ALLAMA BARAKAT ULLAH, M.A.F.R.A.S
Fellow of the Royal Asiatic Socieity London
1891-1972
إِنَّا جَعَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ
(ہم نے اس کو عربی زبان کا قرآن بنایا تاکہ تم جو اہل عرب ہو اس کو سمجھو )
Indeed, We have made it an Arabic Qur'an that you might understand.
(سورہ زخرف آیت ۲)
Is Quranic Principle Are
Universal?
Allama Barkat Ullah
توضیح البیان فی اصول القرآن
جس میں اس امر پر بحث کی گئی ہے کہ آیا اسلام کے اصول
میں عالمگیر ہونے کی صلاحیت ہے یا نہیں
مصنفہ
علامہ برکت الله ۔ ایم ۔ اے ایم۔ آر ۔ اے ۔ ایس
مصنف
مسیحیت اور سائنس ۔ دشت کربلا یا کوہ کلوری ۔ محمد عربی ۔نور الہدیٰ
دین فطرت اسلام یا مسیحیت ؟ اسرائيل کا نبی یا جہان کا منجی ؟
مسیحیت کا عالمگیری ۔ صحت کتب مقدسہ وغیرہ وغیرہ
1939
دیباچہ
رسول عربی نے اپنی وفات سےکچھ مدت پہلے جمعة الوداع کے موقع پر مکہ میں اہل عرب کو یہ پیغام سنایا تھا ۔
أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِينًا
آج میں نے تمہارے لئے دین کو مکمل کردیا اور اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لئے اسلام کو چنا (سورہ مائدہ آیت۵)۔
(۱)
منجی عالمین سیدنا عیسیٰ مسیح نے اپنی رسالت کےابتدائی ایام میں علی الاعلان (گواہوں کے روبرو)فرمایاتھا کہ آپ کی آمد کا مقصد یہ تھا کہ بنی آدم کی نجات کا کام مکمل اور پورا ہو (یوحنا۳: ۱۶؛ ۴: ۳۴)۔ مصلوب ہونے سے ایک رات پہلے آپ نے خدا سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ’’ بنی آدم کی نجات کا کام جو تونے مجھے کرنے کو دیا تھا اس پورا کرکے میں نے زمین پر تیرا جلال ظاہر کیا ‘‘(یوحنا۱۷: ۴) ۔ اور صلیب پر سے آپ نے دم واپسیں(نزع کی حالت ،آخری وقت) اپنی زبان مبارک سے ارشاد فرمایا کہ ’’ پورا ہو ا اور آپ نے جان دے دی ‘‘(یوحنا۱۹: ۳۰) ۔
پس ارض ِ مقدس کے کوہ ِکلوری سے اوردشت ِ عرب کے شہر مکہ سے ایک ہی آواز بلند ہوتی ہے کہ ’’ پورا ہوا ‘‘ گذشتہ تیرہ (۱۳)صدیوں سے مسیحیت اور اسلام میں متنازعہ فیہ امر(وہ فعل جس میں تکرار یا جھگڑا ہو) یہی رہا ہے کہ کونسا مذہب جامع کامل اور عالمگیر ہے؟کس دین کے اصول بنی نوع انسان کی اقوام وملل(مذاہب ،ادیان،ملت) کی روحانی اقتضاؤں (تقاضاؤں)کو پورا کرتے ہیں؟ کس مذہب کا بانی انسان ِ کامل ہے جو کل دنیا کی اقوام کے افراد کے لئے کامل اور اکمل نمونہ ہوسکتا ہے ؟ کونسا مذہب گم شدہ گنہگار انسان کو یہ توفیق بخش سکتا ہے کہ وہ از سر ِ نو دنیا، نفس اورشیطان پر غالب آکر صراطِ مستقیم پرچل سکے ؟
(۲)
ہم نے اپنی کتاب ’’ مسیحیت کی عالمگیری ‘‘ (جو کہ ویب سائٹ پر عالمگیر مذہب کے نام سے دستیاب ہے )میں مندرجہ بالا سوالوں پر بالتفصیل بحث کرکے ثابت کردیا ہے کہ مسیحیت کے اصول جامع اور کامل ہیں۔ اور ان میں یہ صلاحیت ہے کہ دنیا کی ہر قوم وملت کی رہنمائی کرسکیں۔ ہم نے شخصیت ِ مسیح پر مفصل بحث کرکے ثابت کیاہے کہ ابن الله دنیا کے تمام افراد کے لئے ایک ایسا کامل نمونہ ہیں جو بنی نوع انسان کو شیطان کی غلامی سے نجات دے کر یہ توفیق بخشتے ہیں کہ وہ خدا کے فرزندوں کی طرح زندگی بسر کرسکیں۔
ہم نے اپنی کتاب ’’دین فطرت اسلام یا مسیحیت ؟‘‘ میں یہ ثابت کیا ہے کہ مسیحی اصول نوع انسانی کے فطرتی میلانات اور رحجانات کو بطرز احسن پورا کرتے ہیں۔ ہم نے اس نقطہ نگاہ سے اسلامی اور مسیحی تعلیمات کا موزانہ اس غرض سے کیا ہے کیونکہ بعض مسلم علماء اسلام کی حقانیت کے ثبوت میں یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ اسلام دین ِ فطرت ہے لہٰذا وہ برحق ہے ۔ چنانچہ مرحوم ڈاکٹر نذیر احمد صاحب دہلوی، سرسید احمد بالقابہ کی پیروی کرکے کہتے ہیں۔
’’ تمام ادیان میں دین ِ فطرت ہی دین ِ برحق ہے ۔ دین اسلام وہی دین فطرت ہے یعنی فطرت اور اسلام نام دو ہیں مصداق اور مسمیٰ ایک ہے‘‘ ۔
(امہات الامتہ صفحہ۵۰)
پس ہم نے اپنی کتاب ’’ دین فطرت ۔اسلام یا مسیحیت ؟‘‘ میں اسلامی اور مسیحی اصول دین کا بشری طبیعت کےنقطہِ نگاہ سے مقابلہ اور موزانہ کیا ہے ۔ منصف مزاج ناظرین خود فیصلہ کرلیں کہ ہر دو مذاہب میں کونسا مذہب درحقیقت دینِ فطرت کہلانے کا مستحق ہے۔
(۳)
