا واقعہ کی خبردی ہے جواس کے صدیوں بعد ظہور پذیر ہوا۔ اس قسم کی دلیل باطل ہوگی کیونکہ اولاً وہ مقصد ِ نبوت کے سراسر خلاف ہے اور ثانیاً ونبوت کے الفاظ کی ایسی من گھڑت اورناقابل قبول تاویل پر مبنی ہوگی جو صحیح اصول تفسیر کے منافی اور قائل کے اصل منشاء اور مطلب کے خلاف ہے۔

انشاء الله اگلے باب میں ہم ثابت کردیں گے کہ جو مسلمان برادران (استثنا ۱۸: ۱۵ )کو حضرت محمد عربی کی نبوت کے ثبوت میں پیش کرتے ہیں وہ نہ صرف نبوت کے اصل مفہوم اور مقصد کے خلاف دلیل پیش کرتے ہیں بلکہ اس آیہ شریفہ پرجبر کرکے اس سے وہ کہلوانا چاہتے ہیں جو حضرت موسیٰ کے خواب وخیال میں بھی نہ تھا۔ان کی غیر فطرتی تاویل میں سیاق وسباق عبارت کا پاس ِ لحاظ نہیں اوران کی تفسیر کتاب مقدس کے الفاظ ومحاورات کے صریح خلاف ہونےکےعلاوہ آیت کے اصل منشاء کےکلیتہً منافی ہے اورنبوت کے صحیح مفہوم کےعین ضد ہے۔

باب دوم

"بشارت ِ موسوی " کی حقیقت

مسلمانوں کا دعویٰ

مولوی غلام نبی صاحب تورات شریف کی کتاب استثنا کے ۱۸ویں باب کی ۱۵ویں اور ۱۸ویں آیت کو نقل کرکے کہتے ہیں۔

" ا ب سوائے اس کے جو براہ ِ تعصب اس صاف اور روشن بشارت سے آنکھ بند کرلے کون کہہ سکتا ہے کہ یہ بشارت حضرت محمد کے حق میں نہیں "

(صفحہ ۱۴)

سرسید مرحوم بھی کہتے ہیں ۔

"ان آیتوں میں محمد رسول ﷺ کے مبعوث ہونے کی ایسی صاف اور مستحکم بشارت ہے جس سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا "

(صفحہ ۵۹۹)

سید سلیمان ندوی بھی فرماتے ہیں کہ

"ان آیتوں میں وہ موعودہ نبی آنحضرت ﷺ ہی تھے"

( سیرة النبی جلد سوم صفحہ ۵۶۲)

جماعت احمدیہ کے مفتی محمد صادق صاحب بھی کہتے ہیں

" یہ پیش گوئی ہر پہلو سے محمد ﷺ پر پوری ہوئی اور آپ کےسوائے کسی دوسرے شخص کے حق میں اس کا پورا ہونا ثابت نہیں ہوسکتا"۔

(بائبل کی بشارات صفحہ ۷)

تنقیح طلب امور

ہم ناظرین کی خاطر کتاب استثنا کے ۱۸ویں باب کی متعلقہ آیات کا اقتباس کردیتے ہیں تاکہ ناظرین عبارت کے سیاق وسباق کو دیکھ کر اوراس کا مفہوم بخوبی سمجھ کر معلوم کرسکیں کہ:

(۱) آیا ان آیات میں کوئی بشارت موجو دہے؟

(۲)اگرکوئی بشارت موجود ہے تو کیا وہ کسی خاص ایک نبی کے لئے ہے جو ہزاروں برس بعد آنے والا تھا؟

(۳)اگراس بشارت کا تعلق کسی ایک نبی کےساتھ ہے توکیا وہ " موعود نبی " حضرت محمد ہے؟

فصل اوّل

سیاق ِ عبارت

آیات کی نقل

اس زیر بحث مقام میں جو حضرت موسیٰ بنی اسرائيل کو خطاب کرکے اپنی وصیت کے دوران (ابواب ۵تا ۳۱) میں فرماتے ہیں (استثنا۱۸باب آیات ۹تا ۱۹)

" جب تو (اے قوم بنی اسرائیل ) اس ملک (کنعان) میں جو خدواند تیرا خدا تجھ کو دیتا ہے داخل ہو تو وہاں کی قوموں کے سے مکروہ کام کرنے نہ سیکھنا "۔ یعنی جب خداوند تیرا خدا تیرے سامنے سے ان قوموں کو اس جگہ جہاں تو ان کا وارث ہونےکےلئے جارہا ہے کاٹ ڈالے اور توان کا وارث ہوکر ان کے ملک میں بس جائے تو تُو خبردار رہنا تاایسا نہ ہو کہ جب وہ تیرے آگے سے نابود ہوجائیں تو تُو اس پھندے میں پھنس جائے کہ ان کی پیروی کرے اور ان کےدیوتاؤں کے بار ےمیں یہ دریافت کرکے کہ یہ قومیں کس طرح اپنے دیوتاؤں کی پوجا کرتی ہیں میں بھی ویسا ہی کرؤں گا"(استثنا ۱۲: ۲۹، ۳۰آیت )۔

"تجھ میں (اے بنی اسرائیل) ہرگز کوئی ایسا نہ ہو جو اپنے بیٹے یا بیٹی کو آگ میں جلوائے" ۔"یعنی " تو اپنی اولاد میں سے کسی کو مولک (دیوتا) کی خاطر آگ میں سے گذارنے کے لئے نہ دینا اور (یوں) اپنے خدا کے نام کو ناپاک نہ ٹھہرانا "(احبار ۱۸: ۲۱۔ نیز دیکھو ۲۔سلاطین ۱۶: ۳؛ ۲۱: ۶؛ ۲۳: ۱۰؛ یرمیاہ ۳۲: ۳۵؛ حزقی ایل ۲۰: ۲۶تا ۳۱؛ ۲۳: ۳۷ وغيرہ)۔

" تجھ میں ہر گز کوئی شخص ایسا نہ ہوجو فالگیر یا شگون نکالنے والا یا افسون گریا جادوگر یا منتر پڑھنے والا یا جنات کا آشنا یا رمال یا ارواح کا تسخیر کرنے والا ہو(دیکھو ۲۔سلاطین ۱۷: ۱۷؛ احبار ۱۹: ۲۶تا ۳۱؛ خروج ۲۲: ۱۸؛ ۱۔سموئیل ۲۸: ۷ )کیونکہ وہ سب جو ایسے کام کرتے ہیں خداوند کے نزدیک مکروہ ہیں اورانہی مکروہات کے سبب سے خداوند تیرا خدا ان کو تیرے سامنے سے نکالتا ہے ۔تو خداوند اپنےخدا کے حضور کامل ہو۔ وہ قومیں جن کا تووارث ہوگا شگون نکالنے والوں اور فالگیروں کی سنتی ہیں پر تجھ کو (اے بنی اسرائيل ) خداوند تیرا خدا نے ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی بلکہ خدا وند تیرا خدا تیرے ہی درمیان سے تیرے ہی بھائیوں میں سے میری مانند نبی برپا کرتا رہے گا تم اس کی سننا۔

" ( اے بنی اسرائيل) میں (خداوند) یہ بات تیری اس درخواست کے مطابق کرؤں گا جوتونے خداوند اپنے خدا سے مجمع کےدن حورب میں کی تھی (دیکھو۹: ۱۰) کہ مجھ کو نہ تو خداوند اپنے خدا کی آواز پھر سننی پڑے اورنہ ایسی بڑی آگ ہی کا نظارہ ہو کہ مر نہ جاؤں (دیکھو خروج ۲۰: ۱۸تا ۱۹) اور خداوند نے مجھ (موسیٰ) سے کہاکہ وہ جو کچھ کہتے ہیں سوٹھیک کہتے ہیں۔ پس میں (خداوند) ان کے لئے ان ہی کے بھائیوں میں سے (اے موسیٰ) تیری مانند نبی برپا کرتارہوں گا اوراپناکلام اس کے منہ میں ڈالاکرؤں گا (دیکھو یرمیاہ ۱: ۹) اورجوکچھ میں اس (نبی) کو حکم دوں گا وہی وہ ان سے کہے گا اورجو کوئی میری ان باتوں کوجن کو وہ میرا نام لے کرکہے گا نہ سنے تو میں اس سے حساب لوں گا(دیکھو یرمیاہ ۲۹: ۱۹)۔

"لیکن جو نبی گستاخ بن کر کوئی ایسی بات میرے نام سے کہے جس کے کہنے کا میں نے اس کو حکم نہیں دیا اور معبودوں (دیوتاؤں کے نام سے کچھ کہے تو وہ قتل کیا جائے " کیونکہ" اس نے تم کو خداوند تمہارے خدا سے بغاوت کرنے کی ترغیب دی تاکہ تجھ کو اس راہ سے جس پر خداوند تیرے خدا نے تجھ کو چلنے کا حکم دیا ہے بہکائے ۔ یوں تو اپنے بیچ میں سے ایسی بدی کو دور کردینا"(استثنا ۱۳: ۵)۔

ہم نے مندرجہ بالا آیات (استثنا ۱۸: ۹تا ۲۰) میں اس مقام پر بحث کی تمام عبارت کو نقل کرکے کتاب ِ مقدس کے دیگر مقامات کےحوالے اوراقتباسات لکھ دئیے ہیں تاکہ ان کےذریعہ ناظرین پر اس عبارت کی تمام آیات کا اصل مطلب سیاق وسباق کی روشنی میں ظاہر ہوجائے۔

آیات کی تفسیر

اس تمام عبارت میں آیات ۱۳تا ۱۵ میں وہ بنیادی نکتہ پایا جاتاہے جواس مقام کےسمجھنے کی اصل کنجی ہے جس میں مشرک فالگیروں اور خدا کے نبیوں کا ذکر ہے۔

اہل ِ یہود کی ہمسایہ اقوام مشرک اور بت پرست اقوام تھیں۔ انہی کے ساتھ بنی اسرائیل کا روزانہ سابقہ پڑتا تھا۔ جب کبھی یہ اقوام اپنے دیوتاؤں کی مرضی معلوم کرنا چاہتی تھیں وہ نجومیوں ، غیب بینوں، فالگیروں وغيرہ کی طرف رجوع کیا کرتی تھیں ۔مثلاً بابل کی قوم میں غیب دانی کا علم عروج پر تھا اورایسا غالب تھا کہ ان کی قومی زندگی کے ہر شعبہ پر حاوی ہوگیا تھا۔ چنانچہ شگونوں کی تعبیر فنونِ لطیفہ میں شمار کیاجاتا تھا۔ ہر قسم کے جادو اور سحر کارواج عام ہوگیا تھا اور غیب بین ہر جگہ نظر آتے تھے ۔ تمام مشرقی ممالک کے کونہ کونہ میں کلدی نسل کے جوتشی، رمال ، اور فالگیر مشہور تھے جن کا پیشہ شگونوں کی تاویل کرنا تھا۔

ان مشرکانہ مذاہب کے عقائد باطلہ کے برعکس بنی اسرائيل کا معبود ایک واحد خدائے قدوس تھا جو اپنے پرستاروں سے پاکیزگی ، حق ، انصاف اوررحم وغیرہ کا مطالبہ کرتا تھا۔ مشرک اقوام کےدیوی دیوتاؤں میں نہ تو یہ صفات پائی جاتی تھیں اورنہ وہ اپنے پرستاروں سے اس قسم کے اوصاف حمیدہ کا مطالبہ کرتے تھے۔

مذکورہ بالاآیات میں بنی اسرائیل کو خدا کی مرضی معلوم کرنے کے لئے ایسے لوگوں کی جانب رجوع کرنے کی قطعی ممانعت کی گئی ہے جو غیر الله کے پرستار اورمشرکانہ مذاہب سے تعلق رکھ کر پیشہ ورفالگیر ، رمال ، شگونوں کی تعبیر کرنے والے ، جادوگر، منتر پڑھنے والے، جنات کے آشنا یا ارواح کے تسخیر کرنے والے تھے۔ اس مقام میں اس مشرکانہ طائفہ کی سب کی سب نواقسام کا ذکر کیاگیا ہے اور انفرادی اوراجتماعی طورپر ہر قسم کی قطعی ممانعت کردی گئی ہے۔ اس ممانعت میں کوئی پہلو نہیں چھوڑا گیا تاکہ کسی قسم کے گریز کی گنجائش نہ رہے۔ خدا حضرت موسیٰ کی معرفت بنی اسرائيل کو حکم دیتا ہے کہ ’’ اے بنی اسرائيل تو اس قسم کے مکروہ کام نہ سیکھنا۔ تجھ میں کوئی شخص اپنے بیٹے یا بیٹی کو مشرک بت پرستوں کی طرح آگ میں قربان نہ کرے اورنہ تیری قوم فالگیروں اور شگون نکالنے والوں کے پاس مستقبل کو معلوم کرنے کے لئے جانے ۔ اے بنی اسرائیل ایسے لوگوں کی طرف رجوع کرنے کی بجائے تم اپنے خدا کی مرضی معلوم کرنے کے لئے میرے انبیاء کی طرف رجوع کیا کرنا ۔ جن کو میں تمہاری درخواست کے مطابق تمہارے لئے تمہارے ہی درمیان سےہر زمانہ میں حسب ضرورت وقتاً فوقتاً برپا کرتا رہوں گا جس طرح میں نے موسیٰ کو برپا کیا ہے۔ تمہاری عرض کے مطابق اب میں تم سے سیدھا براہِ راست مخاطب نہ ہوا کرؤں گا۔ بلکہ میں اپنا کلام اپنے انبیاء کے منہ میں ڈالوں گا اور اپنی مرضی اوراحکام کو ان کی معرفت تم تک پہنچایا کروں گا۔ تمہارا یہ فرض ہوگاکہ تم مشرک فالگیروں وغیرہ کی بجائے ان مامور من الله (اللہ کی طرف سے مقررکیا ہوا) نبیوں کی سنو اور اگر کوئی ان احکام کی خلاف ورزی کرے گا تو اس سے مواخذہ (جواب طلبی)ہوگا۔ بنی اسرائيل کے انبیاء کا بھی یہ فرض ہوگا کہ وہ قوم کو صرف وہی بات پہنچائیں جس کا میں نے حکم دیا ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص مامور من الله نبی ہونے کا دعویٰ کرے اور قوم کوایسے احکام پہنچائے جو خداوند تمہارے خدا کی ذات وصفات کے منافی ہوں جس سے تم صراط مستقیم(سیدھا راستہ) سے بہک کر اپنے خدائے وحدہ لاشریک کو ترک کر دوتو یہ جان لو کہ وہ شخص جھوٹا نبی ہے۔ لہٰذا وہ واجب القتل ہے کیونکہ وہ میری برگزیدہ قوم کو مجھ سے بغاوت اختیار کرنے کی ترغیب دیتاہے۔

ان آیات میں انبیاء الله کے اختیار ، سند، منصب ،عہدہ اور اقتدارکا ذکر ہے۔ اس مقام میں جومنصب نبی کو ملا ہے وہ قابل ِ غور ہے۔ یہاں بنی اسرائيل میں نبی کو وہی درجہ حاصل ہے جو مشرکانہ اقوا م میں فالگیروں، افسون گروں وغيرہ کو حاصل تھا۔ انسان کی فطرت میں طبعاً یہ خواہش موجود ہے کہ زمانہ مستقبل کے پس پردہ رازوں سے واقف ہو۔ بالخصوص مصیبت کے ایام میں یہ خواہش ایک نہایت زبردست تقاضے کی صورت اختیار کرلیتی ہے (مثلاً دیکھو ۱۔سموئيل ۲۸باب ) اس طبعی تقاضا کو پورا کرنے کے لئے مشرکانہ اقوام میں ریال،نجومی اور فالگیر وغیرہ کا طائفہ موجود تھا لیکن خدا نے بنی اسرائیل کو قطعی ممانعت کرکے یہ حکم دیاکہ اس مشرک اور بت پرست طائفہ(گروہ،قوم) سے کسی قسم کا تعلق نہ رکھیں کیونکہ خدا اس طائفہ کی بجائے ان کی قوم میں نبیوں کا سلسلہ برپا کرتا رہے گا جس طرح ا س نے حضرت موسیٰ کو برپا کیا تھا۔ نبی ہر زمانہ میں حسب ضرورت خداکی مرضی ظاہر کیا کرے گا ۔ اورمصیبت کے زمانہ میں قوم کا راہنما ہوا کرے گا۔ خدا خود بنی اسرائیل کے اس فطرتی اورطبعی تقاضے کو بہترین ، موزوں ترین اور اعلیٰ ترین روحانی مسائل سے پورا کرے گا (گنتی ۲۳: ۲۲، ۲۳) کیونکہ وہ اپنا کلام نبی کے منہ میں ڈالے گا۔

پس ان آیات سے ظاہر ہے کہ بنی اسرائيل میں نبوت کا سلسلہ اس مقصد کے لئے قائم ہوا تاکہ بنی اسرائیل میں مشرکانہ رسوم وغیرہ کی قطعی طورپر روک تھام ہوجائے اور خدا کی یہ برگزیدہ قوم ہمیشہ کے لئے بُت پرست اقوام سے ہرامر میں الگ تھلگ رہے۔

کیا ان آیات میں بشارت موجود ہے ؟

ہم نے شرح وبسط(وضاحت) کےساتھ کتاب ِ مقدس کی آیات کی روشنی میں زیر بحث مقام کی تفسیر کردی ہے۔ ناظرین پر اب ظاہرہوگیا ہوگاکہ تورات شریف کے اس مقام میں خدا کی طرف سے نہ تو کوئی بشارت موجود ہے اور نہ حضرت موسیٰ کے ہزاروں برس بعد آنے والے کسی خاص ایک نبی کی پیش گوئی موجو دہے۔ بلکہ ان آیات میں خدا کا ایک امتناعی(روکنے والا) حکم ہے کہ قوم بنی اسرائيل مشرکانہ مکروہات سے قطعی پرہیز کرے۔ اوریہ حکم ہے وہ مشرک فالگیروں کی بجائے مامو ر من الله انبیاء کی طرف رجوع کیا کرے جن کو وہ برپا کیا کرےگا جس طرح اس نے حضرت موسیٰ کو برپا کیا تھا ۔ یہ انبیاء بت پرست فالگیروں کے سے طریقے اختیار نہیں کریں گے بلکہ خدائے برحق کے پیامبر ہوں گے۔ اس کے ساتھ ہی قوم اسرائيل اورانبیاء دونوں کے لئے تعذیب (دکھ دینا)ہے کہ اگر وہ اپنے اپنے فرائض سے غافل ہوجائیں گے تو سزا پائیں گے ۔ بنی اسرائيل سرزمین ِ کنعان سے جو ان کا موعود ہ ملک ہے (آیت ۹) جلاوطن ہوکر دربدر مارے پھریں گے (یرمیاہ ۱۶ : ۱۰تا ۱۳۔ ۱۹باب وغیرہ)اورکاذب نبی قتل کئے جائیں گے۔

قرآن مجید مذکورہ بالا آیات کا مفہوم بایں اس الفاظ ادا کرتاہے ۔

" موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اے قوم خدا کی وہ نعمت جو تم پر ہے یاد کرو۔ اس نے تم میں نبی پید ا کئے اورتم کو بادشاہ بنایا اورتم کو وہ کچھ دیا جو جہان میں کسی کو نہ دیا تھا" ۔

(سورہ مائدہ آیت ۲۳)۔

پھر کہتا ہے

" خدا نے بنی اسرائیل سےعہد لیا اوران میں بارہ(۱۲) سردار برپا کئے اور الله نے کہا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں اگر تم نمازیں پڑھتے اور زکوٰة دیتے اورہمارے نبیوں پر ایمان لاتے رہو اور ان کی مددکرتے رہو اور خدا کو قرض حسنہ دیتے رہو تو میں تم سے تمہاری بدیاں دورکردوں گا ۔ اس کے بعد تم میں سے جو کوئی انحراف کرے گا وہ بے شک سیدھی راہ سے بھٹک گیا۔ سوان کی عہد شکنی کے سبب ہم نے ان کو پھٹکاردیا اوران کے دل سیاہ کردئیے"۔ (مائدہ ۳)۔

تورات شریف کی آیات کا سطحی مطالعہ بھی ظاہر کردیتاہے کہ اس مقام میں کسی ایک نبی کی آمد کا نہ تو ذکر مقصود ہوسکتاہے اورنہ ایسی آمد کی طرف اشارہ ہی موجود ہے۔ یہاں خدا تعالیٰ زمانہ مستقبل میں قوم اسرائيل کے لئے انبیاء کا ایک سلسلہ قائم کرنے کا وعدہ فرماتاہے جس کے ذریعہ وہ اپنی مرضی بنی اسرائيل پر ظاہر کیا کرے گا جس طرح اس نے اپنی مرضی حضرت موسیٰ کے ذریعہ ظاہر کی تھی۔تاریخ اس امر پر گواہ ہے کہ انبیائے کرام حضرت موسیٰ کے کام کو متواتر اورمسلسل طورپر مختلف زمانوں میں مدام (متواتر)برقرار اور پیہم (لگاتار)جاری رکھتے رہے۔ حضرت موسیٰ بنی اسرائیل میں نبوت کا سنگ ِ بنیادی رکھنے والے تھے اوربعد کے انبیاء اس بنیاد پر ایک نہایت زبردست اور عالیشان عمارت کے کھڑا کرنے والے تھے۔ یہ انبیاء الله اس عہد کو جو حضرت موسیٰ کی معرفت خدا اوربنی اسرائیل میں باندھا گیا بطرز احسن سمجھنے والے اوراپنے اپنے زمانہ میں اس عہد کے اصولوں پر عمل درآمد کرنے اورکرانے والے تھے۔ وہ ہر زمانہ میں حضرت موسیٰ کےجانشین رہے(متی ۲۵: ۲) وہ حکومت الہیہٰ کے علمبردار تھے اورانہوں نے مرنا قبول کیا لیکن مخالف حالات میں بھی اپنے پرچم کو سرنگوں ہونے نہ دیا (۲۔تواریخ ۲۴: ۲۱؛ متی ۱۴: ۱تا ۱۲؛ ۲۳: ۳۵تا ۳۷ وغيرہ)۔

طائفہ انبیاء

یہ انبیاءکرام قوم ِ اسرائیل کے مختلف طبقوں اور حصوں سے برپا کئے گئے ۔ بنی اسرائیل کے جس فرقہ اور طبقہ سے خدا کو ایسا شخص ملا جو اس کا پیغام پہنچانے کی صلاحیت رکھتا تھا خدا اس کو مامور فرماتا تھا ۔ پس انبیاء کسی خاص قبیلے یا طبقہ کے نہیں ہوتے تھے بلکہ قوم کے مختلف قبائل میں سے(تیرے ہی بھائیوں میں سے) مختلف زمانوں میں منتخب کئے جاتے تھے۔ مثلاً حضرت سموئیل ،حضرت یرمیاہ ،حضرت حزقی ایل کاہنوں کے طبقہ سے متعلق تھے۔حضرت یسعیاہ یروشلیم کے اراکین دربار میں سے تھے۔ حضرت میکاہ اورحضرت اوریاہ (یرمیاہ ۲۶: ۲۰) قصبات کے رہنے والے تھے۔ حضرت عاموس گلہ بان اور چرواہے تھے (۷: ۱۔ ۷: ۱۰تا ۱۷)۔عورتیں بھی نبوت کیا کرتی تھیں ۔مثلاً حضرت مریم، بی بی دبورہ، بی بی خلدہ (۲۔سلاطین ۲۲: ۱۴؛ لوقا ۲: ۳۶ وغيرہ) ۔ اہل یہود فخر یہ کہا کرتے تھے کہ" اسرائیل کے ملک میں کوئی ایسا شہر نہیں جس میں سے نبی برپا نہیں ہوا" ۔ ربی الیعز ر کا مقولہ مشہور ہے کہ

" اسرائیل کے قبائل میں سے تم کو کوئی ایسا قبیلہ نہ ملیگا جس میں سے کوئی نبی مبعوث نہ ہوا ہو "۔

یہ انبیاء خدا کا پیغام قوم کو پہنچایا کرتے تھے اگر مخالف حالات کی وجہ سے یا کسی اوروجہ سے کسی نبی کو عہد نبوت کے قبول کرنے میں پس وپیش ہوتا تو خدا اس کی بلاہٹ کے احساس کو بیش ازپیش تیز کردیتا ایساکہ اس کو چاروناچار خدا کے بلاوے کو قبول کرنا پڑتا (یرمیاہ ۱: ۵تا ۶؛ عاموس ۳: ۸؛ گنتی ۲۲: ۳۸ وغیرہ) نبی اندرونی جبر اور باطنی دباؤ کے ماتحت خدا کا کلام بولتے تھے(یرمیاہ ۲۰: ۹) ۔ ان میں خدا کا روح محرک ہوتا تھا اور وہ تحریک ربانی سے مجبور ہوکر خدا کا پیغام قوم کو دیتے تھے (میکاہ ۳: ۸) ۔اس پیغام کا نفس مضمون خودنبی کی صداقت کا ضامن ہوتا اور صرف یہی تصدیق صادق وکاذب نبی کی کسوٹی(پرکھنے کا آلہ) تھی۔ جس سے قوم معلوم کرسکتی تھی کہ یہ کلام خدا کی طرف سے ہے یا نہیں۔

یہ بات ذکر کرنے کے قابل ہے کہ کسی نبی کی انانیت اور انفرادی شخصیت نبوت کی وجہ سے فنا نہیں ہوجاتی ۔ ہرنبی کے پیغام کا طریقہ اور مضمون خصوصی ہوتا تھا جو صرف اسی سے مخصوص تھا۔ مثلاً حضرت موسیٰ، حضرت یسعیاہ ، حضرت یرمیاہ ، حضرت حزقی ایل وغیرہ سب خدا کے نبی تھے،لیکن ہر ایک کی نبوت کا طریق اور طرز بیان جداگانہ تھا ۔ہر نبی اپنے خصوصی نکتہ نگاہ سے اپنی قو م تک خدا کا پیغام پہنچاتا تھا (یرمیاہ ۳۶: ۴، ۱۰)۔ ایسا کہ کتب ِ مقدسہ کا پڑھنے والا جانتا ہے کہ حضرت حزقی ایل کا طریقہ حضرت موسیٰ کا سانہ تھا اورحضرت یرمیاہ کا طریقہ حضرت یسعیاہ کا سانہ تھا۔ عبرانیوں کے خط کے مصنف کے الفاظ میں " خدا نے حصہ بہ حصہ اورطرح بہ طرح نبیوں کی معرفت کلام کیا" (عبرانیوں ۱: ۱)۔ ہر نبی کی لیاقت، لطافت، استعداد، ذہنی نشوونما ، موقعہ بینی ، قیافہ(قیاس،عقل)، فراست(دانائی) ، معرفت ، رفعت خیال ، وسعت نظر، پاکیزگی قلب اور علم وعقل وغيرہ میں اختلاف تھا اوراس اختلاف کی بناء پر بعض انبیاء الله انبیائے اصغر اور بعض انبیائے اکبر ہوئے۔

زمانہ ابتلاء اور نبی کی آمد

تاریخ شاہد ہے کہ مقام ِ زیر بحث کے مطابق قوم ِ اسرائیل کے لوگ ہر زمانہ میں اوربالخصوص قوم کی خستہ حالی اور زوال کے دنوں میں ہمیشہ کسی نہ کسی کی آمد کے منتظر اور مامور من الله شخص کی راہ دیکھا کرتے تھے۔مثلاً بنی اسرائیل کی اسیری کے زمانہ میں وہ حضرت حزقی ایل سے خدا کی مرضی دریافت کرنے کو جاتے تھے(حزقی ایل ۸: ۱۔ ۱۴: ۱۔ ۲۰: ۱ وغیرہ)۔ اورجب مصیبت کے زمانہ میں ان کو خدا کا کوئی نبی نہ ملتا تو وہ واویلا مچایا کرتے تھے (۱۔سموئيل ۳: ۱؛ نوحہ ۲: ۹ وغيرہ) چنانچہ ایک زبور نویس لکھتاہے ۔"اے خدا تونے ہم کو ہمیشہ کےلئے ترک کردیا۔ تو کوہ ِ صیون کو یاد کر اور ان سب خرابیوں کی طرف نظر کر جو دشمن نے تیرے مقدس میں کی ہیں۔ انہوں نے تیرے مقدس کوناپاک کیا ہے اور خدا کے سب عبادت خانوں کوجلادیا ہے۔ہمارے نشان تک نظر نہیں آتے اور کوئی نبی نہیں رہا اورہم میں کوئی نہیں جانتا کہ یہ حال کب تک رہے گا۔ اے خدا اپنے وعدہ کا خیال فرما"(زبور ۷۴۔ نيز دیکھو زبور ۲۲، ۴۴، ۶۰، ۷۹، ۸۹و غیرہ)۔ ایسے تاریک زمانوں میں خدا اپنے اس وعدہ کا جو زیر بحث مقام میں موجو دہے۔ خیال فرماکر قوم بنی اسرائیل کی صحیح رہنمائی کے لئے نبی برپا کردیتا (۱۔سموئیل ۳: ۲۰تا ۲۱ وغیرہ) تاکہ وہ قوم کو خدا کا پیغام پہنچائے ۔ خداقوم پر رحم فرماتااور قوم کی حالت سدھر جاتی (یرمیاہ ۲۹: ۱۰تا ۱۴)۔

نتیجہ

پس ثابت ہوگیا کہ توریت شریف کی کتاب استثنا کی مندرجہ بالا آیات میں کوئی بشارت موجو د نہیں چہ جائیکہ وہ کسی خاص ایک نبی کی بشارت ہو جو حضرت موسیٰ کے ہزاروں سال بعد آنے والا تھا۔بلکہ مقام ِ زیربحث میں خدا کی طرف سے ممانعت کے احکام اور سلسلہ نبوت کے قیام او ر تعذیب (دکھ دینا)کے وعدے موجود ہیں۔ یہ بھی ثابت ہوگیا کہ ان آیات میں کوئی خاص نبی مراد نہیں بلکہ ان میں ایسے ہر نبی کا ذکر ِ ہے جوبنی اسرائیل کی ہدایت کے لئے مبعوث ہوکر قوم ِیہود کی طرف بھیجا گیا او ر حضرت موسیٰ سے لے کر حضرت کلمة الله تک ہر وہ نبی جو انبیاء الله کی صف میں کھڑا ہے اس وعدہ الہٰی کی تکمیل کا جیتا جاگتا ثبوت ہے جس طرح بنی اسرائيل کی بربادی کے زمانے وعدہ تعذیب کے تاریخی ثبوت ہیں ۔

فصل دوم

کتاب ِ استثنا کی آیات اورسیدنا عیسیٰ ناصری

قوم ِیہود کی تاریخ اور آیات ِ زیربحث

گذشتہ فصل سے ناظرین پر واضح ہوگیاہوگاکہ آیات ِ زیر بحث کے سیاق ِ عبارت سے ظاہر ہے کہ ان میں نہ تو کسی خاص نبی کا ذکر ہے اورنہ کسی ایک نبی کی بشارت موجود ہے۔ ان آیات میں خداوند کریم کا وعدہ ہے کہ جب کبھی ضرورت لاحق ہوگی وہ حسب موقعہ قوم یہودمیں نبی پیدا کردے گا جو اس وقت اور زمانہ کے لئے حضرت موسیٰ کا جانشین ہوکر اس کے سے فرائض ادا کرے گا۔ ہم ذکر کرچکے ہیں کہ بنی اسرائيل کی تاریخ میں یہ ضرورت بار بار مختلف زمانوں میں پیش آئی جس کو خدا اپنے کرم وفضل سے پورا کرتا رہا۔ پس اس مقام میں کوئی خاص نبی مراد نہیں بلکہ ایک مستقل خداوندی دستور اورالہٰی رواج کا ذکر ہے۔

اس الہٰی معمول کی حقیقت کو قوم ِاسرائیل کی تاریخ واضح طورپر ثابت کردیتی ہے ۔ چنانچہ حضرت موسیٰ کے بعد جب بنی اسرائیل بغیر کسی لیڈر کے رہ گئی تو خدا نے حضرت یشوع کو برپا کیا اور فرمایا" جیسے میں موسیٰ کےساتھ تھا ویسے ہی تیرے ساتھ رہوں گا۔ تو حوصلہ رکھ ، خوف نہ کھا اوربے دل نہ ہو"(یشوع ۱: ۵تا ۱۰)۔ جب یشوع کے بعد" بنی اسرائيل نے خداوند کو چھوڑدیا اور بعل اور عستارات کی پرستش کرنے لگے تو وہ جہاں جاتے اذیت پاتے ایسا کہ وہ نہایت تنگ آگئے "۔ تب خدا نے ان کے لئے نبی برپا کئے جو قاضی بھی تھے (قضاة ۲: ۱۱تا ۱۸؛ ۳: ۹) اس کے بعد خدا نے یربعل، بدان، افتاح اور سموئیل نبی کو برپا کیا (قضاة ۱۲: ۱۱) اور خدا نے حضرت سموئیل کی معرفت انبیاء کا طبقہ مستقل طورپرقائم کردیا(۱۔سموئیل ۱۹: ۲۰)۔

پس انبیائے یہود کی تاریخ کی کتابیں بھی جو یہودی کتب ِ مقدسہ کے مجموعہ میں موجود ہیں ثابت کرتی ہیں کہ خدا ہر زمانہ میں قوم ِ اسرائیل کی ہدایت کے لئے نبی پیدا کردیتا تھا۔ بالخصوص جب یہ قوم کسی مصیبت میں گرفتار ہوتی تو وہ خداوندی ارشاد کو یاد کرکے اپنے خدا کے حضور نالہ وفریاد کرتی اورکتاب ِ مقدس کی کتب ِ تاریخ سے اور کتب ِ انبیائے اصغر واکبر سے ظاہر ہے کہ خدا ان کی آہ زاری سن کر ان کے لئے نبی برپا کردیتا جو ان کے لئے شمع ہدایت ہوتے تھے۔

چنانچہ ایک مزمور نویس بنی اسرائیل کی تاریخ پر نظر کرکے لکھتا ہے" خداوندکی حمد کرو، خداوند کا شکر کروکہ وہ بھلا ہے اوراس کی شفقت ابدی ہے۔ ہم نے اورہمارے باپ دادا نے گناہ کیا۔ انہوں نے مصر میں تیرے عجائب نہ سمجھے بلکہ بحر قلزم پر باغی ہوئے توبھی اس نے ان کو اپنے نام کی خاطر بچایا۔ پھر وہ جلد اس کے کاموں کو بھول گئے او ر صحرا میں خدا کو آزمایا ۔انہو ں نے جواب میں ایک بچھڑا بنالیا اور ڈھالی ہوئی مورت کو سجدہ کیا وہ اپنے منجی خدا کو بھول گئے تب اس نے ان کے خلاف قسم کھائی کہ میں ان کی نسل کو قوموں کے درمیان گرادوں گا۔ وہ بتوں کی قربانیاں کھانے لگے اوراپنے اعمال سے اس کی غضبناک کیا اور وبا ان میں پھوٹ نکلی۔ تب فینحاس اٹھا اور بیچ میں آیا اور وبا رک گئی ۔ انہوں نے خدا کو مریبہ کے چشمہ پر بھی غضبناک کیا ۔وہ غير اقوام کے ساتھ مل کر ان کے سے کام سیکھ گئے اوران کے بتوں کی پرستش کرنے لگے جو ان کے لئے پھندا بن گئے ۔بلکہ انہوں نے اپنے بیٹے بیٹیوں کو شیاطین کے لئے قربان کیا ۔یوں وہ اپنے ہی کاموں سے آلودہ ہوکر اپنے فعلوں سے خدا سے بے وفا ہوگئے ۔اس لئے خدا کا قہر اپنے لوگوں پر بھڑکا اوراس نے ان کو قوموں کے قبضے میں کردیا اوران کے دشمن ان پر حکمران ہوگئے۔ اس نے تو بار بار ان کو نجات دی لیکن ان کا مشورہ باغیانہ ہی رہا ۔تو بھی جب اس نے ان کی فریاد سنی تو ان کے دکھوں پر نظر کی اورا س نے ان کے حق میں اپنے عہد کو یاد فرمایا اوراپنی شفقت کی کثرت کے مطابق ترس کھایا" (زبور ۱۰۶۔ نیز دیکھو زبور ۸۱ وغيرہ)۔

سیدنا عیسیٰ مسیح کی بعثت کا زمانہ

تاریخ ہم کو بتلاتی ہے کہ سیدنا عیسیٰ کی بعثت کا زمانہ بنی اسرائیل کی نکبت(بدحالی) اورانتہائی زبونی کا زمانہ تھا۔ خدا کی اس برگزیدہ قوم بت پرست قیاصرہ روم(روم کے شہنشاہ) حکمران تھے۔ اہل یہود کا قافیہ(پیچھے چلنے والا) ایسا تنگ ہوگیا تھاکہ وہ بار بار اپنے حکمرانوں کے خلاف سر اٹھاتے تھے اور ہر بار ان کی سرکوبی کی جاتی تھی ۔(اعمال ۵: ۳۶تا ۳۷) جس طرح فراعنہ(فرعون کی جمع،بادشاہ) مصر کے زمانہ میں بنی اسرائيل پر عرصہ حیات تنگ ہوگیا تھا اسی طرح وہ قیاصرہ روم کے جوئے تلے نالاں تھےا ور کہتے تھے کہ یہ " یہ غير اقوام کا زمانہ " ہے(لوقا ۲۱: ۲۴) اوراس انتظار میں تھے کہ کب کوئی موسیٰ ثانی برپا ہو اور ان کو غلامی سے نجات دلائے۔بنی اسرائیل کے متعدد دیندار مرد اور عورتوں کے گروہ خدا کے وعدہ کی طرف آنکھ اٹھائے " اسرائیل کی تسلی " اور " خدا کی بادشاہت کے قیام کے منتظر " تھے (لوقا ۲: ۲۵تا ۳۷؛ ۲۴: ۲۱ وغيرہ)۔ اس گروہ میں بڑے اور چھوٹے ، عالم اورجاہل ، شہروں اور گاؤں کے رہنے والے تھے ۔ ان میں کاہن بھی تھے۔ فریسی بھی تھے لاوی بھی تھے ۔ صدر مجلس کے ارکان بھی تھے۔عوام بھی تھے ۔ غرض یہ کہ اس گروہ میں خوردوکلاں سبھی شامل تھے(مرقس ۱۵: ۴۳؛ یوحنا ۱: ۱۹ ؛ متی ۳: ۵؛ لوقا ۲۴: ۲۱ وغیرہ) بنی اسرائیل زبون حالی میں "اندھیرے اور موت کے ملک اور سایہ " میں بیٹھے تھے (متی ۴: ۱۶) اوراس انتظار میں تھے کہ خدا اپنے وعدہ کو جو زیر بحث آیا ت میں ہے یادفرمائے گا اورجس طرح اس نے حضرت موسیٰ اور دیگر انبیاء کی معرفت قوم اسرائيل کو پہلے زمانوں میں چھٹکارا دیا تھا (زبور ۴۴، ۷۸ وغيرہ)اسی طرح اب بھی "ہمارے خدا کی عین رحمت سے عالم ِبالا کا آفتاب ہم پر طلوع کرے گا تاکہ ان کو جو اندھیرے اورموت کے سایہ میں بیٹھے ہیں ، روشنی بخشے اورہمارے قدموں کو سلامتی کی راہ پر ڈالے" (لوقا ۱: ۷۸تا ۷۹) یہ سب کے سب " اسرائيل کے چھٹکارے کے منتظر تھے"(لوقا ۲: ۳۸؛ ۱: ۶۸؛ اعمال ۲۸: ۲۰ وغيرہ) ایسا کہ یہودی ربی "اسرائیل کی تسلی " سےمراد خداکا ممسوح نبی لیتے تھے (یسعیاہ ۴۰: ۱؛ ۴۹: ۱۳؛ ۵۱: ۳؛ ۶۱: ۲؛ ۶۶: ۱۳؛ لوقا ۲: ۲۵)نبی موعود کے لئے انتظار اس شدت کا تھا اور خوردوکلاں میں اس قد ر ِ عام تھا کہ قسم کھاتے وقت وہ کہتے تھے " مجھے اسرائیل کی تسلی کی قسم" یا " اسرائیل کی تسلی نہ دیکھوں اگر میں خلاف ِ واقعہ بیان دوں ۔

