1891-1972
The Venerable Archdeacon
Rev. Barkat Ullah
M.A.F.R.A.S
Fellow of the Royal Asiatic Society London
توضیح العقائد
قسیس معظم آرچ ڈیکن علامہ برکت اللہ
ایم۔اے۔آر۔اے۔ایس
نے یہ کتاب لکھ کر محققین پر ایک زبردست احسان کیا ہے۔
چونکہ مخالفین انجیل نے مسیحی عقائد پر لاتعداد بے معنی اعتراضات کئے ہیں۔
لہٰذا اس کتاب کوپڑھنے سے مخالفین کے اعتراضات اور اوہام کے معقول ومستند جوابا ت حاصل ہوتے ہیں۔۔
یہ کتاب مبشرین ومناظرین اور عوام وخواص کے لئے ایک زبردست ہتھیار ہے۔
دیباچہ
اس رسالہ کے مضامین گزشتہ پانچ سال کے دوران میں مختلف مسیحی رسائل میں (جن کے نام فہرست مضامین میں درج ہیں)شائع ہوچکے ہیں اوراب احباب کی فرمائش پر کتابی صورت میں شائع کئے جاتے ہیں۔میری دعا ہے کہ خدا اس کتاب کو اپنے جلال کےلئے اورکلیسیا کی ترقی کے لئے استعمال کرے۔
برکت اللہ
۱۵ ستمبر ۱۹۵۱ء
انار کلی بٹالہ
’’ میں ایمان رکھتاہوں‘‘
۱۔مسیحیت اور کلیسیائی عقائد نامے
(۱ )
مرحوم مولوی ثنااللہ صاحب یہ خیال کرتے ہیں کہ مسیحیت میں کلیسیائی عقائد ناموں کو وہی بنیادی جگہ حاصل ہے جو اسلا م میں کلمہ لااِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمّد الرَّسُولُ اللّٰہ کو حاصل ہے۔پس وہ عقائد ناموں کےالفاظ پر بحث کرکے یہ ثابت کرنے کی بے سود کوشش کرتے ہیں کہ’’ عقل ان کو غلط جان کر مردود قرار دیتی ہے‘‘(اسلام اور مسیحیت، صفحہ ۶۱)۔ لہٰذا مسیحیت باطل ہے۔
اس مضمون میں ہم مولوی صاحب کے طرز استدلال اور منطقی قضایا)جھگڑے ۔مباحثے ) کو فلسفیانہ محک(کسوٹی) پر نہیں پرکھنا چاہتے ،بلکہ ان کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ مسیحیت میں مختلف عقائد ناموں کو جو مختلف اوقات میں وضع کئے گئے ہیں،کسی قسم کی بنیادی جگہ حاصل نہیں ۔ مسیحیت نہ تو ان کے الفاظ کوالہامی قرار دیتی ہے اور نہ ان کو خطا سے منزہ (پاک ۔مبرا)مانتی ہےاورنہ جمہور کلیسیائے جامع ان پر ایمان رکھتی ہے۔ پس اُن پر بحث کرنا سعی ٔ لاحاصل ہے اوران پر استدلال کی عمارت کھڑی کرنا تضییع اوقات(وقت ضائع کرنا) ہے۔ اگرمولانا ئے امرتسری چاہتے ہیں کہ ان کی بحث فائدہ مند ہو تو ان کو چاہیے کہ انجیل جلیل کے الفاظ کی بنیاد پر اپنا استد لال قائم کریں اورپھر ثابت کریں کہ’’ عقل ان کو مردُود کردیتی ہے‘‘۔ لیکن آپ یہ وطیرہ(وتیرہ :ط سے غلط ہے ) اختیار نہیں کرتے کیونکہ آپ تاقیامت انجیل جلیل کے الفاظ سے انجیلی عقائد کو’’مردُود‘‘ ثابت نہیں کرسکتے۔ فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا وَلَن تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَترجمہ ’’لیکن اگر (ایسا) نہ کر سکو اور ہرگز نہیں کر سکو گے تو اس آگ سے ڈرو جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہوں گے (اور جو) کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے‘‘ (سورہ بقرہ آیت ۲۴)۔
(۲ )
مولوی صاحب کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ تاریخ کلیسیاکے د و ر ان میں بیسیوں عقائدنامے وضع کئے گئے ہیں۔ چنانچہ ہانس کی کتاب میں تقریباً اڑھائی سوعقائدنامے یک جا جمع کئے گئے ہیں۔ ان عقا ئد ناموں میں سے تین عقائد نامے زیادہ مشہور ہیں۔ ان کو بالترتیب عام طورپر’’ رسولوں کا عقیدہ ‘‘،’’نقایاہ کا عقیدہ‘‘ او ر’’ اثناسیس کا عقیدہ‘‘ کہا جاتاہے۔ یہ نام عوام نے مشہور کررکھےہیں ،ورنہ’’ رسولوں کا عقیدہ‘‘جناب مسیح کےمبارک رسولوں نےوضع نہیں کیا تھااورنہ’’نقایاہ کا عقیدہ‘‘نقایاہ کی کونسل نے جو ۳۲۵ء میں منعقد ہوئی تھی، وضع کیا تھا ۔آپ اپنے ہاتھوں اپنی لاعلمی کا پردہ چاک کرتے ہیں۔ جب آپ فرماتے ہیں کہ’’اثناسیس کا عقیدہ کونسل میں منظور کیا گیا‘‘ (صفحہ ۵۷) ۔اثناسیس کا عقیدہ نہ تو مقدس اثناسیس نے وضع کیا اور نہ وہ نقایاہ کی کونسل میں منظور ہوا تھا۔ رسولوں کا عقیدہ جو مغربی کلیسیا کی کتاب الصلوٰاۃ میں ہے منجیٔ عالمین کے مقدس حواریوں کا بنایا ہوا نہیں ہے ،بلکہ وہ ابتدائی صدیوں میں رُومی کلیسیا بُت پرست لوگوں کو بپتسما دینے سے پہلے مسیحی اُصولِ دین کی تعلیم سے واقف کرانے کےلئے استعمال کرتی تھی۔
نقایاہ کا عقیدہ جو مغربی کلیسیا کی کتاب الصلوٰۃ میں پایا جاتاہے، نقایاہ کی کونسل منعقدہ ۳۲۵ء میں منظور نہیں ہوا تھا۔ بلکہ قسطنطنیہ کی کونسل نے ۳۸۱ ء میں منظور کیا تھا اور خلقیدون (Chalcedon) کی کونسل نے ۴۵۱ ء میں اس کو ازسر نومنظور کیا تھا۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ یہ عقیدہ ابتدائی صدیوں میں یروشلیم کی کلیسیا میں نومریدوں کو بپتسما سے پہلے مسیحی اُصول کی تعلیم دینے کےلئے استعمال کیا جاتا تھا۔ یہ عقیدہ غالباً چوتھی صدی میں وضع کیا گیا تھا اورابھی تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ اس نے ۳۸۱ء میں اُس عقیدے کی جگہ کس طرح لے لی جو ۳۲۵ء میں نقایاہ کی کونسل میں منظور کیا گیا تھا ۔’’اثناسیس کا عقیدہ‘‘ جو مغربی کلیسیا کی کتاب الصلوٰۃ میں ہے ،مقدس اثناسیس کے ساتھ کسی قسم کا تعلق نہیں رکھتا ۔ کیونکہ یہ بزرگ مشرقی کلیسیا کے تھے اور یونانی زبان میں لکھا کرتے تھے ،لیکن عقیدہ جو اُن کے نام سے مشہور ہے ، مغربی کلیسیا کی درحقیقت ایک نظم ہے جو کسی شاعر نے لاطینی زبان میں لکھی ہےاور پانچویں صدی کے اوائل کی ہے۔اس کا پایہ مرحوم حالی کے مسدس کا سا ہے۔ اسی طرح کی ایک اَور نظم کتاب الصلوٰۃ میں صبح کی نماز کے عنوان کے تحت ہے ،جس کو’’الحمد‘‘ (Te Deum) کہتے ہیں ۔’’مقدس اثناسیس کا عقیدہ‘‘درحقیقت ایک گیت ہے، جس کو اس عقائد نامے کے شروع کی ہدایت کے بموجب مغربی کلیسیا خاص عیدوں اور تہواروں کے موقع پر’’الحمد‘‘ کی طرح عبادت کے دوران میں گایا کرتی تھی۔آٹھویں صدی میں اس گیت کو مقدس اثناسیس کی طرف منسوب کیا گیا ۔لیکن اس کااصلی نام ’’Quicunque‘‘ ہے جواس کا پہلا لاطینی لفظ ہے۔ یہ گیت مشرقی کلیسیاکی کتاب الصلوٰۃ کا حصہ نہیں ہے۔
پس گویہ عقائدنامے مغربی کلیسیا کی کتاب الصلوٰۃ میں پائے جاتے ہیں اوران کلیسیاؤں میں خاص اوقات پر پڑھے اورگائے جاتے ہیں، لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ مشرق ومغرب کی جمہور کلیسیائے جامع ان کے الفاظ کو ایسا بنیادی تصور کرتی ہے کہ وہ مسیحیت کی جان اور روح رواں خیال کئے جائیں۔کیاکسی شاعر کی نظم کے الفاظ(خواہ وہ کیسا ہی متقی اور فاضل کیوں نہ ہو)کو اس قابل خیال کیا جاسکتاہے کہ ان پر منطقیانہ استدلال قائم کیا جائے؟ خود مولوی ثناء اللہ صاحب آئے دن مسلمان شعراء کی مذہبی نظموں پر اخبار اہل حدیث میں لے دے کرتے رہتے ہیں۔ کیونکہ ان شعراکے الفاظ ان کے زعم(گمان ۔ظن) میں اسلامی حدود سے تجاوز کرجاتے ہیں۔ پھر نامعلوم وہ’’اثناسیس کے عقیدہ‘‘کی نظم کے الفاظ کو کس منطق کی روسے فلسفیانہ استد لال کی بناقائم کرکے اپنی کتاب کے صفحے کا لے کر گئے ہیں۔ ع جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ سازکرے
حق تو یہ ہے کہ مسیحی سوائے کلمتہ اللہ کے کلماتِ طیبات کے جواناجیل اربعہ میں پائے جاتے ہیں ،کسی شے کو خطا سے مبرا نہیں مانتے۔ پس وہ نہ توکلیسیا کو اور نہ کلیسیائی عقائد ناموں کو خطا سے بری مان سکتے ہیں۔ تاوقتیکہ یہ ثابت نہ کیا جائے کہ وہ الفاظ منجیٔ عالمین کے مقدس اقوال سے ثابت ہوسکتے ہیں۔ مغربی کلیسیا کی کتاب الصلوٰۃ تک میں یہ بات غیر مبہم الفاظ میں واضح بھی کردی گئی ہے(مسائل دین ،نمبر ۸)۔لیکن امرتسر کے مولوی فاضل صاحب کو تحقیق حق سے غرض ہوتی تو وہ ان باتوں کو معلوم کرنے کی زحمت گوارا کرتے ۔ اُن کو کیا معلوم کہ تمام مشرقی کلیسیا کی کتاب صرف اثناسیس کے عقیدہ کی قائل نہیں ،بلکہ وہ نقایاہ کے عقیدہ کو بھی اس صورت میں نہیں مانتی جو مغربی کلیسیا کی کتاب الصلوٰۃ میں درج ہے۔ کیونکہ اس کے خیال میں اس کے بعض الفاظ جناب مسیح کے کلماتِ طیبات سے ثابت نہیں ہوتے۔مولوی صاحب کو تویہ بھی پتانہیں کہ مسیحیت کے دائرہ میں بیسیوں کلیسیائیں ایسی ہیں جو ان عقائد ناموں کے نام تک سے ناآشنا ہیں۔
(۳ )
معترض یہ سوال کرسکتاہے کہ ان عقائد ناموں کا وجود کیسے ہوا؟ جواباً عرض ہے کہ کلیسیا کو ان عقائدناموں کے وضع کرنے کی ضرورت تب لاحق ہوئی جب کلیسیا میں مختلف ممالک کے علما اورمختلف اقوام کے فضلا اور فلاسفر ایک بڑی تعداد میں شامل ہوئے۔ قدرتی طورپر اُنہوں نے اپنے اپنے علم اور فلسفہ کے خیالات کے مطابق انجیل جلیل کے اصول کو سمجھنا چاہا اور بعض شخصوں نے مسیحیت کے سمجھنے میں غلطی کی اوراس کج فہمی کی بدولت کلیسیا میں بدعتیں نمودار ہوگئیں۔ پس کلیسیائے جامع نے مختلف زمانوں میں کونسلوں کے ذریعہ ان بدعتیوں کے عقائد کو درست کیا اورلوگوں کو صحیح عقیدہ بتایا، جو اُن کے خیال میں جناب مسیح اورانجیل جلیل کے الفاظ پر مبنی تھا۔
جب کوئی نئی بدعت ظہور پذیر ہوئی کلیسیائے جامع نے اس بدعت کا اُس زمانہ کے علم اور فلسفیانہ اصلاحات کے ذریعہ ایک عقائد نامہ وضع کرکے اس بدعت کا سدِباب کردیا۔ مثلاً جب ناستک بدعت پیداہوئی تو عقائد نامہ میں الفاظ’’ میں ایمان رکھتاہوں ایک خدا قادر مطلق باپ پر جوآسمان وزمین اورسب مرئی اور غیر مرئی چیزوں کا صانع ہے‘‘ ایزاد(ایزاد غلط العوام ہے۔صحیح ازدیاد بمعنی زیادہ ہونا) کئے گئے۔ جب ایریس کی بدعت رونما ہوئی تو الفاظ’’ کل زمانوں سے پیشتر مولود، خدا سے خدا، نور سے نور ، خدائے برحق سے خدائے برحق ، مصنوع نہیں بلکہ مولود ۔ اُس کا اور باپ کا ایک ہی جوہر ہے‘‘، وضع کئے گئے۔ علیٰ ہذا القیاس (اسی قیاس پر)عقائد نامے مختلف بدعتوں کے ساتھ جنگ کرنے کےلئے وضع کئے گئے تھے اور وہ اِن جنگوں کی تاریخی یادگاریں ہیں اور بس۔ یہی وجہ ہے کہ یہ عقائد نامے نہ توجامع ہیں اور نہ مانع ہیں، یعنی ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان عقائد ناموں میں وہ تمام باتیں موجود ہیں جومسیحی ایمان کے لئے لازمی اورلابُدی ( ضروری) ہیں اورکوئی ایسی بات ان میں سے نہیں رہ گئی جونجات کےلئے ضروری ہو اور جس کا ان میں ذکر نہ ہو۔ان عقائد ناموں کا واحد مقصد صرف ان چند بدعتوں کا سدِ باب کرنا تھا،جنہوں نے پہلی تین صدیوں میں کلیسیا میں سرنکالا تھا۔
(۴ )
چونکہ ان عقائد ناموں کا مقصد بدعتی فلسفیانہ خیالات کا سدِ باب کرنا تھا۔ لہٰذا اُس زمانہ کی کلیسیائے جامع نے انجیل جلیل کے الفاظ کی روشنی میں اُس وقت کے علم اور فلسفہ کی اصطلاحات کے ذریعہ ان بدعتوں کے فلسفیانہ اور سو فسطائی خیالات کی بطالت کو تشت ازبام( ظاہر۔رسوا )کیا۔ لیکن ہر صاحبِ عقل پر یہ حقیقت روشن ہے کہ ہر زندہ زبان بدلتی رہتی ہے اور فلسفیانہ اصطلاحات کا مفہوم صدیوں بعد وہ نہیں رہتا جوکسی زمانہ میں ان اصطلاحات سے متعلق تھا۔ یہی حال ان عقائد ناموں کی فلسفیانہ اصطلاحات کے مفہوم کا ہے ۔ ان عقائد ناموں کی فلسفیانہ اصطلاحات بیسیویں صدی میں وہ معنی نہیں رکھتیں جوپہلی تین صدیوں میں ان سے اخذ کیا جاتا تھا۔بلکہ بعض اصطلاحات تو ایسی ہیں جن کے مطلب سے موجودہ زمانہ کے ہندوستانی مخالفینِ مسیحیت بے بہرہ ہیں۔ چہ جائیکہ عامتہ الناس ان کے صحیح معنوں سے واقف ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ جمہور کلیسیائے جامع ہر زمانہ میں ان خاص اصطلاحات سے استد لال نہیں کرتی رہی۔ بلکہ صرف جناب مسیح کے الفاظ کو ہی تمام زمانوں کےلئے قابلِ استناد سمجھتی رہی،مثلاً الفاظ ’’جوہر‘‘ ،’’ذات‘‘ ،’’اقنوم‘‘ ،’’شخصیت‘‘ وغیرہ جب خدا کی طرف منسوب کئے جاتے ہیں ۔ان اصطلاحات کے مطالب جوچوتھی صدی کے فلسفہ میں مروج تھے۔ وہ ان کے اُس مفہوم سے بالکل مختلف ہیں جوان الفاظ سے بیسویں صدی میں سمجھا جاتاہے۔چنانچہ مرحوم ولیم ٹمپل آرچ بشپ آف کنٹربری فرماتے ہیں:
’’بیسویں صدی کے لوگوں کو ان اصطلاحات کے سمجھنے میں دقت پیش آتی ہے۔ کیونکہ چوتھی صدی کے خیالات بیسویں صدی کے خیالات سے کلیتہً مختلف ہیں، مثلاً انگریزی لفظ (Person) کا وہ مفہوم نہیں جواس کے لاطینی اصل (Persona) کا ہے اور یونانی لفظ(Hypostasis) کا مفہوم اس انگریزی لفظ سے کلیتہً مختلف ہے ۔اگرہم ان دونوں لفظوں کو ہم معنی خیال کریں گے تو سخت گمراہی کے گڑھے میں گریں گے۔۔۔ بظاہر یہ یونانی لفظ لاطینی لفظ(Substantia) کا مترادف ہے ۔ جس کا ترجمہ غلطی سے (Substance) کیا جاتاہے ۔۔۔حق تویہ ہے کہ بیسویں صدی کے لوگ اس شے کو مانتے ہی نہیں جس کو (Hypostasis) کا لفظ ادا کرتا تھا۔ ان اصطلاحات کی بحث کو ان لوگوں کےلئے چھوڑدینا چاہیے جو آثارِ قدیمہ اور باقیاتِ سلف میں دل چپسی رکھتے ہیں ‘‘۔
حق تویہ ہے کہ کسی علم اور فلسفہ کی اصطلاح کلمتہ اللہ کے مبارک الفاظ کے مفہوم کی رفعت اور وسعت کو کماحقہ بیان نہیں کرسکتی، کیونکہ وہ بیان سے بالاتر اوربرتر ہے۔چنانچہ انطاکیہ کی کونسل میں (۲۶۸ء میں) الفاظ’’اس کا اورباپ کا ایک ہی جوہر ہے‘‘ قابلِ مواخذہ اورموردِ الزام سمجھے گئے تھے۔ ابتدائی کلیسیا کے اساقف اور بزرگ مسیحی حقائق کو ایسے الفاظ اور اصطلاحات میں پیش کرنے کے خلاف تھے جوانجیل کے الفاظ نہیں تھے۔ کیونکہ انجیل جلیل کے الفاظ تمام زمانوں کےلئے مستند ہیں۔ لیکن علمی اور فلسفیانہ اصطلاحات صرف ایک خاص زمانہ کے لئے ہی مفید رہبر(راہ بر) ثابت ہوسکتی ہیں اورانسانی زبان ابدی حقیقتوں کوظاہر کرنے میں قاصر رہتی ہے۔ اس بات کو عقائد ناموں کے حامی خود مانتے تھے۔ اگرچہ اُنہوں نے ان عقائد کے الفاظ کی خاطر سربکف ہوکربے شمار اذیتوں کو برداشت کیا ۔مثلاً مقدس ہلیری(St. Hilary of Peitiers) جو ۳۵۰ء میں اسقف کے عہدہ پر ممتاز ہوئے فرماتے ہیں :
’’ایمان دار لوگ خدا کےکلام کو کافی خیال کرتے ہیں ۔ جس میں یہ حکم ہے کہ جاؤ اور تمام قوموں کو باپ ، بیٹے اور روح القدس کے نام سے بپتسما دو۔ لیکن ہمارے بدعتی مخالفین کا ناجائز رویہ ہم کو مجبور کرتاہے کہ ہم ایسی اونچائیاں چڑھیں، جورسائی سے باہر ہیں او ر اُن باتوں کو الفاظ کی صورت میں پیش کریں جو الفاظ میں بیان نہیں کی جاسکتیں او ر اس قسم کی جسارت کی جرات کریں ۔حق تویہ ہے کہ ہم پر صرف یہ واجب ہے کہ ہم ایمان ہی کے وسیلے سے باپ کی پرستش کریں،بیٹے کی عزت کریں او ر ر وح سے معمور ہوجائیں ۔ لیکن اب یہ بدعتی علماہم کو مجبور کرتے ہیں کہ ہم انسانی لغت جیسی بے بس شے کے ذریعہ ایسی باتوں کا ذکر کریں جو اس کی حد سے باہر ہیں اورایسے اُمور کوجن کا تعلق مذہبی مراقبہ کے ساتھ ہے (فلسفیانہ )الفاظ کے خطرہ اورجوکھم میں ڈالیں ‘‘۔
موجودہ زمانہ کے مسیحی متکلمین یہ کوشش کرتے ہیں کہ ان قدیم اصطلاحات کے مفہوم کو دورِ حاضرہ کے خیالات اور فلسفہ کی اصطلاحات اور الفاظ میں پیش کریں،تاکہ ہمارے غیر مسیحی برادران ان ابدی سچائیوں کو سمجھ سکیں جوان قدیم وجدید اصطلاحات میں مضمر ہیں۔ وہ ابتدائی مسیحی صدیوں کے خیالات اورفلسفہ سے نابلد ہیں۔لہٰذاان کوچاہیے کہ وہ اپنے اعتراضات کو عقائد ناموں کے قدیم فلسفیانہ الفاظ پر قائم نہ کیا کریں، بلکہ ان پر واجب ہے کہ ان اصطلاحات کے سرچشمے یعنی انجیل جلیل کی آیات پر اپنے اعتراضات کو قائم کیا کریں۔ کیونکہ صرف جناب مسیح کےکلماتِ طیبات ہی ہر مسیحی کےلئے حجت (دلیل۔برہان)ہیں جن کے سامنے ہر مسیحی کا سرتسلیم خم ہے۔
’’یسوع مسیح پر جو خدا کا اکلوتا بیٹا اورہمارا خداوند ہے وہ روح القدس کی قدرت سے پیٹ میں پڑا۔ کنواری مریم سے پیدا ہوا‘‘
۲۔خداوندمسیح کی پیدائش کی خصوصیت
(۱)
مسیحیت کا ابتداہی سے یہ عقیدہ ہے کہ جناب مسیح خدا کا بے عدیل مظہر اور ’’دنیاکا منجی‘‘ہے ۔ مسیحیت نے اپنی تاریخ کےکسی زمانہ میں بھی آں خداوند کو دیگر انبیا، اولیا،مصلحین یامرسلین کی قطار میں شمار نہ کیا۔ اُس کےکبھی وہم وگمان میں بھی نہ آیا کہ کلمتہ اللہ کو محض ایک رسول قرار دے، جس کی زندگی دیگر انبیا کی زندگیوں سے بہتر تھی اورجو انسانی کمزوریوں میں دیگر انسانوں سے کم مبتلا تھا۔ جس کا کام دیگر اقوام کے انبیا اورمصلحین کی طرح یہودی قوم اور مذہب کی محض اصلاح کرنا تھا۔ چنانچہ مورخ لیکی (Lecky) کہتاہے:
’’مسیحیت نے عصبیت(طاقت۔مضبوطی) کے زور سے اپنے نظام کو جس قدر مضبوط اورمستحکم بنالیا تھا۔ یہ بات کسی اَورمذہب کو نصیب نہ تھی۔مسیحیت کےسےانضباط(نظم وضبط۔ضابطہ) وعصبیت سے اس کے حریف یکسر معرا تھے۔ اُس نے آتے ہی صاف صاف کہہ دیاکہ اس کے سوادنیاکے تمام مذاہب باطل ہیں۔ نجات صرف اس کے پیروؤں کےلئے ہے او ربدنصیب ہیں وہ جو اس کے حلقہ سے باہر ہیں‘‘۔
انجیل جلیل میں کہیں اس بات کا اشار ہ تک نہیں پایا جاتا کہ تمام مذاہب یکساں ہیں اورکہ مسیحیت دیگر مذاہب میں سے ایک مذہب ہے ،جس کا بانی دیگر مذاہب کے بانیوں میں سے ایک ہے۔ اس کے برعکس انجیل کا ایک ایک صفحہ اس بات کا گواہ ہے کہ مسیحیت اور دیگر مذاہب کے درمیان بعدالمشرقین کا فرق ہے۔
(۲)
انجیل جلیل کا پہلا ورق ہی ہم کو بتاتاہے کہ جناب مسیح کی پیدائش اور دیگر مذاہبِ عالم کے بانیو ں کی پیدائش میں فرق ہے۔ جب سے انسان خلق کیا گیا، اُس وقت سے لے کر دورِ حاضرہ تک کوئی شخص خواہ وہ کتنا ہی عظیم الشان ہوا ہو ،جناب مسیح کی طرح باکرہ کےبطن اطہر سے’’خدا تعالیٰ کی قدرت‘‘سے پیدا نہیں ہوا(متی ۱: ۲۰؛ لوقا ۱: ۳۴تا ۳۵)اورتاقیامت پیدا نہ ہوگا۔ اس قسم کی پیدائش صرف کلمتہ اللہ کی ذات سے ہی مخصوص ہے اور یہ خصوصیت ایسی ہے جس کو موالف ومخالف دونوں تسلیم کرتے ہیں ۔چنانچہ قرآن مجیدنہایت شدومد کے ساتھ اس حقیقت کا اقرار کرتاہے (سورہ آل عمران آیات ۴۰تا ۴۲؛ سورہ مائدہ ا ٓیت ۱۰۹؛سورہ مریم ۱۶تا ۳۲وغیرہ)۔ قرآن خوارقِ عادت(خلاف عادت) پیدائش کی وجہ سے مسیح کوکلمتہ اللہ اورروح اللہ کہتاہے اوریہ ایک ایسی بات ہے جوقرآن کے مطابق خاص مسیح کی ذات سے ہی متعلق ہے اورکسی دوسرے شخص پر اس لفظ کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ شیخ الاسلام ابن قیم جوزی ’’خدا کی طرف روح کی اضافت‘‘ پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ اب دوامرباقی رہ گئے۔ اوّل یہ کہ اگرکوئی شخص یہ کہے کہ اگر فرشتہ نے مریم میں نفخ کیا تھا، جس طرح دیگر انسانوں میں نفخ کرتاہے تومسیح کو روح اللہ کیوں کہا گیا۔ جب تمام ارواح اسی فرشتہ کے نفخ سے حادث ہوتی ہیں تو مسیح کی اس میں کیا خصوصیت رہی؟دوم یہ کہ کیا حضرت آدم میں بھی اسی فرشتہ نے روح پھونکی تھی یاخود خدا نے جس طرح آدم کو اپنے ہاتھوں سے بنایا تھا، اُسی طرح اُس میں روح بھی پھونکی تھی؟حقیقت میں یہ دونوں سوال قابلِ غور ہیں۔ امراوّل کا جواب یہ ہے کہ’’ جس روح کو مریم کی طرف نفخ کیاگیا، یہ وہی روح ہے جوخدا کی طرف مضاف(منسوب۔پیوستہ) ہےاورجس کوخدا نے اپنے نفس کے لئے مخصوص کیاہےاور یہ تمام ارواح میں ایک خاص روح ہے۔ یہ روح وہ فرشتہ نہیں ہے جو خدا کی طرف سے ماں کے پیٹ میں مومن اورکافر کے بچوں میں روح پھونکتاہے ۔ بلکہ یہ روح جومریم میں نفخ کی گئی، وہ خاص روح ہے جس کو خدا نے اپنی ذات کےلئے مخصوص کیاہے‘‘(کتاب الروح ،مطبوعہ دائرہ المعارف ،صفحہ ۲۲۷)۔
کُلاہِ خُسروی وتاجِ شاہی
بہر کس کے رسد حاشا وکلا
پس کلمتہ اللہ کی بے نظیرپیدائش آپ کی ہی خصوصیت ہے اور یہ روئے زمین کے کسی دوسرے انسان کو نصیب نہیں۔رینان جیسا آزاد خیال اور عقل پرست یہ کہنے پر مجبور ہوجاتاہے کہ:
’’ مسیح کی ذات نوعِ انسانی کی حقیقی فلاح کی مضبوط پُشت وپنا ہ ہے۔اگر اس دنیا سےمسیح کا نام مٹ جائے تودنیا کی بنیادیں کھوکھلی ہوجائیں گی۔وہ ایسی بے نظیرہستی ہے جس کے ہاتھ میں دنیا کی باگ ڈور ہے او رجس کے ذریعہ انسان خدا کے پاس پہنچ سکتاہے ۔ نوعِ انسانی کےلئے اس کی زندگی ایک زبردست نمونہ ہے۔ اگر وہ ہمارے سینوں میں مسکن گزین نہیں ہوتا توہم کو حقیقی ر است بازی او رپاکیزگی حاصل نہیں ہوسکتی‘‘۔
کلمتہ اللہ کی شخصیت ہی ایک ایسی واحد شخصیت ہے جس کی تعلیم اور نمونہ کوہر زمانہ، ملک اور قوم کے کروڑوں افراد اپنا نصب العین بنائے ہوئے ہیں ۔مشرق اور مغرب ،شمال اور جنوب سب کا سرآپ کی ذات کے سامنے جھکا ہواہے۔ جناب مسیح اکیلا واحد مشرقی شخص ہے ،جس کے سامنے اہل مغرب اوراہل مشرق سب کے سب سربسجود ہیں۔ ابن اللہ کی ذات کامل ہے۔آپ کی صفات جامع ہیں اورآپ کا نمونہ کل بنی نوع انسان کےلئے کامل اور اکمل ہے۔ بقول مولانا رُوم :
دربشر رُوپوش کردہ است آفتاب
صورتش برخاک وجاں برلامکان
فہم کُن اللہ اعلم بالصواب
لامکانے فوق وہم سالکاں
۳ ۔کنواری مریم سے پیدا ہوا
(۱)
مقدس لوقا انجیل نویس فرماتے ہیں کہ جوباتیں آپ نے اپنی انجیل میں لکھی ہیں’’ اُن سب کا سلسلہ شروع سے ٹھیک ٹھیک دریافت کر کے‘‘ ترتیب وار اُن کو تحریر کیا ہے۔ پس آپ نے جناب مسیح کی معجزانہ پیدائش کا واقعہ جوانجیل مرقس میں نہ تھا’’ ٹھیک ٹھیک دریافت کر کے‘‘ لکھاہے۔آپ کے دیباچے کے الفاظ اس بات کی گارنٹی ہیں کہ آپ گواہوں کی شہادت کی چھان بین اور جانچ پڑتال کرنے کی اہلیت رکھتے تھے۔ آپ کے نزدیک ہر شے کی تہ کو پہنچنا بڑی اہمیت رکھتا تھا۔آپ یہ نہایت ضروری امر سمجھتے تھےکہ ہر امر شروع سے دریافت کیا جائے اوراُس کی صحت معلوم کی جائے تاکہ کسی قسم کے شبہ وشک کی گنجائش نہ رہے۔
علما اس بات پر متفق ہیں کہ مقدس لوقا کی انجیل کے پہلے دوابواب کی زبان اور طرزتحریر سے ثابت ہے کہ اُن کا سرچشمہ ایک عبرانی تحریر تھی۔ ان ابواب کی زبان اوردیگر ابواب کی زبان میں بین فرق ہے ۔دیباچے کی چار آیات اعلیٰ قسم کی یونانی میں لکھی ہیں۔ لیکن ان آیات کے بعد کی زبان یونانی ماخذ عبرانی کا ترجمہ ہے۔ یہ بات اردو ترجمے تک میں ظاہر ہے۔ پہلی چارآیات ایک ہی طویل مرکب جملے پرمشتمل ہیں، لیکن پانچویں آیت سے سادہ عبرانی بیان شروع ہوجاتاہے ۔جس میں چھوٹے چھوٹے اورمختصر فقرے ہیں ،جو حرف عطف’’ اور‘‘ سے پیوستہ ہیں۔ یہ طرز تحریر مقدس لوقا کا نہیں ہے، بلکہ اس سے معلوم ہوتاہے کہ انجیل نویس مذکور کسی عبرانی ماخذ کا یونانی زبان میں ترجمہ کررہے ہیں ۔ اس سے ثابت ہوتاہے کہ فرشتے کا مقدس بی بی مریم بتولہ کو’’ بشارت‘‘ دینے کا واقعہ انجیل لوقا کی تالیف سے بہت پہلے عبرانی زبان میں بہ شکل تحریر کلیسیا میں موجود اورمروج تھا۔ ہم اس تحریری ماخذ کے احاطہ ٔتحریر میں آنے کا ٹھیک وقت یقینی طورپر متعین نہیں کرسکتے۔ ہاں ہم یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ ان دوابتدائی ابواب کے نفس مضمون کا مطالعہ یہ ظاہر کردیتاہے کہ یہ بیانات اپنی موجودہ شکل میں منجیٔ جہان کے مصلوب ہونے کے بعد نہیں لکھے جاسکتے تھے۔کیونکہ ان ابواب میں اسرائیل کے بحال ہونےاور خدا کے وعدوں کے پورا ہونے کا جن الفاظ میں ذکر کیا گیا ہے، وہ اُس صورت میں پورے نہیں ہوئے تھے جس کی یہود کو تمنا تھی۔ ان تمناؤں اوراُمیدوں پر کلمتہ اللہ کی تعلیم اور رویے سے پانی پھر گیا اورانہیں وجوہ کے باعث صلیب کا واقعہ رونما ہوا۔ اگریہ بات واقعہ صلیب کے بعد لکھی جاتی توہم کوان ابواب میں یہودی تمناؤں،امنگوں اور آرزوؤں کی خوشی کی جھلک نہ ملتی، جواب ان ابواب میں جھلکتی نظر آتی ہے۔
(۲)
ان ابواب کے سرسری مطالعہ سے ظاہر ہے کہ منجیٔ عالمین کی پیدائش کا واقعہ مقدسہ مریم کے نقطہ نگاہ سے لکھا گیاہے۔ صدیقہ کے علاوہ کوئی دوسرا شخص اس کا بتانے والا نہیں ہوسکتا ۔ پہلے پہلے حضرت بی بی صاحبہ نے ’’ یہ سب باتیں اپنے دل میں رکھیں‘‘(لوقا۲: ۵۱)، لیکن معلوم ہوتاہے کہ منجیٔ جہان کی صلیبی موت کے جاں کاہ(تکلیف دہ) واقعہ نے صدیقہ کی ’’ جان کو ایسا چھیدا‘‘ (لوقا۲: ۳۵) کہ وہ جانبر(جاں بر:محفوظ،صحیح سلامت) نہ ہوسکیں اور تھوڑے عرصے کے بعد اس دارِ فانی سے کوچ کرگئیں۔ کیونکہ روح القدس کے نزول کے بعد آپ کے مبارک نام کا انجیلی مجموعہ میں ذکر نہیں آتا ۔ اپنی حین حیات میں مقدسہ’’ ان سب باتوں کو اپنے دل میں رکھ ان پر غور کیا کرتی تھیں‘‘(لوقا۲: ۱۹) ۔ان معنی خیزواقعات کی اہمیت کو پیش نظر رکھ کر آپ نے آں خداوند کی وفات سے پہلے ان کا ذکر اُن عورتوں سے کیاہوگا جوآپ کی ہم راز اورآپ کے بیٹے کی غم گسار تھیں(لوقا ۱: ۳۹؛ ۸: ۳؛ اعمال ۱: ۱۵ وغیرہ) ۔یوں یہ راز احاطہ تحریر میں آگیا ہوگا تاکہ روح القدس کی زیر ہدایت کلیسیا ان اہم واقعات کے گہرے مفہوم کو سمجھ سکے۔
(۳)
مقدس متی رسول نے بھی اپنی انجیل کے آغاز میں منجیٔ عالمین کی اعجازی پیدائش کا واقعہ بیان کیاہے۔ دونوں انجیل نویس اس بات پر متفق ہیں کہ آں خداوند کی پیدائش ایک پاک کنواری کے بطن سے ہوئی ۔ ان دونوں کے بیان میں تفاوت اور فرق ہے ،لیکن تضاد نہیں۔ یہ تفاوت قدرتی ہے، کیونکہ مقدس لوقا مقدسہ مریم صدیقہ کے نقطہ نگاہ کو پیش کرتے ہیں۔ لیکن مقدس متی کے بیان کا سطحی مطالعہ یہ ظاہر کردیتاہے کہ وہ حضرت یوسف کے نقطہ نگاہ سے لکھا گیا ہے اور اس دنیا میں صرف یہی دوشخص ہوسکتے تھے جن کو آں خداوند کی اعجازی پیدائش کا حقیقی علم ہو سکتا تھا۔ انجیل اوّل میں حضرت یوسف کا بیان ہے ۔ حضرت کی پریشانی اور تذبذب کی حالت اور طلاق دینے وغیرہ کا خیال ،یہ سب ظاہر کرتے ہیں کہ یہ حیران کن اُمور حضرت یوسف کے ذہن میں تھے۔قرائن(قرینہ کی جمع۔قیاس۔اندازہ)سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت یوسف آں خداوند کی جوانی کے ایام میں وفات پاچکے تھے۔ پس آپ نے وفات سے پہلے کسی راز داردوست کو بتایا ہوگا جس سے یہ حال مقدس متی نے حاصل کیا۔
(۴)
جب ہم مقدس لوقا اورمقدس متی کے بیانات پر بنظر تعمیق نگاہ کرتے ہیں توہم دیکھتے ہیں کہ مقدس لوقا کے بیان کا مقدس متی کے بیان پر کسی قسم کا اثر نہیں اور نہ انجیل اوّل کا بیان انجیل سوم کے بیان پر اثر انداز ہے۔ دونوں بیانات ایک دوسرے سے غیر متعلق ہیں۔ دونوں کی حیثیت اُن گواہوں کی سی ہے جو آزاد ہیں اورجنہوں نے مل کر کوئی افسانہ یا من گھڑت بات نہیں بنائی۔ پس دونو ں کی متفقہ شہادت آں خداوند کی معجزانہ پیدائش کی نہایت مضبوط اور زبردست دلیل ہے۔
(۵)