اس مختصر رسالہ میں ہم فقط اسلامی اصول پر ہی بحث کرنے پر اکتفا کریں گے ۔ اور انشاء الله یہ ثابت کریں گے کہ اسلامی اصولِ دین بذاتِ خود غیر مکمل اور ناقص ہیں اور عالمگیر ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ہم نے اپنے استدلال (دلیل،ثبوت)کی بنا قرآن اور صرف قرآن پر ہی رکھیں گے تاکہ برادران ِ اسلام پر اتمام احجت(فیصلہ کن بات) ہوجائے اور کسی فرقہ کو مجال(قدرت) انکار نہ رہے ۔ کیونکہ فی زمانہ میں ایک عام رواج ہوگیا ہے کہ اپنے نظریوں کو تقویت دینے اور استد لال کے آہنی پنجہ سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے ثقہ(معتبر) راویوں کو کاذب(جھوٹا،دروغ گو) اور صحیح حدیثوں کو جھوٹی روایات کہہ دیا جاتا ہے ۔ پس ہم نے اپنے جائز حقوق سے دست برداری کرکے بردرانِ اسلام کو یہ رعایت دے دی ہے تاکہ وہ کتاب کے خاص موضوع پر غور کرسکیں اور ان کی توجہ احادیث کےصحیح اور غلط ہونے کی مبحث(بحث ،تفتیش) کی آزمائش میں نہ پڑے ۔
اس رسالہ میں صرف اسلامی اصول کی غیر مکمل حالت پر بحث کی جائے گی ۔ انشاء الله کسی دوسرے رسالہ میں ہم اسلامی تاریخ پر تبصرہ کرکے ثابت کریں گے کہ اسلامی اصول میں عالمگیر ہونے کی صلاحیت مطلق موجود نہیں ہے کیونکہ جب کبھی ان کا اطلاق غیر عرب ممالک پر کیا گیا تو ترقی کا باب مسدود(بند ) ہوگیا۔
(۴)
چوتھی صدی شہنشاہ تھیوڈوسیس اول (Theodosius ۱) نے شہر دمشق میں ’’ مقدس یوحنا اصطباغی ‘‘ کا عالی شان گرجہ (Church Of St.John The Baptist) تعمیر کیا۔ جب اہل اسلام نے اس شہر پر قبضہ کرلیا تو انہو ں نے اس خوبصورت گرجا کے آدھے حصہ کو مسجدبنالیا۔اس گرجا کی بیرونی مشرقی دیوار کے پتھروں پر یونانی حروف میں یہ کتبہ کنندہ تھا۔
’’ اے مسیح تیری بادشاہی ابدی بادشاہی ہے اور تیری حکومت پشت در پشت قائم رہتی ہے ‘‘
(زبور۱۴۵: ۱۴)۔
خدا کی قدرت دیکھو یہ کتبہ عرب فاتحین کےہاتھوں سے محفوظ رہا ۔ آٹھویں (۸)صدی کے شروع میں بنی امیہ نے گرجہ کی اندرونی عمارت کو شہید کرکے اس پر ایک عالی شان عمارت کھڑی کردی جس کی آرائش پر بارہ سو(۱۲۰۰)یونانی صناع (ہنر مند) مامور تھے لیکن گرجا کی بیرونی دیوار ان کی دست برد(لوٹ مار) سے محفوظ رہ گئی۔ گیارہویں(۱۱) صدی میں اس مسجد کو آگ لگ گئی لیکن یہ دیوار بچ گئی اور اس پر کا کتبہ من وعن محفوظ رہا ۔ یہ مسجد دوبارہ تعمیر کی گئی لیکن چودہویں(۱۴) صدی میں تیمور کی لُوٹ کے دوران میں مسجد کو نقصان پہنچا۔ لیکن دیوار کا کتبہ جو کا توں قائم رہا۔ اس دیوار کے قریباہل اسلام نے منارة المسیح بھی بنایاہے اور حدیث کے مطابق سیدنا عیسیٰ مسیح کی آمد ثانی اسی منارہ پر ہوگی۔۔ پس یہ کتبہ صدیوں سے کلیسیا کے لازوال ایمان کا خاموش گواہ رہا ہے کہ ’’ مسیح کی بادشاہی ابدی بادشاہی ہے اوراس کی حکومت پشت در پشت قائم رہتی ہے‘‘ ۔
جب مسلمانوں نے مسیحی دارالسلطنت قسطنطنیہ کو جس کا موجودہ نام استنبول ہے فتح کیا تو وہاں کے عالی شان گرجا سینٹ صوفیا (St. Sophia Church) کو مسجد بنادیا گیا۔ اور زمین سے ایک سو اسّی(۱۸۰) فٹ اونچی جگہ پر جہاں صلیب نصب تھی ہلال کانشان قائم کردیا گیا۔ مسلمان فاتحین نے گرجا کی عمارت میں مسیحیت کے تمام نشانات مٹادئے۔ اس کے اندر قرآنی آیات لکھی گئيں۔ اسلامی منبر کھڑا کردیا گیا۔
اور ایک طاق قبلہ روبنائی گئی تاکہ نماز کےوقت اس جانب نمازی منہ پھیر سکیں۔ گرجا کے مشرقی کونہ میں رنگ برنگ قیمتی شیشوں اور چمک دار پتھروں کے نقش ونگار سے منجی عالمین سیدنا مسیح کی شبیہ مبارک بنی تھی جس میں آپ نے اپنے ہاتھوں کو پھیلاکر تمام دنیا کو برکت دے رہے تھے۔ ترکوں نے اس تصویر پر نقشین بیل بوٹے بناکر اس کو چھپا دیا۔ امتداد زمانہ(مدت دراز) سے وہ بیل بوٹے مٹ گئے اور اب منجی عالمین کی مبارک شبیہ دھندلی طور پر نظر آنے لگی ہے اور آپ اس مسجد سے اپنے ہاتھ پھیلا کر تمام دنیاکو برکت دے رہے ہیں۔
پانچ (۵)سال کا عرصہ ہوا جب اسی مسجد کے شاہی دروازہ کو صاف کیا گیا تو سیدنا مسیح کی ایک اور تصویر پچی کاری(جواہر اور رنگ دار پتھروں کا کام) اور جڑاؤ کام کی نکلی ۔ اس تصویر میں ہمارے خداوند ایک مرصّع(آراستہ) تخت پر بیٹھے ہیں۔ آپ کے ہاتھ میں ایک کتاب کھلی ہے جس پر لکھا ہے
’’ السلام علیکم میں دنیا کا نور ہوں‘‘۔