پس جس زمانہ میں سیدنا مسیح مبعوث ہوئے قوم اسرائیل اس خداوندی وعدہ کے پورا ہونے کی انتظار میں آنکھیں لگائے بیٹھی تھی جس کا ذکر کتاب ِ استثنا کی آیات زیر بحث میں موجود ہے کہ" اے قوم ِ اسرائیل میں خداوند تیرا خدا تیرے لئے تیرے ہی درمیان سے تیرے ہی بھائیوں میں سے نبی برپا کروں گا جس طرح میں نے موسیٰ کو برپا کیا تھا"۔لہٰذا جب کوئی شخص خداوند کی طرف سے آنے کا دعویٰ کرتا تو سب کہہ دمہ اس کے پاس دوڑے جاتے اوراس سے پوچھتے " کیا تو وہ نبی ہے"؟ (متی ۳: ۵تا ۷؛ یوحنا ۱: ۲۱)یا " سب اپنے اپنے دل میں سوچتے کہ آیا وہ مسیح ہے یا نہیں "(لوقا ۳: ۱۵) کیونکہ ان کا یہ ایمان تھاکہ خدا بنی اسرائيل کی گریہ وزاری کو سن کر حسب ِوعدہ ان میں نبی برپا کرے گا جو قوم کو چھٹکارا دلائے گا۔

سیدنا مسیح کی آمد اور آیات ِ زیر بحث

جب انتظار کرنے والوں کے گروہِ کثیر نے سیدنا عیسیٰ مسیح کے " کام او رکلام" کودیکھا تو ان کو " قدرت والا" پایا (لوقا ۲۴: ۱۹) اوران میں سے بہتیرے ایمان لے آئے (یوحنا ۷: ۳۱ وغيرہ)ان ایمان داروں نے دوسروں کو بھی آپ کی خبر دے کر کہا " جس کا ذکر موسیٰ نے توریت میں کیا وہ ہم کو مل گیا ہے۔ وہ یوسف کا بیٹا عیسیٰ ناصری ہے"(یوحنا ۱: ۴۰تا ۴۵) حضرت کلمة الله کے سامعین میں سے جس نے بھی سیدنا مسیح کے کلام ِ معجز نظام کو سنا اس نےکہا " بے شک یہ وہ نبی ہے"(یوحنا ۷: ۴۰)۔ دوسرے اشخاص آپ کے معجزات بینات کودیکھ کر بول اٹھے" جو نبی دنیا میں آنے والا تھا " فی الحقیقت یہی ہے" (یوحنا ۶: ۱۴؛ ۷: ۳۱ وغيرہ) ۔عوام الناس بھی آپ کو نبی مانتے اور جانتے تھے (متی ۲۱: ۴۶) اور وہ سب لوگ" خدا کی تمجید کرکے کہنے لگے کہ ایک بڑا نبی ہم میں برپا ہوا ہے اور خدا نے اپنی امت پر توجہ کی ہے(لوقا ۷: ۱۶)۔

سیدنا عیسیٰ مسیح کو بھی یہ احساس تھاکہ آپ زیر بحث مقام کے وعدہ الہٰی کے مطابق " بنی اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں " کے لئے خدا کی طرف سے فرستادہ نبی ہیں (متی ۱۰: ۶؛ ۱۵: ۲۴؛ یوحنا ۴: ۲۵تا ۲۶؛ ۵: ۴۶؛ ۹: ۳۷؛ ۵: ۳۹؛ لوقا ۷: ۱۶؛ ۲۴: ۱۹تا ۲۷ وغیرہ) آپ یہ جانتے تھے کہ آپ مسیح موعود ابن الله ہیں (متی ۱۶: ۱۶تا ۱۷؛ لوقا ۲۱: ۴۴ وغیرہ) آپ کو یہ احساس تھاکہ حضرت یسعیاہ نے اپنے زمانہ کے "خادم ِیہوواہ" کے جو کمالات بتلائے ہیں وہ حالات ِ زمانہ کی مطابقت کی وجہ سے آپ کی ذات ِقدسی صفات میں پائے جاتے ہیں (لوقا ۴: ۱۶تا ۲۳؛ ۱۸: ۳۱؛ متی ۹: ۱۲؛ مرقس ۱۴: ۲۱ ؛ یسعیاہ ۵۲: ۱۳؛ ۵۳: ۱۲ وغيرہ) آپ دیکھتے تھے کہ قوم یہود صریحاً راہ ِ حق سے بھٹک گئی ہے اور خدا نے آپ کو سچائی کی سلطنت کا سلطان مقرر فرما کر ان کی جانب بھیجاہے (یوحنا ۱۸: ۳۴تا ۳۸) تاکہ ان کے لئے راہ حق اور زندگی ثابت ہوں اور ان کو خدا کے پاس واپس پھیر لائیں(یوحنا ۱۴: ۶)۔ آپ کے اس احساس کی وجہ سے آپ کے دل میں قوم کے لئے ایک درد تھا (متی ۲۳: ۳۷؛ لوقا ۱۳: ۳۴) جو آپ کو چین لینے نہیں دیتا تھا۔ قوم کی خستہ حالی اور برگشتگی کو دیکھ کر آپ تڑپ جاتے تھے۔ اوراس کے حشر اورانجام کا خیال آپ کو ہر وقت اوربالخصوص زندگی کے آخری زمانہ میں رہ رہ کر ستاتا تھا(متی ۲۰: ۳۲؛ ۲۱: ۲۸تا ۳۲؛ ۲۲تا ۲۴ ابواب وغيرہ) آخری دنوں میں آپ ملت کی حالت کودیکھ کر رودئیے (لوقا ۱۹: ۴۱تا ۴۴؛ لوقا ۲۳: ۲۷تا ۳۱) اورآپ نے قائدین ملت کو وہ الہٰی وعدہ تعذیب بھی یاد دلایا جو آیات ِ زیربحث میں ہے(استثنا ۱۸: ۱۹؛ مرقس ۱۳: ۱تا ۲؛ لوقا ۱۹: ۴۱تا ۴۴ وغیرہ) بالآخر آپ نے اپنی نبوت پر اپنے خون سے مہر ثبت کی ۔ خدا نے اپنے وعدہ تعذیب کے مطابق بنی اسرائیل کو ایسی عبرت ناک سزادی کہ وہ دنیا کے چاروں کونوں میں پراگندہ ہوکر تباہ وبرباد ہوگئے کیونکہ انہو ں نے اس کے مسیح کی نہ سنی۔

حضرت کلمة الله قوم اسرائیل کو فرماتے تھے " تم کتاب ِ مقدس کو بغور پڑھو۔ وہ میری گواہی دیتی ہے "(یوحنا ۵: ۳۹)۔ کیونکہ ارشاد ِ خداوندی ہے کہ وہ ہر زمانہ میں حسب ضرورت اوربالخصوص ابتلا اور مصیبت کے زمانہ میں بنی اسرائيل کی راہنمائی کے لئے نبی برپا کرے گا جس طرح اس نے فرعون مصر کے زمانہ میں حضرت موسیٰ کو برپا کیا تھا دورِ حاضرہ میں خدائے برتروتعالیٰ نے تمہاری ہدایت کے لئے مجھے مبعوث فرمایا ہے۔

سیدنا مسیح کے رسول بھی اسی ارشاد ِ خداوندی کا ذکر کرکے (اعمال ۳باب) اہل ِیہود کو کہتے تھے " اب سموئیل سے لے کر" پچھلوں تک جتنے نبیوں نے کلام کیا ان سب نے ان دِنوں کی خبردی ہے۔ خدا نے (اپنے وعدہ کے مطابق) اپنے خادم (عیسیٰ )کو برپا کرکے پہلے تمہارے پاس بھیجا تاکہ تم میں سے ہر ایک کو اس کی بدیوں سے پھیر کر برکت دے ۔ اے گردن کشو اورکان کے نامختونو۔ تم ہر وقت روح القدس کی مخالفت کرتے ہو۔ نبیوں میں سے کس کو تمہارے باپ دادا نے نہیں ستایا ؟ اوراب تم اس راستباز (عیسیٰ)کے پکڑنے والے اور قاتل ہوئے "(اعمال ۳: ۲۴؛ ۷: ۵۱تا ۵۲) سیدنا عیسیٰ کے رسول مندرجہ بالا آیات میں قوم اسرائيل کو بار بار ارشاد ِ خداوندی یاددلاکر کہتے ہیں کہ خدا نے اپنے قدیم وعدہ (مندرجہ درکتاب استثنا) کو ہمارے زمانہ میں بھی پورا فرمایا ہے اور تمہارے لئے اس نے اپنے خادم عیسیٰ کو برپا کیا ہے(آیت ۱۳) جو ابراہام کی حقیقی نسل"(تمہارے بھائیوں میں") سے ہے۔ جس طرح خدا نے قدیم زمانہ میں حضرت موسیٰ کوبرپا کیا تھا جو خدا اور اسرائیل کے درمیان پرانے عہد کا بانی تھا اسی طرح اب اس نے عیسیٰ کو برپا کیا ہے جو موسیٰ کی مانند خدا اورانسان کے درمیان نئے عہد کا بانی ہے(عبرانیوں ۳: ۱تا ۶؛ ۹: ۱۸تا ۲۰؛ ۱۲: ۲۴؛ یوحنا ۱: ۱۷؛ مکاشفہ ۱۵: ۲تا ۳ وغیرہ)۔

نتیجہ

اب ناظرین پر آفتاب نصف النہار(دوپہر ) کی طرح روشن ہوگیا ہوگاکہ زیر بحث آیات میں کسی خاص نبی کی بابت پیش گوئی نہیں کی گئی بلکہ بنی اسرائيل کے تمام انبیاء حضرت موسیٰ سے لے کر سیدنا عیسیٰ تک، سب کے سب اس وعدہ میں شامل ہیں جو خدا نے اپنی برگزیدہ قوم سے کیا تھا کہ وقت مناسب پر خدا اس میں نبی برپا کرتا رہے گا، جومختلف زمانوں میں اس کے لئے مشعل ہدایت ہوں گے ۔

چنانچہ حضرت ہوسیع کی معرفت خدا بنی اسرائيل کو یاد دلاتاہے کہ" میں نے انبیاء کی معرفت کلام کیا اور رویا پر رویا دکھلائی ۔ ایک نبی (موسیٰ) کے ذریعہ خداونداسرائیل کو مصر سے نکال لایا اورنبی ہی کے وسیلے یعنی نبیوں کے سلسلہ کے وسیلے وہ محفوظ رہا(ہوسیع۱۲: ۱۰تا ۱۳) پھر لکھا ہے " خداوند سب نبیوں اور غیب بینوں (۱۔سموئيل ۹:۹) کی معرفت اسرائيل اور یہوداہ کو آگاہ کرتا رہا کہ تم اپنی بری راہوں سے بازآؤ" (۲۔سلاطین ۱۷: ۱۳؛ نحمیاہ ۹: ۳۰؛ زکریا ۱: ۴ وغيرہ)۔

اس وعدہ الہٰی میں سیدنا مسیح بھی نہ صرف شامل ہیں بلکہ اس وعدہ کی آخری تکمیل بھی ہیں کیونکہ آپ اہل یہود کے لئے حجتہ الله ہوکر آئے تھے تاکہ ان پر اتمام ِ حجت ہوجائے(یوحنا ۸: ۲۴؛ ۱۶: ۹) اسی لئے سیدنا مسیح خود (لوقا ۲۴: ۲۷؛ یوحنا ۵: ۳۹ وغیرہ) اور سیدنا عیسیٰ کے حواری (یوحنا ۱: ۴۵ وغيرہ) اورانجیل نویس (یوحنا ۲۰: ۳۱) اور سیدنا عیسیٰ کے مبلغ (اعمال ۳: ۲۲؛ ۷: ۳۷ وغيرہ) سب کے سب آیات ِ زیر بحث کے وعدہ کو آنخداوند کی مسیحائی کے ثبوت میں پیش کرکے ثابت کرتے ہیں کہ آپ ہی مسیح موعود تھے جو وعدہِ خداوندی کے مطابق برپا ہوئے (اعمال ۹: ۲۲؛ ۱۷: ۳ وغيرہ)۔

فصل سوم

کتاب استثنا کی آیات اور محمد عربی

اس باب کی گذشتہ فصلوں کے مطالعہ سے ناظرین کرام پرروشن ہوگیا ہوگاکہ صحیح اصول ِ تفسیر کے مطابق:

(۱۔) آیات ِ زیر بحث میں کسی بشارت کا ذکر نہیں بلکہ ان میں خداوند کریم کا یہ حکم ہے کہ وہ بُت پرست اقوام کے مشرک فالگیروں کی بجائے انبیائے کرام کی طرف رجو ع کریں جن کا سلسلہ وہ اپنے جودوکرم سے قائم کرے گا ۔

(۲۔) سلسلہ انبیاء کے قیام کا وعدہ بنی اسرائيل سے کیا گیا تھا اور صرف بنی اسرائيل ہی اس وعدہ کے مخاطب تھے۔

(۳۔) یہ ایک تواریخی حقیقت ہے کہ یہ انبیاء قوم اسرائيل کے افراد تھے اور کہ وہ سب کے سب عبرانی النسل تھے اور بنی اسرائيل کے مختلف قبائل سے مبعوث ہوئے تھے۔

(۴۔)یہ انبیاء فقط بنی اسرائيل کی قوم کی ہدایت کے لئے برپا کئے گئے تھے ۔

(۵۔) جب قوم ِ اسرائيل نے ان انبیاء کا حکم مانا وہ ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوگئی لیکن جب اپنی سرکشی کے سبب اس نے ان کے احکام کی شنوائی نہ کی تو اس سے مواخذہ کیا گیا اور خداوندی وعدہ تعذیب کے مطابق اس کو سزا ملی۔

(۶۔)سیدنا عیسیٰ عہد ِ عتیق کے اس سلسلہ انبیاء کی آخری تکمیل تھے۔ نبوت کے کمال کا جلال آپ کے ہر مسیحائی دم سے ایسا ظاہر تھاکہ آپ "خدا کےجلا ل کا پر تو اورا س کی ذات کا نقش " تھے(عبرانیوں ۱: ۳۔ ۲پطرس ۱: ۱۷۔ یوحنا ۱: ۱۴۔ متی ۱۷: ۱تا ۶ وغیرہ)۔

مندرجہ بالا تواریخی حقائق اور صحیح تفسیر کو مدِ نظر رکھ کر کون منصف مزاج شخص کہہ سکتا ہےکہ:

(۱۔)ان آیات میں کوئی " بشارت" موجود ہے۔ چہ جائیکہ وہ کوئی " صاف اور روشن بشارت" ہو؟

(۲۔) کون انصاف پسند شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ " ان آیتوں میں محمد رسول الله ﷺ کے مبعوث ہونے کی ایسی صاف اور مستحکم (مضبوط)بشارت ہے جس سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا "؟صرف قادیان کی چار دیواری ہی سے (جہاں عقل ونقل کو دخل نہیں )یہ آواز نکل سکتی ہے کہ یہ " پیش گوئی ہر پہلو سے محمد ﷺ پر پوری ہوئی اور آپ کے سوا کسی دوسرے شخص کے حق میں اس کا پورا ہونا ثابت نہیں ہوسکتا "۔

(۲)

بفرض ِ محال اگرہم تسلیم بھی کرلیں کہ نبوت کااصل مقصد پیش گوئیاں کرنا ہی ہے اورکہ آیات ِ زیر بحث میں کسی ایک خاص نبی کی پیش خبری دی گئی ہے تب بھی یہ کس طرح ثابت ہوسکتا ہے کہ یہ بشارت صرف حضرت محمد عربی کے حق میں ہی ہے جب کہ :

(۱۔) ان آیات میں اہل ِ عرب کو مخاطب ہی نہیں کیا گیا۔

(۲۔) ان تمام آیات میں اہل ِ عرب کے لئے خدا کا کوئی وعدہ موجود نہیں ہے۔

(۳۔) محمد عربی قبائل بنی اسرائیل سے نہیں تھے بلکہ عرب کے قبیلہ قریش سے تھے ۔

(۴۔) قرآن مجید کےمطابق آ پ عرب کی ہدایت کے لئے ہی مبعوث ہوئے تھے۔

انشاء الله اگلے باب میں زیر بحث آیت کے تمام الفاظ پر مفصل بحث کرکے یہ ثابت کردیں گے کہ " سوائے اس شخص کے جوبراہ ِ تعصب آنکھ بند کرے" کوئی صحیح العقل شخص یہ نہیں کہہ سکتاکہ کتاب استثنا کی یہ آیت " حضرت محمد کے حق میں ہے"۔

باب سوم

"بشارت موسوی " کے الفاظ

آیات کا تحت اللفظی ترجمہ

متلاشیان ِ حق کی خاطر ہم آیات ِ زیر بحث کے عبرانی الفاظ کو اردو رسم الخط میں لکھ کر ہر لفظ کے نیچے اس کا اُردو ترجمہ کردیتے ہیں تاکہ حق شناس اصل حقیقت سے واقف ہوسکیں ۔

آیت ۱۵:۔

پس زیر ِ بحث آیات کاسلیس اردو ترجمہ یہ ہوا:

"خداوند تیرا خداتیرے لئے تیرے درمیان سے تیرے بھائیوں میں سے میری مانند نبی برپا کرتا رہے گا۔ تم اس کی سننا۔۔۔۔ میں ان کے لئے ان کے بھائیوں کےدرمیان سے تیری مانند نبی برپا کرتا رہوں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اورجوحکم میں اس کو دوں گا وہ وہی کچھ ان سے کہے گا"۔

آیت ۱۵ میں حضرت موسیٰ قوم اسرائیل کو مخاطب کرتاہے اور اٹھارویں آیت میں خدا حضرت موسیٰ کو مخاطب کرتاہے۔ دونوں آیتوں کا مفہوم اورمطلب یکساں ہے۔

فصل اوّل

لفظ " اخی " کے مفہوم کا تعین

صحیح اصولِ تفسیر

کتاب ِ مقدس کے کسی لفظ کے صحیح معنی اوراصل مطلب کو جاننے کے لئے لازم ہے کہ ہم اس کو ان معنوں میں سمجھیں جن میں وہ استعمال کیا گیا ہے۔ یہ ضروری ہے کہ ہم کتاب ِ مقدس کی ورق گردانی کرکے ان تمام مقامات کو یک جاکریں جہاں وہ لفظ وارد ہوا ہے تاکہ اس کا حقیقی مطلب جو ملہم لکھنے والوں کے ذہن میں تھا ہم پر ظاہر ہوجائے ۔یہ طریقہ کار صحیح اصول تفسیر کے مطابق ہے۔ جس پر عمل کرکے ہم تفسیر بالرائے کےگڑھے سے بچ سکتے ہیں ۔ یہ طریقہ ہم پر ظاہر کردیتاہے کہ جو مطلب ہم کسی لفظ کا لیتے ہیں وہ قائل کے منشاء کے مطابق ہے یا نہیں ۔ اگر وہ مطلب کتاب مقدس کے مفہوم کے مطابق نہیں تو ایمانداری کا یہ تقاضا ہے کہ ہم اپنے خود ساختہ مفہوم کو چھوڑ کر اس معنی کو اختیار کریں جو کتاب ِ مقدس کا ہے۔

لفظ اخی اورکتاب ِ مقدس

جب ہم اس اصول ِ تفسیر پر چل کر تورات شریف کے اوراق پلٹتے ہیں تو ہم پر واضح ہوجاتاہے کہ :

(۱۔) لفظ" اخی " بمعنی بھائی ایک عام اور مشہور اصطلاح اور محاورہ ہے جو تورات شریف میں اکثر جگہ وارد ہوا ہے ۔

(۲۔) مجرد اصطلاح " بھائی " اور "بھائیوں" سے ہمیشہ اور ہر مقام میں مراد " بنی اسرائيل " ہے اور

(۳۔) تمام کی تمام تورات میں یہ اصطلاح کسی غیر بنی اسرائیل کے حق میں کسی ایک مقام میں بھی کہیں پائی نہیں جاتی۔

یہ سوال قدرتاً پیدا ہوتا ہے کہ کیوں یہ اصطلاحی جملے" ان کے بھائی"۔"تمہارے بھائی "۔"اپنے بھائی "۔"ہمارے بھائی"۔ اس کے بھائی" وغيرہ صرف قوم بنی اسرائيل کے لئے مخصوص ہیں؟ تورات شریف یہ جواب دیتی ہے کہ قوم یہود، حضرت یعقوب (جن کا دوسرا نام "اسرائیل "تھا) کے بارہ (۱۲)بیٹوں کی اولاد تھی اوربارہ (۱۲)فرقوں میں منقسم تھی۔ قرآن مجید بھی ہم کو یہ بتلاتا ہے ۔ چنانچہ لکھاہے

" ہم نے اسرائيل کی نسل کوبارہ(۱۲) قبیلوں میں تقسیم کیا جو بڑی بڑی جماعتیں تھیں"

(اعراف ع ۲۰) ۔

ان بارہ (۱۲)بيٹوں کی اولاد آپس میں " بھائی" کہلائے تاکہ متفرق قبیلوں کی تقسیم سے باہم مغائرت (غیر،بے گانگی)پیدا نہ ہو اور اسرائيل کی تمام نسل میں برادری اوراُخوت (بھائی چارہ)کا رشتہ اورسلوک ہمیشہ قائم اور استوار رہے۔ اس غرض سے بارہ (۱۲)کے بارہ(۱۲) فرقوں کے لوگ اپنے مورث ِ(وارث کرنے والا) اعلیٰ اسرائيل کے فرزند یا بنی اسرائيل کہلائے اوران کی نسبت ارشاد ہوا کہ "اسرائيل کے سب گھرانوں کے لوگ تمہارے بھائی ہیں"(احبار ۱۰: ۶)۔ یعنی ازروئے شریعت " صرف اسرائيل کے سب گھرانوں کے لوگ" آپس میں "بھائی " کہلا کر ایک قومی برادری میں شریک ہوئے جس سے ہر غیر اسرائيلی شخص خارج ہوکر شرعاً " اجنبی" کہلایا(استثنا۱۷: ۱۵۔ ۲۳: ۱۹تا ۲۰ وغيرہ) جس میں سے کسی کاہن یابادشاہ کا مقرر ہونا قطعی طورپر شریعت میں ممنوع کیاگیا(استثنا ۱۷: ۱۵)۔

تورات شریف کے علاوہ کتاب ِ مقدس کی دیگر کتب میں بھی یہ محاورہ" تمہارے بھائی" ۔ " میرے بھائی " ۔ ان کے بھائی " وغيرہ بعینہ انہی معنوں میں بنی اسرائيل کے لئے جا بجا استعمال کیا گیا ہے۔ مثال کے طورپر دیکھو( یشوع ۲۲: ۴، ۸؛ ۱۴: ۸؛ ۲۳: ۷؛ ۱۔سلاطین ۱۲: ۲۴ وغیرہ)۔

مولوی صاحب غلط فرماتے ہیں کہ اور تورات شریف ان کے اس دعویٰ کی تردید کرتی ہے کہ " توریت مقدس میں جہاں لفظ "بھائی " بنی اسرائيل کے حق میں بولا گیا ہے وہاں اس کے ساتھ لفظ" بنی اسرائیل" کی بھی قید آئی ہے "۔

ہم نے سطور بالا میں حقیقت حال عرض کردی ہے کہ تمام تورات میں جملہ" اپنے یا ان کے یا تمہارے یا تیرے بھائی یا بھائیوں " اپنی اس قطعی اور غیر محدود صورت میں کسی ایک مقام میں بھی غیر اسرائیلی کے لئے کہیں استعمال نہیں ہوا اور نہ ہوسکتا ہے۔کیونکہ یہ اصطلاح بطور معہودِ ذہنی کے بنی اسرائيل اور صرف بنی اسرائيل کے لئے استعمال ہوئی ہے۔مثال کے طورپر ملاحظہ ہو:

(۱) وہ جو اپنے بھائیوں میں سردار کاہن ہے (احبار ۲۱: ۲۰) کوئی غیر اسرائيلی کاہن یا سردار کاہن نہیں ہوسکتا ۔

(۲) ایک اسرائيلی آیا اور اپنے بھائیوں کے پاس ایک مدیانی عورت لایا(گنتی ۲۵: ۶)۔

(۳) میں نے تمہارے قاضیوں سے تاکید کی تمہارے بھائیوں میں جو مقدمہ ہو اسے سنو(استثنا ۱: ۱۶)۔

(۴) ہمارے بھائیوں نے تو ہم کو بیدل کردیا(استثنا ۱: ۲۸)۔

(۵) تم سب جنگی مرد مسلح ہوکر اپنے بھائيوں بنی اسرائيل کے آگے آگے پارچلو۔۔۔۔۔۔۔ جب تک خداوند تمہارے بھائیوں کو چین بخشے (استثنا ۳: ۱۸تا ۲۰)۔

(۶) لاوی کا حصہ اورمیراث اس کے بھائیوں کے ساتھ نہیں (استثنا ۱۰: ۹)۔

(۷) اس کا دل اس کے بھائیوں پر گھمنڈ نہ کرے(استثنا ۱۷: ۲۰)۔

(۸) ان کی میراث ان کے بھائیوں کےساتھ نہ ہوگی (استثنا ۱۸: ۳)۔

(۹) تو اپنے بھائیوں میں سے کسی کو اپنے اوپربادشاہ مقرر کرنا اورکسی اجنبی کو جو تیرا بھائی نہیں اپنے اوپر بادشاہ قائم نہ کرنا۔ اس کے دل میں غرور نہ ہو کہ وہ اپنے بھائیوں کو حقیر جانے (استثنا ۱۷: ۱۵تا ۲۰)۔

(۱۰) اگرتمہارے درمیان تمہارے بھائیوں میں سے کوئی مفلس ہو(استثنا ۱۵: ۷) بجنسہ (ایسے ہی)یہی الفاظ آیات ِ زیر بحث میں وارد ہوئے ہیں پس ان دونوں مقاما ت کی صحیح اصول ِ تفسیر کے مطابق تاویل بھی ایک ہی ہونی چاہیے۔

آیت نمبر ۹کے الفاظ قابل غور ہیں۔ اس آیت میں وضاحت کے ساتھ تمام دنیا کے لوگوں کی دوحصوں میں تفریق کی گئی ہے ۔ یعنی "بھائی" اور" اجنبی " ۔ بنی اسرائيل "بھائی " ہیں اور کل غیر اسرائيلی " ا جنبی" ہیں۔ کوئی " اجنبی" یعنی غیر اسرائيلی قوم اسرائيل پر حکمران نہیں ہوسکتا اورنہ ان کا کاہن یا سردار کاہن ہوسکتاہے ۔ "بھائی "اور "اجنبی " کی یہ تفریق تورات شریف کے دیگر مقامات میں بھی موجود ہے۔ مثلاً تو اپنے بھائیوں کو سود پر قرض نہ دینا تو اجنبی کو سودی قرضہ دے سکتا ہے "(استثنا ۲۳: ۱۹تا ۲۰ نیز دیکھو ۲۴: ۱۴؛ احبار ۲۰: ۱ وغيرہ)۔

اگر جملہ" اپنے بھائیوں" سے مراد بنی اسماعیل ہیں تو ہمارے مخاطب ہی بتلادیں کہ کب بنی اسرائيل نے بنی اسماعیل کے کسی شخص کو اپنا بادشاہ بنایا؟ اورکب خدا نے بنی اسماعیل میں سے کسی کو ان پر بادشاہ مقرر کیا؟یا کب بنی اسرائيل نے کسی بنی اسماعیلی کو اپنا کاہن یا سردار کاہن بنایا؟ یا بنی اسرائيل کے قاضیوں نے بنی اسمعیلیوں کے مقدمات کی سماعت کی ؟ یا کب بنی اسرائیل مسلح ہوکر چلے تاکہ بنی اسماعیل کو چین نصیب ہو؟ وغیرہ وغیرہ۔ مذکورہ بالا آیات نمبر ۹کے حکم کے مطابق حضرت سموئیل نبی نے پہلا بادشاہ جب ممسوح کیا تووہ نہ تو بنی اسماعیل سے تھا اور نہ بنی ادوم میں سے تھا اورنہ کسی ایسی قوم میں سے تھا جس کے آباواجداد کا اوراسرائيل کے آباواجداد کا قدیم زمانہ میں خونی رشتہ رہ چکا تھا بلکہ بنی اسرائيل کا پہلابادشاہ بنیامین کے قبیلہ سے شاؤل بن قیس تھا(۱۔سموئیل ۱۰: ۲۰تا ۲۴)۔

قرآن میں بھی یہی لفظ" اخی" بمعنی بھائی خاص اسی قوم کے معنوں میں وارد ہوا ہے۔ چنانچہ (سورہ اعراف )میں آیا ہے

وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا قَالَ يَا قَوْمِ

یعنی " مدیان کی طرف بھیجا ان کا بھائی شعیب جس نے کہا اے میری قوم "

اس آیت میں شعیب اپنے قبیلہ کو" اے میری قوم" کہہ کر مخاطب کرتاہے پس قرآنی لفظ اخاھم (ان کا بھائی ) تورات کے لفظ اخی ھم کی تفسیر ہے اور تورات کے محاورہ اور اصطلاح کی مصدق ہے۔

مولوی صاحب کا دعویٰ کہ " توریت مقدس میں جہاں لفظ "بھائی"بنی اسرائيل کے حق میں بولا یا گیا ہے وہاں اس کے ساتھ لفظ" بنی اسرائیل " کی بھی قید آئی ہے"۔ تورات شریف اور قرآن مجید دونوں کی رو سے غلط ہے۔ ہاں، تورات شریف کے بعض مقامات میں لفظ" بھائیوں" کے ساتھ " بنی اسرائیل" کا لفظ توضیح اورتاکید کی خاطر ایزاد کردیا گیا ہے مثلاً مذکورہ بالاآیات میں نمبر ۵آیت یااحبار کی کتاب کی آیت " لیکن بنی اسرائیل جوتمہارے بھائی ہیں ان میں سے کسی پر تم سختی سے حکمرانی نہ کرنا"(۲۵: ۴۶)۔ ان اور تمام دیگر آیات میں صرف تاکید اور وضاحت کی خاطر لفظ" بنی اسرائیل" ایزاد کیا گیا ہے۔

تورات شریف کا مطالعہ یہ امر بھی واضح کردیتاہے کہ اگرکسی مقام پر آبائی نسل کے لحاظ سے کبھی کسی غیر اسرائیلی " کو بھائی" کہنے کی ضرورت لاحق ہوئی تو فوراً اس خاص قوم کا نام بھی ساتھ ہی لکھ دیا تاکہ اس عام اصطلاح اورمشہور محاورہ میں سرے سے غلط فہمی کا امکان اوراحتمال مٹ جائے۔(مثلاً ملاحظہ ہو:

(۱) تو کسی ادومی سے نفرت نہ رکھنا کیونکہ وہ تیرا بھائی ہے(استثنا ۲۳: ۷؛ دیکھو پیدائش ۲۵: ۲۴تا ۲۶)۔

(۲) تم کو بنی عیسو تمہارے بھائی جو شعیر میں رہتے ہیں ان کی سرحد کے پاس سے ہوکر جانا ہے(استثنا ۲: ۴)۔

(۳) ہم اپنے بھائیوں بنی عیسو کے پاس جو شعیر میں رہتے ہیں گذر گئے (استثنا ۲: ۸) وغیرہ۔

پس کتاب ِ مقدس کا مطالعہ یہ ثابت کردیتاہے کہ مجرد(تنہا) اصطلاح "بھائی"

"بھائیوں" وغیرہ سے مراد قوم بنی اسرائيل کےقبائل مراد ہیں اور کہ یہ اصطلاح بنی اسرائيل اور صرف بنی اسرائيل کے لئے ہی مخصوص ہے۔

کیا بنی اسرائيل اور بنی اسماعیل " بھائی " ہیں؟

ہم ایک اورامر اپنے مخاطب کے گوش گذار کرنا مناسب سمجھتے ہیں۔ تمام تورات کو چھان مارو، تم کو کسی ایک مقام میں بھی لفظ" بھائی" اور بنی اسماعیل" ایک جگہ نہیں ملیں گے جس طرح اوپر کی آیات میں لفظ" بھائی" ادومی اور بنی عیسو کے ساتھ آبائی نسل کے لحاظ سے ایک جاوارد ہوا ہے۔ کیا یہ امر حیرت کا موجب نہیں کہ تورات چھوڑ تمام عبرانی کتب مقدسہ کے مجموعہ میں کسی ایک جگہ بھی بنی اسماعیل کو بنی اسرائيل کا بھائی نہیں کہا گیا؟ اوریہ ایک واضح اور مسلمہ حقیقت ہے کہ بنی اسرائيل آج تک بنی اسماعیل کو " غیر قوم" ہی جانتے اور گرادنتے چلے آئے ہیں۔

اندریں حالات کس صحیح اصول ِ تفسیر کے مطابق ہمارے مخاطب لفظ" بھائیوں" کا اطلاق بنی اسماعیل پر کرسکتے ہیں ؟

اگر بفرض ِ محال ہم ایک لمحہ کے لئے یہ تسلیم بھی کرلیں کہ لفظ "بھائیوں" سے غیر اسرائیلی مراد ہوسکتے ہیں تو ان اسلامی مناظرین کی تفسیر کے مطابق اس لفظ کا اطلاق قوم بنی آدم پر ہوگا لیکن قوم بنی اسماعیل پر نہیں ہوگا۔ کیونکہ حضرت اسماعیل حضرت اسرائیل (یعقوب ) کے بھائی نہیں تھے بلکہ سوتیلے چچا تھے۔ لیکن حضرت عیسو حضرت اسرائيل کے حقیقی بھائی تھے(پیدائش۲۵: ۲۴تا ۲۶ )پس ان مناظرین کی من گھڑت تاویل کے مطابق نبی " معہود کو بنی اسماعیل سے نہیں بلکہ بنی ادوم سے ہونا چاہیے !۔

ہمارے مخاطب کو یہ بات ہرگز فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ اگر بفرض محال بنی اسماعیل کسی معنی میں بنی اسرائیل کے بھائی کہلائے جاسکتے ہیں تو بنی اسرائيل کے بارہ (۱۲)قبیلے بوجہ احسن ایک دوسرے کے بھائی کہلائے جانے کے مستحق ہیں اوریہی وجہ ہے کہ جیسا کہ ہم سطور بالا میں بتلا چکے ہیں۔ یہ اصطلاح بنی اسرائیل کے بارہ قبائل سے مخصوص تھی۔ ہم اس نکتہ کو ایک عام مثال سے واضح کردیتے ہیں۔ فرض کروکہ کوئی حاکم کسی شخص کو کہے کہ میں فلاں ملازمت " تمہارے بھائیوں میں سے " کسی کو دینا چاہتا ہوں کہ تو کون شوریدہ سر یہ سمجھے گا کہ اس کے اپنے بھائی تو حاکم کے حکم سے خارج ہیں اور ملازمت اس کے اپنے بھائیوں میں سے کسی کو نہیں دی جائے گی بلکہ اس کے سوتیلے چچا کی اولاد میں سے کسی کو ملیگی۔ لیکن ہمارے مخاطب کی مضحکہ خیز دلیل کا یہی تقاضا ہے کہ نبوت کا عہدہ بنی اسرائيل کے قبائل کو چھوڑ کر بنی اسماعیل کے کسی قبیلہ کی اولاد کے کسی فرد کوملے ۔ لیکن نہ صرف عقل سلیم ہمارے مخاطب کے خلاف ہے بلکہ جیسا ہم ثابت کرچکے ہیں نقل بھی اس کے خلاف ہے اور خود قرآن (اعراف آیت ۸۳) اس کی تاویل کے خلاف فتویٰ دیتاہے۔

پس تورات شریف ، قرآن مجید اورعقل سلیم سب کےسب ہماری تاویل کی مصدق ومعاون ہیں کیونکہ وہ صحف ِ سماوی کے صحیح اصول ِ تفسیر پر مبنی ہے۔

حضرت محمد کانسب نامہ

ہم باب ِ دوم میں ثابت کرچکے ہیں کہ زیر بحث آیات میں کسی خاص شخص کی آمد کی پیش خبری موجود نہیں ہے لیکن اگرہم اپنے مخاطب کی پاس خاطر بفرض ِ محال ایک لمحہ کے لئے یہ مان بھی لیں کہ اس مقام میں کسی خاص نبی کی آمد کی بشارت دی گئی ہے اورمولوی صاحب کی دلیل کو ایک منٹ کے لئے سچ فرض کرلیں کہ یہ پیش گوئی بنی اسماعیل کے حق میں ہے تاہم مولوی صاحب کا دعویٰ نبوت ِ محمد یہ باطل ٹھہرتاہے کیونکہ مولوی صاحب کی مفروضہ دلیل صرف اس حالت میں ان آیات سے نبوت ِمحمدیہ ثابت کرسکتی ہے جب کہ وہ پہلے محمد عربی کو ایسی یقینی اور مضبوط تاریخی شہادت سے بنی اسماعیل ثابت کردیں جس کو ان کے مخالف بھی چاروناچار تسلیم کرلیں۔ لیکن اگر وہ آنحضرت کا نسب نامہ حضرت اسماعیل تک نہ پہنچاسکیں تو ان آیات سے حضرت محمد صاحب کی نبوت ثابت نہیں ہوسکتی کیونکہ اس دلیل کا تمام دارومدار آنحضرت کے صحیح نسب نامہ پر ہے نہ کسی اوربات پر ۔ کوئی شخص چاہے وہ کیسا ہی بڑا نبی کیوں نہ ہو اس " پیش گوئی " کا مصداق نہیں ہوسکتا۔تاوقتیکہ یہ ثابت نہ ہوجائے کہ وہ بنی اسرائيل کے " بھائیوں میں سے" ہے۔