مقدس مرقس کی انجیل میں منجیٔ عالمین کی پیدائش کا ذکر نہیں پایا جاتا،لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپ آں خداوند کی اعجازی پیدائش کے قائل نہ تھے۔ انجیل مرقس کے لکھنے کا مقصد’’ سب باتوں کا سلسلہ شروع سے‘‘مرتب کرنا نہ تھا، بلکہ مقدس مرقس کا مقصد یہ تھا کہ مسیحی نومریدوں کے ہاتھوں میں ایک ایسی مختصر کتاب ہوجس میں حضرت کلمتہ اللہ کے چند معجزات اوربالخصوص منجیٔ عالمین کی زندگی کے آخری ہفتے کا تفصیلی ذکر ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آپ آں خداوند کی سہ سالہ خدمت کا ذکر بیس صفحوں میں کرتے ہیں۔ لیکن آخری ہفتے کا ذکر سولہ صفحوں میں ایسی باریک تفصیل سے کرتے ہیں کہ وہ ڈائری یاروزنامچہ معلوم ہوتاہے ۔ اسی لئے بعض علما کہتے ہیں کہ یہ انجیل درحقیقت صلیبی واقعہ کا بیان ہے، جس میں پہلے بیس صفحوں کا ایک طویل دیباچہ ہے۔
چونکہ اس انجیل کا شروع آں خداوند کے بپتسما سے ہوتاہے،لہٰذااس میں آپ کی پیدائش کا ذکر نہیں پایا جاتا۔ پس مرقس کی انجیل کی خاموشی سے ہم یہ نتیجہ اخذ نہیں کرسکتے کہ انجیل نویس کو منجیٔ جہان کی اعجازی پیدائش کا علم نہ تھا یا وہ اُس کے قائل نہ تھے۔ اس کے برعکس یہ ایک معنی خیز نکتہ ہے کہ جہاں مقدس متی لکھتے ہیں’’ کیا یہ بڑھئی کا بیٹا نہیں؟‘‘(متی۱۳: ۵۵) ،وہاں مقدس مرقس حضرت یوسف کی طرف اپنی تمام انجیل میں اشارہ تک نہیں کرتے اور اس مقام پر لکھتے ہیں’’ کیا یہ وہی بڑھئی نہیں جو مریم کا بیٹا ہے؟ ‘‘(مرقس۶: ۳)۔
(۶)
مقدس یوحنا کی انجیل مقدس متی رسول کی انجیل کے بعد لکھی گئی۔ جب ہم انجیل چہارم کا پہلی تین اناجیل سے مقابلہ کرتے ہیں توہم دیکھتے ہیں کہ مقدس یوحنا بعض جگہ ان کی ترتیب کی اصلاح کرتے ہیں۔ مثلاً مرقس ۱۴: ۱۲؛ متی ۲۶: ۱۷؛ لوقا ۲۲: ۷ کی ترتیب کی اصلاح اپنی انجیل کے ذریعے کرتے ہیں(یوحنا۱۳: ۱)۔ اگر مقدس یوحناانجیل اول یا انجیل سوم کے بیان یا دونوں بیانوں کو غلط خیال فرماتے تو ضرور آپ اس بیان کی بھی اصلاح کرتے۔لہٰذاآپ کی معنی خیز خاموشی ان بیانات پر مہر تصدیق ثبت کرتی ہے اوراُس سے ثابت ہوتاہے کہ آپ آں خداوند کی مافوق العادت پیدائش کے یقیناً قائل تھے۔ ع خموشی معنیٔ دارد کہ درگفتن نمی آید۔
اس سلسلے میں ایک اَور نکتہ بھی قابل غور ہے۔ انجیل چہارم کا مقصد مسئلہ تجسم کو ثابت کرنا تھا اورآں خداوند کی معجزانہ پیدائش اس اہم اور وسیع موضوع کی ایک شاخ تھی۔ جولوگ آں خداوند کے تجسم کے قائل تھے ،وہ آپ کی مافوق الفطرت پیدائش کے بھی قائل تھے اورتجسم کے منکر معجزانہ پیدائش کے بھی منکر تھے۔ پس جب انجیل نویس فرماتاہے کہ ’’ کلام مجسم ہوا اور فضل اور سچائی سے معمور ہوکر ہمارے درمیان رہا اورہم نے اُس کا ایسا جلال دیکھا جیسا باپ کے اکلوتے کا جلال‘‘(یوحنا۱۴:۱) توظاہر ہے کہ تجسم کے اقرار میں اعجازی پیدائش کا اقرار بھی شامل ہے۔کیونکہ یہ دونو ں لازم وملزوم سمجھے جاتے تھے۔
مقدس یوحنا اپنی انجیل کے دیباچہ میں فرماتے ہیں’’ وہ نہ خون سے، نہ جسم کی خواہش سے ، نہ انسان کے ارادہ سے بلکہ خدا سے پیدا ہوئے‘‘(یوحنا۱: ۱۳)۔ اس آیت کی ایک اور قرأت ہے ،جس کو یوسطین شہید(Justin Martyr)، بشپ ایرینیس(Irenaeus)، طرطلیان(Tertullian) اور ھپالیت(Hippolytus) استعمال کرتے ہیں اورجس میں فعل بجائے جمع ہونے کے واحد ہے۔ جس کا مطلب یہ ہواکہ اس آیۂ شریف میں اشارہ مومنین اورمومنات کی طرف نہیں ،بلکہ آں خداوند کی طرف ہے۔ آیت یوں ہے’’وہ (کلمتہ اللہ) نہ خون سے، نہ جسم کی خواہش سے ، نہ انسان کے اراہ سے بلکہ خدا سے پیدا ہوا‘‘۔اگریہ قرأت صحیح ہے تو مقدس یوحنا منجیٔ عالمین کے مقدسہ مریم کنواری کے بطن سےپیداہونے کا ذ کر نہایت واضح الفاظ میں کرتے ہیں۔
لیکن اگریہ قرات صحیح نہ بھی مانی جائے توبھی یہ سوال پیداہوتاہے کہ انجیل نویس الفاظ’’ نہ انسان کے ارادہ سے‘‘ استعمال کرکے کیوں اُن کو خدا کے فرزندوں کی پیدائش کا نمونہ قرار دیتاہے ؟چونکہ وہ ان الفاظ سے مومنین کی روحانی پیدائش کو(جو قوانین فطرت کی وجہ سے حاصل نہیں ہوئی)ایک نمونہ قراردیتاہے۔لہٰذایہ ظاہر ہے کہ اس کے ذہن میں حضرت کلمتہ اللہ کی معجزانہ پیدائش کا تصورموجود ہےاور انجیل نویس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح منجیٔ عالمین اس دنیا میں مافوق الفطرت طورپر پیداہوئے ،اسی طرح مومنین او رمومنات جو خدا کے فرزند ہیں، ایک مافوق الفطرت عالم میں روحانی طورپر پیدا ہوتے ہیں۔
پس اناجیل اربعہ صراحتاًیاکنایتہً منجیٔ جہان کی اعجازی پیدائش کا اقرار کرتی ہیں اوراس کوایک تاریخی واقعہ تسلیم کرتی ہیں جوفی الحقیقت ساڑھے انیس سوسال ہوئے زمان ومکان کی قیود کے اندر اس دنیا میں رونما ہوا۔انجیلی بیان کی اندرونی شہادت ثابت کرتی ہے کہ یہ بیان کسی انسان کی قوتِ متخیلہ کا مرہون احساس نہیں ہے ،بلکہ اس کی بنیاد حقیقت کی چٹان پر قائم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گو اس عمارت پر صدیوں سے مخالفین کی تنقید کی آندھیاں چلیں اور کفر کے سیلاب کی باڑھیں آئیں، لیکن یہ گھر نہ گرا۔ کیونکہ اس کی بنیاد تاریخ کی محکم چٹان پر ہے۔
’’اُس نے پنطیس پیلاطس کے عہد میں دکھ اٹھایا،مصلوب ہوا ، مرگیا او ر دفن ہوا‘‘
۴ ۔کیا خدا مصلوب کیا گیا تھا؟
مرزا صاحب قادیانی (غفر اللہ ذنوبہ) بار بار اپنی کتابوں میں لکھتے ہیں کہ’’عیسائیوں کا خدا مردہ ہے‘‘۔ مولوی ثنااللہ مرحوم بھی آں جہانی مرزا جی کے اس کذب وافترا(جھوٹ اور بہتان) کے مصدق ہیں اورخیال فرماتے ہیں کہ’’ مسیحیت کے مطابق خدا نعُوذ بِاللہ مصلوب کیا گیا تھا‘‘(اسلام اورمسیحیت، صفحہ ۶۶ اورصفحہ ۱۱۰وغیرہ)۔لیکن نہ توہمارے سودیشی(اپنے دیس کا۔ملکی) نبی کے الہام اور ٹیچی ٹیچی فرشتہ نے اورنہ ان کے امرتسری مولوی فاضل مصدق کے مفروضہ علم وفضل نے ان کو اس بات کی اجازت دی کہ وہ اس قسم کی لغویات کولکھنے سے پہلے مسیحی عقائد سے کم از کم سطحی واقفیت ہی حاصل کرلیں۔ ان بےچاروں کو کیا معلوم کہ انجیل جلیل اورجمہور کلیسیائے جامع نے اس قسم کی لغویات جو اُن کی کتابوں کی زینت ہیں، صدیوں سے بدعت قرار دے رکھاہے۔
امرتسری مولوی صاحب کو ’’ مقدس اثناسیس کا عقیدہ‘‘ بہت مرغوب ہے۔ اگرچہ وہ یہ نہیں جانتے کہ اس کو کس نے اورکب مرتب کیا تھا۔ (صفحہ ۵۷) ۔اگر وہ اسی عقیدہ کا بغور مطالعہ کرلیتے تو وہ اس لغزش سے بچ جاتے ۔چنانچہ اس میں لکھا ہے ’’ عقیدہ جامع یہ ہے کہ ہم تثلیث میں خدائے واحد کی اور توحید میں تثلیث کی پرستش کریں ،نہ اقانیم کومخلوط کریں اور نہ جوہر ذات کوتقسیم کریں ۔کیونکہ باپ کی اقنومیت اَور ہے، ابن کی اَور ہے اور روح القدس کی اَور ہے‘‘۔ پس مسیحی عقیدہ تینوں اقانیم میں تمیز کرکے باپ اوربیٹے میں فرق کرتاہے اورایک اقنوم کو دوسرے سے جدا کرتاہے، کیونکہ باپ کا روپ اَورہے بیٹے کا روپ اَور۔لیکن آں جہانی مرزائے قادیانی اوران کے مصدق مولانائے امرتسر’’ اقانیم کو مخلوط‘‘ کرکے کہتے ہیں کہ خدا مصلوب کیا گیا،جو مسیحی تعلیم نہیں اورجس کو مسیحیت ہمیشہ کفر قرار دیتی چلی آئی ہے۔ مولوی ثنا اللہ اقانیم کو مخلوط کرتے ہیں ، کیونکہ وہ لفظ ’’اقنوم ‘‘ کا مفہوم ہی نہیں جانتے۔چنانچہ کبھی وہ اقنوم سے مطلب’’ رکن‘‘ لیتے ہیں(صفحہ ۶۲)اورکبھی اس مراد ’’جزو‘‘ لیتے ہیں (صفحہ ۶۳) اوریہ نہیں جانتے کہ انجیل جلیل اورمسیحی عقائد کے مطابق یہ معنی نہ صرف ناجائز ہیں ،بلکہ مردُود ہیں۔
مولوی ثنا اللہ صاحب اس مکروہ حرکت کا ارتکاب اس لئے کرتے ہیں کہ وہ بزعِم خویش اپنی پیش کردہ قرآنی آیات کی تائید کریں(صفحہ ۶۳)،جن میں لکھاہےلَقَدۡ کَفَرَ الَّذِیۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّ اللّٰہَ ہُوَ الۡمَسِیۡحُ ابۡنُ مَرۡیَمَ ’’بےشک وہ لوگ حق سے منکر ہوچکے جنہوں نے یہ کہا کہ اللہ عین مسیح ابن مریم ہے‘‘(سورہ مائدہ آیت ۷۲)۔لَقَد کَفَرَ الَّذِیۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّ اللّٰہَ ثَالِثُ ثَلٰثَۃٍ ’’بےشک وہ لوگ حق سے منکر ہوچکے جنہوں نے یہ کہا کہ اللہ عین مسیح ابن مریم ہے‘‘(سورہ مائدہ آیت ۷۲)۔لَقَد کَفَرَ الَّذِیۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّ اللّٰہَ ثَالِثُ ثَلٰثَۃٍ ’’بلاشبہ وہ لوگ بھی کافر ہیں جو کہتے ہیں کہ اللہ تین میں سے ایک ہے‘‘(سورہ مائدہ آیت ۷۳)۔ لیکن جناب مولوی صاحب کو یہ سجھائی نہیں دیتا کہ یہ آیات صحیح مسیحی عقائد،الوہیت مسیح اور تثلیث کے خلاف نہیں، بلکہ ان بدعتی کافروں کے خلاف ہیں جن پرجمہور کلیسیا نے نزول قرآن سے صدیوں پہلے کفر کافتویٰ لگایا ہوا تھا۔ کیونکہ وہ حضرت مولانا کی طرح ’’اقانیم کو مخلوط‘‘ کرتے اور’’جوہر ذات کو تقسیم‘‘ کرتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ قرآن ان بدعتی عیسائیوں کو(اورمولوی ثنا اللہ صاحب کوبھی) پچھلی اوراگلی آیات میں تنبیہ کرکے کہتاہے’’اہل کتاب تم کچھ راہ پر نہیں ہو،جب تک کہ تم توریت اورانجیل پر قائم نہ ہوجاؤ۔۔۔سوائے ایک معبود کے اَورکوئی معبود نہیں ہے۔ تم اپنے دین میں ناروازیادتی نہ کرو اوراُن لوگوں کے خیالات کو نہ مانو جوگمراہ ہوگئے اوربہتوں کو بہکاگئےاورآپ سیدھی راہ سے بھٹک گئے‘‘(سورہ مائدہ ع ۱۴)۔ ان سطور سے ہمارا یہ مطلب نہیں ہے کہ قرآن توحید فی التثلیث کی تعلیم دیتاہے ،بلکہ وہ ان آیات میں لوگوں کو چند بدعتوں کے خلاف آگاہ کرتاہے۔ گووہ خود ایک اَور قسم کی غلطی میں پڑگیا ہے۔ کیونکہ الوہیتِ مسیح اور تثلیث کے بارے میں قرآنی تعلیم بعینہٖ اریُس (Arius) کی تعلیم دیتاہے ،جس کو کلیسیائے جامع نے بدعت قراردے دیا تھا۔
جمہورکلیسیائے جامع کا صحیح عقیدہ یہ ہے’’ میں خدا قادرمطلق باپ پر ایمان رکھتاہوں۔۔۔اوریسوع مسیح پر جواُس کا ابن وحید اورہمارا خداوند ہے۔ وہ مجسم ہوااورانسان بنا ،مصلوب ہوا،مرگیا ،تیسرے دن جی اٹھا‘‘ (رسولوں کا عقیدہ اورنقایاہ کا عقیدہ)۔ان عقائدناموں میں باپ اور بیٹے میں تفریق وتمیز کی گئی ہے۔’’خدا قادرِمطلق باپ‘‘ مصلوب نہیں ہوا، بلکہ’’یسوع مسیح جو اُس کا ابنِ وحید ہے مصلوب ہوا‘‘۔ باپ بیٹا نہیں اور بیٹا باپ نہیں ہے۔ دونوں اقانیم میں امتیاز کیا گیا ہے۔’’ اقانیم مخلوط نہیں کئے گئے اورنہ جوہر ذات کوتقسیم کیا گیاہے۔ باپ کا روپ جدا ہے ،بیٹے کا روپ الگ ہے ۔ پس صحیح مسیحی ایمان کے مطابق خدا باپ مصلوب نہیں ہوا،بلکہ ابنِ وحید یسوع مسیح جوانسان بنا،وہ مصلوب ہوا۔جیسا کہ ہم ذکر کرچکے ہیں تاریخ کلیسیا میں ایسے نادان لوگ پیدا ہوئے جو اقانیم کو مخلوط کرکے یہ تعلیم دیتے تھے کہ خدا قادرِمطلق باپ ہمارے گناہوں کی خاطر مصلوب ہوا۔ایسے لوگوں کی تعلیم کو جمہور کلیسیائے جامع نے کفر قرار دیا۔ اس کفر آمیز تعلیم کو لاطینی میں ’’ پیٹری پیس اَن ‘‘ اور یونانی میں ’’تھیوپیس کی شیئن‘‘ کہتے ہیں۔ ا س تعلیم کا بانی پریکسی اَس تھا۔
انجیل جلیل کی ہر کتاب میں خدا باپ اوربیٹے میں ہر جگہ تمیز وتفریق کی گئی ہے۔ چنانچہ مقدس پولس رسول فرماتاہے ’’اگرچہ آسمان وزمین میں بہت سے خدا کہلاتے ہیں ،لیکن ہمارے نزدیک توایک ہی خدا ہے یعنی باپ اور ایک ہی خداوند ہے یعنی یسوع مسیح‘‘(۱کرنتھیوں۵:۸۔۶)۔ یہی وجہ ہے کہ انجیل جلیل میں ’’خدا باپ ‘‘کےلئے لفظ’’ہوتھیوس ‘‘(بمعنی خدا)آیاہے، لیکن ’’ابن اللہ‘‘ کےلئے لفظ’’کیوری اوس‘‘ (بمعنی آقا یا خداوند)آیاہے۔ جناب مسیح کےلئے صفت کے طورپر ایک جگہ ’’تھیوس‘‘ (بمعنی الہٰی) آیاہے(یوحنا ۱: ۱) ۔لیکن وہاں بھی ’’ ہوتھیوس‘‘ نہیں آیا، کیونکہ یہ لفظ صرف خدا باپ کےلئے مخصوص ہے۔ چنانچہ بشپ ویسٹکٹ صاحب اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ:
’’ اگرہم کہیں کہ کلام’’ ہوتھیوس‘‘تھا تو ہم سبلین (Sabellian) بدعت کے مرتکب ہوتے ہیں۔ قرآن بھی اسی بدعت کی طرف اشارہ کرتاہے۔ جب وہ یہ کہتاہے ’’ بے شک وہ لوگ حق سے منکر ہوچکے ہیں ،جویہ کہتے ہیں کہ اللہ عین مسیح ابنِ مریم ہے‘‘(سورہ مائدہ آیت ۷۲)۔
اميد ہے کہ ہمارے غیر مسیحی برادران اب سمجھ گئے ہوں گے کہ ہم کٹر مؤحد ہیں۔ ہم اب اور’’ابن ‘‘میں تمیز کرکے یہ نہیں کہتے کہ خدا مصلوب کیا گیا ہے۔ نہ ہم کسی مصلوب خدا پر ایمان رکھتے ہیں اورنہ ہمارا خدا مردہ ہے۔ بلکہ ہم ایمان رکھتے ہیں’’ایک قادرِ مطلق باپ پراورایک خداوند یسوع مسیح پر جو خدا کااکلوتا بیٹاہے۔ وہ ہم آدمیوں کےلئے اورہماری نجات کے واسطے آسمان پر سے اترآیا اور پنطیس پیلاطس کے عہد میں ہمارے لئے مصلوب ہوا۔ وہ مارا گیا اور دفن ہوا اورتیسرے روز پاک نوشتوں کے بموجب جی اٹھا‘‘۔
۵۔خداکا بّرہ
’’دیکھو یہ خدا کا بّرہ ہے جو دنیا کا گناہ اٹھا لے جاتاہے‘‘(یوحنا ۱: ۲۹)۔
بعض مخالفین انجیل یہ اعتراض کرتے ہیں کہ مندرجہ بالا الفاظ مقدس یوحنا اصطباغی کی زبان سے نہیں نکل سکتے،کیونکہ آپ کی منادی کے الفاظ جوانجیل اوّل کے تیسرے باب میں تفصیل کے ساتھ مندرج ہیں مندرجہ بالا فقرے کے الفاظ کے ساتھ منطبق نہیں ہوسکتے۔ مزید برآں اس فقرہ کےالفاظ جناب مسیح کےکفارہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں، لیکن بارہ رسولوں کی سمجھ میں کفارہ کی تعلیم ابن اللہ کی ظفریاب قیامت کے بعد آئی تھی(لوقا ۲۴: ۲۱، ۲۶)۔ لیکن یہ اعتراض درحقیقت بے بنیاد ہے۔ جب ہم اناجیل ثلاثہ میں مقدس یوحنا اصطباغی کی منادی کے الفاظ کو غوراور تدبر کے ساتھ پڑھتے ہیں توہم پر واضح ہوجاتاہے کہ انجیل چہارم کی منادی کے الفاظ اور بالخصوص یہ آیت شریف اس منادی کے بصیرت افروز مضمون کے عین مطابق ہے۔
(۱)
سب مخالف وموالف اس امر کو تسلیم کرتے ہیں کہ اس آیت شریف کے الفاظ کا حوالہ یسعیاہ نبی کے صحیفہ کے ۵۳باب کی طرف ہے، جس میں خدا کےخادم کے مشن کی حقیقت ، اُس کی آمد کی علتِ غائی اور مقصد کا ذکر ہے ۔ یسعیاہ نبی کی کتاب کے دوسرے حصہ (از باب ۴۰تا ۵۵) میں اس مقصد کے موضوع پر تفصیلی بحث کی گئی ہے اوراس موضوع کا ۶۱باب میں بھی ذکر ہے ،جس کی ابتدائی آیات کا اطلاق حضرت کلمتہ اللہ نے اپنے اوپر کیا تھا(لوقا ۴: ۱۶ تاآخر)۔ کیونکہ ان آیات میں خدا کے خادم کا حقیقی مطمع نظر واضح کیا گیا ہے۔ چاروں اناجیل اس بات کی شاہد ہیں کہ مقدس یوحنا اصطباغی نے صحیفہ ٔ یسعیاہ کے دوسرے حصہ کی آیات کا اطلاق اپنے اُوپر کیا تھا(یسعیاہ ۴۰: ۳؛ متی ۳: ۳ ؛مرقس ۱: ۲؛لوقا ۳: ۴ ؛یوحنا ۱: ۲۳)۔اُس کے خیال میں اس کی آمدکا حقیقی مقصد یسعیاہ ۴۰: ۳ میں مضمر تھا۔ پس ظاہر ہے کہ اُس نے یسعیاہ کے صحیفہ کے دوسرے حصہ کا بنظر غائر مطالعہ کیا تھا اوراُس کے موضوع سے کماحقہ واقف تھا جو’’ خدا کے خادم‘‘کے تصور سے متعلق ہے۔
چاروں انجیلوں کا اس امر پر بھی اتفاق ہے کہ مقدس یوحنا اصطباغی اپنے آپ کو ایک ایسے’’آنے والے‘‘ کا پیشتر وسمجھتا تھا،جو’’ مجھ سے زور آور ہے۔ میں اُس کی جوتیاں اٹھانے کے لائق نہیں۔وہ روح القدس اور آگ سے بپتسما دےگا‘‘۔ اس کی منادی کے الفاظ سے یہ بھی ظاہر ہے کہ اس کے خیال میں’’ وہ شخص جومیرے بعدآتاہےاورجومجھ سے مقدم ٹھہرا‘‘، درحقیقت وہی’’خدا کا خادم ‘‘ہےجس کاذکر صحیفہ یسعیاہ میں آتاہے۔ اس ایک بات پر حضرت ابن اللہ اور مقدس یوحنا اصطباغی دونوں متفق ہیں۔ چنانچہ آں خداوند مقدس یوحنا کی نسبت فرماتے ہیں کہ’’ یہ وہی ہے جس کی بابت لکھاہے کہ دیکھ میں اپنا پیغمبر تیرے آگے بھیجتاہوں۔ جو تیری راہ تیرے آگے تیار کرےگا‘‘ (متی ۱۱: ۱۰) ۔حضرت ابن اللہ اور مقدس یوحنااصطباغی دونوں اس امر سے کماحقہ واقف تھے کہ آں خداوند ہی درحقیقت’’ وہ خدا کا خادم‘‘ ہیں، جس کا ذکر صحیفہ یسعیاہ میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب مقدس یوحنا نے’’پچھوا بھیجا کہ آنے والا توہی ہےیا ہم دوسرے کی راہ دیکھیں‘‘ تو آپ نے جواب دیا ’’جوکچھ تم سنتے اوردیکھتے ہو جاکر یوحنا سے بیان کردوکہ اندھے دیکھتے اور لنگڑے چلتے پھرتے ہیں۔ کوڑھی پاک صاف کئے جاتے ہیں۔ اوربہرے سنتے ہیں اورمرُدے زندہ کئے جاتے ہیں۔اور غریبوں کو خوشخبری سنائی جاتی ہے اورمبارک وہ ہے جو میرے سبب سےٹھوکر نہ کھائے ‘‘(متی ۱۱: ۲تا ۶)اوراس کو ثابت کرنے کےلئے آپ نے ’’ اسی گھڑی بہتوں کو بیماریوں اور آفتوں اور بری روحوں سے نجات بخشی اور بہت سے اندھوں کو بینائی عطا کی‘‘(لوقا ۷: ۲۱)تاکہ آپ مقدس یوحناکو(جوبیم ورجا(خوف اور امید) اور تذبذب کی حالت میں قید خانہ میں پڑا تھا)۔’’خدا کے خادم‘‘ کا اصلی مشن ومقصد دوبارہ یاددلائیں جوصحیفہ مذکور میں موجود ہےکہ’’ تواندھوں کی آنکھیں کھولے‘‘(۴۲: ۷)۔’’ اُس نے مجھے غریبوں کو خوشخبری دینے کےلئے بھیجا کہ اندھوں کوبینائی پانے کی خوشخبری سناؤں۔ کچلے ہوؤں کو آزاد کروں‘‘(یسعیاہ ۶۱: ۱؛ لوقا ۴: ۱۸)۔’’ تب لنگڑے ہرن کی مانند چوکڑیاں بھریں گے اورگونگے کی زبان گائےگی ‘‘(یسعیاہ۳۵: ۶)اور بیماروں کو شفا بخش کر آپ نے مقدس یوحنا کو کہلوابھیجا’’مبارک وہ ہے جو میرے سبب سے ٹھوکر نہ کھائے‘‘۔اس اشارہ سےدرحقیقت آپ کا منشا یہ تھا کہ مقدس اصطباغی حضرت یسعیاہ ۵۲: ۱۴ اور ۵۳: ۳ پر دوبارہ غورکریں۔پس ظاہر ہے کہ گو جناب مسیح کے شاگرد مولا کے مشن کو کماحقہ آپ کی ظفریاب قیامت کے بعد ہی سمجھ تھے۔ لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ راز مقدس یوحنا اصطباغی سے بھی پوشیدہ تھا۔ رسول آپ کی طرح مسیح موعود کے پیش رَو نہیں تھے اورنہ اُنہوں نے ابھی تک صحفِ انبیا کے مطالبہ کو اس طرح سمجھا تھاجس طرح کلمتہ اللہ اوریوحنا اصطباغی نے اُن کو سمجھا تھا (لوقا ۲۴: ۲۵تا ۲۶)۔ مقدس یوحنا اصطباغی اپنی زندگی کا مقصد ہی یہ سمجھتا تھا کہ صحیفہ ٔ یسعیاہ میں جس’’ خدا کے خادم‘‘ کا ذکر ہے، اس کے پیش رو ہونے کا فخر اس کوحاصل ہے۔ پس وہ نہ صرف اپنی زندگی بلکہ’’ خدا کے خادم‘‘ کی زندگی کی علتِ غائی پر بھی سوچ بچار کرچکا تھا۔ وہ بخوبی جانتا تھا کہ یسعیاہ کے صحیفہ کے ۵۳ویں باب کے مضمون کا اطلاق آں خداوند پر ہوتاہےاوریہ مضمون آپ کی زندگی اورموت کے کفارہ سے تعلق رکھتاہے۔ اندرین حالات یہ جائے حیرت نہیں ہوسکتی کہ اُس نے آں خداوند کودیکھ کر اپنے شاگردوں سےکہا’’ دیکھو یہ خداکا برہ ہے جودنیا کے گناہ اٹھالے جاتاہے‘‘۔ حق تو یہ ہے کہ اگر وہ اس قسم کے الفاظ کومنہ سے نہ نکالتا توہم کو حیرت ہوتی اوراس کی خاموشی نہایت معنی خیز ہوتی۔
(۲)
یہ امرقابلِ غور ہے کہ مقدس یوحنا اصطباغی آں خداوند کو ’’مسیح موعود‘‘کے نام سے نہیں پکارتا بلکہ آپ کا ذکر یوں کرتاہے’’ جو میرے بعد آتاہے‘‘ (متی ۳: ۱۱)،’’میرے بعد کا آنے والا‘‘(یوحنا ۱: ۲۷)یا صرف ’’ آنے والا‘‘ (متی ۱۱: ۳۔لوقا ۷: ۲۰)۔اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کا سبب یہ ہے کہ یہودی عوام الناس یسعیاہ کے صحیفہ کے ابواب (از ۴۰تا ۵۵)کو مسیح موعود کی ذات اورمشن سے متعلق (خیال)نہیں کرتے تھے۔ کیونکہ وہ ایک ایسے پولیٹکل مسیح کی آمد کے منتظر تھے جوآکر سیاسیات کا تختہ الٹ دےگا۔ پس مقدس یوحنا نے ایسی اصطلاح کا نام تک نہ لیا جس سے عوام الناس کے دلوں میں ’’ مسیح موعود‘‘ کے مشن کے متعلق زبردست اورخطرناک غلط فہمی کا خدشہ تھااوریہی وجہ تھی کہ خود آں خداوند نے بھی اپنی زندگی کے آخری ایام میں ہی اس اصطلاح کو اپنے شاگردوں پر ظاہر کیا تھا،کیونکہ عوام الناس کی طرح آپ کے رسول بھی ایک پولیٹکل مسیح کی آمد کے منتظر تھے (مرقس ۱۰: ۳۷؛اعمال ۱: ۶؛ متی ۱۲: ۱۱؛لوقا ۱۹: ۱۱ وغیرہ)۔اسی سبب سے جب ابن اللہ نے ’’خدا کے خادم‘‘ کے تصور کو’’ مسیح موعود‘‘ کے تصور سے متعلق کرکے اپنے شاگردوں پر یہ راز منکشف فرمایا(متی ۱۶: ۱۳تا ۲۶) تو مقدس پطرس آپ کوملامت کرنے لگے۔ حق تو یہ ہے کہ اُس زمانہ میں کوئی آدمی بھی’’ خدا کے خادم‘‘کے تصور کو اور’’ مسیح موعود‘‘ کے تصور کو باہم اکٹھا کرکے ایک دوسرے سے متعلق نہیں کرتا تھا۔ چنانچہ مقدس لوقا ہم کو بتاتاہے کہ مقدس شمعون’’ راستباز، خدا ترس اوراسرائیل کی تسلی کا منتظر تھا‘‘(لوقا۲: ۲۵)۔ یعنی مقدس شمعون صحیفہ یسعیاہ کے’’خدا کے خادم‘‘ کا منتظر تھا۔کیونکہ اس کے دوسرے اور تیسرے حصہ میں تسلی دینے پر بار بار زوردیا گیا ہے’’تسلی دوتم میرے لوگوں کو تسلی دو،الخ‘‘( ۴۰: ۱؛ ۴۹: ۱۳؛ ۵۱: ۳؛ ۵۷: ۱۸؛ ۶۱: ۲؛ ۶۶: ۱۱تا ۱۳)۔جب مقدس شمعون نے آں خداوند کو گود میں لے کرکہا’’میری آنکھوں نے تیری نجات دیکھ لی ہے۔ جوتونے سب اُمتوں کے روبرو تیار کی ہے۔ تاکہ غیر قوموں کو روشنی دینے والا نور اور تیری اُمت اسرائیل کا جلال بنے ‘‘(لوقا ۲: ۳۰تا ۳۲)تو اس کی نظروں میں اس صحیفہ کے وہ لفظ تھے جن میں لکھا ہے’’میں تجھ کوغیر قوموں کےلئے نور بناؤں گا کہ تجھ سے میری نجات زمین کےکناروں تک پہنچے‘‘(یسعیاہ۴۹: ۶)۔ ’’ میں صیون کو نجات اور اسرائيل کوجلال بخشوں گا‘‘(یسعیاہ۴۶: ۱۳) ۔جب شمعون مقدسہ مریم کو مخاطب کرکےکہتاہے کہ’’ یہ اسرائیل میں بہتوں کے گرنے اور اٹھنے کےلئے اورایسا نشان ہونے کےلئے مقرر ہواہے جس کی مخالفت کی جائےگی۔ بلکہ خود تیری جان بھی تلوار سے چھد جائےگی۔ تاکہ بہت لوگوں کے دلوں کے خیال کھل جائیں ‘‘(لوقا ۲: ۳۴تا ۳۵) تواُس کااشارہ صحیفہ یسعیاہ کے اُن مقامات کی طرف ہے جن میں لکھا ہے کہ’’ خدا کا خادم ‘‘ کو مخالفت ، ایذا اور موت برداشت کرنی ہوگی(۵۰: ۴تا۷؛ ۵۲: ۱۳۔ ۵۳: ۱۲ وغیرہ)۔ لیکن وہ ان مقامات کو ’’ مسیح موعود‘‘ کے تصور سے متعلق نہیں کرتا۔ ان مثالوں سے ظاہرہے کہ حضرت کلمتہ اللہ کی بعثت کے وقت متعدد لوگ مقدس نوشتوں پر غور وفکر کرکے’’اسرائیل کی تسلی‘‘ کے منتظر تھے۔ اُمید ہے کہ ناظرین کرام پر اب ثابت ہوگیا ہوگاکہ آیۂ زیربحث مابعد کےزمانہ کی بنائی ہوئی بات نہیں ہے،بلکہ ایک حقیقی واقعہ ہے جس پر تاریخ کی مہر ثبت ہے۔
(۳)
مقدس یوحنا اصطباغی جناب مسیح کے لئے دواَور القاب استعمال کرتاہےیعنی’’ خداکا برہ‘‘ (یوحنا ۱: ۳۰، ۳۶)اور’’ خدا کا بیٹا‘‘ (یوحنا۱: ۳۴)۔ آپ کا ان الفاظ سےکیامطلب تھا؟ الفاظ’’خدا کابرہ‘‘ یسعیاہ نبی کے ۵۳ویں باب میں نہیں پائے جاتے ۔ وہاں’’ خدا کے خادم‘‘ کو ’’ برہ‘‘ کے ساتھ صرف تشبیہ دی جاتی ہے ’’جس طرح برہ جسےذبح کرنےکےلئے لے جاتے ہیں۔ بے زبان ہے‘‘۔ گوہر انجیل خواں جانتاہے کہ ان الفاظ کا اطلاق ابتدا ہی سے خداوندیسوع مسیح کی ذاتِ پاک پرکیا گیا(اعمال ۸: ۲۶تا ۳۶)۔ یرمیاہ نبی نے بھی اپنے آپ کو برہ کے ساتھ تشبیہ دی تھی’’میں اس پالتو برہ کی مانند تھا جسے ذبح کرنے کو لے جاتے ہیں‘‘(۱۱: ۱۹)۔ لیکن یہاں بھی الفاظ ’’خدا کا برہ‘‘ نہیں پائے جاتے ۔الفاظ’’ خدا کا برہ‘‘ سے مراد وہ ’’برّہ‘‘ ہے جسے خدا خودمہیا کرتاہے اوراس کا اشارہ پیدائش ۲۲: ۸، ۱۳ کی طرف ہے ،جہاں خدا نے اضحاق کی قربانی کے وقت ابرہام کےلئے مینڈھا مہیا کیا تھا۔’’برّہ‘‘ کےلفظ نے قدرتاً مقدس یوحنا اصطباغی کے دل میں اہل یہودکی قربانی کا خیال ڈالا کیونکہ عیدفسح نزدیک تھی(یوحنا ۲: ۱۲تا ۱۳)اورپاس ہی سڑک پر برّوں کے گروہ ذبح ہونے کےلئے یروشلیم کی جانب جارہے تھے۔ پس عیدِ فسح کی قربانی کےبرّہ کا خیال یوحنااصطباغی کے ذہن میں آیا۔ یہی وجہ ہے کہ مابعد کے زمانہ میں جناب مسیح کوقربانی کا برّہ کہا گیاہے( یوحنا ۱۹: ۳۶؛ ۱۔پطرس ۱: ۱۹؛ عبرانیوں ۹: ۱۴ وغیرہ)۔ جب ہم اس امر کو یادکرتے ہیں کہ یوحنا اصطباغی کاہنوں کے فرقہ میں سے تھا تواس خیال کواَوربھی تقویت ملتی ہے۔
مقدس یوحنا اصطباغی کے پاس مختلف طبقوں کےلوگ جوق درجوق آتے تھےاوراپنے گناہوں کا اقرار کرکے بپتسما پاتے تھے(متی ۳: ۶) اور وہ آں خداوند کی پاک اور مقدس زندگی سے بھی کماحقہ‘ واقف تھا(متی ۳: ۱۴) اور وہ محسوس کرتا تھا کہ قوم یہود کو کفارہ کی کس قدر ضرورت ہے۔ اس نے یسعیاہ ۵۳ویں باب پر پیدائش ۲۲: ۸ کی روشنی میں غور وتدبر کرکے یہ نتیجہ نکالا تھا کہ ’’خدا کا خادم ‘‘ستایا گیا توبھی اس نے برداشت کی اورمنہ نہ کھولا۔ جس طرح برّہ جس کو ذبح کرنےکولے جاتے ہیں ۔ بے زبان ہے۔ اسی طرح یہ برّہ جس کو خدا نے خودمہیا کیا ہ،ے خاموش ہوگا۔ وہ اپنی جان کا دکھ اٹھاکر اُن کی بدکرداری کوخود اٹھائے گا ۔خداوندکو پسند آیا کہ اس برّہ کو مہیا کرے تاکہ وہ کچلا جائے۔ اُس کی جان گناہ کی قربانی کےلئے گذرانی جائے۔ اُس نے اپنی جان موت کےلئے انڈیل دی۔ اُس نے بہتوں کے گناہ اٹھالئے۔اندرین حالات یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ اُس نے ’’ابن اللہ‘‘ کو آتے دیکھ کر اپنے شاگردوں سےکہا کہ’’ دیکھو یہ خدا کا برّہ ہے۔ جودنیاکا گناہ اٹھالے جاتاہے‘‘۔
(۴)
مقدس یوحنا اصطباغی آں خداوند کےلئے ایک اَور لقب استعمال کرتاہے ’’خداکا بیٹا‘‘ (یوحنا ۱: ۳۴) ۔اس مقام پر یہ بات یادرکھنے کے قابل ہے کہ عبرانی زبان میں لفظ’’برّہ‘‘ کےلئے لفظ’’طالی‘‘ آیاہےاورارامی زبان میں لفظ ’’طلی‘‘ کے معنی ہیں’’ بیٹا،لڑکا ، جوان،خادم‘‘۔ چنانچہ یہی لفظ بصورتِ تانیث مقدس مرقس کی انجیل میں جناب مسیح کے ارامی الفاظ میں آیاہے ’’طلیتا قومی‘‘ جس کا ترجمہ یہ ہے کہ’’ اےلڑکی میں تجھ سےکہتاہوں اٹھ‘‘(۵: ۴۱)۔ انجیل اوّل میں یہی لفظ آخری معنی یعنی ’’خادم ‘‘ کے معنوں میں استعمال ہوا ہے(۸: ۶، ۱۳)۔پس جب مقدس یوحنا اصطباغی یہ لقب’’ خداکا بیٹا‘‘ استعمال کرتاہے تو اس کا مطلب ’’خدا کا خادم‘‘ ہے،جویسعیاہ ۵۳: ۱۱تا ۱۲ کے مطابق بہتوں کےگناہ اٹھالے جاتاہے۔ چونکہ لفظ ’’طالی‘‘ اور’’طلی‘‘ دونوں ہم آواز اورمشابہ ہیں، مقدس یوحنا ان الفاظ کی مشابہت اورہم آہنگی سے فائدہ اٹھاکر کہتاہے کہ’’ خداکا بیٹا‘‘ اس برّہ کی مانند ہے جو خدا کے خادم کی طرح بے داغ ہےاوریہی بات ابتدائی کلیسیا میں مقدس پطرس اور دیگر رسولوں کی زبان پر تھی(اعمال ۳: ۱۳؛ ۴: ۲۷تا ۳۰وغيرہ)۔
(۵)
مقد س یوحنا اصطباغی فرماتاہے’’ میں تواُسے پہچانتا نہ تھا۔مگر جس نے مجھے پانی سے بپتسما دینے کو بھیجا۔اُس نے مجھ سےکہا کہ جس پر تو روح کو اترتے اور ٹھہرتے دیکھے وہی روح القدس سے بپتسما دینے والا ہے ۔چنانچہ میں نے دیکھا اور گواہی دی ہےکہ یہ خدا کا بیٹا ہے‘‘(یوحنا ۱: ۳۳تا ۳۴)۔صحیفہ یسعیاہ کے ناظر سے پوشیدہ نہیں ہے کہ اس نشانی کا ذکر اس کتاب کے ۴۲: ۱ اور ۶۱: ۱ میں ہے۔ چونکہ مقدس یوحنا اصطباغی اورابن اللہ دونوں قریبی رشتہ دار اورہم عمر تھے(لوقا ۱: ۲۶تا ۳۶) اور دونوں نے حضرت یسعیاہ کے صحیفہ پر تدبر اور غور وفکر کرکے اپنے اپنے مشن اور زندگی کے مقصد کی نسبت فیصلہ کرلیا تھا۔ یہ ظاہر ہے کہ دونوں نے اکثر اوقات اس موضوع پر باہم گفتگو اور تبادلہ خیالات کیا تھا۔جس کا نتیجہ یہ ہواکہ جونہی مقدس یوحنا نے اس خاص امتیازی نشان کو دیکھا اُس نے فوراً پہچان لیاکہ اس کا قریبی رشتہ دار راستباز خداوند یسوع ہی خدا کا وہ خادم ہے، جس کا ذکر یسعیاہ نبی کے صحیفہ میں آیاہے۔ پس مقدس یوحنا اصطباغی یہ جانتا تھاکہ خدا نے اُسے ’’ خدا کے خادم‘‘ کا پیش رو مقرر کیاہےتاکہ اُس کے آگے اُس کی راہ تیار کرے،تاکہ’’ خدا کا خادم‘‘ خداوند یسوع مسیح خداکا برّہ بن کر دنیا کا گناہ نیست ونابود کرکے روح القدس کا بپتسما دے۔