یہ تصویریں اور کتبے ہم کو یاد دلاتے ہیں کہ گو تاریخ دنیا میں بسا اوقات ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مخالف طاقتوں نے مسیحیت کے آفتاب ِصداقت کوچھپادیا ہے تاہم بالاآخر اس کی روشنی ہر قسم کی تاریکی پر غالب آتی ہے ۔’’ کلمتہ الله میں زندگی ہے اور وہ زندگی آدمیوں کا نور ہے نور تاریکی میں چمکتا ہے اور تاریکی اس پر غالب نہیں آسکتی ‘‘(یوحنا ۱: ۴۔۵) سلطان السلاطین مسیح ازل سے ابد تک تخت نشین ہے ۔ اس کی بادشاہی ابدی بادشاہی ہے ۔ اس کی حکومت پشت در پشت قائم رہتی ہے ۔ وہ تمام ممالک واقوام کو اپنی آغوش محبت میں لےکر برکت دیتا ہے اور کل بنی نوع انسان کو برکت دے فرماتاہے کہ ’’السلام علیکم دنیا کا نور میں ہوں جو میری پیروی کرے گا اندھیرے میں نہ چلے گا بلکہ زندگی کا نور پائے گا‘‘(یوحنا۸: ۱۲)۔
ہولی ٹرنٹی چرچ۔ لاہور
اکتوبر ۱۹۳۹ء
برکت الله
فصل اوّل
رسول عربی صرف قومِ عرب کے رسول تھے
ہم نے اپنے رسالہ ’’اسرائیل کا نبی یا جہان کا منجی ؟‘‘ میں یہ ثابت کردیاہے کہ سیدنا مسیح نے اپنی رسالت کو یہودی قوم تک ہی محدود نہیں فرمایا تھا بلکہ آپ کو یہ احساس تھاکہ آپ کے پیغام کے اصول تمام دنیا کی اقوام کے لئے ہیں۔ اس کے برعکس اسلام ایک خاص قوم اور ملک یعنی عرب سے مخصوص ہے ۔ اس کا دستور العمل صرف ان عربوں کے لئے تھا جو تیرہ سو(۱۳۰۰) سال ہوئے ملک عرب میں بستے تھے ۔ حضرت محمد بھی صرف عرب ہی کے رسول تھے اور آ پ کی بعثت (بھیجنے)کا مقصد یہی تھا کہ اپنے ہمعصر اہل عرب کو ہی راہ ہدایت پر لائیں۔ چنانچہ قرآن میں الله فرماتا ہے۔
وَ اَنۡذِرۡ عَشِیۡرَتَکَ الۡاَقۡرَبِیۡنَ
’’ (اے محمد ) تو اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرا اور ان کو خدا کی طرف پھیر لا‘‘
(شعراآیت۲۱۴)
وَ کَذٰلِکَ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ قُرۡاٰنًا عَرَبِیًّا لِّتُنۡذِرَ اُمَّ الۡقُرٰی وَ مَنۡ حَوۡلَہَا
’’ہم نے (اے محمد ) تجھ پر عربی زبان میں قرآن نازل کیا تاکہ تو بڑی بستی (مکہ) اور اس کے آس پاس والوں کو ڈرائے ‘‘۔
(شوریٰ آیت ۷)
وَ ہٰذَا کِتٰبٌ اَنۡزَلۡنٰہُ مُبٰرَکٌ مُّصَدِّقُ الَّذِیۡ بَیۡنَ یَدَیۡہِ وَ لِتُنۡذِرَ اُمَّ الۡقُرٰی وَ مَنۡ حَوۡلَہَا وَ الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡاٰخِرَۃِ یُؤۡمِنُوۡنَ بِہٖ وَ ہُمۡ عَلٰی صَلَاتِہِمۡ یُحَافِظُوۡنَ
’’یہ کتاب جو ہم نے نازل کی ہے برکت والی ہے اور پہلی کتابوں کی مصدق اس لئے ہے کہ اس شہر مکہ اور اس کے نواحی کو ڈرائے‘‘الخ۔
(انعام آیت ۹۲)
رسول عربی اہل عرب کی خاطر اس واسطے مبعوث ہوئےتھے کہ ان معارف(معرفتہ کی جمع،علوم وفنون،شناسائیاں) حقائق اور اصول کو جو عبرانی اور یونانی کتب مقدسہ میں تھے ’’ فصیح عربی زبان‘‘ میں عربوں کو بتادیں اور اس طرح ان کو عالمگیر مذہب یعنی مسیحیت کی تعلیم اور اصول سے واقف کرادیں کیونکہ اس کی کتب مقدسہ ’’ہدایت ‘‘ ’’نور ‘‘اوراور’’ علی الذی احسن وتفصیلاً کل شئی ‘‘ تھیں لیکن عرب ان کتب کی زبانوں سے نا آشنا تھے اور کہتے تھے کہ
اَنۡ تَقُوۡلُوۡۤا اِنَّمَاۤ اُنۡزِلَ الۡکِتٰبُ عَلٰی طَآئِفَتَیۡنِ مِنۡ قَبۡلِنَا ۪ وَ اِنۡ کُنَّا عَنۡ دِرَاسَتِہِمۡ لَغٰفِلِیۡنَ
’’ الله کی کتاب یہود اور نصاریٰ دوہی فرقوں پر اتری ہے اور ہم تو اس کو پڑھ نہیں سکتے ‘‘۔
(انعام آیت۱۵۶)
آنحضرت نے ان کا یہ عذر رفع کردیا اور عبرانی اور یونانی کتب مقدسہ کا مفہوم عربی زبان میں ادا کرکے عرب پر اتمام حجت کردی چنانچہ قرآن میں الله فرماتا ہے
اِنَّا جَعَلۡنٰہُ قُرۡءٰنًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّکُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ
’’ ہم نے اس عربی قرآن کو بنایا تاکہ اے عرب تم اسے سمجھو ‘‘۔
(زخرف آیت ۳)
اَوۡ تَقُوۡلُوۡا لَوۡ اَنَّاۤ اُنۡزِلَ عَلَیۡنَا الۡکِتٰبُ لَکُنَّاۤ اَہۡدٰی مِنۡہُمۡ ۚ فَقَدۡ جَآءَکُمۡ بَیِّنَۃٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ ہُدًی وَّ رَحۡمَۃٌ ۚ فَمَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنۡ کَذَّبَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَ صَدَفَ عَنۡہَا سَنَجۡزِی الَّذِیۡنَ یَصۡدِفُوۡنَ عَنۡ اٰیٰتِنَا سُوۡٓءَ الۡعَذَابِ بِمَا کَانُوۡا یَصۡدِفُوۡنَ
’’اب تو تمہارے رب کی طرف سے تم کو حجت اور ہدایت اور رحمت آگئی پھر اس شخص سے کون زیادہ ظالم ہے جو الله کی آیتوں سے روگردانی کرے ۔ ہم روگردانی کرنے والے کو سزا دیں گے‘‘۔
(الانعام آیت۱۵۷)