ہمارے مخاطب خوب جانتے ہیں کہ عیسائی حضرت محمد عربی کو حضرت اسماعیل کی اولاد نہیں جانتے۔ مولوی صاحب اس امر کو ثابت کرنے سے گریز کرنے کے لئے الزامی ہتھیار (جومیدان ِ تحقیق میں محض بےکار ہے) کام میں لاتے ہیں۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ

" بعض عیسايئوں نے اپنی تصنیف میں نسب نامہ کے بارے میں اعتراض کئے ہیں کہ مسلمانوں کو حضرت محمد کا نسب نامہ حضرت اسماعیل ضرور ثابت کرنا چاہیے۔ اس لئے میں ان کے جواب میں لکھتا ہوں کہ اگر نسب نامہ کاہونا دلیل برسالت ہے تو پہلے عیسائيوں کو حضرت مریم کاسلسلہ نسل داؤد تک تو ثابت کرنا چاہیے "

(صفحہ ۴۶)۔

بھلا یہ کیا جواب ہے؟ اس جواب سے حضرت محمد عربی کا نسب نامہ حضر ت اسماعیل تک توثابت نہ ہوگیا !۔اور یہ کس نے اورکب اورکہاں کہاہے کہ " نسب نامہ کاہونا دلیل برسالت ہے"؟ ہم تو صرف یہ عرض کرتے ہیں کہ اس مفروضہ پیش گوئی کے مصداق ہونے کے لئے آنحضرت کے صحیح نسب نامہ کی ضرورت ہے ۔ جونبی آپ کی پیش کردہ آیات کا مصداق ہے اس کا نسب نامہ ضرور اس انتہا تک ہونا چاہیے جس سے وہ بنی اسرائيل "کے بھائیوں میں " شامل ہوسکے۔ آپ عیسائيوں کو ناحق الزام دیتے ہیں اورالزام بھی بے ٹھکانے۔ بھلا مسیح کے اس آیت کے مصداق ہونے کے لئے کیا ضرور ہے کہ بی بی مریم صدیقہ کوہم از نسل ِ داؤد ثابت کریں ؟ کیا ہمارے مخاطب نہیں جانتے کہ عیسائیوں او ریہودیوں دونوں کا اس امر پراتفاق ہے کہ الفاظ " ان کے بھائیوں" سے مراد بنی اسرائيل ہیں ۔ او رکیا صحیح العقل شخص نے کبھی انکار کیا ہے کہ حضرت عیسیٰ ناصری بنی اسرائيل سے تھے؟

پس اگربفرض ِ محال ہم مان بھی لیں کہ الفاظ" تیرے بھائیوں" سے مراد بنی اسماعیل ہی ہیں تو بھی آنحضرت ان آیات کے مصداق نہیں ہوسکتے کیونکہ محمد عربی کا نسب نامہ آپ کو اولاد ِ اسماعیل ثابت ہی نہیں کرسکتا۔ ہمارے مخاطب اس اعتراض کاجواب نہیں دے سکتے آنحضرت کاکوئی صحیح نسب نامہ موجود نہیں ہے۔

صحیح بخاری (باب مبعث النبی ) میں سلسلہ نسب یوں دیا گیا ہے۔

"محمد بن عبدالله بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبدمناف بن عبیٰ بن کلاب بن مرة بن کعب بن لوے بن غالب بن فہر بن مالک بن نفربن کنانہ بن خزیمہ بن مدیر کہ بن الیاس بن مفر نزاربن معد بن عدنان"۔

لیکن اولاً ان ناموں کی صحت اور شجر ہ کے اصل ہونے کی کیا دلیل ہے؟

دوم۔ اگر ہم مولوی صاحب کی پاس خاطر اس نسب نامہ کو صحیح مان بھی لیں تو اس بات کا کیا علاج کہ آنحضرت نے خود نہایت صاف الفاظ میں فرمادیا کہ کذب النسا بون الیٰ مافوق عدنان (واقدی )یعنی عدنان سے آگے میرا نسب بیان کرنے والے جھوٹے ہیں ۔ چنانچہ مسعودی بھی کہتاہے کہ

"نبی نےمنع کردیاکہ کوئی میرے سلسلہ نسب کو معدبن عدنان سے آگے بیان نہ کرے"۔

بیہقی اپنے پیر ابوعبدالله کاقول بیان کرتاہے کہ

’’اس نے کہا کہ رسول الله کا نسب نامہ عدنان تک تو معتبر ہے مگر اس کے آگے کوئی صحیح سند نہیں ملتی ‘‘۔

سرسید احمد بھی لکھتے ہیں کہ

’’ آنحضرت کے نسب نامہ کی نسبت کوئی صحیح حدیث موجود نہیں تمام روایتیں محض غلط اوربے سند ہیں اور ذرا بھی اعتبار کے لائق نہیں‘‘۔

(خطبہ نہم صفحہ ۵۵۷، ۵۵۹)۔

پس اگر رعایتاً اس نسب نامہ کو صحیح مان بھی لیا جائے تو ہم کو صرف اکیس (۲۱)نام ملتے ہیں ۔ اگراس سلسلہ میں فرزند کی پیدائش کے وقت ہر بزرگ کی اوسط عمر تیس (۳۰)سال ہو تو عدنان تک صرف( ۶۳۰) چھ سو تیس سال ہوئے ۔ حضرت محمد( ۵۷۰ء )میں پیدا ہوئے ۔ عدنان کا زمانہ قبل مسیح پہلی صدی ہوا ۔ حضرت ابراہیم مسیح سے دوہزار سال سے بھی پہلے تھے پس اس حساب سے کم از کم دوہزار سال تک آنحضرت کا صحیح نسب نامہ مفقود ہے۔چنانچہ سرسید مرحوم کو اقبال ہے کہ

’’ مورخین کو نسب نامہ کی تحقیق میں مجبوری ہوئی تو انہوں نے اپنی کتابوں کو رونق دینے کے لئے جھوٹی روایتیں خود گھڑ لیں یا افوہاً سنی سنائی اپنے مطلب کے موافق سمجھ کر بلا تحقیق مندرج کرلیں۔ اول تو نسب ناموں کو اسماعیل تک سمجھنا غلطی ہے۔ دوسرے یہ نسب نامے خود بھی غلط ہیں ‘‘۔

(خطبہ نہم)۔

سرسید کے مطابق دونوں ولادتوں میں چوبیس سو چھہتیر(۲۴۷۶) برس کا فاصلہ ہے اور اسماعیل سے (ستر ۷۰) پشتیں گذرتی ہیں

(خطبات صفحہ ۵۶۳)۔

ہم حیران ہیں کہ ہمارے مسلمان بھائی کس طرح بلادلیل حضرت محمد کو فرزند ِ اسماعیل گردان سکتے ہیں ؟ اور اگر وہ خود بلادلیل اس مفروضہ کو مان لیں لیکن تورات وانجیل والوں کے روبرو تورات شریف کی بناء پر وہ آپ کو کس طرح بنی اسماعیل ثابت کرسکتے ہیں ؟ اور اگر یہ ثابت کربھی سکیں تو وہ کس دلیل سے محمدعربی کو آیات زیر بحث کے تحت لاکر آپ کی نبوت ثابت کرسکتے ہیں ؟ کیونکہ جہان میں چاہے کوئی نبی تورات شریف کو ان آیات کا مصداق ہولیکن حضرت محمد عربی ان کے مصداق نہیں ہوسکتے۔

فصل دوم

الفاظ " تیرے ہی درمیان سے " کا مفہوم

آیات زیر بحث میں آیا ہے " خداوند تیرا خدا تیرے لئے تیرے ہی درمیان سے تیرے بھائیوں میں سے میری مانند نبی برپا کرتا رہے گا تم اس کی سننا"(استثنا ۱۸: ۱۵)۔

الفاظ توضیحی ہیں

گذشتہ فصل میں ہم بتلاچکے ہیں کہ الفاظ تیرے بھائیوں میں سے " (جو اس آیہ زير بحث میں وارد ہوئے ہیں )کا مطلب قبائل بنی اسرائيل ہے جس سے خدا اپنے کرم وفضل سے قوم کی ہدایت کے لئے نبی برپا کرتا رہے گا ۔ اس آیہ شریفہ میں مزید تاکید اور توضیح کے الفاظ " تیرے ہی درمیان سے " استعمال ہوئے ہیں تاکہ بنی اسرائيل کے ہر کہ دمہ پرظاہر ہوجائے کہ یہ مامو من الله انبیاء مشرکانہ اقوام میں سے نہیں ہوں گے جن سے فالگیر اور شگون نکالنے والے، افسون گیر ، جادوگیر ، منتر پڑھنے والے ۔ جنات کے آشنا۔ رمال (جوتشی ،نجومی)اور ارواح کے تسخیر کرنے والے پیدا ہوتے تھے (آیت ۱۴۔ یسعیاہ ۲: ۶ وغیرہ) بلکہ خدا کے یہ فرستادے انبیاء الله ہوں گے جو بنی اسرائيل کے قبائل میں سے اور خاص قوم یہود کے درمیان سے ہی پیدا ہوں گے۔

اگر الفاظ " تیرے ہی درمیان سے " متن میں نہ بھی ہوتے (جس طرح وہ آیت ۱۸ میں وارد نہیں ہوئے ) تو اصطلاح " تیرے بھائیوں میں سے " کے عام رواج کی وجہ سے تعین مطلب ومفہوم میں ایک ذرہ بھر فرق نہ پڑتا۔ پس جملہ" تیرے ہی درمیان سے " محض تاکید یہ ہے اس کا ہونا " تیرے بھائیوں" پر زیادہ زوردیتا ہے گو اس کا نہ ہونا اصطلاح کے اصل معنوں کو کوئی وسعت نہیں دیتا۔ دونوں جملے" تیرے بھائیوں میں سے " اور" تیرے ہی درمیان سے " بالکل ہم معنی اور مترادف ہیں۔ چنانچہ جیسا ہم گذشتہ فصل میں ذکر کرآئے ہیں ۔ بجنسہ یہ محاورہ اس معنی میں اسی کتاب( استثنا ۱۵: ۷ )میں آیا ہے " اگر تمہارے درمیان تمہارے بھائيوں میں سے کوئی مفلس ہو"۔

الفاظ کی صحت اور اصلیت

آیہ زیر بحث میں جملہ" تیرے ہی درمیان " سے اس طورپر وارد ہواہے کہ کوئی ناواقف شخص بھی جو اصطلاح تورات کو نہ جانتا ہو "تیرے بھائیوں" کو کسی غیر اسرائیلی پر چسپاں کرنے سے قطعی رک جاتا ہے۔ اس لئے مولوی صاحب جملہ" تیرے ہی درمیان سے " کی اصلیت پر شبہ کرکے اپنی خود ساختہ تاویل کو چند قدم چلانے کے واسطے ان الفاظ کو متن سے خارج کرنا چاہتے ہیں مگر ہم کھلاچکے ہیں کہ یہ جملہ متن میں ہویا نہ ہو جملہ "تمہارے بھائیوں میں سے " کا مفہوم کسی طرح متنازعہ ہو کر کسی غیر اسرائيلی پر چسپاں نہیں ہوسکتا۔

لیکن الفاظ" تیرے ہی درمیان سے " کی صحت واصلیت کی نسب بھی ہم مولوی صاحب کا اطمینان کردینا چاہتے ہیں ۔ مولوی صاحب ( استثنا۱۸: ۱۵تا ۱۸)۔ کی عبارت کی نسبت فرماتے ہیں : "حضرت موسیٰ اور خداوند تعالیٰ کے کلام میں دو اختلاف پائے جاتے ہیں ۔ خدا کے کلام میں ضمیر جمع غائب ہے اور موسیٰ کے کلام میں ضمیر واحد مخاطب ۔خدا کے کلام میں" تیرے درمیان " کا جملہ نہیں ہے۔ موسیٰ کے کلام میں " تیرے درمیان" کا جملہ ہے"۔ جواباً عرض ہے کہ حضرت موسیٰ خدا کے کلام کے ملہم مفسر تھے۔ (استثنا۱۸: ۱۵ ) میں انہوں نے اس طور سے خدا کاکلام بنی اسرائيل سے بیان کیا جس طور کے خدا نے ان سے بنی اسرائيل کی نسبت فرمایا تھا اورپھر انہوں نے بنی اسرائیل کو اس طور سے سمجھایا جس طور وہ خود اس کو سمجھے اورمولوی صاحب کو بھی اسی طرح سمجھنا چاہیے جس طرح کہ حضرت موسیٰ خود سمجھتے تھے۔

اگر مولوی صاحب کو صرف لفظ کی نسبت اصرار ہے تو وہ اس رسالہ کے ورق پلٹ کر باب سوم کے شروع میں عبرانی عبارت کو ملاحظہ کرکے اپنی تسلی کرسکتے ہیں کہ لفظ" مقرب" دونوں جگہ وارد ہواہے جس کے معنی" درمیان" کے ہیں۔ (استثنا۱۸: ۱۸ ) میں عبارت کا ترجمہ ہے " ان کے بھائیوں کے درمیان سے " اور آیت ۱۵میں چونکہ عبرانی لفظ" مے" بمعنی سے" موجود ہے لہٰذا عبارت کا ترجمہ تیرے بھائیوں میں سے "تیرے درمیان سے "ہوا۔ پس لفظ" درمیان" دونوں جگہ موجود ہے۔

لیکن مولوی صاحب کہتے ہیں کہ "ہم کو اس جملہ" تیرے درمیان سے" پر کلام ہے کہ صحیح ہے یا نہیں ۔ اس کے غلط ہونے کے بارے میں تین(۳) دلائل ذیل میں لکھے جاتے ہیں

(۱) پطرس حواری نے اس موسیٰ والے فقرے کو اپنی تصنیف میں نقل کیا ہے۔ اس میں بھی یہ جملہ" تیرے درمیان" نہیں ہے۔ (اعمال ۳: ۲۲) میں ہے " موسیٰ نے کہا خداوند خدا تمہارے بھائیوں میں سے تمہارے لئے مجھ سا نبی پیدا کرے گا تم اس کی سننا"

(۲) استفنس حواری نے بھی موسیٰ والے فقرے کو اپنی تصنیف میں نقل کیا ہے۔اس میں بھی یہ جملہ" تیرے درمیان" کا نہیں ہے (اعمال ۷: ۲۷) ۔

(۳) توریت مقدس کا سب سے پرانا ترجمہ یونانی سپٹواجنٹ کہلاتاہے اس میں بھی پندرھویں آیت کے ترجمہ میں یہ جملہ" تیرے درمیان" کا نہیں ہے ۔ اب خیال کرنا چاہیے کہ یونانی ترجمہ ایک پرانا اور معتبر ترجمہ ہے۔ اس سے صاف ثابت ہے کہ مسیح سے تقریباً تین سو(۳۰۰) برس پیشتر تک یہ فقرہ توریت میں داخل نہیں ہوا تھا۔ اس ترجمہ کی مختصر کیفیت امتیاز وصحت کی یہ ہے کہ دو سوچھیاسی(۲۸۶) برس قبل مسیح کے سکندریہ میں یہودی ربیوں کی صدرجماعت کے ستر (۷۰)آدمیوں کی شرکت واہتمام سے یہ ترجمہ ہوا تھا او رمدت تک اہل کتاب کی یہ رائے تھی کہ یہ ترجمہ الہٰام سے ہوا ہے۔ حواریوں نے اپنی تصنیفات میں اکثر اسی ترجمہ سے نقل اوراقتباس کیاہے بلکہ اصل عبری کی مخالفت کرکے اس کو ترجیح دی ہے"

(صفحہ ۹۰۸)۔

جواباً عر ض ہے کہ :۔

جناب مولوی صاحب کی یہ تین(۳) دلیلیں دراصل ایک ہی دلیل ہے نہ کہ تین(۳) ۔ جس کا مقصد صرف یہ ہے کہ سپٹواجنٹ یونانی ترجمہ میں الفاظ " تیرے درمیان سے" نہیں ہیں۔ پہلی دو(۲)دلیلیں یعنی مقدس پطرس اور مقدس استفنس کے اقتباسات جدادلیلیں اس لیے متصور نہیں ہوسکتیں کیونکہ وہ اقتباسات ، عبرانی تورات کے الگ الگ ترجموں کے نہیں ہیں بلکہ دونوں اقتباسات یونانی ترجمہ ’’سپٹواجنٹ‘‘ کے ہی ہیں جو زبانی تقریروں میں ( نہ کہ الگ تصنیفات میں!) حافظے سے کئے گئے تھے ۔آنخداوند کے رسولوں کو یونانی میں لکھنا پڑا تھا اورچونکہ یونانی ترجمہ مقبول اہل ِیہود یہی ’’سپٹواجنٹ‘‘ تھا۔ پس انہو ں نے یہود کے مقابل یونانی کا وہی ترجمہ پیش کیا جس کے وہ خود معتقد تھے۔ پس یہی وجہ ہے کہ " حواریوں نے اپنی تصنیفات میں اکثر اس ترجمہ سے نقل اور اقتباس کیا ہے" ۔حواریوں کویونانی میں کوئی نیا ترجمہ پیش کرنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔

سپٹواجنٹ کی حقیقت

مولوی صاحب کی دلیل میں بڑا سقم(خرابی ،بیماری) یہ ہے کہ انہو ں نے یہ فرض کرلیاہے کہ یونانی ترجمہ نہ صرف صحیح ہے بلکہ یہ بھی کہ وہ لفظی ترجمہ ہے۔ حتیٰ کہ اگرکسی عبرانی لفظ کے لئے یونانی لفظ ترجمہ میں نہ ہو تو یہ گمان کرنا چاہیے کہ وہ لفظ اصل عبرانی میں تھا ہی نہیں۔ مگر یہ مفروضه بالکل باطل ہے ۔ ہم ناظرین کی توجہ اپنے رسالہ" صحت ِ کتب مقدسہ " کی طرف مبذول کرتے ہیں۔ جہاں اس ترجمہ کی اصل اہمیت کا بیان کیا ہے جس سے ظاہر ہوجاتاہے کہ یہ یونانی ترجمہ نہ تو اس صحت وپایہ کا ہے اور نہ وہ لفظی ترجمہ ہے ، ایسا کہ ہر عبرانی لفظ کے لئے یونانی لفظ استعمال ہوا ہو۔ حقیقت میں یہ ترجمہ مراد ی نفس مضمون کو ادا کرتاہے اوراس کے یونانی ترجمہ میں اکثر مقامات پر اصل عبرانی متن کو توضیح اور تشریح کی خاطر الفاظ اور فقرے زائد کئے گئے ہیں اوربہت سے الفاظ جوبطور مترادف محض حسن ِ عبارت ِ عبرانی کے آئے ہیں۔ لیکن مضمون فہمی میں ممدومعاون نہیں ہیں وہ بالکل یونانی ترجمہ میں چھوڑدئيے گئے ہیں۔ یعنی یونانی ترجمہ قرآن کے بعض اردو ترجموں کی مانند افراطِ تفریط (کثرت اور کمی)سے خالی نہیں۔ خود مولوی صاحب کے اس جملہ سے کہ " حواریوں نے اکثر عبری سے مخالفت کرکے اس ترجمہ کو ترجیح دی ہے" یہی مستنبط(اخذکیا گیا) ہوتاہے کہ یہ ترجمہ بعض مقامات میں اصل عبری کے خلاف ہے ۔پس اس کے اعتبار پر عبرانی متن پر شبہ نہیں ہوسکتا بالخصوص اس جگہ کیونکہ اس کی اصل شکل میں جملہ "تیرے ہی درمیان سے" کو یونانی ترجمہ میں لفظی نہیں محض اس غرض سے ترک کردیا ہے کہ وہ جملہ مترادف " تیرے ہی بھائیوں میں سے " کا تھا۔ خود مترجم کے نزدیک ترجمہ کے اغراض کے لئے ضروری نہیں تھا۔

اب رہی وہ روایتی تعظیم جو اس پرانے ترجمے کی ہوتی آئی تھی۔ وہ بھی کوئی مستحکم بنیاد نہیں رکھتی۔ اس تعظیم کی اصل وجہ یہ تھی کہ یونانی یعنی عام زبان میں وہ سب سے پہلا ترجمہ تھا جس طرح حضرت شاہ عبد القادر کا ترجمہ قرآن اردو کا پہلا ترجمہ تھا جو ۱۷۹۰ء میں کیا گیا تھا۔ اس یونانی ترجمہ کے مقابل اورکوئی ترجمہ موجود نہیں تھا۔ لوگوں میں جو عبرانی سے عموماً ناواقف تھے اس کا رواج ہوا اوراس رواج نے اس کی تعظیم بڑھادی۔ اورمابعد اس تعظیم میں اضافہ ہوا اورپھر مبالغہ ہوا حتیٰ کہ اس کے لئے قصے گھڑے گئے۔ چنانچہ یہ روایت کہ ستر (۷۰) جید علماء نے سترروز میں الہٰام سے اس کا ترجمہ کیا محض خام خیالی ہے اور خوش اعتقادی کی محض ایک مثال ہے۔کیونکہ ہمارے مخاطب بھی مترجمین کے الہٰام کےقائل نہیں ہوں گے ۔ ایسی روائتیں اس کی نسبت مبالغہ ظاہر کرتی ہیں۔ چنانچہ جب تحقیق کی گئی تو خام خیالی ختم ہوگئی اور اصلیت سے آگاہی ہوئی اور ترجمہ کی اصل حقیقت اوراہمیت سب پر واضح ہوگی ۔

پس مولوی صاحب کی تین دلیلوں والی دلیل دراصل ان کے دعویٰ کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے۔ اس سے عبرانی متن کے اس فقرہ کی زیر بحث کی صحت اوراصلیت پر کوئی شبہ نہیں پڑسکتا۔

ہم معترض سے پوچھتے ہیں کہ اگر بالفرض ِ محال یہ فقرہ " تیرے ہی " درمیان سے " اصل عبرانی میں موجود نہ تھا تو بعد میں کیسے آیا؟ کیونکہ کوئی عبرانی نسخہ ایسا نہیں جس میں یہ جملہ آیت ۱۵ میں نہ ہو جس سے ظاہر ہے کہ یہ فقرہ وہاں ہمیشہ موجود تھا۔ ہاں اگر ہمارے مخاطب اس کا پتہ بتادیں کہ بعد ظہور حضرت محمد صاحب یہ فقرہ توریت شریف میں بڑھ گیا لیکن قبل ظہور نہ تھا تو اس قسم کی مضحکہ خیز بات ان کے جاہل ہم خیال مان لینے کو تیار ہوجائیں گے کہ یہودیوں اور عیسائیوں نے ایکا کرکے آنحضرت کو ابراہیمی ترکہ نبوت سے محروم کرنے کی غرض سے ایسا کیا ہوگا۔ لیکن پھر وہ اس بات کا کیا جواب دیں گے کہ حضرت محمد کی پیدائش سے صدیوں پہلے سب نسخہ جات عبرانی میں یہ فقره" تیرے ہی درمیان سے " پایا جاتا ہے ۔ علاوہ اس جیسا ہم ثابت کرچکے ہیں کہ مجرد اً جملہ تمہارے بھائیوں میں سے " بلاشرکت جملہ تیرے ہی درمیان سے" نبی موعود کو اسرائيلی ثابت کرتاہے۔

دیگر قدیم ترجموں میں ان الفاظ کی موجودگی

جیسا ہم اوپر بتلاچکے ہیں کہ ہر قدیم عبرانی نسخہ میں جملہ"تیرے ہی درمیان " کا موجود ہونا اس کی صحت اوراصلیت کو ثابت کررہا ہے کیونکہ اصل متن عبرانی ہے جس پر کسی قدیم یا جدید ترجمہ کا اختلاف شبہ نہیں ڈال سکتا۔ لیکن اپنے مخاطب کی تشفی کی یہ جملہ اصل عبرانی کے مطابق بلکہ لفظاً مطابق ہیں جن میں یہ جملہ موجود ہے۔یہ سب ترجمے آنحضرت کے ظہور سے صدیوں پیشتر کے ہیں۔ چنانچہ ہم مولوی صاحب کی تین دلیلوں کی رعایت میں (جو ایک ہی یونانی ترجمہ سپٹواجنٹ پر مبنی ہیں ) اپنی تین دلیلیں تین مختلف ترجموں سے اور مختلف قسموں کے ترجموں سے اور مختلف زمانوں اور مختلف زبانوں کے ترجموں سے پیش کرتے ہیں ۔

کلدی تارگم انکلوس

پہلی قسم کا ترجمہ مشہور کلدی تارگم انکلوس سیدنا مسیح کے زمانہ میں رائج تھا۔ تورات شریف کا یہ ترجمہ مستند اور صحیح لفظی ترجمہ ہے جو یہود میں ایسی تعظیم سے دیکھا جاتا تھا کہ سولہویں (۱۶)صدی تک برابر عبرانی متن کے ساتھ ساتھ یہودی عبادت گاہوں میں پڑھا جاتا تھا۔ اس ترجمہ میں یہ آیت لفظ بلفظ عبرانی متن کے مطابق ہے اورجملہ " تیرے ہی درمیان سے " اس میں موجود ہے اورظاہر کررہاہے کہ عبرانی متن میں یہ الفاظ مابعد داخل نہیں ہوئے بلکہ ہمیشہ عبرانی متن کا حصہ تھے۔

سپٹواجنٹ کی تعظیم اس تارگم کے برابر کبھی بھی نہیں کی گئی ۔درحقیقت اہل یہود میں عبرانی تورات کے بعد اسی کا رتبہ سب سے بڑا ماناگیا ہے۔

ترجمہ پشیتو

دوسرا ترجمہ سریانی زبان کا مشہور ومعروف قدیم ترجمہ پشیتو (بمعنی لفظی۔ سادہ یا معرا) ہے جو دوسری صدی مسیحی کے اوائل میں کیا گیا۔ اس میں بھی استثنا کی کتاب کی زیر ِ بحث آیات لفظ بلفظ عبرانی متن کے مطابق ہیں اورجملہ " تیرے ہی درمیان سے " اس میں موجود ہے۔

ترجمہ ولگیٹ

تیسرا ترجمہ لاطینی زبان کا ترجمہ ولگیٹ ہے جس کو چوتھی (۴)صدی عیسوی میں مقدس جیروم نے قدیم ترین لاطینی ترجموں کی نظر ثانی کرکے مرتب کیا۔ اس میں بھی جملہ" تیرے ہی درمیان سے " لاطینی زبان میں موجود ہے۔ اب اس سے بڑھ کر مولوی صاحب " جملہ تیرے ہی درمیان سے " کی اصلیت کی اور کیا دلیل چاہتے ہیں ؟ یہاں تین مختلف ترجمے باہم لفظاً عبرانی متن سے مطابقت رکھتے ہیں۔

ہم اپنی دلیلوں کی صحت ِ کی تائید میں سرسید احمد مرحوم جیسے محقق کو بھی پیش کردیتے ہیں ۔ انہو ں نے اپنی مشہور تصنیف " خطبات ِ احمدیہ" کے اس حصہ میں جس میں انہوں نے نبوت ِ محمدیہ پر پیش گوئیوں سے استد لال کیاہے اور(جہاں سے ہمارے مخاطب نے بھی اپنی بحث کے بعض خیالات اخذ کئے ہیں ) اس آیت زیر بحث کے دوران میں جملہ " تیرے ہی درمیان سے " کی صحت اور اصلیت پر کوئی شبہ نہیں ڈالا۔ حالانکہ وہ اس بارے میں ایک اہلِ غرض تھے۔ یہ کیوں ؟ محض اس لئے کہ وہ ان تمام پہلوؤں سے پوری طرح واقف تھے اورجانتے تھے کہ اس جملہ کی صحت اوراصلیت پرشبہ نہیں پڑسکتا۔

پس ظاہر ہے کہ نبی موعود کی تلاش میں بنی اسرائیل کے خاندانی دائرہ سے باہر جانا سراسر نادانی ہے۔ حضرت موسیٰ نے پچھلے لوگوں کو نبی اور نبوت کے مفہوم کی نسبت شش وپنج میں نہیں چھوڑا بلکہ ایسے واضح الفاظ استعمال کئے جن کی نسبت دھوکا ہونا محال ہے۔

علاوہ ازیں انبیائے اکبرو اصغر کی تمام کتابیں مولوی صاحب کے مفروضہ کو باطل قرار دیتی ہیں۔ اگر ہمارے مخاطب کتاب ِ مقدس کا سطحی مطالعہ بھی کرتے تو ان پر یہ امر اظہر من الشمس (روز روشن کی طرح عیاں)ہوجاتا ہے کہ اگرمامور من الله (اللہ کی طرف سے مقرر کیے ہوئے)انبیاء کا سلسلہ بنی اسرائيل کے دائرہ کے باہر ہوتا تو ان کتب ِ مقدسہ کا اصل ومدعا اورمنشا ء ہی فوت ہوجاتا ہے۔ پس ہمار ی دلائل دراصل کسی ایک آیت یا آیت کے حصہ پر یا کسی آیت کی تاویل وتفسیر پر مبنی نہیں ہیں بلکہ ان کی بنیاد کتاب ِ مقدس کے اصل مقصود اور علت ِ غائی کی محکم چٹان پر قائم ہے۔

فصل سوم

زیرِبحث آیت کے دیگر الفاظ

لفظ " نابی " کا مطلب

ہم باب دوم میں بتلاچکے ہیں کہ اس آیہ شریفہ میں لفظ" نبی " سے کوئی خاص نبی مراد نہیں جوحضرت موسیٰ کے ہزاروں برس بعد آنے والاہو۔اس آیت میں لفظ" نبی" اسم معرفہ نہیں ہے اورنہ یہ لفظ اسم معرفہ کی مختلف اقسام میں سے ہے۔ یہ لفظ اسم نکرہ ہے اورایک عام نام ہے جس کا اطلاق ان تمام انبیاء الله پر ہوتا ہے جو مختلف زمانوں میں خدا کے فرستادہ مرسل بن کر قوم اسرائيل کی ہدایت کی خاطر مبعوث ہوئے تھے۔

عبرانی لفظ" نابی" کا صحیح اردو ترجمہ " ایک نبی " نہیں ہے بلکہ صرف" نبی" ہے۔ اردو ترجمہ "ایک نبی " سے یہ احتمال رہتاہے کہ شاید اس لفظ سے مراد کوئی خاص ایک نبی ہو۔ لیکن فارسی اور عربی ترجمے اس احتمال کو مٹادیتے ہیں۔ چنانچہ ان ترجموں میں صرف لفظ" نبی" آیا ہے جو اسم عام ہے، اگر یہ اسم خاص ہوتا اورکسی خاص نبی کے لئے آتا تو عبرانی ترجمہ میں اس لفظ سے پہلے" ال" ہوتا جو اس اسم عام کو اسم خاص کردیتا۔ عبرانی متن میں بھی اگرکسی خاص نبی کا ذکر ہوتا تو لفظ" نابی" سے پہلے عبرانی لفظ" احد" وارد ہوتاہے جس طرح( ۱۔سلاطین ۲۰: ۱۳ )میں آیا ہے ۔ جس سے ظاہر ہے کہ یہاں لفظ " نبی" اسم نکرہ ہے جو ان تمام انبیاء الله کے لئے آیا ہے جو حضرت موسیٰ کے بعد کے زمانہ سے لے کر حضرت ابن الله کے زمانہ تک اہل یہود میں برپا ہوئے۔

پس سیاق ِ عبارت اور عبرانی زبان کی لغت ہماری تاویل کی معاون ہے۔ کتاب ِمقدس کے دیگر مقامات سے بھی یہ ثابت ہے کہ لفظ" نبی" سے یہاں مراد " سلسلہ انبیاء " ہے کیونکہ کتاب ِ مقدس میں عموماً صیغہ واحد ،صیغہ جمع کے لئے استعمال ہوا ہے ۔ مثلاً اسی کتاب (استثنا ۱۷: ۱۵ )میں "بادشاہ" سے مراد کوئی خاص بادشاہ نہیں ہے بلکہ اسم نکرہ کا اطلاق شاہان ِ یہوداہ اورشاہان ِ اسرائیل کےسلسلے کے تمام بادشاہوں پر ہوتاہے جو قوم ِیہود کی تاریخ میں حکمران رہے۔ کتاب ِمقدس کا یہ ایک عام محاورہ ہے چنانچہ یہی لفظ" نبی " سلسلہ انبیاء کے لئے اور مقامات میں بھی وارد ہواہے۔ مثلاً حضرت ہوسیع فرماتاہے " ایک نبی (حضرت موسیٰ) کے وسیلہ سے خداوند اسرائیل کو مصر سے نکال لایا اور نبی ہی کے وسیلے سے (یعنی سلسلہ انبیاء کے وسیلے سے ) وہ (یعنی بنی اسرائیل )محفوظ رہا"(ہوسیع۱۲: ۱۳)خود مقام زیر ِبحث کی(استثنا۱۸: ۲۰ اور ۲۲آیات )میں یہی لفظ " نبی" کسی ایک جھوٹے نبی کے لئے استعمال نہیں ہوا بلکہ وہ اسم نکرہ یا اسم عام ہے جس کا اطلاق کاذب نبیوں کے تمام طبقہ پر ہواہے۔ چونکہ اس تمام مقام میں سچے اورجھوٹے نبیوں میں مقابلہ اور امتیاز مقصود ہے پس ظاہر ہے کہ اگر(استثنا۱۸: ۲۰ اور ۲۲ آیات) میں لفظ" نبی" ایک قسم کے گروہ انبیاء کےلئے آیا ہے ۔ فرق صرف یہ ہے کہ ایک آیت میں جھوٹے انبیاء کے گروہ کا ذکر ہے اور دوسری آیت میں سچے انبیاء کے طبقہ کا ذکر ہے۔

مقدس پطرس رسول بھی اپنی تقریر میں اس لفظ" نبی" سے مراد سلسلہ انبیاء لے کر واضح الفاظ میں فرماتے ہیں کہ" سموئیل سے لے کر پچھلوں تک جتنے نبیوں نے کلام کیا " (اعمال ۳: ۲۴)۔

مشہور مصلح (اصلاح کرنے والا)کیلون (Calvin) بھی کہتا ہے کہ یہاں لفظ

" نبی" سے مراد سلسلہ انبیاء ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ زمانہ حال کے تمام قابل مترجم مثلاً ڈاکٹر مافٹ (Moffat) اس کا یوں ترجمہ کرتے ہیں :

“Will raise up prophet after prophet”.