’’پنطیس پیلاطس کی حکومت میں دکھ اٹھایا ۔ مصلوب ہوا‘‘
۶۔ پنطیس پیلاطس
(۱)
تاریخ ہم کو پنطیس پیلاطس کی گورنری کے واقعات کے علاوہ کچھ نہیں بتاتی ۔اس شخص کے نام کے گرد متعدد روایات جمع ہوگئی ہیں، لیکن وہ سب کی سب اُس کی موت کے صدیوں بعد کی ہیں۔لہٰذاوہ قابلِ اعتبار نہیں۔ پیلاطس اوراُس کی بیوی کلاڈیا کے متعلق جوکچھ ہمیں معلوم ہے، وہ دویا تین قدیم مصنفوں کے طفیل ہے جو اُن کے قریباً ہم عصر تھے۔ اُن میں سے ایک سکندریہ کا فلاسفر فائلو جناب مسیح سے دس بیس سال پہلے پیدا ہوا تھا۔پس وہ پیلاطس کاہم عمر تھا۔ یہودی مورخ یوسیفس بھی اپنی کتابوں میں پیلاطس کا ذکر کرتاہے ۔چاروں انجیل نویس بھی ہم کو اُس کی زندگی کے چند گھنٹوں کی جھلک دکھاتے ہیں۔
(۲)
قیصر تبریُس (Tiberius ) نے ۲۶ء میں پیلاطس کو یہودیہ کا گورنر مقرر کیا۔ قیصریہ اس کا دارالسلطنت تھا۔ اُس زمانہ میں روم سے قیصریہ تک سفر کرنے میں دوماہ کا عرصہ درکا ر تھا۔ قیاس یہی چاہتاہے کہ قیصریہ آنے سے پہلے راستہ میں پیلاطس نے سکندریہ میں چند یوم گزار کراپنے پیش رَوسابق گورنر ولیرئیس گریٹس (Valerius Gratus ) سے ملاقات کرکے یہودیہ کے حالات کی نسبت پوچھ گچھ کی ہوگی۔قیصریہ اُس زمانہ میں بڑا زبردست شہر تھا اور بعض باتوں میں یروشلیم سے بھی زیادہ اہم شمار ہوتا تھا۔ ہیرودیس اعظم نے اس شہر کی بنیاد ڈال کر اس کا نام’’ قیصریہ‘‘ رکھا تھا۔اس شہر میں قیصرکا مندر تھا۔ جس میں اس کا ایک بڑا قدآور بُت نصب تھا۔ یہ شہر عظیم الشان عمارتوں سے مزین تھااور گورنر کا محل بھی یہیں واقع تھا۔
(۳)
پیلاطس نے ۲۶ء میں قیصریہ میں اپنا قدم رکھتے ہی رعایا سے بگاڑ لی۔ چنانچہ مورخ یوسیفس لکھتاہے:
’’ پیلاطس نے رات کے وقت یروشلیم میں پرچم بھیجے جن پر قیصرکی مورت تھی۔ جب صبح ہوئی اوریہود کی نظر اُن پر پڑی توہر جگہ غم وغصہ کی لہر دوڑ گئی۔ کیونکہ اس اقدام سے ان کی شریعت پاؤں تلے رَوندی گئی تھی۔۔۔یہود جوش میں آکر قیصر یہ آئے اور پیلاطس کی منت کرنے لگے کہ وہ ان جھنڈوں کو یروشلیم سے باہر لے جائے۔ جب اُس نے صاف انکار کردیا تووہ زمین پر لیٹ گئے اورپانچ دن رات وہیں پڑے رہے۔۔۔
پیلاطس نے فوج کو اُن کا گھیرا ڈالنے کا حکم دیا اوریہودکوکہا کہ اگر وہ اپنی ہٹ سے بازنہ آئے تو وہ تہ تیغ کردئیے جائیں گے۔ اس پر اُنہوں نے اپنی گردنیں ننگی کردیں اورچلا کر کہنےلگے کہ ہمیں موت منظور ہے، لیکن شرع کی بےحرمتی منظور نہیں۔ اس پر پیلاطس دنگ رہ گیا اور اُس نےحکم دیاکہ پرچم یروشلیم سے باہر نکال لے جائیں‘‘ ۔
یہ واقعہ موسم خزاں ۲۶ء میں ہوا۔ جب پیلاطس نے موسم گرما میں پہلی بار یروشلیم جانے سے پہلے اپنی فوج کو بھیجا تھا۔ اُس سے پہلے گورنر مورت والے پر چم لےکر یروشلیم میں داخل نہیں ہوا کرتے تھے۔ پیلاطس اس بات سے ضرورواقف تھا، لیکن اُس نے اہل یہود پر شروع ہی میں’’ گُربہ کشتن روزِاول‘‘ (فارسی مثل ۔رعب پہلے ہی دن بیٹھتا ہے)کے مصداق اپنا رعب جمانےکی خاطر اس قدم کو اٹھایا تھا۔لیکن پیلاطس کو خفت (ندامت)اٹھانی پڑی اوریوں اس پہلے مقابلہ میں اہل یہود کی جیت ہوگئی۔یہ امر قابل غور ہے کہ ایسے آڑے وقت اورنازک موقعہ پر یہود کے سردار کاہن کائفا نے اس تحریک میں کھلم کھلا کوئی حصہ نہ لیا۔ وہ نہایت دوراندیش اور مردم شناس شخص تھا ،جوہمیشہ موقع کی تاڑ میں رہتا تھا۔ وہ اپنے عالی شان محل میں بیٹھا چپکے سے دیکھ رہا تھا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ ولیریئس گریٹس سابق گورنر نے اپنی گیارہ سالہ حکومت کے دوران میں چار دفعہ سردار کاہن بدلے تھےاورچوتھی دفعہ اس نے کائفا کو نام ز د کیا تھا۔ کائفا اپنی گدّی چھوڑنا نہیں چاہتا تھا اور وہ جانتا تھا کہ یہ بات پیلاطس کے اختیار میں تھی کہ وہ اس کو گدّی پر برقرار رکھے یا برطرف کردے۔ اگر پیلاطس کی سکندریہ میں ولیرئیس سے ملاقات ہوئی ہوگی توقیاس یہی چاہتاہے کہ اُس نے پیلاطس کو فریسیوں اور صدوقیوں کے حالات بتا کر یہی صلاح دی ہوگی کہ وہ سردار کاہن کائفا کو گدّی پر برقرار رہنے دے، کیونکہ وہ کام کا آدمی ثابت ہوگا۔ لیکن یہود اوراُن کے سردار کاہن کو اپنے قبضۂ اقتدار میں رکھے۔پس پیلاطس نے یہودی عوام پر رُعب جمانے کی خاطر اورسردار کاہن کائفا پر اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کی خاطر یروشلیم میں ایسے پرچم بھیجے، جن پر قیصر کی مورُت تھی۔ لیکن اس کانتیجہ اُس کے حق میں الٹا ثابت ہوااورکائفا نے کچھ کہے یا کئے بغیر اہل یہود کے مذہبی جنون سے فائدہ اٹھاکر پیلاطس کو نیچا دکھادیا۔
(۴)
جب پیلاطس یہودیہ کا گورنر مقررہوا تو یروشلیم میں پانی کی سخت قلت تھی۔چونکہ یہ شہر اونچی پہاڑیوں پر آباد تھا۔لہٰذاابتداہی سے اس کےباشندے پانی کی قلت کو ہمیشہ محسوس کرتے رہے تھے۔ محاصرہ کےایام میں دشمن نہایت آسانی سے پانی کی رسد کاٹ سکتے تھے (۲۔تواریخ ۳۲: ۱تا ۵)۔پس مختلف صدیوں میں مختلف یہودی بادشاہوں نے پانی کی رسد کی دقت کورفع کرنے کی بے سود کوششیں کی تھیں۔غالباً سلیمان بادشاہ نے یروشلیم سے بھی اونچی گھاٹیوں سے تین تالابوں کے ذریعہ (جن کو سلیمانی تالاب کہتے ہیں)یروشلیم میں پانی لانےکا انتظام کیا تھا۔ سلیمان کے بعد پیلاطس پہلا شخص تھا جس نے پانی کی قلت کی دقت کو حل کیا تھا۔ اس نے قریباً پچیس میل کے پکے نالے(Aqueducts) بنواکر یروشلیم کی ہیکل میں پانی پہنچادیا تھا، جو انجینئری کا کمال تھا۔ یہ ظاہرہے کہ اس قسم کا کام(جس میں ہیکل کی عمارت کے بعض حصوں میں شکست اور ریخت کی الجھن کا سوال تھا) بااختیار اکابر یہود کی صلاح اورمنظوری کے بغیر پایہ ٔتکمیل کو نہیں پہنچ سکتا تھا۔ یہ بھی ناممکن ہے کہ اخراجات کے زرکثیر کا سوال اٹھائے بغیر یہ تجویز مکمل کردی گئی ہو۔ رُومی قاعدہ کے مطابق پبلک ورکس کے اخراجات کی پبلک خود متحمل ہوتی تھی۔ لیکن یروشلیم کے حالات کچھ خاص حالات تھے،کیونکہ ہر بالغ سے نیم مثقال کا نقرئی سکہ جبریہ وصول کرکے ہیکل کے خزانہ میں جمع کیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ صدقہ ،خیرات اور نذریں بھی اس خزانہ میں جمع کی جاتی تھیں۔ان ذرائع سے ہیکل کی سالانہ آمدنی ساڑھے گیارہ لاکھ روپیہ کے لگ بھگ تھی ۔ قدرتی طورپر پیلاطس چاہتا تھا کہ پانی کے انتظام کے اخراجات ہیکل کے خزانہ سے ادا کئے جائیں ،جو پبلک کا روپیہ تھا۔ صدوقی اور سردارکاہن اس قدرزرخطیر دینا نہیں چاہتے ہوں گے، لیکن سردار کاہن کائفا نے اس رقم کی ادائیگی کا وعدہ ضرور کردیا ہوگا ۔ورنہ پیلاطس اس کو برطرف کردیتا۔ جس طرح سابق گورنر نے حنہ سردار کاہن کو اُس کی دولت وثروت کے باجود برطرف کردیا تھا۔ ہم اوپر ذکر کرچکے ہیں کہ پیلاطس کے آنے سے پہلے کائفا سردار کاہن تھا اور وہ پیلاطس کی دس سالہ گورنری کے دوران اپنی ہوشیاری ،چال بازی اور موقعہ شناسی کی وجہ سے اس گدّی پر متمکن رہا۔ پس جب ہیکل کے خزانہ سے پانی کے اخراجات ادا کئے گئے توکائفا سردار کاہن طوعاً وکرہاً اس کی ادائيگی پر راضی تھا۔یہودی مورخ یوسیفس لکھتاہے:
’’اس کے بعد پیلاطس نے ایک اَور فتنہ کھڑا کردیا۔اُس نے نذر ا نہ کے پاک روپیہ سے پانی کے نالےپکے بنوائے جن کے ذریعہ اُس نے چار صد فرلانگ پانی بہم پہنچایا۔ اس پر یہودی عوام الناس بھڑک اٹھے اورجب پیلاطس یروشلیم آیا تو ہزاروں کی بھیڑ نے اُس کے د ربار کے پاس جمع ہوکر غوغا مچایا۔ اس بات کی پیلاطس کو پہلے ہی سے خبر لگ گئی تھی کہ فساد ہونے والا ہے۔ پس اُس نے ہجوم میں مسلح سپاہی غیر فوجی لباس میں بھیجے اور اُن کوحکم دیاکہ مفسدوں کو نرغہ میں گھیر کر ان پر لاٹھی چارج کردیں۔ بہت سے یہودی مارے گئے اور زخمی ہوگئے۔ جب بھاگڑ مچی تو بہت لوگ دوسروں کے پاؤں تلے رَوندے گئے ۔ یوں یہ فساد فروکردیا گیا‘‘ ۔
یہاں سوال پیدا ہوتاہے کہ پیلاطس کو اس ہونے والے فساد کی خبر پہلے سے کس نے دی تھی؟اغلب یہی معلوم ہوتاہے کہ کائفا نے اُس کو خفیہ طورپر آگاہ کردیا تھا۔ پس یوں چال بازی سےکام لے کر اُس نے اہل یہود اور پیلاطس دونوں کا ساتھ دیا تھا۔ اس واقعہ نے اہل یہود کو پیلاطس سے برگشتہ کردیا۔ سردار کاہن کائفا بھی موقعہ کی تاڑ میں رہا، جس سے وہ پیلاطس کو نیچا دکھا کر ہیکل کے خزانہ پر ہاتھ ڈالنے کا بدلہ لے سکے۔
(۵)
۲۹ء میں خداوندیسوع مسیح کے مقدمہ نے اس کے ہاتھ میں یہ زرین موقعہ دے دیا۔ کائفا نے یہودی شریعت کا خون کرکے اور تمام شرعی پابندیوں کو پاؤں تلے رَوند کرخداوندمسیح پر رات کے وقت موت کا فتویٰ صادر کردیا۔جمعہ کے دن علیٰ الصباح اس نے جناب مسیح کو کشاں کشاں (زبردستی۔کھینچتے ہوئے)گورنر کی عدالت میں حاضر کردیا تاکہ وہ اُس کے فتویٰ پر عمل کرکے آپ کو مصلوب کرنے کا حکم صادر کرے۔ جب پیلاطس نے رومی سلطنت کے قانون کی رُو سے آپ کو بری قرار دے دیا تو سردار کاہن کو وہ موقعہ مل گیا جس کی وہ اتنی مُدت سے تاڑ میں تھا۔اُس نے گورنر کو کہا کہ’’ اگر تو اس کو چھوڑدےگا تو تُو قیصر کا خیر خواہ نہیں‘‘۔اس دھمکی کا مطلب یہ تھاکہ یہودیہ کے گورنر پیلاطس کی شکایت شام کے وائسرے وٹیلیئس (Vitellius ) سے کی جائےگی۔غداری کا الزام سنتے ہی پیلاطس کانپ اٹھا۔ اُس نے بہتیرے ہاتھ پاؤں مارے کہ کائفا کو کسی نہ کسی طرح خوش کرے ،لیکن اُس کی ایک نہ چلی۔ کبھی اُس نے چال بازی سےکام لے کر جناب مسیح کو ہیردویس کے پاس بھیجا دیا۔ کبھی اُس نے جناب مسیح کو پٹواکر کائفا کی آتش انتقام کو فرو کرنے کی تدبیر کی ۔کبھی اُس نے یہود کے قومی جذبات کو اپیل کرکے جناب مسیح کو چھوڑنا چاہا۔ لیکن اُس کی کوئی تدبیر کارگر نہ ہوئی۔ سردار کاہن کائفا اپنی بات پر اڑارہا اور غداری کے الزام کی تلوار کو پیلاطس کی آنکھوں کے سامنے چمکاتارہا۔ حتیٰ کے پیلاطس پر یہ ظاہر ہوگیاکہ اس مقدمہ میں اُس کی اپنی موت اور زندگی کا سوال درپیش ہے اورکہ جناب مسیح اور پیلاطس میں سے ایک شخص کا مرنا ضروری ہے۔ پیلاطس کو اچھی طرح معلوم تھا کہ اُس نے صوبہ بھر میں اپنے ظلم اور تعدی(ناانصافی) کی وجہ سے بدنظمی پھیلا رکھی تھی۔ چنانچہ سکندریہ کا یہودی فلاسفر فائلو کہتاہے کہ:
’’ پیلاطس رشوت خور تھا ۔ اُس نے صوبہ بھر میں لوٹ مار مچار رکھی تھی۔ وہ ہر ایک سے متکبرانہ پیش آتا تھا اور رعایا پر سخت مظالم ڈھاتا تھا۔ لوگوں کو عدالت میں لائے بغیر اوراُن کا جرم ثابت کئے بغیر وہ اُن کو مرواڈالتا تھا۔ اُس کی انسانیت سوز بدکرداریاں ایک سلسلۂ لامتناہی تھیں‘‘ ۔
مقدس لوقاانجیل نویس بھی ہم کو بتاتاہے کہ پیلاطس نے گلیلی لوگوں کا خون اُن کے ذبیحوں کے ساتھ ملادیا تھا(۱۳: ۱)۔ اب سردار کاہن اس پر اسےقیصر سے غداری کا الزام لگانے کی دھمکی دے رہا تھا۔ پس اپنی جان بچا نے کی خاطر وہ کائفا کے آگے جھک گیا۔ اناجیل کے آخری سین کے الفاظ نہایت واضح طورپر اس ظالم بزدل گورنر کے کیریکٹر کوظاہر کرتے ہیں۔ ’’جب پیلاطس نے دیکھا کہ کچھ بن نہیں پڑتا توپانی لے کر لوگوں کے روبرو اپنے ہاتھ دھوئے اور کہا میں اس راستباز کے خون سے بری ہوں۔ تم جانو۔ سب لوگوں نےجواب دے کر کہا اس کا خون ہماری اور ہماری اولاد کی گردن پر ۔ اس پر اُس نے یسوع کو کوڑے لگواکر اُن کے حوالہ کیاتاکہ صلیب دی جائے‘‘(متی ۲۷: ۲۴تا ۲۶)۔
(۶)
پیلاطس کا آخری کارنامہ سامریوں سے تعلق رکھتاہے۔ یوسیفس لکھتا ہے :
’’سامریوں کی قوم کے ایک شخص نے سامریوں کو کہا کہ گریزیم پہاڑ پر(جواِن کی نظروں میں مقدس ترین پہاڑ ہے۔یوحنا ۴: ۲۰)حضرت موسیٰ نے جو مقدس ظروف رکھے تھے ،وہ اُن کو دکھائےگا۔ پس سامری مسلح ہوکر بڑی تعداد میں وہاں جانے لگے ۔ لیکن پیلاطس نے سوار اورپیادہ فوج بھیج کر تمام راستوں کو مسدود کرکے ناکا بندی کردی۔ فوج نے لوگوں پر حملہ کرکے بہتوں کو قتل کردیا اور قیدیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ جب فساد فروہوگیا توسامریوں نے وٹیلیئس کے پاس جو شام (Syria) کا وائسرے تھا۔ گورنر پیلاطس کی شکایت کی اوراُس پر ناحق خون بہانے کا الزام لگایا۔ اس پر وٹیلیئس نے مارسیلس (Marcellus) کویہودیہ کا انتظام کرنے کیلئے بھیجا اور پیلاطس کو حکم دیاکہ روم جاکر اہل یہود کے عائد کردہ الزامات کا جواب دے ‘‘۔
پس دس سا ل کی حکومت کے بعد ۳۶ء میں پیلاطس واپس قیصر کے حضورجواب دہی کے لئے روم کی جانب واپس روانہ ہوگیا۔ ہم اندازہ کرسکتے ہیں کہ واپسی کے وقت راہ میں اس کا کیسا حال ہوا ہوگا۔ دن کوموت کا خیال اور رات کو ڈراؤنے خواب اُس کے ساتھی تھے۔ جب وہ دارلسلطنت روم میں پہنچا توجس قیصر کے لرزہ خیز حکم کی وجہ سے وہ روم حاضر ہوا تھا، اُس کو خود موت کے فرشتہ نے اعلیٰ ترین منصف کی عدالت میں حاضر ہوکر اپنے اعمال کے جواب دینے کا پیغام پہنچادیا تھا۔
(۷)
پیلاطس کا کیا حشر ہوا؟ اس کے انجام کے متعلق کلیسیائی روایات کثرت سے ہیں، لیکن تواریخی لحاظ سے ان کی قیمت صفر سے بھی کم ہے۔ غالباً مسیحی مورخ قیصریہ کے بشپ کا قول درست ہے کہ’’ پیلاطس کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ اپنی جان کا اپنے ہاتھوں خاتمہ کردے ‘‘۔ پیلاطس کے شریکِ جرم سردار کاہن کائفا کا ذکر انجیلی مجموعہ میں پھر ایک دفعہ آتاہے۔ جب وہ ’’ سردارکاہن حنہ اور یوحنا اور سکندر اورسردار کاہن کے گھرانے کے لوگوں کے ساتھ مقدس پطرس اور مقدس یوحنا رسول سے باز پرس کرکے اُن کو دھمکاتا ہے‘‘ (اعمال ۴: ۶۔ ۲۲) ۔اس کے بعد بھی سردار کاہن کا ذکرآتاہے ،جو کلیسیا کو ایذائیں پہنچانے پر تلا ہوا تھا۔ غالباً یہ سردار کاہن کائفا ہی تھا (اعمال ۵: ۱۷، ۲۱، ۲۷؛ ۷: ۱؛ ۱۹: ۱وغیرہ)۔ ۳۶ءمیں پیلاطس کے یہودیہ سے رخصت ہونے کے بعد کائفا بھی سردار کاہن کی گدّی سے اتاردیا گیا۔ اسی سال یعنی ۳۶ء کے موسم گرما میں مقدس پولس رسول صحرائے عرب سے واپس یروشلیم کو لوٹے اور پندرہ روز رسولوں کی صحبت سے فیض یاب ہوئے۔ اس کے بعد آپ نے انجیل جلیل کی نجات کا جاں فزا پیغام اقصائے عالم تک پہنچادیا۔
۷۔ابنِ اللہ کی صلیبی موت اور یہودی قانون
خداوند یسوع مسیح کے مقدمہ کی سماعت دو عدالتوں میں ہوئی اور دونوں عدالتوں میں آپ پر موت کا فتویٰ صادر ہوا۔ پہلی بار آپ کو اہل یہود کی عدالت میں پیش کیا گیا ،جہاں سردار کاہن نے جج کی حیثیت سے آپ پر فتویٰ لگایا۔ پھر وہی جج رومی عدالت میں مدعی بن گیا اور رومی گورنر نے آپ کو مصلوب کرنے کا حکم دیا۔اس مضمون میں ہم ابنِ اللہ کے مقدمہ کی روئیداد پر یہودی قانون کے نقطہ نظر سے بحث کریں گے، تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ آیا حضرت ابنِ اللہ کے ساتھ قانونی پہلو کے مطابق واقعی انصاف کیا گیا تھایاآپ کے جج سردار کاہن کائفا نے آپ کو مستوجب قتل قراردے کر یہودی قانون کا خون کیا تھا۔
(۱)
جب ہم اناجیل اربعہ کےصلیبی بیان کا بنظرِ غائر مطالعہ کرتے ہیں توہم پر واضح ہوجاتاہے کہ اس بیان کی صحت میں کسی قسم کے شک کی گنجائش نہیں۔ چنانچہ لارڈ شائر کہتے ہیں:
’’ ہر شخص او ربالخصوص ہر جج پر (جس کا واسطہ شہادت اور گواہی سے پڑتاہے)یہ بات فوراً ظاہر ہوجاتی ہے کہ اگرچہ صلیبی بیان کی تفاصیل میں فرق ہے او رہر انجیل نویس کے بیان کرنے کا طریقہ نرالاہےاور چاروں اناجیل کے بیان کرنے والوں کی سمجھ کے مطابق بیان کے مختلف پہلوؤں پر زوردیا گیا ہے۔ تاہم صلیبی موت کا بیان و ز ن رکھتاہے او ر بیان کردہ واقعات کی صحت میں کسی کو کلام نہیں ہوسکتا ‘‘۔
ابنِ اللہ کے مقدمہ کا بیان نہایت سادہ الفاظ میں لکھا گیا ہے ،جس میں مبالغہ اور رنگ آمیزی کودخل نہیں۔ وہ افراط اور تفریط (زیادتی اور کمی)دونوں سے خالی ہے اوریہی وجہ ہے کہ وہ جاذبِ توجہ ہے اور انسانی دماغ پر ایک ناقابلِ فراموش نقش قائم کردیتاہے ۔ یہ سیدھے سادھے الفاظ آنکھوں کے سامنے ایسا سماں باندھ دیتے ہیں کہ انسان بے اختیار متاثر ہوجاتاہے۔
(۲)
اہل یہود کا قانون رومی سلطنت کے قانون سے زيادہ قدیم اور سخت گیر تھا۔ بالخصوص ملزم کی موت اور زندگی کے سوال کے موقع پر یہودی قانون نے ایسی قیود اور پابندیاں لگارکھی تھیں جن سے ہر شخص پر یہ واضح ہوجاتا تھا کہ یہ مقدمہ نہایت سنجیدہ ہے۔ اس قانون کے مطابق ہر ممکن طورپر یہ خاص احتیاط کی جاتی تھی کہ ملزم کے ساتھ کسی قسم کی بے انصافی ہونے نہ پائے اور مقدمہ کے دوران میں کوئی ناجائز بات یاغلطی سرزد نہ ہو، جوملزم کے خلاف جائے۔ اس سے ظاہر ہے کہ یہودی قانون انسانی زندگی کو نہایت واجب الاحترام شے خیال کرکے ہر ممکن کوشش کرتا تھا کہ مقدمہ کے وقت ہر قسم کی احتیاط کام میں لائی جائے۔یہودی قانون کے مطابق جب کسی کو موت کی سزا دی جاتی تھی تو مجرم کو عموماً سنگسار کیا جاتا تھا۔ بعض اوقات مجرم کوغرق آب کردیا جاتا تھا یااُس کو پھانسی دی جاتی تھی یااُس کا سرتن سے جدا کردیا جاتا تھا ۔ لیکن کسی مجرم کو صلیب نہیں دی جاتی تھی۔مجرم کو عدالت سے دور فاصلہ پر سزا دی جاتی تھی۔ یہود کی اصطلاح میں اس جگہ کو’’ خیمہ سے باہر‘‘ کہا جاتا تھا۔ لیکن موت کی سزا دیتے وقت بھی ملزم کی جان بچانے کی تدبیر کی جاتی تھی۔ چنانچہ مشناہ میں لکھا ہے:
’’ چاہیے کہ ایک شخص عدالت کے کمرہ کے دروازہ کے باہر رومال ہاتھ میں لئے کھڑا رہے اوردوسرا گھوڑے پر سوار ہوکر اُتنی دورکھڑا رہے کہ وہ رومال کو ہلتا دیکھ سکے۔ اگر ملزم کے آخری لمحوں میں بھی کوئی شخص یہ ثابت کرنے کےلئے تیار ہوکہ ملزم بے گناہ ہے تو جوشخص عدالت کے درواز ہ پر کھڑا ہووہ رومال کو ہلائے او ر جونہی سوار اس رومال کوہلتا دیکھے وہ گھوڑے کو دوڑاکر مقتل پر پہنچے او ر ملزم کو واپس لے آئے تاکہ اُس کے مقدمہ کی دوبارہ سماعت ہو‘‘۔
(۳)
اس میں شک نہیں کہ Sanhedrin ( جس کو انجیل میں’’ صدرِ عدالت‘‘ کہا گیا ہے ) کو یہ اختیار حاصل تھا کہ ابن اللہ کو Gethsemane کے باغ میں گرفتار کرلے۔ یہ مجلس اہل یہود کی جنرل کونسل تھی اوراکہتر (۷۱) اشخاص پر مشتمل تھی۔ اس جنرل کو نسل کی ایک اعلیٰ انتظامیہ کمیٹی تھی، جس کے تئيس (۲۳)رکن تھے۔ اگرچہ یہودیہ کا ملک ایک رومی صوبہ تھا ،تاہم قیصر نے دانش مندی کو کام میں لاکر اس کو دینی اُمور میں سوراجیہ(حکومت خود اختیاری) کا حق عطا کردیا تھا۔ جنرل کونسل کا صدرسردار کاہن کائفا تھا او رکونسل میں فریسی اور صدوقی لیڈر دونوں شامل تھے۔ اس کے فیصلے یہودی شریعت او ریہودی قانون کے مطابق ہوتے تھے۔ یہودی شریعتِ کتب عہدِ عتیق میں موجود تھی او ریہودی قانون طالمود میں جمع کیا گیا تھا۔ طالمود کے مرکزی حصہ کو ’’مشناہ‘‘ کہتے ہیں جس میں سے ہم نے سطورِ بالا میں ایک قانون نقل کیا ہے۔ یہ امر سب کے نزدیک مسلم ہے کہ جناب مسیح کی زندگی میں مشناہ کے یہودی قوانین پر عمل درآمد کیا جاتا تھا۔
(۴)
ابنِ اللہ کے ایک حواری یہوداہ اسکریوتی کی غداری کی وجہ سے آپ بآسانی گرفتار ہوگئے۔ اس سازش میں جنرل کونسل کے ارکان بھی شامل تھے،لیکن انہی لوگوں نے آپ کے مقدمہ کی سماعت بھی کرنا تھی۔ پس جنرل کونسل کے ممبروں نے اس سازش میں حصہ لے کر یہودی قانون کی خلاف ورزی کی۔ علاوہ بریں ان ممبروں نے نہ صرف سازش میں حصہ لیا بلکہ وہ تیس روپیہ کی رشوت دینے سے بھی نہ جھجکے ۔ پس صریحاًوہ الہٰی شریعت اوریہودی قانون کو توڑنے کے مرتکب ہوئے۔ اگر ابن اللہ کے خلاف فیصلہ کی اپیل کی جاسکتی تویہ ظاہر ہے کہ آپ رہا کردئيے جاتے ۔ لیکن جنرل کونسل کوئی ماتحت عدالت نہیں تھی ،جس کے فیصلہ کی کسی اعلیٰ عدالت میں اپیل ہوسکتی۔ وہ خود اعلیٰ ترین عدالت تھی جس کے فیصلوں کے خلاف اپیل دائر نہیں ہوسکتی تھی۔
چونکہ جناب مسیح کا مقدمہ زندگی اور موت کا مقدمہ تھا۔لہٰذایہ ضروری امر تھا کہ اُن تمام قیود کا لحاظ رکھا جاتا جو الہٰی شریعت اوریہودی قانون نے اس معاملہ میں پیش بندی کے طورپر لگا رکھی تھیں ۔ جہاں تک ابنِ اللہ کے مقدمہ کا تعلق ہے ،عدالتِ اعلیٰ کا ان پابندیوں کو ملحوظ رکھنا اوربھی زیادہ ضروری تھا،کیونکہ آپ کے تمام حواری او رپیرو اپنی جانوں کے خوف کے مارے آپ کواکیلا چھوڑ کر بھاگ گئے تھےاورآپ کے خلاف نہ صرف اعلیٰ ترین طبقہ کے رؤسا پرے باندھے تھے، بلکہ عامتہ الناس کے جذبات کی آگ بھی بھڑک رہی تھی۔اندرین حالات عدالتِ اعلیٰ کا فرض تھا کہ قانون کے مطابق اور قانون کے اندر آپ کے جائز حقوق کی خود حفاظت کرتی۔
(۵)
حضرت ابنِ اللہ کے مقدمہ میں جنرل کونسل نے شروع سے لے کر آخر تک الہٰی شریعت اوریہودی قانون کی تمام پابندیوں کی باڑ کو اکھاڑ پھینکا۔ اس کو نسل کے ارکان سب امور کو فوری طورپر ختم کرنا چاہتے تھے۔ پس اُنہوں نے جلدی کی اور اس جلدی کے سبب یہودی قانون کے احتیاطی اُمور اور تدابیر کو پس پشت پھینک دیا۔ اُنہوں نے رات کے وقت اس مقدمہ کی سماعت شروع کی اور اُسی رات فیصلہ بھی کردیا۔ یہ دونوں باتیں یہودی قانون کے سراسر خلاف تھیں۔ اس قانون کے مطابق کوئی ایسا مقدمہ رات کے وقت شروع نہیں کیا جاسکتا تھا۔چہ جائیکہ رات کے وقت اس کی پیروی بھی کی جائے اور فیصلہ بھی سنادیا جائے۔اگرکسی مقدمہ کی دن کے وقت سماعت شروع ہوتی اور دورانِ سماعت رات پڑجاتی تویہودی قانون کے مطابق لازم تھا کہ مقدمہ اگلے دن پر ملتوی کیا جائے۔ چنانچہ مشناہ میں خاص طورپر ہدایت کی گئی ہے کہ:
’’دیوانی مقدمات صرف دن کے وقت شروع کئے جائیں اور ان کا فیصلہ غروبِ آفتاب کے بعد بھی ہوسکتا ہے۔ لیکن جن مقدمات کا تعلق ملزم کی زندگی اور موت کے ساتھ ہے۔ وہ صرف روزِ روشن میں ہی شروع کئے جائیں اوردن کی روشنی میں ہی فیصلہ پائیں۔ اگر فیصلہ کی رُو سے ملزم رہا ہوجائے تو وہ اُسی روز رہا کیا جائے ، لیکن اگر وہ موت کا مستوجب گردانا جائے تولازم ہے کہ مقدمہ دوسرے دن پرملتوی کردیاجائے او ر رات کا وقفہ درمیان میں پڑے ‘‘۔
حضرت ابن اللہ کے مقدمہ میں جنرل کونسل کے ججوں نے ایسی تعجیل(جلدی) کی، جس کی نظیر یہودی تاریخ میں نہیں ملتی۔اُنہوں نے تمام پابندیوں کو جو یہودی قانون نے احتیاط کی خاطر لگارکھی تھیں جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ اُنہوں نے آپ کو جمعرات کے روز رات کے وقت گرفتار کیا۔ رات کے وقت ہی جنرل کونسل کا اجلاس منعقد کیا۔ رات کے وقت ہی مقدمہ کی سماعت شروع کی اوراُسی رات آپ کو مستوجبِ قتل قرار دے دیا۔ پس جہاں تک یہودی قانون کا تعلق ہے، اس عدالت نے ابنِ اللہ کا خون نہ کیا ،بلکہ اپنے قانون کا خون کیا اَور درحقیقت ابنِ اللہ مجرم نہیں تھے بلکہ آپ کے جج مجرم تھے۔یہاں یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ جنرل کونسل کے ارکان کو جلدی کیا پڑی تھی کہ وہ شروع سے آخر تک قانون شکنی سے ذرا نہ جھجکے ؟ اس کی وجہ ہمیں بجز اس کے اَور کوئی نظر نہیں آتی کہ عوام النا س اورہجوم کا مزاج پارہ کی طرح اُوپرنیچے ہوتا رہتاہے۔ چند روز پیشتر یہ لوگ حضرت ابنِ اللہ کے آگے آگے ’’ہوشعنا ‘‘کے فلک شگاف نعرے بلند کررہے تھے اور اب یہی آپ کے خون کے پیاسے ہوگئے تھے۔ آپ کے ججوں کو یہ خوف دامن گیر تھا کہ مبادا ہجوم کو آپ کی نیکی ،ہمدردی اور محبت کےکام، آپ کے معجزات بیّنات او رکلماتِ طیبات یادآجائیں اورپشیمانی سے ان کے جذبات پلٹاکھا کر آپ سے ہمدردانہ روش اختیار نہ کرلیں اوریوں اُن کی محنت اکارت جائے۔ پس اُنہوں نے اپنی خیر اسی میں دیکھی کہ سب کام جلدی سے سرانجام پاجائیں۔ خواہ اس تعجیل کی وجہ سے اُن کو یہودی قانون اورالہٰی شریعت کی’’ الف‘‘ سے لے کر ’’ی ‘‘ تک خلاف ورزی کیوں نہ کرنی پڑے۔
(۶)
ابن اللہ کی گرفتاری کے بعد صدر مجلس اورارکانِ عدالت جمع ہوئے۔ رات کے وقت مقدمہ کی سماعت شروع ہوئی ۔ لیکن مقدمہ کی سماعت کی پہلی منزل میں یہ مشکل آن پڑی کہ حضرت ابنِ اللہ پر کس الزام کی بناء پر مقدمہ چلایا جائے۔ اس میں رَتی بھر شک نہیں کہ یہودی قانون کے مطابق یہ لازم تھا کہ دو گواہ عدالت کو پہلے یقین دلائيں کہ کسی شخص پر مقدمہ چل سکتاہے۔گواہوں کا بیان ہر مقدمہ کی روئیداد کا شروع ہوتا تھا اور جب تک یہ بیان علانیہ طورپر عدالت میں پہلے پیش نہ کیا جاتا اور عدالت کو یہ یقین نہ ہوجاتا کہ مقدمہ چلانا چاہیے، تب تک مقدمہ شروع نہیں ہوسکتا تھا اور قانون کی نگاہ میں شخص مذکور نہ صرف بے گناہ سمجھا جاتا ،بلکہ وہ بے الزام تصور کیا جاتا تھا۔عدالت نے گواہ بلائےاوراُن کو ذیل کے نہایت سنجیدہ الفاظ میں مخاطب کیا گیا:
’’اے گواہ یاد رکھ کہ زندگی اورموت کے اس مقدمہ میں اگر تُو گناہ کررہا ہے، تو ملزم کا خون اوراُس کی اولاد کا خون ہمیشہ کےلئے تیری گردن پر ہوگا۔ آدم اسی لئے اکیلا پیدا کیا گیا تھا کہ تو جان جائے کہ اگر کوئی گواہ اسرائيل میں کسی ایک جان کو تباہ کرتاہے توکتاب مقدس کے مطابق وہ دنیا کو برباد کرتاہے اور اگر وہ اسرائیل میں کسی ایک کی جان بچاتاہے تو وہ دنیا کو بچاتاہے‘‘۔
یہودی قانون کے مطابق کسی شخص پر الزام نہیں لگایا جاسکتا ،تاوقتیکہ دو گواہوں کا حلفیہ بیان متفقہ طورپر پیش ہوکر جج کو یقین نہ دلائے۔ لیکن ابنِ اللہ کے مقدمہ میں یہ مشکل درپیش ہوئی کہ گواہوں کے بیانوں میں تضاد اوراختلاف تھا اور اُن کے بیانوں میں کوئی ایسی متفق علیہ بات نہ تھی ، جس کی بناپر زندگی اورموت کا مقدمہ چلایا جاسکتا۔ بڑی سے بڑی بات جوگواہوں نے کہی یہ تھی کہ ابنِ اللہ نےکہا تھا کہ’’ میں ہیکل کو گرا سکتاہوں اوراس کو تین دن میں کھڑا کرسکتاہوں ‘‘۔ لیکن اس بیان کی بنا پر آپ پر صرف نقص امن کا مقدمہ چل سکتا تھا، نہ کہ ایسا مقدمہ جس کی سزا موت ہو۔ پس قانون کی رُو سے حضرت ابن اللہ شروع ہی سے نہ صرف بے گناہ تھے، بلکہ بے الزام بھی تھے۔
(۷)