وَ اِنَّہٗ لَتَنۡزِیۡلُ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ (۱۹۲) نَزَلَ بِہِ الرُّوۡحُ الۡاَمِیۡنُ (۱۹۳) عَلٰی قَلۡبِکَ لِتَکُوۡنَ مِنَ الۡمُنۡذِرِیۡنَ (۱۹۴) بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُّبِیۡنٍ (۱۹۵)
’’اے پیغمبر کچھ شک نہیں کہ یہ قرآن پروردگار عالم کا اتارا ہوا ہے جس کو جبریل امین نے ہمارے حکم سے سلیس عربی زبان میں تمہارے د ل پر القاکیا ہے تاکہ اور پیغمبروں کی طرح تم بھی لوگوں کو عذاب ِ خدا سے ڈراؤ‘‘ ۔
(شعراآیت ۱۹۲۔ ۱۹۵)
حضرت محمد اہل عرب کو کہتے تھے کہ جس طرح اہل یہود کے انبیاء مرسل من الله تھے اور ان کی کتب برحق ہیں اسی طرح میں بھی الله کی جانب سے عرب کی طرف رسول ہوکر بھیجا گیا ہوں اور میرا قرآن بھی سچاہے کیونکہ اس میں وہی احکام ہیں جو یہود ونصاریٰ کی کتب میں ہیں ۔
وَ مَا کَانَ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنُ اَنۡ یُّفۡتَرٰی مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ وَ لٰکِنۡ تَصۡدِیۡقَ الَّذِیۡ بَیۡنَ یَدَیۡہِ وَ تَفۡصِیۡلَ الۡکِتٰبِ لَا رَیۡبَ فِیۡہِ مِنۡ رَّبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ
’’ یہ قرآن ایسا نہیں جس کو الله کے سوا کوئی اور گھڑے ۔ وہ کتب سابقہ کی تصدیق کرتا ہے اور بائبل کی تفصیل ہے جس کی نسبت کوئی شک نہیں کہ وہ پروردگار عالم کی طرف سے ہے ‘‘
(یونس آیت ۳۷، نيز دیکھو طہٰ ع۸ ۔ شعراع۱۱ ۔ بقر ع۲۶۔ حدید ع ۱۱۔ یوسف ع ۱۲۔ بقرع۱۲۔ انعام ع ۱۱،ع۱۹۔ مائدہ ع۷،ع۹،ع۱۰ ۔ نسا ء ع۷ ۔ بقر ع۵ ، ع ۱۱ ۔ مومن ع ۶ وغیرہ )
آنحضرت نے کفارہ کو کہا کہ تمہارے دلوں میں یہود ونصاریٰ کی کتب کا وقار ہے پس قرآن کو بھی مان لو کیونکہ
وَ اِنَّہٗ لَفِیۡ زُبُرِ الۡاَوَّلِیۡنَ اَوَ لَمۡ یَکُنۡ لَّہُمۡ اٰیَۃً اَنۡ یَّعۡلَمَہٗ عُلَمٰٓؤُا بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ (۱۹۷)
’’ یہ قرآن اگلے پیغمبروں کی کتابوں میں موجود ہے کیا اہل مکہ کےلئے (اس کی صداقت کی دلیل )یہ کافی نہیں کہ اس قرآن (کے مضامین ) سے علماء بنی اسرائیل واقف ہیں‘‘
(شعراآیت۱۹۶تا ۱۹۷)۔
پس مندرجہ بالا آیات سے ظاہر ہے کہ آنحضرت کا پیغام اہل عرب تک محدود تھا۔ آپ کی دلی خواہش تھی کہ جس طرح اہل یہود ونصاریٰ شرک اور بت پرستی کو ترک کرکے ابراہیم خلیل الله کے مذہب کی پیرو ہیں اسی طرح آپ کے ہمعصر کفار عرب بھی بت پرستی اور شرک سے منہ موڑ کر خدا کی توحید پر ایمان لائیں۔ چنانچہ آپ نے اپنی وفات سے کچھ عرصہ پہلے اہل عرب کو یہ آیت سنائی۔
اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا
’’ اے اہل ِ عرب ۔ خدا فرماتاہے آج میں نے تمہارے لئے دین کو مکمل کردیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کردی اور (اے عرب کے لوگو) میں نے تمہارے لئے اسلام کو چنا ‘‘
(مائد ہ آیت ۳ )
ممکن ہے کہ کوئی شخص یہ کہے کہ آنحضرت نے فرمایا تھا کہ آپ کا دین سب پر غالب رہے گا۔ پس آنحضرت کے خیال میں اسلام صرف عرب کےلئے ہی نہ تھا۔
لیکن اس قول سے آنحضرت کا مطلب یہ نہیں تھا کہ اسلام اقوام ِ عالم کا مذہب ہوگابلکہ آپ کا مطلب یہ تھا کہ عرب میں اسلام سیاسی طور پر غالب رہے گا اور گو ملک ِ عرب میں کفار اور یہود اور نصاریٰ کے مذاہب ہوں گے لیکن مسلمان سب پر حکومت کریں گے ۔ یہی وجہ ہے کہ کفار کی نسبت الله تعالیٰ نے یہ ہدایت دی کہ
قُلۡ یٰۤاَیُّہَا الۡکٰفِرُوۡنَ ۙ(۱)لَاۤ اَعۡبُدُ مَا تَعۡبُدُوۡنَ (۲)وَ لَاۤ اَنۡتُمۡ عٰبِدُوۡنَ مَاۤ اَعۡبُدُ ۚ(۳)وَ لَاۤ اَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدۡتُّمۡ ۙ(۴)وَ لَاۤ اَنۡتُمۡ عٰبِدُوۡنَ مَاۤ اَعۡبُدُ (۵)لَکُمۡ دِیۡنُکُمۡ وَلِیَ دِیۡنِ (۶)
’’ (اے محمد ) تو کہہ دے کہ اے کافرو میں ان چیزوں کی ہرگز پرستش نہ کروں گا جن کی تم پر پرستش کرتے ہو اور جس کی میں پرستش کرتا ہوں تم اس کی پرستش کرنے کے نہیں۔ پس تمہارے واسطے تمہارا دین اور میرے واسطے میرا دین ہے‘‘
(سورہ الکافرون آیت ۱۔۶)
اور یہود کی نسبت قرآن میں خدا کہتا ہے