چونکہ ہم باب دوم میں اس لفظ پر دیگر پہلوؤں سے روشنی ڈال چکے ہیں۔ لہٰذا ہم اس بحث کو یہاں طول نہیں دیتے۔ بہر حال انصاف پسند ناظرین پر ظاہر ہوگیا ہوگا کہ اس آیہ شریفہ میں لفظ" نبی" کا اطلاق کسی صورت میں بھی حضرت محمد پرنہیں ہوسکتا۔

لفظ یاقیم کا مطلب

آیہ زیر بحث میں عبرانی لفظ" یاقیم" آیا ہے جو ایک ایسا فعل ہے جس کا تعلق زمانہ استمراری(ہمیشہ کا بندوبست) یا زمانہ تمام سے ہے ۔پس اس لفظ کا صحیح اردو ترجمہ یہ ہے " کھڑا یا برپا کرتا رہے گا"۔ عبرانی زبان کے مسلم الثبوت استاد مرحوم پروفیسر ڈرائیور (Driver)اپنی مشہور عالم تصنیف میں نہایت واضح طورپر اس نکتہ پر مبسوط(کشادہ،فراخ) بحث کرتے ہیں ۔

پروفیسر لیک (Kirsop Lake) نے بھی ان الفاظ پر نہایت عالمانہ بحث کی ہے ۔ اوریہ بھی ہمارے ترجمہ کی تائید کرتی ہے۔

اس صحیح اردو ترجمہ میں اس امر کی گنجائش ہی نہیں رہتی کہ فع"یاقیم" کا زمانہ مستقبل کے کسی خاص دور سے تعلق ہو۔چہ جائیکہ اس کا تعین زمانہ موسوی کے دو ہزار سال بعد کےعرصہ سے کیا جائے ۔ اس کے برعکس اس فعل کا زمانہ حضرت موسیٰ کی وفات کے بعد ہی شروع ہوجاتاہے اور بنی اسرائیل کی تاریخ کے ہر دور اورزمانہ سے متعلق ہے۔ چنانچہ حضرت عاموس نبی کی کتاب میں آیا ہے ۔" میں (خدا) نے تمہارے بیٹوں میں سے نبی اور تمہارے جوانوں میں سے نذیر برپاکئے ۔ اے بنی اسرائیل کیا یہ سچ نہیں؟"(عاموس۲: ۱۱)۔یہاں بھی بعینہ یہی فعل اورمحاورہ آیا ہے پھر( ۲۔تواریخ ) کا مصنف کہتاہے کہ " خداوند ان کےباپ دادا کے خدا نے اپنے پیغمبروں کو ان (بنی اسرائیل )کے پاس بروقت بھیج بھیج کر پیغام بھیجا کیونکہ اسے اپنے لوگوں اورمسکن پر ترس آتا تھا۔لیکن انہو ں نے خدا کے پیغمبروں کو ٹھٹھوں میں اڑایا اور اس کی باتوں کو ناچیز جانا اور اس کے نبیوں کی ہنسی اڑائی یہاں تک کہ خداوند کا غضب ان پر ایسا بھڑکا کہ کوئی چارہ نہ رہا "(۳۶: ۱۵ نیز دیکھو یرمیاہ ۷: ۱۳تا ۲۵؛ ۱۱: ۷؛ ۲۵: ۳تا ۴؛ ۲۶: ۵؛ ۲۹: ۱۹؛ ۳۲: ۲۳؛ ۳۵: ۱۵؛ ۴۴: ۴ وغيرہ)ان اور دیگر مقامات میں خدا کے اس ارشاد کی تکمیل کی جانب اشارہ ہے جو( استثنا ۱۸: ۱۵ )میں ہے کہ خدا بنی اسرائیل کی ہدایت کے لئے نبی برپا کرتا رہے گا۔

ظاہر ہے کہ یہ عبرانی فعل اس آیت کا حضرت محمد پراطلاق کرنے کی قطعی خلاف ہے ۔

آیت کا اصل مطلب

اس آیہ شریفہ کے مطابق خدا اپنے انبیاء کو " تیرے لئے" یعنی خاص بنی اسرائيل کی قوم کے لئے جو حضرت موسیٰ کے مخاطب تھے مبعوث کرے گا۔ اب ناظرین غور فرمائیں کہ حضرت رسول عربی نے یہ دعویٰ کہیں نہیں کیا کہ آپ خاص بنی اسرائیل کے لئے مبعوث ہوئے تھے۔ اس کے برعکس انہو ں نے اپنے آپ کو نبی مخصوص برائے اہل عرب یعنی (غیر اسرائیلی) گردانا ۔ چنانچہ جب کفار نے اعتراض کیاکہ انبیائے سابقین عبرانی بولتے تھے اوران کا کلام عبرانی میں ہوتا تھا کہ آپ ایک غیر عبرانی عربی زبان بولتے ہیں ۔ پس آپ کا دعویٰ نبوت باطل ہے تو آپ نے جواب دیا ۔

" ہم (خدا ) نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر بولی بولتا اپنی قوم کی تاکہ ان کے آگے کھول سنائے"

(ابراہیم ع ۱)۔

یعنی انبیائے بنی اسرائيل عبرانی بولتے تھے ۔ کیونکہ وہ عبرانیوں کے لئے نبی تھے۔ میں غیر عبرانی یعنی عرب کے لئے نبی ہوں۔ پس عربی زبان بولتا ہوں۔ پھر خدا واضح طورپر آنحضرت کو قرآن میں حکم دیتا ہے۔

’’ تو ڈر سناوے ایک قوم کو(نہ کہ تمام اقوام کو)جن کے پاس کوئی ڈر سنانے والا نہیں آیا۔ (یعنی اہل عرب جن کے پاس کوئی نبی کبھی نہیں آیا برخلاف بنی اسرائيل کےجن میں کل انبیاء مبعوث ہوئے)تجھ سے پہلے ۔شاید وہ یادرکھیں‘‘۔

(قصص ع ۵)

چنانچہ اسی کے مطابق قرآن کی نسبت یہ دعویٰ ہے

" یہ کتاب ایک برکت ہے جو ہم نے اتاری سوائے (اہل عرب )اس پر چلو اس واسطے کہ کبھی کہو کہ کتاب جو اتری تھی سودوہی فرقوں (یعنی یہود ونصاریٰ)پر ہم سےپہلے اورہم کو ان کےپڑھنے پڑھانے کی خبر نہ تھی"

(انعام ع ۲۰)

پھر لکھاہے کہ

’’( اے محمد)۔ ہم نے تجھ پر عربی زبان کا قرآن اتارا تاکہ توبڑے گاؤں (مکہ ) کو ڈر سنائے اور اس کے آس پاس والوں کو‘‘

(شوریٰ ع ۱)

آیات ِ زیر بحث میں نہ صرف پندرھویں آیت کے الفاظ "تیرے لئے" سے ظاہر ہے کہ یہاں مخاطب بنی اسرائیل میں بلکہ آیت ۱۸ کے الفاظ" وہ نبی" ان سے کہے گا " سے بھی یہی ظاہر ہے کہ ان انبیاء الله کے مخاطب بنی اسرائیل ہوں گے نہ کہ کوئی دوسری قوم۔ حضرت محمد عربی کی تاریخ اور دعویٰ اس آیہ شریفہ کے منشاء کےمطابق نہیں ہیں ۔چنانچہ قرآن میں آیا ہے۔

" الله نے اٹھایا امیو ں سے ایک رسول جو انہیں میں سے ہے جو ان کے پاس اس (قرآن ) کی آیات پڑھتا ہے" ۔

(جمعہ ع ۱)

یہ قرآنی محاورہ" اُمی" ان لوگوں کے لئے مخصوص ہے جو اہل کتاب نہیں ہیں اور قرآن نے اس لفظ کا اطلاق اہل عرب پر کیا ہے کیونکہ وہ اہل کتاب نہیں تھے اورکتب سماوی نہیں رکھتے تھے اور اس قرآنی آیت کے مطابق اُمی رسول (محمد ) امیو ں(غیر یہود) کے لئے بھیجا گیا جس کے مخاطب اُمی (اہل عرب ) ہوں گے ۔

پس ظاہر ہے کہ حضرت محمد عربی میں آیہ زیر بحث کی یہ شرط بھی فوت ہوتی ہے کیونکہ آپ اس آیہ شریفہ کےمطابق نہ تو اسرائیلی تھے ۔ نہ اسرائیلیوں کے درمیان سے تھے۔ نہ اسرائیلیوں کےو اسطے مبعوث ہوئے تھے اور نہ اسرائیلی آپ کے مخاطب تھے۔ اس کے برعکس آپ اُمی تھے اُمیوں میں سے تھے۔اُمیوں کےواسطے مبعوث ہوئے تھے۔ اور اُمیوں ہی سے مخاطب ہوئے تھے۔ حق پسند ناظرین خود ہی انصاف کریں کہ جب تورات شریف کی آیت کی ہر شرط ایک ایک کرکے آنحضرت کی ذات میں فوت ہوتی ہے تو اس آیت کا اطلاق آپ کی ذات پر کس طرح ہوسکتا ہے؟

الفاظ" میر ی مانند" کا مطلب

چونکہ ہم اس بحث کو جامع بنانا چاہتے ہیں ہم لگے ہاتھوں اسلامی مناظرین کی ان تمام دلائل کی بھی تنقید کئے دیتے ہیں جن کو مولوی صاحب نے اپنے رسالہ میں پیش نہیں کیاتاکہ کسی کو یہ کہنے کا موقعہ نہ رہے فلاں مولوی صاحب کے فلاں نکتہ کا جواب عیسائيوں کی طرف سے نہیں دیا گیا۔

بعض اسلامی مناظرین الفاظ" میری مانند" کا غلط مفہوم سمجھ کہ ان کا اطلاق حضرت محمد پر کرکے کہتے ہیں کہ حضرت موسیٰ اور حضرت محمد میں مماثلت ہے کیونکہ دونوں بتُ پرستوں میں ظاہر ہوئے، دونوں کے رشتہ داروں نے پہلے ان کو ردکیا اورپھر قبول کیا۔دونوں شادی شدہ تھے۔ دونوں کےہاں اولاد پیدا ہوئی ۔ دونوں اپنے دشمنوں سے بھاگے ایک نے مدیان کو اوردوسرے نے مدینہ کو ہجرت کی ۔ دونوں نے کفار سے جنگ کی ۔ دونوں کے پیروان کی موت کے بعد ارض مقدس میں داخل ہوئے ۔ دونوں نے خون کئے ۔ دونوں نے ایک سے زيادہ عورتوں سے شادی کی ۔ دونوں کے نام حرف میم سے شروع ہوتے ہیں۔ دونوں صاحب غضب، حکمران، فاتح اور کفار سے انتقام لینے والے مجاہد اور صاحب ِ شریعت تھے (سیرة النبیٰ ۔ خطبات وغیرہ)۔

مماثلت کی حقیقت

علم منطق وفلسفہ کا عبتدی بھی ان مضحکہ خيزدلائل پر ہنسے گا۔ مذکورہ بالا تمام باتیں محض عارضی، وقتی اور سطحی ہیں جو تمثیلی استد لال اور استقراء (پیروی کرنے)کی بنیاد نہیں ہوسکتیں۔ اس قسم کی پیش کردہ مشابہت سے ہم کو ئی نتیجہ اخذ نہیں کرسکتے ۔ اگرمشابہت کا یہی مطلب ہے تو اس قسم کی باتیں مسؔلیمہ کذاب (نہایت جھوٹا،جھوٹوں کا بادشاہ)اورباقی جھوٹے نبیوں کو بھی صادق ثابت کرنے میں بڑے کام کی ہیں۔ لیکن مذکورہ بالا نکات موضوع زیر بحث کو ثابت نہیں کرسکتے۔ اس قسم کے استدلال کے لئے مماثلت کاہونا ان باتوں میں لازمی ہے جو ایسی ممتاز ہوں کہ جزولاینفک(وہ حصہ جو علیحدہ نہ ہوسکے) ہوں اور جن سے لازمی طور پر صحیح نتیجہ نکل سکے۔

اسلامی مناظرین تاحال اس قسم کی منطقی مشابہت اورمماثلت دکھلانے سے قاصر رہے ہیں جس سے لازمی طورپر یہ نتیجہ اخذ ہوسکے کہ حضرت موسیٰ اورحضرت محمد ایک دوسرے کی " مانند" ہیں۔ اگر یہ دونوں حضرات ایک دوسرے کی " مانند" ہوتے تو قرآن جوہر بات کو مفصل بیان کرنے کامدعی (دعویٰ دار)ہے یہ مشابہت ضرور بیان کردیتا ۔لیکن قرآن کے کسی ایک مقام میں بھی حضرت محمد کو حضرت موسیٰ سے تشبیہ نہیں دی گئی۔ بلکہ تمام قرآن کو چھان مارو تم کو کسی جگہ بھی یہ نہیں ملے گا کہ ان مناظر ین کوپیش کردہ آیت کی ایک پیش گوئی ہے جو آنحضرت کے حق میں ہے۔ اگر یہ آیہ زیر بحث محمد عربی کی پیش گوئی ہوتی تو قرآن میں اس کا ذکر کیوں نہ آتا؟ یہ معنی خيز خاموشی مولوی صاحبان کے دعویٰ کی زبان ِ حال سے تردید کررہی ہے اور سید مرحوم کے الفاظ کو ہیچ ثابت کررہی ہے کہ مولوی صاحبان نے اس قسم کی سیدھی آیات کو " پہیلی اورمعمے" بنادیا ہے۔

اگر مولوی صاحبان جیسی پیش کردہ مماثلت کی عارضی باتیں ہی الفاظ" میری مانند" کو حضرت محمد پر چسپاں کرسکتی ہیں تو وہ اس بات کا کیا جواب دیں گے کہ حضرت موسیٰ کی پیدائش کے وقت فرعون نے بچو ں کو مروڈالا لیکن آنحضرت کی پیدائش کے وقت ایسا کوئی سانحہ واقع نہ ہوا ؟ وہ ان باتوں کاکیا جواب دیں گے جو محض سطحی نہیں بلکہ ان کے پیش کردہ نکات سے زیادہ گہری اورنبوت کے کمالات سے متعلق ہیں؟ مثلاً یہ کہ حضرت موسیٰ نے رودررو(آمنے سامنے)خدا سے کلام کیا جس کی وجہ سے آپ کا نام" کلیم الله " ہوا(سورہ مریم آیت ۵۲) لیکن خدا نے آنحضرت پر حضرت جبرائيل کی وساطت سے قرآن نازل کیا۔ حضرت موسیٰ سے معجزات صادر ہوئے (سورہ اعراف آیت ۱۰۱ تا ۱۱۶۔ ۱۶۰ وغیرہ) لیکن آنحضرت نے معجزات نہیں کئے حالانکہ اہل عرب آپ سے برابر درخواست کرتے رہے (بنی اسرائيل ۶۱، ۹۳تا ۹۶؛ عنکبوت ۴۹، ۵۰؛ رعد ۸، ۳۰؛ انعام ۳۷، ۵۷؛ ۱۰۹؛ بقر ۱۱۲؛ یونس ۲۱؛ اعراف ۲۰۲ وغيرہ) حضرت موسیٰ عہد قدیم کے درمیانی تھے جو خدا اور اسرائیل کے درمیان اطاعت کا عہد تھا (سورہ مائدہ ۱۵)۔لیکن حضرت محمد کے سپرددرمیانی کی خدمت تفویض(سپرد) نہ کی گئی ۔ حضرت موسیٰ اپنی قوم کی شفاعت کرتے تھے۔ لیکن قرآن آنحضرت کے شفیع ہونے سے صاف انکار کرتا ہے (انعام ع ۶؛ بقر ع ۶)۔ حضرت موسیٰ بنی اسرائیل کو فرعون ِ مصر کی غلامی سے بغیر تلوار چلائے آزاد کرکے ملک مصر سے نکال کر کنعان میں لے گئے، لیکن مولوی صاحبان ہی بتلائیں کہ حضرت محمد بغیر تلوار چلائے کس قوم کو کہاں سے نکال کر کہاں لے گئے ۔ حضرت موسیٰ نے بنی اسرائيل کو چالیس (۴۰)سال تک آسمانی روٹی کھلائی ۔ اس بارے میں آنحضرت کس طرح سے ان مشابہت رکھتے ہیں؟ حضرت موسیٰ اہل مصر کی دانش میں ماہر تھے(اعمال ۷: ۲۳) ۔لیکن آنحضرت محض اُمی تھے(اعراف ۱۵۶۔ ۱۵۸) ۔اب ہمارے مخاطب ہی جواب دیں کہ آنحضرت میں حضرت موسیٰ کے فضائل کہاں پائے جاتے ہیں؟ حق تو یہ ہے کہ مولوی صاحب نے اس معاملہ میں الٹی راہ اختیار کی ہے۔ واجب تو یہ تھا کہ سب سے پہلے آپ یہ ثابت کرتے کہ آنحضرت فی الحقیقت نبی تھے اس کے بعد آپ کو یہ حق حاصل ہوسکتا تھاکہ آپ ان کو مثیل ِ موسیٰ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ۔ اس کے برعکس آپ مماثلت سے نبوت کرنے چلے۔ آپ نے ان کو مثل ِ موسیٰ ثابت کرنا چاہا جو آپ نہ کرسکے اورآپ نے اپنے اصل قضیہ (بحث وتکرار)یعنی نبوت ِ محمد یہ کو بھی ثابت نہ کیا۔

تورات اور آیت کی تاویل

مولوی صاحب کتاب استثنا کے آخری باب کی دسویں آیت کو پیش کرکے کہتے ہیں " ۔ توریت میں یہ پیش گوئی فیصلہ پاچکی ہے کہ بنی اسرائيل کے حق میں نہیں ہوسکتی کیونکہ وہا ں لکھا ہے کہ " اب تک بنی اسرائيل میں کوئی نبی موسیٰ کی مانند جس سے خداوند نے روبرو باتیں کیں نہیں اٹھا"۔

لیکن یہ آیت خو د فیصلہ کررہی ہے کہ نبی قوم بنی اسرائيل ہی سے ہوگا اور اس میں دوباتیں زمانہ کو مقید کرتی ہیں۔ یعنی (۱) لفظ" اب تک " اور(۲) فقرہ جس سے خداوند نے روبرو باتیں کیں"۔

(۱۔)لفظ"۔ اب تک" جس سے صاف عیاں ہے کہ آئندہ زمانہ میں " بنی اسرائیل میں " کوئی ایسا نبی ظاہر ہوگا" جس سے خداوند روبروباتیں "کرے گا لیکن یہ آیت اس امر کو بالکل صاف اور واضح کردیتی ہے کہ یہ نبی قوم اسرائیل ہی سے ہوگا ورنہ" بنی اسرائیل " کی قید اس مقام میں کیوں آتی ؟ لفظ" اب تک "کوئی قید بھی اس بات کو ظاہر کردیتی ہے کہ جس زمانہ میں یہ آیت لکھی گئی تھی اس وقت تک کوئی ایسا نبی نہیں اٹھا تھا جس سے خداوند نے موسیٰ کی طرح روبرو باتیں کی ہوں۔

(۲۔) آیت میں ایک دوسری قید یہ لگادی گئی ہے جس سے مصنف کا مانی الضمیر ظاہر ہوجاتا ہے کہ حضرت موسیٰ اورنبی میں کیا مماثلت اور مشابہت ہوئی ۔ یعنی وہ کس قسم کا نبی ہوگا۔ ایسا نبی " جس سے خداوند نے روبروباتیں کیں"۔

اس قید کے الفاظ واضح طورپر بتلادیتے ہیں کہ اس خاص مقام میں صرف ایک خاص مشابہت کا ذکر ہے جو حکم عام نہیں رکھتا ۔لہٰذا یہ آیت الفاظ" میری مانند" کے کل مفہوم کو سمجھنے میں مدد نہیں دیتی کیونکہ علم منطق کے روسے ہم کسی ایک جزو سے قضیہ کلیہُ پر نہیں پہنچ سکتے۔

بہر حال قید کے یہ الفاظ" جس سے خدا نے روبروباتیں کیں" اس آیت کو حضرت محمد پرچسپاں کرنے کی کلی مخالف ہیں۔ قرآن میں کہیں نہیں آیا کہ الله تعالیٰ نے آنحضرت سے " روبروباتیں کیں"۔

ا س آیت سے ایک اور بڑے کام کا نتیجہ ہاتھ لگتا ہے کہ حضرت موسیٰ کے وقت سے لے کر تمام یہودیہ آیہ زیر بحث کو اسرائیلی نژاد (اصل ،نسب) نبی کی نسبت ہی سمجھتے رہے کیونکہ اس آیت میں لکھا ہے کہ " بنی اسرائیل میں اب تک۔۔۔ نبی نہیں اٹھا"۔ ان تمام زمانوں کسی یہودی کے خواب وخیال میں بھی نہ آیاکہ آیہ زیر بحث کے " نبی"سے غیر اسرائیلی یا کوئی عرب نژاد نبی مراد لیں ۔

منصب ِ نبوت

باب اوّل میں " نبوت کے مفہوم" پر بحث کرتے وقت ہم یہ ثابت کرآئے ہیں کہ انبیاء الله کا یہ کام تھا کہ وہ قوم ِاسرائیل کو خدا تعالیٰ کے پیغام پہنچائیں ۔ خدا ان کو ہر زمانہ میں اس غرض کے لئے کھڑا کرتا تھا تاکہ وہ قوم اسرائيل پر خدا کی مرضی کو ظاہر کریں۔ یہی ان کا فرض منصبی تھا اوراسی مقصد کوپورا کرنے کی خاطر وہ منصب ِ نبوت پر سرفراز کئے جاتے تھے۔ پس الفاظ"میری مانند" نبوت کے منصب ۔ عہدہ درحیثیت کی مشابہت مقصود ہے نہ کسی اورامر کی مماثلت ۔ ان الفاظ کا مطلب صرف یہ ہے کہ حضرت موسیٰ کے بعدآنے والے انبیاء حضرت موسیٰ کی طرح خدا کے مقرر کردہ فرستادے (قاصد)ہوں گے جو خدا کے نام سے کاہنوں، بادشاہوں اور عوام الناس کو تعلیم دینے والے ، اوران پر ان گناہ جتلانے والے ہوں گے ۔ بنی اسرائيل کی تاریخ یہ ثابت کردیتی ہے کہ یہ انبیاء الله بادشاہوں کو خدا کے فرمانبردار خادم بنانے والے ،کاہنوں کو صراط مستقیم دکھلانے والے اور لوگوں کو پاس الہٰی پیغامات کے پہنچانے والے تھے(۲۔سموئیل ۱۲باب ؛ یرمیاہ ۴باب ؛ عاموس ۷باب وغيرہ)۔بالفاظ ِ دیگر وہ خدا کے " امانت دار " رسول تھے(گنتی ۱۲: ۷)۔

الفاظ" میری مانند" سے یہ مطلب نہیں لینا چاہیے کہ حضرت موسیٰ کے بعد آنے والے انبیاء ہر پہلو سے حضرت موسیٰ کی مانند ہوں گے۔ یا حضرت موسیٰ کے ہمسر ہوں گے۔ اس مقام میں حضرت موسیٰ کے درجہ نبوت یا اوج(عروج ،بلندی) روحانیت کی مشابہت مقصود نہیں ہے۔ جہاں تک نبوت کے عہدے کا تعلق ہے تمام انبیاء جو ہوگذرے ہیں ۔حضرت موسیٰ کی مانند ہیں جو خدا کی مرضی کو بنی اسرائیل پر ظاہر کرنے کی خاطر وقتاً فوقتاً حسب ضرورت حضرت موسیٰ کی مانند برپاکئے گئے تھے ۔

قرآن شریف اس نکتہ کو بایں الفاظ ادا کرتاہے ۔ قُولُواْ آمَنَّا بِاللّهِ وَمَآ أُنزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنزِلَ إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَقَ وَيَعْقُوبَ وَالأسْبَاطِ وَمَا أُوتِيَ مُوسَى وَعِيسَى وَمَا أُوتِيَ النَّبِيُّونَ مِن رَّبِّهِمْ لاَ نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ

یعنی" تم کہو کہ ہم الله پر ایمان رکھتے ہیں اور اس پر جو ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور اولادِ یعقوب پر اترا اور جوموسیٰ اور عیسیٰ کوملا جو کچھ تمام نبیوں کو ان کے خدا کی طرف سے ملا۔ ہم ان نبیوں میں سے کسی ایک میں بھی فرق نہیں کرتے اورہم اسی خدا کے فرمانبردار ہیں"۔

(بقر آیت ۱۳۰)

اس قرآنی آیت کا مطلب صاف ہے کہ جہاں تک منصب ِنبوت کا تعلق ہے اس لحاظ سے کلُ انبیاء یکساں ہیں اور ان میں کوئی فرق نہیں ہے۔

زیر ِ بحث آیت میں الفاظ " میری مانند" کا بعینہ یہی مفہوم ہے حضرت موسیٰ سے فرماتا ہے کہ جس طرح خدا نے مجھے فرعون ِ مصر کے زمانہ میں بنی اسرائیل کی ہدایت اورراہنمائی کے لئے برپا کیا تھا اسی طرح خدا بنی اسرائیل کی تاریخ میں حسب ضرورت ہر زمانہ میں قبائل اسرائيل میں سے لوگوں کو عہد نبوت عطا کرکے برپا کرتا رہے گا تاکہ وہ اپنے اپنے دور اور زمانہ میں قوم یہود کو ہولناک گناہوں سے آگاہ کرکے صراط ِ مستقیم پر چلائیں۔ پس اے بنی اسرائيل جب کبھی خدا اپنا فرستادہ نبی بھیجے تم اس کی سننا کیوں خدا خود اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالے گا اور جو احکام نبی کو ملا کریں گے وہ انہی کو تم تک پہنچادیا کرے گا۔ اس طرح تم خدا کی برگزیدہ قوم بنے رہوگے لیکن اگر تم نبی کی باتوں کو جن کو وہ خدا کی طرف سے تم تک پہنچایا کرے گا نہ سنوگے تو تو خدا تم سے اس کا حساب لیگا اور وہ تم سے مواخذہ کیا جائے گا۔

پس اس مقام میں وجہ مشابہت صرف منصب ِ نبوت ہے اور بس۔ اس کا مطلب فقط یہ ہے کہ جس طرح خدا نے حضرت موسیٰ کو برپا کیا تھا اسی طرح وہ ہر زمانہ میں نبی برپا کرتا رہے گا۔ ہماری یہ تفسیر صحیح ہے کیوں کہ نہ صرف قوم ِیہود کی تاریخ اس کی موید(تائید کرنے والا) ہے بلکہ خدا کاکلام بھی اس پر شاہد ہے۔چنانچہ جب خدا نے حضرت موسیٰ کے بعد حضرت یُشوع کو مقرر کیاتو فرمایا " جیسے میں موسیٰ کے ساتھ تھا ویسے ہی تیرے ساتھ رہوں گا ۔(یشوع۱: ۱۵) اور بنی اسرائیل نے بھی یُشوع کو کہا ۔

جیسے ہم سب امور میں موسیٰ کی بات سنتے تھے ویسے ہی تیری سنیں گے۔ فقط اتنا ہو کہ خداوند تیرا خدا جس طرح موسیٰ کے ساتھ رہتا تیرے ساتھ بھی رہے ۔(یشوع۱: ۱۷) کتاب اعمال الرسل میں جہاں آیہ زیر بحث کا اقتباس کیا گیاہے۔ انگریزی ریوائزڈ ترجمہ کے حاشیہ میں اس حصہ کا یوں ترجمہ کیا گیا ہے (۳: ۲۳۔ ۷: ۳۷) “As He raised up me” یعنی جس طرح اس نے مجھے برپا کیا۔" ریوائزڈ سٹینڈرڈ ترجمہ میں اعمال کےدونوں مقامات میں یہی ترجمہ متن میں کیا گیا ہے ۔ پس ان مترجمین کے مطابق (جن کی فضیلت میں کسی کو انکار کی مجال نہیں )کتاب اعمال الرسل میں مقدس پطرس اورمقدس ستفنس آیہ زیر بحث کا یوں اقتباس کرتے ہیں ۔" خداوند تمہارا خدا تمہارے بھائیوں میں سے نبی برپا کرتا رہے گا جس طرح اس نے مجھے برپا کیا۔ جو کچھ وہ تم سے کہے اس کی سننا"۔ اب تو ہمارے مخاطب کی بھی تسلی ہوجانی چاہیے کیونکہ وہ اعمال کے اس مقام کااورپطرس حواری اور ستفنس حواری کا سہارا لئے بیٹھے تھے۔

الفاظ" اپنا کلام"

ہم نے سطور بالا میں جو تفسیر پندرھویں آیت کی ہے کہ اس کی تائید اٹھارھویں آیت کے الفاظ بھی کرتے ہیں۔ چنانچہ اس آیت میں خدا فرماتاہے " میں اپنا کلام اس کےمنہ میں ڈالوں گا اورجو کچھ میں اسے حکم دوں گا وہی وہ ان سے کہے گا" ۔ انبیائے یہود کی کتابیں اس بات کی گواہ ہیں کہ بنی اسرائيل کے مختلف انبیاء جو ہر دور میں برپا ہوتے رہے کہ یہی دعویٰ کرتے تھے۔ کہ ان کا پیغام خدا کا کلام ہے جو وہ چاروناچار اپنے زمانہ کے لوگوں تک من وعن پہنچاتے ہیں۔ مثلاً حضرت یرمیاہ کہتے ہیں کہ" خداوند کا کلام مجھ پر نازل ہوا۔ اس نے فرمایا میں نے تجھے قوموں کے لئے نبی ٹھہرایا۔ تب میں نے کہا خداوند خدا دیکھ میں بول نہیں سکتا۔ لیکن خداوند نے مجھے فرمایا یوں نہ کہہ ۔ جوکچھ میں تجھے فرماؤں گا وہ کہے گا ۔ میں نے اپنا کلام تیرے منہ میں ڈال دیا ہے "۔(پہلا باب ۔ نیز دیکھو ۲۳: ۲۸ تا آخر وغیرہ ۔ حزقی ایل ۳: ۴، ۱۰ وغيرہ ۔ گنتی ۲۲: ۳۸۔ ۲۳: ۵۔ یسعیاہ ۵۱: ۱۶۔ ۵۹: ۲۱۔ خروج ۴: ۱۵۔ ۲سموئیل ۱۴: ۳تا ۹۔ عزراہ ۷: ۱۸ وغيرہ وغيرہ)۔

" تم اس کی سننا"

ظاہرہے کہ ان الفاظ میں حضرت موسیٰ نے قوم بنی اسرائيل کو مخاطب کیا ہے نہ کہ بنی اسماعیل کو یا کسی اور غير اسرائيلی قوم کو۔ اس جملہ میں اصل عبرانی زبان میں لفظ" اس " پر زور دیا گیا ہے۔ پس ان الفاظ میں خدا کا حکم ہے کہ اے قوم اسرائيل تم اپنے گردوپیش کی مشرکانہ اقوام کی سی کرتوتیں (حرکات)نہ کرنا اورنہ ان کے فالگیروں ، شگون نکالنے والوں ، افسوں گروں، جادوگروں ، منتر پڑھنے والوں، جنات کے آشناؤں ، رمالوں، ساحروں وغيرہ کی سننا۔ اس کے برعکس جس نبی کو میں تمہاری ہدایت کےلئے وقتا ً فوقتاً برپا کرتا رہوں گا تم فقط اسی کی سننا۔ اور صرف اسی کی طرف کان لگانا۔جومنصبِ نبوت پر سرفراز ہوکرحضرت موسیٰ کے کام کو متواتر اورمسلسل طورپر اپنے زمانہ میں برقرار اورپہیم جاری رکھے گا ۔

مابعد کی آیات (۲۰، ۲۲) میں خدا نے ایک معیار بھی قائم فرمادیا تاکہ قوم اسرائيل اس کسوٹی پر نبی کے دعویٰ کو پرکھ کر صادق اورکاذب نبی میں تمیز کرسکے۔ان آیات کی تفسیر وتاویل کے لئے دیکھو (یرمیاہ ۱۴: ۱۴؛ ۱۵: ۱۶، ۲۱تا ۲۷، ۳۰تا ۲۳ آیات؛ ۲۷: ۹تا ۱۶؛ ۲۸: ۱۵تا ۱۷؛ ۲۹: ۸، ۲۱تا ۲۳؛ ۱۔سلاطین ۲۲: ۱۱تا ۲۲؛ حزقی ایل ۱۲: ۲۴؛ ۱۳: ۱تا ۲۳؛ نوحہ ۲: ۱۴؛ یسعیاہ ۳۰: ۱۰؛ میکاہ ۲: ۱۱؛ ۳: ۱۱وغيرہ) اور دیگر مقامات میں صادق اور کاذب نبیوں کی مثالیں بھی موجود ہیں۔

حقیقت تو یہ ہے کہ قدیم زمانہ کی مشرکانہ اقوام اورقو م بنی اسرائيل میں یہی ایک بات مابہ الامتیاز تھی کہ بنی اسرائيل کے درمیان ہر زمانہ میں ایک مستقبل طبقہ انبیاء موجود رہا (۱۔سموئیل ۱۹: ۲۰) تاکہ قوم یہود خدا کے نبیوں کی زیر ہدایت رضائے الہٰی سے واقف ہوسکے۔ خداوندی ارشاد ہے کہ جب بنی اسرائيل کو ضرورت درپیش ہوگی تو خدا اس مستقبل طبقہ انبیاء میں سے ان کی ہدایت کے لئے نبی برپا کیا کرے گا تاکہ قوم اسرائيل اس کی سنے۔ تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ باقی مشرکانہ اقوام مثلاً بنی اسماعیل بنی ادوم وغيرہ جن کے ساتھ بنی اسرائیل کا خونی رشتہ تھا بُت پرست ہی رہیں اوران میں خدائے واحد کے انبیاء برپا نہ ہوئے ۔

ا س باب کی فصلوں میں ہم نے زیر بحث آیات کے مختلف الفاظ پر مفصل بحث کرکے ارباب ِ دانش پر ان کا صحیح مفہوم ظاہر کردیا ہے ۔ ا ب انصاف پسند ناظرین خود فیصلہ کرسکتے ہیں کہ سرسید مرحوم کے ان الفاظ میں کتنی صداقت ہے کہ

’’ان آیتوں میں محمد رسول ﷺ کے مبعوث ہونے کی ایسی صاف اور مستحکم بشارت ہے جس سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا‘‘۔

(خطبات ۵۹۹)۔

ہم نے ثابت کردیاہے کہ ان آیات میں کسی خاص نبی کی آمد کی کوئی " بشارت" موجود نہیں چہ جائیکہ وہ " صاف اورمستحکم" ہو اور کہ کوئی صاحب ِ عقل ان الفاظ کا اطلاق حضرت محمد عربی پر نہیں کرسکتا۔

فصل چہارم

آيہ زیرِ بحث اور مقدس پطرس رسول کی تقریر

ہم باب دوم کی فصل دوم میں بتلاچکے ہیں کہ سیدنا عیسیٰ مسیح کی بعثت کا زمانہ بنی اسرائیل کی زبونی کا زمانہ تھا ۔ بنی اسرائیل کا ایک کثیر گروہ (جس میں ہر قسم ، ہر درجہ اورہرطبقہ کے خدا پرست اور دین دار مردوزن شامل تھے) آسمان کی طرف نظر اٹھائے ایک نبی کی آمد کا منتظر تھا جو ارشاد ِ خداوندی کے مطابق برپا ہوکر قوم کی مصیبت کے زمانہ میں اس کی رہنمائی کرے۔ جب آنخداوند کا ظہور ِ قدسی ہوا تو سب لوگ " خدا کی تمجید کرکے کہنے لگے کہ ایک بڑا نبی ہم میں برپا ہوا ہے اور خدا نے اپنی امت پر توجہ فرمائی ہے "(لوقا ۷: ۱۶)۔

منجی عالمین کے صعود ِ آسمانی کے بعد جب رسولوں پر روح القدس نازل ہوا تو مقدس پطرس رسول نے بنی اسرائيل کو مخاطب کرکے کہا "(اے اسرائیلیو)۔ توبہ کرو اور رجوع لاؤ تاکہ تمہارے گناہ مٹائے جائیں اوراس طرح خداوند کے حضور سے تازگی کے ایام آئیں اور وہ اس مسیح کو جو تمہارے واسطے مقرر ہوا ہے یعنی عیسیٰ مسیح کو بھیجے۔ ضرور ہے کہ آسمان میں اس وقت تک رہے جب تک کہ وہ سب چیزیں بحال نہ کی جائیں جن کا ذکر خدا نے اپنے پاک نبیوں کی زبانی کیا ہے ۔ جو شروع سے ہوتے آئے ہیں چنانچہ موسیٰ نے کہا کہ خداوند تمہارا خدا تمہارے بھائیوں میں سے تمہارے لئے نبی برپا کرتا رہے گا جس طرح اس نے مجھے برپا کیا۔ جو کچھ وہ تم سے کہے اس کی سننا اوریوں ہوگاکہ جو شخص اس نبی کی نہ سنے گا وہ امت سے نیست ونابود کردیا جائے گا ۔ بلکہ سموئیل سے لے کر پچھلوں تک جتنے نبیوں نے کلام کیا ان سب ان دنوں کی خبردی ہے۔ تم (اے اسرائیلیو) نبیوں کی اولاد اوراس عہد کے شریک ہو جو خدا نے تمہارے باپ دادا سے باندھا جب ابراہام سے کہا کہ تیری اولاد سے دنیا کے سب گھرانے برکت پائیں گے ۔ خدا نے اپنے خادم (عیسیٰ) کو برپا کرکے پہلے تمہارے پاس بھیجا تاکہ تم میں سے ہر ایک کو اس کی بدیوں سے پھیر کر برکت دے"(اعمال ۳: ۱۹تا آخر)۔

مولوی صاحب کی دلیل اورجواب

اس مقام میں مقدس پطرس فرماتے ہیں کہ خدا نے اہل یہود کی زبونی کو مٹانے کی خاطر آیہ زیر بحث کے وعدے کے مطابق سیدناعیسیٰ مسیح کو برپا کرکے نبی موعود بنا کر بھیجا ہے تاکہ بنی اسرائيل توبہ کرکے خدا کی طرف متوجہ ہوں اوراس کے برگزیدہ مسیح پرایمان لاکر نجات حاصل کریں۔

لیکن ہماری حیرانی کی حد نہ رہی جب ہم نے پڑھاکہ مولوی صاحب نے مقدس پطرس کو مندرجہ بالا آیات کی بناء پر محمد عربی کا مبشر بنانا چاہاہے۔ ان کے زعم میں مقدس رسول مقبول آیہ زیر بحث کو اپنی تقریر میں حضرت محمد عربی سے منسوب کررہے ہیں !!۔

ع بسوخت عقل زحیرت کہ ایں چہ بوالعجبی ست

چنانچہ مولوی صاحب فرماتے ہیں ۔

" اس پیش گوئی کو حضرت پطرس حضرت محمد پر جماتے ہیں۔ اُوپر کی آیات پر ناظرین کو دو امور پر غور کرناچاہیے "

(صفحہ ۱۶تا ۱۷ )۔

وہ دوامور معہ جواب یہ ہیں۔

اول یہ کہ۔ ضرور ہے کہ وہ یعنی عیسیٰ آسمان میں اس وقت تک رہے جب وہ نبی مثل موسیٰ آجائے "۔ نہیں صاحب بلکہ اس وقت تک کہ وہ سب چیزیں بحال نہ کی جائیں جن کا ذکر خدا نے اپنے پاک نبیوں کی زبانی کیا ہے"۔ دیکھئے آپ نے کیسی برجستہ (بروقت)غلطی کی ہے۔

مقدس پطرس دوسرے باب کی ۳۳، ۳۴ آیات میں بتلا چکے ہیں کہ کیوں " ضرور ہے کہ وہ مسیح ،آسمان میں رہے" یعنی اس واسطے تاکہ وہ روح القدس کو نازل کرے۔ اس بخشش سے مسیح کی (جو آسمان میں ہے ) سلطنت زمین پر شروع ہوگئی کیونکہ سب چیزوں کی بحالی سے پہلے ضرور ہےکہ گنہگار انسان بحال ہوجائے ۔ پس رسول مقبول فرماتاہے کہ اے اسرائيلیو" توبہ کرو اور رجوع لاؤ"۔ جب منجی عالمین بحال کرتے ہیں تو اس بحالی میں انسان اوردیگر تمام مخلوقات کی بحالی شامل ہے(رومیوں ۸: ۱۹تا ۲۲؛ یسعیاہ ۶۵: ۱۸؛ ۲۔پطرس ۳: ۱۳؛ مکاشفہ ۲۱: ۲۱ وغيرہ)۔

"دوم۔ یہ کہ سیدنا عیسیٰ پہلے آیا ۔ یہ بات بھی اس پر دلالت کرتی ہے کہ مسیح مبشر محمد ہیں"۔ گویا پہلے آنا کسی کی بشارت دینے کو لازمی ٹھہرادیتا ہے! خصوصاً حضرت محمد کو !! حقیقت تویہ ہے کہ سیدنا مسیح نے کسی دوسرے نبی کی بشارت نہیں دی ۔ یہ مسلم مناظرین کا محض وہم ہے۔ ہم یہ بھی بتلا چکے ہیں کہ یہ لازم نہیں کہ ہر نبی کی آمد کے لئے پیش خبری موجود ہو۔ مولوی صاحب آیہ شریفہ کا مطلب نہیں سمجھے۔ گو آیت صاف اور واضح ہے"۔ خدا نے اپنے خادم عیسیٰ کو برپا کرکے پہلے تمہارے پاس بھیجا اوریہ بات حضرت کلمة الله کے کلام کے مطابق ہے ۔ کہ "غیر قوموں کی طرف نہ جانا بلکہ پہلے اسرائيل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے پاس جانا "(متی ۱۰: ۵، ۶؛ مرقس ۷: ۲۷)۔

مندرجہ بالا آیات میں مقدس پطرس کا مطلب صاف ہے۔ آپ فرماتے ہیں ۔

اوّل۔" جن باتوں کا ذکر خدا نے اپنے پاک نبیوں کی زبانی کیا ہے " وہ سب باتیں سیدنا مسیح کی ذات ِ قدسی صفات ِ میں بدرجہ احسن پائی جاتی ہیں۔