جب سردار کاہن کائفا اور عدالت کے ججوں نے دیکھا کہ کام بگڑتا ہے اور بات بنائے نہیں بنتی، تواُنہوں نے یہودی قانون کی دوسری پابندیوں کی باڑ کو اکھاڑ پھینکا اور قانون کی ایک اَور خلاف ورزی کا ارتکاب کیاتاکہ کسی نہ کسی طرح ابنِ اللہ پر مقدمہ چل سکے۔ کائفا نے حضرت ابنِ اللہ سے سوال پوچھنے شروع کئے تاکہ آپ کے جوابات توڑ مروڑ کر آپ کے خلاف کسی ایسے الزام کی بنا تلاش کی جاسکے، جس کی سزا قتل ہو اور یہ اقدام یہودی قانون کے صریحاً خلاف تھا۔ یہودی قانون کی رُو سے آپ کے خلاف مقدمہ کی بنا صرف گواہوں کے بیان ہی سے شروع ہوسکتی تھی اوریہ بناعدالت کو نہیں ملتی تھی۔ لیکن عدالت کے جج اس بات پر تلے ہوئے تھے کہ’’ اُمت کی خاطر اس آدمی کا مرنا بہتر ہے‘‘(یوحنا ۱۸: ۱۵)۔پس اُنہوں نے خود ابن اللہ سےسوال پوچھنے شروع کئے (یوحنا ۱۸: ۱۹) تاکہ آپ کے بیان پر ہی مقدمہ کسی نہ کسی طرح شروع تو ہوسکے۔ لیکن حضرت ابن اللہ اُن کی چال کو تاڑ گئے۔ وہ بخوبی واقف تھے کہ آپ کے جج قانون کی خلاف ورزی اپنے وتیرہ سے کررہے ہیں۔
پس آپ نے خاموشی اختیار کرلی(مرقس ۱۴: ۶۰، ۶۱ وغيرہ)۔لیکن آپ کے دشمن ججوں نے آپ کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ آپ سے سوال پر سوال کرتے گئے(یوحنا ۱۸: ۱۹)۔ تب ابن اللہ نے مہر سکوت توڑی اور آپ نے جو کچھ فرمایا وہ نہ صرف انصاف پر مبنی تھا ،بلکہ یہودی قانون کے تقاضاؤں کےمطابق تھا۔ چنانچہ آپ نے جواب دیا ’’۔۔۔میں نے دنیا سے علانیہ باتیں کی ہیں۔ میں نے ہمیشہ عباد ت خانوں اورہیکل میں جہاں سب یہودی جمع ہوتے ہیں تعلیم دی اور پوشیدہ کچھ نہیں کہا۔ تومجھ سےکیوں پوچھتاہے۔ سننےوالوں سے پوچھ کہ میں نے اُن سے کیا کہا۔ دیکھ اُن کو معلوم ہے کہ میں نے کیا کیاکہا ‘‘ (یوحنا ۱۸: ۲۰، ۲۱)۔ حضرت ابن اللہ نے ان الفاظ میں یہودی قانونِ انصاف کی جانب اپیل کی تھی۔ اس پر آج جج برافروختہ ہوگئے اور یہودی تلملااٹھے اورآپ کو عدالت کے کمرہ میں ججوں کے سامنے طمانچہ مارا گیا ،جو سراسرقانون کے خلاف تھا۔ اس حملہ کے جواب میں آپ نے پھر یہودی قانون کی پنا ہ ڈھونڈی اور دوبارہ انصاف کے خواہاں ہوئے اور فرمایا’’ ۔۔۔اگر میں نے بُراکہا ہے تواس برائی پر گواہی دے اور اگراچھاکہا ہے تومجھے کیوں مارتاہے؟‘‘(یوحنا ۱۸: ۲۳)۔
(۸)
جب عدالت نے دیکھا کہ کچھ بنتا نظر نہیں آتا اور مقدمہ کا آغاز بھی نہیں ہوسکتا تو صدرِ عدالت اورسردار کاہن ایک اَور چال چلا اوریہ چال بھی یہودی قانون کے سراسر خلاف تھی۔ اہل یہود اپنے قانون پر نازاں ہوکر فخریہ کہا کرتے تھے:
’’ ہمارا قانون کسی شخص کو اُس کے اپنے اقبال پر موت کی سزا نہیں دیتا‘‘۔
یہودی قانون کے یہ الفاظ بھی نہایت واضح تھے:
’’ہمارا بنیادی اصول یہ ہے کہ اگر مقدمہ کے دوران میں کسی شخص کے منہ سےکوئی بات نکل جائے تو وہ بات اس کے خلاف استعمال نہیں کی جاسکتی‘‘ ۔
لیکن سردار کاہن نے اب یہ کوشش کی کہ خود حضرت ابن اللہ کے منہ سے کوئی ایسی بات نکلوائے جس کی بنا پر نہ صرف آپ پر مقدمہ چل سکے ، بلکہ آپ کو قتل کی سزا بھی مل سکے۔ اس غرض کو مدِ نظر رکھ کر عدالت کے صدر نے آپ سے ایسے سوال پوچھنے شروع کئے جن کا جواب ابن اللہ کو دئیے بغیر چارہ نہ تھا۔چنانچہ سردار کاہن نے یہودی قانون کے بنیادی اصول کو بالائے طاق رکھ کر آپ سے پوچھا’’ کیا تواس ستودہ کا بیٹا مسیح ہے؟اگرتو مسیح ہے تو ہم سے کہہ دے ‘‘(مرقس۶۱:۱۴)۔ یہ سوال ایسا تھا کہ اس کا جواب ابن اللہ کو ضرور دینا تھا۔ اگر وہ اس کاجواب نہ دیتے تو اپنے مشن کا انکار کرتے۔ پس آپ نے جواب میں فرمایا’’ ہاں میں ہوں اور تم ابن آدم کو قادرِ مطلق کی دہنی طرف بیٹھے اورآسمان کے بادلوں کے ساتھ آتے دیکھوگے‘‘(مرقس۶۲:۱۴)۔ جب سردار کاہن نے دیکھا کہ اس کی چال کارگر ہوگئی ہے تو’’سردار کاہن نے اپنے کپڑے پھاڑ کرکہااب ہمیں گواہی کی کیا حاجت رہی۔ تم نے یہ کفر سنا۔ تمہاری کیا رائے ہے‘‘(مرقس۱۴:۶۳)۔ صدر عدالت کے تمام ارکان یہودی قانون کےبنیادی اصول کو بھول گئے کہ’’ اگر مقدمہ کے دوران میں کسی شخص کے منہ سے کوئی بات نکل جائے جواُس کے خلاف ہو تو وہ بات اس کے خلاف متصور نہیں کی جاسکتی‘‘۔ ’’ہمارا قانون کسی شخص کو اُس کے اپنے اقبال پر موت کی سزا نہیں دیتا ‘‘۔ سردار کاہن کے سوال کے جواب میں اُنہوں نے کہا’’ اب ہمیں گواہوں کی کیا حاجت رہی؟ ہم نے خود اس کےمنہ سے سن لیا ہے‘‘۔ ان سب نے فتویٰ دیاکہ حضرت ابن اللہ قتل کے لائق ہے۔ کیونکہ یہودی قانون کے مطابق کفر کی سزا موت ہے۔
۸۔خداوندمسیح کی صلیبی موت اور رومی قانون
(۱)
سردار کاہن کائفا یہودی تھا جو مسیح موعود کی آمد کی منتظر تھا ۔ پس اُس کا ایک دوسرے یہودی (ابن اللہ) سے یہ سوال کرنا’’ کیا تو خداکا بیٹا مسیح ہے‘‘ ظاہر کرتاہے کہ وہ ابن اللہ پر یہ الزام نہیں لگاتاکہ آپ نے مسیح موعود کی آمد کے متعلق کوئی انوکھی یا نئی تعلیم یا بدعت شروع کی ہے، بلکہ اُس کے سوال کا مطلب یہ ہے’’ کیا تُوہی وہ مسیح ہے جس کی ہماری قوم منتظر ہےاورجس کی پیش خبری ہمارے انبیا نے دی ہے؟‘‘ آپ نے جواب میں فرمایا’’ ہاں میں ہوں‘‘۔ صدر عدالت والے اب اس انتظار میں تھے کہ آپ ان کو اپنا پروگرام بتائیں، جس کے مطابق آپ رومی سلطنت کو برباد کرکے یہودی حکومت کو ازسر نو قائم کریں گے ۔کیونکہ اُن کے خیال میں مسیح موعود کا بس یہی ایک کام تھا۔لیکن صدرعدالت کے سامنے آپ کی زبان مبارک سے ایک لفظ بھی ایسا نہ نکلا جس میں آپ نے دنیوی بادشاہت کا دعویٰ کیاہو۔ یا تلوار کے ذریعہ رومی سلطنت کو مغلوب کرنے کے خیال کا حامل ہو۔ اس کے برعکس آپ نے روحانی دنیا اور الہٰی قربت کا ان کے سامنے ذکر چھیڑا۔ لیکن اگرآپ نے باغیانہ خیالا ت کا ذرا بھی اظہار فرمایاہوتا توآپ پر نہ تو کفر کا فتویٰ صادر ہوتا اورنہ صلیبی موت کی نوبت آتی ،بلکہ سردار کاہن اور صدرعدالت کے ارکان آپ کو اپنے سیاسی اغراض کا آلہ کاربنا لیتے تاکہ آپ کے اثر ورسوخ اور اعجازی قواکے ذریعہ یہودی سلطنت کو از سر نو قائم کریں۔
ابن اللہ کے جواب سے اورآپ کی معنی خیز خاموشی کودیکھ کر صدرِ عدالت والے مایوس ہوگئے ۔ کیونکہ آپ نے اُن کی تمام اُمیدوں پر جو وہ مسیح موعود کی ذات کے ساتھ وابستہ کرتے تھے، پانی پھیر دیا۔ ان کے دل ودماغ میں احیائے قوم کا خیال سمایاہوا تھا اوراگر کوئی امر اس کے حصول کی راہ میں مانع ہوتا تو اس رکاوٹ کو پاؤں تلے بےدریغ روندنے میں اُن کو ذرا باک نہ تھا۔ جب اُنہوں نے دیکھا کہ ابن اللہ کا وتیرہ اُن کے زعم کے مطابق قوم کے مفاد کے خلاف ہے تو اُنہوں نے تہیہ کرلیاکہ بقائے قوم کی خاطر اُس کو قتل کرنا ہی بہتر ہے(یوحنا ۱۱: ۵۰) ۔صدر عدالت کے فتویٰ کے مطابق ابن اللہ نے ’’ کفر بکا‘‘ ،لیکن کیا آپ کا جواب صحائف انبیا کی کتب اوربالخصوص حضرت یسعیاہ نبی کی کتاب کے دوسرے حصہ (ابواب ۴۰تا ۶۶) کے مطابق نہ تھا؟ یہ درست ہے کہ آپ کا ارشاد سردار کاہن اور صدرِ عدالت والوں کے خیالات وجذبات کے منافی تھا ،لیکن کیا محض اس بنا پر وہ’’ کفر‘‘ قرار دیا جاسکتا تھا؟ عدالت کےکسی رکن نے ان باتوں کی تفتیش کرنے کی زحمت گوارا نہ کی اورکتاب مقدس اوریہودی قانون کی ایک اَور خلاف ورزی کرکے آپ کوواجب القتل قرار دے کر رومی سلطنت کے گورنر پیلاطس کے سامنے پیش کردیا۔
(۲)
سردار کاہن کائفا گورنر پیلاطس کے اگلے پچھلے حالات سے واقف تھا اوراُس کو خوب پہچانتا تھا۔ پیلاطس بھی کائفا کے ہتھکنڈوں کو جانتا تھا اور اُس کی چال باز طبیعت سے واقف تھا۔ پیلاطس کو پچھلا ریکارڈ خراب تھا۔ وہ قیصر تبریس کا گورنر اور وائسرائے تھا اور ارضِ مقدس میں ٹھیک اُسی طرح حکومت کے اختیارات رکھتا تھا جس طرح برطانیہ کےبادشاہ کا وائسرائے ہمارے ملک میں رکھتا تھا۔ لیکن اُس نے اپنی حکومت کے دوران میں چند باتیں ایسی کی تھیں جو اُس کے خلاف تھیں۔ مثلاً مشتے نمونہ از خروارے وہ یہودیت کو نفرت کی نگاہوں سے دیکھتا تھا اوریہودی اداروں کا جانی دشمن تھا۔ یہودی مورخ یوسیفس ہم کو بتاتاہے کہ وہ’’ یہودی شریعت کو مٹانے کی خاطر‘‘ فوج کو قیصر یہ سے یروشلیم لے آیا تھا۔ شہر یروشلیم میں ہر قسم کی مورت کا داخلہ موسوی شریعت کے دوسرے حکم کے مطابق ممنوع تھا۔ لیکن وہ رومی پرچم کو اُس کے اندر لے گیا، جس پر قیصر روم کی مورت تھی ۔ اس پر تمام شہر میں غم وغصہ کی لہر دوڑ گئی۔ پیلاطس نے سپاہیوں کوحکم دیاکہ ہجوم کو چاروں طرف سے گھیر لیں۔اہل یہود کی بھیڑوں کی بھیڑیں (ہجو م کے ہجوم)زمین پر لیٹ گئیں اوراُنہوں نے کہا کہ ہمیں موت قبول ہے، لیکن ہم رومی جھنڈے کی مورت سے اپنے شہر کو ناپاک ہونے نہ دیں گے۔ اس پر پیلاطس جھک گیا۔ سردار کاہن کو یہ موقعہ خوب یاد تھا۔ وہ جانتا تھا کہ پیلاطس کو ہجوم کی رائے عامہ کے ذریعہ جھکایا جاسکتاہےاور وہ اس موقعہ پر بھی یہی چال چلا ۔چنانچہ مقدس مرقس لکھتے ہیں:
’’مگر سردار کاہِنوں نے بھیڑ کو اُبھار ا تاکہ پِیلاطُس اُن کی خاطِر برابّا ہی کو چھوڑ دے۔پِیلاطُس نے دوبارہ اُن سے کہا پِھر جِسے تُم یہُودیوں کا بادشاہ کہتے ہو اُس سے مَیں کیا کرُوں ؟ ۔وہ پِھر چِلّائے کہ وہ مصلُوب ہو۔او ر پِیلاطُس نے اُن سے کہا کیوں اُس نے کیا بُرائی کی ہے ؟ وہ اَور بھی چِلّائے کہ وہ مصلُوب ہو۔ پِیلاطُس نے لوگوں کو خُوش کرنے کے اِ ر اد ہ سے اُن کے لِئے برابّا کو چھوڑ دِیا او ر یِسُوع کو کوڑے لگوا کر حوالہ کِیاکہ مصلُوب ہو‘‘(مرقس۱۱:۱۵۔۱۵)۔
اور مقدس لوقا لکھتے ہیں:
’’وہ چلّا چلّا کر سر ہوتے رہے کہ اُسے صلیب دی جائے اوراُن کا چلانا کارگرہوا‘‘(لوقا۲۳: ۲۳)۔
ایک اَور موقعہ پر لوکل سیلف گورنمنٹ کے سوال پر اہل یہود اور پیلاطس میں جھگڑا برپا ہوا تھا۔ اُس نے یروشلیم کے شہر میں پانی کی آمد کا ایسا اچھا انتظام کیا تھا کہ بادشاہ سلیمان کے بعد باوجود ہزار کوششوں کے کوئی نہ کرسکا تھا۔ اس انتظام کے اخراجات کوپورا کرنے کی خاطر اُس نے ہیکل کے خزانہ پر ہاتھ ڈالا۔اس موقع پر تمام شہر میں فساد مچ گیا۔ پیلاطس نے رومی فوج کے سپاہیوں کو حکم دیاکہ یہودیوں کا سالباس پہن کر بلوائیوں میں رل مل جائیں اوراُن کو خنجروں سے موت کے گھاٹ اُتاردیں۔ یوں اُس نے قتل عام اور خون ریزی کے ذریعہ فساد فرو کردیا۔
ان اور دیگر اُمور کی وجہ سے یہودی پیلاطس سے سخت شاکی تھے ۔ پیلاطس بھی باطن میں اپنے پچھلے کارناموں کی وجہ سے ان سے خائف و ہراساں رہتا تھا۔ اُس کے خوف کی وجہ یہ تھی کہ اُس زمانہ میں رومی قانون کی رُو سے رُومی قیصر سلطنت کے ہر شعبہ کا خود مختار سر تھا۔سیاسی ، مذہبی، فوجی اور ریاستی امور سب کے سب اُس کے ہاتھ میں تھےاوروہ جو چاہتا مطلق العنان ہونے کی وجہ سے کرسکتا تھا۔ اگر قیصر چاہتا تو ہر چھوٹے بڑے شخص کو معمولی سے معمولی قصور کے عوض یا صوبہ کی بدانتظامی کی وجہ سے عمر قید یاموت کی سزا دے دیتا تھا۔اگر کہیں قیصر کو یہ اندیشہ ہوجاتا کہ فلاں شخص میرا ’’خیر خواہ‘‘نہیں ہے تو ایسی خطرناک غداری کی سزا بدترین اور سخت ترین موت ہوتی تھی۔ سردار کاہن کائفا اس امر سے بھی بخوبی واقف تھا ۔پس اُس نے نہایت چالا کی سے اس ہتھیار کو بھی پیلاطس کے خلاف استعمال کیا۔ چنانچہ مقدس یوحنا لکھتے ہیں:
’’ یہودیوں نے چلّا کر کہا ۔ اگر تو اس کو چھوڑدیتا ہے تو قیصر کا خیر خواہ نہیں‘‘(یوحنا۱۹: ۱۲)۔
سطورِ بالا سے ناظرین پر ظاہر ہوگیا ہوگاکہ سردار کاہن کائفا اور گورنر پیلاطس کس قماش کے انسان تھے۔ دونوں کا شیوہ چال بازی تھا۔ دونوں حصولِ مقصد اور مطلب براری کی خاطر ہر قسم کی چال چل لیتے تھے ۔عامیانہ(جاہلوں کی) زبان میں دونوں’’ چارسوبیس کھیلنے‘‘ میں مشّاق تھے۔ لیکن دونوں میں سے کائفا زیادہ ہوشیار اورچالا ک تھا۔ ہر ہوشیار شخص کائفا کی سی خوبی کے ساتھ ان شطرنجی چالوں کو نہ چل سکتا۔
اب مقدمہ یہودی عدالت سے رومی عدالت میں منتقل ہوگیا۔ یہودی صدرِ عدالت Sanhedrin کا پریذیڈنٹ سردار کاہن کائفا تھا۔ رومی عدالت کا صدر گورنر پیلاطس تھا۔ جوپری ٹورئیم (Pretorium) میں بحیثیت قیصر تبریُس (جورومی مذہب کا سردار کاہن تھا) کے وائسرائے ہونے کے تخت عدالت پر متمکن تھا۔ یہاں یہ سوال پیداہوتاہے کہ قانون کی نظر میں دونوں عدالتوں کی کیا حیثیت تھی اوران کا باہمی تعلق کیا تھا؟قیصر روم کی حکومت سے پہلے Sanhedrin کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ موت کا فتویٰ صادر کرنے کے بعد خود ہی موت کی سزا بھی دےدے۔ لیکن جب ملک قیصر روم کے ماتحت ہوگیا تو Sanhedrin سے موت کی سزا دینے کا اختیار چھین لیا گیا ۔ کیونکہ ہر یہودی ملزم قیصر روم کی رعیت تھا۔ پس اس کو بحیثیت رعایا ہونے کےیہ حق حاصل ہوگیا تھا کہ قیصر کے نمائندے اور رومی قانون کی پناہ میں ہو۔ یہودی عدالت میں مقدمہ کی سماعت جو کی گئی تھی وہ موت کے فتویٰ صادر ہونے تک Sanhedrin کے اختیار میں تھی، لیکن یہ سماعت فتویٰ کے ساتھ ہی ختم ہوگئی تھی۔ موت کی سزا دینا قیصر روم کے نمائندے کے ہاتھ میں تھا(یوحنا ۱۸: ۳۱)۔
ہم کویادرکھنا چاہیے کہ جب مقدمہ پیلاطس کے سامنے آیا تو وہ Sanhedrin کے فیصلہ کے خلاف اپیل کے طورپر نہیں آیا تھا۔ رومی عدالت کوئی کورٹ آف اپیل (Court of Appeal) نہ تھی اورنہ جناب مسیح نے Sanhedrin کے فیصلہ کے خلاف رومی عدالت میں کوئی اپیل دائر کی تھی۔ لیکن اس کے ساتھ ہی پیلاطس کی حیثیت کسی ایگزیکٹو آفیسر کی سی نہ تھی۔ جس کا کام یہ ہو کہ Sanhedrin کے فیصلہ کو بے چون وچرا پورا کرکے ملزم کو مروا ڈالے۔ پیلاطس کے اختیار میں تھاکہ وہ مقدمہ کی روئیداد کی دیکھ بھال کرے۔ رومی قانون کی رُو سے اُس پر مقدمہ کی نگرانی کرنا لازم تھا۔ ان دونوں عدالتوں کے باہمی تعلقات کی نظیر موجودہ زمانہ میں غالباً ہندوستان کی ہائی کورٹ اورپریوی کونسل کی جوڈیشنل کمیٹی (Judicial Committee of the Privy Council) کے باہمی تعلقات میں پائی جاتی ہے ۔یہ کمیٹی بار بار اس بات پر اصرار کرتی تھی کہ وہ کورٹ آف کریمنل اپیل (Court of Criminal Appeal) نہیں ہے ۔ تاہم اس کو یہ اختیار حاصل تھاکہ وہ اس امر کا خیال رکھے کہ کسی وجہ سے انصاف کا خون نہ ہونے پائے۔
بعینہٖ یہی اختیار پیلاطس کو بھی حاصل تھا۔ اس کے علاوہ اس کو دیگر اختیارات بھی حاصل تھے۔ مقدمہ میں وہ نہ صرف طرفین کے بیان سن سکتا تھا، بلکہ وہ خود ملزم سے سوالات کرکے اصل حقیقت کو معلوم کرنے کا اختیار رکھتا تھا۔ اُس کو یہ اختیار بھی حاصل تھا کہ وہ خود گواہوں کو بلواکر معاملہ کی تہ تک پہنچے۔ وہ یہودی صدر عدالت Sanhedrin کے فیصلہ کو بھی برطرف کرسکتا تھااور سزائے موت کو برطرف کرکے سزا میں تخفیف کرسکتا تھا یا ملزم کو بری قرار دے کر اُس کو آزاد کرسکتا تھا۔
ہم کو یہ امر بھی ملحوظِ خاطر رکھنا چاہیے کہ پیلاطس چیف جج ہونے کے علاوہ گورنر اورحاکم بھی تھا اور صوبہ کے امن عامہ کے تحفظ کا ذمہ دار تھا۔اُس کا نہ صرف یہ کام تھا کہ عدالت کی کرسی پر بیٹھ کر انصاف کرے ،بلکہ اُس کا یہ بھی فرض تھا کہ صوبہ کا بہترین طورپر انتظام کرے۔ وہ نہ صرف چیف جسٹس تھا،بلکہ لاء اور آرڈر(Law & Order) کا ہیڈ تھا۔ موجودہ زمانہ میں اس کی مثال کسی ضلع کے ڈپٹی کمشنر کی سی ہے، جو نہ صرف ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ہوتاہے بلکہ ضلع کا ایگزیکٹو افسر بھی ہوتاہے۔ پیلاطس کی ذات میں جوڈیشری اور ایگزیکٹو (Judiciary & Executive) اختیارات دونوں جمع تھے۔ پس اس کا یہ کام تھا کہ وہ نہ صرف ملزم کے ساتھ انصاف کرے ،بلکہ اگر وہ مقدمہ میں کسی قسم کی خامی دیکھے تواُس کو یابری کردے یا سزا میں تخفیف کردے اور امن عامہ کو سامنے رکھ کر ملزم کی حفاظت کی تدابیر کو عمل میں لائے تاکہ وہ مقامی مفسدوں سے رومی قانون کی پناہ میں رہے۔لیکن ان حفاظتی تدابیر سے پہلے ضروری تھاکہ پیلاطس مقدمہ کی تہ تک پہنچ کر دریافت کرے کہ آیا ملزم بے گناہ ہے یا نہیں اوراگریہ ثابت ہوجائے کہ وہ بےقصور ہے تواُس کو بری کردے ،ورنہ اُس کی موت رومی سلطنت کے انصاف کے دامن پر نہ مٹنے والے خون کا دھبا ہوگی۔
(۴)
مبارک جمعہ کے روز جب پیلاطس عدالت کی کرسی پر بیٹھا تویہودیوں کی طرف سے سردار کاہن کائفا ’’ابن اللہ‘‘ کو مجرم قرار دے کر اُس کے سامنے لایااور درخواست کی کہ اس کو فوراً سزائے موت دی جائے ،کیونکہ اُن کی عید فسح کی صبح ہے۔ اس پر پیلاطس چوکنا ہوگیا۔ اُس کے دل میں یہ سوال پیدا ہواکہ اس کے پاس دستور کے خلاف عیدِ فسح کے دن جب یہودی قانون کے مطابق اس قسم کی کارروائی کرنا منع تھی، ایک ایسا مقدمہ کیوں لایا گیا ہے جس میں ملزم کو مستوجبِ قتل قرار دیاگیاہے اور سردار کاہن نے کیوں یہ درخواست کی ہے کہ اُس کو فوراً سزا دی جائے اورمقدمہ کی روئیداد یہودی قانون اور دستور کے خلاف کیوں عید سے پہلے کی شام کو مکمل کی گئی۔ جب یہودی قانون کے الفاظ واضح ہیں کہ ’’ اس قسم کے مقدمہ کی سماعت سبت سے پہلے کی شام کو یاکسی عید تہوار سے پہلے کی شام کو نہ ہو‘‘۔
علاوہ ازیں مقدمہ کی سماعت کے دوران میں اس کو معلوم ہوگیاکہ Sanhedrin نے یہودی شریعت وقانون کی سب پابندیوں کو بے دریغ توڑا ہے ۔ پس اُس نے تہیہ کرلیا کہ وہ اصل معاملہ کو معلوم کرکے انصاف کرے گا۔ اناجیل کے بیان کے مطابق مقدمہ کے دوران میں اُس نے ہر طرح سے کوشش کی کہ وہ انصاف کو مدِنظر رکھ کر اپنا فیصلہ دے۔ اُس کو بحیثیت جج اور گورنر ہونے کے نہ صرف اپنے فرائض کا احساس تھا، بلکہ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ وہ قیصر روم کے پاس اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کا جواب دہ ہے۔ پیلاطس کے ذہنی فیصلہ کو اُس نظارہ سے بھی تقویت ملی جو اُس کی آنکھوں کے سامنے تھا۔ایک طرف یہودی ہجوم کا بے پناہ جوش وخروش اور سردار کاہن جیسی مقتدر ہستی کا ہونا اور دوسری طرف ایک بےکس ولاچار اور بے یار تن تنہا ملزم جس کا نہ کوئی دوست تھا اور نہ صفائی کا گواہ جواس آڑے وقت میں اُس کے کام آتا۔ لیکن پیلاطس یہ بھی دیکھتا تھاکہ ملزم پر یہودی ہجوم کے جوش کا کوئی اثر نظر نہیں آتا تھااور نہ اس کے چہرے پر ہوا ئیاں اڑتی تھیں۔ وہ نہایت اطمینان اورشانتی کے ساتھ کھڑا تھا۔ بھیڑ کے لوگ اُس پر آوازے کستے تھے ،لیکن وہ سکون سے سب دل خراش باتیں سنتا تھا اور صبر اور محبت سے برداشت کئے جاتا تھا۔ ان حالات میں یہ ناممکن اور غیر فطرتی بات ہوتی اگرجج کی ہمدردی ملزم کے ساتھ نہ ہوتی۔ پیلاطس نے مصمم ارادہ کرلیاکہ وہ ملزم کے ساتھ انصاف برتے گا۔
(۵)
گورنر پیلاطس سردار کاہن کائفا کے ہتھکنڈوں سے واقف تھا۔ اُس نے بھانپ لیا کہ وہ ہجوم کو اس غرض سے اپنے ہمراہ لایا ہے کہ پہلے کی طرح اُس کومرعوب کرلے۔ پس اُس نے سردار کاہن کو تُرشی سے مخاطب کرکے پوچھا’’تم اُس پر کیا الزام لگاتے ہو؟‘‘ سردار کاہن نے گستاخانہ جواب دیا۔ ’’اگر یہ قصور وار نہ ہوتا تو ہم کو کیا ضرورت پڑی تھی کہ اس کو آج کے دن تیرے پاس لاتے‘‘(یوحنا۳۰،۲۹:۱۸)۔ سردار کاہن کے جواب سے (جودرحقیقت نہ کوئی ثبوت تھا اور نہ کوئی الزام تھا) پیلاطس کو معلوم ہوگیا کہ ملزم کے خلاف درحقیقت کوئی الزام نہیں ہے۔ انجیلی بیان سے معلوم ہوتاہے کہ سردار کاہن کو پیلاطس کی عدالت میں بھی وہی مشکل درپیش آئی جو اس کو اپنی عدالت میں پیش آئی تھی ۔ یعنی’’ ابن اللہ‘‘ کے خلاف کوئی خاص الزام نہیں لگا تھا جو کسی عدالت میں مقدمہ کی بنا ہوسکتا ہو۔ پس سردار کاہن ایک نئی چال چلا۔ اُس نے ابن اللہ پر تین الزام لگادئيے جن کا اُس کی اپنی عدالت میں ذکر تک نہ ہوا تھا اور نہ ان کی بناپر آپ پر موت کا فتویٰ لگایا گیا تھا۔ اُس نے کذب بیانی کرکے گورنر کو کہا کہ ہماری عدالت نے تین اُمور کی بنا پر اس کو واجب القتل قرار دیا۔
(۱) یہ شخص قوم یہود کو بہکاتاہے۔ وہ تمام یہودیہ میں بلکہ گلیل سے لے کر یروشلیم تک لوگوں کو سکھا سکھا کر اُبھارتا ہے۔
(۲) وہ قیصر کو خراج دینے سے منع کرتاہے۔
(۳)وہ اپنے آپ کو یہودیوں کا بادشاہ مسیح کہتاہے(لوقا ۲۳: ۲تا ۵)۔
جب سردار کاہن ابن اللہ پر الزام لگا چکا تو پیلاطس نے مقدمہ کی تفتیش شروع کردی۔ سردار کاہن نے گواہ پیش کئے، لیکن ملزم نے نہ تو گواہوں کی جرح کی اور نہ اُن کی گواہی سے مرعوب ہوکر ہراساں ہوا۔بلکہ رُعب آمیز خاموشی سے چپکا اُن کے الزام اور بیانات سنتا رہا۔ جج کے دیکھنے میں ایسی بات کبھی نہ آئی تھی۔ وہ ابن اللہ کے وتیرہ سے حیران اور ششدر رہ گیا (متی ۲۷: ۱۴)۔مقدمہ کی سماعت کے دوران میں گواہوں کی شہادت نے پیلاطس پریہ ظاہر کردیاکہ ابن اللہ کے خلاف درحقیقت کوئی ٹھوس الزام نہیں ہے، جس کی بنا پر اس پر مقدمہ چل سکے۔ کیونکہ پہلا الزام کہ ابنِ اللہ قوم کو گمراہ کرتے رہے ہیں، صریحاً مذہب کے ساتھ تعلق رکھتا تھا جس کا نہ تو سیاسیات کے ساتھ کوئی واسطہ تھا اورنہ اُس کی سزا قتل تھی۔ دوسرا الزام کہ ’’ابن اللہ‘‘ قیصر کو خراج دینے سے منع کرتے تھے، بے سروپا تھا۔ کیونکہ گواہوں کی شہادت ثابت کرتی تھی کہ اس قسم کا الزام آپ کی تعلیم اورعم دونوں کے خلاف ہے۔
پیلاطس یہ بھی جانتا تھا کہ اگر اس الزام میں کچھ صداقت ہوتی تو سردار کاہن ’’ابن اللہ‘‘ کو موردِ الزام نہ گردانتا اورنہ آپ کو رومی عدالت میں پیش کرتا اور یہ بات سچ بھی تھی۔ کیونکہ اگر ’’ابن اللہ ‘‘فی الحقیقت باغی ہوتے توجیسا ہم کہہ چکے ہیں رؤسائے یہود آپ کو اپنے سیاسی اغراض کا آلہ کار بنالیتے۔ آپ سے اگر اُن کو کوئی شکایت تھی تویہ تھی کہ آپ رومی سلطنت سے بغاوت کی تلقین نہیں کرتے تھے۔ سردار کاہن نے اپنے حصولِ مطلب کےلئے آپ پریہ الزام تولگادیا کہ آپ باغی خیالات کے انسان ہیں، لیکن درحقیقت اُن کی شکایت یہ تھی کہ آپ باغی نہیں۔ پیلاطس بھی اس رمز کو بھانپ گیا۔ پس اُس نے یہ فیصلہ دیا کہ یہ دوسرا الزام بھی ثابت نہیں۔تیسرا الزام نہایت سنگین تھاکہ آپ نے بادشاہ ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ چاروں اناجیل اس بات پر متفق ہیں کہ پیلاطس نے اس سنگین الزام کی اچھی طرح تفتیش کی۔ اُس نے ابن اللہ سے پوچھا’’کیا تویہودیوں کا بادشاہ ہے؟‘‘ آپ نے جواب میں فرمایا’’تو خود کہتاہے‘‘، جس کا یہودی قانون کے مطابق یہ مطلب تھا کہ تواپنے قول کو ثابت کر، گواہوں کو طلب کر اور تصدیق کرلے۔ چونکہ معاملہ سنگین تھا ،پیلاطس پر لازم ہوا کہ وہ اس بات کی تہ کو پہنچے ۔ پس وہ آپ کو اندر پری ٹوریئم میں لے گیا تاکہ خلوت میں اصل حالات کو دریافت کرے۔ عید فسح کی صبح ہونے کی وجہ سے سردار کاہن اوریہود ناپاک ہوجانے کے خدشہ سے اندر نہ گئے۔ وہا ں قلعہ کے اندر خلوت میں جج او رملزم کے درمیان جو گفتگو ہوئی ،وہ دنیا کے مشہور مقدمات میں اپنی نظیر نہیں رکھتی۔ چنانچہ مقد س یوحنالکھتے ہیں کہ پیلاطس نے پوچھاکہ کیا تویہودیوں کا بادشاہ ہے۔ یسوع نےجواب دیا میری بادشاہت دنیا کی نہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ اگر میری بادشاہت دنیا کی ہوتی تومیرے خادم لڑتے۔ پیلاطس نے اُس سے کہاکیا تو بادشاہ ہے؟ یسوع نے جواب دیا میں اس لئے پیداہوا ہوں اور اس لئے دنیا میں آیاہوں کہ حق کی گواہی دوں ۔جو کوئی سچائی کا ہے وہ میری آواز سنتا ہے ۔ پیلاطس نے اُس سے کہا سچائی کیاہے؟(یوحنا۱۸: ۳۳۔ ۳۸)۔ انجیل کے الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ اس خلوقی ملاقات میں گورنر نے اپنی حکومت اور اختیار کو برطرف کرکے ’’ابن اللہ‘‘ سے سوال کئے اورآپ نے اس کو عقیل وفہیم رومی اور فراخ نظر انسان خیال کرکے جواب دئیے۔ آپ نے اس کو عالم بالا کی ایک نئی دنیا کا نظارہ دکھایا جو اب تک اُس کی نظروں سے اوجھل رہا تھا۔
آپ نے فرمایاہاں میں بادشاہ ہوں، لیکن اس دنیاکی بادشاہی کا دعوےدار نہیں ہوں۔ ایک اَور دنیا ہے جو دنیائے حق ہے ۔میں اس کا تاج دار ہوں اور جو حق کی پیروی کرتاہے ،وہ میرا غلام ہےاور میں اس کا آقاہوں۔ اس جواب سے پیلاطس پر یہ بات عیاں ہوگئی کہ ابن اللہ قیصر روم کے رقیب یا حریف نہیں ہیں اور دنیوی سلطنت کا خیال بھی آپ کے دل میں کبھی نہیں آیا۔ کیونکہ اگر آپ باغی ہوتے تو ظاہر ہے کہ آپ کے پیرو آپ کی خاطر جنگ اور خون ریزی کرتے اور آپ اس بے سروسامانی کی حالت میں نہ ہوتے۔ اس نے سوچا کہ ملزم سچ کہتاہے اوراُس نے یہ کہا بھی ہے کہ’’ میں سچ کی گواہی دیتاہوں اور جو کوئی سچائی کا ہے وہ میری پیروی کرتا ہے‘‘۔ ان الفاظ نے جج کو متاثر کردیا۔ پیلاطس کے خیالات نے ایسی فضا میں پرورش پائی تھی جو قیصر تبریس کے دربار کی تھی۔ جہاں کوئی شخص رومی مذہب کے بُتوں کا قائل نہ تھا جو امرائے دربار کی نظر میں بے حقیقت تھے۔
رؤسائے سلطنت کا اصل مذہب حب الوطنی اورامپیریل ازم (Imperialism) کی پرستش تھا۔ قیصر روم جو سلطنت کی عظمت کا زندہ نشان تھا، حقیقی دیوتا تھا جس کی سب چھوٹے بڑے پرستش کرتے تھے۔ جو شخص قیصر پرستی نہیں کرتا تھا وہ سلطنت کا دشمن اور غدار تصور کیا جاتا تھا۔ لیکن اس قسم کی پرستش انسان کی روح کو اُوپر نہیں اٹھاسکتی اورنہ اس کے روحانی تقاضاؤں کی پیاس کو بجھا سکتی ہے۔ ابن اللہ نے پیلاطس کو فرمایا تھا کہ میرا پیدائشی حق ہے کہ میں حق اور سچائی کی سلطنت کا تاج دار ہوں اور میری آمد کا مقصد ہی یہ ہے کہ دنیا کو حق کی طرف دعوت دوں۔ پیلاطس دل میں سوچتا تھا کہ آخر یہ حق کیا چیز ہے؟ سچائی کس کو کہتے ہیں؟ جس کی اس شخص کے مطابق پیروی کرنی ہر انسان پر لازم ہے ، تاکہ اس کی روح اس مادی دنیا سے بالا تر ہوسکے۔ یہ نئی تعلیم کیا ہے جو یہ شخص دیتاہے۔ اگر اس نئی تعلیم میں سچائی ہے تو وہ سب پُرانے خیالات جن میں میری پرورش ہوئی ہے ،باطل ہیں۔
بہرحال اس نئی تعلیم کا بغاوت کے ساتھ کسی قسم کا تعلق نہیں اور نہ یہ تعلیم رومی سلطنت کے قانون کے خلاف ہے۔ملزم محض ایک خواب بین ہے جس نے حق کے اصول کو اپنی عملی زندگی کی روشنی بنارکھاہے۔وہ اپنے حق کے اصول کی خاطر جان دینے کو بھی تیار ہے۔ ایسے شخص کا خون کرنا عدل اور انصاف کا خون کرنا ہے اوریہ ایک ایسی بھیانک بات ہے کہ میں اس کا ہرگز مرتکب نہ ہوں گا۔ ’’پس پیلاطس یہودیوں کے پاس پھر باہر گیا اوراُن سے کہا کہ میں اس کا کچھ جرم نہیں پاتا‘‘(یوحنا ۱۸: ۳۸وغیرہ)۔رومی عدالت میں مقدمہ ختم ہوگیا۔ چیف جسٹس نے حکم سنا دیا۔’’میں اس کا کچھ جرم نہیں پاتا‘‘۔ رومی سلطنت کے قوانین کے مطابق ’’ابنِ اللہ‘‘ بری قرار پائے۔
۹۔منجیٔ عالمین کی صلیبی موت اور مسئلہ تقدیر