وَ کَیۡفَ یُحَکِّمُوۡنَکَ وَ عِنۡدَہُمُ التَّوۡرٰىۃُ فِیۡہَا حُکۡمُ اللّٰہِ ثُمَّ یَتَوَلَّوۡنَ مِنۡۢ بَعۡدِ ذٰلِکَ ؕ وَ مَاۤ اُولٰٓئِکَ بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ (۴۳)اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنَا التَّوۡرٰىۃَ فِیۡہَا ہُدًی وَّ نُوۡرٌ ۚ یَحۡکُمُ بِہَا النَّبِیُّوۡنَ الَّذِیۡنَ اَسۡلَمُوۡا لِلَّذِیۡنَ ہَادُوۡا وَ الرَّبّٰنِیُّوۡنَ وَ الۡاَحۡبَارُ بِمَا اسۡتُحۡفِظُوۡا مِنۡ کِتٰبِ اللّٰہِ وَ کَانُوۡا عَلَیۡہِ شُہَدَآءَ
’’ یہ لوگ کیوں تمہارے پاس جھگڑے فیصلے کو لاتے ہیں جب کہ خود ان کے پاس توریت ہے اور اس میں حکم خدا موجود ہے ۔ بیشک ہم ہی نے توریت نازل کی جس میں ہر طرح کی ہدایت اور نور ایمان ہے ۔خدا کے فرمانبردار انبیاء بنی اسرائیل اسی کے مطابق حکم دیتے چلے آئے ہیں‘‘الخ۔
(سورہ المائدہ آیت ۴۳۔۴۴ترجمہ نذیر احمد )
پھر اسی کے آگے نصاریٰ کو کہتا ہے کہ وہ بھی انجیل پر چلیں۔
وَ قَفَّیۡنَا عَلٰۤی اٰثَارِہِمۡ بِعِیۡسَی ابۡنِ مَرۡیَمَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیۡہِ مِنَ التَّوۡرٰىۃِ ۪ وَ اٰتَیۡنٰہُ الۡاِنۡجِیۡلَ فِیۡہِ ہُدًی وَّ نُوۡرٌ ۙ وَّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیۡہِ مِنَ التَّوۡرٰىۃِ وَ ہُدًی وَّ مَوۡعِظَۃً لِّلۡمُتَّقِیۡنَ (۴۶) وَلۡیَحۡکُمۡ اَہۡلُ الۡاِنۡجِیۡلِ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ فِیۡہِ وَ مَنۡ لَّمۡ یَحۡکُمۡ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ (۴۷)
’’ ان ہی بنی اسرائيل کے انبیاء کے قدم بقدم ہم نے عیسیٰ بن مریم کو توریت کا مصدق بنا کر بھیجا اورہم نے اس کو انجیل دی جو ہدایت اور نور ہے اور پرہیز گاروں کے لئے ہدایت اور نصیحت ہے ۔ اور چاہیے کہ اہل انجیل اس کے موافق جو الله نے انجیل میں نازل کیا ہے ۔ حکم دیا کریں اور جو کوئی خدا کے ان نازل کئے ہوئے حکموں کے مطابق حکم نہ دے تو وہ فاسق ہے ‘‘۔
(سورہ المائدہ آیت ۴۶۔۴۷)
پس رسول عربی کا حقیقی منشاء یہی تھا کہ ملک عرب میں کفار او ریہود ونصاریٰ کے ساتھ ساتھ مسلمان بھی بسیں لیکن مسلمان حاکم ہوکر رہیں اور دیگر محکوم کی حالت میں ذلیل ہوکر رہیں اور جزیہ دیں ۔
قَاتِلُوا الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ لَا بِالۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ لَا یُحَرِّمُوۡنَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗ وَ لَا یَدِیۡنُوۡنَ دِیۡنَ الۡحَقِّ مِنَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ حَتّٰی یُعۡطُوا الۡجِزۡیَۃَ عَنۡ یَّدٍ وَّ ہُمۡ صٰغِرُوۡنَ (۲۹)
’’جو لوگ اہل کتاب میں سے خدا پر ایمان نہیں لاتے اور نہ روز آخرت پر (یقین رکھتے ہیں) اور نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جو خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام کی ہیں اور نہ دین حق کو قبول کرتے ہیں ان سے جنگ کرو۔ یہاں تک کہ ذلیل ہو کر اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں‘‘۔ (سورہ توبہ آیت۲۹)۔
مشہور فاضل مستشرق ایف بہل (F.Buhl.) نے اس سوال پر ۱۹۲۶ء کے ’’اسلامیکا جلد ۲‘‘ (Islamic ۱۹۲۶ Vol ۲)میں مختلف پہلوؤں سے بحث کی ہے اور وہ اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ ابتدا میں اسلام کاہرگز منشاء نہ تھا کہ غیر عرب کو اپنا حلقہ بگوش کرے ۔ ایک اور فاضل مستشرق لیوی کا خیال ہے کہ وہ خطوط جن کی نسبت یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ آنحضرت نے ان کو ایام مدینہ میں مختلف ممالک کے روسا ء(امراء) کے پاس بھیجا تھا مابعد کی نسلوں نے وضع کئے ہیں۔ اس کے خیال میں اگر ہم تمام شہادتوں کی مد ِ نظر رکھیں تو یہ معلوم ہوجائے گا کہ رسول عربی کے دل میں بعثت کی ابتدا میں مکی ایام میں ایک عالمگیر مذہب کی بنیاد ڈالنے کا خیال کبھی نہ آیا تھا آپ کا واحد مقصد یہ تھا کہ آپ اپنے ہم وطنوں کو یہ یقین دلائیں کہ آپ خدا کی طرف سے فرستادہ(ایلچی ،قاصد) رسول برحق تھے۔
مدنی ایام میں بھی رسول کی ہمیشہ یہی خواہش رہی کہ کسی نہ کسی طرح مکہ کو جو عرب کا روحانی مرکزتھا ۔ فتح کیا جائے اور اگر چہ آپ کی حین حیات میں اور آپ کی وفات کے بعد دیگر شہر اسلام کے قبضے میں آئے تاہم مکہ ابتدا سے آج تک اسلام کا روحانی مرکز چلا آیا ہے ۔ شہر مکہ غیر عرب کی نظر میں کوئی خاص وقعت نہ رکھتا تھا ، لیکن اس کا اسلام کا روحانی مرکز ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام مکہ اور عرب کے قبائل کے لئے تھا۔ رسول عربی نے مدنی ایام میں مکہ کے خانہ کعبہ کو یروشلم کی بجائے قبلہ مقرر کیا اس سے بھی ظاہر ہے کہ آپ کے خیال میں آپ کا مشن عرب اور صرف عرب تک ہی محدود تھا۔