دوم۔" گناہوں کے مٹائے جانے اور تازگی کے ایام کے آنے کاجو ذکر آیت ۱۹ میں شروع ہوا ہے ان کا سیدنا مسیح کےساتھ انجام بخیر ہوتا ہے۔ چنانچہ مقدس پطرس فرماتے ہیں کہ " خدا نے اپنے خادم عیسیٰ کو برپا کرکے پہلے تمہارے پاس بھیجا تاکہ تم میں سے ہر ایک کو اس کی بدیوں سے پھیر کر برکت دے "(آیت ۲۶)۔

سوم۔ مقدس رسول منجی عالمین کی رسالت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں " وہ اس مسیح کو جو تمہارے واسطے مقرر ہوا ہے یعنی عیسیٰ کو بھیجے۔" بھلا تقرری تو عیسیٰ مسیح کی ہو اور آجائیں محمد ! یہ کیا خیال محال ہے؟

چہارم۔ (استثنا کی کتاب کے ۱۸ باب کی ۱۵آیت) کو مقدس پطرس نے ابراہیمی وعدہ کے ساتھ کہ" تیری اولاد سے دنیا کے سب گھرانے برکت پائيں گے" وابستہ کیا ہے۔ یہ ابراہیمی وعدہ جیسا ہم انشاء الله اگلے باب میں ثابت کردیں گے بنی اسماعیل کو نہیں پہنچا بلکہ بنی اسرائيل کو ملا۔ چنانچہ تورات شریف کی کتاب پیدائش میں خدا فرماتاہے " میں اضحاق سے اوراس کے بعد اس کی اولاد سے اپنا عہد جو ابدی ہے باندھوں گا ۔ اسماعیل کے حق میں بھی میں نے تیری دعا سنی۔ دیکھ میں اسے برکت دوں گا اور اسے برومند کروں گا لیکن میں اپنا عہد اضحاق سے باندھوں گا (پیدائش۱۷: ۱۹تا ۲۱) اس مقام میں نہایت واضح اور صاف الفاظ میں خدا نے حضرت اسماعیل کو عہد سے خارج کرکے اپنا عہد حضرت اضحاق سے باندھا ہے۔ کتاب استثنا کی آیہ زیر بحث اسی عہد کے ذیل میں ہے۔

پنجم۔ مقدس پطرس نے اپنی تمام تقریر اور استد لال کا نتیجہ خود ہی فرمایا دیاکہ " خدا نے اپنے خادم عیسیٰ کو برپا کرکے پہلےتمہارے پاس بھیجا"۔ اس آیت سے ایسے شخص کے لئے جو انجیل جلیل سے استد لال کرنا چاہتا ہوتامل(صبرو تحمل) کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہتی ۔

ششم۔ مقدس پطرس رسول تاریخ یہود کے اس دور کا ذکر کرکے جس میں وہ آپ رہتے تھے فرماتے ہیں " سب نبیوں نے ان دنوں کی خبردی ہے"۔ بھلا فرمائیے کہ " ان دنوں" کو چھ (۶)صدیاں بعد کے محمد عربی کے زمانہ سے کیا مناسبت ہے؟

باب چہارم

اضحاقی اور اسماعیلی برکات

خداوندی وعدے

اس باب میں ہم اضحاقی او راسماعیلی برکتوں پر تبصرہ کرکے یہ معلوم کریں گے کہ آیا حضرت اسماعیل اوران کے خاندان کے لئے کوئی نبوی برکت موعود تھی۔ مولوی صاحب نے اپنے رسالہ کے صفحہ ۴ پر بنی اسرائيل اوربنی اسماعیل کی برکتوں کا ایک شجرہ پیش کیا ہے اور تورات شریف میں جو وعدے دونوں قوموں سے ہوئے نقل کئے ہیں۔ چنانچہ ہم بھی ان برکات کو ناظرین کے روبرو پیش کرکے مولوی صاحب کی دلیل کو جانچتے ہیں :۔

وعدوں کی تفصیل اور فرق

مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ " کیا یہ با ت عقل میں آسکتی ہے کہ خداوند تعالیٰ دوقوموں سے برکت اور برومندی کا وعدہ کرے اورپھر ایک قوم کو اپنے وعدہ کے موافق برکت دے اور دوسری قوم کو بخلاف ِ وعدہ برکت اور برومندی بغیر نبی کے ایک مغضوب (جس پر غصہ ہو)اور مقہور قوم کی طرح ترک کردے حالانکہ دونوں کی برکت اور وعدہ یکسا ں ہو"۔لیکن مذکورہ بالا شجرہ سے ناظرین پر ظاہر ہوگیا ہوگاکہ حقیقت یہ ہےکہ خدا نے دونوں قوموں کو اپنے وعدہ برکت وبرومندی کے موافق بابرکت اوربرومند کیا مگر دونوں قوموں کے " برکت اور وعدے یکساں" نہیں تھے۔ اضحاقی وعدہ میں علاوہ برکت ِ برومندی کے ایک اوربرکت بھی شامل تھی جس سے اسماعیل محروم رہا۔ پس بنی اسماعیل کا " بغير نبی" رہنا ہرگز " خلاف ِ وعدہ برکت وبرومندی کے" نہیں ہے اور نہ یہ لازم آتا ہے کہ جس قوم میں" اس قوم کا نبی برپا نہ ہو وہ خواہ مخواہ " مغضوب اورمقہور " قرار دی جائے۔

اضحاقی وعدے

ناظرین حضرت اضحاق اور بنی اضحاق کے وعدوں پر بغور خیال فرمائيں:

خدا نے حضرت اضحاق کی مانند حضرت اسماعیل سے یہ وعدہ تو کیا کہ وہ برکت پائے گا اورا س کی نسل فراواں ہوگی مگر صرف حضرت اضحاق ہی سے یہ وعدہ کیا کہ زمین کی سب قومیں تیری نسل سے برکت پائیں گی۔ پس ان کو دوبرکتیں عطا ہوئیں۔ ایک تو یہ کہ وہ خود معہ اپنی نسل کے صاحب ِ برکت ہو۔ دوسری یہ کہ اس کی نسل تمام جہان کی قوموں کے لئے باعث ِ برکت ہوکر مرکز برکت بن جائے۔ اس وعدہ سے حضرت اسماعیل قطعاً محروم رہے اوریہی خاص وعدہ نبوت کی برکت کا وعدہ ہے جس کی بدولت اسرائيل مخصوص ہوا اورجس کے باعث اضحاق کے خاندان میں بنی اسرائيل تمام جہان میں ممتاز ہوا (پیدائش ۲۸: ۱۳تا ۱۴) اور تمام دنیا کو اس اضحاقی برکت سے برکت ملی۔

مگر اضحاقی برکت کی خاص صورتیں ہیں ۔ یہ برکت ابتداء میں حضرت ابراہیم کو خدا نے دی اور فرمایا " میں نے اپنی ذات کی قسم کھائی ہے کہ " میں تجھے برکت پربرکت دوں گا اور تیری نسل کو بڑھاتے بڑھاتے آسمان کے تاروں اور سمندر کے کنارے کی ریت کی مانند کر دوں گا۔ اور تیری نسل کے وسیلے سے دنیا کی سب قومیں برکت پائیں گی " (پیدائش ۲۲: ۱۶تا ۱۸)۔ خدا نے اپنے وعدہ کو پورا کیا اور نسل ِ ابراہیم کو ساری دنیا کی قوموں کی برکت کا باعث بنایا۔

لیکن حضرت ابراہیم کی نسل میں بعض ایسے بھی تھے جو اس برکت کے مستحق نہ ہوئے ۔ آپ کے ہاں حضرت اسماعیل کے علاوہ کئی بیٹے ہوئے(پیدائش ۲۵: ۱تا ۶) ۔ان میں سے صرف حضرت اضحاق کو خدا نے یہ مخصوص برکت ِ نبوت عطا فرمائی ۔ چنانچہ لکھا ہے کہ خدا نے اضحاق سے فرمایا " میں اس قسم کو جو میں نے تیرے باپ ابراہیم سے کھائی پورا کروں گا۔ میں تیری اولاد کوبڑھا کر آسمان کے تاروں کی مانند کردوں گا اور زمین کی سب قومیں تیری نسل کے وسیلہ سے برکت پائیں گی "(پیدائش ۲۶: ۳تا ۴) کیونکہ خدا نے حضرت ابراہیم سے فرمایا تھاکہ " اضحاق سے ہی تیری نسل کانام چلے گا"(پیدائش ۲۱: ۱۲)۔

ناظرین نےیہ ملاحظہ کیا ہوگا کہ ہر مقام میں جہاں اس وعدہ کا ذکر ہے لفظ" نسل" صیغہ واحد میں استعمال ہواہے۔ یہ امر نہایت معنی خيز ہے۔ اسی واسطے مقدس پولوس رسول بھی استد لال کرتے وقت فرماتے ہیں" پس ابراہیم اوراس کی نسل سے وعدے کئے گئے ۔ وہ یہ نہیں کہتاکہ نسلوں سے جیسا بہتوں کے واسطے کہا جاتاہے ۔بلکہ جیسا ایک کے واسطے کہ تیری نسل کو" (گلتیوں ۳: ۱۶)۔پھر فرماتاہے کہ" ابراہیم کی پشت میں سے ہونے کے سبب سے سب فرزند ٹھہرے بلکہ یہ لکھا ہے کہ اضحاق ہی سے تیری نسل کہلائے گی یعنی جسمانی فرزند خدا کے فرزند نہیں بلکہ وعدے کے فرزند "نسل" شمار کئے جاتے ہیں"(رومیوں ۹: ۷)۔

حضرت اضحاق کے دوبیٹے تھے ۔ ایک ایسا کم ظرف نکلا کہ اس نے اپنی روحانی برکت کو دنیا اورجسم کی خواہشات کے عوض بیچ ڈالا۔ اس لئے خدا نے اس کو برکت سے محروم کرکے اس کے چھوٹے بھائی حضرت یعقوب یعنی اسرائيل کو یہ برکت عطا کردی۔ چنانچہ خدا نے حضرت یعقوب سے کہا " تیری نسل زمین کے گرد کے ذروں کی مانند ہوگی اور دنیا کی سب قومیں تیرے اور تیری نسل کے وسیلہ سے برکت پائیں گی "(پیدائش ۲۸: ۱۴)۔ پس یہ مخصوص برکت حضرت ابراہیم سے ہوتی ہوئی حضرت اضحاق پر اور حضرت اضحاق سے ہوتی ہوئی حضرت یعقوب اوراس کی نسل پر نازل ہوئی۔ اسی واسطے لکھاہے " وہی خدا وند ہمارا خدا ہے جس نے اپنے عہد کو ہمیشہ یاد رکھا یعنی اس کلام کو جو اس نے ہزاروں پشتوں کے لئے فرمایا ۔ اسی عہد کو جو اس نے ابراہیم سے باندھا اوراس قسم کو جو اس نے اضحاق سے کھائی اوراسی کو اس نے یعقوب کے لئے ابدی عہد ٹھہرایا"(زبور ۱۰۵۔ ۷تا ۱۰ وغيرہ) حتٰی کہ بمقابلہ تمام اقوام عالم کے (جن میں بنی اسماعیل بھی شامل ہیں ) بنی اسرائیل ایک مخصوص قوم ہوئی اورخدا نے اس قوم کی بابت فرمایاکہ تو خداوند اپنے خدا کے لئے ایک پاک قوم ہے۔ خداوند تیرے خدا نے تجھے روئے زمین کی اور سب قوموں میں سے چن لیا ہے تاکہ اس کی خاص امت ٹھہرے (استثنا ۷: ۶) اوراس قوم کےخدا کا نام ہی ہر زمانہ میں یہ تھا"۔ ابراہام کا خدا اور اضحاق کا خدا اور یعقوب کا خدا "(خروج ۳: ۶؛ ۴: ۵؛ ۱۔سلاطین ۱۸: ۳۶؛ مرقس ۱۲: ۳۶؛ اعمال ۷: ۳۲ وغیرہ)۔

اس برکت اور وعدہ کے موافق نبوت کی برکت بغیر کسی امتیاز کے اسرائيل کی قوم کے بارھوں(۱۲) فرقوں میں آئی اورکل انبیاء انہی بارہ(۱۲) فرقوں میں سے برکت ِ ابراہیمی کے موافق مبعوث ہوئے اور" زمین کی ساری قوموں کی برکت کا باعث " بنے۔ حضرت اسماعیل اس برکت سے محروم رہ گئے اوران کی اولاد کا اس برکت ِ اعظمیٰ سے تعلق نہ رہا۔ بنی اسماعیل کا اس برکت میں کوئی حصہ بخرہ نہیں۔ اگر اب بھی بنی اسرائيل کے علاوہ بنی اسماعیل میں تورات شریف کی ابراہیمی برکت کی بناء پر کسی نبی کی تلاش کی جائے توہم بجز اس کے اورکیا کہہ سکتے ہیں کہ " سوائے اس کے جوبراہ ِ تعصب اس صاف اور روشن حقیقت سے آنکھ بند کرلے" کون کہہ سکتا ہےکہ حضرت محمد صاحب کا ابراہیمی وعدہ اور برکت ِ اعظمیٰ سے تعلق ہے؟

اسماعیل شرعاً نسل ِ ابراہیم نہیں

جوابدی عہد خدا نے حضرت ابراہیم سے باندھا تھا وہ ان کے بعد صرف حضرت اضحاق سے باندھا گیا ۔ حضرت اسماعیل اس عہد سے قطعاً محروم کئے گئے ۔ ان کو نسل کی فراوانی تو اضحاق کے ساتھ ملی مگر خدا نے صاف فرمادیا" لیکن میں اپنا عہد اضحاق سے ہی باندھو ں گا۔ میں اس سے اوراس کے بعد اس کی اولاد سے اپنا ابدی عہد باندھوں گا "۔ پس اسماعیل خدا کے عہد سے خارج ہوئے ۔ اس عہد سے خارج ہونے کی وجہ سے جیسا مقدس پولوس فرماتاہے حضرت اسماعیل شرعاً ابراہیم کی نسل کہلائے جانے سے بھی خارج ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ خدا نے صرف حضرت اضحاق ہی کو ابراہیم کا" اکلوتا بیٹا" کہا(پیدائش ۲۲: ۱۶) حقیقت بھی یہی ہے کہ گو اسماعیل جسم کے طور پر حضرت ابراہیم سے پیدا ہوئے مگر خدا نے ان کو نسل ِ ابراہیمی سے خارج فرمایا۔ خدا کی برکتیں مفت ہیں۔ وہ جس کو چاہے دے ۔ الله یفعل مایشیاء۔ بقول شخصے

قسمت کیا ہے ہر ایک کو قسام ِ ازل نے

جو شخص کہ جس چیز کے قابل نظر آیا

کوئی اپنے آپ کو خدا کے انعامات کا مستحق نہیں سمجھ سکتا۔ اسماعیل اپنی حالت پر قانع (قناعت کرنے والا)رہے۔ انہو ں نے کبھی کوئی شکایت نہیں کی۔ شکایت کرنے والے زمانہ حال کے مولوی صاحبان ہیں اوران کی شکایت بے جا ہے ۔

علاوہ مذکورہ بالا دلائل کے ہمارے دعویٰ کی دلیل کو حضرت اسماعیل شرعاً ابراہیم نہیں یہ ہیں :۔

(۱) خدا نے حضرت ابراہیم سے اس وقت وعدہ کیا تھا جب کہ اس کے کوئی اولاد نہ تھی ۔ ملک کنعان میں تیری نسل کو دوں گا۔ اب دیکھئے کہ ملک ِکنعان کس کے ترکہ میں پڑا؟ جو کنعان کے وارث ہوئے وہی ابراہیم کی نسل ہوئی۔ یہی ملک میں " تیری نسل کو دو ں گا "۔ اب ظاہر ہے کہ بنی اسماعیل کبھی کنعان کے وارث نہ ہوئے (پیدائش ۲۵باب) اورجو جو قومیں اس کی وارث نہ ہوئیں خواہ وہ ابراہیم کے صلب سے ہی کیوں نہ ہوں وہ نسل ابراہیمی کے نام سے محرو م ہیں ۔

(۲) خدا نے صاف طورپر فرمادیاکہ اے ابراہیم اضحاق سے تیری نسل کا نام چلے گا "(پیدائش ۲۱: ۱۲) پھر کیوں ان کی نسل کسی اور سے کہلائے؟ پس حضرت اضحاق کے سوا ابراہیم کے تمام دیگر بیٹے (مع اسماعیل) خارج ہوگئے ۔

(۳) حضرت ابراہیم کا درحقیقت ایک ہی بیٹا تھا یعنی اضحاق (پیدائش ۲۲: ۱۶)۔ کلام ِ خدا دوسروں کو کنیزک زاد ے(لونڈیوں کی اولاد) کہتاہے اورحضرت اسماعیل کے حق میں بی بی سارہ کے اس فیصلہ کو کہ " اس لونڈی (ہاجرہ) کا بیٹا میرے بیٹے اضحاق کے ساتھ وارث نہ ہوگا "۔(پیدائش ۲۱: ۱۰) خدا تعالیٰ خود منظور فرماتاہے (پیدائش ۲۱: ۱۲)۔

(۴) حضرت ِ ابراہیم کا تمام ترکہ صرف حضرت اضحاق کو ہی ملا۔ چنانچہ لکھاہے کہ" ابراہام نے اپنا سب کچھ اضحاق کود یا" (پیدائش ۲۵: ۵) کیوں؟ اگر اسماعیل بھی شرعاً ابراہیم کے بیٹے تھے تو ان کو کیوں کچھ نہ ملا ؟ حقیقت میں بحکم خدا حضرت ابراہیم کے تمام بیٹے اضحاق کے ساتھ وارث نہ ہوئے بلکہ حضرت نے " اپنے جیتے جی ان کو اپنے بیٹے اضحاق کے پاس سے بہت کچھ انعام دے کر مشرق کی طرف بھیج دیا" (پیدائش ۲۵: ۶) اور اسماعیل کو " روٹی اورپانی کے ایک مشک " دے کر رخصت کردیا(پیدائش ۲۱: ۱۴) ۔ پس ابراہیم نے عملی طور سے صرف اضحاق کو ہی اپنا بیٹا گردانا اوراسی کو اکیلا بلاشرکت ِ غیر اپنا وارث بنایا۔

(۵) خدا تعالیٰ نے حضرت اسماعیل اور دیگر کنیزک زادوں کے باوجود اضحاق کو ابراہیم کا " اکلوتا بیٹا" کہا(پیدائش ۲۲: ۲، ۱۶)۔

اب یہاں سے اظہر من الشمس (روز روشن کی طرح عیاں )ہے کہ نبوت کی برکت کا وعدہ اورالہٰی عہد جو حضرت ابراہیم سے اس کی نسل کی بابت ہوا تھا حضرت اضحاق کوپہنچا۔ اوران کے بعد حضرت یعقوب کو پہنچا۔ حضر ت اسماعیل شروع ہی سے نسل ِ ابراہیمی سے اور وعدہ کی فرزندگی سے اور عہد ِ الہٰی سے خارج ہوئے۔پس بنی اسماعیل سے کسی نبی کے اس معنی میں برپا ہونے کا دعویٰ جس معنی میں کہ بنی اسرائيل میں برپا ہوئے محض طرفداری کی ضد ہے جس کا ابطال تورات شریف خود کرتی ہے۔

باب پنجم

عدم نبوت ِ اسماعیل

فصل اوّل

عدم ِ نبوت ِاسماعیل ازروئے تورات

ہم نے گذشتہ باب میں اضحاقی اور اسماعیلی برکتوں پر مفصل بحث کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ تورات شریف کی رو سے نبوت کی برکت ِ عظمیٰ حضرت اضحاق کو اوران کے بعد حضرت یعقوب کو ملی۔ حضرت یعقوب کے بعد یہ نعمت آل ِ یعقوب یعنی بنی اسرائيل کے مختلف افراد کو عطا ہوئی ۔ لیکن حضرت اسماعیل اورآل ِ اسماعیل کے تمام افراد نبوت کی برکت سے خارج ہوئے ۔ پس ازروئے توارت نہ تو اسماعیل نبی تھے اورنہ آپ کی اولاد بنی اسماعیل سے کسی نبی نے برپاہونا تھا۔

مولوی صاحب کی دلیلیں اوران کے جواب

لیکن مولوی صاحب نے خدا کے روشن وعدوں کو نہ سمجھنے کے باعث نہ صرف یہ فرض کرلیاکہ بنی اسماعیل میں نبی موعود ہونے والا تھا بلکہ یہ بھی فرض کرلیا کہ اسماعیل بھی ابراہیم اضحاق اوریعقوب کی مانند نبی تھے۔ اور حیرت انگیز امر یہ ہےکہ آپ نے اپنے مفروضہ کو تورات شریف سے ثابت کرنا چاہتے ہیں ۔ چنانچہ آپ نے اپنے رسالہ کے آخر میں بعنوان " اثبات ِ نبوت ِ حضرت اسماعیل " (صفحہ ۴۷تا ۴۸) فرماتے ہیں :

" عیسائی کہتے ہیں کہ حضرت اسماعیل کی نبوت توریت مقدس سے ثابت نہیں ہوتی مسلمان کہتے ہیں کہ حضرت اسماعیل کی نبوت توریت مقدس سے ایسی ثابت ہوتی ہے جیسے کہ حضرت ابراہیم حضرت اضحاق اور حضرت یعقوب کی ۔چنانچہ ان کی نبوت کے دلائل یہ ہیں:

پہلی دلیل۔ یہ ہے کہ کتاب پیدائش سے ظاہر ہوتاہے کہ" خدا ابراہیم کے ساتھ تھا"۔ اسی کتاب سے ظاہرہے کہ " خدا اضحاق کے ساتھ تھا"۔ اورکہ"خدا یعقوب کے ساتھ تھا"۔ اسی طرح اسماعیل کے حق میں لکھا ہے کہ "خدا اس کےساتھ تھا"(پیدائش ۲۱: ۲۰)۔

اچھا صاحب ۔ اگر آپ کی دلیل کے موافق خدا کا کسی کےساتھ ہونا (اور خدا کس کے ساتھ نہیں؟ ) اس کو نبی بنادیتاہے توہم اورنبیوں کا بھی پتہ آپ کو بتادیتے ہیں ! "خدا وند خدا ساتھ ہے " اسرائيل میں تمام جنگی مردوں کے(استثنا ۲۰: ۱؛ ۳۱: ۶؛ ۲۔تواریخ ۱۳: ۱۴؛ ۳۲: ۸ وغيرہ)۔

خداوند تمام قوم اسرائیل کے ساتھ ہے " (گنتی ۱۴: ۹؛ استثنا ۲۰: ۴ وغیرہ)۔ "خداوند ساتھ ہے " آسا بادشاہ کے اوربنی یہوداہ کے تین لاکھ آدمیوں کے اور بنیامین کے دو لاکھ اسی ہزار آدمیوں کے (۲۔تواریخ ۱۵: ۲؛ ۱۴: ۸ )اب اگرہمارے مخاطب چاہیں تو ان لاکھوں جنگی مردوں ، سورماؤں اورکُل قوم بنی اسرائيل کو نبی مان لیں۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ وہ نبی نہ تھے۔

عبرانی محاورہ کے مطابق " خدا کا کسی کےساتھ ہونا" سے مراد خدا کی مدد اور یادآوری (مزاج پرسی کرنا)کا اس کے شامل حال ہونا ہے۔ اس سے کسی شخص کا عہد ہ نبوت پر سرفراز کیا جانا مراد نہیں ہوسکتا ۔ ہمیں افسوس ہے کہ مولوی صاحب نے جس آیت کو حضرت اسماعیل کی فضیلت میں پیش کیا ہے اس کو آپ نے پورا نہیں پڑھا اورنہ اس پر غور کیا ہے۔ اس آیت میں ہے " خدا ا س لڑکے اسماعیل کے ساتھ تھا اور وہ بڑا ہوا اوربیابان میں رہنے لگا اورتیرا نداز بنا" (پیدائش ۲۱: ۲۰)۔ ہمارے مخاطب کو یا دہوگا کہ خدا نے حضرت اسماعیل سے یہ وعدہ فرمایا تھاکہ " وہ گورخر کی مانند آزاد مرد ہوگا۔ اس کا ہاتھ سب کے خلاف اورسب کے ہاتھ اس کے خلاف ہوں گے"(پیدائش ۱۶: ۱۲) ۔کتاب ِ مقدس میں گورخر کی یہ صفات مذکور ہیں "گورخر کو کس نے آزاد کیا؟ جنگلی گدھے کے بند کس نے کھولے ۔ خدا نے بیابان کو اس کا مکان بنایا۔ اور زمین شور کو اس کا مسکن ۔ وہ شہر کےشور وغل کو ہیچ سمجھتا ہے اورہانکنے والے کی ڈانٹ کو نہیں سنتا" (ایوب ۳۹: ۵تا ۷)۔یہی حال حضرت اسماعیل کا تھا۔ ان کے گردوپیش کے حالات کے مطابق خدا نے اپنا وعدہ پورا فرمایا۔ حضرت بڑے ہوئے ، بڑھے اور بیابان میں جارہے اور تیر انداز ہوگئے۔ تیر انداز ی آپ کے کام آئی کیونکہ حضرت کے ہاتھ سب کے خلاف اور حضرت کے خلاف سب کے ہاتھ ہوگئے۔ اس زمانہ کے حالات کے لحاظ سے بیابان میں رہنے والوں کی عظمت وجلال تیر اندازی پر ہی منحصر تھا۔ آپ یہ کہے کہ خدا اسماعیل کے ساتھ تھا اور وہ تیرانداز ی میں ماہر ہوگیا نہ یہ کہ خدا اسماعیل کے ساتھ تھا اور نہ وہ نبی ہوگیا۔

دوسری دلیل ۔ مولوی صاحب کی دوسری دلیل اوربھی مضحکہ خیز ہے۔ آپ لکھتے ہیں " ابراہیم جان بحق ہوا اور اپنے لوگوں سے جاملا۔ اضحاق اپنے لوگوں سے جا ملا۔ یعقوب جان بحق ہوا اور اپنے لوگوں سے جاملا۔ اسی حضرت اسماعیل کے حق میں لکھاہےکہ " اسماعیل نے دم چھوڑ دیا اور وفات پائی اوراپنے لوگوں میں جا ملا "(پیدائش ۲۵: ۱۷)۔

مولوی صاحب غضب کرتے ہیں جو جملہ " اپنے لوگوں میں جاملا" سے کسی شخص کی نبوت کا خیال اخذ کرتے ہیں ! عبرانی محاورہ کے مطابق یہ جملہ وہی زور رکھتاہے جیسا ہمارے محاورہ میں " جنت نصیب ہونا" یا "غریق مغفرت ہونا"۔ اس عبرانی محاورہ کی بنیاد یہ ہےکہ ہر مرنے والا وہیں جاتاہے جہاں اس کے آباؤ اجداد گئے ہیں۔ اگرمولوی صاحب کی دلیل کو مان لیا جائے اور یہ درست وصحیح ہوکر مرنے کے بعد اپنے لوگوں میں مل جانے سے اسماعیل نبی ہوگئے تو آپ کے مطابق دعویٰ نبوت کی اصلیت یہ ہوئی کہ حضرت اسماعیل جیتے جی نبی نہ ہوئے (اورہم بھی اس سے زيادہ اورکچھ نہیں کہتے !) مگر موت کے بعد وہ نبی ہوگئے !! پر اگر کوئی شخص مرنے کے بعد کسی نبی سے جاملے تووہ نبی نہیں ہوجاتا۔ ناظرین پر ظاہر ہوگیا ہوگا کہ عیسائیوں کا دعویٰ کہ اسماعیل کی نبوت تورات شریف سے ثابت نہیں ہوتی کس پایہ کا ہے اورمسلمانوں کا ان کے دعویٰ سے انکار کرنا کس قسم کے مضحکہ خيز دلائل پر مبنی ہے۔

اگر حضرت ابراہیم ، اضحاق اور یعقوب نبی تھے تو نہ اس لئے کہ خدا ان کے ساتھ تھا" یا وہ بعد مُردن اپنے باپ دادا سے جاملے کیونکہ یہ امور خصائص نبوت سے نہیں ہیں۔ ان کی نبوت کے وجوہ (وجہ کی جمع ،اسباب)حسب ذیل ہیں۔ اور واضح رہے کہ بجنسہ انہی وجہ کے باعث حضرت اسماعیل نبی نہ تھے ۔ گوہم باب چہارم میں اس کے ابطال (باطل کی جمع)نبوت کے دلائل بیان کرچکے ہیں۔

حضرت ابراہیم نبی اس لئے تھے کہ خدا ان سے ہم کلام ہوا (پیدائش ۱۲: ۱ وغيرہ)اور خدا کا کلام ان پر نازل ہوا (پیدائش ۱۵: ۱) خدا نے ان کے ساتھ اپنا خاص عہد باندھا (پیدائش ۱۷: ۷) اور وہ خدا کے دوست خلیل الله تھے (یعقوب کا خط ۲: ۲۳) حضرت اضحاق اس لئے نبی تھے کہ خدا ان پر ظاہرہوا ۔ ان سے ہم کلام ہوا اور ان سے عہد قائم کیا(پیدائش ۲۶: ۲تا ۵ وغيره) ۔حضرت یعقوب بھی اس لئے نبی تھے کیونکہ خدا ان پر بھی ظاہر ہوا (پیدائش ۲۸، ۳۲ باب ) اب یہ خاص برکتیں حضرت اسماعیل کو نصیب نہ ہوئیں۔ وہ خدا تعالیٰ کے دیدار سے مشرف نہ ہوئے ۔ ان کو خدا کے ساتھ ہم کلام ہونا نصیب نہ ہوا اور خدا نے ابراہیمی عہد کو ان کے ساتھ نہ باندھا۔ اسماعیل ان سب باتوں سے محروم رہ گئے ۔ حق تو یہ ہےکہ ان کو بیابانی زندگی اور تیر اندازی اور دشمنوں سے جنگ کرنے نے فراغت ہی نہ دی کہ وہ ان باتوں کی طرف دھیان کرتے۔وہم نبوت ان کو خواب میں بھی کبھی ستانے نہ پایا تھا۔

تیسری دلیل۔ مولوی صاحب نے تورات کی ایک اور آیت کو ضمناًاس سند میں پیش کیاہے کہ بنی اسماعیل میں انعام ِ نبوت آنے والا تھا۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں " استثنا کے ۳۲باب کی۲۱آیت سے ظاہر ہے کہ جب بنی اسرائيل نے خد اکے حکم کی نافرمانی کی تو اس وقت خدا نے غضب ناک ہوکر قوم اسرائيل سے فرمایا " میں ان کے ذریعہ سے جو کوئی اُمت نہیں ان کو غيرت دلاؤں گا اورایک نادان قوم کے ذریعہ سے ان کو غصہ دلاؤں گا "۔ اگر نظر ِ انصاف اور غور سے دیکھا جائے تو صاف معلوم ہوتاہے کہ " نادان قوم" کی مخاطب ٹھیک بنی اسماعیل کی قوم ہے۔

ہم حیرت میں ہیں کہ ہمارے مخاطب کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں ؟ کیا بنی اسماعیل کو نادان ثابت کرکے وہ خدا کے ہاتھ سے ان کو نبوت دلائيں گے۔ کیا وہ بھو ل گئے ہیں کہ اگر نادانی کسی قوم کو مستحق نبوت کردے تو بنی اسماعیل سے کہیں بڑھ چڑھ کر اس امر میں بعض اور قوموں کو فضیلت حاصل تھی؟ اور کیا زمانہ حال میں " نادان " اقوام کی بیخ کنی ہوگئی ہے۔یا کیا مولوی صاحب سمجھتے ہیں کہ جس قوم سے اسرائيل خفا ہوجائے اس کو نبوت مل جایا کرتی ہے! اہل یہود کی تاریخ بتلاتی ہے کہ قوم اسرائیل بعض اور قوموں سے بنی اسماعیل سے کہیں زیادہ خفا ہوچکی ہے ۔کیامولوی صاحب ان سب کو عہد ہ نبوت دلائیں گے ؟ " نادان قوم" ہونا اور اسرائيل کو "غصہ دلانا" دعویٰ نبوت کے لئے بہت ہی نادانی کی دستاویز ہوسکتا ہے ۔ ہمارے مخاطب کو اس قدر نادان تو نہ بننا چاہیے۔

مولوی صاحب اپنی دلیل دے کر کہتے ہیں " ان کے حق میں توریت مقدس میں وعدہ برکت اوربرومندی کا ہے"۔ ہم اس منطق کو مطلق نہیں سمجھے کہ" وعدہ برکت وبرومندی " کے لئے " نادان قوم" ہوجاناکیوں کر لازم وملزوم ہے ۔ ہم اوپر بتلاچکے ہیں کہ " وعدہ برکت وبرومندی" میں کوئی وعدہ" نبوت شامل نہیں ہے۔

آپ کہتے ہیں " یہ قوم ایک عرصہ دراز تک بغیر کتاب اوربغیر نبی کے رہی لیکن یہ قوم خدا کی موعودہ قوم تھی اس واسطے اس قوم کو " نادان" قوم کہا گیا " ہم اوپر بتلاچکے ہیں کہ کس معنی میں یہ قوم" خدا کی موعودہ قوم" تھی اورکہ اسماعیلی وعدہ میں کوئی وعدہ ِنبوت نہ تھا۔ ہا ں یہ بات درست ہے کہ "بغیر کتاب اور بغیر نبی" رہنے کی وجہ سے اس قوم کو " نادانی" کا حق حاصل ہے۔ اسی لئے قرآن نے بھی ان کو " اُمی" کہا ہے ،لیکن یہ حق غیر مشترکہ نہیں ہے کیونکہ نہ صرف بنی اسماعیل بلکہ تمام غیر اسرائیلی اقوام عالم" بغیر کتاب اور بغیر نبی" کے رہیں۔ حقیقت یوں ہے کہ " نادان قوم" سے مراد ایسی ہی قوم ہے جو " بغیر کتاب اور بغیر نبی" ہو۔ صحف ِ سماوی کی اصطلاح میں تمام غیر یہود اقوام " نادان " ہیں۔ خواہ وہ دنیا کی نظروں میں عقل مند ہوں۔ کیونکہ وہ " بغیر کتاب اوربغير نبی" یعنی حقیقی عرفان ِ الہٰی کے بغیر ہیں۔ بنی اسماعیل بھی دیگر یہودی اقوام کے ساتھ" نادان" اقوام میں شامل ہیں۔ " نادان " ہونا صرف بنی اسماعیل کی خصوصیت ہی نہیں۔

ناظرین ذرا غور فرمائیں ۔ مولوی صاحب باب ِ سوم کی فصل اوّل میں تویہ ثابت کرناچاہتے تھے کہ لفظ" بھائیوں" سے مراد بنی اسماعیل ہیں لیکن یہاں آپ بنی اسماعیل کو " نادان قوم" یعنی غیر قوم تسلیم کررہے ہیں ۔

اگر بنی اسماعیل آپ کےمعنوں میں بنی اسرائيل کے " بھايئوں" میں سے ہیں۔ تو وہ غیر قوم کیسے ٹھہرے؟ مولوی صاحب نے اپنے قضیہ کو ثابت کرنے کے لئے یہ خیال نہیں کیاکہ اجتماع الضد ین ازروئے منطق محال ہے!