ایک صاحب لکھتے ہیں:’’ آپ نے اپنی کتاب (دین فطرت ۔اسلام یا مسیحیت؟) میں لکھاہے کہ قرآنی آیات میں نہایت واضح طورپر قسمت اور تقدیر کو مانا گیا ہے، لیکن انجیل تقدیر کی قائل نہیں۔ اگر یہ درست ہے تو مسیح کے اس قول کا کیا مطلب ہے کہ ’’ابنِ آدم توجیسا اُس کے حق میں لکھا ہے، جاتاہی ہے، لیکن اُس آدمی پر افسوس جس کے وسیلہ سے ابنِ آدم پکڑوایا جاتاہے۔ اگر وہ آدمی پیدا نہ ہوتا تو اُس کےلئے اچھا ہوتا‘‘(متی ۲۶: ۲۴)۔ جواباً عرض ہے کہ
اس دنیا میں دو قسم کےانسان ہوتے ہیں۔ایک قسم کے آدمی وہ سعید انسان ہیں جو ہر حالت میں مشیتِ ایزدی اورنیکی کی پیروی کرنا چاہتے ہیں۔ دوسری قسم کے آدمی کج رو،بدکار ، بدمعاش اور ستم شعار (جسے ظلم کرنے کی عادت ہو)ہوتے ہیں ،جن میں بدی اور شرارت فطرتِ ثانی بن چکی ہے۔ پہلی قسم کے انسان نہایت حوصلہ مندی اور استقلال سے اپنی زندگی کے ہر شعبہ میں صرف اُن اُمور کو سرانجام دینا چاہتے ہیں جو رضائے الہٰی کے مطابق ہوتے ہیں۔ اُن کو اس بات کی مطلق پروا ہ نہیں ہوتی کہ خدا کی مرضی کو پورا کرنے میں اُن کو بدی کی طاقتوں سے ناسازگار حالات سے اور غیر موافق ماحول سے جان توڑ مقابلہ کرنا پڑےگا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ہرچہ باداباد‘‘(جو ہو سو ہو۔کچھ ہی کیوں نہ ہو) ہم خدا سے توفیق حاصل کرکے ہر قسم کی رکاوٹ پر غالب آئیں گے۔ اُن کو اس بات کی رتی بھر پرواہ نہیں ہوتی کہ عوام الناس اُن کے خلاف ہیں یا حکومت اوربادشاہ ان کے خلاف پرے باندھے ہیں۔ اُن کو اپنے انجام کا بھی مطلق خیال نہیں ہوتا۔ایسے مستقل مزاج سعید انسان روزانہ دیکھنے میں نہیں آتے ،بلکہ کروڑوں آدمیوں میں کبھی کبھار نظر آتے ہیں اوریہی انسان درحقیقت زمین کا نمک اور دنیا کا نور ہوتے ہیں۔
جب اس قسم کے انسان بے دھڑک ہوکر نیکی کی راہ پر چلتے ہیں تواُن کا کج رَوبدکرداروں کے ساتھ تصادم ہوجانا ایک قدرتی ،لازمی اور اٹل بات ہوجاتی ہےاور ہر شخص جس میں ذرا بھی سوجھ بوجھ ہے بے تامل کہہ دیتاہے کہ سعید اور صالح انسان کی زندگی دکھ اور مصیبت کا ایک لامتناہی سلسلہ رہےگی۔اگر اس نے بدی کی طاقتوں سے رواداری اختیار نہ کرلی تواُس کے حق میں اچھا نہ ہوگا ،بلکہ اس کا انجام بربادی اور موت ہوگا۔ اس قول سے اس کا مطلب یہ نہیں ہوتاکہ صالح آدمی کی قسمت اور تقدیر میں یہ لکھا ہے کہ اُس کا انجام موت ہے ،بلکہ اُس کا مطلب یہ ہوتاہے کہ دنیا کے موجودہ حالات میں جب نیکی اور بدی کی طاقتوں کی آپس میں ٹکر ہوجاتی ہے تونیک انسان کو اپنے اصولوں پر ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی وجہ سے مخالفت، بدسلوکی، اذيت ، مصیبت اور موت کا سامنا کر نا پڑتاہے۔
(۲)
اس قسم کے صالح انسانوں کی مثال ہم کو انبیائے عظام کی زندگیوں میں نظر آتی ہے۔ چنانچہ حضرت کلمتہ اللہ کا ارشاد ہے’’ کوئی نبی اپنے وطن میں عزت نہیں پاتا‘‘(لوقا۴: ۲۴)،’’ لوگوں نے نبیوں کو ستایا‘‘(متی ۵: ۱۲)،’’ تم نبیوں کے قاتلوں کے فرزند ہو‘‘(متی ۲۳: ۳۲)،’’ اے یروشلیم تو نبیوں کو قتل کرتی ہے۔اَورجوتیرے پاس بھیجے گئے اُن کو سنگسار کرتی ہے‘‘(متی ۲۳: ۳۷)۔ ابن اللہ نے انبیائے یہود کی زندگیوں سے یہ سبق سیکھا تھا کہ جو شخص رضائے الہٰی کو اپنا کھانا اورپینا سمجھتاہے اور بے خوف وہراس خدا کی مرضی کو اُس کے بندگان پر کما حقہ‘ ظاہر کرتاہے ۔اُس کی زندگی پھولوں کی سیج ہونے کی بجائے ایک پُر خطر راہ ہوتی ہے،جو کانٹوں سے بچھی ہوتی ہےاورموت اور قتل اُس کا انجام ہوتاہے۔ انجیل جلیل کا مطالعہ ہم پر ظاہر کردیتاہے کہ حضرت کلمتہ اللہ نے یسعیاہ نبی کے دوسرے حصہ(ابواب چالیس تا آخر) کا بخوبی غور اور تدبر کے ساتھ مطالعہ کیا تھا۔ آپ ان تمام مقامات کا اطلاق اپنے اوُپر کرتے تھے جن میں’’ خدا کے راستباز خادم‘‘ کا ذکر آتاہے۔ آپ کو بخوبی علم تھا کہ آپ کا اُس راستباز خادم کا حشر ہوگا یعنی اُس برّہ کا ساہوگا’’ جسے ذبح کرنے کو لے جاتے ہیں‘‘اورآپ کو’’ اپنی جان موت کےلئے انڈیل‘‘دینی پڑےگی۔
حضرت یوحنا بپتسما دینے والے کا نمونہ آپ کی نظروں کے سامنے تھا، جس کو راستبازی پر عمل کرنے کی خاطر اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑے تھے(متی ۱۴باب)۔آپ نے اپنی سہ سالہ تبلیغی خدمت کے دوران میں اس ٹکر کا نتیجہ خود دیکھ لیا تھا اور فریسیوں ، فقیہوں ، ربیوں ، کاہنوں اور سردار کاہنوں بلکہ بادشاہ ہیرودیس سے بھی مخالفت سہیڑلی تھی(لوقا ۱۳: ۳۱، ۳۲؛ مرقس ۲: ۶؛ ۱۶: ۱۸، ۲۴؛ ۳: ۶، ۳۰؛ ۷: ۱۔ ۱۳؛ ۸: ۱۱، ۱۵ وغيرہ)۔
آپ کو دُور ہی سے موت اور صلیب نظر آرہی تھی۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ سردار کاہن نے صدر عدالت کے لوگوں کو جمع کرکے کہا’’ تمہارے لئے یہی بہتر ہے کہ وہ مارا جائے ۔۔۔ اور وہ اُسی روز سے اُسے قتل کرنے کا مشورہ کرنے لگے‘‘(یوحنا ۱۱باب) ۔دریں حالات آپ نے بار بار اپنے حواریوں سےکہا’’ ضرور ہے کہ ابن آدم بہت دکھ اٹھائے اور بزرگ اور سردار کاہن اور فقیہہ اُسے ردکریں اور وہ قتل کیا جائے ‘‘ اور سب سے کہا’’ اگر کوئی میرے پیچھے آنا چاہے تو اپنی خودی سے انکار کرے اورہرروز اپنی صلیب اٹھا کر میرے پیچھے ہولے کیونکہ جوکوئی اپنی جان بچانا چاہے وہ اُسے کھوئےگااورجوکوئی میری خاطر اپنی جان کھوئے وہی اُسے بچائےگا ۔آدمی اگر ساری دنیا کو حاصل کرلے اور اپنی جان کو کھودے یااُس کا نقصان اٹھائے تواُسےکیا فائدہ ہوگا‘‘(لوقا ۹: ۲۲)۔
ان ارشادات میں حضرت کلمتہ اللہ نے ایک اٹل اخلاقی قانون اور روحانی حقیقت کا بیان کیاہے کہ ہر شخص کو جورضائے الہٰی کوپورا کرناچاہتاہے آفات ومصائب اور بالآخر موت کا سامنا کرنے کےلئے تیار رہنا چاہیے (مرقس ۱۳: ۹ وغيرہ)۔ جس طرح بیرونی کائنات اور نظامِ شمسی کے لاتبدیل قانون ہوتے ہیں، اسی طرح یہ بھی اخلاقی دنیا کا ایک اٹل قانون ہے۔اسی واسطےمقدس نوشتوں میں یہ لکھا بھی ہے اور منجیٔ عالمین اسی قانون کی طرف اشارہ کرکے فرماتے ہیں کہ’’جس طرح مقدس نوشتوں میں لکھا ہے ابن آدم توجاتا ہی ہے‘‘۔ اس کا مسئلہ تقدیر سے دُور کا واسطہ بھی نہیں ہے، کیونکہ ہر شخص کی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ رضائے الہٰی کی پیروی کرے ۔ اس میں کوئی جبر واکراہ نہیں۔ لیکن اگر وہ رضائے الہٰی کی پیروی کرنے کا فیصلہ کرےگا تو اخلاقی دنیا کے قانون کے مطابق اس کا نتیجہ موت اور قتل ہوگا۔ اگر وہ شیطان کی پیروی کرےگا تواسی اخلاقی دنیا کے اٹل قانون کے مطابق ا س کا نتیجہ روحانی موت اور خدا سے دوری ہوگا۔
پس اخلاقی دنیا کے ان قوانین کے ماتحت خداوند نے فرمایا’’ ہم یروشلیم کو جاتے ہیں۔ ابنِ آدم سردار کاہنوں اور فقیہوں کے حوالہ کیا جائےگا اور وہ اُس کے قتل کا حکم دیں گے اوراُسے غیر قوموں کے حوالہ کریں گےاور وہ اُسے ٹھٹھوں میں اڑائیں گے اوراُس پر تھوکیں گے۔ اُسے کوڑے ماریں گے اور قتل کریں گے‘‘(مرقس ۱۰: ۳۳)۔ایک اور جگہ یوں مرقوم ہے’’ وہ اپنے شاگردوں کو تعلیم دیتا تھا کہ ابن آدم آدمیوں کے حوالہ کیا جائے گا اور وہ اُس کو قتل کریں گے‘‘(مرقس ۹: ۳۱)اورپھر تاکید کرکے آپ نےفرمایا’’تمہارے کانوں میں یہ باتیں پڑی رہیں کیونکہ ابن آدم آدمیوں کے ہاتھ میں حوالہ کئے جانے کو ہے۔ لیکن وہ اس بات کو نہ سمجھتے تھے‘‘(لوقا ۹: ۴۴) پر ابن اللہ چاہتے تھے کہ آپ کے رسول اس اخلاقی قانون اور روحانی حقیقت کو اچھی طرح سمجھ جائیں، کیونکہ اُن کو بھی انہی مزاحمتوں سے واسطہ پڑنے والا تھا(متی ۲۴: ۸تا ۱۳وغیرہ)۔لہٰذااپنی ظفریاب قیامت کے بعد بھی آپ نے اپنے شاگردوں سے فرمایا’’ اے نادانواورنبیوں کی سب باتوں کے ماننے میں سست اعتقادو۔ کیا مسیح کویہ دکھ اٹھا کر اپنے جلال میں داخل ہونا ضرور نہ تھا؟‘‘(لوقا ۲۴: ۲۶)۔آیۂ شریفہ میں زیرِبحث ہے خداوند فرماتے ہیں کہ’’ ابن آدم توجاتاہے ہی ہے‘‘۔یہاں جیسا ہم اوپر ذکرکرچکے ہیں قسمت اور تقدیر کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جب ہم ان الفاظ کا اصلی مطلب معلوم کرتے ہیں تو یہ بات اور بھی واضح ہوجاتی ہے۔ مقدس یوحنا انجیل چہارم میں ان الفاظ کا مطلب ہم کو بڑی تفصیل کے ساتھ سمجھاتے ہیں(۷: ۳۳؛ ۸: ۱۴، ۲۱؛ ۱۳: ۳، ۳۳، ۳۶؛ ۱۴: ۴تا ۸، ۲۸؛ ۱۶: ۵، ۱۰، ۱۶تا ۲۲وغیرہ)۔ ان آیات بیّنات کی روشنی میں ہم کو پتہ چلتاہے کہ ابن اللہ کو اپنے’’ جانے‘‘ کا غم یا افسوس نہ تھا۔ آپ نے فرمایا’’ میں بھیڑوں کےلئے اپنی جان دیتاہوں۔ باپ مجھ سے اس لئے محبت رکھتا ہے کہ میں اپنی جان دیتاہوں۔ کوئی اُسے مجھ سے نہیں چھینتا بلکہ میں اُسے آپ ہی دیتاہوں ۔مجھے اُس کے دینے کا بھی اختیار ہے اوراُسے پھر لینے کا بھی اختیار ہے‘‘(یوحنا ۱۰: ۱۵تا ۱۸)۔ پس یہاں تقدیر اورمجبوری کےلئے کوئی جگہ نہیں۔ بلکہ منجیٔ عالمین فاعل خود مختار ہونے کی حیثیت سے برضاورغبتِ خود موت کے پیالہ کو پیتے ہیں(یوحنا ۱۸: ۱۱)۔بلکہ آپ فرماتے ہیں کہ آپ نہایت ذوق وشوق سے موت کے منتظر ہیں’’ مجھے ایک بپتسما لینا ہے اورجب تک وہ نہ ہولے میں کیا ہی تنگ رہوں گا‘‘(لوقا ۱۲: ۵۰؛ متی ۲۰: ۲۸؛ فلپیوں ۲: ۸ وغیرہ)۔’’ میں اسی مقصد کے لئے آیاہوں کہ اپنی جان بہتیروں کےبدلے فدیہ میں دوں‘‘۔
(۳)
یہ ظاہرہے کہ اخلاقی دنیا کے قانون اور مذکورہ بالا روحانی حقیقت کے مطابق ابنِ اللہ کی تبلیغی مساعی اور زندگی کا انجام صلیب اور موت تھی تو ان اسباب کو فراہم کرنے کے لئے کسی نہ کسی وسیلہ کا ہونا بھی لازمی امر تھا۔ یہ وسائل کیا تھے؟ یہ وہی دوسری قسم کے کج رو، بدکردار انسان تھے جو اپنی ہوا وہوس اور خود غرضانہ اُمور کو پورا کرنے کی خاطر نیکی کی طاقت سے ٹکر لیتے ہیں۔ وہ اہل یہود کے بزرگ، فریسی اور فقیہ تھے۔ اُن کے کاہن اور سردار کاہن بھی اُن کے ساتھ شامل تھے۔ گورنر پیلاطس بھی اُن کا شریک تھا ۔یہودی عوام بھی اس جماعت میں شامل تھی جوگورنر کے سامنے چلّا چلّا کر کہتے تھے’’اسے صلیب دے صلیب ۔ اس کا خون ہم پر اور ہماری اولاد کی گردن پر ہو‘‘۔ اس تمام جماعت کا آلۂ کار یہود اہ غدار تھا(مرقس ۱۴، ۱۵ باب )۔لیکن یہ ظاہر ہے کہ اگر جناب مسیح کو روحانی دنیا کے قانون کے مطابق شہید ہونا ہی تھا توکسی نہ کسی شخص کو آلہ کار ضرور ہونا تھا۔ اگریہوداہ اسکریوتی نہ ہوتا تو وہ کسی اَور آلہ کار کی تلاش کرلیتے۔ یہ محض سُوئے اتفاق تھا کہ یہوداہ نے جو آپ کے بارہ حواریوں میں سے تھا اس فعل بدکو اپنے ذمہ لے لیا۔ یہ اس کی قسمت میں نہیں لکھا تھا کہ وہ آپ کو پکڑوائےگا اورنہ یہ بات ابنِ اللہ کی تقدیر میں لکھی تھی کہ آپ اپنے ایک حواری کے ہاتھوں پکڑوائے جائیں گے۔ بلکہ حالات ہی ایسے پیداہوگئے تھے کہ یہوداہ آپ کا پکڑوانے والا بنا۔
آپ یہوداہ پر افسوس کرکے فرماتے ہیں’’ میرا پکڑوانے والا میرے ساتھ طباق میں ہاتھ ڈالے ہے۔ اس شخص پر افسوس ہے کیونکہ اس کے وسیلہ ابن آدم پکڑوایا جارہاہے‘‘۔ اگرآپ کو افسوس تھا تواپنے حواری کی بے وفائی پر جس نے آپ کی محبت اور گزشتہ خدمت کو پیٹھ پیچھے پھینک کر فراموش کردیا تھا اوراب منافقانہ رویہ اختیار کرکے آپ کے ساتھ ایک ہی طباق میں کھانا کھارہا تھا اور مشرقی وضع داری کو بھی بالائے طاق رکھ کر غداری کے خیالات کو اپنے دل میں پال رہا تھا ۔ جناب مسیح فرماتے ہیں’’اگر وہ پیدا نہ ہوتا تواُس کےلئے اچھا ہوتا‘‘ کیونکہ اُس نے نیکی اور بدی کی جنگ میں نیکی کا ساتھ چھوڑ کر بدی کو برضاورغبت ِخوداختیار کرکے اپنے لئے روحانی موت حاصل کرلی۔ جناب مسیح اس سے آخر تک محبت کرتے ہیں(یوحنا ۱۳: ۱) اورمحبت کے مارے اس کو ایک آخری موقع دیتے ہیں کہ وہ سنبھل جائے۔ واجب تویہ تھا کہ یہوداہ جناب مسیح کے اس قول سے متنبہ ہوکر پچھتاتا اورتوبہ کرکے اپنے بد ارادہ سے باز رہتا۔ جناب مسیح کا مقصد یہ تھا کہ وہ اپنے رسالت کے عہدہ کو جس پرآپ نے اُس کو ممتاز کیا تھا یادرکھ کر بدی کی طاقتوں کا آلہ کار نہ بنے۔لیکن اُس نے جان بوجھ کر فاعل خود مختار ہونے کی حیثیت سے ایسا نہ کیا ۔ جائے غور ہے کہ دیگر انسانوں کی طرح منجیٔ عالمین اس کو بددعا نہیں دیتے۔ نہ آپ اس پر لعنت بھیجتے ہیں۔ نہ آپ پطرس جیسے جلد باز شخص کو اُسے پکڑلینے کا حکم دیتے ہیں، بلکہ اس کے انجام پر اظہارِ تاسف کرکے فرماتے ہیں ’’ اگر وہ پیدا نہ ہوتا تواُس کےلئے اچھا ہوتا‘‘۔ زندگی خداکا عطیہ ہے، لیکن یہودا ہ اس عطیہ کو خدا کے جلال اوردنیا کو بہتر بنانے کی خاطر استعمال کرنے کی بجائے دنیا کو تاریک بنانے اور ظلمت کی طاقتوں کی مدد کرنے کے لئے استعمال کررہا تھا۔ اُس نے پیدائش کی برکت کو زندگی کی لعنت میں برضاورغبتِ خود بغیر کسی طرح کے جبر کے تبدیل کردیا۔ اُس کی روحانی حالت لرزہ براندام کردینے والی اوراُس کا انجام نہایت ہولناک تھا۔ اُس کےلئے یہ بہتر ہوتاکہ وہ پیدا نہ ہوتا اورایسے بھاری گناہ کا بوجھ اُس کی روح پر نہ پڑتا۔ آپ نے اُس کو پہلے بھی تنبیہ دے کر فرمایا تھا’’ ٹھوکروں کے سبب دنیا پر افسوس ہے کیونکہ ٹھوکروں کا لگنا ضرور ہے، لیکن اُس آدمی پر افسوس ہے جس کے باعث سے ٹھوکر لگے‘‘(متی ۱۸: ۷)۔
(۴)
ہم اس نکتہ کو ایک مثال سے واضح کردیتے ہیں جو ہماری آنکھوں کے سامنے واقع ہوئی ہے۔ مہاتما گاندھی ان چند چیدہ افراد میں سے تھے جنہوں نے اپنی سمجھ کے مطابق بدی کی طاقتوں کے ساتھ سر دھڑکی بازی لگادی تھی۔ جہاں تک ممکن تھا آپ نےاپنی سمجھ کے موافق اپنے اصولوں پر بے دھڑک چلنے کی کوشش کی اور انجام کی پرواہ نہ کی۔ بسا اوقات آپ کی ٹکر دنیا کی سب سے زبردست سلطنت کے ساتھ ہوئی ۔ آپ نے ستیہ آگرہ( حکومت کے خلاف پر امن تحریک ۔سچا عہد)اور اہنسا(عدم تشدد۔سلامتی) کے ہتھیاروں سے بدی کی طاقتوں کا دلیرانہ مقابلہ کیا۔ اس سلسلہ میں آپ پر مقدمات چلائے گئے ۔ آپ کو زندان میں ڈالا گیا۔ آپ نے فاقے کئے ۔ مَرن بر ت(وہ روزہ (فاقہ) جسے کرتے کرتے انسان مر جائے) رکھے ۔
دریں حالات بیسیوں دفعہ لوگوں کی زبان سے بے اختیار یہ کلمہ نکل جاتا تھا کہ مہاتما جی جان دے دیں گے۔ بالآخر آپ قتل بھی کردئیے گئے، لیکن کوئی صحیح العقل شخص یہ نہیں کہےگا کہ قتل ہوجانا ان کی قسمت میں لکھا تھا اورکہ قاتل کی تقدیر میں یہ لکھا تھا کہ وہ گاندھی جی جیسے مہا پُرش کو جو صدیوں کے بعد جاکر کہیں پیدا ہوتاہے ،قتل کردے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ اخلاقی دنیا کے اٹل قانون کے مطابق زندگی کی جوروش مہاتماجی نے اختیار کرلی تھی، اُس کا لازمی نتیجہ موت تھا۔ یہ محض اتفاق تھا کہ نہ وہ زندان میں فوت ہوئے اور نہ مرن برت کے وقت اُنہوں نے اپنی جان دی، بلکہ اُن کے اپنے لوگوں میں سے ایک نے آپ کو قتل کردیا۔ اگر اُس کے ہاتھوں آپ کی موت واقع نہ ہوتی توکسی دوسری طرح واقع ہوجاتی۔کوئی دوسرا شخص بدی کی طاقتوں کا آلہ کار ہوجاتا ۔ لیکن قاتل کے حق میں دنیایہی کہتی ہے کہ اُس آدمی پر افسوس جس کے ہاتھوں مہاتماجی قتل ہوگئے۔اگر وہ آدمی پیدا نہ ہوتا تواُس کے لئے اچھا ہوتا۔
یہ مثال ہم نے اس واسطے دی ہے کیونکہ یہ تازہ واقعہ ہماری آنکھوں کے سامنے گزرا ہے اور اخلاقی دنیا کے اُس لاتبدیل قانون کو سمجھنے میں ہماری مدد کرسکتاہے جس کا ذکر ہم اوپر کرآئے ہیں۔لیکن اس مثال سے کوئی شخص یہ خیال نہ کرے کہ ہم مہاتماجی کے قتل کو اور منجیٔ عالمین کے مصلوب ہونے کو یکساں درجہ دیتے ہیں۔ ابن اللہ نے دیگر نیک انسانوں کی طرح نہ صرف اپنی زندگی اور موت سے راست بازی کی بادشاہت کے قوانین پر عمل کرکے یسعیاہ نبی کے ’’ خداوند کے خادم‘‘ کے مطمح نظر(اصلی مقصد) کو کامل طورپر ثابت کر دکھایا، بلکہ آپ کی راست بازی اُس کامل ایثار اور ازلی محبت کی قربانی کا ایک ایسا نمونہ تھی جو بے عدیل اور بے نظیر ہے۔ جس کو دیکھ کر شقی القلب آدمیوں کی شقاوت سعادت سے بدل جاتی ہے اور وہ اپنے گناہوں کی معافی حاصل کرکے از سر نو پیدا ہوکر خدا کے فرزند بن جاتے ہیں۔آپ کی راست بازی نے بدی کی طاقتوں پر ایسا غلبہ پالیا کہ ’’ موت فتح کا لقمہ ہوگئی‘‘۔پس ہر نجات یافتہ ایمان دار پکار اٹھتا ہے’’ اے موت تیرا ڈنک کہاں رہا؟خدا کا شکر ہے جو ہمارے خداوند یسوع مسیح کے وسیلے ہم کو فتح بخشتا ہے اورہم کو سب حالتوں میں فتح سے بھی بڑھ کر غلبہ حاصل ہوتاہے‘‘۔
’’ وہ تیسرے روز مُرد وں میں سے جی اُٹھا‘‘
۱۰۔زندہ فاتح مسیح
مبار ک جمعہ کے روز یہودی سردار کاہنوں نے جو کلمتہ اللہ کے خون کے پیاسے تھے۔اپنے ناجائز اثر ورسوخ سے رومی گورنر کے ہاتھوں آپ کو مصلوب کروادیا۔ وہ اپنے زعم باطل میں یہی سمجھتے تھے کہ جوکانٹا اُن کی راہ میں مدت سے کھٹک رہا تھا،وہ ہمیشہ کےلئے نکل گیا ہے۔فریسی اپنی جگہ خوش تھے کہ اب’’ گناہ گاروں کا یار‘‘ عوام الناس کو خدا کی لازوال مغفرت اورابدی محبت کا پیغام سنا سنا کر اُن کو بہکانہ سکےگا۔ فقیہہ ٹھٹھے سے کہتے تھے’’ اُس نے اوروں کو بچایا۔ لیکن اپنے آپ کو نہ بچاسکا‘‘۔ زیلوتیس سمجھتے تھے کہ اب یہودی قوم کی قسمت پھر جاگ اٹھے گی اور وہ رومی قیاصرہ کے خلاف علم بغاوت دوبارہ بلند کرسکیں گے۔ کیونکہ وہ شخص جو محبت کے اُصول کا واعظ اوراس پر آخری لمحہ تک کاربند رہا تھا آغوشِ لحد میں سوگیا ہے۔ رسول بےکس ولاچار، خائف وہراساں ہوکر نا اُمیدی اور یاس کی حالت میں اِدھر اُدھر بھاگے پھررہے تھے۔ وہ وفورِ(زیادتی۔کثرت) غم سے بصد حسرت کہتے’’ یسوع ناصری مصلوب کیا گیا۔ لیکن ہم کو اُمید تھی کہ وہی اسرائیل کو مخلصی دےگا‘‘(لوقا ۲۴: ۲۰)۔
یہ سب باتیں جمعہ کے روز ہوئیں۔ لیکن دودن کے بعد اتوار کے روز ابنِ اللہ کی ظفریاب قیامت نے اہل یہود کے تمام حلقوں میں قیامتِ صغریٰ برپا کردی۔ ہر طبقہ میں ایک تہلکہ مچ گیا۔ اُس روز یروشلیم کی دنیا کا نقشہ بدل گیا ۔وہ جوپہلے خوش وخرم پھرتے تھے، اب دوبارہ پھر ہراساں نظر آنے لگے۔ وہ جو پہلے بھاگے پھرتے تھے،اب اُن کے چہروں پر فرطِ انبساط سے فتح مندی کے آثار ہرشخص کو نظر آنے لگے۔ صاحبِ اقتدار اور بارسوخ رؤسائے قوم نے ہرممکن طورپر اُن فتح مند بھگوڑوں کو دبانے کی کوشش کی۔ لیکن اُن کی کوئی تدبیر کارگر نہ ہوئی ۔ سوشل بائيکاٹ ، زجروتوبیخ ، قیداور ایذا ، تلوار اور موت، غرضیکہ ہر ممکن حربہ اُن کے خلاف استعمال کیا گیا،لیکن سب بے سود۔وہ جو اپنی کمزوری کی وجہ سے’’تھالی کا بینگن‘‘ اور’’ لوٹا‘‘ بنے ہوئے تھے اورمعمولی لونڈی کے ایک ہی سوال سے ترساں و لرزاں تھے، اب شیر دل ہوگئےاور سردار کاہنوں کو (جن کے ہاتھ میں اُن کی زندگی اور موت تھی) برملا ملامت کرکے کہتے تھے’’تم نے زندگی کے مالک کو مروادیاتھا۔ تم ہی انصاف کرو۔ آیا خدا کے نزدیک یہ واجب ہے کہ ہم خدا کی بات سے تمہاری بات زیادہ سنیں کیونکہ ممکن نہیں کہ جو ہم نے دیکھا اور سنا ہے وہ نہ کہیں‘‘(اعمال ۴باب)۔
اس زبردست تبدیلی کی کیا وجہ تھی؟ اُن کو اس بات کا یقین ہوگیا تھا کہ اُن کا خداوند مردوں میں سے جی اٹھاہے۔ ایسی بات تو پہلے نہ کبھی دیکھی اور نہ سنی گئی تھی۔ یہی سبب تھاکہ شروع میں’’یہ باتیں اُنہیں کہانی سی معلوم ہوئیں اور اُنہوں نے اُن کا یقین نہ کیا‘‘(لوقا ۲۴: ۱۹)۔ لیکن جب اُنہوں نے زندگی کے مالک زندہ مسیح کو’’ اپنے کانوں سے سنا اور اپنی آنکھوں سے دیکھا بلکہ غور سے دیکھا اور اپنے ہاتھوں سے چھوا‘‘(۱۔یوحنا ۱: ۱)۔’’جب وہ بارہ کو دکھائی دیا۔ پھر پانچ سو سے زیادہ بھائیوں کو ایک ساتھ دکھائی دیا۔ پھر یعقوب کو دکھائی دیا۔ پھر سارے رسولوں کو‘‘ (۱۔کرنتھیوں ۱۵: ۱۵)۔ جب اُس نے اُن سے کہا’’ اے نادانو اور نبیوں کی ساری باتیں ماننے میں سست اعتقاد و۔کیا مسیح کویہ دکھ اٹھا کر اپنے جلال میں داخل ہونا ضرور نہ تھا؟‘‘تب اُن کی آنکھیں کھلیں۔اُن کے دلِ جوش سے بھر گئے اور وہ بے اختیار ایک دوسرے کو یہ خوشی کی خبر دیتے تھے۔’’ خداوند بے شک جی اٹھا ہے‘‘(لوقا ۲۴باب) ۔’’ فی الواقع مُردوں میں سے جی اٹھا ہے‘‘(۱۔کرنتھیوں ۱۵: ۲۰)۔ یہ بات عین الیقین کی حد تک ثابت ہوچکی تھی اور وہ سروفروشانہ اس حقیقت کی خاطر جو اُن کا جزو ایمان بن چکی تھی،مرنے اور موت کے گھاٹ اُترنے کو تیار تھے۔ مسیحیت کا طغرائے امتیاز (طغرا:نشانی۔علامت) یہی قیامت مسیح کا عقیدہ تھا۔’’اگر مسیح جی نہیں اٹھا تو تمہارا ایمان بے فائدہ ہے‘‘(۱کرنتھیوں ۱۵: ۱۷)۔ اگر وہ زندہ نہیں ہوا اور دیگر انبیا کی طرح زیر زمین دفن ہے تو حضرت ’’خلیل اللہ‘‘ ،’’موسیٰ کلیم اللہ‘‘ جیسے انبیا ئےاللہ میں اور’’ابن اللہ ‘‘میں کوئی حقیقی فرق نہ رہا۔ وہ محض نبیوں کی قطار میں ہی شمار کیا جاسکتاہے۔ بڑی سے بڑی بات جو اُس کے حق میں کہی جاسکتی ہے،وہ یہ ہے کہ وہ ایک اولوالعزم اورجلیل القدر نبی تھا اور بس۔ لیکن اگر وہ مرُدوں میں سے جی اٹھا ہے تو وہ موت پر غالب آیاہے اور سب پر روزِ روشن کی طرح عیاں ہوگیاہے کہ ’’ابن اللہ‘‘ میں اور دیگر انبیا میں بعد ُالمشرقین(بہت زیادہ فرق۔پورب پچھم کی دُوری) ہے۔ پس وہ نبیوں کی صف میں کھڑا نہیں کیا جاسکتا ۔ دیگر انبیا کا تعلق زمانہ ٔماضی سے تھا۔اس کا تعلق دورِ حاضرہ اورزمانۂ مستقبل سے ہے۔ دیگر انبیا محض تواریخی اشخاص تھے جو صفحۂ ہستی پر آکر اپنی یادگار چھوڑ گئے۔ لیکن ابن اللہ نے خود تاریخ کو دوحصوں میں منقسم کردیا۔ ایک زمانہ قبل از مسیح اور دوسرا زمانہ بعداز مسیح۔ دوسرے زمانہ کا تعلق دورِ حاضرہ اور زمانۂ مستقبل سے ہے۔ یہ زمانہ قیامت تک جاری رہےگا، کیونکہ مسیح اب بھی زندہ ہے اور ابد الآباد زندہ رہے گا۔
اس نکتہ کو مرزائے قادیانی خوب سمجھے۔ یہی وجہ تھی کہ اس غریب نے عمر گراں مایہ(نفیس۔قیمتی) اسی بے سود کوشش میں ضائع کردی کہ مسیح مردوں میں سے نہیں جی اٹھا اور وہ دوسرے نبیوں کی مانند مرگیاہے۔ اُس نےایڑی چوٹی کا زور لگایا،لیکن دم واپسیں(حالت نزع) حسرت کے ساتھ اپنی زندگی کا مشن پورا کئے بغیر ناکام اور نامراد چل بسا اور خود قبر میں ہمیشہ کےلئے سوگیا۔ اُس کی ناکام مساعی ہر جگہ زبان حال سے پکار پکار کر ابن اللہ کی ظفریاب قیامت کی گواہ ہیں اور اس حقیقت کو عالم وعالمیان (عالمی کی جمع۔انسان ۔لوگ)پر روشن کردیتی ہیں کہ مسیح فی الواقع مُردوں میں سے جی اٹھا ہے اور مُردوں میں سے جی اٹھنے کے سبب قدرت کے ساتھ خدا کا بیٹا ٹھہرا۔
۱۱۔سیدنا مسیح کی ظفر یاب قیامت کے ثبوت
(۱)
منجیٔ عالمین کی ظفریاب قیامت مسیحیت کی عمارت کےکونے کا پتھر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مقدس پولس رسول فرماتے ہیں کہ:
’’اگر مسیح نہیں جی اٹھا تو تمہارا ایمان بے فائدہ ہے۔ تم اب تک اپنےگناہوں میں گرفتار ہو۔ اگر ہم صرف اسی زندگی میں مسیح میں اُمید رکھتے ہیں تو سب آدمیوں سےزیادہ بدنصیب ہیں‘‘(۱۔کرنتھیوں ۱۵: ۱۷تا ۱۸)۔
اگر آ نخداوند مُردوں میں سے نہیں جی اٹھے تو آپ میں اور باقی انبیا میں سوائے آپ کی معصومیت کے کوئی فرق نہیں رہتا۔ اسی سبب سے کلیسیا ابتدا ہی سے اس واقعہ پر زور دیتی چلی آئی ہے اورنجات کا تمام دارومدار منجی کی ظفریاب قیامت پر رکھ کر یہ خوشی کی خبر دیتی ہے کہ آں خداوند نے گناہ، شیطان، موت اور قبر پر فتح پائی ہے۔ پس وہ ہم گناہ گاروں کو گناہ کی بدترین قید سے نجات دینے پر قادر ہے۔مخالفین مسیحیت بھی اس نکتہ کو جانتے اورسمجھتے ہیں۔ چنانچہ مرزائے قادیانی اپنے مقلدین کو مرتے دم یہی وصیت کرگئے کہ مسیحیت کو ختم کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ وہ یہ ثابت کردیں کہ موت نے دیگر انبيا کی طرح جنابِ مسیح کو بھی نگل لیاہے۔ پس وہ سری نگر کے محلہ خان یار کی قبر کا ڈھونگ رچاتے ہیں او ر احمقوں کو دام تزویر(فریب کا پھندا) میں پھنساتے ہیں۔
(۲)
انجیل جلیل کے مجموعہ کی ہر کتاب اوراس کا ہر مصنف اس ایک بات پر متفق ہے کہ منجیٔ عالمین مبارک جمعہ کے روز مصلوب کئے گئے اور مدفون ہوئے اور اتوار کے روز علیٰ الصباح مُردوں میں سے جی اٹھے ۔مسیحیت کی ابتدائی منزل اس کے آقا اورمولا کی ظفریاب قیامت کا واقعہ ہےاوراعمال کی کتاب صاف ظاہر کرتی ہے کہ یہ واقعہ دوازدہ رسولوں کی ابتدائی منادی کا مرکز تھا اور وہ اس واقعہ کے چشم دید گواہ تھے (۱۔کرنتھیوں ۱۵: ۳)۔
(۳)
سائنس اور فلسفہ کا یہ ایک ادنیٰ اصول ہے کہ ہر واقعہ کا کوئی نہ کوئی سبب ضرور ہوتاہے۔ یہ ایک امر واقع ہے جس کو اعمال کے ابتدائی ابواب کا مطالعہ واضح کردیتاہے کہ منجیٔ عالمین کی صلیبی موت کے بعد جناب ِمسیح کے رسولوں کی ذہنیت ، اُن کےرنگ ڈھنگ اورنظریۂ زندگی میں زمین آسمان کا فرق پیدا ہوگیا تھا۔ وہ جو پہلے خوف کے مارے کواڑ بند کرکے چھپتے پھرتے تھے (یوحنا ۲۰: ۱۹)۔ اب علانیہ منادی کرتے اور بےدھڑک ہوکر سب کے سامنے آتے ہیں (اعمال ۴: ۱)۔ پہلے یہودی بزرگوں اور سردار کاہن کے خیال ہی سے اُن کے بدنوں پر رعشہ طاری ہوجاتا تھا ،لیکن اب وہی قائدین قوم اور سردار کاہن ان دہقانوں سے خائف وترساں ہیں(اعمال۴: ۱۳۔ ۲۰؛ ۵: ۲۵۔ ۳۰ وغيرہ )۔ لازم ہے کہ اس قدر حیرت انگیز تبدیلی کا کوئی زبردست سبب بھی ہو۔ منجیٔ عالمین کی صلیبی موت کے بعد آپ کی ظفریاب قیامت کے عظیم الشان واقعہ کے علاوہ کوئی اَور واقعہ رونما نہیں ہوا تھا جو خاطر خواہ طورپر اس زبردست نتیجہ کا حامل ہوسکے۔ جو لوگ قیامتِ مسیح کے واقعہ کے منکر ہیں اُن پریہ لازم ہوجاتاہے کہ رسولوں کی ذہنیت کی عظیم تبدیلی کا سبب بتائیں، ورنہ ایمان داری کو کام میں لاکر منجیٔ عالمین کی قیامت کے واقعہ کا اقبال کرلیں۔
(۴)
منجیٔ عالمین کوکسی غیر معروف اوردور افتادہ مقام میں صلیب نہیں دی گئی تھی۔ ارضِ مقدس کے یہود مبارک جمعہ کے دن یروشلیم کے مقدس شہر میں عید منانے کےلئے جمع تھے اور گورنر پیلاطس نے سردا رکاہن کے ایما اور یہودی ہجوم کے ہلڑ مچانے پر آپ کو دیگر مجرموں کے ساتھ علانیہ مصلوب کرایا تھا۔ پس تمام اہل یہود، کیا رؤسا اورکیا عوام سب کے سب آپ کی صلیبی موت سے واقف تھے اورسب پر یہ امر روشن ہوچکا تھاکہ آپ صلیب پر مرگئے تھے۔ اب انہی یہودی رؤسا، عمائدین قوم اور عوام کے سامنے دوزادہ(بارہ) رسول بار بار گواہی دیتے ہیں کہ منجیٔ جہاں مرُدوں میں سے جی اٹھے ہیں(اعمال ۳: ۱۳تا ۱۵ وغيرہ) اوران کی منادی کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ یہی یہود جنہوں نے اپنی آنکھوں سے آپ کومرتے دیکھا تھا ہزاروں کی تعداد میں آپ کی ظفریاب قیامت پر ایمان لے آتے ہیں (اعمال ۲: ۴۱؛ ۴: ۲، ۶: ۷ وغیرہ )۔اگر جناب مسیح فی الواقع مُردوں میں سے نہیں جی اٹھے تھے تو اُن لوگوں نے (جوآپ کی موت کے چشم دید گواہ تھے) ہزاروں کی تعداد میں یہ خلافِ عقل بات کس طرح مان لی؟اور وہ بھی ایسے ناموافق حالات میں جو حوصلہ شکن اورکمر توڑ تھے ۔کیونکہ سردار کاہن اور قائدین یہود ایذا دینے اور مخالفت کرنے پر تلے ہوئے تھے(اعمال۴: ۱۔۲۹؛ ۵: ۳۳؛ ۶: ۱۲؛ ۸: ۱وغیرہ)۔