پس جس طرح دیگر پیغمبر اپنی اپنی قوم کے لئے مبعوث ہوئے تھے اسی طرح آنحضرت بھی قوم عرب کی طرف بھیجے گئے تھے تاکہ عربی زبان میں کلام کرنے کے مشرکین اور بت پرست کفار پر اتمام حجت کریں جو کہتے تھے کہ ہم غیر عربی زبانوں سے ناواقف ہیں ہم کو وحدت الہٰی کا پیغام کسی نے نہیں سنایا اگر خدائے واحد کو یہ منظور ہوتا کہ ہم بھی مثل دیگر اقوام یہود ونصاریٰ کسی واحد خدا کو مانتے تو وہ ہماری قوم کی طرف بھی کسی کو رسول بنا کر بھیجتا جو ہماری اپنی زبان میں ہم کو پیغام دیتا۔ پس آنحضرت کے صحیح مخاطب عرب اور اہل عرب ہی تھے آپ قوم عرب کی خاطر مبعوث ہوئے تھے اور آپ کا پیغام اور رسالت اُم القری مکہ اور اس کی نواحی تک ہی محدود تھا۔ غرض یہ کہ آپ ہر پہلو اور ہر نقطہ نظر سے رسول عربی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آنحضرت کی نسبت کہا جاتا ہے ۔ ع
مرحبا سید ِ مکی مدنی والعربی
آنحضرت کی وفات کے بعد حضرت عمر کے زمانہ میں اسلام غیر عرب ممالک میں پھیلنے لگا لیکن اسلاف (سلف کی جمع بزرگ) کا یہ خیال کہ مسلمان فاتحین محض اسلام اور قرآن کو پھیلانے کی خاطر غیر ممالک پر فوج کشی کرتے تھے غلط ہے ۔ رسول عربی کی وفات کے بعد منافقین اور مرتدین کا گروہ ِ کثیر، صحابہ رسول اور اہل بیت کی اندرونی کشمکش ، قریش اور غیر قریش کی رقابت ، جنگ جمل اور واقعہ کربلا وغیرہ اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ درحقیقت اسلام کا درد صرف معدودے چند لوگوں کے دلوں میں تھا۔ جونبی عرب کی شخصیت سے متاثر ہوچکے تھے ۔ باقی عرب اسلام کی بابت بہت کچھ جانتے تھے اور نہ پروا کرتے تھے ۔ جو شے عرب کو ان کے صحرائی جزیرہ نما سے باہر نکال لائی وہ اسلام کا پاس نہ تھا بلکہ ان کی اقتصادی حالت اور ان کی بھوک اور پیاس تھی۔
علاوہ ازیں مسلمان فاتحین کی سب سے زبردست فتوحات ملکِ شام میں واقع ہوئیں جو خلفائے بنی امیہ کا حصین(فصیل نما) قلعہ تھا۔ ان فتوحات کا اصلی سبب مسیحی فرقوں کی باہمی پرخاش (جھگڑا ،فساد)تھا۔ جس کی وجہ سے سلطنت روم (قسطنطنیہ) کی مسیحی افواج نے اپنے ہمراہی افواج سےغداری اختیار کرکے ان کا ساتھ چھوڑدیا ۔ اگر یہ غدارانہ رویہ اختیار نہ کیا جاتا تو اسلامی تاریخ کے اوراق کسی اور طرح لکھے جاتے اور اسلام جزیرہ نمائے عرب تک ہی محدود رہتا جیسا اس کےبانی کا مقصد اور منشاء تھا۔
فصل دوم
تصورِ خدا
عالمگیر مذہب کی لازمی شرط یہ ہے کہ اس کے اصول دنیاکے کل ممالک اور اقوام پر حاوی ہوسکیں اور اس کا پیغام یہ اہلیت رکھتا ہو کہ زمان و مکان کی قیود (قید کی جمع،بندش)سے آزاد ہو اور کسی خاص قوم یا زبان یاملک سے متعلق نہ ہو تاکہ ہر قوم اور ملک اور زمانہ کےافراد اپنے خاص حالات پر اس کا اطلاق کرکے اس کی تعمیل کرسکیں۔
(۱)
ہم نے اپنی کتاب ’’مسیحیت کی عالمگیر ی ‘‘ کے باب دوم میں یہ ثابت کیا ہے کہ مسیحیت کی تعلیم کی اساس (بنیاد)خدا کی محبت اور ابوت اور انسانی اخوت اور مساوات ہیں۔ اس حقیقت سے کسی صاحب ِ عقل کو انکار کی مجال نہیں ۔ چنانچہ مرحوم سید امیر علی صاحب (جن سے بڑھ کر اس زمانہ میں کوئی دوسرا حامی اسلام نہیں گذرا ) اس حقیقت کا اعتراف بایں الفاظ کرتے ہیں
’’ خدا کی ابوت کاجو تصور جناب ِ مسیح کا تھا اس میں کل بنی آدم شامل ہیں۔ ہر انسان خدا کا فرزند ہے
اور آپ ازلی باپ کی طرف سے تمام انسانوں کے ہادی ہوکر آئے تھے‘‘ ۔
(۲)
یہ ظاہر ہے کہ مسیحیت کے یہ اصول اعلٰی تریں ہیں اور زمان ومکان کی قیود سے آزاد ہیں لہٰذا ہر زمانہ میں ہرملک اور قوم کےافراد ان پر عمل کرسکتے ہیں لیکن یہ عالمگیر اصول اسلام میں کالنادر فی المعدوم کا حکم رکھتے ہیں۔۔ اسلام میں خدا کے ننانوے (۹۹)نام ہیں لیکن ان ننانوے (۹۹)ناموں میں ’’ اَب‘‘ یعنی باپ کا نام موجود نہیں اور نہ اس لفظ کا لطیف اور پاکیزہ مفہوم کسی اور نام سے قرآن میں موجود ہے ۔ خدا کےتصور’’اب‘‘ یا ’’رب ‘‘ ایک دوسرے سے جدا ہیں۔پہلا تصور کلمة الله کا ہے ۔ دوسرا تصور اسلامی تصور ہے ۔ جو اسلام کی طبیعت ،اصول اور شیوہ کا مظہر ہے ۔ یہی تصور اسلام کے عالمگیر مذہب ہونے کے مانع (منع کرنے والا)ہے۔ رب کا تصور اسلام کی روح روان ہے ۔ اور آنحضرت نے دیدہ دانستہ اس کو ’’ باپ‘‘ کے تصور کی بجائے قائم کیا تاکہ خدا کے ’’باپ‘‘ ہونے کا تصور لوگوں کے دلوں سے نکل جائے ۔ چنانچہ ابوداؤد کتاب ’’الطب ‘‘ میں لکھاہے حضرت نے فرمایا کہ