(۲)

صحیح اصول تفسیر کی رو سے اس آیت میں مسیحیت کی طرف اشارہ ہے جس نے تعصبات یہود کے خلاف یہود اور غیر یہود کو مساوی کردیا اور غير یہود کوجو بوجہ" بغیر کتاب اور بغیر نبی" ہونے کے " نادان " اقوام تھیں بنی اسرائیل کی غیرت ، خفگی اور غصہ کا باعث ہوئے ۔ چنانچہ اس امر کو حضرت کلمة الله نے انگورستان اور ضیافت کی تمثیلوں (متی ۲۱: ۳۳تا ۴۶؛ ۲۳: ۱تا ۱۱؛ لوقا ۱۴: ۱۲تا ۲۴) میں بیان فرمایا ہے ۔ آپ نے بنی اسرائيل کو علانیہ آگاہ ِ کرکے فرمادیا’’خدا کی بادشاہی تم سے لےلی جائے گی اوراس قوم کو جو اس کےپھل لائے دے دی جائے گی ‘‘ (متی ۲۱: ۴۳؛ نیز دیکھو متی ۳: ۸تا ۱۰؛ یسعیاہ ۵: ۱تا ۷ وغیرہ)۔ مقدس پولوس رسول نے بھی اسی آیت کی طرف اشارہ کرکے فرمایا" ضرور تھا کہ خدا کا کلام پہلے تم (بنی اسرائيل ) کو سنایا جائے لیکن چونکہ تم اس کو رد کرتے ہو اوراپنے آپ کوہمیشہ کی زندگی کے ناقابل ٹھہراتے ہو تو دیکھو ہم غیر قوموں کی طرف متوجہ کرتے ہیں"(اعمال ۱۳: ۴۶) ۔اسی مقام میں لکھا ہے کہ" یہودی ڈاہ (حسد ،دشمنی)سے بھر گئے "(آیت ۴۵) ۔پس یہی امر یعنی غیر یہود کا خدا کی بادشاہی میں داخل ہونے کا تصور یہودیوں کی خفگی اور غصہ کا باعث ہوا۔ مولوی صاحب آیت (متی ۲۱: ۴۳) کا اقتباس کرکے کہتے ہیں کہ مسیح نے صرف بنی اسماعیل کی جانب اشارہ کیا ہے حالانکہ آنخداوند نے روئے زمین کی تمام اقوام کوجو دنیا کے چاروں گوشوں میں بستی ہیں ، لفظ" قوم" میں شامل کرکے ان کو یہودیوں کے مقابل پیش کیا ہے۔ چنانچہ آپ نے فرمایا " پورب اورپچھم ،اُتر اور دکھن سے لوگ آکر ابراہام اور اضحاق اور یعقوب کے ساتھ آسمان کی بادشاہی کی ضیافت میں شریک ہوں گے مگر تم اپنے آپ کو باہر نکلا ہوا دیکھو گے وہاں رونا اوردانت پیسنا ہوگا"(متی ۸: ۱۱تا ۱۲؛ لوقا ۱۳: ۲۸ دیکھو افسیوں ۳: ۶وغیرہ) یہی غير اقوام وہ لوگ ہیں جو "پھل لائے"۔ اورمنجی عالمین پر ایمان لاکر خدا کی بادشاہی کے وارث ہوئے۔

لیکن مولوی صاحب اس صحیح تفسیر کوجو کلام الله پر مبنی ہے قبول نہیں کرتے اورلکھتے ہیں" عیسائی صاحبان اس آیت کو یونانیوں اور غیر قوموں پرجنہوں نے عیسائی مذہب قبول کیا ہے جماتے ہیں۔ مگر یہ آیت ان مذکورہ قوموں کے حق میں ہر گزنہیں ہوسکتی۔ اس بارے میں ہم دودلیلیں قائم کرتے ہیں ۔اوّل یہ کہ ان قوموں کے ساتھ برکت اوربرومندی کا وعدہ نہیں کیا گیا" توپھر اس سےکیا؟ کیا ضرور ہےکہ ہربرکت وبرومندی صرف وعدہ کے ساتھ ہی ہو؟ کیا خدا وعدہ کئے بغیر برکت وبرومندی عطا نہیں کرتا ؟ کیا ہر قوم کےساتھ جو برومند ہوئی وعدہ برومندی کہیں لکھاہے؟ اور تواریخ اس امر پر شاہد ہے کہ غير اقوام جسمانی اور دنیاوی برکت وبرومندی سے محروم نہیں رہیں۔ لیکن یہاں تو کوئی امر" وعدہ، برکت وبرومندی " پر منحصر نہیں ہے۔ یہاں تو کسی اور قسم کا وعدہ مقصود ہے۔ غير اقوام کا سیدنا مسیح پر ایمان لاکرایک ہونے کا وعدہ تو خدا کی طرف سے پہلے ہوچکا تھا اوران غیر اقوام میں بنی اسماعیل بھی شامل ہیں۔جو سب کے ساتھ ایماندار ہوکر ابراہیم کے فرزند ہوسکتے ہیں۔ چنانچہ مقدس پولوس فرماتاہے" یہ جان لو کہ جو ایمان والے ہیں وہی ابراہام کے فرزند ہیں اورکتاب مقدس نے پیشتر سے یہ جان کر کہ خدا غیر قوموں کو ایمان سے راستباز ٹھہرائے گا پہلے ہی سے ابراہام کو یہ خوشخبری سنادی کہ تیرے باعث سب قومیں برکت پائیں گی ۔پس جو ایمان والےہیں وہ ایماندار ابراہام کےساتھ برکت پاتے ہیں" (گلتیوں ۳: ۷تا۸؛ نيز دیکھو لوقا ۱۹: ۹تا ۱۰؛ رومیوں ۳: ۲۹تا ۳۰ وغیرہ) پس تمام غیر یہود کا رجوع لانا وعدہ ابراہیمی کے عین موافق ہے۔

مولوی صاحب کی دوسری دلیل یہ ہے کہ

" ان یونانیوں اور غیرقوموں کو کسی دانا اور عقل مند شخص نے آج تک " نادان قوم" نہیں کہا بلکہ اس یونانی قوم کو انجیل مقدس میں ایک دانا اور حکمت والی قوم کہا گیا ہے"

(صفحہ ۷)

لیکن مولوی صاحب ابھی چند سطریں اوپر " نادان قوم" کی تعریف خودہی کرچکے ہیں یعنی وہ قوم جو " بغیر کتاب اور بغیر نبی کے" ہو اور یونانیوں اور غير قوموں" کے" بغیر کتاب اوربغیر نبی ہونے کے مولوی صاحب بھی منکر نہیں ہوسکتے ۔ پس آپ جیسے " دانا اور عقلند" نے یونانیوں کو خود" نادان قوم" تسلیم کرلیا ۔ یہ درست ہے کہ علم وفلسفہ میں یونانیوں (نہ کہ تمام غير اقوام) " ایک دانا اورحکمت والی قوم " تھی لیکن وہ باوجود اپنے علم وفلسفہ کے " بغیر کتاب اوربغیر نبی" ہونے کی وجہ سے " نادان قوم" تھی اور صحیح عرفان الہٰی سے محروم تھی ۔چنانچہ مقدس پولوس رسول فرماتے ہیں " انہوں نے اگرچہ خدا کو جانا مگر عرفان ِالہی ٰکے نہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے اس کی خدائی کے لائق اس کی تمجید اور شکرگزاری نہ کی بلکہ باطل خیالات میں پڑگئے اوران کے بے سمجھ دلوں پر اندھیرا چھاگیا"(رومیوں ۱: ۲۱)۔

پس ہمارے مخاطب کی دونوں دلیلیں غلط ہیں اورجو تفسیر ہم نے مولوی صاحب کی پیش کردہ آیت (استثنا ۳۲: ۲۱) کی بتلائی ہے وہی صحیح ہے اورکتاب مقدس کے مطابق ہے۔ چنانچہ مقدس پولوس فرماتاہے " یہودیوں اوریونانیوں میں کچھ فرق نہ رہا اس لئے کہ وہی سب کا خداوند ہے اوران سب کے واسطے جو اس کا نام لیتے ہیں فیاض ہے۔ موسی ٰ کہتاہے کہ میں ان سے تم کو غیرت دلاؤں گا جو قوم ہی نہیں۔ ایک نادان قوم سے تم کو غصہ دلاؤں گا ۔ یسعیاہ بھی کہتاہے ۔" جنہوں نے مجھے نہیں ڈھونڈا انہوں نے مجھے پالیا۔ جنہوں نے مجھے نہیں پوچھا ان پر میں ظاہر ہوگیا۔ لیکن اسرائیل کے حق میں وہ کہتاہے کہ میں دن بھر ایک نا فرمان اورحجتی اُمت کے کی طرف اپنےہاتھ بڑھائے رہا"(رومیوں ۱۰باب) یہ آیات سیدنا مسیح کی ضیافت والی تمثیل کی الہٰامی تفسیر ہیں۔ پولوس رسول بتاکید فرماتے ہیں کہ مولوی صاحب کی پیش کردہ آیت میں غیر قوموں کے یہودیوں کے ساتھ مساوی حقوق میں داخل ہونے کی خبر ہے اوریہ بات یہودیوں کی غیرت، خفگی اور غصہ کا باعث بنی (اعمال ۲۱باب وغیرہ) مقدس پولوس خود کھلم کھلا فرماتے ہیں " میں غیر قوموں کارسول ہوکر تم غیر قوم والوں سے بولتا ہوں تاکہ میں کسی طرح اپنے قوم والوں کو غیرت دلاؤں ۔"(رومیوں ۱۱: ۱۳تا ۱۴)۔

فصل دوم

عدم نبوت ِ اسماعیل ازروئے قرآن

انصاف پسند ناظرین پر گذشتہ فصلوں کے مطالعہ سے ظاہر ہوگیا ہوگاکہ تورات مقدس کی روسے نبوت حضرت ابراہیم کو اور ان کے بعد ان کی اولاد میں سے صرف حضرت اضحاق کو عطا کی گئی ۔ حضرت اضحاق کی اولاد میں سے صرف حضرت یعقوب کو اس برکت سے سرفراز فرمایا گیا۔ خدا نے حضرت ابراہیم سے وعدہ کیا تھاکہ" تیری نسل سے دنیا کی تمام قومیں برکت پائیں گی" یہی وعدہ حضرت اضحاق سے ان کے بعد حضر ت یعقوب سے کیا گیا چنانچہ خدا نے حضرت ابراہیم کی موت کے بعد حضرت اسماعیل کو اس وعدہ سے خارج کرکے حضرت اضحاق سےکہا" زمین کی سب قومیں تیری نسل کے وسیلہ سے برکت پائیں گی" (پیدائش ۲۶: ۴) اورپھر حضرت اضحاق کے پہلوٹھے بیٹے حضرت عیسو کو اس وعدہ سے خارج کرکے حضرت یعقوب سے فرمایا گیا" زمین کے تمام گھرانے تیرے اور تیری نسل کے وسیلہ سے برکت پائیں گے"(پیدائش ۲۸: ۱۴)۔ یوں حضرت اسماعیل اوران کے بعد حضرت عیسو نبوت کی برکت ِعظمیٰ سے خارج ہوئے۔

قرآنی آیات

قرآن مجید بار بار اس امر کا علاج کرتاہے کہ وہ تورات شریف کا مصدق ہے اورجب ہم قرآن کاغور وتدبر کے ساتھ مطالعہ کرتے ہیں توہم پر یہ بات روشن ہوجاتی ہے کہ نبوت ِ اضحاق واسماعیل کے بارے میں وہ بعینہ وہی بات کہتاہے کہ جو تورات کہتی ہے ۔ قرآن عدم نبوت ِاسماعیل کی تائید اور تصدیق کرتاہے ۔ چنانچہ چند آیات ملاحظہ ہوں۔

(۱) ہم (خدانے ) اس عورت (بی بی سارہ) کو اسحاق کی بشارت دی اور اسحاق کے بعد یعقوب کی (ہود ع ۷آیت ۷۴)۔

(۲) ہم نے ابراہیم کو اسحاق اور یعقوب بخشا اور ہم نے سب کو ہدایت دی (سورہ انعام ع ۱۰ آیت ۸۴)۔

(۳) (اے محمد) ہمارے بندوں ابراہیم اور اسحاق اور یعقوب کو یاد کرو جو ہاتھوں اورآنکھوں والے (یعنی صاحب ِاعمال ومعارف) تھے۔ اورہم نے ان کو ایک خاص بات کے لئے یعنی ذکر ِ آخرت کے لئے چنا ۔ اوربے شک وہ (سب )ہمارے ہاں برگزیدہ نیک بندوں میں ہیں ۔ اوراسماعیل اور الیسع اور ذواکفل کو بھی یاد کرو اور(ان میں سے ) ہر ایک خوبی والا تھا( سورہ ص ۔ ع ۴؛ آیت ۴۵تا ۴۸)۔

(۴) جب وہ (ابراہیم) ان سے اور الله کے سوائے ان کے معبودوں سے جن کو وہ پکارتے تھے الگ ہوگیا توہم نے اس کو اسحاق اور یعقوب بخشا اورہر ایک کو ہم نے نبی بنایا اوران تینوں (ابراہیم ، اسحاق اور یعقوب) کو ہم نے اپنی رحمت سے (سب کچھ ) دیا اور ہم نے ان کے لئے اعلیٰ درجہ کا ذکرِ خیر (باقی )رکھا (سورہ مریم ع ۳ آیت ۴۹)۔

(۵) ہم نے ابراہیم کو اسحاق بخشا اور یعقوب انعام میں دیا۔ اور سب کو نیک بخت کیا اور ہم نے ان کو (قوم کا ) پیشوا اور امام بنایا کہ ہمارے حکم سے ہدایت کرتے تھے (سورہ انبیاء ع ۵ آیت ۷۲ تا ۷۳)۔

(۶) اورہم نے اس (ابراہیم )کو اسحاق اور یعقوب بخشا اوران کی نسل میں نبوت اور (نزول) کتاب کو (جاری ) رکھا اورہم نے اس کا اجر اسے دنیا میں دے دیا اورآخرت میں وہ نیکوں میں ہے"(سورہ عنکبوت ع ۳۔ آیت ۲۶)۔

(۷)اے بنی اسرائیل ۔ میرا وہ احسان یاد کرو جو میں نے تم پر کیا ہے اوراس بات کوبھی (یاد رکھو) کہ میں نے تم کو دنیا جہان کے لوگوں پر فوقیت بخشی (سورہ بقرع ۶۔ آیت ۴۴)۔

(۸) البتہ ہم نے بنی اسرائيل کو کتاب اورحکومت اورنبوت عنایت فرمائی اور تمام جہان پر ان کو فضیلت اور فوقیت بخشی (سورہ جاثیہ ع ۲ آیت ۱۵)۔

آیات ِ قرآنی پر تبصرہ

جب ہم ان آیات ِ قرآنی کا بغور تدبر مطالعہ کرتے ہیں توہم پر ظاہر ہوجاتاہے کہ :۔

پہلی آیت میں حضرت ابراہیم کی بیوی بی بی سارہ کو حضرت اسحاق کی بشارت دی جاتی ہے او رحضرت اسحاق کے بعد یعقوب" کی بشارت دی گئی ہے۔ تمام قرآن میں کسی ایک مقام میں بھی حضرت اسماعیل کی پیدائش کی بشارت کا ذکر موجود نہیں ہے۔ اورنہ کسی جگہ حضرت یعقوب کے بڑے بھائی عیسو کا ذکر ہے۔ پس قرآن کے مطابق دونو ں ابراہیمی وعدہ سے خارج ہوئے۔ حضرت ابراہیم" کو اسحاق کی اور اسحاق کے بعد یعقوب کی بشارت" دی گئی ہے اور یہ عین تورات شریف کے مطابق ہے۔

دوسری آیت میں بھی یہی مذکورہے کہ "حضرت ابراہیم کو اسحاق اور یعقوب بخشا " گیا اوران تینوں کو خدا کی طرف سے "ہدایت " دی گئی۔ اس آیت میں بھی ابراہیم کے ساتھ اسماعیل کا ذکر نہیں کیا گیا۔ جس سے صاف ظاہرہے کہ اسماعیل خدا کی بخشش میں شامل نہیں تھے۔ ورنہ آیت کے الفاظ یوں ہوتے " ہم نے ابراہیم کو اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب بخشا"۔ پس اس آیت کے مطابق بھی حضرت اسماعیل وعدہ نبوت کی بخشش سے خارج ہیں۔

تیسری آیت میں بھی اوپر کی دو آیات کی مانند ابراہیم کے بعد اسماعیل کا نام نہیں آتا۔ بلکہ اسحاق اور یعقوب کا نام آتاہے ۔ اوران کے ناموں کےساتھ ان کے تین اوصاف کا ذکر کیا جاتاہے۔

اول کہ وہ صاحب ِاعمال ومعارف تھے۔

دوم کہ وہ خدا کے چنے ہوئے بندوں میں سے تھے۔

سوم کہ خدا نے ان کو کسی خاص مقصد کی خاطر چنا تھا۔ جس کی وجہ سے بقول امام رازی

’’انہو ں نے دارِ آخرت میں اپنے لئے ایک بلند اورجلیل ذکر حاصل کیا‘‘۔

اگر حضرت اسماعیل کوبھی یہی مرتبہ حاصل ہوتا تو واجب تھاکہ ان کا ذکر بھی حضرت ابراہیم کے بعد اوراسحاق سے پہلے یا کم از کم اسحاق کے ساتھ کیا جاتا۔ لیکن آیت سےان کا نام ایسا خارج کیا گیاہےکہ وہ حضرت ابراہیم کے کنبے میں ہی نہ تھے۔ اور یہ تورات کی آیت کے مطابق ہے کہ ابراہیم کی نسل اضحاق سے کہلائے گی "(پیدائش ۲۱: ۱۲؛ ۲۲: ۲)

علاوہ ازیں یہ امر حیرت کا موجب ہےکہ خدا اس آیت میں آنحضرت کو یہ حکم تو دیتاہے کہ وہ ابراہیم اور اسحاق اور یعقوب کا ذکر کریں اوران کےعلم وعمل کی فضیلت کا بیان کریں ۔لیکن ان کواپنے جد ِ امجد اسماعیل کاذکرکرنے کا حکم نہیں دیتا۔ یہ بھی مقام ِ تعجب ہے کہ حضرت اسماعیل کا ذکر ان خاص اشخاص میں نہیں آتا جو صاحب علم وعمل خدا کے برگزیدہ نیک بندے تھے اورجن کو خاص مقصد کے ماتحت مشورت الہٰی نے چنا تھا۔

اس قرآنی آیت میں ایک اور امر قابل غور ہے۔ اس میں کسی حضرت اسماعیل کا ذکر کیا گیا ہے لیکن ان کا نام آیت کے آخر میں ابراہیم اسحاق اور یعقوب سےبالکل الگ کیا گیا ہے۔ اور الیسع او رذواکفل جیسے مقابلہ ً گمنام اور چھوٹے نبیوں کے ساتھ آیا ہے جو حضرت ابراہیم، اسحاق، اوریعقوب کے صدیوں بعد پیدا ہوئے اورجن کو موافق قرآنی آیت اور " ہم نے بعض رسولوں کو بعض پر فضیلت دی " (بقر ع ۳۳) فقط" خوبی والوں" میں شمار کیا گیا ہے۔ ان وجوہ کی بناء پربعض مفسرین قرآن یہ خیال کرتے ہیں کہ یہاں اور اوپر کی دو آیات میں جس" اسماعیل" کاذکر آیا ہے وہ ابراہیم اورہاجرہ کے بیٹے نہیں تھے بلکہ کوئی غیر مشہور نبی تھے جن کان ام ذواکفل جیسے غير مانوس نام کے ساتھ اکٹھا کیا گیا ہے ۔ ان مفسرین کےمطابق اس مقام میں اسماعیل بن ابراہیم کا ذکر بے محل ہے کیونکہ حضرت الیسع ،حضرت ابراہیم کے قریباً سات (۷)صدیاں بعد ظاہر ہوئے۔ پس قرآن نے ان اسماعیل " کو قوم آخرین کےساتھ شامل کیا ہے۔ جوابراہیم سے صدیوں بعد دنیا کے کسی گمنام گوشہ میں خدا کے مرسل ہوکر آئے تھے اور "خوبیوں والے " آدمی تھے ۔لیکن وہ کوئی بڑے نبی نہ تھے کیونکہ وہ ابراہیم اور اسحاق اور یعقوب کی مانند نہ تو صاحب ِمعارف روحانی تھے اور نہ صاحب ِ قوت تھے۔

مفسرین ِ قرآن کی اس تفسیر میں یہ خوبی ہےکہ وہ قرآن کو تورات کے مطابق بنادیتی ہے اور قرآن کا دعویٰ کہ مصدق تورات ہے بحال رہتاہے۔ مزید برآں اس آیت سے یہ نتیجہ بھی مستنبط ہوتاہےکہ اگر اسحاق ویعقوب کا اکٹھا ذکر کرنے سے ان کا ذکر کرنا مقصود تھا جوابراہیم کی نسل سے ہونے والے تھے تو ظاہر ہے کہ حضرت اسماعیل کا ان کے ساتھ اکٹھا ذکر نہ کرنے سے یہ ثابت ہوتاہےکہ ان کی نسل سے کوئی نبی آنے والا نہیں تھا اور یہ عین تورات کے مطابق ہے۔

چوتھی آیت صاف طور پر واضح کردیتی ہے کہ حضرت ابراہیم کو نبوت عطا ہوئی اوراس کے بعد اسحاق کو اوراس کے بعد یعقوب کو ملی۔ اس مقام میں بھی حصرت ابراہیم اور اضحاق کے ساتھ اسماعیل کاذ کر نہیں آتا۔

اس صورت کے اگلے رکوع میں کسی حضرت اسماعیل کا ذکر آتاہے جو " وعدوں کا سچا اور رسول نبی تھا"۔ لیکن یہ اسماعیل ابن ابراہیم نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ جیسا ہم اوپر کہہ چکے ہیں کہ ان اسماعیل کا ذکر حضرت ابراہیم کے بعد نہیں آتا بلکہ حضرت موسیٰ اور ہارون اور ادریس کے درمیان آتاہے ۔ جو حضرت ابراہیم سے تین (۳)صدیاں بعد مبعوث ہوئے تھے۔ اگر یہ اسماعیل ابن ابراہیم ہوتے اوراپنے باپ کی مانند نبی ہوتے تو قدرتی تقاضا یہی تھاکہ ان کا نام حضرت ابراہیم کے بعد اورحضرت اسحاق سے پہلے یا کم از کم ساتھ ہوتا۔ لیکن وحی نے ایسا نہیں کیا جس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ اسماعیل کوئی اورنبی تھے جو نہ تو ابراہیم کے لئے خدا کی طرف سے عظیم بخشش تھے اورنہ ان سے متعلق تھے۔

ہم نے مفسرین کی یہ تاویل قبول کرلی ہے جس سے قرآن اپنا پہلو بچاسکتا ہے اوراس کے مصدق ِ تورات ہونے کا دعویٰ برقرار رہ سکتا ہے۔ لیکن اگر مسلم مناظرین بضد ہوکر کسی قرآنی آیت سے حضرت اسماعیل کی نبوت کرنا چاہیں تو ان کو نہ صرف ان تمام سوالات کا تسلی بخش جواب دینا ہوگا جو ہم نے ان آیات کی بحث میں پوچھے ہیں بلکہ ا ن کے علاوہ ان کو یہ بھی بتلانا ہوگا کہ قرآن کے مختلف مقامات میں باہمی تضاد کی وجہ کیاہے ۔ کیونکہ بعض مقامات میں ان مناظرین کے مطابق حضر ت اسماعیل کی نبوت کا اقرار ہوگا اور بعض مقامات میں جہاں اس کی نبوت کا ذکر لازمی اورلابدی تھا وہاں خاموشی اختیار کرلیتا ہے جو معنی خيز ہوکر انکار نبوت کے برابر ہے۔ علاوہ ازیں اگر قرآن کسی آیت میں نبوت ِ اسماعیل کا مدعی ہے تواس کا مصداق تورات ہونے کا دعویٰ کس طرح صحیح ہوسکتا ہے ؟ کیونکہ تورات اس کی نبوت کا صریحاً (صاف)انکار کرتی ہے۔

پانچویں آیت ابن کعب ، ابن عباس، قتادہ، الخرا، اور زجاج کہتے ہیں کہ جب حضرت ابراہیم نے خدا سے ایک بیٹے کے لئے سوال کیا"(اے خدا مجھے ایک نیک بیٹا بخش) تو خدا نے آپ کی دعا قبول کی اور دعا کے جواب میں اسحاق بخشا، اور یعقوب کو بطور زائد انعام عطا کیا اور تینوں کو نبی بنایا اور جو اپنی قوم کو خدا کی طرف سے ہدایت کا پیغام پہنچایا کرتے تھے۔

ناظرین نے ملاحظہ کیا ہوگاکہ اوپر قرآنی آیت میں یہی آیا ہے کہ خدا نے ابراہیم کو اسحاق اور یعقوب بخشا اور ان تینوں کی تفصیل جدا جدا طریق پر کی گئی ہے۔ سب کو ہدایت دی، سب کو صاحب ِ علم وعمل بنایا۔ سب کو امام بنایا اور سب کو نبوت کا درجہ عطا کیا۔ کیا یہ اس امر کی دلیل نہیں ہےکہ خدا کی غایت حسنہ کا تعلق اسماعیل سے نہیں تھا بلکہ اسحاق اور یعقوب سے تھا۔ قرآن مجید ، جیسا ہم اوپر کہہ چکے ہیں۔ اس امر میں تورات شریف کی تصدیق کرتاہے۔ اگر خدا نے اسماعیل کو بھی منصب ِ نبوت پر سرفراز فرمایا ہوتا اور اگر اس کی غایت دونوں کے لئے مساوی ہوتی تو اس کا ذکر اسحاق کے ذکر سے اگر پہلے نہیں تو کم از کم ساتھ ہوتا اور پوتے کے ذکر سے تو لازمی طورپر پہلے ہونا چاہیے تھا۔ اس حالت میں یہ آیت یوں ہوتی " ہم نے ابراہیم کو اسماعیل اور اسحاق بخشا" یوں ہوتی " ہم نے ابراہیم کو اسحاق بخشا اور اسماعیل کو انعام میں دیا "۔ لیکن وحی الہٰی نے اس طبعی اور عادی امر کو قطعی طورپر نظر انداز کردیاہے۔ آخر اس کو کوئی وجہ تو ہونی چاہیے ؟ تورات مقدس کی روشنی میں اس کی وجہ صرف یہی ہوسکتی ہے کہ خدا نے حضرت ابراہیم کو اسحاق اور یعقوب کے علاوہ کوئی " بیٹا" نہیں بخشا۔ حضرت ابراہیم کی کسی حرم (ہاجرہ، قطورہ وغیرہ) کے بیٹے کو انعام کے طور پر بھی " بیٹے " کا درجہ نہیں دیا گیا۔او ریہ تورات کی نص(صاف اورواضح، چھان بین ) کے مطابق ہے کہ " اضحاق سے تیری( ابراہیم کی نسل)کا نام چلے گا"(پیدائش ۲۱: ۱۲) اورکہ اضحاق ابراہیم کا " اکلوتا بیٹا تھا(پیدائش ۲۲: ۲)۔ اس قرآنی آیت کے مطابق جس طرح اسماعیل کو یہ درجہ نہیں دیا بلکہ وہ اپنے بھائی اوربھتیجے کے ساتھ خدا کے عطیہ میں شمار ہوا اسی طرح اس کو چوتھی آیت کے مطابق یہ درجہ نہیں ملا کہ وہ ان کے ساتھ نبوت میں شریک ہو۔

چھٹی آیت قطعی طورپر اس امر کو ثابت کردیتی ہے کہ حضرت اسماعیل ابراہیمی وعدے اوربرکت ِ عظمی ٰ کے ساتھ کسی قسم کا تعلق اور واسطہ نہیں تھا۔ اگر اسماعیل آل ِ اسماعیل میں سے کسی فرد کا نبوت و کتاب کے ساتھ واسطہ ہوتا تو اس آیت میں ضرور اس کا نام اس کے چھوٹے بھائی اضحاق اور بھتیجے یعقوب سے پہلے آتا۔

اور اگر اسماعیل کوئی ایسے شخص ہوتے جن کی نسل سے ایک ایسا نبی برپا ہونا تھا جس کی بقول ِ علمائے اسلام خدا نے انبیائے سابقین کی معرفت پیش خبری دی تھی اورجس کو سید المرسلین بناکر خدا نے عالم وعالمیان کی ہدایت کے واسطے بھیجنا تھا تو اس مقام پر اس بات کی وضاحت ایک لازمی اور لابدی بات تھی۔ لیکن وحی نے ایسا نہیں کیا جس سے صرف یہی ایک نتیجہ نکل سکتا ہے کہ حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب نہ صرف خود نبی تھے بلکہ انبیاء کی جڑ تھے کیونکہ خدا نے ان کی نسل میں نبوت اورکتاب کو جاری رکھا۔ لیکن اس کے برعکس حضرت اسماعیل نہ تو خود نبی تھے اورنہ کسی آنے والے نبی کی جڑ تھے چہ جائیکہ ان کی نسل سے کوئی ایسا نبی برپا ہو جو رحمتہ اللعالمین ہو۔

پس قرآن شریف واضح طورپر تورات ِ مقدس کی تائید اور تصدیق کرکے کہتاہے کہ جب حضرت ابراہیم نے اپنے لوگوں کو چھوڑ ا تو خدا تعالیٰ نے اس کی فرمانبرداری کے عوض اس کی دعا کوقبول فرمایا اور اضحاق عطا کیا اوراس کے بیٹے اور پوتے کو نبوت کے عہدے پر ممتاز فرمایا۔ خدا نے ابراہیم کو نعم البدل(اچھا بدلہ) کے طور پر اسماعیل نہ بخشا۔ خدا نے نہ تو اسماعیل کو نبی بنایا اور نہ اس کو کسی عظیم نبی کی جڑ یا اصل ٹھہرایا اورنہ اس کی اولاد میں نبوت اور کتاب کورکھا۔ اس آیت کے مطابق نبوت اور کتاب کی برکت صرف اضحاق اور یعقوب کی نسل سے بلاشرکت غیرے مخصوص ہے۔ قرآن شریف کسی ایک مقام میں بھی واضح اور صریح طورپر نہیں کہتاکہ"ہم نے ابراہیم کو اسماعیل بخشا اور اس کی نسل میں نبوت اور نزول کتاب کو جاری رکھا"۔ اوریہ امر نہایت معنی خيز ہے۔

اس قرآنی آیت میں ایک اورامر بھی قابل ِ غور ہے ۔ چونکہ وہ ’’ ذریت‘‘ جس میں "نبوت " رکھی گئی ہے اضحاق اور یعقوب کی نسل میں ہے پس لامحالہ الفاظ " الکتاب" سے وہی کتاب مراد ہوسکتی ہے جو اس " ذریت " کے پاس ہے یعنی بین یدیہ۔ کیونکہ " الکتاب " اورنبوت" باہمی تعلق ہیں۔ پس یہ صحیح نہیں ہوسکتاکہ " نبوت " تو حضرت اسحاق اورحضرت یعقوب کی ذریت سے مخصوص ہو لیکن" الکتاب " مخصوص نہ ہو جو اس سے متعلق ہے۔ پس یہاں "الکتاب" سے مراد "بائبل " شریف ہے۔ عربی لفظ" الکتاب" یونانی لفظ" بائبل" کا لفظی ترجمہ ہے۔

ناظرین نے ملاحظہ کیا ہوگا کہ حافظ نذیر احمد مرحوم کا ترجمہ" ہم نے ان کی نسل میں پیغمبری اور (نزول) کتاب کو (جاری ) رکھا ہماری اس تفسیر کی تائید کرتا ہے جو ہم نے باب ِ دوم کی فصل اوّل میں (استثنا ۱۸: ۱۵ )کی کرآئے ہیں ۔ کہ بنی اسرائيل میں خدا نے نبوت اور کتاب کا سلسلہ ہمیشہ جاری رکھا۔ اگر مرحوم کا ترجمہ قرآن کی عربی آیت کے مفہوم کو صحیح طورپر ادا کرتا ہے تو یہ قرآنی آیت ہماری تفسیر بالا کی تائید کرتی ہے۔

ساتویں آیت میں الفاظ انی فضتتکمہ علی العالمین وارد ہوئے ہیں یعنی اے بنی اسرائيل میں نے تم کو دنیا جہان کے لوگوں پر فوقیت عطا کی ہے۔ ان الفاظ کے بارے میں متکلمین کا قول ہے کہ " عالمین " سے مراد خدا کے علاوہ کل موجودات ہے۔ یہ قول فضل کے لحاظ سے مطلق ہے اور ہم منطق میں مطلق بات کے سچا ہونے کے لئے صرف صورت ِ واحد کافی ہے پس اس آیت سے مراد یہ ہے کہ بنی اسرائيل کو کسی ایک امر میں تمام دنیا جہان پر بزرگی بخشی گئی۔ قرآن مجید اس فضیلت کا ذکر بار بار کرتاہے اور اس کی (سورہ عنکبوت کے ع ۳ )یعنی اوپر کی چھٹی آیت میں تخصیص کرکے بتلاتاہے کہ بنی اسرائيل میں "نبوت او رنزول کتاب کو جاری رکھا گیا"۔ پس قرآن تورات شریف کی تصدیق کرکے کہتاہے کہ خدا نے اس وعدہ کے مطابق جو اس نے ابراہیم ، اضحاق اور یعقوب سے کیا تھا بنی اسرائيل میں نبوت اورکتاب دے کر اس کو " مساوی قومو ں کی برکات کا باعث " بنادیا۔ کتاب مقدس میں باربار آیاہےکہ قوم بنی اسرائيل کو خدا نے اقوام ِ عالم میں چن لیاتاکہ اس کے ذریعہ اپنی نجات کا نور دنیا جہان کی اقوام میں پھیلائے(زبور ۱۲۵: ۴؛ استثنا ۷: ۶؛ ملاکی ۳: ۱۷ وغيرہ) اہل یہود کی روزانہ دعا میں یہ فقرہ آتاہے " اے خداوند ہمارے خدا کل کائنات کے بادشاہ ۔ تو مبارک ہے کہ تونے ہم کو اقوام عالم میں سے چن لیا ہے"۔ ہم اس موضوع پر ایک مستقل رسالہ " اسرائيل کا نبی یا جہان کا منجی"؟ لکھے چکے ہیں اورناظرین کی توجہ اس کی طرف مبذول کرنے پر اکتفا کرتے ہیں ۔

اس قرآنی آیت میں نہایت صاف الفاظ میں خدا نے اسماعیل اور بنی اسماعیل کو خارج کرکے صرف بنی اسرائيل کو ہی تمام اقوام عالم (جن میں قوم بنی اسماعیل بھی شامل ہے) پر فضیلت بخشی ہے اور صرف اسی میں نبوت اورکتاب ودیعت فرمائی ہے۔ اگر خدا نے علیم وحکیم نے (بقول اہل اسلام) بنی اسماعیل کو سید الانبیاء اورحبیب ِ خاص کے برپا ہونے کے لئے مخصوص کیا ہوتا تولازمی طورپر بنی اسماعیل بنی اسرائيل سے افضل ہوتے اور خدا نے حضرت اسماعیل کی ذریت میں نبوت او رکتاب دے کر اس کو دنیا جہاں کی اقوام پر فضیلت بخشی ہوتی ۔

آٹھویں آیت میں بھی وضاحت کے ساتھ قرآن شریف اس فضیلت اور فوقیت " کی تخصیص کرکے کہتا ہے " ہم نے بنی اسرائيل کو کتاب اور حکومت او رنبوت عطا فرماکر ان کو تمام جہان پر فضیلت اور فوقیت بخشی"۔ یہ آیت نہایت محکم طور پر ثابت کرتی ہے کہ مذکورہ بالا تمام آیات اوربالخصوص چھٹی آیت میں ابراہیم کی جس نسل میں کتاب اورنبوت رکھی گئی وہ بنی اسرائيل اور صرف بنی اسرائیل ہی تھی۔ حضرت اسماعیل اور بنی اسماعیل کتاب اور نبوت سے خارج ہیں۔ اورنہ ان کو " تمام جہان پر فضیلت اور فوقیت حاصل ہے۔

ناظرین کو یاد ہوگا کہ خد انے حضرت ابراہیم سے یہ وعدہ کیاتھاکہ " بے شک تیری بیوی سارہ کے تجھ سے بیٹا ہوگا تو اس کا نام اضحاق رکھنا اور میں اس سے اور پھر اس کی اولاد سے اپنا عہد جو ابدی ہے باندھوں گا میں اسے بہت برومند کروں گا۔ قومیں اس کی نسل سے ہوں گی اور عالم کے بادشاہ اس سے پیدا ہوں گے"(پیدائش ۱۷: ۱۶تا ۱۹) پس یہ قرآنی آیت کہ " بنی اسرائيل کو کتاب اورحکومت اورنبوت عطا ہوئی " تورات شریف کی لفظ بلفظ تصدیق کرتی ہے۔

تاریخ مذاہب بھی اس صداقت کی تائید کرتی ہے کہ جب سے بنی اسماعیل اور بنی اسرائيل الگ ہوئے یعنی سن ہجری سے دوہزار(۲۰۰۰) سال پہلے سے کوئی نبی آل ِ اسماعیل سے برپا نہیں ہوا۔ اس طویل عرصہ میں صرف بنی اسرائيل ہی میں انبیاء الله کا سلسلہ قائم وبرقرار رہا۔ پس تاریخ دنیا بھی یہی بتلاتی ہے کہ کتاب اورنبوت صرف بنی اسرائيل کو ہی دی گئی اور ہر دوامور میں اس قوم کو اقوام ِ عالم پر فصیلت اور فوقیت حاصل ہے۔

ہم نے فصل میں چند قرآنی آیات پر مفصل تبصرہ کیاہے جن میں حضرت ابراہیم ، حضرت اضحاق اور حضر ت یعقوب کی نبوت کا ذکر ہے۔ اور ثابت کردیاہے کہ ان آیات میں حضرت اسماعیل اورآل ِ اسماعیل کو ابراہیمی وعدہ اورنبوت کی برکت ِ عظمی ٰ سے خارج کیا گیا ہے۔ اور واضح کیاگیاہےکہ خدا نے ابراہیم اوران کے بعد اضحاق اوران کے بعد یعقوب اور بنی یعقوب (بنی اسرائيل ) ہی میں انبیاء کا سلسلہ جاری رکھا گیا اور صرف انہی کو الکتاب دی گئی جو خدا کا سچا کلام ہے۔(سورہ عمران ع ۱۔ توبہ ع ۱۴ وغيرہ)۔

باب ششم

ذبیح ِ اللہ۔ اضحاق یا اسماعیل ؟

تورات وقرآن کے بیانات

تورات شریف نہایت واضح الفاظ میں حضرت اسحاق کو ذبیح الله بتلاتی ہے چنانچہ لکھا ہے:۔

" ان باتوں کے بعد یوں ہواکہ خدا نے ابراہام کو آزمایا اوراس سے کہا اے ابراہام، اس نے جواب دیا میں حاضر ہوں۔ تب خدا نے کہا کہ تو اپنے بیٹے اضحاق کو جو تیرا اکلوتا ہے اورجسے تو پیار کرتاہے ساتھ لے کر موریاہ کے ملک میں جا اور وہاں اسے پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ جومیں تجھے بتاؤ ں گا سوختنی قربانی کے طورپر چڑھا۔ تب ابراہام نے صبح سویرے اٹھ کر اپنے گدھے پر چار جامہ کسا اور اپنے ساتھ دوجوانوں اوراپنے بیٹے اضحاق کو لیا اور سوختنی قربانی کے لئے لکڑیاں چیریں اور اٹھ کر اس جگہ کو جو خدا نے اسے بتائی تھی روانہ ہوئے۔تیسرے دن ابراہام نے نگاہ کی اوراس جگہ کو دور سے دیکھا۔ تب ابراہام نے اپنے جوانوں سے کہا تم یہیں گدھے کے پاس ٹھہرو۔ میں اوریہ لڑکا دونوں ذرا وہاں تک جاتے ہیں اور سجدہ کرکے پھر تمہارے پاس لوٹ آئيں گے۔ ابراہام نے سوختنی قربانی کی لکڑیاں لےکر اپنے بیٹے اضحاق پر رکھیں اور آگ اور چھُری اپنے ہاتھ میں لی اور دونوں اکٹھے روانہ ہوئے اوراس جگہ پہنچے جو خدا نے بتائی تھی۔ وہاں ابراہام نے قربان گاہ بنائی اوراس پر لکڑیاں چنیں اور اپنے بیٹے اضحاق کو باندھا اوراسے قربان گاہ پر لکڑیوں کے اوپر رکھا ۔ ابراہام نےہاتھ بڑھا کر چھرُی لی کہ اپنے بیٹے کو ذبح کرے تب خداوند کے فرشتے نے اسے آسمان سے پکارا اورکہا کہ تو اپنا ہاتھ لڑکے پر نہ چلا اورنہ اس سے کچھ کر کیونکہ میں اب جان گیا کہ تو خدا سے ڈرتا ہے اس لئے کہ تونے اپنے بیٹے کو بھی جو تیرا اکلوتا ہے دریغ نہ کیا۔چونکہ تونے یہ کام کیاکہ اپنے بیٹے کو بھی جو تیرا اکلوتا ہے دریغ نہ رکھا اس لئے میں نے بھی اپنی ذات کی قسم کھائی ہے کہ میں تجھے برکت پر برکت دوں گا اور تیری نسل کو بڑھاتے بڑھاتے آسمان کے تاروں اورسمندر کے کنارے کی ریت کی مانند کردوں گا۔ اور تیری نسل کے وسیلہ سے زمین کی سب قومیں برکت پائیں گی کیونکہ تونے میری بات مانی ۔ تب ابراہام اپنے جوانوں کے پاس لوٹ گیا"(پیدائش ۲۲باب)۔