(۵)
جب یروشلیم کی مسیحی کلیسیا کو اہل یہود کی متواتر مخالفت اورپے درپے کی ایذا رسانیوں نے پراگندہ کردیا تو جناب مسیح کے رسول اور دیگر ایمان دار ارضِ مقدس کے دیگر مقامات کی جانب حکم خداوندی کے مطابق ہجرت کرگئے اور بعض شام، آخیہ اورممالک یورپ کی جانب بڑھے۔ لیکن جہاں بھی وہ گئے وہ منجیٔ عالمین کی ظفریاب قیامت کی خوشخبری کااعلان کرتے گئے ۔ تاريخ اس امر پرگواہ ہے کہ پہلی صدی میں ہر ملک اورہر مقام کے یہودو غیر یہود مسیحی جن میں لاکھوں لکھے پڑھے اورہزاروں عالم تھے، اس بات پر صدقِ دل سے ایمان رکھتے تھے اورہر مقامی کلیسیا کے وردِ زبان(زبان پرچڑھا ہوا۔ازبر) یہی عقیدہ تھا کہ’’ مسیح پنطیس پیلاطس کی حکومت میں مصلوب ہوا، مرگیا ، دفن ہوا اور تیسرے روز مردوں میں سے جی اٹھا ‘‘۔ یہی عقیدہ دوہزار سال سے کلیسیا کے وردِ زبان رہاہے اور آج بھی ہر ملک ، قوم اور نسل کی کلیسیا کا یہی عقیدہ ہے۔
(۶)
اعمال کی کتاب کا مطالعہ اس امر کو روشن کردیتاہے کہ رسولوں کی منادی کا مرکز قیامتِ مسیح کا واقعہ اوراس کے حقیقی معانی کوظاہر کرنا تھا (۲: ۳۶؛ ۱۰: ۴۰۔ ۴۲ وغیرہ، مقابلہ کرو رومیوں ۱: ۴) ۔رسولوں کے مکتوبات ثابت کرتے ہیں کہ اس واقعہ کے مطالب ومعانی خدا کی ذات وصفات کے سمجھنے میں نہایت ممد اور معاون ثابت ہوئے(۱ ۔تھسلنیکیوں۱: ۱۰؛ اعمال ۵: ۲۹۔ الخ؛ افسیوں ۱: ۱۹؛ ۱۔پطرس ۱: ۲۱ وغیرہ )۔اسی ایک واقعہ کی روشنی میں رسول نہ صرف خدا کی ذات وصفات کے تصور کو واضح کرتے تھے ،بلکہ دیگر مسائل کو بھی سمجھاتے تھے ۔ مثلاً روح القدس کا مسئلہ (رومیوں ۸: ۱۰، ۱۱)، کفارہ کا مسئلہ (رومیوں ۴: ۲۵) ،اخلاقی روحانی زندگی کا مسئلہ (۲۔کرنتھیوں۵: ۱۵؛ افسیوں۲: ۵؛ کلسیوں ۲: ۱۳؛ ۱۔کرنتھیوں ۱۵: ۱۷)، فنا اور بقا کا مسئلہ (۱۔کرنتھیوں باب۱۵؛ ۲۔تیمتھیس ۱: ۱۰)وغیرہ وغیرہ۔ غرضیکہ اس ایک واقعہ نے انسانی زندگی پر نئے سرے سے روشنی ڈال کر اس کے مختلف پہلوؤں کے مطلب ، مفہوم اورمقصد کو کلیتہً بدل دیا اوراب حقیقی مسیحی زندگی کا مطلب ہی یہ سمجھاگیا کہ وہ صرف موت ہی سے نکلتی ہیں۔
اگر قیامتِ مسیح ایک امر واقعہ نہ تھا تویہ تمام اُمور ایک زبردست مُعَمّا کا لامتناہی سلسلہ بن جاتے ہیں، جن کا کوئی دوسرا حل سجھائی نہیں دیتا۔اگر بارہ رسول قیامتِ مسیح کے ماننے او ر اُس کا پرچار کرنے میں محض ایک ذہنی دھوکا ، سراب، وہم اور مغالطے کا شکار تھے تو سوال یہ پیداہوتاہے کہ کیا محض وہم اور وسوسہ میں اس قدر طاقت، قوت او ر زندگی ہوسکتی ہے کہ خدا او ر مذہب کے بنیادی تصورات ایک معقول نظام میں مربوط ہوکر دنیا کی کایا پلٹ دیں؟ ہر شخص جس کے سر میں دماغ او ر دماغ میں عقل ہے، اس قسم کے مضحکہ خیز نظریہ کو رد کرنے میں ذرا بھی تامل نہ کرےگا۔ پس ثابت ہواکہ اس قدر عظیم الشان تبدیلی کا صرف ایک ہی واحد اور مکتفی سبب ہوسکتاہے اور وہ قیامتِ مسیح کا عظیم واقعہ ہے۔
۱۲۔السلام علیکم(تمہاری سلامتی ہو)
مرحوم ثنا اللہ صاحب نے اس نام کا ایک ۱۶صفحہ کا رسالہ لکھا تھا’’جس میں اسلامی سلام کے احکام اور دیگر مذاہب کے سلاموں سے مقابلہ کیا گیاہے‘‘۔ آپ فرماتے ہیں کہ سلام کرنے کا اسلامی حکم’’ السلام وعلیکم‘‘ ہے۔ آپ قرآن کو کامل اور اکمل کتاب ماننے کے باوجود کوئی قرآنی آیت پیش نہیں کرتے ،جس میں اس’’اسلامی سلام کے احکام‘‘ درج ہوں اور صرف چند احادیث کی جانب رجوع کرتے ہیں اوریہ رونا روتے ہیں کہ ’’مسلمانوں میں’’السلام علیکم‘‘ کہنا ہی بے ادبی اور خلافِ تہذیب سمجھا گیا ہے ۔بجائے اس کے ہاتھ کھڑا کرنا اور آداب عرض کہنا تواکثر گاہے تسلیمات عرض ہورہاہے اورساتھ ہی اس کے جھکنے میں اس قدر افراط ہے کہ قریب قریب رکوع کے ہوجاتاہے ‘‘(صفحہ ۱) اورآپ کا فتویٰ یہ ہے کہ ’’یہ مذہبی طریق نہیں‘‘(صفحہ۹)۔
رسالہ کے باب دوم میں آپ فرماتے ہیں’’ عیسائیوں میں مختلف طریق پائے جاتے ہیں ۔ ایک تو یہ کہ ملتے وقت ٹوپی اتارلیتے ہیں اور زبان سے کچھ نہیں کہتے۔ یہ رواج اکثر انگریزوں میں ہے۔ دوسرا،ہاتھ اٹھاکر اشارہ کرتےہیں اورتکمیل اس کی مصافحہ سے ہوتی ہے۔تیسرا طریق یہ ہے کہ ’’گُڈمارننگ‘‘ کہتے ہیں جس کا ترجمہ یہ ہے’’ صبح اچھی‘‘ ۔ جس سے غالباً ایک تفاؤل(فال نکالنا) ہوتاہے کہ زمانہ موافق رہے۔ عجب نہیں کہ یہی طریق عیسائیوں کا مذہبی ہو‘‘(صفحہ ۶)۔
مولوی صاحب یہ دعویٰ کرتے کبھی نہیں تھکتےکہ آپ کو مسیحی کتب مقدسہ کی کامل واقفیت حاصل ہے (اسلام اور مسیحیت،صفحہ ۳۸ وغیر)۔ لیکن آپ کی علمی بے بضاعتی اور انجیل دانی کی بے سرو سامانی کا یہ حال ہے کہ آپ نے انجیل جلیل کھول کر یہ معلوم کرنے کی کوشش نہیں کی کہ جناب ِمسیح نے اس بارے میں کیاحکم دیاہے اور خود حضرت کلمتہ اللہ کا کیا طریقہ کار تھا اور آ نخداوند کے رسولوں کا کیا رویہ تھا۔ آپ کے مندرجہ بالا الفاظ سے آپ کے ناظرین تو غالباً یہی سمجھیں گے کہ حضرت کلمتہ اللہ ملتے وقت ٹوپی اُتارتے اور زبان سے کچھ نہیں کہتے تھے یا حضور’’ہاتھ اٹھا کر اشارہ کرتے اور مصافحہ کرتے تھے‘‘ اور یا’’ گُڈمارننگ‘‘ کہتے تھے ،کیونکہ بزعم جناب ’’ یہی طریق عیسائیوں کا مذہبی ‘‘ طریق ہے۔
بےچارے مولوی فاضل صاحب کو کیا پتاکہ’’ سلام علیکم‘‘ خالص عبرانی زبان کے الفاظ ہیں اور جنابِ مسیح سے صدیوں پیشتر بنی اسرائیل میں ملاقات کے وقت اور رخصت کے موقع پر استعمال کئے جاتے تھے۔ مثال کے طورپر حضرت یوسف نے مصر میں اپنے بھائیوں سے ملاقات کرتے وقت یہی الفاظ استعمال کئے تھے (پیدائش ۴۳: ۲۳)۔ اہل یہود کے انبیا، بادشاہ اور عوام الناس یہی مذہبی طریق استعمال کرتے تھے(۱۔سموئيل ۱: ۱۷؛ ۲۔سموئیل ۱۵: ۱؛ زبور ۱۲۲آیت ۷ تا۹ وغیرہ)۔ خدا نے حضرت موسیٰ کے ذریعہ حکم دیا تھاکہ حضرت ہارون اورکاہن بنی اسرائیل کو اسی طرح برکت دیا کریں (گنتی ۶: ۲۲۔۲۷)۔
انجیل جلیل سے پتاچلتاہے کہ جب منجیٔ عالمین کسی سے ملاقات کرتے تھے تویہی کلمہ آپ کی زبان مبارک پر ہوتا تھا (یوحنا ۲۰: ۱۹، ۲۶؛لوقا ۲۴: ۳۶)۔ جب آپ رخصت ہوتے تو آپ یہی الفاظ دہراتے تھے(یوحنا ۲۰: ۲۱)۔ جب ابنِ اللہ کسی کو برکت دیتے تویہی الفاظ فرماتے تھے(مرقس ۵: ۳۴؛ لوقا ۷: ۵۰؛ ۸: ۴۸ ؛ یوحنا ۱۴: ۲۷ وغيرہ)۔جب آپ کی زبانِ معجز بیان سے یہ کلمہ نکلتا تو اس کی وجہ سے کسی رسمی’’ مذہبی طریق‘‘ کی پابندی نہ تھی۔ اس کلمہ کے الفاظ کسی رواجی ظاہر داری کے نشان نہیں ہوتے تھے (یوحنا ۱۴: ۲۷) ،بلکہ یہ کلمہ لوگوں کےلئے اس بات کی گارنٹی تھا کہ خدا تعالیٰ کے مسیح موعود کی برکت اور سلامتی اُن کے شامل حال ہے۔ بنی اسرائیل کا یہ ایمان تھاکہ مسیح موعود کا عہد سلامتی کا عہد ہوگا(یسعیاہ ۵۴: ۱۰؛ حزقی ایل ۳۴: ۲۵؛ ۳۷: ۲۶؛ احبار ۲۶: ۶ ؛ملاکی ۲: ۵، ۶ وغیرہ) ۔کیونکہ وہ خود سلامتی کا شہزادہ ہوگا(یسعیاہ ۹: ۶مقابلہ کرو میکاہ ۵: ۵؛ زکریاہ ۶: ۱۳؛ زبور ۷۲: ۳، ۷؛ زبور ۲۹: ۱۱؛ ۱۲۶: ۷؛ یسعیاہ ۵۵: ۱۲ وغیرہ) اوراس کے وسیلے خدا اقوام عالم کو سلامتی بخشےگا (زکریاہ ۹: ۱۰وغیرہ)۔جب حضرت ابن اللہ نے رسولوں کو فرمایا’’ میں سلام تم لوگوں کےلئے چھوڑجاتاہوں۔ اپنی سلامتی مَیں تم کو دیتاہوں‘‘ (یوحنا ۱۴: ۲۷) ۔آپ نے اپنی ذات کے بنیادی اصول کو اُن پر ظاہر کردیا،کیونکہ یہ سلامتی اُس قربت، رفاقت اور یگانگت کا نتیجہ تھی جو خیال ،قول اور فعل میں ابن اللہ کو باپ کے ساتھ حاصل تھی(یسعیاہ ۲۶: ۳؛ یوحنا ۱۴: ۱۱، ۲۰، ۳۱ وغیرہ) ۔یہی وجہ تھی کہ پریشان اور مضطرب انسان ہزاروں کی تعداد میں جوق درجوق آتےاور آپ سے سلامتی،اطمینانِ قلب اور آرامِ جان حاصل کرتے تھے، جو ان کو اَور کہیں نصیب نہ ہوتا تھا(متی ۱۱: ۲۸)۔
آں جہانی مولوی ثنا اللہ صاحب نے انجیل جلیل کے ورق پلٹنے کی بھی زحمت کبھی گوارا نہیں فرمائی۔ اگر آپ ذرا سی تکلیف اٹھالیتے توآپ پرظاہر ہوجاتا کہ مسیحیوں کا’’مذہبی طریق‘‘نہ ’’ ٹوپی اٹھانا‘‘ ہے،نہ’’ مصافحہ کرنا‘‘ ہے اور نہ’’ گُڈمارننگ‘‘ کہنا ہے۔ کیونکہ حضرت کلمتہ اللہ نے جماعت مومنین کو حکم دیا تھاکہ جب وہ کسی کے گھر میں داخل ہوں تو گھر والوں کو’’سلام علیکم‘‘ کہیں(متی۱۰: ۱۲؛لوقا ۱۰: ۵ وغيرہ)۔ اگرمولوی صاحب صرف مقدس پولس رسول کے مختلف خطوط کی ابتدائی آیات پر ہی سطحی نظر ڈالتے توآپ کو معلوم ہوجاتا کہ مکتوبات میں مخاطبوں کو’’ سلام علیکم‘‘ کہا گیا ہے(رومیوں ۱: ۷؛ ۱۔کرنتھیوں ۱: ۳؛ ۲۔کرنتھیوں ۱: ۲ ؛گلتیوں ۱: ۳) ۔جوخط حضرت کلمتہ اللہ کے بھائی مقدس یعقوب نے بارہ فرقوں کو لکھا ہے ،وہ بھی ’’سلام ‘‘ہی سےشروع کیا گیا ہے(۱:۱)۔لیکن مولوی صاحب تحقیق حق کی طرف سے بے نیاز ہیں۔ یہاں تک کہ اُن کی شان بے نیازی نے ان کو قرآنی ارشادات کی طرف سے بھی بےپروا کردیاہے ،کیونکہ آپ قرآنی ارشاد کے عین خلاف مسیحیوں کو’’ کافر‘‘ شمار کر کے’’ہندوؤں‘‘ کے ساتھ ایک ہی زمرہ میں شامل کرتے ہیں(صفحہ ۱۴)۔ لیکن قرآن نے ایسے ایمان پر خَتَمَہ اللّٰہ علیٰ قلو بھم کی مہر ثبت کردی ہے۔
مولوی صاحب فرماتے ہیں’’ السلام وعلیکم کے معنی ہیں تم پر ہر طرح سے سلامتی اور آسائش ہمیشہ ہے‘‘۔ جس سے ان کی مراد جسمانی صحت اور دشمن سے سلامتی ہے(صفحہ ۱۱) ۔لیکن انجیل جلیل کے مطابق’’ سلام علیکم‘‘ سےمراد نہ صرف جسمانی صحت اور دنیاوی سلامتی ہے ،بلکہ روحانی سلامتی ، اطمینان او ر شانتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ خدا کو’’ سلامتی کا خدا‘‘ کہا گیا ہے(رومیوں ۱۵: ۳۳؛ ۲۔کرنتھیوں ۱۳: ۱۱؛فلپیوں ۴: ۹ ؛ عبرانیوں ۱۳: ۲۰ وغيرہ) اور انجیل شریف میں نہ صرف ’’خدا کی سلامتی‘‘ کا ہی ذکر ہے، بلکہ ’’خداوندمسیح کی سلامتی‘‘ کا بھی ذکر ہے (رومیوں ۱: ۷ ) ۔ سلامتی ہر مسیحی کی موجودہ ملکیت اور مقبوضہ شے ہے(یوحنا ۱۴: ۲۷؛ رومیوں ۱۵: ۱۳؛ ۲۔تھسلنیکیوں۳: ۱۶)، جوہمارے دلوں پر حکومت کرتی ہے(کلسیوں ۳: ۱۵)۔ یہ قلب کی اُس کیفیت کا نام ہے جس میں نہ اضطراب ہے اورنہ تموج (تلاطم۔لہریں اٹھنا)۔ وہ روح کی طمانیت اورسکون پر دلالت کرتی ہے، کیونکہ اس کو حتمی طور پر واثق یقین ہے کہ اس کا خدا کے ساتھ میل ملاپ ہوگیاہےاور وہ نجات یافتہ ہے (افسیوں ۲: ۱۶، ۱۷؛ رومیوں ۵: ۱)۔ اس حالتِ قلب کا نتیجہ قدرتاً انسانی احساس اور شعور پر پڑتا ہے، کیونکہ خدا سے میل ملاپ کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ انسان کو’’خدا کا اطمینان حاصل ہوتاہے جوفہم سے بھی پرے ہےاورہمارے دلوں اور خیالوں کی نگہبانی کرتاہے‘‘(فلپیوں ۴: ۷)۔ یہ اندرونی سلامتی روح القدس کاپھل ہے (گلتیوں ۵: ۲۲) اوراُس خوشی کا جزو لائینفک ہے جو ایمان کے باعث ہم کوحاصل ہوتی ہے(رومیوں ۱۵: ۱۳)۔
۔اسی سلامتی کی طرف قرآن شریف میں اشارہ ہے۔ جب کلمتہ اللہ گہوارہ میں فرماتے ہیں وَ السَّلٰمُ عَلَیَّ یَوۡمَ وُلِدۡتُّ وَ یَوۡمَ اَمُوۡتُ وَ یَوۡمَ اُبۡعَثُ حَیًّا (ترجمہ)’’سلامتی ہے جس دن مَیں پیدا ہوا اور جس روز مروں گا اور جس روز زندہ اٹھا کھڑا کیا جاؤں گا‘‘(سورہ مریم آیت۳۳)۔
عرب جاہلیت’’السلام علیکم‘‘ نہیں کہتے تھے، بلکہ وقت کے مطابق سلام کی جگہ اَنَعمہ صَبَا حاً انِعمہ مَسَاءً اوراَنعِمہ ظَلَاماکہتے تھے جو انگریزوں کے مروجہ ’’ گُڈمارننگ ‘‘،’’ گُڈ ایوننگ‘‘ اور’’ گُڈ نائٹ ‘‘کے ہم معنی ہیں۔ لیکن چونکہ عرب میں محمد عربی کے زمانہ میں اہل کتاب بکثرت آباد تھے(خطبات احمدیہ خطبہ سوم) جو ملاقات کے وقت اور رخصت کے موقع پر ایک دوسرے کو’’سلام علیکم‘‘ کہا کرتے تھے۔ آنحضرت کو یہ کلمہ عرب جاہلیت کےکلمہ سے زیادہ پسند آیا۔ پس آپ نے اس کو ترجیح دی اوراُس اُمی قوم عرب کو مذہب اور تہذیب کا سبق سکھا کر اُن کوحکم دیاکہ عیسائیوں کی تقلید میں ’’اسلام علیکم‘‘ کہا کریں۔ مولوی صاحب انجان بن کر بھول گئے کہ عیسائی اس معاملہ میں مسلمانوں کے استاد ہیں اور الٹا عیسائیوں کو سبق دینے چلے ۔سچ ہے :
کس نیا موخت علم تیر ازمن
کہ عاقبت مرانشانہ فکرد
اُمید ہے کہ مولوی ثنا اللہ صاحب کے مقلدین اب سمجھ گئے ہوں گے کہ عیسائیوں کا سلام کیا ہے اوران کا مذہبی طریق کیا ہے اور عیسائیوں کےسلام کا مفہوم کس قدر گہرا اور روحانی ہے۔رب السلام نفسہ یعطیکم السلام دائماً من کل وجہ۔’اب خداوند جو اطمینان کا چشمہ ہے آپ ہی تم کو ہمیشہ اورہر طرح سےاطمینان بخشے۔ خداوند تم سب کے ساتھ رہے‘‘(۲۔تھسلنیکیوں۱۶:۳)۔
’’ وہ زندوں اور مُردوں کی عدالت کے لئے آنے والا ہے‘‘
۱۳۔عدالتِ خداوندی
(۱)
مسیحیت کا اصل الااُصول یہ ہے کہ خدا کی ذات محبت ہے (۱۔یوحنا ۴: ۱۶، ۱۸؛ ۲۔کرنتھیوں ۱۳: ۱۱)۔ خدا کی تمام صفات اُس کی ذات یعنی محبت کی صفات ہیں۔ خدا کی ذات اور صفات انسانی حدود اور زمان ومکان کی قیود کے اندر ربنا المسیح کی زندگی، موت اور ظفریاب قیامت میں بدرجۂ احسن ظہور پذیر ہوئیں۔الہٰی صفات میں سے ایک صفت ’’خدا کی قدوسیت‘‘ ہے،جو دیگر الہٰی صفات کی طرح خدا کی ذات یعنی الہٰی محبت سےمتعلق ہے۔ خدا کی محبت قدوس اورپاک محبت ہے ۔ بالفاظِ دیگر خدا کی محبت تمام روحانی خوبیوں اور اخلاقی نیکیوں کا سرچشمہ ہے ۔ گناہ اور بدی کا اس سے بالکل تعلق نہیں۔اسلام اور قرآن کے مطابق خدانیکی اور بدی دونوں کا سرچشمہ ہے، لیکن انجیل جلیل کی تعلیم اس کے عین خلاف ہے۔’’خدا نور ہے اوراس میں ذرا بھی تاریکی نہیں‘‘(۱۔یوحنا ۱: ۵)۔ پس خدا کی قدوس محبت ہر قسم کی خوبی اورنیکی کا سرچشمہ اورمنبع ہے اور ہرقسم کی بدی کے عین نقیض ہے۔
اس دنیا میں خدا کی قدوسیت زمان ومکان کی حدود کے اندرہم کو نظر آتی ہے ۔ خدا نے اس دنیا کا نظام ایسا قائم کیا ہے کہ اس کے اٹل قوانین اُس کی قدوسیت کے مظہر ہیں(زبور ۱۱۹: ۸۹ ، ۹۰؛ ۱۔پطرس ۱: ۲۵ ؛ متی ۲۴: ۳۵)۔ قوانین فطرت کا مطالعہ خدا کی قدوس ذات کو بنی نوع انسان پر ظاہر کردیتاہے ۔اقوامِ عالم کی تاریخ ہم پر یہ بات روشن کردیتی ہےکہ جو اقوام خدا کی محبت اور پاک مرضی پر عمل کرتی ہیں، وہ زندہ رہتی ہیں اورشاہراہ ترقی پر قدم مارتی ہیں۔ لیکن جو افراد اس پر عمل نہیں کرتے وہ نیست ونابود ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ کلام مقدس کی روشنی میں کہہ سکتے ہیں کہ بدکاری اورناپاکی کا انجام موت ہے۔ لیکن پاکیزگی کا انجام ہمیشہ کی زندگی ہے (رومیوں ۶: ۲۱، ۲۲) ۔
یہ الہٰی قانون اٹل ہے ،کیونکہ وہ خدائے لایزال(بے زوال۔ہمیشہ رہنے والا) کی ذات کامظہر ہے۔’’ گناہ کے سبب موت آئی اور موت سب آدمیوں میں پھیل گئی۔ کیونکہ سب نے گناہ کیاہے‘‘(رومیوں ۵: ۱۲)۔’’ وہ(خدا) ہرایک کو اس کے کاموں کے موافق بدلہ دےگا۔ جونیکوکاری میں ثابت قدم رہ کر جلال اور عزت اور بقا کے طالب ہوتے ہیں، اُن کو ہمیشہ کی زندگی دےگا۔مگر جو تفرقہ انداز اور حق کے نہ ماننے والے بلکہ ناراستی کے ماننے والے ہیں ان پر غضب اور قہر ہو گا اورمصیبت اور تنگی ہر ایک بدکار کی جان پر آئےگی۔ ۔۔کیونکہ خدا کے ہاں کسی کی طرف داری نہیں ‘‘(رومیوں ۲: ۶تا ۱۱)۔ چنانچہ کلمتہ اللہ فرماتے ہیں’’ اگر تم ایمان نہیں لاؤ گے تو اپنے گناہوں میں مروگے‘‘(یوحنا ۸: ۲۴)۔ پھر اس اٹل الہٰی قانون کو ایک مثال سےواضح کرکے فرماتے ہیں’’ کیا جھاڑیوں سے انگور اوراونٹ کٹاروں سے انجیر توڑتے ہیں ؟ اسی طرح ہرایک اچھا درخت اچھا پھل لاتاہے اور بُرا درخت بُرا پھل لاتاہے۔ اچھا درخت بُرا پھل نہیں لاسکتا اور نہ بُرا درخت اچھا پھل لاسکتاہے۔۔۔ پس ان کےپھلوں سے تم اُن کوپہچان لوگے‘‘ (متی ۷: ۱۶۔ ۲۰؛لوقا ۶: ۴۳)۔
پس خدا کی محبت کی قدوسیت خدا کی عدالت میں ظاہر ہوتی ہے اور عدالت کا معیار اقوام اور افراد کےلئے ایک ہی ہے۔ بدکاری اورناپاکی کا انجام موت ہے ۔لیکن پاکیزگی کا انجام ہمیشہ کی زندگی ہے(رومیوں ۶: ۲۱، ۲۲)۔’’ جو درخت اچھاپھل نہیں لاتا وہ کاٹا اورآگ میں ڈالا جاتاہے‘‘(متی ۷: ۱۹)۔ اقوامِ عالم کی تاریخ اس ایک اٹل الہٰی قانون کی زندہ مثالوں سے بھری پڑی ہے، جس سے بنی نوع انسان عبر ت حاصل کرسکتے ہیں۔ عہدِ عتیق کی کتُب کا مطالعہ اسی ایک حقیقت کوظاہر کرتاہے کہ جب بنی اسرائيل خدا کی مرضی اوراحکام کے تابع رہے، اُن کی قوم ترقی کرتی رہی۔ لیکن جب اُنہوں نے الہٰی احکام کو پس پشت پھینک دیا تو وہ قعر(گہرائی۔بڑا گڑھا)ذلت میں گرفتار ہوگئے۔ غضب الہٰی اسی قانون قدرت کا دوسرا نام ہے ۔پروردگارِ عالم نے ایسا انتظام کر رکھاہے کہ جو اقوام یا افراد الہٰی احکام کا عدول کرکے الہٰی محبت سے منہ موڑ تے ہیں، وہ اپنے کئےکی سزا پاتے ہیں۔
’’ خداوند ایک دیوار پر جو ساہول سے بنائی گئی تھی کھڑا ہےاورساہول اُس کےہاتھ میں ہے‘‘(عاموس ۷: ۱۷) ۔خدا ایک ہی ساہول اور معیار سے دنیا کی اقوام او رممالک کو جانچتاہے۔ ہر انسانی، سیاسی ، معاشرتی اور اقتصادی نظام اسی ایک معیار سے پرکھا جاتاہے اورجس طرح وہ دیوار جوساہول سے نہ بنائی جائے ٹیڑھی ہوجاتی ہے اورجب کج دیوار ایک خاص اندازہ سے بڑھ جاتی ہے تو اپنے وزن سے خودہی گرجاتی ہے۔ اسی طرح ہر ایک انسانی امر جو الہٰی محبت کے قوانین کے مطابق نہیں بنتا، وہ قدرتی طورپر خود بخود فنا ہوجاتاہے۔ کیونکہ کِردِگار(خالق) نے عالم کا انتظام ہی اس قسم کا کررکھاہے۔ اس الہٰی غضب سے ہم ہر گز نہیں بچ سکتے۔
’’کیونکہ خدا کا غضب اُن آدمیوں کی تمام بے دینی اورناراستی پر آسمان سے ظاہر ہوتاہے جو حق کو ناراستی سے دبائے رکھتے ہیں۔۔۔اے انسان تُو جو ایسے کام کرنے والوں پر الزام لگاتا ہے اور خود وہی کام کرتا ہے کیا یہ سمجھتا ہے کہ تو خدا کی عدالت سے بچ جائےگا۔ تا تُو اس کی مہربانی اور تحم اور صبر کی دولت کو ناچیز جانتا ہے اور نہیں سمجھتا کہ خدا کی مہربانی تجھ کو توبہ کی طرف مائل کرتی ہے۔ بلکہ تُو اپنی سختی اور غیر تائب دل کے مطابق اُس قہر کے دن کےلئے اپنے واسطے غضب کمارہاہے جس میں خدا کی سچی عدالت ظاہر ہوگی۔ وہ ہر ایک کو اس کے کاموں کے موافق بدلہ دےگا‘‘(رومیوں ۱۸:۱۔۶:۲)۔
لہٰذارسو ل مقبول اپنے مسیحیوں کو کہتا ہے’’ عزیز فرزندوں کی طرح خدا کی مانند بنو اورمحبت سے چلو اور جیساکہ مقدسوں کو مناسب ہے ۔ تم میں حرام کاری اورکسی طرح کی ناپاکی کا ذکر تک نہ ہو۔ کوئی تم کو بے فائدہ باتوں سے دھوکا نہ دے ۔ کیونکہ انہی گناہوں کے سبب سے نافرمانی کے فرزندوں پر خدا کاغضب نازل ہوتاہے‘‘(افسیوں ۵باب)۔ پس مسیحیت کے مطابق الہٰی غضب کسی برترہستی کے انتقام پر مشتمل نہیں۔ کیونکہ انتقام کا جذبہ خداکی محبت کے منافی ہے، بلکہ وہ خدا کی محبت کی قدوسیت اورپاکیزگی کافطرتی اور قدرتی نتیجہ ہے۔ کیونکہ’’ پاکیزگی کا انجام ہمیشہ کی زندگی‘‘ ہے،لیکن’’ گناہ کی مزدوری موت ہے‘‘۔ یہ اٹل قانونِ قدر ت ہے۔
(۲)
یہاں ہم یہ عرض کردینا مناسب سمجھتے ہیں کہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ الہٰی غضب فطرت کااٹل قانون ہے توہم اُن قوانین کو ایک غیرشخص بالا اوربرترہستی قرار نہیں دیتے جن کی رُو سے کسی انسان کو قرار نہیں ہوسکتا۔ہم اہل ہنود کی طرح کرم کی تعلیم کے قائل نہیں۔ ہم دنیاوی اورمادی اسباب وعلل کو وہ جگہ اور رتبہ نہیں دیتے جو صرف مسبّب الاسباب کو ہی شایاں ہے۔ ہم کسی تقدیر مبرم اور عقیدۂ جبر کے قائل نہیں۔ بلکہ اُس واحد ہستی کے قائل ہیں جس کی ذات محبت ہے اورجس کی صفات مادی اسباب وعلل میں ہم کونظر آتی ہیں۔’’ آسمان خدا کا جلال بیان کرتے ہیں اور فضا اُس کی دست کاری دکھاتی ہے‘‘(زبور۱:۱۹)۔ خدا کی محبت کی پاکیزگی اور قدوسیت ظاہر کرتی ہے کہ خداوند کی عدالتیں سچی اور تمام وکمال سیدھی ہیں اوران کوابد تک پائیداری حاصل ہے(زبور ۱۹: ۹)۔
(۳)
ہم اس مضمون کے شروع میں کہہ چکےہیں کہ مسیحیت اس بات کی قائل ہے کہ خداکی ذات اور صفات زمان ومکان کی قیود کے ماتحت انسانی حدود کے اندر ربنا المسیح کی مبارک زندگی ، موت اور قیامت میں ظاہر ہوئی ہیں۔ جب ہم انجیل جلیل میں ابن اللہ کی محبت بھری زندگی کودیکھتے ہیں تو ہم خدا کی محبت کا تصور باندھ سکتے ہیں۔ جب ہم چاروں انجیلوں میں اس کی قدوس زندگی پر نظر کرتے ہیں توہم پر یہ ظاہر ہوجاتا ہے کہ خدا کو گناہ اور بدی سے نفرت ہے، کیونکہ وہ نیکی کا سرچشمہ ہے۔جناب مسیح کی زندگی ایک نور ہے جس کی روشنی میں عاجز انسان حقیقی نیکی کے مفہوم کو کماحقہ‘ سمجھ سکتاہے۔ کلمتہ اللہ نے علیٰ اعلان فرمایا’’دنیا کا نورمیں ہوں، جومیری پیروی کرے گا وہ اندھیرے میں نہ چلےگا ، بلکہ زندگی کا نور پائےگا‘‘(یوحنا ۸: ۱۲)۔ مقدس یوحنا انجیل نویس فرماتاہے’’ اُس میں زندگی تھی اور وہ زندگی آدمیوں کا نور تھی۔ نور تاریکی میں چمکتا ہے ‘‘(یوحنا ۱: ۴، ۵)۔
کلمتہ اللہ کے مبارک اقوال وافعال’’ اقوام عالم کو روشنی دینے والے نور ہیں‘‘ جوہر ایک شخص کی زندگی کی عدالت کرتے ہیں۔ جناب مسیح کے خیالات، کلمات ، جذبات اور افعال کی روشنی میں ہر شخص اپنے خیالات اور زندگی کو پرکھ سکتاہے اورمعلوم کرسکتاہے کہ آیا مجھ میں تاریکی ہے یا نہیں۔ کیونکہ’’جو خدا سے ہوتاہے ۔ وہ خدا کی باتیں سنتا ہے‘‘(یوحنا ۸: ۴۷) ۔چنانچہ ابن اللہ نے رومی گورنر پیلاطس تک کو فرمایا’’ میں اس لئے پیدا ہوا اور اس واسطے دنیا میں آیاہوں کہ حق کی گواہی دوں۔ جو کوئی سچائی کا ہے وہ میری آواز سنتاہے‘‘(یوحنا ۱۸: ۳۷)۔ پھر اہل یہود کو مخاطب کرکے فرمایا ’’ جب تک نور تمہارے ساتھ ہے،چلے چلو۔ ایسا نہ ہو کہ تاریکی تم کو آ پکڑے‘‘(یوحنا ۱۲: ۳۵)۔ مقدس یوحنا انجیل نویس فرماتاہے کہ کلمتہ اللہ کی مبارک زندگی ’’آدمیوں کا نور تھی اور نور تاریکی میں چمکتاہے اورتاریکی نے اُسے قبول نہ کیا‘‘ (یوحنا ۱: ۵)۔ پھر فرماتاہےکہ جو لوگ ’’دنیا سے ہیں وہ دنیاکی سی کہتے ہیں اوردنیا اُن کی سنتی ہے۔ ہم خدا سے ہیں۔ جوخداکو جانتاہے وہ ہماری سنتا ہے۔ جو خدا سے نہیں وہ ہماری نہیں سنتا ۔ اسی سے ہم حق کی روح اور گمراہی کی روح کو پہچان لیتے ہیں‘‘(۱۔یوحنا ۴: ۵تا ۷)۔پس کلمتہ اللہ کی زندگی ایک ایسی کسوٹی ہے جونیک وبد کے پرکھنے میں کبھی خطا نہیں کرتی۔ آپ کے خیالات اور جذبات ، کلمات طیبات اورجلال افعال بنی نوع انسان کے جذبات ،اقوال اور افعال کی عدالت کرتے ہیں۔ چنانچہ آپ نےفرمایا’’میں دنیا میں عدالت کے لئے آیاہوں‘‘ (یوحنا ۹: ۳۹)۔’’ باپ کسی کی عدالت نہیں کرتا ، بلکہ اُس نے عدالت کا سارا کام بیٹے کے سپرد کیا ہے۔ اُس نے اُس کو عدالت کرنے کا اختیار بخشا ہے کیونکہ وہ ابن آدم (انسانِ کامل) ہے‘‘(یوحنا ۵: ۲۲، ۲۷)۔ مقدس پطرس جس نے ابن اللہ کی زندگی کا اچھی طرح مطالعہ کیا تھا فرماتاہے’’ یسوع مسیح وہی ہے جو خدا کی طرف سے زندوں اور مُردوں کا منصف مقررکیا گیا ہے‘‘(اعمال۱۰: ۴۲)۔ مقدس پولس بھی فرماتاہےخدا راستی سے دنیا کی عدالت یسوع مسیح کی معرفت کرےگا(اعمال۱۷: ۳۱)۔’’ ضرور ہے کہ مسیح کے تختِ عدالت کے سامنے جاکر ہم سب کا حال ظاہر کیا جائے‘‘(۲۔کرنتھیوں ۱۵: ۱۰)۔یہ اُن لوگوں کی گواہی ہے جنہوں نے کلمتہ اللہ کو خود سنا اور اپنی آنکھوں سے دیکھا ،بلکہ غور سے دیکھا اور اپنے ہاتھوں سے چھوا‘‘(۱۔یوحنا۱: ۱) ۔اُنہوں نے تین سال کا ایک ایک لمحہ ابن اللہ کی صحبت میں کاٹا تھااورجب وہ اپنی زندگی کو آپ کی قدوس زندگی کے آئینہ میں دیکھتے تھے تو وہ بے اختیار کہتے تھے’’اے خداوند میں گناہ گار آدمی ہوں‘‘(لوقا ۵: ۸)۔’’ یہ بات سچ اورہر طرح سے قبول کرنے کےلائق ہے کہ مسیح یسوع گناہ گاروں کو نجات دینے کےلئے دنیا میں آیا۔جن میں سب سے بڑا میں ہوں‘‘(۱۔تیمتھیس۱: ۱۵)۔
کلمتہ اللہ کے مبارک اقوال وافعال’’ اقوام عالم کو روشنی دینے والے نور ہیں‘‘ جوہر ایک شخص کی زندگی کی عدالت کرتے ہیں۔ جناب مسیح کے خیالات، کلمات ، جذبات اور افعال کی روشنی میں ہر شخص اپنے خیالات اور زندگی کو پرکھ سکتاہے اورمعلوم کرسکتاہے کہ آیا مجھ میں تاریکی ہے یا نہیں۔ کیونکہ’’جو خدا سے ہوتاہے ۔ وہ خدا کی باتیں سنتا ہے‘‘(یوحنا ۸: ۴۷) ۔چنانچہ ابن اللہ نے رومی گورنر پیلاطس تک کو فرمایا’’ میں اس لئے پیدا ہوا اور اس واسطے دنیا میں آیاہوں کہ حق کی گواہی دوں۔ جو کوئی سچائی کا ہے وہ میری آواز سنتاہے‘‘(یوحنا ۱۸: ۳۷)۔ پھر اہل یہود کو مخاطب کرکے فرمایا ’’ جب تک نور تمہارے ساتھ ہے،چلے چلو۔ ایسا نہ ہو کہ تاریکی تم کو آ پکڑے‘‘(یوحنا ۱۲: ۳۵)۔ مقدس یوحنا انجیل نویس فرماتاہے کہ کلمتہ اللہ کی مبارک زندگی ’’آدمیوں کا نور تھی اور نور تاریکی میں چمکتاہے اورتاریکی نے اُسے قبول نہ کیا‘‘ (یوحنا ۱: ۵)۔ پھر فرماتاہےکہ جو لوگ ’’دنیا سے ہیں وہ دنیاکی سی کہتے ہیں اوردنیا اُن کی سنتی ہے۔ ہم خدا سے ہیں۔ جوخداکو جانتاہے وہ ہماری سنتا ہے۔ جو خدا سے نہیں وہ ہماری نہیں سنتا ۔ اسی سے ہم حق کی روح اور گمراہی کی روح کو پہچان لیتے ہیں‘‘(۱۔یوحنا ۴: ۵تا ۷)۔پس کلمتہ اللہ کی زندگی ایک ایسی کسوٹی ہے جونیک وبد کے پرکھنے میں کبھی خطا نہیں کرتی۔ آپ کے خیالات اور جذبات ، کلمات طیبات اورجلال افعال بنی نوع انسان کے جذبات ،اقوال اور افعال کی عدالت کرتے ہیں۔ چنانچہ آپ نےفرمایا’’میں دنیا میں عدالت کے لئے آیاہوں‘‘ (یوحنا ۹: ۳۹)۔’’ باپ کسی کی عدالت نہیں کرتا ، بلکہ اُس نے عدالت کا سارا کام بیٹے کے سپرد کیا ہے۔ اُس نے اُس کو عدالت کرنے کا اختیار بخشا ہے کیونکہ وہ ابن آدم (انسانِ کامل) ہے‘‘(یوحنا ۵: ۲۲، ۲۷)۔ مقدس پطرس جس نے ابن اللہ کی زندگی کا اچھی طرح مطالعہ کیا تھا فرماتاہے’’ یسوع مسیح وہی ہے جو خدا کی طرف سے زندوں اور مُردوں کا منصف مقررکیا گیا ہے‘‘(اعمال۱۰: ۴۲)۔ مقدس پولس بھی فرماتاہےخدا راستی سے دنیا کی عدالت یسوع مسیح کی معرفت کرےگا(اعمال۱۷: ۳۱)۔’’ ضرور ہے کہ مسیح کے تختِ عدالت کے سامنے جاکر ہم سب کا حال ظاہر کیا جائے‘‘(۲۔کرنتھیوں ۱۵: ۱۰)۔یہ اُن لوگوں کی گواہی ہے جنہوں نے کلمتہ اللہ کو خود سنا اور اپنی آنکھوں سے دیکھا ،بلکہ غور سے دیکھا اور اپنے ہاتھوں سے چھوا‘‘(۱۔یوحنا۱: ۱) ۔اُنہوں نے تین سال کا ایک ایک لمحہ ابن اللہ کی صحبت میں کاٹا تھااورجب وہ اپنی زندگی کو آپ کی قدوس زندگی کے آئینہ میں دیکھتے تھے تو وہ بے اختیار کہتے تھے’’اے خداوند میں گناہ گار آدمی ہوں‘‘(لوقا ۵: ۸)۔’’ یہ بات سچ اورہر طرح سے قبول کرنے کےلائق ہے کہ مسیح یسوع گناہ گاروں کو نجات دینے کےلئے دنیا میں آیا۔جن میں سب سے بڑا میں ہوں‘‘(۱۔تیمتھیس۱: ۱۵)۔