’’ اگر کوئی بیمار ہو تو وہ یہ دعا پڑھے۔ اے ہمارے رب جو آسمان پر ہے تیرانام پاکے مانا جائے۔ تیری قوت آسمان اور زمین پر ہے ۔ جس طرح آسمان پر تیرا رحم ہے اسی طرح زمین پر بھی ہو ہمارے قصوروں اور گناہوں کو معاف کرکہ تو نیک لوگوں کا مولیٰ ہے اور اپنے رحم سے ہم پر رحم نازل کر‘‘۔
جو لوگ جناب ِ مسیح کی دُعا (متی ۶: ۹۔۱۳) سے واقف ہیں وہ دیکھ سکتے ہیں کہ وہ مذکورہ بالا دعا میں خدا کی نسبت لفظ’’ باپ‘‘ کی بجائے لفظ’’ رب‘‘ دیدہ دانستہ استعمال کیا گیا ہے ۔ اسلام کا الله تعالیٰ حی القیوم، قادر مطلق ،قہار اور جبار ہے ۔ اس کا اور خلق کا باہمی تعلق خود مختار سلطان اور رعیت ،آقا اورغلام کا تعلق ہے ۔ خدا اور اس کی مخلوق میں باپ اور بیٹے کا تعلق نہیں۔ اگرالله مہربان غفار اور الرحمٰن الرحیم ہے تو اپنی پدرانہ شفقت اور ازلی محبت کی وجہ سے نہیں بلکہ خسرو انہ(بادشاہی ،شاہانہ) عنایت کی وجہ سے ہے ۔ اگر آقا چاہے تو اپنے غلام کو معاف کرے اگر چاہے تو سزادے ۔ سب کچھ الله کی مطلق العنان مرضی پر موقوف ہے جس کو چاہے معاف کرے جس کو چاہے عذاب دے ۔(بقر آیت ۲۸۴، آل عمران ۲۵و۳۵ ،مائدہ آیت ۴۴)۔
پس قرآن کا الله ایک قادرمطلق سلطان ہے جو ایک ذمہ وار ہستی نہیں بلکہ
اِنَّ اللّٰہَ یَحۡکُمُ مَا یُرِیۡدُ
’’ الله جو چاہے حکم دے ‘‘۔
(مائدہ آیت ۱)
لہٰذا قربانیوں کے وسیلہ سے اس کو خوش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ لیکن مسیحیت کا خدا محبت کا خدا ہے۔ ’’وہ گنہگاروں کی موت نہیں چاہتا ‘‘ بلکہ یہ چاہتا ہے کہ گنہگار اس کی جانب رجوع کرے ۔ جس طرح دنیاوی باپ کی محبت اور دنیاوی ماں کی ممتا اس بات کی متقاضی (تقاضاکرتی)ہے کہ ان کا نافرمان بیٹا ان کی جانب رجوع کرے اور اس با ت کے لئے وہ ہر ممکن کوشش کرتے ہیں اسی طرح خدا کی محبت اس بات کی متقاضی ہے کہ وہ ہر ممکن طور سے گنہگاروں کو اپنی جانب لائے(یوحنا ۳: ۱۶؛ متی ۱۸: ۱۴؛ مرقس ۲: ۱۷ وغیرہ)۔
چونکہ اسلام کا الله محبت نہیں لہٰذا اس میں محبت کا کفارہ نہیں ہاں قربانی ،صدقہ ،زکواة وغیرہ ہے ۔ جس کو پورا کرنےسے ایک قہار اور جبار ہستی کو خوش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
لیکن انجیل جلیل کی یہ تعلیم ہے کہ خدا کی ذات محبت ہے(۱۔یوحنا ۴: ۸)۔
قرآن میں خدا محبت ہونے کی بجائے ’’ بے نیاز‘‘ ہے (اخلاص آیت۲)وہ ’’ بے پرواہ‘‘ ہے ۔ (انعام ۱۳۳۔ ممتحنہ ۶وغیرہ) محبت اور بے پروائی ایک دوسرے کےکلیتہً متناقض (بالکل اُلٹ)ہیں۔ جہاں محبت ہے۔ وہاں بے پروائی نہیں ہوسکتی اور جہاں بے پروائی ہے وہاں محبت کا نشان تک نہیں ہوتا۔
ہم نے اسلامی تصور ِ خدا پر اپنی کتاب ’’ دین ِ فطرت ۔اسلام یا مسیحیت ؟‘‘ کی فصل دوم میں مفصل بحث کی ہے ۔ناظرین سے درخواست ہے کہ وہ اس مضمون پر غور کرکے منصفانہ نظر سے خود فیصلہ کریں کہ مسیحیت کے مقابلہ میں اسلامی تصورِ خدا غیر مکمل اور ناقص ہے یا نہیں۔ انجیل جلیل میں خدا کی محبت کا بہترین تصور بطرز احسن موجود ہے ۔ آنجہانی خوالہ کمال الدین قادیانی تک کو اس بات کا اقبال ہے ۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ
’’ میں اس امر کو تسلیم کرتا ہوں کہ جنابِ مسیح مذہب ِ محبت کو ہی دنیا میں لائے‘‘۔
(ینابیع صفحہ ۱۱۴)
اسلامی صفات والا خدا دورِ حاضرہ کی پرستش کے لائق نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ محض ایک مطلق العنان بادشاہ ہے ،جس کی قدرت اس کی طاقت کےمظاہرہ پر ہی مشتمل ہے، لیکن ہم اس قسم کے تصورات سے بہت دور نکل گئے ہیں۔ دورِ حاضرہ کے لوگ صرف ایسے خدا کو ہی مان سکتے ہیں جس کی ذات محبت ہے ۔ پس اسلامی تصور موجودہ نسل کے لئے ناقص ہے لیکن مسیحی تصور ِ خدا ایک کامل تصور ہے ۔ جو تمام اقوام ممالک وازمنہ کے لوگوں کے لئے بشارت کا باعث رہا ہے ۔
فصل سوم
اصول ِ اخوّت
(۱)
ہم نے اپنی کتاب ’’ مسیحیت کی عالمگیری ‘‘ کے باب ِ دوم میں اس موضوع پر مفصل بحث کرکے یہ بتلایا ہے کہ انجیل جلیل اخوتِ انسانی کا سبق دیتی ہے اور مساوات کی تعلیم وتلقین کرتی ہے ۔چونکہ خدا کل بنی نوع انسان کا باپ ہے ۔لہٰذا سب بنی آدم ایک دوسرے کے بھائی ہیں کلمة الله نے حکم دیا کہ سب انسان بلا امتیاز رنگ نسل ، مذہب ، درجہ یا قوم وغیرہ ایک دوسرے سے اپنے برابر محبت رکھیں۔