قرآن شریف میں( سورہ صافات کے رکوع ۳ )میں قربانی کی نسبت یوں لکھاہے۔

حضرت ابراہیم نے خدا سے دعا کی "اے رب مجھ کو کوئی نیک بیٹا بخش۔ پھر ہم نے اس کو ایک ایسے نیک بیٹے کی خوشخبری دی جو تحمل والا ہوگا۔ جب وہ اس (باپ) کے ساتھ دوڑنے کو پہنچا تو (باپ نے ) کہا اے بیٹے میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ تجھ کو ذبح کرتا ہوں۔ پھر دیکھ کہ تو کیا دیکھتا ہے ۔ وہ بولا اے باپ جو تجھ کو حکم ہوا ہے وہ کر ڈال۔ الله نے چاہا تو مجھ کو سہارنے والا پائے گا۔ پھر جب دونوں نے حکم مانا اورا س کے ماتھے کے بل پچھاڑ تو ہم نے اس کو پکار کر یہ کہا کہ اے ابراہیم تونے خواب کو سچ کر دکھلایا۔ ہم نیکی کرنے والوں کوبدلہ دیا کرتے ہیں۔بیشک یہ تیری صریح آزمائش ہے۔ اور ہم نے پچھلے خلق میں یہ باقی رکھاکہ سلام ہے ابراہیم پر ۔ ہم نیکی کرنے والوں کو یوں بدلہ دیتے ہیں۔ وہ ہمارے ایمان دار بندوں میں ہے اورہم نے اس کی خوشخبری دی کہ اضحاق نیک بختوں میں نبی ہوگا ۔ اورہم نے ابراہیم پر برکت دی اور اضحاق پر (بھی برکت دی ) اور دونوں کی اولاد میں نیکی کرنے والے ہیں اور اپنے حق میں صریح بدکار بھی ہیں"(آیات ۹۸تا ۱۱۳)۔

ناظرین نے ملاحظہ کیا ہوگا کہ قرآن کا بیان ہربات میں تورات شریف کی مذکورہ بالا آیات کی تصدیق کرتاہے۔ لیکن چونکہ اس بیان کے شروع میں اضحاق کا نام نہیں ہے ۔ لہٰذا بعض مسلم مناظرین کہتے ہیں کہ یہاں قرآن مجید کا مطلب حضرت اسماعیل سے ہے اور یہ نہیں دیکھتے کہ اگر قرآنی بیان توریت کے مطابق نہیں ہے تو اسی کا نقصان ہے کیونکہ تورات شریف کی تاریخ قرآن مجید سے قدیم تر ہے۔ پس اس کے مقابل قرآن کے سخن کو ازروئے قوانین شہادت کسی طرح بھی وقعت حاصل نہیں ہوسکتی ۔

اضحاق ذبیح الله ازروئے قرآن

ہمارے مخاطبوں کو یہ بات مد ِ نظر رکھنی چاہیے کہ قرآن کسی مقام میں بھی حضرت اسماعیل کا نام لے کر یہ نہیں کہتا کہ وہ قربان ہونے والے تھے۔ اگر فی الواقعہ حضرت اسماعیل ازروئے قرآن ذبیح الله ہوتے تو قرآن ان کا نام ضرور لیتا۔ لیکن اس نے ایسانہیں کیا۔ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے ۔ قرآن نے ذبیح الله کے نام کی تخصیص (محفوظ کرنا،خصوصیت، حق مخصوص)اس واسطے نہیں کی کیونکہ جملہ یہود ونصاریٰ نے تورات شریف کی بناء پر یہ جانتے اورمانتے تھے کہ حضرت اضحاق ہی ذبیح الله ہیں۔ اس معہود ذہنی کی وجہ سے قرآن مجید کو نام لینے کی ضرورت ہی لاحق نہ ہوئی ۔ بالخصوص جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ قرآن باربار مصدق ِ تورات ہونے کا دعویٰ کرتاہے اوراس خاص امر میں اس کے بیان کی ضرور بضرور ابن ابراہیم کا نام لے کر یہود ونصاریٰ کو کہتا ہے کہ اے اہل کتاب تم نے اور تمہاری تورات نے ذبیح الله کے معاملہ میں غلطی کھائی ہے میں تم کو بتلاتا ہوں کہ تمہارے جد ِ امجد اضحاق ذبیح الله نہیں تھے بلکہ وہ میرے فرستادہ رسول کے جد امجد اسماعیل تھے۔ لیکن قرآن یہ نہیں کہتا جس سے ظاہر ہے کہ اس کو اس معاملہ میں تورات سے اختلاف نہ تھا۔ پس چند مفسرین کی رائے صحف ِ سماوی (آسمانی صحائف)کے متفقہ بیانات کے مقابل کچھ وقعت نہیں رکھ سکتی ۔

مفسرین کی دلیل

قرآن کے بیان کا سطحی مطالعہ بھی یہ ظاہر کردیتاہے کہ اس میں اور تورات کے بیان میں کوئی اختلاف نہیں لیکن یہ چند مفسرین گمان کرتے ہیں کہ اس بیان کی آخری آیت "اورہم نے اس کو اضحاق کی خوشخبری دی جو نیک بختوں میں نبی ہوگا" حضرت اضحاق کی پیدائش کی خبر ہے۔جو قربانی گذراننے کے بعد ملی۔ پس ان مفسروں کی رائے میں قربانی حضرت اضحاق کی ولاد ت سے پہلے واقع ہوئی اور اسماعیل قربان ہونے والے تھے کیونکہ وہ اضحاق سے پہلے تھے۔

لیکن یہ قیاس بالکل باطل ہے کیونکہ اول تو قرآنی بیان ہی سے یہ معلوم ہوجاتاہے کہ اس بشارت کے وقت اضحاق موجود تھے اور دوم تورات اور قرآن دونوں میں صاف پایا جاتاہے کہ ابراہیم کو ولادت اضحاق کی خوشخبری قربانی کے بعد نہیں ملی تھی بلکہ اُمت لوط کی ہلاکت کے قبل ملی تھی (پیدائش ۱۸باب)۔ قرآن میں بھی یہ قصہ (سورہ ہود اور حجر اور ذاریات )میں مرقوم ہے کہ فرشتے قوم لوط کو ہلاک کرنے جاتے تھے۔ اثنائے راہ میں انہوں نے ابراہیم کی مہمانی قبول کی اورکہا " ہم تجھ کو ایک ہوشیار لڑکےکی خوشخبری دیتے ہیں"۔ جب اس نے اور اس کی بیوی نے اپنی ضعیفی کا خیال کرکے یقین نہ کیا اوربہت متعجب ہوئے تو فرشتے نے دونوں کا اطمینان کیا(حجر ع ۳۔ ذاریات ع ۲)پس ان مفسرین کا یہ خیال کہ ولادت ِ اضحاق کی خبر قربانی کے بعد دی گئی تورات وقرآن کے متفقہ بیان کے خلاف ہے اورباطل ہے۔ یہ خوشخبری تو ان کو مدتوں پہلے مل چکی تھی۔

قرآنی بیان سے استد لال

(سورہ صافات )کے بیان سے نہایت واضح طورپر ثابت ہوتاہےکہ اضحاق ذبیح الله تھے:۔

(۱) ذبیح الله وہی تھے جو حضرت ابراہیم کے فرزند موعود تھے۔ اس فرزند کی تولد کی بشارت ان کے دعا کے جواب میں ان کو دی گئی ۔ قرآن میں تولد ِ اضحاق کا وعدہ صاف اور واضح الفاظ میں موجو دہے۔ مگر قرآن کے کسی مقام میں بھی تولد ِ اسماعیل کی کوئی بشارت نہیں پائی جاتی ۔ حضرت ابراہیم نےاسی فرزند کو نذر کیا تھا جس کی بشارت ان کو دی گئی تھی ۔ پس یہ فرزند حضرت اسماعیل نہیں تھے بلکہ حضرت اسحاق تھے۔

(۲) جب حضرت ابراہیم نے دعا کی کہ" اے رب مجھ کو کوئی نیک بیٹا بخش"(جس کو بعدہ (اس کے بعد)قرآن کے مطابق انہوں نے نذر گزرانا ) تو وہ ضرور اپنی حقیقی بی بی سارہ کے بطن سے کوئی بیٹا چاہتے تھے کیونکہ یوں تو ان کے کئی بیٹے تھے۔ ایک ہاجرہ سے چھ(۶) قطورہ سے تھے مگر یہ سب حرموں کے بطن سے تھے جن کو وہ مرتبہ حاصل نہیں ہوسکتا جو اضحاق کو حاصل تھا۔

حضرت ابراہیم نے سارہ کے بطن سے بیٹا حاصل کرنے کے لئے دعا کی کیونکہ یہود میں عورت کے رحم کا بند ہونا ، رسوائی اور خدا کی ناراضگی کا موجب سمجھا جاتا تھا اورجس عورت کے ہاں فرزند نرینہ نہ ہوتا وہ بے طرح کُڑھا کرتی تھی (۱۔سموئیل ۱: ۵، ۶؛ پیدائش ۳۰: ۲۳؛ زبور ۱۱۳: ۹؛ لوقا ۱: ۲۵ وغیرہ) حضرت ابراہیم دل سے چاہتے تھے کہ ان کی بیوی کی یہ رسوائی دو ر ہو۔پس انہوں نے دعا کی جو خدا نے منظور فرمائی اوران کو ایک ہوشیار تحمل والے بیٹے کی پیدائش کی خوشخبری دی۔

(۳) جب حضرت ابراہیم نے اپنے بیٹے سے اپنے خواب کا ذکر کیا تو اس نے بڑی خوشی سے اپنی جان کو خدا کی راہ میں نثار کرنے پر مستعدی ظاہر کی اور کہا" اے باپ جو تجھ کو حکم ہوا ہے کر ڈال"۔ مفسرین نے اس پر طالمودی قصوں سے اضافہ کیاہے کہ اس نے اپنے باپ سے یہ بھی کہا کہ تو میرے ہاتھ پیر باندھ دے ایسا نہ ہو کہ وقت ذبح میرے تڑپنے سے تیرے کپڑے خون سے بھر جائیں۔ اور تو مجھ کو پٹ گرادے تاکہ میرا چہرہ دیکھ کر تجھ پر مہر پدری (باپ کی شفقت)غالب نہ ہو۔ اور قربانی کے بعد میرا پیرا ہن میری ماں کو دے دینا تاکہ اس کی تشفی ہوجائے ۔ اگر یہ سب قصے صحیح اور درست ہیں تواس بیان میں فرزند ِ موعود یعنی اضحاق کے اوصاف نمایاں ہیں۔ کیونکہ یہ سب باتیں نہایت دانائی اورہوشیار کی باتیں ہیں جس سے ظاہر ہے کہ یہ ذبیح الله ہی ہوشیار لڑکا ہے جس کی ولادت کی خبرد ی گئی تھی۔

علاوہ ازیں ایک اور صفت بھی ذبیح الله کی بتلائی گئی ہے کہ وہ "تحمل والا" ہوگا۔ اوریہی صفت اضحاق میں ملتی ہے۔ حضرت اسماعیل تو گورخر کی طرح آزاد مرد تھے جن کا ہاتھ سب کے خلاف اور سب کے ہاتھ ان کے خلاف تھے ۔پس یہ ذبیح الله اضحاق ہی تھے جو نیک بھی تھے" ہوشیار "بھی تھے " تحمل والے" بھی تھے اوران تمام اوصاف کا بوقت قربانی اظہار ہوگیا۔ حضرت اسماعیل کے " تحمل والے ہوشیار" ہونےکی خبر کسی مقام میں بھی حضرت ابراہیم کو نہیں دی گئی ۔

(۴) قرآنی بیان میں ہےکہ ’’ جب وہ اس کے ساتھ دوڑنے کو پہنچا‘‘ یہ آیت اس بات کی متقضی (تقاضا کرنے والا)ہے کہ ذبیح الله سے وہی ابن ابراہیم مراد ہو جو اس کے ساتھ دوڑنے کی عمر کو پہنچا۔ اوریہ وہی بیٹا ہے جو اس کو مُلک ِ شام میں حاصل ہوا تھا ۔ حضرت اسماعیل تو اس سے بہت پہلے ہاجرہ کے ساتھ گھر سے نکال دئیے گئے تھے اور وہ فاران کے بیابان میں رہتے تھے ۔ (پیدائش ۲۱باب) پس اضحاق ہی نذر گذرانے گئے تھے ۔

(۵) اگرچہ حضرت ابراہیم حکم ِ خدا کے مطابق بیٹے کو نذرکرنے پر مستعد ہوئے مگر ان کے بیٹے نے ان سے بھی زيادہ جان نثاری دکھلائی کہ راہ ِ خدا میں ذبح ہونے سے مطلق ملال (افسوس)نہ کیا۔ پس قرآن میں ان دونوں کے اس بے نظیر کام کا صلہ ملتاہے۔ ابراہیم سے تو قربانی کے بعد کہا گیا " ہم نے پچھلے خلق میں باقی رکھاکہ سلام ہے ابراہیم پر ہم نیکی کرنے والوں کو یوں بدلہ دیتے ہیں اورہمارے ایماندار بندوں میں ہے"۔ یہ صلہ ابراہیم کو ملا ۔ اب ذبیح الله کواس کی لاثانی فرمانبرداری کا کیا اجر ملا؟ اگر یہ ذبیح الله اسماعیل تھے تو اس کو مطلق کوئی صلہ نہیں ملا۔ اسماعیل کی کوئی تعریف نہیں کی گئی بلکہ اس کے نام تک کا ذکر نہیں کیا گیا حالانکہ لکھاہے کہ ابراہیم اور ذبیح الله " دونوں نے حکم مانا"۔ بلکہ حق تو یہ ہےکہ ذبیح الله نے ابراہیم سے بڑھ چڑھ کر حکم مانا۔ ابراہیم تو قربان کرنے کو آمادہ ہوئے لیکن وہ بخوشی تمام قربان ہونے کا خواہش مند ہوگیا اور کہا " اے باپ جو تجھ کو حکم ہوا ہے وہ کرڈال"۔ اور آخری وقت تک بقول ِ مفسرین قرآن باپ کی تسلی اور تشفی کرتا رہا ۔ اگریہ ذبیح الله اسماعیل تھے تو ان کو کسی قسم کا اجر نہیں ملا۔ لیکن قرآنی بیان کے مطابق ابراہیم اور ذبیح الله دونوں کو اجر ملا۔ پس یہ ذبیح الله اسماعیل نہیں تھے بلکہ اضحاق تھے جن کے حق میں دوسرااجر لکھا موجود ہے ۔ چنانچہ کہا گیا " ہم نے اس کو اضحاق کی بابت خوشخبری دی کہ وہ نبی ہوگا نیک بختوں میں اورہم نے ابراہیم پر اور اضحاق پر برکت دی "۔ پس ابراہیم کو ایک انعام ملا اور اضحاق ذبیح الله کو انعام ِنبوت عطا ہوا اوراس کے علاوہ ابراہیم اور اضحاق کو فرمانبرداری کے صلہ میں برکت ملی۔ اوریہ عین تورات شریف کے مطابق ہے جہاں لکھا ہے " اے ابراہیم ۔ چونکہ تونے اپنے بیٹے کو بھی جو تیرا اکلوتا ہے مجھ سے دریغ نہ کیا میں تجھے برکت پر برکت دوں گا۔ اور تیری نسل کے وسیلے سے جو اضحاق سے کہلائے گی زمین کی سب قومیں برکت پائیں گی کیونکہ تونے میری بات مانی "(پیدائش ۲۲: ۱۶تا ۱۷۔ ۲۱: ۱۲)۔

(۶)حضرت اضحاق میں ذبیح الله کی ایک اور صفت پائی جاتی ہے حضرت ابراہیم نے یہ دعا کی تھی ۔ رب ھب لی من الصلحین (اے رب مجھے کوئی نیک بیٹا عطا فرما )۔ اس دعا کے جواب میں ان کو فرزند عطا ہوا جسے انہوں نے بعد یں نذر گزرانا۔ قربانی کے بعد اضحاق کی یہی صفت قرآن میں بیان ہوئی ہے ۔ نبیاًمن الصلحین وہ نبی ہوگا نیکوں میں۔ اور یہ صریح مطابقت ہے جس سے اضحاق کا ذبیح الله ہوناپورے طور پر ثابت ہے۔ جو اضحاق کے اوصاف ہیں وہی ذبیح الله کے اوصاف ہیں۔ چنانچہ اضحاق کو " ہوشیار اور تحمل والا لڑکا" کہا اورہم اوپر بتلا چکے ہیں کہ ذبیح الله کے بھی یہی اوصاف ہیں ۔ ذبیح الله کو من الصلحین کہا۔ اضحاق من الصلحین ہے۔ ابراہیم اور ذبیح الله دونوں کی بابت لکھاہےکہ " دونوں نے حکم مانا"۔ اور قربانی کے بعد دونوں کو صلہ ملتاہے اور دونوں کو ایک ساتھ یاد کرکے کہا" ہم نے ابراہیم پر اور اضحاق پربرکت د ی"۔

(۷) اور امر غور طلب ہے ۔ قرآن قربانی کے بعد ابراہیم کو کہتاہے کہ " بے شک یہ تیری صریح آزمائش ہے"۔ تورات بھی کہتی ہے کہ خدا نے ابراہیم کو آزمایا"(پیدائش ۲۲: ۱) اگریہ قربانی اضحاق کی تھی تو یہ " بیشک صریح آزمائش " تھی ورنہ نہیں۔ کیونکہ اضحاق حضرت ابراہیم اوربی بی سارہ کا " اکلوتا بیٹا تھا جسے وہ پیار کرتا تھا" (پیدائش ۲۲: ۲) جب وہ دونوں ضعیف ہوگئے تھے جس عمر میں اولاد کی امید نہیں کی جاسکتی تھی اس وقت ناامیدی کی حالت میں وہ پیدا ہوا تھا اور ابھی جوان بھی نہ ہونے پایا تھا کہ اس کی قربانی کا حکم ہوا جس کی نسبت خدانے فرمایا تھاکہ ابراہیم کی نسل اس سے چلے گی اور وہ اور اس کی نسل ارض ِ مقدس کے وارث ہوں گے ۔ اور زمین کی سب قومیں اس کے وسیلہ سے برکت پائیں گی ۔ اب ایسے لخت جگر کو اپنے ہاتھوں ذبح کرنا اوراپنے ہاتھوں شجر امید کی جڑ کاٹنا " بے شک یہ صریح آزمائش " تھی۔ حرم کے بیٹے اسماعیل کو قربان کرنا جس کی ذات سے نہ کوئی وعد ہ اورنہ کوئی امید وابستہ تھی " صریح آزمائش " نہیں ہو سکتی تھی۔اضحاق جیسے وعدہ کے فرزند کو (پیدائش ۱۵باب ، ۱۷ باب ) قربان کرنےکے لئے تیار ہوجانے کی وجہ سے وہ ایمان کی راہ سے راست باز ٹھہرا(رومیوں ۴: ۱۳) " بقول مصنف خطِ عبرانیوں " اس طرح صبر کرکے اس نے وعدہ کی ہوئی چیز کو حاصل کیا"(عبرانیوں ۶: ۱۳)۔ اس کو کامل اعتقاد تھاکہ خدا نے جو کچھ وعدہ کیا ہے وہ اسے پورا کرنے پر بھی قادر ہے" (رومیوں ۴: ۲۱) اوراس صریح آزمائش " میں کامیاب نکل کر وہ " ایمان داروں کا باپ " ہوا(رومیوں ۴: ۱۱)۔

ہم نے قرآن سے ثابت کردیا ہے کہ حضرت اضحاق ہی نذر گذرانے گئے تھے اگر کوئی مولوی صاحب قرآن سے اس قسم کے دلائل اسماعیل کے ذبیح الله ہونے کے پیش کرسکتے ہیں تو ہم بخوشی ان کو سنیں گے اوران پر غور کریں گے ۔

احادیث سے استد لال

بعض مفسرین نے دوحدیثوں سے استد لال کیاہےکہ حضرت اسماعیل ذبیح الله تھے لیکن یہ ظاہر ہے کہ اگر کوئی حدیث قرآن کے مخالف ہو تو وہ جھوٹی ہے خواہ اس کا راوی کوئی ہو۔ پس اگر کسی حدیث میں یہ لکھاہے کہ حضرت اسماعیل ذبیح الله تھے تو اس صحیح اصول کے مطابق وہ حدیث سرے سے غلط ہے اور قابل ِ قبول نہیں ہوسکتی۔

یہ دو حدیثیں حسب ِ ذیل ہیں(۱۔) ایک میں لکھاہےکہ رسول الله نے فرمایا کہ میں ابن ذبیحین ہوں۔(۲۔) دوسری حدیث میں آیا ہے کہ ایک اعرابی نے آنحضرت کو یہ کہہ کر پکاراکہ " اے ابن ذبیحین ہوں "۔ آپ اس خطاب پر مسکرادئیے۔ جب اعرابی سے پوچھا گیا تواس نے بتلایاکہ جب عبدالمطلب نے چاہ ِ زمزم کھودا تو اس نے نذر مانی کہ اگریہ کام اس کے لئے آسان ہوجائے تو وہ اپنے ایک بیٹے کو قربان کردے گا۔ قرعہ عبدالله کے نام نکلا مگر اس کے ماموں نے اس کو اس بات سے منع کیا اور صلاح دی کہ اپنے بیٹے کے عوض ایک سو (۱۰۰)اونٹ قربان کردے۔ پس اس نے ایک سو (۱۰۰)اونٹ قربان کردئیے۔ پس ایک ذبیح حضرت اسماعیل ہے او ر دوسرا حضرت کا باپ عبدالله ہے"۔

ظاہر ہے کہ یہ باتیں ارباب ِ سیر کی کہانیاں ہیں جو امر واقعہ نہیں ہیں لہٰذا وہ ایک محقق کی نظروں میں وقعت نہیں رکھتیں جبھی سرسید مرحوم فرماتے ہیں

’ ابن الذبیحین کی روایت نہایت غلط ہے۔ اسماعیل کبھی قربان نہیں ہوئے ‘‘۔

(خطبات صفحہ ۵۵)

علمائے اسلام اور ذبیح الله

روضتہ الاحباب میں لکھاہے

’’اختلاف است علماء را کہ ذبیح الله اسماعیل بود یا اضحاق۔ قاضي بیضاوی در تفسیر خویش وامام نوادی درکتاب تہدیب الاسماء اللغات وغيرہما آوردہ اندکہ اکثر برآنند کہ اسماعیل بودہ ۔ وجمعے کثیر برآنند کہ اضحاق بودہ۔ دلیل ایشاں ایں است کہ حق تعالیٰ در قرآن مجید میفر مائید۔ فبشرہ ناہ بغلام حلیم فلما بلغ معہ السعی قال یا بنی انی اری فی المنام انی اذبحک فاظر ماذا اتری۔ چہ ظاہر آیہ دلالت میکند ہر آنکہ آں پسر کہ ابراہیم با اومبشر شدہ اوست کہ درخواب مامور گشتہ مذبح او۔ ودرقرآن ہیچ جانیست کہ کسے مبشر شدہ باشد بغیر از اضحاق ۔ ہچمنانکہ درسورہ ہود فبشر ناھا یا باسحاق ودرسورہ صافات میفر مائدہ وبشر ناہ باسحاق نبیاً من الصلحین ۔ وہ دیگر حدیث درزکہ نسبت یوسف وارد شدہ کہ یوسف بنی الله ابن یعقوب اسرائيل الله بن اضحاق ذبیح الله‘‘۔

ناظرین پر واضح ہوگیاہوگاکہ یہ حدیث جس کا صاحب ِ روضتہ الاحباب ذکرکرتاہے قرآن اور صحف ِ سماوی کے مطابق ہے۔ لہٰذا یہ حدیث سچی ہے اورایک محقق کی نظروں میں مذکورہ بالا معیار کے مطابق قابل ِ وقعت ہے۔ اس کے برعکس " ابن ذبیحین" کی دونوں حدیثیں صحف ِ سماوی کے خلاف بیان کرتی ہیں پس وہ روایات جھوٹی اور موضوعہ ہیں۔

جو اصحاب ان دو حدیثوں کی بنا پر اسماعیل کو ذبیح الله مانتے ہیں ان میں ابن عباس ۔ ابن عمر، سعید بن مسید۔ حسن، شعبی، مجاہد اور قلبی شامل ہیں۔ اب ذرا حضرت اضحاق کو ذبیح الله ماننے والوں کے نام ملاحظہ ہوں۔ ان میں حضرت عمر ، حضرت علی، حضرت عباس بن عبد المطلب ۔ حضرت ابن مسعود ، حضرت کعب ، حضرت احبار اور قتادہ اور سعید بن خبیر، مسروق، عکرمہ ،ز ہری سدی او مقاتل جیسے حضرات ذی شان اور اکابر اسلام شامل ہیں ۔ وہ نہ صرف آنحضرت کے مکرم صحابیوں میں سے ہیں بلکہ قرآن کے حافظ اورحسن رائے، علم اورنیکی کے لئے دنیائے اسلام میں مشہور اور ممتاز ہیں۔کون ذی ہوش شخص ابن عباس اورابن عمر کی رائے کو حضرت عباس بن عبدالمطلب اور حضر ت عمر پر ترجیح دےگا؟ بالخصوص جب صحف ِ سماوی ان کی تائید کرتی ہیں ؟ اگر ابن الذبیحین کی حدیث صحیح ہوتی تو کیا اس کی حقیقت آنحضرت کے چچا عباس بن عبدالمطلب اور چچازاد بھائی علی اور آنحضرت کے خسر سے پوشیدہ ہوتی؟

سرسید مرحوم بھی تسلیم کرتے ہیں کہ " ذی علم مسلمان عالموں کا صاف بیان ہے کہ حضرت اضحاق کی نسبت قربانی کا حکم ہوا تھا نہ کہ حضرت اسماعیل کی نسبت اوریہی امر مندرجہ ذیل حدیث میں بھی پایا جاتاہے۔ عند محمد ابن المنتشر قال ان رجلا نذر ان یخر نفسہ ۔۔۔۔۔۔ (فقال لہ مسروق لا تخر ۔۔۔ واشتر کبشا فاذبہ للمسا کین فان اسحاق خیر منک وفدی بکش (روای ابن زرین مشکواة )۔ اس حدیث میں مسروق کا قول صاف ہے کہ حضرت اضحاق قربان ہونے والے تھے " (خطبات صفحہ ۱۳۵)۔

پس قرآن مجید ۔ صحیح احادیث ، صحابہ رسول اور ذی علم مسلمان سب کے سب تورات مقدس کے بیان کی تائید اور تصدیق کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے حضرت اسحاق کو ہی نذر گذرانا تھا۔

باب ہفتم

بی بی ہاجرہ کنیزکِ حضرت سارہ

چونکہ مولوی صاحب نے بنی اسماعیل کو برکت ِ نبوت کا مستحق سمجھا اور پھر حضرت اسماعیل کو نبی گردانا پس ان کو تعظیماً اسماعیل کی ماں بی بی ہاجرہ کے لونڈی ہونے سے بھی انکار کرنا پڑا ہے۔ ہمارے مخاطب کو یہ خیال نہ آیاکہ یہ امر ضروری نہیں کہ کسی نبی کی ماں آزاد ہی ہو او رلونڈی نہ ہو۔ یہودیوں اور مسیحیوں کے نزدیک گو بی بی ہاجرہ لونڈی تھیں لیکن وہ کنیزک ہونے کے باوجود برکت والی تھیں۔ لونڈی غلام ہونا فی نفسہ کسی کی ذاتی تحقیر نہیں کرسکتا۔ کیونکہ یہ ظاہری اور عارضی امور ہیں جن کا تعلق کسی انسان کی حقیقی روحانیت اور باطنی شرافت سے نہیں ہوتا۔

تورات شریف کا بیان

مگر حقیقت میں واقعہ یہی ہے کہ بی بی ہاجرہ حضرت ابراہیم کی بیوی سارہ کی لونڈی تھیں۔ چنانچہ تورات شریف میں لکھا ہے " خداوند کاکلام رویا میں ابراہیم پر نازل ہوا اوراس نے فرمایا اے ابرام تو مت ڈر میں تیری سپر اور تیرا بہت بڑا اجر ہوں۔ ابرام نے کہا اے خداوند خدا تو مجھے کیا دے گا کیونکہ میں تو بے اولاد ہوجاتا ہوں ؟ ۔۔۔۔۔ اور ابرام کی بیوی سارہ کے کوئی اولاد نہ ہوئی ۔ اس کی ایک مصری لونڈی تھی جس کانام ہاجرہ تھا اور سارہ نے ابرام سے کہا دیکھ خداوند نے مجھے تو اولاد سے محروم رکھاہے۔ سو تو میر ی لونڈی کے پاس جا شاید اس سے میرا گھر آباد ہو۔ابرام نے سارہ کی بات مان لی اور ابرام کو ملک ِ کنعان میں رہتے دس (۱۰)بر س ہوگئے تھے جب اس کی بیوی سارہ نے اپنی مصری لونڈی اسے دی کہ اس کی بیوی بنے اور ہاجرہ کے پاس گیا اور حاملہ ہوئی۔ جب اسے معلوم ہواکہ وہ حاملہ ہوگئی ہے تو اپنی بی بی کوحقیر جاننے لگی۔ تب سارہ نے ابرام سےکہا جو ظلم مجھ پر ہوا وہ تیری گردن پر ہے۔ میں نےاپنی لونڈی تیری آغوش میں دی اوراب جو اس نے اپنے آپ کو حاملہ دیکھا تو میں اس کی نظر میں حقیر ہوگئی۔ابرام نے سارہ سے کہا کہ تیری لونڈی تیرے ہاتھ میں ہے جو تجھے بھلا دکھائی دے تو اس کے ساتھ کر۔ تب سارہ اس پر سختی کرنے لگی اور وہ اس کے پاس سے بھا گئ گئی ۔ اوروہ خداوند کے فرشتے کے بیابان میں پانی کے ایک چشمہ کے پاس ملی اوراس نے کہا ۔ اے سارہ کی لونڈی ہاجرہ تو کہاں سے آئی اور کدھر جاتی ہے ؟ اس نے کہا میں اپنی بی بی سارہ کے پاس سے بھاگ آئی ہوں۔ خداوند کے فرشتہ نے اس سے کہا کہ تو اپنی بی بی کے پاس لوٹ جا اوراپنے آپ کو اس کے قبضہ میں کردے اور خداوند کے فرشتہ نے اس سے کہا کہ تو حاملہ ہے اور تیرے بیٹا ہوگا۔ اس کا نام اسماعیل رکھنا کیونکہ خداوند نے تیرا دکھڑا سن لیا ہے۔ وہ گورخر کی طرح آزاد مرد ہوگا ۔ اس کا ہاتھ سب کے خلاف اورسب کے ہاتھ اس کے خلاف ہوں گے اورجب ابراہام سے ہاجرہ کے اسماعیل پیدا ہوا تب ابرام چھیاسی (۸۶)برس کا تھا۔ جب وہ ننانوے (۹۹)برس کا ہوا تب خداوند ابراہام کو نظر آیا اور اس نے فرمایا کہ میں سارہ سے تجھے ایک بیٹا بخشوں گا اور خداوند نے جیسا اس نے فرمایا تھا سارہ پر نظر کی سارہ حاملہ ہوئی اورابراہام کے لئے اس کے بڑھاپے میں اس کے بیٹا ہوا اور ابراہام نے اپنے بیٹے کا نام جو اس سے سارہ کے پیدا ہوا اضحاق رکھا۔ اورجب اس کا بیٹا اضحاق اس سے پیدا ہوا توابراہام سو(۱۰۰)برس کا تھا۔ اور وہ لڑکا بڑھا اوراس کا دودھ چھڑایا گیا اور اضحاق کے دودھ چھڑانے کے دن ابراہام نے بڑی ضیافت کی اور سارہ نے دیکھاکہ ہاجرہ مصری کا بیٹا ٹھٹھے مارتا ہے تب اس نے ابراہام سے کہا کہ اس لونڈی کو اوراس کے بیٹے کو نکال دے کیونکہ اس لونڈی کا بیٹا میرے بیٹے اضحاق کے ساتھ وارث نہ ہوگا۔ پر ابراہام کو اس کے بیٹے کے باعث یہ بات نہایت بری معلوم ہوئی۔ اور خدا نے ابراہام سے کہا تجھے اس لڑکے اوراپنی لونڈی کے باعث برا نہ لگے جو کچھ سارہ تجھ سے کہتی ہے تواس کی بات مان کیونکہ اضحاق سے تیری نسل کا نام چلے گا اوراس لونڈی کے بیٹے سے بھی میں ایک قوم پیدا کرو ں گا ۔تب ابراہام نے صبح سویرے اٹھ کر روٹی اور پانی کی ایک مشک لی اوراسے ہاجرہ کو دیابلکہ اس کے کندھے پر دھردیا اور لڑکے کو بھی اس کے حوالے کرکے اسے رخصت کردیا۔ سووہ چلی گئی اور بیرسبع کے بیابان میں آوارہ پھرنے لگی اورجب مشک کا پانی ختم ہوگیا تو اس نے لڑکے کوایک جھاڑی کے نیچے ڈال دیا اورآپ اس کے مقابل ایک تیر کے ٹپے پر دور جابیٹھی اور کہنے لگی کہ میں اس لڑکے کا مرنا تو نہ دیکھوں۔ سووہ اس کے مقابل بیٹھ گئی اور چلا چلا کر رونے لگی۔اور خدا کے فرشتہ نے آسمان سے ہاجرہ کو پکارا اوراس سے کہا ۔ اے ہاجرہ تجھ کو کیا ہوا ؟ مت ڈر کیونکہ خدا نے اس جگہ سے جہاں لڑکا پڑا ہے اس کی آواز سن لی ہے ۔ اٹھ اور لڑکے کو اٹھا اوراسے اپنے ہاتھ سے سنبھال کیونکہ میں اس کو ایک بڑی قوم بناؤں گا ۔ پھر خدا نے اس کی آنکھیں کھولیں اور اس نے پانی کا ایک کنواں دیکھا اور جاکر مشک کو پانی سے بھر لیا اور لڑکے کوبلایا اور خدا اس لڑکے کے ساتھ تھا اور وہ بڑا ہوا او ربیابان میں رہنے لگا اور تیرا انداز بنااور فاران کے بیابان میں رہتا تھا اور اس کی ماں نے ملک ِ مصر سے اس کے لئے بیوی لی (پیدائش باب ۱۵ تا ۲۱)۔

تورات شریف کے مذکورہ بالا بیان کو پڑھ کر یہ روشن ہوجاتاہے کہ بی بی ہاجرہ کے لونڈی ہونے سے انکا ر کرنا ایسا ہی محال امر ہے جیساکہ اس کے عورت ہونے سے انکار کرنا۔ ہم کو یہ ثابت کرناکہ بی بی ہاجرہ لونڈی تھیں کوئی ضروری بات نہیں بلکہ اس امر پر بحث کرنا بھی ہم کو ایک گونہ ناگوار بھی ہے۔ مگر اظہار ِ حقیقت کے لحاظ سے اس موضوع پر بادل نخواستہ ہم بحث کررہے ہیں تاکہ ہمارے مخاطب غلطی میں نہ رہیں۔

غلامی کا رواج اوربی بی ہاجرہ

مولوی صاحب لکھتے ہیں کہ

" عیسائیوں کا یہ کہناکہ حضرت ہاجرہ لونڈی ہے اور اسماعیل معہ اپنی ماں کے نکالے گئے بالکل باطل ہے۔ حضرت ہاجرہ کا لونڈی ہونا کتب ِ مقدسہ سے پایا نہیں جاتا۔ کیونکہ جو شرائط لونڈی ہونے کے کتب ِ مقدسہ میں ہیں ان میں سے ایک بھی ہاجرہ میں پائی نہیں جاتی۔ اگر عیسائی یہ کہیں کہ حضرت ہاجرہ کے وقت شریعت کہاں تھی؟ شریعت حضرت موسیٰ لائے اور شرائط لونڈی ،غلام کی حضرت موسیٰ کےو قت بیان ہوئیں تو اس کا جواب یہ ہےکہ جس صورت میں لونڈی غلام کی شرائط حضرت موسیٰ سےشروع ہوئیں تو ہاجرہ لونڈی نہیں ہوسکتیں"

(صفحہ ۱۷، ۱۸)

تورات شریف کے مذکورہ بالا بیان کوپڑھ کر کوئی صحیح العقل شخص جس کو تحقیق کا ذرا بھی پاس ہو یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ " حضرت ہاجرہ کا لونڈی ہونا کتب ِ مقدسہ سے پایا نہیں جاتا"۔ کتاب مقدس کے مذکور ہ بالا بیان میں کم از کم نو(۹) دفعہ بی بی ہاجرہ کو " لونڈی " کہا گیا ہے اور حضرت سارہ کو آٹھ (۸)مرتبہ اس کی مالکہ کہا گیا ہے۔ بی بی سارہ اس کو " میری لونڈی" کہتی ہے۔ ہاجرہ اس کو اپنی" مالکہ" تسلیم کرتی ہے۔ حضرت ابراہیم سارہ سے مخاطب ہوکر اس کو "تیری لونڈی" کہتے ہیں۔ خداوندکا فرشتہ اس کو " اے سارہ کی لونڈی ہاجرہ" کہہ کر بلاتاہے۔ خود خدا بی بی ہاجرہ کو " لونڈی" اورحضرت اسماعیل کو "لونڈی کا بیٹا "کہتاہے لیکن ہمارے مخاطب اصرار کرکے کہتے ہیں " ہاجرہ لونڈی نہیں ہوسکتیں "!