قدیم زمانہ میں اسی طرح حضرت یسعیاہ پکار اٹھے تھے، جب اُنہوں نے الہٰی قدوسیت کا جلال دیکھاتھا۔’’ تب میں چلّایا۔ ہائے مجھ پر میں توبرباد ہوا۔ کیونکہ ناپاک ہونٹوں والاآدمی ہوں‘‘(باب۶)۔کلمتہ اللہ کی جلالی اور قدوس زندگی نے ہر شخص کی جو آپ کے پاس آیا ،عدالت کی(متی ۹: ۲، ۱۲؛ ۱۲: ۳۴؛ ۱۶: ۴؛ ۲۱: ۴، ۴۰؛باب ۲۳؛ ۲۶: ۲۵؛ ۲۷: ۴؛ لوقا ۷: ۳۸؛ ۱۱: ۳۹ تا ۱۲: ۷؛ باب۱۵؛ ۱۶: ۱۵؛ ۱۹: ۸۔ ۱۰؛ یوحنا ۳: ۱۔ ۲۱؛ ۴: ۲۹؛ ۵: ۱۴؛ ۸: ۱۔ ۱۰ ،۴۴، ۴۶؛ ۹: ۴۱؛ مرقس ۱۴: ۷۲)۔ ہر شخص اپنی گھناؤنی زندگی پر نظر کرکے توبہ کرتا اور اپنے گناہوں سے نجات پانے کا جاں فزا مژدہ سن کر خدا کی بادشاہت کا وارث ہوجاتا تھا ۔لیکن جو لوگ اپنے دلوں کو سخت کرکے دیدہ و دانستہ توبہ نہیں کرتے تھے۔ اُن کو بھی اپنی زندگیاں نفرت انگیز نظر آتی تھیں (یوحنا ۸: ۱۔ ۱۰)۔ خداوند فرماتے تھے کہ اُن کی عدالت زيادہ سخت ہوگی (متی ۱۱: ۲۰۔ ۲۴؛ ۱۲: ۴۱۔ ۴۵ ؛لوقا ۱۳: ۱تا ۵؛ ۲۰: ۱۶تا ۱۸)۔
ابن اللہ اُن کے دل کی سختی پر باربار تعجب کرتے اور اظہارِ افسوس کرتے تھےاوراُن کے اعمال کی پاداش پر روتے تھے۔’’جب اُس نے نزدیک آکر یروشلیم کودیکھا تو رویا اورکہا کاش کہ تُو اپنے اسی دن میں سلامتی کی باتیں جانتا۔ مگر اب وہ تیری آنکھوں سے چھپ گئی ہیں۔ کیونکہ وہ دن تجھ پر آئیں گے کہ تیرے دشمن تیرے گرد مورچہ باندھ کر تجھے گھیر لیں گے اورہر طرف سے تنگ کریں گے اور تجھ کو اور تیرے بچوں کو زمین پر دے پٹکیں گے اورتجھ میں کسی پتھر پرپتھر باقی نہ چھوڑیں گے ۔ اس لئے کہ تُو نے اُس وقت کو نہ پہچانا ۔ جب تجھ پر نگاہ کی گئی ۔ دیکھو تمہارا گھر تمہارے لئے ویران چھوڑا جاتا ہے۔ جب تک نہ کہو گے کہ مبارک ہےوہ جو خداوند کے نام پر آتاہے‘‘(لوقا ۱۹: ۴۱۔ ۴۴ ؛ متی ۳۳: ۳۷۔ ۳۹)۔ تاریخ ہم کو بتاتی ہے کہ یروشلیم اور قوم یہود کے ساتھ ایسا ہی ہوا۔ اُن کے مصائب وآلام جناب مسیح کی وفات کے بعد شروع ہوگئے اورتاحال ان کا خاتمہ نظر نہیں آتا۔ان کی وجہ یہ نہیں کہ خدا ذوالانتقام ہےاور وہ بدلہ لیتاہے۔ اس قسم کی دلیل لانے والے خدا کو اپنا سا انسان سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو خداوند فرماتا ہے’’ تُونے یہ کِیا۔ تُونے گمان کیاکہ مَیں تجھی سا ہوں‘‘(زبور ۵۰: ۲۱)۔ کلمتہ اللہ کے الفاظ میں’’ وہ خدا کی باتوں کا نہیں بلکہ آدمیوں کی باتوں کا خیال ‘‘رکھتے ہیں(متی ۱۶: ۲۳)۔ ’’کیونکہ جو جسمانی ہیں وہ جسمانی باتوں کے خیال میں رہتے ہیں‘‘(رومیوں ۸: ۵)۔ یروشلیم اور قوم یہود کی تباہی خدا کی محبت کی قدوسیت کے قوانین کی خلاف ورزی کی ایک بیّن مثال ہے۔ زبور نویس ایسے ہی حالات میں اقرار کرتاہے’’اے خداوند میں جانتاہوں کہ تیری عدالتیں راست ہیں اورکہ تُونے وفاداری سے مجھ پر تباہی بھیجی‘‘(زبور ۱۱۹: ۷۵)۔اعمال کی مکافات(سزا۔بدلہ) محض سزا دینے کی خاطرنہیں، بلکہ اصلاح کی خاطر تنبیہ ہے۔ چنانچہ امثال کا مصنف نصیحت کرتاہے’’اے میرے بیٹے خداوند کی تنبیہ کو حقیر مت جان اور اُس کی تادیب سے بے دل مت ہو۔ کیونکہ جس سے خداوند محبت رکھتاہے ،اُسے تنبیہ بھی کرتاہے ۔ جس طرح باپ اُس بیٹے کو جس سے وہ خوش ہے‘‘(۱۳: ۱۱، ۱۲) اور عبرانیوں کا مصنف کہتاہے’’ہر قسم کی تنبیہ خوشی کا نہیں، بلکہ غم کا باعث معلوم ہوتی ہے۔ مگر جواس کے سہتے سہتے پختہ ہوگئے ہیں، اُن کو بعد میں چین کے ساتھ راست بازی کاپھل بخشتی ہے‘‘ (۱۲: ۱۱)۔
(۴)
پس جو گناہ گار اپنے اعمال کےنتائج کو دیکھ کر خلوصِ دل سے توبہ کرتے ہیں۔ خدا کی محبت اُن کواپنے فضل وکرم سے گناہ کے بند اور قید کی غلامی سے نجات بخشتی ہے اور اس کو اس قابل بنادیتی ہے کہ اس کی مردہ روح میں زندگی پیدا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ کلمتہ اللہ فرماتے ہیں’’ میں تم سے سچ سچ کہتاہوں کہ جو میرا کلام سنتا اورمیرے بھیجنے والے کا یقین کرتاہے ،ہمیشہ کی زندگی اُسی کی ہے اوراس پر سزا کاحکم نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ موت سے نکل کر زندگی میں داخل ہوگیا ہے۔ مُردے خدا کے بیٹے کی آواز سنیں گےاورجوسنیں گے وہ زندہ ہوجائیں گے ‘‘(یوحنا ۵: ۲۴، ۲۵)۔ آپ نے فرمایا کہ’’قیامت اور زندگی تو مَیں ہوں ۔جو مجھ پر ایمان لاتاہےگو وہ مرجائے تو بھی زندہ رہےگا اورجوکوئی زندہ ہے اورمجھ پر ایمان لاتاہے وہ ابد تک کبھی نہ مرےگا‘‘(یوحنا۱۱: ۲۶،۲۵)۔ ہر شخص کو جو اپنے گناہوں کے ہاتھوں مجبور ہے ،یہ تجربہ ہے کہ
’’ مَیں جِسمانی او ر گُناہ کے ہاتھ بِکا ہُؤا ہُوں اور جو مَیں کرتا ہُوں اُس کو نہیں جانتا کیونکہ جِس کا مَیں اِ ر اد ہ کرتا ہُوں وہ نہیں کرتا بلکہ جِس سے مجھ کو نفرت ہے وُہی کرتاہُوں۔۔۔۔ مَیں جانتا ہُوں کہ مجھ میں یعنی میرے جِسم میں کوئی نیکی بسی ہوئی نہیں البتہ اِ ر اد ہ تو مجھ میں مَوجُودہے مگر نیک کام مجھ سے بن نہیں پڑتے۔ چُنانچہ جِس نیکی کا اِ ر اد ہ کرتاہُوں وہ تو نہیں کرتا مگر جِس بدی کا اِ ر اد ہ نہیں کرتا اُسے کر لیتا ہُوں۔پس اگر مَیں وہ کرتا ہُوں جِس کا اِ ر اد ہ نہیں کرتا تو اُس کا کر نے والا مَیں نہ رہا بلکہ گُناہ ہے جو مجھ میں بسا ہُؤا ہے۔غرض میں اَیسی شرِیعت پاتا ہُوں کہ جب نیکی کا اِ ر اد ہ کرتا ہُوں تو بدی میرے پاس آمَوجُود ہوتی ہے۔کیونکہ باطِنی اِنسانیِّت کی رُو سے تو مَیں خُدا کی شرِیعت کو بہت پسند کرتاہُوں۔مگر مجھے اپنے اعضا میں ایک اَور طرح کی شرِیعت نظر آتی ہے جو میری عقل کی شرِیعت سے لڑ کر مجھے اُس گُناہ کی شرِیعت کی قَید میں لے آتی ہے جو میرے اعضا میں موَجُود ہے۔ہائے مَیں کَیسا کمبخت آدمی ہُوں! اِس مَوت کے بدن سے مجھے کَون چُھڑائے گا؟‘‘ (رومیوں۱۴:۷۔۲۴)۔ ایسی حالت میں جناب مسیح کا فضل گناہ گار کے شامل حال ہوتاہےاوراُس کو اس خوف ناک غلامی سے چھڑاتاہے۔ کیونکہ’’ گناہ‘‘ کی مزدوری موت ہے۔ مگر خدا کی بخشش ہمارے جناب مسیح میں ہمیشہ کی زندگی ہے‘‘(رومیوں ۶: ۲۳)۔
۱۴۔خدا کا غضب
(۱)
انجیل جلیل کی تعلیم کا مرکزی اُصول یہ ہے کہ’’ خدامحبت ہے‘‘ (۱۔یوحنا ۴: ۸) ۔مسیحیت کا تمام دارومدار اسی ایک اصول پر ہے کہ خدائے واحد کی ذات محبت ہےاورمسیحی عقائد کو سمجھنے کی یہی ایک کنجی ہے۔ اگر کوئی شخص اس اصل الاصول کو نظر انداز کرکے کسی مسیحی مسئلہ پر بحث کرتاہے توممکن ہے کہ وہ اپنی خداداد عقل کے جوہر سے لوگوں کو مرعوب کردے۔ لیکن وہ اس مسئلہ کو انجیل جلیل کے پیغام کے مطابق حل کرنے سے قاصر رہ جاتاہے۔
(۲)
مقدس یوحنا اور مقدس پولس دونوں اپنی تحریرات میں اس اصل کے ذریعہ مسیحیت کے پیغام کی تشریح کرتے ہیں۔لیکن اس کے ساتھ ہی وہ ’’خدا کے غضب‘‘ کا بھی ذکر کرتے ہیں (رومیوں ۱: ۱۸؛ یوحنا ۳: ۳۶)۔پس سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اگر خدا محبت ہے تو خدا کے غضب کا کیا مطلب ہے؟ہمارےذہن یہ قبول نہیں کرتے کہ ایک ہی ہستی میں محبت اور غضب دونوں موجود ہوں ،کیونکہ ہم یہ فرض کرلیتے ہیں کہ محبت اور غضب دومتضاد صفات ہیں جو ایک ہی ہستی میں موجود نہیں ہوسکتی ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم الہٰی غضب کو انسانی غضب کے مطابق تصورکرلیتے ہیں ۔ہم یہ فراموش کردیتے ہیں کہ انسانی غضب میں گناہ کا عنصر ہوتاہے۔ کیونکہ اس میں انتقام کا جذبہ عموماً موجود ہوتاہے ۔ جس غضب سے ہم واقف ہیں اُس میں بدلہ لینے کی خواہش اور منتقمانہ سزا دینے کا خیال تقریباً ہمیشہ ہوتاہے۔ بلکہ حق تویہ ہے کہ انسانی غضب ہر قسم کے جَوروظلم ، تند مزاجی ،کینہ، بغض اورحسد ،نفرت اور جنگ جوئی وغیرہ کا سرچشمہ ہے۔ اس کی نشوونما اور ترقی بھی انہی جذبات پرمنحصر ہے۔ پس کتاب مقدس میں بار بار غصے ، غیظ اور غضب کے خلاف تاکیداً تنبیہ کی گئی ہے۔ چنانچہ حضرت داؤد فرماتے ہیں ’’غصہ کرنے سے باز آاور غضب کو ترک کر‘‘(زبور ۲۷: ۸) ۔حضرت سلیمان کہتے ہیں’’ غضب سخت بے رحمی ہے اور قہرایک سیلاب ہے‘‘(امثال ۲۷: ۴)۔ مقدس پولس اس کو’’جسم کےکاموں‘‘ میں شمار کرتے ہیں جن کی نسبت وہ فرماتے ہیں کہ ’’ایسے کام کرنے والے خدا کی بادشاہت کے وارث نہ ہوں گے‘‘(گلتیوں باب۵) ۔پھر تاکید کرکے فرماتے ہیں کہ’’غصہ اور قہر وغيرہ کےسبب خدا کا غضب نافرمانی کے فرزندوں پر نازل ہوتا ہے‘‘ (کلسیوں ۳: ۶تا ۸)۔اس میں کچھ شک نہیں کہ غضب کی ایک قسم ایسی بھی ہے جو صالح ہے اورجس کو عموماً راستبازانہ غصہ کہا جاتاہے، جوجائز ہے۔ لیکن یہ صواب کاری(صواب:نیکی۔درست عمل) کا غضب شاذونادر ہی انسانی تجربہ میں آتاہے ۔ اسی قسم کے غضب کی بابت حضرت داؤد فرماتاہے’’انسان کا غضب خدا کی ستائش کرے گا‘‘(زبور ۷۶: ۱۰)۔ اس قسم کے غضب کی اعلیٰ ترین مثال ہم کو ابن اللہ کی مبارک زندگی میں ملتی ہے۔ یوں بیان ہواہے کہ آپ ایک دفعہ خدا کی ہیکل میں تشریف لے گئے۔ وہا ں جاکر کیادیکھتے ہیں کہ جوجگہ غیر یہود کی عبادت کےلئے مخصوص تھی۔ اس کو سردار کاہنوں نے تجارت کا ذریعہ اورمنفعت کا وسیلہ بنارکھاہے اور نمازیوں کی بجائے وہاں بیل اور بھیڑیں ،کبوتر اور صراف وغيرہ ہیں۔ابن اللہ کی غیرت جوش زن ہوئی۔ آپ کے ہاتھ میں ایک رسی تھی۔ آپ نے اس کوکوڑے کے طورپر استعمال کرکے بھیڑوں، بیلوں وغیرہ سب کو نکال دیا اور زبان معجز بیان سے فرمایا ’’ان کو یہاں سے لے جاؤ میرے باپ کے گھر کو تجارت کا گھر نہ بناؤ۔ خداوند فرماتاہے کہ میرا گھر اقوامِ عالم کےلئے دعا کا گھر ہوگا۔لیکن تم نے اُسے ڈاکوؤں کی کھوہ بناتے ہو‘‘(متی باب۲۱ ؛یوحناباب ۲)۔
اکثر اوقات جب ہم غضب ناک ہوتے ہیں تواپنے غصے کوحق بجانب ثابت کرنا چاہتے ہیں اوراپنے آپ کو فریب دے کر یہ خیال کرتے ہیں کہ ہمارا غصہ صواب کاری اورراستی کا غصہ ہے۔ لیکن جب ہم حق کے آئینہ میں اس جذبہ کو دیکھتے ہیں توہم پر یہ ظاہر ہوجاتاہے کہ ہمارے جذبہ میں خودی کا عنصر موجو دہےاورہمارے غضب کااصلی سبب یہ ہے کہ ہماری خودی اورخودنمائی کوکسی نہ کسی طرح سے ٹھیس لگی ہے۔ جس سے ہمارے دل میں انتقام لینے کی خواہش پیدا ہوتی ہے اورجس چیز کو ہم غیرت الہٰی کی طرف منسوب کرتے تھے وہ درحقیقت الہٰی باتوں سے کوسوں دورہوتی ہے اورکہ ہمارا غصہ خدا کی طرف سے نہیں،بلکہ شیطانی وسوسہ کا نتیجہ ہے۔چونکہ انسانی تجربہ میں راست بازی کا غصہ کالنادرفے المعدوم (النا در کالمعدوم (ع۔مقولہ)بہت کم دستیاب ہونے والی چیزنہ ہونے کے برابر) کا حکم رکھتاہے۔ اس لئے ہم الہٰی غضب کے صحیح مفہوم کو سمجھنے سے قاصر رہ جاتے ہیں اوریہ خیال کرتے ہیں کہ خدا جس کی ذات محبت ہے، اس کی صفت غضب نہیں ہوسکتی ۔
(۳)
ایک اَور سبب ہے جس کی وجہ سے ہم یہ خیال کرتے ہیں کہ محبت اور غضب کے جذبے ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے۔ غیر مسیحی مذاہب اور بالخصوص اسلام نے جو قہر الہٰی کا تصور ہمارے سامنے پیش کیا ہے۔اس کے خیال ہی سے انسان پر دہشت چھا جاتی ہےاوربدن کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ازروئے قرآن خدا ایک قہار ہستی ہے اور انسان مقہور ہے۔ خدا ضرر پہنچانے والا اور گناہ گاروں کو فنا کردینے والا حاکم ہے۔ جس نے جہنم سزادینے کی غرض سے پیدا کرکھا ہے۔ قرآن میں سزا کا بیان پڑھنے سے جسم پر رعشہ طاری ہوجاتاہے۔ یہ ظاہر ہے کہ اس قسم کا غضب خدا کی محبت کے منافی ہےاور جب انجیل جلیل میں خدا کے غضب کا ذکرآتاہےتو اِن الفاظ کا وہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا جواسلام اور قرآن کا مطلب ہوتاہے۔ اس قسم کے غضب میں انتقام کا عنصر غالب ہے اور سزا کا واحد مقصد بدلہ لینا ہوتاہے، جومحبت کے منافی ہے۔ محبِ صادق اپنے محبوب سے انتقام نہیں لیا کرتا۔
(۴)
ہم اس حقیقت کو ایک دنیوی مثال سے واضح کرتےہیں۔جب کسی باپ کا بچہ آوارہ ہوکر شیطانی افعال کا مرتکب ہوتاہے تو باپ اس محبت کی وجہ سے جو وہ اُس کے ساتھ کرتاہے،اُس سے غصہ ہوتاہے۔ پس باپ کا غضب درحقیقت اُس کی محبت کی آگ کی چنگاری ہے اور اگر وہ اپنے بیٹے کوسزا دیتاہے تواس کا مقصد انتقام اور بدلہ لینا نہیں ہوتا، بلکہ اس کا واحد مقصد یہ ہوتاہے کہ بیٹے کی زندگی کی اصلاح ہوجائے اوراس کی عادتیں سنور جائیں اور وہ راہِ راست پر چلے۔ باپ کی محبت اوراُس کا غضب دومتضاد باتیں نہیں ہوتیں۔اس کے برعکس باپ کا غضب اس کی محبت کا ظہورہے،جس کا مقصد بیٹے کی اصلاح ہے۔ پس باپ کی محبت اورباپ کا غضب درحقیقت ایک ہی تصویر کے دورُخ ہیں۔ اگرایک زاویۂ نگاہ سے دیکھا جائےتو وہ باپ کی محبت ہے۔ لیکن دوسرے زوایہ ٔنگاہ سے وہی چیز باپ کا غضب ہے۔
یہ دنیوی مثال جوہر روز ہمارے تجربہ میں آتی ہے ہم کوالہٰی محبت اورالہٰی غضب کا صحیح مفہوم سمجھنے میں مددیتی ہے۔ خدامحبت ہے۔ لیکن جب اُس کا گناہ گار فرزند اُس کی راہ کو ترک کرکے شیطان کے پیچھے چلتاہے تو الہٰی محبت کی آگ کی چنگاریاں الہٰی غضب کی شکل میں ظاہر ہوتی ہیں۔ پس خدا کی محبت اورخدا کا غضب دومتضاد چیزیں نہیں ہیں، بلکہ غضب محبت کا ظہور ہے اوریہ غضب منتقمانہ نہیں ہوتا۔ بلکہ اس کی غایت گناہ گار انسان کی اصلاح ہے۔ اسی واسطے انجیل جلیل میں الہٰی غضب کا نام’’برّے کا غضب‘‘ رکھاہے(مکاشفہ ۶: ۱۶)۔ اس غضب کا مقصد گناہ گار انسان کوفنا کرنا نہیں ہوتا۔ کیونکہ خدا ہرگناہ گار سے محبت رکھتا ہے(یوحنا۳: ۱۶)اورچاہتا ہےکہ’’ شریر اپنی شرارت سے باز آئے اور زندہ رہے‘‘۔
پس صحیح معنوں میں غضب اورمحبت میں تضاد نہیں ہے۔محبت کا تضاد غضب نہیں بلکہ بے اعتنائی ،بے توجہی اوربے پروائی ہے۔ اگرالہٰی محبت کا ظہور غضب میں نہیں ہوتا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا گناہ کے معاملہ میں بے پرواہے اوراگر اس کا کوئی فرزند گمراہ ہوکر بدی کرتاہے تواس کو بالکل پرواہی نہیں ہوتی ۔ جس طرح سوتیلے باپ کو پروا نہیں ہوتی ۔ جب اس کا سوتیلا بیٹا شیطانی افعال کا مرتکب ہو جاتاہے۔ سوتیلا باپ اس معاملہ میں بے اعتنائی اور بے توجہی اختیارکرلیتاہے ، کیونکہ وہ محبت نہیں کرتا۔ لیکن وہ اپنے سگے بیٹے کی طرف سے بے پروانہیں ہوتا۔چونکہ اُس سے محبت کرتاہے۔ وہ اُس سے ناراض ہوتاہے تاکہ بیٹے کی اصلاح ہوجائے۔
پس الہٰی محبت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ اس کا ظہور غضب میں ہو۔ اس دنیا میں نیکی اور بدی کی طاقتوں میں جنگ ہورہی ہے اورکوئی صحیح العقل شخص یہ نہیں مان سکتا کہ اس جنگ میں خدا غیر جانب دار ہوکر بے اعتنائی اختیارکرلیتاہے ۔ اس کو یہ پرواہی نہیں کہ انسان اس جنگ میں اس کی کمان کے ماتحت ہے یا شیطان کے جھنڈے تلے لڑرہاہے۔ انجیل جلیل کی یہ تعلیم ہے کہ خدا جونیکی کا سرچشمہ ہے ،بدی سے عداوت رکھتاہے۔ لہٰذاوہ نیکی اوربدی کی زبردست جنگ میں بے توجہی اور بے اعتنائی اختیار کرہی نہیں سکتا۔ الہٰی غضب اس جانب داری کا لازمی نتیجہ ہے۔ لیکن جیسا ہم اُوپر ذکر کرچکے ہیں اس الہٰی غضب میں بدلہ اور انتقام کا رتی بھر عنصر بھی نہیں ہے، کیونکہ خدا محبت ہے۔
’’بدن کی قیامت اور ابدی زندگی ‘‘
۱۵۔جب یہ فانی جسم بقا کا جامہ پہن چکےگا
(۱)
قریباً انیس سو سال ہوئے مقدس پولس نے لکھا تھا’’کوئی یہ سوال کرےگا کہ مُردے کس طرح جی اٹھتے ہیں اورکیسے جسم کے ساتھ آتے ہیں؟‘‘ (۱۔کرنتھیوں ۱۵: ۳۵)۔آج بھی اکثرلوگ یہی سوال کرتے ہیں(جس کا حل صدیوں سے انجیل جلیل میں پایا جاتاہے)کہ کیا جوجسم جی اٹھےگا بعینہٖ وہی ہوگا جو صدیوں سے تہِ زمین دفن ہوچکاہے یا سپردآتش کیا گیاہے یا مردم خود حیوانوں اورانسانوں نے کھالیا ہے۔ کیونکہ وہ تواُن کے اپنے جسموں کا حصہ ہوچکاہے؟
انجیل جلیل کاجواب صاف ہے کہ یہ جسم جو خون ، گوشت اور ہڈیوں پر مشتمل ہے ،وہ بدن نہیں جو جی اٹھتاہے۔ چنانچہ ہمارے آقا ومولا کی زبان صداقت نے بیان فرمایا ہے’’جو لوگ اس لائق ٹھہریں گے کہ اُس جہان کو حاصل کریں اور مُردوں میں سے جی اٹھیں اُن میں بیاہ شادی نہ ہوگی۔ کیونکہ وہ پھر مرنے کے بھی نہیں۔ اس لئے کہ وہ فرشتوں کے برابر ہوں گے اور قیامت کے فرزند ہوکر خدا کے بھی فرزند وہ ہوں گے‘‘(لوقا ۲۰: ۳۴)۔ مقدس پولس نہایت واضح الفاظ میں فرماتاہے’’ گوشت اورخون خدا کی بادشاہی کا وارث نہیں ہوسکتا اورنہ فنا بقا کی وارث ہوسکتی ہے‘‘(۱۔کرنتھیوں ۱۵: ۵۰) ۔
مقدس پولس کا مطلب یہ ہے کہ جومعترض جی اٹھنے والے بدن کی بابت خیال کرتے ہیں کہ وہ بعینٖہ وہی جسم ہوگا جو سپرد خاک کیا جاتاہے، وہ سخت غلطی میں مبتلا ہیں۔ وہ ذرا قدرت کے نظاروں پر غورکریں۔ ہر موسم بہار میں ہماری آنکھوں کے سامنے ایسی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوتی ہیں جو جی اٹھنے والے بدن سے کم عجیب نہیں ہیں۔’’اےنادان توخود جوکچھ بوتا ہے ۔ جب تک وہ مر نہ جائے زندہ نہیں کیا جاتا ‘‘۔ گیہوں کے کھیت میں یا آموں کے باغ میں پہلے موت نظر آتی ہےاورپھر زندگی رونما ہوتی ہے ۔اناج کا دانہ زمین میں دفن کیا جاتا ہے ۔ وہ پہلے مرجاتاہے ۔تخم کے باہر کا پردہ تحلیل ہوجاتاہے ۔ وہ زمین کے اندر پڑارہ جاتاہے اور وہیں گل کے سڑجاتاہے۔ اُس کا صرف اصل رہ جاتاہے۔ جس میں نیا جسم بننے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ باقی سب فنا ہوجاتاہے اوراس میں سے نیا پودا نکلتاہے ۔ لیکن یہ مشابہت اورمناسبت یہیں ختم نہیں ہوجاتی۔
مقدس پولس رسول فرماتاہے’’جو تُوبوتاہے یہ وہ جسم نہیں جو پیدا ہونے والا ہے‘‘۔ تُویہ اُمید نہیں کرتا کہ جودانہ تُونے بویاہے وہ اسی دانہ کی صورت میں پھر دوبارہ اُ گ پڑےگا۔ کیونکہ جب وہ اُ گتا ہے تو وہ ایسی صورت اختیار کرلیتاہے جوبوئے ہوئے دانہ سے قطعی مختلف ہوتی ہے۔ ایساکہ مدفون دانہ میں اور اُگے ہوئے پودے میں کسی قسم کی مماثلت نہیں ہوتی۔ اس کی صورت اور شکل، رنگ وبو وغیرہ سب میں ایسی تبدیلی واقع ہوجاتی ہے کہ کسی کے قیاس میں بھی یہ نہیں آسکتا کہ یہ وہی دانہ ہے جو سپردِ خاک کیا گیا تھا۔اس اُگی ہوئی شے کا رنگ شوخ سبز ہوتاہے ۔وہ زندہ ہوتی ہے اور روز بروز بڑھتی ہی چلی جاتی ہے ۔آموں کا باغ آموں کی گٹھلیوں کے ڈھیرسے کس قدرمختلف ہوتاہے۔خدا نئی زندگی رکھنے والی شے کو ایسی صورت عطا فرماتاہے کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ وہ اس قانون کے مطابق بڑھتی اور ترقی کرتی چلی جاتی ہےجو خالق نے اس کےلئے مقرر کر رکھا ہے۔’’خدا نے جیسا ارادہ کرلیا ویسا ہی اُس کو جسم دیتاہے اور ہر ایک بیج کو اس کا خاص جسم‘‘ (آیت۳۸) ۔ چنانچہ گیہوں کا پودا روز بروز بڑھتا چلا جاتاہے۔ پھر اس میں بالیں آتی ہیں اور وہ ساٹھ گنا اور سو گناپھل لاتاہے۔یہی حال مُردوں کی قیامت ہے جوجسم سپردِ خاک یانذرآتش کیا جاتاہے ،وہ گل سڑجاتاہے ۔لیکن مقررہ وقت پر ایک ایسا بدن جی اٹھےگا جس کی صورت اور شکل اور زندگی کے طورطریق مدفون جسم سے کلیتہً مختلف ہوں گے۔ اگرہم نے گیہوں کے سرسبز اور لہلہاتے کھیت نہ دیکھے ہوتے توہماری قوتِ متخیلہ کے کبھی وہم وگمان میں بھی نہ آسکتا کہ یہ اُن دانوں کا انجام ہے جوہم نے زیرزمین پھینکے تھے۔ اسی طرح ہماری قوتِ متخیلہ اٹھنے والے بدن کی ساخت اور صورت وغيرہ کا قیاس بھی نہیں کرسکتی اور جب دنیا کے کھیت میں خداوند کی آمد کے وقت موسم بہار آئےگا اورخدا ہرجسم کو نئی صورت بخشےگا توہم اپنےاوراپنے عزیز واقارب کے نئے بدنوں کودیکھ کر حیران اوردنگ رہ جائیں گے۔
(۲)
’’نفسانی جسم بویا جاتاہے اور روحانی جسم جی اٹھتا ہے۔ جب نفسانی جسم ہے تو روحانی جسم بھی ہے‘‘(۱۔کرنتھیوں ۱۵: ۴۴) ۔جو جسم سپردِ خاک کیا جاتاہے ،وہ ’’ نفسانی‘‘ ہے یعنی وہ حواس خمسہ ،خواہشات اوررجحاناتِ کثیف وغیرہ کا اظہار ہے اور بالعموم ہماری بہیمی(حیوانی) فطرت کا آلہ کار ہے۔ایسا جسم سپردِ خاک کیا جاتاہے اوراس کی جگہ’’ روحانی‘‘ بدن جی اٹھتا ہے یعنی ایسا بدن جوروحانی اُمور اوراعلیٰ باتوں کا ذریعہ اظہار ہو اور ہماری روحانی زندگی کی نشوونما اور ترقی کا آلہ کار ہو۔ وہ ہمارے روحانی مقاصد واغراض کے حاصل کرنے میں ممدومعاون ہو۔ ایساکہ’’ گوا بھی تک یہ ظاہر نہیں ہوا کہ ہم کیا کچھ ہوں گے ۔اتنا ہم جانتے ہیں کہ جب وہ (جناب مسیح) ظاہر ہوگا توہم بھی اس کی مانند ہوں گے‘‘(۱۔یوحنا ۳: ۲)۔ اس ترقی کا آغاز اسی موجودہ جسم کے ساتھ ہوتاہے ۔لیکن اس کا انجام جسم کے بدل جانے اور روحانی بدن اختیار کرنے سے ہوتاہے۔کیونکہ یہ فانی جسم بہیمی عنصر کی وجہ سے روحانی ترقی کا ذریعۂ اظہار نہیں ہوسکتا۔’’ ہمارا وطن آسمان پر ہے اورہم ایک منجی یعنی خداوند یسوع مسیح کےوہاں سے آنے کے انتظار میں ہیں۔ وہ اپنی قوت کی تاثیر کےموافق جس سے سب چیزیں اپنے تابع کرسکتا ہے ہماری پست حالی کےبدن کی شکل بدل کر اپنے جلال کے بدن کی صورت پر بنائےگا‘‘(فلپیوں۳: ۲۰)۔ پس آخر کار اورانجام کار ہمارا’’روحانی‘‘ بدن ہمارے مبارک خداوند کے جلالی بدن کی مانند ہوگا۔جس کا نظارہ مقدس ستفنس نے دیکھا تھا(اعمال۷: ۵۵) اورجس کا جلال مقدس پولس پر دمشق کی راہ پر چمکا تھا(اعمال۹: ۳)۔
(۳)
ہم نے اُوپر کے فقرے میں لفظ’’ انجام کار‘‘ دیدہ ودانستہ استعمال کیاہے، کیونکہ یہ بدن منتہائے کمال ہوگا۔ ہمارے موجودہ فانی جسم اور اُس جلالی بدن کے بیچ میں متعدد درمیانی منازل ہیں جو ہماری روحانی ترقی کی مختلف منزلوں کے مطابق ہیں۔ جس روحانی ترقی کی منزل پر ہم پہنچتے ہیں اُسی کے مطابق ہم کو بدن بھی دیا جاتاہے۔ پس درمیانی منزلوں کا ایک بدن دوسرے بدن سےمختلف ہے۔ کیونکہ’’ سب گوشت یکساں گوشت نہیں ،بلکہ آدمیوں کا گوشت اَور ہے اور چوپایوں کا اَور۔ پرندوں کا گوشت اَور ہےمچھلیوں گا گوشت اَور۔ آسمانی بھی جسم ہیں اور زمینی بھی۔ مگر آسمانیوں کا جلال اَورہے زمینیوں کا اَور۔ آفتاب کا جلال اَورہے مہتاب کا اَور۔ستاروں کا جلال اَورکیونکہ ستارے ستارے کے جلال میں بھی فرق ہے‘‘(۱۔کرنتھیوں۱۵: ۳۹۔۴۱)۔ روح کی ترقی کی منزل کے مطابق ’’ خداوند نے جیسا ارادہ کرلیا ویسا ہی اس کو جسم دیتاہے۔ اورہرایک بیج کو اُس کا خاص جسم‘‘ (۱۔کرنتھیوں۱۵: ۳۸)۔
جناب مسیح کے مبارک بدن کی مثال اس حقیقت کو واضح کردیتی ہے۔ اناجیل اربعہ کا مطالعہ جناب مسیح کی منازل ترقی کو ہم پرظاہرکردیتاہے ۔ خداوندمسیح لڑکپن میں ہی روحانی ترقی کی ایسی منزلوں پر پہنچ گئے تھے کہ آپ ’’حکمت اور قدوقامت میں خدا کی اور انسان کی مقبولیت میں ترقی کرتے گئے‘‘(لوقا ۲: ۵۲)۔ حتیٰ کہ جوانی کے ایام میں آپ کی آزمائشیں بھی اُس قسم کی تھیں جونہ توجنسی تعلقات سے متعلق تھیں اورنہ انسانی فطرت کے بہیمی عناصر سے اُن کا کچھ لگاؤ تھا(متی ۴: ۱۔ ۱۱)۔ جس کا نتیجہ یہ ہواکہ خدا نے آپ کو ایسا جسم اورچہرہ عطا کیا جس میں مقناطیسی کشش تھی۔ آپ کے بُشرہ(چہرہ) سے ایسا جلال ٹپکتا تھاکہ جو بھی آپ کودیکھتا ماں باپ،بیوی بچے ، گھر بار، مال جائیداد سب بھول جاتا اورآپ کے پیچھے ہولیتا(متی ۴: ۲۲؛ ۸: ۲۲؛ ۹: ۹)۔ بالفاظِ مقدس یوحنا آپ کے چہرہ مبارک پر’’ ایسا جلال تھا جو صرف باپ کےاکلوتے بیٹے ہی کی شایانِ شان‘‘ ہوسکتا تھا(۱: ۱۴)۔ جب آپ تیس سال کے ہوئے توآپ نے عالم روحانیت کی منازل میں اس قدرترقی کرلی کہ آپ کا پُرجلال’’چہرہ سورج کی مانند‘‘ چمکتا تھا(متی ۱۷: ۲)۔
جب آپ نے قبر پر فتح پائی توآپ کی جلالی صورت اس قدر بدل گئی کہ جو لوگ آپ کی صحبت سے دن رات فیض یاب ہوتے تھے، آپ کو نہ پہچان سکے(لوقا ۲۴: ۱۸، ۲۷؛یوحنا ۲۰: ۱۵)۔لیکن ابھی تک ان چالیس دنوں میں بھی جناب مسیح کا بدن اطہر کامل طورپر’’ روحانی‘‘ نہ تھا(یوحنا ۲۰: ۱۷)۔ آپ کے پاکیزہ اور لطیف بدن میں ابھی تک گوشت اورہڈیاں تھیں ۔ آپ کولوگ چھوسکتے تھے۔ آپ کھاپی سکتے تھے۔’’خدا نے جیسا ارادہ کیا‘‘ ویسا ہی اُس نے آپ کو بدن عطا کیاتاکہ آپ کے شاگردوں کو آپ کی ظفریاب قیامت کا عینی اوریقینی علم ہوجائے۔لیکن جب یہ چالیس دن ختم ہوگئے تو حضور کے صعودِ آسمانی کے موقع پر آپ کا بدن اطہر کامل اورمکمل طورپر’’ روحانی‘‘ ہوگیا تھا(لوقا ۲۴: ۵۱)۔ اسی انتہائی کمال کے واسطے۴۹ ویں آیت میں پولس رسول لفظ’’ آسمانی‘‘ استعمال کرتے ہیں۔
ہم اپنے’’ روحانی‘‘ بدن کو بھی اس پر قیاس کرسکتے ہیں۔ ہماری روحانی زندگی کی منازل میں جس نسبت سے ہمارا جسم بہیمی عناصر کا آلہ کار نہیں ہوگا بلکہ اعلیٰ ترین اغراض ومقاصد کا ذریعۂ اظہار ہوگا۔ اُسی نسبت سے ’’ جیسا خدا نے ارادہ کرلیا‘‘، ویسا ہی ہماری روحانی ترقی کے مطابق ہم کو روحانی بدن عطا کرےگا۔ جوں جوں ہم جناب مسیح کے فضل سے معمور ہوکر خدا کے عرفان اورمحبت میں ترقی کرتے جائیں گے ، توں توں ہمارے بدنوں کی صورت ان درمیانی منازل میں بدلتی جائےگی۔’’جب تک ہم سب کے سب خدا کے بیٹے کے ایمان اور اس کی پہچان میں ایک نہ ہوجائیں اور کامل انسان نہ بنیں یعنی مسیح کے پورے قد کےاندازے تک نہ پہنچ جائیں‘‘(افسیوں ۴: ۱۳)۔
۱۶۔مسئلہ بقا اور سائنس
(۱)
اس سے پہلے کہ ہم مادی جسم اور روحانی بدن اور ان کے باہمی تعلقات پر غورکریں یہ مناسب معلوم ہوتاہے کہ ہم مادہ اورروح کی حقیقت کو جانیں۔ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ روح کیا ہے۔لیکن اتنا ہم جانتے ہیں کہ جب ہم کہتے ہیں کہ ہم میں روح ہے توہمارا یہ مطلب ہوتاہے کہ ہم ایک خود شعور ہستی ہیں اورہم میں اپنے نفس پر نظر ڈالنے کی صلاحیت موجودہے ۔اس کے علاوہ ہمارا یہ بھی مطلب ہوتاہے کہ ہماری روح میں تخلیقی قوت موجودہے جوعمل کی بنا ڈالتی ہے، مادہ کو قابو میں رکھتی ہے اوراُس کو اپنے اغراض ومقاصد کےلئے استعمال کرتی ہے۔ روح قوتِ ارادی کو عمل میں لانے کی صفت سے متصف ہے اورا س کی حقیقت آزادی کے تصور کے ذریعہ ہی کامل طورپر بیان میں آسکتی ہے۔ مادہ اور روح دونوں میں سے روح کو افضلیت اور فوقیت حاصل ہے۔ کیونکہ مادہ صرف ایک ذریعہ ہے جس کے وسیلے روح اپنی اصلی اور ذاتی فاعلیت کا اظہار کرسکتی ہے۔ کیونکہ روح کا یہ خاصہ ہے کہ وہ اپنا اظہار کرے۔سائنس کی تاریخ درحقیقت مادہ پر قابوحاصل کرنے کی تاریخ ہے اور اس کی ترقی کا انحصار اسی پر ہے کہ مادہ پر زیادہ سے زیادہ قابو پائے۔اگر روح کا مل طورپر قابو حاصل کرلے (جس طرح ہمارا ایمان ہے کہ ہمارے مبارک خداوند کو حاصل تھا) توہم جان جائیں گےکہ مادہ میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ روح جس طرح چاہے اس کو اپنے ارادے کے مطابق ڈھال لے۔
جس طرح ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ روح کیا شے ہے ،اُسی طرح ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ مادہ کیا چیز ہے۔ لیکن موجودہ سائنس کی روشنی ہم پر یہ عیاں کردیتی ہے کہ جس شے کو ہم مادہ کہتے ہیں وہ درحقیقت غیر مادی ہے ۔سچ تو یہ ہے کہ مادہ اور قوت (Energy) دونوں کی بابت ہم بہت کچھ نہیں جانتے۔ لیکن ہم اتنا جانتے ہیں کہ ہم پہلے جو یہ خیال کیا کرتے تھے کہ مادہ کسی موٹی ٹھوس چیزکا نام ہے،وہ غلط ہے۔مادہ کی مختلف اشیا کے انجماداوربھدے پن میں درجوں کا فرق ہے ۔مثلاً لوہے کی سیخ کے ذرات اس قدر گنجان ہوتے ہیں کہ ہم اس کوآسانی سے توڑ نہیں سکتے ،لکڑی زیادہ آسانی سے ٹوٹ جاتی ہے۔ مکھن کے حصے اس سے بھی زیادہ آسانی سے جدا ہوسکتے ہیں۔ ہم دھوئیں کے بادل میں سے بآسانی تمام گزرجاتے ہیں ۔اب ہمارے پاس یہ ماننے کےلئے کافی وجوہ ہیں کہ مادہ مختلف اقسام کا درحقیقت ایک ہی اصل ہے جو مختلف صورتیں اورشکلیں اختیار کرکے مختلف مرکبات میں ہم کو نظر آتاہے ۔ایسا معلوم ہوتاہے کہ مادہ کی حقیقت کا اصل ہی یہ ہے کہ وہ ایک تغیر پذیر بدلنے والی لچک دار شے ہے ۔ جس میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ ہر قسم کی صورت اورشکل اختیار کرے۔
ہم عموماً یہ خیال کرتے ہیں کہ مادی شے زمان ومکان کی قیود سے محدود ہوتی ہے اورکہ وہ مختلف صفتوں کا مجموعہ ہوتی ہے۔ لیکن یہ صفتیں درحقیقت مختلف عامل قوتیں ہیں جوکارکن ہیں اورجواپنے اثرات سے جانی جاتی ہیں۔ مثلاً گرمی، روشنی اورحرکت عامل قوتیں ہیں اوریہی حال دیگر صنعتوں کا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اشیا میں تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں اوریہ تبدیلی نہ صرف بیرونی حالت اور خارجی وضع کی تبدیلی ہوتی ہے، بلکہ اندرونی تبدیلی بھی ہوتی ہے۔ مثلاً ایک زندہ بدن ہمیشہ تمام وقت بدلتا رہتاہے۔لیکن ان تمام تبدیلیوں کے باوجود وہ وہی بدن رہتاہے۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ کیا چیز ہے جو تمام تبدیلیوں کے درمیان یکساں رہتی ہے۔ بعض اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ وہ اُس شے کا جوہر اور ذات ہے۔ لیکن جوہر کا تصور محض ایک مجرد ذہنی تصور ہے جس کی تجرید(ایک چیز کو دوسری سے جدا کرنا۔تنہائی) ایک خیالی امر ہے۔
پس کوئی شے مختلف عامل قوتوں کے مجموعہ کا نام ہے۔ مادہ کی صفت ہی یہ ہے کہ وہ ہمیشہ میدانِ عمل بنارہے۔ لیکن جیسا ہم اُوپر کہہ چکے ہیں عمل درحقیقت روح کا امتیازی نشان ہے۔ان حقائق کو پیش نظر رکھ کرہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ روح اورمادہ میں درحقیقت کوئی ایسا نمایاں فرق نہیں کہ وہ ایک دوسرے کے متضاد سمجھے جائیں ۔ ان دونوں کے درمیان فی الحقیقت کوئی خلیج حائل نہیں ہے۔ مثلاً جب ہم روٹی کھاتے ہیں توہمارے جسم اس کوہضم کرتے ہیں ،جس مادہ کی وہ بنی ہوئی ہوتی ہے۔ وہ ہمارے اندر جاکر اپنی صورت تبدیل کرلیتا ہے۔ نوالہ ہمارے خون میں جاکر ہمارے زندہ نظام کا حصہ بن جاتاہےاور اس کے اثر کی حدبندی نہیں کرسکتے۔اگر وہ ہماری ہڈیوں اور پٹھوں کے بننے اوراُن کی نشوونمامیں ممدومعاون ہوسکتاہے،توکیا وہ ہمارے خیالات ،جذبات وغیرہ کے بننے اور نشوونما پانے میں میں ممدومعاون نہیں ہوسکتا؟کیا ایک بھوکے فاقوں کے مارے انسان کا دماغ نشوونما پاسکتا ہے؟اوراُس کے ذہن کا عمل ترقی کی اعلیٰ منازل کوطے کرسکتاہے؟ہرگز نہیں۔ پس روٹی کا نوالہ درحقیقت ایک ہمیشہ تبدیل ہونے والی شے ہے جومختلف صورتیں پکڑتی ہے اورجس کے عمل کی ایک صورت دوسری میں اور دوسری صورت تیسری میں تبدیل ہوتی جاتی ہےاوریوں علی ہٰذا القیاس وہ ایک لامتناہی سلسلہ بن جاتاہے ۔پس اگر جس شے کو ہم مادی کہتے ہیں وہ ایسی صورتیں اختیار کرلیتی ہے جس کو ہم’’ روحانی‘‘ کہتے ہیں، توکیا مادی اور روحانی شے میں فرق اور امتیاز باقی رہ جاتاہے؟
(۲)
مذکورہ بالا امور کو پیش نظر رکھ کر اب جسم کی طرف آئیے ۔ہمارا جسم ایک تغیر پذیر شے ہے، جس میں ہر وقت تبدیلی وقوع میں آتی رہتی ہے۔ اس کے جوذرات گھس پِس جاتے ہیں ،اُن کی جگہ نئے ذرات لے لیتے ہیں۔ چند سالوں کے بعد (جن کو عرفِ عام میں سات سال کہا جاتا ہے)جسم کے تمام ذرات کلیتہً تبدیل ہوجاتے ہیں۔ایسا کہ پُرانا جسم نیست ہوجاتاہےاوراس کی جگہ ایک نیا جسم لے لیتاہے۔ سات سال کے بعد یہ نیا جسم بھی پُرانا ہوجاتاہے اورایک تیسرا نیا جسم اس کی جگہ لے لیتاہے ۔اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ وہ کیا شے ہے جوجسم کی ان تمام تبدیلیوں میں ہماری انفرادیت کو برقرار اور قائم رکھتی ہے؟ ایک اَور مثال لے لیجئے۔دریا کا پانی ہمیشہ بہتا رہتاہے، لیکن اُس کی جغرافیائی صورت قائم رہتی ہے ۔کیا اسی طرح ہمارے جسم کی تبدیلیوں کے درمیان ہماری انفرادیت کی کوئی صورت قائم رہتی ہے؟اگر رہتی ہے توکیا موت کے بعد بھی وہ تبدیلی کے درمیان قائم رہے گی؟
موجودہ جسم کی تبدیلیاں اس قدر عظیم ہوتی ہیں کہ اگر کسی شخص نے کسی بچہ کو بچپن کی حالت میں دیکھا ہو تو وہ اس کو بیس پچیس سال کے بعد کبھی پہچان نہیں سکےگا۔ اگرچہ بچہ وہی ہوتاہے جو بچپن سے لڑکپن اورجوانی کی مختلف منازل کوطے کرتارہتاہے۔ پس سوال یہ ہےکہ وہ کیا شے ہے جوہمارے جسم کی انفرادیت کو قائم رکھتی ہے ؟اس کا جواب یہ ہے کہ یہ شے ہماری زندگی کی اصل ہے جوتبدیلیوں کے درمیان جسم کی تمام قوتوں کو تنظیمی ترتیب دے کر باقاعدہ طورپر ان کو ایسا مضبوط کرتی ہےکہ اس جسم کی انفرادیت قائم رہتی ہے۔ پس انسانی جسم محض ذرات کا مجموعہ نہیں ہوتا ،بلکہ ہر جسم کی ترکیب اور ساخت جداگانہ ہوتی ہے جس سے ہم ایک جسم کو دوسرے سے پہچان لیتے ہیں۔ ہر جسم کے ذرات خاص خاص ترکیبوں سےمرکب ہوتے ہیں اورہر جسم کے ذرات اُس قانون کے تحت ہیں جس سے اس کی زندگی کی اصل ان کو باقاعدہ طورپر مرتب کرتی ہے اوراس میں حسب ضرورت ترمیم وتعدیل کرتی رہتی ہے۔ ایساکہ ہمارے جسم ہماری ذہنی اور روحانی حالت کا عکس ہوجاتے ہیں۔ مثلاً بعض لوگوں کی عادتیں ایسی مکروہ ہوتی ہیں کہ ان کے چہرے اورجسم گھنونے ہوجاتے ہیں، مثلاً غصہ وَرشخص کا ماتھا اور چہرے کےشکن محبت بھرے شخص کے چہرے سے بالکل مختلف ہوجاتے ہیں۔ مثل مشہور ہے کہ پچیس برس کی عمر کے بعد ہر شخص اپنے چہرے کا آپ ذمہ دار ہوتاہے۔ نیک سیرت شخص کا جسم ایک قسم ہوجاتاہے،لیکن بدکار آدمی کا جسم دوسری قسم کا ہوجاتاہے۔ بہر صورت زندگی کا اصل ہمارے اندر ہر وقت کام کرتا رہتاہے ۔کیا یہ بات ناممکنات میں سے ہے کہ یہی زندگی کی اصل موت کے بعد بھی کارفرما رہے؟ اورجو بدن بھی ہم کو ملے وہ ہماری شخصیت کے عین مناسب اورہماری روحانی حالت کے عین مطابق ہو؟کیا یہ ممکن نہیں کہ جس طرح تبدیلیوں کے باوجود ہم کسی شخص کے جسم کو پہچان کر کہہ سکتے ہیں کہ یہ وہی ہے، اُسی طرح ہمارے اس جسم اور موت کے بعد کے بدن میں تبدیلی کے باوجود انفرادیت قائم رہے ؟ہم اُوپر کہہ چکے ہیں کہ ہماری ظاہری صورت کی یہ انفرادیت زندگی کی اصل کی تنظیمی ترتیب کی وجہ سے ہے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جسمانی انفرادیت محض ایک سطحی شے ہے۔ہماری شخصیت یکسانیت محض جسمانی انفرادیت سے بہت زيادہ گہری ہے۔ ہمیں یادرکھنا چاہیے کہ شخصیت کے لئے ذیل کے عناصر ضروری ہیں:
(۱)خود شعوری
(۲) قوتِ ارادی
(۳) قوتِ حافظہ
(۴)مخصوص جذباتی عمل( جوہر جداگانہ شخصیت کےلئے جدا ہوتاہے)
چنانچہ جب ہم کسی شخص کی حیاتِ جاودانی کا یااُس کی شخصیت کی بقا کا ذکر کرتے ہیں تو ہمارا مطلب یہ ہوتاہے کہ اُس میں مذکورہ بالا چاروں عناصر کا قائم اور برقرار رہنا لازمی ہے۔ شاید کوئی یہ خیال کرے کہ آخری عنصر یعنی جذبات کے برقرار رہنے کی ضرورت نہیں ہے؟لیکن جذبات کے پیہم تواتر اور تسلسل کا جاری رہنا حد درجہ لازمی ہے۔ کیونکہ یہ پہلو ہماری زندگی کے ہر شعبہ پر حاوی ہوتاہے اورہر زندہ نفس کی زندگی کو خصوصی انداز سے ظاہر کرتاہے۔ مثلاً محبت اعلیٰ ترین جذبہ ہے اورآسمانی زندگی درحقیقت محبت کی ہی زندگی ہے۔
(۳)
جب ہم رسولوں کے عقیدہ میں اقرار کرتے ہیں کہ’’ میں بدن کی قیامت پر ایمان رکھتاہوں‘‘ توہمارا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ جس لاش کوہم سپردِ خاک کرتے ہیں یاجلادیتے ہیں، وہی قیامت کے روزقبر سے دوبارہ اٹھ کھڑی ہوگی۔ کیونکہ یہ ایک ناممکن اورانہونی بات ہے۔ وہ تو خاک کا حصہ ہوجاتی ہے۔ جس کے ذرات خاک کے دوسرے ذرات سے مل کر نئے مرکبات بن جاتے ہیں،جوپودوں ،حیوانوں اور انسانوں کے جسموں کی ترکیب میں شامل ہوکر اُن کے جسموں کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ہمیں یہ بھی یادرکھنا چاہیے کہ جیسا ہم اُوپر کہہ چکے ہیں، ہرسات سال کے بعدہم کو ایک نیا جسم مل جاتاہے۔پس کیا ضروری ہے کہ ہم خواہ مخواہ یہ فرض کرلیں کہ ہمارا اس دنیا کا آخری جسم (جس کو ہم دفن کرتے ہیں )ہماری اصلی شخصیت کا حقیقی آئینہ دار تھااوراُس کے پہلے کے جسم ہماری شخصیت کے اصلی نمائندے نہ تھے؟ سچ تویہ ہے کہ ہمارے بڑھاپے کا جسم انحطا ط اور ضعیفی کے زمانہ کا ہوتاہے۔ جب ہماری شخصیت کے قواایک ایک کرکے سب جواب دینے لگ جاتے ہیں اور وہ جسم ہماری شخصیت کی کاملیت اورشکتی ،ذہنی قوت اور روحانی طاقت کا کماحقہ‘ اظہار نہیں کرسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ مقدس پولس نے فرمایاہےکہ’’ خدا نے جیسا ارادہ کرلیا ویسا ہی اُس کو جسم دیتاہے‘‘۔بقا کےلئے لازم ہے کہ ہماری شخصیت کا تواتر اور تسلسل قائم رہےاور تبدیلیوں کے درمیان شخصیت کے مذکورہ بالا عناصر ہمیشہ برقرارر ہیں۔ شخصیت کی بقا کا مطلب ہی یہ ہے کہ ہماری مستقبل کی زندگی میں یہ استمرار(دوام)، تواتر اور تسلسل ہمیشہ قائم رہے۔ حق تویہ ہے کہ تبدیلی کے مفہوم میں ہی یہ بات داخل ہے کہ جو شے تبدیل ہووہ تبدیلی سے پہلے اور تبدیلی کے بعد وہی شے رہے۔
اگر کوئی یہ سوال پوچھے کہ ہمارا جسم موت کے بعد کس قسم کاہوگا؟ توہم اس سوال کا کوئی یقینی جواب نہیں دے سکتے ۔ہم فقط یہ کہہ سکتے ہیں کہ لازم ہے کہ موت کے بعد جوبدن بھی ہم کو ملے وہ ہماری شخصیت (جس میں مذکورہ بالاعناصر شامل ہوں)کا بہترین طورپر اظہار کرسکے۔اس سوال کا جواب ہم دینے سے قاصر ہیں۔کیونکہ موت کی تبدیلی کے بعد کا بدن ہمارے حواس خمسہ کے تجربہ میں نہیں آیا۔ اس سوال کا جواب محض ظن اور قیاس کے ساتھ ہی تعلق رکھتا ہے۔
چنانچہ بعض یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم اسی دنیا میں موت سے پہلے اپنے موجودہ کثیف جسم کے ساتھ ساتھ ایک اور اندرونی، باطنی اور غیر مرئی بدن بھی بناتے جاتے ہیں ،جونہایت لطیف ذرات سے بنا ہوتاہےاوریہ نظریہ غیر ممکن نہیں ۔کیونکہ یہ نظریہ استمرار اور انفرادیت کو برقرار رکھتاہے۔ اس کے مطابق روح غیر مرئی دنیا میں بغیر کسی بدن کے داخل نہیں ہوتی اوراُسے نئے سرے سےکوئی ایسا بدن بنانا نہیں پڑتا جواس کے مناسب حال ہو۔ بلکہ وہ اپنے ساتھ اس جہان سے کوچ کرتے وقت بنا بنایا بدن لے جاتی ہے۔ اس نظریہ سے ہم میں موجودہ زندگی کی سنجیدگی کا احساس بھی پیدا ہوجاتاہے۔ کیونکہ ہم یہ جان جاتے ہیں کہ ہمارے موجودہ خیالات ، عادات ، جذبات اور افعال نہ صرف ہمارے موجودہ جسم کو ہی ڈھالتے ہیں، بلکہ ہمارے مستقبل کے بدن کا بھی تانا بانا ہیں۔ جو نادیدہ جہان میں ہماری روح کا ذریعۂ اظہار اور آلہ کار ہوگا۔بہر حال یہ محض قیاس آرائی ہے، جو یقینی نہیں ہوسکتی۔
(۴)
سائنس نے حیات بعد ازممات(موت) کی تحقیق وتفتیش کی ہے۔ ۱۸۸۲ء میں اس مقصد کےلئے ایک باقاعدہ سوسائٹی بنائی گئی جس کا نام ’’سوسائٹی فار سائیکیکل ریسرچ ‘‘(Society for Psychical Research )ہے۔ گزشتہ ستر سال سے مغربی ممالک اورامریکہ کے ماہرین نفسیات ، علما اورسائنس دان سائنس کے اصولوں کے مطابق اُن لاتعداد حقائق اور مشاہدات کی کھوج لگاتے رہے ہیں جن کا تعلق قبرکے بعدکی زندگی سے ہے۔ اُن کی اَن تھک کوششوں کا نتیجہ یہ ہے کہ آج اس مضمون پر ایک بڑے حجم اور ضخامت کا وسیع لٹریچر موجود ہوگیا ہے۔ جس کے مطالعہ کےلئے سال ہاسال درکار ہیں۔ اب یہ سائنس دان مانتے ہیں کہ موجودہ زندگی کا انجام موت نہیں ہے، بلکہ زندگی غیرمنقطع اور مسلسل ہے، جس میں موت بھی حائل ہوکر خلل نہیں ڈال سکتی ۔کیونکہ موت اس تواتر میں روزانہ نیند کی طرح محض ایک ضمنی واقعہ ہوتی ہے جس میں سے ہر انسان گزرتاہے۔ جسم روح کا آلہ کار اور ذریعۂ اظہار ہے، جس کو روح نے اس موجودہ زندگی کے برسوں میں آہستہ آہستہ ترکیب وترتیب دے کر منظم کیاہے۔ لیکن جب روح اِس موجودہ جسم کی قید سے آزاد ہوجاتی ہے ،تووہ ایک ایسی زندگی شروع کرتی ہے جس کے میدانِ عمل میں موجودہ دنیا کی سی روکاٹیں حائل نہیں ہوتیں۔ وہ زندگی زیادہ حقیقی اور اُمید افزا حالات کی زندگی ہوتی ہے۔ روح کا نیا بدن زیادہ لطیف ہوتاہےجو روحانی مقاصد اور اغراض کے حصول کےلئے زیادہ موزوں ہوتاہے۔
’’مقدسوں کی رفاقت‘‘
۱۷۔مقدسوں کی رفاقت اور مُردوں کے لئےدعا مانگنے کا دستور
گزشتہ مضامین میں ہم نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ جب ہم اس دارِ فانی سے کوچ کرجاتے ہیں توہم فنا نہیں ہوجاتے، بلکہ اس کے برعکس ہماری شخصیت قائم اور برقرار رہتی ہے اورموت سے پہلے کی شخصیت میں اورموت کے بعد کی شخصیت میں تواتر اور تسلسل بعینٖہ اُسی طرح قائم رہتاہے جس طرح روزانہ رات کو نیند سے پہلے اور صبح جاگ اٹھنے کے بعدہماری شخصیت میں کسی قسم کافرق نہیں ہوتا۔ہم نے ان مضامین میں یہ بتایا ہے کہ موت کے بعد کی زندگی غشی اوربے ہوشی کی زندگی نہیں ہوتی ،بلکہ ہماری حالت شعور کی حالت ہوتی ہے۔ جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتاہے کہ ہم کو نہ صرف اپنی حالت کا علم ہوتاہے ،بلکہ دوسروں کی شخصیت کا بھی علم ہوتاہے۔ قبر کی پرلی طرف کے رہنے والے کو نہ صرف یہ پتا ہوتاہے کہ میں وہی قبل از مرگ والا’’ میں‘‘ ہوں، بلکہ اُس کو اِس کے قبل از مرگ کے رشتے اور تعلقات سب یاد ہوتے ہیں۔ کیونکہ اس کی قوتِ حافظہ، اس کے خیالات ، جذبات ، محبت وعداوت،خصلت ،کیریکٹر(کردار۔سرشت) وغیرہ سب اس کے ساتھ جاتے ہیں جواُس کی شخصیت کے اجزائےلاینفک ہوتے ہیں۔ پس موت کے بعد ہر شخص اپنی قبل از مرگ زندگی کے خاندانی اور دیگر تعلقات سے بخوبی واقف ہوتاہےاوران کو یادرکھتاہے ۔کیونکہ اس کے خیالات ، جذبات، روحانی حالات ،عادات اورکیریکٹر سب وہی ہوتے ہیں جو موت سے پہلے تھے۔ فرق صرف بیرونی اور خارجی حالات میں ہی واقع ہوتاہے۔ اس موجودہ خارجی دنیا کے عوض وہ ایک ایسی دنیا میں زندگی بسر کرنا شروع کرتاہےجو’’ مسیح کے ساتھ ‘‘ہوتی ہے۔ وہ خداوند کی قربت میں ہوتاہے اورا س کا ماحول اس دنیا سے بدرجہابہتر ہوتاہے۔جہاں وہ اپنی سفلی اور بہیمی زندگی اور گندے خیالات، غلیظ جذبات اور بےہودہ عادات پر زیادہ آسانی سے غالب آسکتاہے۔ اس کی غیر مکمل زندگی کی خامیاں ایک ایک کرکے رخصت ہوسکتی ہیں، حتیٰ کہ وہ اس قابل ہوجاتاہے کہ خدا کےجلال کو روبرو دیکھ سکے(۱۔کرنتھیوں ۱۳: ۱۲)۔ انسان اپنی موت کے بعد راہیٔ ملک عدم نہیں ہوتا،بلکہ راہیٔ ملک انتظار ہوتاہے۔ اس ملکِ انتظار میں اس کی روح رفتہ رفتہ اس قابل ہوجاتی ہے کہ’’ مسیح کے قدکے پورے اندازے‘‘ تک پہنچ سکے۔
(۱)
پس سوال یہ ہے کہ اگرہمارے عزیز جو اس جہان سے کوچ کرجاتے ہیں اپنے ساتھ وہی خیالات، عادات، جذبات، قوتِ حافظہ اور خصائل وغیرہ لے جاتے ہیں اورپارکی دنیا میں بھی وہ ہم کویادرکھتے ہیں توہمارے اوراُن کے باہمی تعلقات کس قسم کے ہوسکتے ہیں؟ کیا اُن میں اورہم میں کسی قسم کی باہمی رفاقت قائم رہ سکتی ہے؟ کیا وہ بدستور سابق ہماری پرواکرتے ہیں اورہم سے محبت رکھتے ہیں ؟ کیا وہ ہمارے لئے اُسی طرح دعائیں کرتے ہیں جس طرح وہ قبل از مرگ اس دنیا میں دعائیں مانگتے تھے؟ کیا ہمارے اوراُن کے باہمی تعلقات اُسی قسم کے ہوتے ہیں جوایسے رشتہ داروں میں ہوتے ہیں جومختلف ممالک میں رہنے کی وجہ سے ایک دوسرے کی نگاہوں سے اوجھل ہوتے ہیں؟ انجیل جلیل ان سوالات کا جواب اثبات میں دیتی ہے اورکلیسیائے جامع اس بات پر ایمان رکھتی ہے کہ قبر کے آرپار کےرہنے والے ایک دوسرے کے ساتھ رفاقت رکھتے ہیں اور جسم کی موت اس رفاقت میں ہرگز خلل انداز نہیں ہوتی۔چنانچہ ہم ’’ رسولوں کےعقیدہ‘‘ میں اقرار کرتے ہیں’’ میں ایمان رکھتاہوں روح القدس پر۔ پاک کلیسیا ئے جامع پر ۔ مقدسوں کی رفاقت پر۔۔۔‘‘۔ مقدسوں کی رفاقت کا مطلب ہی یہ ہے کہ وہ تمام مسیحی جواس دنیا میں بقیدِ حیات ہیں اور وہ تمام مسیحی جو اس دنیا سے کوچ کرکے’’ ملکِ انتظار‘‘ میں ہیں اور وہ تمام مسیحی جواپنے بُرے خصائل پر کامل فتح حاصل کرکے جلالی ملک میں خدا کی قربت میں رہتے ہیں ۔ سب کے سب ایک دوسرے سے رفاقت رکھتے ہیں اور ہر معنی میں ایک دوسرے کے رفیق اورساتھی ہیں۔ کلیسیا کے وہ شرکا جواس دنیا ئے فانی میں روحانی جنگ کررہے ہیں اورکلیسیا کے وہ شرکا جواُس جہان کے ملکِ انتظار میں فتح پر فتح پارہے ہیں اورکلیسیا کے وہ شرکا جو کامل فتح حاصل کرکے اپنے منجی کی محبت میں سرشار اوراُس کے نور میں رہتے ہیں۔ سب کے سب ایک دوسرے کے ساتھ رفاقت ، دعا، ہمدردی اورمحبت کے بندھنوں میں جکڑے ہوئے ہیں اور سب کے سب ’’ مسیح یسوع میں ایک ‘‘ ہیں۔کیونکہ ان سب کی باہمی رفاقت کی اصل جناب مسیح ہے، جس کو وہ وہاں اورہم یہاں پیار کرتے ہیں۔ جس کی وہ اورہم تعریف کرتے ،عبادت اور پرستش کرتے ہیں اورجس کی قربت میں ہم سب ’’ایک ‘‘ ہیں۔ جناب مسیح کی حضوری اس دنیا میں ہمارے ساتھ ویسی ہے، جیسی ملکِ انتظار میں رہنے والوں کے ساتھ ہے۔ وہی’’انگور کا حقیقی درخت‘‘ ہے اورہم سب اُس کی ڈالیاں ہیں۔ خواہ ہم اس دنیا میں رہیں ،خواہ قبر کے پار کی دنیا میں رہیں۔اسی ایک درخت کے تنا سے سب ٹہنیوں کو زندگی ملتی ہے ۔خواہ وہ ٹہنیاں دیوار کے اس طرف ہوں جونظر آتی ہیں، خواہ وہ دیوار کی پرلی طرف ہوں جونظرنہیں آتیں، لیکن جن پر سورج کی روشنی ہردم اورہرلمحہ رہتی ہے (مکاشفہ ۲۱: ۲۳)۔ جس طرح ہماری ناکامیوں ، خامیوں اورگناہوں کے باوجود مسیح ہماری زندگی ہے، اُسی طرح (بلکہ اس سے بھی زیادہ) وہ ہمارے اُن عزیزوں کی زندگی ہے جو ملکِ انتظار میں ہیں۔ جس طرح ہم اس دنیا میں اپنے عزیزوں کے لئے دعائیں مانگتے ہیں، اُسی طرح وہ اپنے عزیزوں کےلئے جن کو وہ اس دارِ فانی میں چھوڑ گئے ہیں ،دعائیں کرتے ہیں۔جس طرح ہم خدا کی حمدوتعریف اور ستائش کرتے ہیں، اُسی طرح وہ بھی رب العزت کی ستائش اور تعظیم میں لگے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کلیسیائے ہندوپاکستان کی دعائے عمیم کی کتاب میں پاک رفاقت کی نماز میں ہم خدا کی تعریف کرتے وقت کہتے ہیں:
’’ اس لئے فرشتوں، مقرب فرشتوں او رکل آسمانی فوج کے ساتھ ہم تیرے نام کی حمدوتعظیم کرتے ہیں او ر کہتے ہیں قدوس ،قدوس ، قدوس خداوند رب الافواج ۔آسمان او ر زمین تیرے جلال سےمعمور ہیں ،الخ‘‘۔
بعض اوقات یہ سوال کیا جاتاہے کہ ہمارے عزیز جو اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے ہیں ،ہمارے لئے کس طرح دعا کرسکتے ہیں ؟ لیکن جب ہم یہ مانتے ہیں کہ وہ ’’مسیح کے ساتھ‘‘ہیں تویہ سوال فضول اورمہمل سا ہوجاتاہے ،کیونکہ جہاں مسیح ہے وہاں کی آب وہوا اور فضا دعا کی فضا ہے۔چنانچہ مقدس یوحنا عارف فرماتاہے’’ہر ایک کے ہاتھ میں بربط اور عود سے بھرے ہوئے سونے کے پیالے تھے۔ یہ مقدسوں کی دعائيں ہیں‘‘(مکاشفہ ۵: ۸؛ ۸ : ۴) ۔جب ملکِ انتظار کی فضا ہی دعا کی فضا ہے توکیا ہمارے وہم وگمان میں یہ آسکتاہے کہ ہماری مائیں اورہمارے عزيز جو اس دنیا میں ہر وقت ہمارے واسطے سربسجود تھے، اُس پار کی دنیا میں ہمیں ایسا فراموش کردیں کہ وہ ہمارے لئے دعا بھی نہ کریں؟ وہ غشی اوربےہوشی کی حالت میں نہیں رہتے،بلکہ حالتِ شعور میں ہیں۔ان کی قوتِ حافظہ اور شخصیت ویسی ہی برقرار ہے۔ اندرین حالات وہ ہماری حالت سے بخوبی واقف ہوتے ہیں اور ہمارے نیک وبد کردار اور افعال کو نادیدنی نگاہوں سے غیر مرئی دنیا سے دیکھ رہے ہیں۔ ہم کو آزمائشوں پر فتح پاتے یا اُن پر گرتے دیکھتے ہیں ۔ کیا یہ ممکن ہوسکتاہے کہ وہ ان باتوں کودیکھتے ہوئے ہمارے لئے بارگاہِ ایزدی سے دعا نہ کرتے ہوں؟ وہ’’ مسیح کے ساتھ‘‘ہیں۔ گوہم کو ’’دھندلا‘‘ سا دکھائی دیتاہے ۔ لیکن وہ سب امور کو ’’ پورے طورپر پہچانتے ‘‘ہیں اور’’ روبرو‘‘ دیکھتے ہیں (۱۔کرنتھیوں ۱۳: ۱۲ )۔پس وہ اپنے گم گشتہ عزیزو اقارب کےلئے آہیں بھر کر اورکراہ کر دعائیں کرتے ہیں تاکہ وہ مسیح کے رفیق ہوکر اس دنیا میں ایسی زندگی بسرکریں کہ وہ مقدسوں کی رفاقت میں قائم رہیں۔
پس جب ہم اس دارِ فانی میں ہیں اورہمارے عزیزجواُس پار ملکِ انتظار میں رہتے ہیں، مسیح کی رفاقت میں قائم ہیں تویہ واجب اور لازم ہے کہ جس طرحوہ ہماری آزمائشوں کے وقت ہمارے لئے دعاکرتے ہیں ہم بھی اُن کے لئے دعا کیا کریں، تاکہ وہ ملکِ انتظار سےگزر کر اُس جلالی نور میں داخل ہوں جہاں آفتابِ صداقت اپنی پوری درخشانی کے ساتھ چمکتا ہے(مکاشفہ ۲۱: ۲۳) ۔لفظ’’رفاقت‘‘ کا مطلب ہی یہ ہے کہ ہم دونوں میں باہمی تعلقات قائم ہیں، ورنہ یہ لفظ بے معنی رہ جاتاہے۔’’ رفیق‘‘ کے لفظ کا اطلاق اُن پر کیا جاتاہے جوایک دوسرے کے ساتھی ہوں ،جو ایک دوسرے کو یادرکھیں اورایک دوسرے سے محبت کریں اورایک دوسرے کا سہارا ہوکر آڑے وقت میں مدد کریں۔ پس لازم ہے کہ جس طرح اُس پار ملکِ انتظار اورملکِ نور کے رہنے والے ہمارے لئے دعائیں اورمناجاتیں کرتے ہیں، ہم بھی اُن کے لئے دعائیں اور مناجاتیں کریں تاکہ وہ روزانہ خدا کی قربت اورمحبت میں بڑھتے جائیں اوراپنی خامیوں سے (جو وہ اس دنیا سے اپنے ساتھ لے جاتے ہیں)زيادہ کامل طورپر رہائی حاصل کرکے فضل اورپاکیزگی سے معمور ہوجائیں۔ پس جس طرح ہم اُن کی دعاؤں کے محتاج ہیں ،وہ بھی ہماری دعاؤں کے محتاج ہیں۔ جس طرح اُن کی دعائيں ہماری روحانی زندگی میں مدد کرسکتی ہیں،اُسی طرح ہماری دعائيں بھی اُن کی روحانی ترقی میں ممدومعاون ہوسکتی ہیں۔
(۳)
تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ کلیسیائے جامع پہلی پندرہ صدیوں تک اپنے عزیزوں کیلئے دعائیں کرتی چلی آئی جس طرح وہ ابتداسے ہر زمانہ میں کرتی چلی آئی ہے۔ پس کلیسیائے ہندوستان وپاکستان کے شرکاپر لازم ہے کہ وہ اس قدیم روایت کو قائم رکھ کر اپنے اُن عزیزوں کےلئے جو اُس پار ملکِ انتظار میں رہتے ہیں ،خدا کے فضل کے تخت کے حضور ہمیشہ دعائيں کیا کریں۔یہ افسوس کی بات ہے کہ گزشتہ چار صدیوں سے یورپین ممالک کی’’ اصلاح یافتہ‘‘کلیسیاؤ ں نے اس دلکش روایت اور قدیم دستور کو بند کردیاہے۔ اس کی وجہ رومی کلیسیا کی بعض بد عنوانیاں تھیں ، جن کی وجہ سے عاشقانِ مسیح اس کلیسیا سے بیزار ہوگئے تھے۔کلیسیائے روم نے مُردوں کےلئے دعائیں کرنا تجارت کا ذریعہ بنارکھا تھا جس سے اُس کی آمدنی میں بڑا بھاری اضافہ ہوگیا تھا ۔ لیکن یورپ کے مصلحین نے اس خرابی کی اصلاح کرنے کی بجائے اس کو کلیتہً بند کردیا۔واجب تویہ تھا کہ مصلحین اس بات پر زوردیتے کہ دعاؤں کو آمدنی کا ذریعہ نہ بنایا جائے اوراس کا ناجائز استعمال نہ کیا جائے۔اس کی بجائے اُنہوں نے اس کے جائز استعمال کو بھی حکماً بند کردیا اور رفتہ رفتہ ان اصلاح یافتہ کلیسیاؤں میں یہ خیال پیدا ہوگیا کہ مُردوں کےلئے دعا مانگنا ایک قبیح بات ہے۔چونکہ پنجاب کے مسیحی کسی نہ کسی’’ اصلاح یافتہ کلیسیا‘‘ کے ممبر ہیں ،وہ بھی اس غلط خیال میں مبتلا ہوگئےکہ مُردوں کےلئے دعا مانگنا ایک بدعتی عقیدہ ہے۔حالانکہ یہ تمام راسخ الاعتقاد کلیسیاؤں کا عقیدہ ہے اور کلیسیائے جامع اپنے عزیزوں کےلئے دعائیں کرتی چلی آئی ہے ۔حق تویہ ہے کہ اُن کےلئے دعا نہ کرنا، بدعت ہے۔
یورپین ممالک کی کلیسیاؤں کی تاریخ ہم کو بتاتی ہے کہ سولھویں صدی میں یورپ میں کلیسیائے روم اوراصلاح یافتہ کلیسیاؤں میں باہمی مخاصمت اس قدر بڑھ گئی تھی کہ اصلاح یافتہ کلیسیائیں کلیسیائے جامع کے اُن تمام دستورات اور رسومات کو ترک کردیتی تھیں جن کا رومی کلیسیا میں رواج تھا۔ مثلاً رومی کلیسیا کے خادمانِ دین نماز پڑھتے وقت عبادت عمیم کی کتابوں کا استعمال کرتے ہیں۔ پس اصلاح یافتہ کلیسیاؤں نے تحریری کتابی دعاؤں کا استعمال ترک کرکے زبانی دعاؤں کا رواج شروع کردیا۔ کلیسیائے روم کے خادمانِ دین عبادت کے وقت خاص لباس زیب تن کرتے ہیں۔ پس ان کلیسیاؤں نے اس کو بھی خیرباد کہہ دیا۔رومی کلیسیا اس بات پر زور دیتی ہے کہ عبادت کےدوران میں دعا کرنے کے وقت گھٹنے ٹیکے جائیں۔ پس ان کلیسیاؤں نے گھٹنے ٹیکنے کی بجائے دعا کے وقت بیٹھنے کی رسم شروع کردی۔ حتیٰ کہ ایک وقت ایسا بھی تھا جب پیوری ٹن (Puritan) اپنے مُردوں کو نمازِ جنازہ پڑھے بغیر گاڑدیتے تھے،کیونکہ رومی کلیسیا جنازہ کی نماز پڑھتی تھی ۔
اسی قسم کے جذبات کے ماتحت اصلاح یافتہ کلیسیاؤں نے اپنے مرُدہ عزیزو اقارب کےلئے دعا کرنے کے قدیم دستور کو بھی خیرباد کہہ دیا اورنماز جنازہ کے بعدجماعتی اور خاندانی دعاؤں میں مُردوں کا نام لینا بھی گناہ متصور ہوگیا۔ اسی بات کی تعلیم ہندوستان اورپاکستان کی مختلف کلیسیاؤں کو دی گئی ہے، جس کانتیجہ یہ ہے کہ فردوس کے رہنے والے ہماری نظروں سے بالکل اوجھل ہوگئے ہیں اورموت کے بعد اُن کی یاد بھی حرفِ غلط کی طرح مٹ جاتی ہے۔کلیسیائے ہندوپاکستان کے شرکا پر واجب ہے کہ وہ بھی کلیسیائے جامع کے دستورِ قدیم کو پیش نظر رکھ کر اپنے ان عزیزواقارب کو اُسی طرح خدا کے فضل کے تخت کے حضور یادکیا کریں جس طرح وہ اُن کو اُس زمانہ میں یاد کرتے تھے۔ جب وہ اس دارِ فانی میں موجود تھے تاکہ غیر مرئی دنیا ہمارے لئے ایک حقیقت ہوجائے۔
ختم شُد