مولوی صاحب نے عیسائیوں کی بات پر غور نہیں کیا اوربہت بڑی غلطی میں مبتلا ہوگئے ۔ عیسائی یہ باطل دعویٰ نہیں کرتے کہ بی بی ہاجرہ موسوی شریعت کی علمدرآمد کے ساتھ لونڈی تھی بلکہ یہ (جو آپ کے دعویٰ کے لئے اور زیادہ مضر ہے) کہ ابراہیم کے زمانہ کے رواج ِ غلامی کے مطابق ہاجرہ محض ایک لونڈی تھیں۔ ہمارے مخاطب کو یا درکھنا چاہیے۔ کہ شریعت ِ موسوی نے غلامی کی قبیح رسم کو ایجاد نہیں کیا تھا بلکہ غلامی کے مروجہ رواج کی اصلاح کی تھی(احبار ۲۵باب ؛ یسعیاہ ۵۶: ۳تا ۸ وغیرہ)۔غلامی کا رواج موسوی شریعت سے صدیوں پہلے کا ہے۔ چنانچہ آپ خود فرماتے ہیں کہ" بنی اسرائيل فرعون کےلونڈی غلام تھے"۔(صفحہ ۱۸)آپ نے بجا فرمایا ۔ لیکن فرعون مصر نے بنی اسرائيل کو شریعت موسوی کے موافق تو اپنا بردہ(غلام) نہیں بنایا تھا ! وہ ملک ِ مصر کے رواج غلامی کے موافق فرعون کے بردے تھے۔ پس آپ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ " ہاجرہ لونڈی نہیں ہوسکتیں "۔ ہاں یہ کہئے کی بی بی ہاجرہ لونڈی تو تھیں ،مگر شریعت ِ موسوی کے موافق نہیں بلکہ زمانہ ابراہیم کے رواج کےموافق لونڈی تھیں۔ اوریہ ان کی زیادہ بدنصیبی تھی کیونکہ اگر موسوی شرع کے موافق ان کو حضرت سارہ کی لونڈی ہونے کا فخر حاصل ہوتا تو ان کو وہ ذلت اور خواری نصیب نہ ہوتی جس کا بیان تورات میں ہے ۔ وہ اپنے دن زیادہ آرام سے کاٹتیں کیونکہ شریعت ِ موسوی نے غلامی کے بدترین پہلوؤں کو رفع کردیا تھا۔

ہمارا مخاطب عجیب دلیل پیش کرکے کہتا ہے " اگر کوئی یہ کہے کہ حضرت سارہ یا خدا تعالیٰ نے ان کو لونڈی پکارا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر لونڈی یاغلام صرف کہہ دینے سے ہی ہوسکتا ہے تو بنی اسرائیل سے کوئی لونڈی اور غلام نہیں ہوسکتا "! اس کا حاصل یہ ہوا کہ مولوی صاحب خدا تعالیٰ کے کلام کو بھی اس معاملہ میں تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں ۔ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ خدا نے بی بی ہاجرہ کو صرف اس واسطے " لونڈی " کہا کہ وہ بنی اسماعیل کو اور مسلمانوں کو چڑائے ؟ خدا ہاجرہ کو لونڈی کہا کیونکہ وہ لونڈی تھیں۔ آپ عیسائیوں کے قول کی شوق سے تکذیب (جھٹلانا ،جھوٹ بولنے کا الزام لگانا)کریں لیکن خدا را خدا کے قول کو تو قبول کرلیں۔

تورات شریف کی شہادت

مولو ی صاحب کے اس بھدے انکار نے جو تحقیق سے کوسوں دور ہے ہم کو مجبور کیا ہے کہ بی بی ہاجرہ کا لونڈی ہونا ثابت کریں ورنہ ہم کو بی بی صاحبہ اوران کے بے گناہ بچوں کی ذلتوں کا جو انہو ں نے اپنی غلامی کی حالت میں اٹھائیں ذکر کرنا واقعی تکلیف دہ ِ اور ناگوار ہے۔ مگر مولوی صاحب کے انکار نے ہم کو ان کے گنوانے پر مجبور کردیا ہے کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ " عیسائیوں کا یہ کہنا حضرت ہاجرہ لونڈی تھیں اور حضرت اسماعیل معہ اپنی ماں کے نکالے گئے باطل ہے"۔ تورات شریف کے مندرجہ بالا بیان میں آیا ہے کہ:

(۱) سارہ کی ایک مصری لونڈی تھی جس کا نام ہاجرہ تھا۔ اس نےاپنی مصری لونڈی ابراہیم کو دی "(پیدائش ۱۶: ۱، ۳)۔ دیکھئے حضرت موسیٰ جو " لونڈی" غلام ہونے کی شرائط " سے واقف تھے بی بی ہاجرہ کو حضرت سارہ کی " مصری لونڈی " کہہ رہے ہیں ۔ او رحضرت موسیٰ کی مخالفت کرنے کا کس کو زہرہ(حوصلہ،ہمت)؟

(۲) " ابراہیم نے سارہ سے کہا کہ تیری لونڈی تیرے ہاتھ میں ہے۔ جو تجھے بھلا دکھلائی دے سو اس کے ساتھ کر " (پیدائش ۱۶: ۶)۔ حضرت ابراہیم ہاجرہ کو سارہ کی لونڈی کہتے ہیں۔ دین ابراہیمی کے دعویداروں کو ابراہیم کے سخن کا کچھ تو پاس ہونا چاہیے۔

(۳) خداوند کا فرشتہ نے ہاجرہ سے کہا ۔’’ اے سارہ کی لونڈی ہاجرہ‘‘ (پیدائش ۱۶: ۸) کیا فرشتے کی بات بھی قابل ِ التفات نہیں؟

(۴) بی بی ہاجرہ کے نام کے ساتھ اس کی صفت " سارہ کی لونڈی" تمام بیان میں موجو دہے۔ کتاب ِ مقدس کی یہی شہادت ہے۔

(۵) خدا نے ہاجرہ کو " لونڈی" کے لقب سے نامزد فرمایا (پیدائش ۲۱: ۱۲) خدا سے زیادہ کون معتبر گواہ ہے؟

(۶) بی بی ہاجرہ حضرت سارہ کو خود اپنی مالکہ تسلیم کرتی ہے(پیدائش۱۶: ۸) کیا اس کااقبال مومنین کے لئے قابل توجہ نہیں ؟ اگر وہ سارہ کی لونڈی نہ ہوتیں تو وہ فرشتے کو کہتیں۔ میں تو لونڈی نہیں ہوں۔ مجھے مت چڑاؤ۔ میں تو فرعون زادی ہوں۔

(۷) بی بی ہاجرہ پر لونڈیوں کی مانند سختی ہوئی چنانچہ لکھاہے " سارہ اس پر سختی کرنے لگی اور وہ اس کے پاس سے بھاگ گئی "(پیدائش ۱۶: ۶)۔

(۸) حضرت ابراہیم نے اس پر سختی کرنے دی (پیدائش ۱۶: ۶) اور خدا نے بھی اس سختی سے چشم پوشی کی (پیدائش ۲۱: ۱۲)۔

(۹) اس سختی کی وجہ سے بی بی ہاجرہ اپنے آقا کے مکان سے غلاموں کی طرح بھاگ گئی (پیدائش ۱۶: ۶) اس نے بعد میں فرشتے سے کلام کرتے وقت یہ قبول کرلیاکہ میں اپنی بی بی سارہ کے پاس سے بھاگ آئی ہوں "(پیدائش ۱۶: ۸)۔

اب مولوی صاحب فرمائیں کہ لونڈی ہونے کی کون سی شرط ہے جو بی بی ہاجرہ میں باقی رہ گئی ہے ؟ قاضی عقل کو بی بی جی کے لونڈی ہونے کا فتویٰ دینے میں تامل نہیں ہوسکتا۔ مولوی صاحب کو تامل ہو تو ہو۔

ہمارے مخاطب کہتے ہیں کہ حضرت ہاجرہ میں لونڈی ہونے کی شرائط پائی نہیں جاتیں۔ ہاں زلفا اوربلہا (حضرت یعقوب کی حرموں میں لونڈی ہونے کی شرائط پائی جاتی ہیں"۔

حقیقت یہ ہے کہ (۱)گوہاجرہ اور زلفا اوربلہا سب شریعت موسوی سے قبل لونڈیاں تھیں لیکن مولوی صاحب زلفا اوربلہا کے لونڈی ہونے کے اتنے ثبوت کتاب ِ مقدس سے نہیں لاسکتے ۔ جتنے ہم نے بی بی ہاجرہ کے دئیے ہیں (۲۔) حضرت یعقوب نے بھی زلفا اوربلہا کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کیا جس سے ان کے لونڈی ہونےکی ذلت معلوم ہو۔(۳) گویہ دونوں ابتداء میں لونڈیاں تھیں تاہم ان کے بیٹوں کو برخلاف ہاجرہ کے بیٹے اسماعیل کے حضرت یعقوب کے دوسرے بیٹوں کے ساتھ مساوی حقوق ملے اور وہ اسرائيل کے حقیقی فرزند ہوئے اور ان کا شمار اوران کے اولاد کا شمار بنی اسرائيل میں کیا گیا ۔ لیکن اسماعیل (اور ابراہیم کے دوسرے لڑکے جو لونڈیوں سے پیدا ہوئے ) وراثت ِابراہیمی اور وعدہ اورنبوت کی برکت ِ عظمیٰ سے خارج کئے گئے۔ جیساکہ ہم گذشتہ فصلوں میں ثابت کرچکےہیں۔(۴۔) مولوی صاحب ہی ہم کو بتلائیں کہ زلفا اوربلہا میں لونڈی ہونے کی کون سی شرائط موجو د ہیں جو ہاجرہ میں نہیں ملتیں ؟ بلکہ زلفا اوربلہا پر سختی نہ کی گئی۔ نہ وہ اپنے مالک کے مکان سے بھاگیں نہ وہ ان کی اولاد آقا کے گھر سے نکال دی گئی اور نہ بمقابلہ دیگر اولاد ان کے بیٹے میراث ِ پدر اور دیگر برکتوں سے محروم کئے گئے ۔

لامحالہ اگر کسی عورت کی نسبت لونڈی ہونے کی شرائط پوری ہوتیں تو وہ لونڈی ہے اور بی بی ہاجرہ لونڈی تھیں اوران کی نسبت لونڈی ہونے کی تمام شرائط بھی پوری ہوچکیں۔

بی بی ہاجرہ کا اخراج

مولوی صاحب نے تورات شریف کی عین ضد میں اس امر کو بھی کہ" اسماعیل معہ اپنی ماں کے نکالے گئے " بالکل باطل ٹھہرایا ہے۔ نا معلوم انہوں نے تورات کو خود نہیں پڑھایا دیدہ دانستہ چشم پوشی کرنا چاہی۔ بہر حال یہ دونوں باتیں اصول ِ تحقیق کے خلاف ہیں۔ تورات شریف میں آیاہے:۔

" سارہ نے دیکھا کہ ہاجرہ مصری کا بیٹا (اضحاق پر ) ٹھٹھے مارتاہے۔ تب اس نے ابراہام سے کہا کہ اس لونڈی کو اوراس کے بیٹے کونکال دے کیونکہ اس لونڈی کا بیٹا میرے بیٹے اضحاق کے ساتھ وارث نہ ہوگا۔ خدا نے ابراہام سے کہا جو کچھ سارہ تجھ سے کہتی ہے تو اس کی بات مان کیونکہ اضحاق سے تیری نسل کا نام چلے گا ۔ تب ابراہام نے صبح سویرے اٹھ کر روٹی اور پانی ایک مشک لی اور اس کے حوالے کرکے اسے رخصت کردیا۔ سوہاجرہ چلی گئی اور بیر سبع کے بیابان میں آوارہ پھرنے لگی" (پیدائش ۲۱باب) ۔آگے ان مصیبتوں کا حال ہے جو بی بی ہاجرہ اوراس کے لخت ِ جگر پرپڑیں جن کو پڑھ کر رونا آتاہے کیونکہ اس بیچاری عورت اوراس کے تباہ حال لڑکے کے ساتھ بہت سخت سلوک کیا گیا۔ خدا کا شکر ہے کہ اس نےاپنے بیٹے سیدنا عیسیٰ مسیح کو بھیجا اورانجیل جلیل کے اصولوں نے اس ظالمانہ رسم غلامی کا سدِباب کیا۔ حضرت کلمة الله آئے تاکہ قیدیوں اور غلاموں کی رہائی ہو اور ظلم واستبداد کی زنجیریں ٹوٹ جائیں۔(لوقا ۴: ۲۱)لیکن اس زمانہ میں غلاموں کے ساتھ اس قسم کابرتاؤ ایک عام بات تھی بلکہ اس بے یارودمددگار طبقہ کےساتھ ہاجرہ سے بھی زیادہ سخت سلوک کیا جاتا تھا اوراس وحشی اورظالمانہ سلوک کو عیب نہ سمجھا جاتا تھا۔ اگر بی بی ہاجرہ لونڈی نہ ہوتیں تو اس قسم کا وحشیانہ سلوک ہی ان سے نہ کیا جاتا۔ لیکن آپ کوگھر سے نکال دیا گیا اور آپ کے لخت ِ جگر کو بھی نکال دیا گیا کیونکہ آپ لونڈی تھیں۔

فرعون زادی کا قصہ

اس سے کوئی محقق انکار نہیں کرسکتا کہ کتاب مقدس اور صحیح تاریخ کے مطابق بی بی ہاجرہ حضرت سارہ کی لونڈی تھیں اور حضرت اسماعیل کنیزک زادہ تھے اور وہ دونوں حضرت ابراہیم کے گھر سے نکال دئیے گئے ۔ مولوی صاحب باوجود دعویٰ " تحقیق " کے ان سچے اور تواریخی حقائق سے انکار کرتے ہیں۔ مگر انہوں نے خطرناک راہ پر قدم مارا ہے۔ وہ اتنے ہی پر بس نہیں کرتے کہ ہاجرہ کے لونڈی ہونے سے انکار کریں بلکہ وہ ان کو لونڈی سے شاہزادی بنانا چاہتے ہیں !اے کاش کہ بی بی ہاجرہ بادشاہزادی ہوتیں اورہم کو مذکورہ بالا ناگوار باتوں کا بیان نہ کرنا پڑتا !۔ رنگ آمیزی او رمبالغہ کو تحقیق حق سے کسی قسم کا بھی واسطہ نہیں ہوسکتا مبالغہ کی راہ نہایت کشادہ اورپھسلنی ہوتی ہے ۔ چنانچہ بہ سند" اپنے ایک دوست سلیمان یہودی " آپ فرماتے ہیں کہ

" ایک شخص حکیم ،ہنر مند۔ ذکی الطبع تھا جو اکثر علوم وفنون میں کمال رکھتا تھا۔ اس کا نام قیون تھا۔ اس نے وطن میں رہنا نامناسب سمجھ کر مصر کی راہ لی اور رفتہ رفتہ مصر کا بادشاہ ہوگیا جس کا لقب فرعون ہوا ۔ جب ابراہیم مصر میں پہنچے اس نے سارہ سے شادی کرنا چاہی جب اس کو معلوم ہوا کہ وہ حضرت ابراہیم کی بیوی ہیں تو اسی وقت فرعون نے ان کو حضرت ابراہیم کے پاس بھیج دیا اور اپنی بیٹی حضرت ہاجرہ کو ان کے سپرد کردیا۔ یہ صحیح حال حضرت ہاجرہ کا ہے جو ہم نے ٹھیک ٹھیک بیان کردیا "

(صفحہ ۱۸، ۱۹) ۔

اسی فرضی داستان کو سرسید مرحوم نے مولوی عنایت رسول چڑیا کوٹی (جن کی عبرانی دانی کی قلعی ہم باب ِ سوم میں کھول چکے ہیں ) کی زبانی دہرایا ہے (خطبات صفحہ ۱۶۳، ۱۷۰)۔

ہمیں کچھ ضرور نہیں کہ ہم اس فرضی قصہ کے کھوج کرنے میں تفیع (ضائع کرنا)اوقات کریں۔ تعجب ہے کہ مولوی صاحب کے " دوست سلیمان یہودی" بی بی ہاجرہ کی مرقومہ بالاداستان کو معتبر تاریخ کہے اورآپ اس کی تائید کریں اور " محقق " ہونے کا دعویٰ کریں ! آپ نے اس یہودی سے پوچھا ہوتا کیا تم تورات شریف کو مانتے ہو؟ اور اس مقدس کتاب سے بھی کسی زیادہ معتبر کتاب کے قائل ہو؟ اورکچھ نہیں تو آپ نے یہی سوچا ہوتاکہ ہاجرہ کا یہ فرضی باپ کیسا " حکیم ،ہنر مند ، ذکی الطبع، علوم وفنون میں کمال رکھنے والا " تھا کہ اس نے اپنی بیٹی کو ایک اجنبی عورت کے سپرد کردیا اور اس کی آئندہ زندگی کا کوئی لحاظ نہ کیا ؟ اوروہ کیسا " دانشمند بادشاہ" تھا جس نے اپنی " اکلوتی بیٹی" کے ساتھ درجن دودرجن سہیلیاں اور لونڈیاں خدمت کےلئے نہ دیں؟ اورنہ کوئی مال واسباب اور زرہی دیا؟ حتیٰ کہ جب ابراہیم نے اس کو گھر سے نکال تو فقط ایک مشک پانی اور روٹی کا اس بیچاری کو مستحق گردانا؟ کیا حضرت ابراہیم ایسے ہی نادان شخص تھے کہ وہ ایک عالی نسب شاہزادی سے اس قسم کا سلوک روا رکھتے؟ اور یہ عالی خاندان کی شاہزادی کیسی تھی جو گھر سے نکال دئيے جانے کے بعد" چلی گئی اوربیر سبع کے بیابان میں آوارہ پھرنے لگی "؟ آپ نے اس یہودی دوست سے پوچھا ہوتاکہ ہاجرہ کو سارہ" کے سپرد" کرنے کا کیا مطلب ہے کیونکہ سارہ نے تو ہاجرہ کو لونڈی بنائے رکھا۔ لونڈی کرکے ابراہیم کودیا۔ لونڈی کا سلوک کیا اور لونڈی کی طرح گھر سے نکال باہر کیا؟ کیا حضرت سارہ ایک شاہزادی کو لونڈی بنا کر اس قسم کا ظالمانہ سلوک کرسکتے تھے ؟

مولوی صاحب ۔ حیرت ہے کہ آپ توریت شریف کی سند کے مقابلہ میں سلیمان یا کسی اور یہودی کا قول پیش کرتے ہیں اور خود مطمئن ہوجاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کا وہم اس کو عجب عجب تماشے دکھلاتاہے اورجو وہ ماننا چاہتاہے اسے منوادیتاہے۔ لیکن تحقیق حق اور قوت واہمہ دونوں یک جانہیں ہوسکتیں۔ ہم کو بی بی ہاجرہ کے فرعون زادی ہونے سے اتنا تعجب نہیں جتنا آپ کے اس فرضی قصہ کو عیسائیوں کے مقابل سنداً پیش کرنے سے اور اس کو خلاف ِ تورات حق سمجھنے سے اچنبھا ہوتاہے۔

باب ہشتم

حضرت ابراہیم اور خانہ کعبہ

قرآن کا بیان

قرآن شریف میں لکھاہے:۔

" ہم نے ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیاکہ میرا گھر طواف والوں کے واسطے پاک کر رکھو۔ اورجب ابراہیم اس گھر کی بنیاد یں اٹھانے لگا۔۔۔۔ الخ

(بقر ع ۵)

عیسائی ان روائتوں کو حق نہیں جانتے ۔ پس وہ ان کو نہیں مانتے۔

مولوی صاحب کی دلیلیں

مولوی صاحب کہتے ہیں ۔

" عیسائی لوگ اکثر اپنی تصنیفات میں لکھتے ہیں کہ خانہ کعبہ حضرت ابراہیم نے بنایانہیں کیا ہمیں کتب ِ مقدسہ میں دیکھنا چاہیے کہ ابراہیم بیت الله بنانے کے عادی تھے یا نہیں ۔ جب ہم غور سے دیکھتے ہیں تو ثابت ہوتاہےکہ ان کی عادت بیت الله بنانے کی تھی۔ وہ جس جگہ کو اپنی قیام گاہ مقرر فرماتے تھے وہاں ایک قربان گاہ بناتے تھے۔ یہ ان کی عادت ہوگئی تھی۔اب ناظرین کو یہاں خوب غور کرنا چاہیے کہ حضرت ابراہیم جب کہ غیر ملکوں میں قربان گاہ بناتے تھے تو جب وہ عرب میں اپنے عزیز بیٹے کے پاس گئے ہوں گے تو قربان گاہ کیوں نہ بنائی ہوگی"۔

(صفحہ ۲۲، ۲۳)

یہ اقتباس ان دلیلوں کا بھی ہے جو سرسید مرحوم نے ’’خطبات احمدیہ ‘‘میں دی ہیں (خطبات صفحہ ۴۹۹)۔

تنقیح طلب امور

ہمارے مخاطب کو یاد رکھنا چاہیے کہ اصل سوال یہ ہےکہ آیا خانہ کعبہ کو جو ملک ِ عرب کے ایک خاص شہر یعنی مکہ میں واقع ہے ، حضرت ابراہیم نے بنایا تھا یاکہ نہیں۔ اس سوال کا جواب نہ تو ابراہیم کی " بیت الله بنانے کی عادت " سے مل سکتاہے اورنہ کسی فرضی ملاقات سے یہ سوال حل ہوسکتاہے کہ جو انہوں نے اسماعیل سے کی ہو۔

مولوی صاحب کو یہاں تین باتیں ثابت کرنا چاہیے :۔

اول۔ یہ کہ حضرت اسماعیل مکہ میں رہتے تھے۔

دوم۔ یہ کہ حضرت ابراہیم اسماعیل کو ملنے کی خاطر مکہ تشریف لائے تھے۔

سوم۔ یہ کہ حضرت ابراہیم نے مکہ کو اپنی قیام گاہ مقرر فرمایا تھا کیونکہ آپ خود کہہ چکے ہیں کہ" حضرت ابراہیم جس جگہ کو اپنی قیام گاہ مقرر فرماتے تھے وہاں وہ ایک قربان گاہ بناتے تھے"۔

چہارم۔ یہ کہ حضرت ابراہیم نے خانہ کعبہ کی اپنے ہاتھوں بنا ء(بنیاد) ڈالی۔

کیونکہ اگر اسماعیل کی جائے سکونت ملک ِ عرب کا ایک خاص خطہ یعنی مکہ قرار پابھی سکے اور خواہ حضرت ِِ ابراہیم ان سے ملنے بھی آئے ہوں اور ان کے۔۔۔ ساتھ سکونت بھی کی ہو اور عرب میں انہوں نے کسی جگہ بیت الله بھی بنایا ہو توبھی کم از کم مکہ کے خانہ کعبہ کو حضرت ابراہیم سے کوئی نسبت نہیں ہوسکتی۔جب تک یہ ثابت نہ کیا جائے کہ حضرت نے خانہ کعبہ کو اپنے ہاتھوں اٹھایا تھا۔

اسماعیل کی جائے سکونت

" کتب مقدسہ " سے جن پر مولوی صاحب اپنے دعوؤں کا انحصار کرتے ہیں صاف ثابت ہے کہ حضرت اسماعیل کی جائے سکونت نہ تو ملک ِ عرب میں تھی اور نہ مکہ یا مکہ کے قرب وجوار میں تھی۔ بلکہ ان کی جائے سکونت مکہ سے سینکڑوں میل دور واقع تھی۔ چنانچہ تورات شریف میں ہے:

" خدا اسماعیل کے ساتھ تھا اور وہ بڑا ہوا اور وہ بیابان میں رہنے لگا اور تیر انداز بنا اور فاران کے بیابان میں رہتا تھا اوراس کی ماں نے ملک ِ مصر سے اس کے لئے بیوی لی۔ اور اسماعیل کی کل عمر( ۱۳۷ )برس کی ہوئی تب اس نے دم چھوڑدیا اور وفات پائی اوراپنے لوگوں میں جا ملا۔ اورا س کی اولاد حویلہ سے شور تک جو مصر کے سامنے اس راستہ پر ہے جس سے اسود کو جاتے ہیں آباد تھی" (پیدائش ۲۱باب ، ۲۵باب)۔

" کتب ِ مقدسہ میں فاران کا بیابان ایک مشہور جگہ ہے اوریہ کتابیں سوائے ایک " فاران " کے کوئی دوسرا فاران نہیں جانتیں (پیدائش ۱۴: ۶؛ ۲۱: ۲۱؛ گنتی ۱۰: ۱۲؛ ۱۲: ۱۶؛ ۱۳: ۳ وغیرہ)۔ اسی فاران کا ذکر( ۱۔سلاطین ۱۱: ۱۸ اور حبقوق ۳: ۳و غیرہ) میں آیاہے۔ یہ فاران کا بیابان جزیرہ نما سینا میں واقع ہے ۔ یہی وہ بیابان ہے جس میں سے ہوکر بنی اسرائيل نے اپنے سفر کے چالیس (۴۰)برس گذارے تھے اورجہاں انہوں نے پڑاؤ بھی کیا تھا۔ چنانچہ لکھاہے کہ" بنی اسرائيل دشت ِ سینا سے کوُچ کرکے نکلے اوربادل اور دشت ِ سینا میں ٹھہرگیا"(گنتی ۱۰: ۱۲) پھر وہ لوگ حصیرا ت سے روانہ ہوئے اور فاران کے بیابان میں پہنچ کر انہو ں نے ڈیرے ڈالے"(گنتی ۱۲: ۱۶) یہ " فاران کا بیابان " مکہ سے کوئی چھ سو (۶۰۰)میل شمال کی جانب مابین ملک کنعان اور مصر کے جزیرہ نما سینا میں بحر قلزم کی دونوں شمال شاخوں کے درمیان واقع ہے۔ اس مقا م کا جغرافیہ بتلادیتا ہے کہ اگرایک لکیر بحر ِ مردار سے خلیج عقبہ تک کھینچی جائے تو یہ اس بیابان کی مشرقی سرحد ہوگی ۔اس مقام پر حضرت اسماعیل نے رہائش اختیار کی اوراس جگہ کو مکہ سے ویسا ہی لگاؤ جیسا سری نگر کشمیر کو بنارس سے بچارے اسماعیل کا گذر مکہ کے قرب وجوار میں عمر بھر کبھی نہیں ہوسکتا تھا۔ وہ بیابان فاران میں رہا ۔و ہیں مراد اوراس کی اولاد اس رقبہ میں بستی رہی جو " حویلہ سے شور تک جو مصر کے سامنے اس راستہ پر ہے جس سے اسورکوجاتے ہیں"۔ اوریہ ملک عرب سے کئی سوکوس دورہے۔

پس معلوم ہوا کہ حضرت اسماعیل کی سکونت کو مکہ سے کوئی ممکن الوقوع مناسبت بھی نہیں ہے کیونکہ اس کی جائے سکونت مکہ سے چھ سو(۶۰۰) میل شمال میں تھی۔ اب اگر حضرت ابراہیم نے اسماعیل سے ملاقات کی بھی ہو اور اسماعیل کے گھر کو اپنی " قیام گاہ " بنایا بھی ہو اور اپنی حسب ِ عادت ہاں ایک چھوڑ درجن " بیت الله " بھی بنائے ہوں تب بھی ان کے ہاتھوں سے خانہ کعبہ کی بناء نہیں ہوسکتی تھی۔

ابراہیم اور اسماعیل کی ملاقات

اب دیکھیں کہ مولوی صاحب حضرت ابراہیم کے اسماعیل کے پاس جانے کا کیا ثبوت دیتے ہیں ؟ وہ کہتے ہیں کہ " ان معترضین کا اعتراض کہ حضرت ابراہیم کا عرب میں جانا کتب مقدسہ سے ثابت نہیں ہوتا ، محض بے بنیاد ہے۔ بیشک حضرت ابراہیم عرب میں حضرت اسماعیل کے پاس ضرور گئے ہوں گے۔

اس " گئے ہوں گے" کے ساتھ لفظ " بیشک " اور " ضرور" نہ صرف غیر موزوں ہے بلکہ اصول ِ منطق کے خلاف ہے کیونکہ مولوی صاحب محض اپنے حسن ِ ظن اور قیاس کو یقین کا درجہ دیتے ہیں۔ جب مولوی صاحب نے عیسائیوں کے اعتراض کو " بے بنیاد " کہا تو ہم سمجھتے تھے کہ غالباً وہ کتب ِ مقدسہ کی کوئی " آیت اس امر کے ثبوت میں پیش کرنے والے ہیں کہ حضرت ابراہیم عرب میں حضرت اسماعیل کے پاس فی الحقیقت گئے تھے جس سے معترض کا اعتراض محض بے بنیاد " ثابت ہوجائے گا ۔

کتاب ِمقدس مولوی صاحب کے ایک لفظ کی تکذیب کرتی ہے ۔ قرینہ اس بات کا مقتضی ہے کہ " ابراہیم عرب کو حضرت اسماعیل کے پاس ضرور وہاں ملنے گئے ہوں گے کیونکہ جب انہوں نے اسماعیل کو گھر سے نکالا تب ان کی عمر ایک سو پانچ (۱۰۵)برس کی ہوچکی تھی۔ وہ بہت ضیعف تھے اور دور دراز سفر کےقابل نہ رہے تھے ۔ اگر وہ بی بی ہاجرہ کو گھر سے نکالنے کے بیس (۲۰)برس بعد بھی اسماعیل سے ملنے گئے ہوں اور بفرض ِ محال اسماعیل نے مکہ میں رہائش اختیار کی ہو تو کون صحیح العقل شخص یہ کہے گا کہ ایک سو پچیس(۱۲۵) بر س کا ناتوان شخص چھ سو(۶۰۰) میل کی مسافت طے کرکے اسماعیل کوملنے گیا ہوگا"۔

دوم۔ اس بڑھاپے کی عمر میں حضرت کا"اکلوتا بیٹا " جس کو وہ " پیار کرتا تھا"(پیدائش ۲۲: ۲) اس کے پاس تھا اورا س کے علاوہ دیگر حرموں کے بیٹے بھی ان کی خدمت کو موجود تھے۔ دریں حالات ضعیفی کی عمر میں اپنی آنکھوں کے تارے کو وہ کس طرح اپنی آنکھ سے اوجھل کرسکتے تھے ؟ بالخصوص جب اضحاق وعدہ کے فرزند تھے اوراسماعیل کو خدا نے خارج کردیا تھا؟

سوم۔ جب تک بی بی سارہ جیتی رہیں انہوں نے اپنی کنیزک ہاجرہ اور اس بیٹے کو (جن کو انہوں نے نہایت ناراضگی گھر سے نکال دیا تھا) اپنےگھر کے نزدیک پھٹکنے نہ دیا۔ حضرت سارہ نے اپنے شوہر کو انہیں دیکھنے کے لئے کیسے جانے دیا ہوگا؟ حضرت ابراہیم بھی اپنے اکلوتے بیٹے کی ماں، اپنی بوڑھی زوجہ کو ناراض کرکے کیونکر اپنی کنیزک ہاجرہ اورا س کے بیٹے کودیکھنے کےلئے جاسکتے تھے۔

چہارم۔ حضرت ابراہیم نے اسماعیل اوران کی ماں کو گھر سے نکال دیا تھا اور اسماعیل کی صغر سنی میں بھی اس کی پرواہ نہ کی تھی کہ بھوکا مرتا ہے یا زندہ رہتاہے تو اب جب وہ جوان ہوکر تیراندازی میں ماہر ہوکر اپنی پرورش آپ کرنے لگ گیا تھا تو یہ کونسا موقع اسماعیل کو دیکھنے کے لئے جانے کا تھا؟

پنجم۔ کتاب ِ مقدس سے پایا جاتا ہے کہ خود اسماعیل اپنے باپ کو ضعیفی کی حالت میں دیکھنے آئے تھے۔ اس وقت حضرت سارہ وفات پاچکی تھیں اور حضرت ابراہیم کا دم نکلنے والا تھا۔ اور وہ حضرت اضحاق کے ساتھ اپنے باپ کی تدفین میں شریک ہوئے (پیدائش ۲۵: ۹) اور یہ زيادہ مناسب بھی تھاکہ جوان لڑکا اپنے بوڑھے باپ کو دیکھنے کےلئے آتا ۔ نہ یہ کہ الٹا بڈھا ابراہیم اسماعیل کی ملاقات کے لئے جنگلوں میں " چھ سو(۶۰۰) میل" مارا مارا پھرتا۔

حضرت ابراہیم کے عرب جانے اور حضرت اسماعیل سے ملنے کا دوسرا ثبوت مولوی صاحب یہ دیتےہیں

" حضرت ابراہیم کا حضرت اسماعیل کے پاس دو دفعہ تشریف لے جانے کا ثبوت کتاب ِ حدیث ِیہود سے ملتاہے جس کو طالموت کہتے ہیں۔ یہ طالموت وہ معتبر کتاب ہے کہ جس سے چند مقامات انجیل میں نقل کئے گئے ہیں"

(صفحہ ۲۴۱)۔

حقیقت یہ ہے کہ کتاب تلمود صحیح اورغلط اخبار کا ایک مجموعہ ہے جس طرح کتب ِاحادیث اسلام میں جھوٹی اور سچی سبھی حدیثیں ہیں۔ جس طرح ان میں بعض بے سروپا افسانے مرقوم ہیں اسی طرح یہودی مجموعہ میں بھی بے سروپا افسانے اور قصے پائے جاتے ہیں اورجس طرح بغیر پرکھے کوئی حدیث صحیح ثابت نہیں ہوسکتی اسی طرح تلمود کے بیانات کو بھی پرکھ کر ہی صحیح مانا جاسکتاہے۔ جس طرح کسی حدیث کی کتاب میں کسی صحیح اسلامی حدیث کا ہونا اس مجموعہ کو معتبر نہیں بناسکتا اسی طرح تلمود میں کسی صحیح خبر کے ہونے سے تمام تلمود " معتبر کتاب"نہیں بن سکتی پس تلمود جیسی غیر معتبر کتاب میں سے کسی معتبر واقعہ کا اخذ کیا جانا تمام کتاب کو " معتبر کتاب " نہیں بناسکتا۔

مولوی صاحب نے یہ نہیں بتلایاکہ تلمود کے وہ کون سے " معتبر مقامات " ہیں جو انجیل میں نقل کئے گئے ہیں " تاکہ ہم ان کی تنقید کرکے اصل بات کا پتہ لگاسکتے ۔ بہر حال اگر کوئی " معتبر مقامات " تلمو د سے اخذ کئے گئے ہیں تووہ " معتبر " ہونے کی وجہ سے ہی نقل کئے گئے ہیں لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتاکہ " طالموت معتبر کتاب ہے" ۔ تلمود کے ایسے بڑے اعتبار کا دعویٰ جیساکہ آپ کرنے کو تیار ہیں آج کل تو کوئی واقف کار یہودی بھی نہیں کرتا۔

ہمیں افسوس ہے کہ مولوی صاحب نے تمام حق کو ظاہر نہیں کیا اس قدر تو درست ہے کہ تلمود میں لکھاہے کہ حضرت ابراہیم دو مرتبہ اسماعیل کے مکان پر فاران کے بیابان میں گئے ۔ لیکن وہاں " فاران کا بیابان " ہی لکھاہے۔ عرب اور مکہ کا ذکر ہی نہیں۔ علاوہ ازیں اس میں یہ بھی لکھاہے کہ حضرت کی دونوں مرتبہ اسماعیل سے ملاقات نہ ہوئی کیونکہ وہ جنگلوں میں تیر اندازی کرتے پھرتے تھے۔ اور لطف یہ ہے کہ وہاں یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت ابراہیم ، اسماعیل کے مکان پر ٹھہرے بھی نہیں بلکہ جس روز وہاں گئے اسی روز الٹے پاؤں واپس لوٹ آئے کیونکہ پہلی مرتبہ اسماعیل کی بیوی نے ان سے بات بھی نہ پوچھی اور دوسری مرتبہ جب اسماعیل اپنی اس بی بی کو طلاق دے کر دوسری کرچکا تھا اس کی بیوی نے ابراہیم کے آگے ماحضر رکھا اورابراہیم اسے کھاکر دعادے کر لوٹ آئے اور اسماعیل سے ملاقات نہ کی۔ جس سے ظاہر ہے کہ حضرت ابراہیم نے حضرت اسماعیل کے گھر کو اپنی قیام گاہ نہ بنایا یاکہ وہ ان کے ساتھ سکونت گزیں ہوتے۔

بخاری میں یہ روایت تلمود سے بجنسہ منقول ہے مگر اس میں یہ اضافہ کردیا گیا ہے کہ ابراہیم تیسری بار پھر بہر ملاقات آئے اور زمزم کے قریب اسماعیل سے ملے اور کعبہ کی بناء ڈالی ۔ مگر تیسری دفعہ آنا تو تلمود میں بھی مرقوم نہیں ہے اوروہ بھی عرب میں آنا ! ہمارے مخاطب کو اختیار ہے کہ وہ تلمود کو اپنا گواہ قرار دیں لیکن وہ آپ کی سی نہیں بولتا ۔

ابراہیم کی قیام گاہ اوربنائے کعبہ

ہم پھر مولوی صاحب کو یا ددلاتے ہیں کہ اگر ابراہیم اور اسماعیل کی باہم ملاقات ہو بھی جاتی توبھی آپ کو دعویٰ پایہ ثبوت کو نہیں پہنچ سکتا۔ کیونکہ ملاقات عرب میں اور پھر مکہ میں ہو ہی نہیں سکتی اورپھر آپ کہتے تویہ ہیں کہ " حضرت ابراہیم جس جگہ کو اپنی قیام گاہ مقرر فرماتے تھے وہاں ایک قربان گاہ بناتے تھے" مگر یہ کیسے ثابت ہواکہ انہوں نے اسماعیل کے گھر کو " اپنی قیام گاہ" بنایا اور رواداری میں تعمیر عمارت کیوں کر ممکن تھی؟ اور اگر قیام گاہ بنا بھی لیتے تو خانہ کعبہ کی بناء اور تعمیر اور تقدیس کیسے ہوسکتی تھی درآنحال یہ(اس کا مطلب یہ) کہ اسماعیل فاران کے بیابان میں تھے اور خانہ کعبہ مکہ میں تھا؟

ہمیں افسوس ہے کہ مسلم مناظرین کو ایسی نا امیدی سے سامنا پڑتاہے۔ کعبہ کی تقدیس کی آرزونے مولوی صاحب کے منہ سے تلمود کے مجموعہ کو " معتبر کتاب" کہلوایا پر اگر ہم اس میں سے اسماعیل کی نسبت چند روایات کا اقتباس کردیں تو مولوی صاحب کا نوں پر ہاتھ رکھیں اور اس مجموعہ کا نام بھی نہ لیں چہ جائیکہ اس کو ایک " معتبر کتاب" قرار دیں کیونکہ بعض اسلامی روایات کی طرح یہ روایات بھی ناگفتہ بہ ہیں۔

حق تو یہ ہے کہ کعبہ ایک قدیم مندر تھا جس کے بتوں کے آگے بت پرست اہل عرب سجدہ کیا کرتے تھے ۔ اہل اسلام نے اس کی تعظیم بڑھانے کے لئے عجیب وغریب روایات ایجاد کرلیں۔ وہاں مقام ِ ابراہیم پیدا کرلیا گیا۔ حجر ِاسود کو آسمان سے جبرائیل کے ہاتھ منگوایا گیا لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ جس پر قرآن شریف شاہد ہے کہ حضرت محمد ایک مد ت تک اس سے متنفر رہے اور انہوں نے بیت المقدس کو اپنا قبلہ بنایا لیکن مصلحت وقت اور آروزئے تالیف ِ قلوب نے تقلیداً کعبہ کو قبلہ اسلام بنا کر اس کی پرانی مگر بے بنیاد تعظیم کو بحال کردیا۔

ختم شد

سلام عماد الدین لاہز

تمام شد