(۲)
لیکن قرآن مجید اخوتِ انسانی کی تعلیم نہیں دیتا۔ ہاں اخوت ِ اسلامی کی تعلیم ہے ۔
اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ اِخۡوَۃٌ فَاَصۡلِحُوۡا بَیۡنَ اَخَوَیۡکُمۡ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ
’’سب مسلمان ایک دوسرے کے بھائی ہیں‘‘الخ۔
(سورہ الحجرات آیت ۱۰)
پس قرآن اخوتِ انسانی کو محدود کرکے لاتعداد انسانوں کو اخوت کے حلقہ سے خارج کردیتا ہے ۔ اور ان کی نسبت حکم کرتاہے کہ
وَ قَاتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ۚ فَاِنِ انۡتَہَوۡا فَاِنَّ اللّٰہَ بِمَا یَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ
’’ ( اے مسلمانو) ان کو یہاں تک قتل کرو کہ فتنہ (یعنی غلبہ کفر ) نہ رہے اور تمام دین خدا کا ہوجائے۔ جنگ کفار کے لئے جس قدر تم سے ہوسکے قوت اور گھوڑے باندھنے کی تیاری کرو تاکہ ایسا کرنے سے تم اپنے اور خدا کے دشمنوں کو ڈراؤ۔ اے نبی ۔ مسلمانو ں کو لڑائی پر ابھارو‘‘۔
(سورہ انفال آیت ۳۹ ترجمہ فیض بخش ایجنسی)
یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ جَاہِدِ الۡکُفَّارَ وَ الۡمُنٰفِقِیۡنَ وَ اغۡلُظۡ عَلَیۡہِمۡ
’’اے نبی ۔ کافروں اور منافقوں سے جہاد کر اور ان پر سختی کر‘‘۔
(سورہ تحریم آیت ۹ )
اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِیۡنَ یُقَاتِلُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِہٖ صَفًّا کَاَنَّہُمۡ بُنۡیَانٌ مَّرۡصُوۡصٌ
’’البتہ الله ان لوگوں کو دوست رکھتا ہے جو اس کی راہ میں صف بصف ہوکر اس طرح لڑتے ہیں کہ گویا وہ سیسہ پگھلائی دیوار ہیں‘‘۔
(سورہ صف آیت ۴)
کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الۡقِتَالُ وَ ہُوَ کُرۡہٌ لَّکُمۡ ۚ وَ عَسٰۤی اَنۡ تَکۡرَہُوۡا شَیۡئًا وَّ ہُوَ خَیۡرٌ لَّکُمۡ ۚ وَ عَسٰۤی اَنۡ تُحِبُّوۡا شَیۡئًا وَّ ہُوَ شَرٌّ لَّکُمۡ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ وَ اَنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ
’’تم پر قتال فرض کردیا گیا اور وہ تم پر شاق گذرتا ہے ۔ ممکن ہے کہ ایک بات تم کو بری لگے لیکن وہ درحقیقت تمہارے لئے اچھی ہو۔ الله جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ‘‘۔
(سورہ بقر آیت ۲۱۶)
وَ اَعِدُّوۡا لَہُمۡ مَّا اسۡتَطَعۡتُمۡ مِّنۡ قُوَّۃٍ وَّ مِنۡ رِّبَاطِ الۡخَیۡلِ تُرۡہِبُوۡنَ بِہٖ عَدُوَّ اللّٰہِ وَ عَدُوَّکُمۡ وَ اٰخَرِیۡنَ مِنۡ دُوۡنِہِمۡ ۚ لَا تَعۡلَمُوۡنَہُمۡ ۚ اَللّٰہُ یَعۡلَمُہُمۡ
’’تم کافروں کے مقابلہ میں جہاں تک تم سے ہو سکے اپنا زور تیار رکھو اور گھوڑے باندھے رکھو۔ اس سامان سے الله کے دشمن اور تمہارے دشمن اور ان کے سوا دوسروں پر تمہاری دھاک رہے گی جن کو تم نہیں جانتے پر الله جانتا ہے‘‘ ۔
(سورہ انفال آیت ۶۰)
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوۡۤا اٰبَآءَکُمۡ وَ اِخۡوَانَکُمۡ اَوۡلِیَآءَ اِنِ اسۡتَحَبُّوا الۡکُفۡرَ عَلَی الۡاِیۡمَانِ
’’مومنو ۔ اگر تمہارے باپ اور بھائی ایمان کی نسبت کفر کو دوست رکھیں تو تم ان کو اپنا رفیق نہ بناؤ‘‘۔
(سورہ توبہ آیت ۲۳)
فَلَا تُطِعِ الۡکٰفِرِیۡنَ وَ جَاہِدۡہُمۡ بِہٖ جِہَادًا کَبِیۡرًا
’’ تو کافروں کی بات نہ مان اور ان کا بڑے زور کے ساتھ مقابلہ کر ‘‘۔
(فرقان آیت ۵۴)
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا جَآءَکُمُ الۡمُؤۡمِنٰتُ مُہٰجِرٰتٍ فَامۡتَحِنُوۡہُنَّ اَللّٰہُ اَعۡلَمُ بِاِیۡمَانِہِنَّ ۚ فَاِنۡ عَلِمۡتُمُوۡہُنَّ مُؤۡمِنٰتٍ فَلَا تَرۡجِعُوۡہُنَّ اِلَی الۡکُفَّارِ لَا ہُنَّ حِلٌّ لَّہُمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحِلُّوۡنَ لَہُنَّ وَ اٰتُوۡہُمۡ مَّاۤ اَنۡفَقُوۡا وَ لَا جُنَاحَ عَلَیۡکُمۡ اَنۡ تَنۡکِحُوۡہُنَّ اِذَاۤ اٰتَیۡتُمُوۡہُنَّ اُجُوۡرَہُنَّ وَ لَا تُمۡسِکُوۡا بِعِصَمِ الۡکَوَافِرِ وَ سۡـَٔلُوۡا مَاۤ اَنۡفَقۡتُمۡ وَ لۡیَسۡـَٔلُوۡا مَاۤ اَنۡفَقُوۡا ذٰلِکُمۡ حُکۡمُ اللّٰہِ یَحۡکُمُ بَیۡنَکُمۡ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ (۱۰) وَ اِنۡ فَاتَکُمۡ شَیۡءٌ مِّنۡ اَزۡوَاجِکُمۡ اِلَی الۡکُفَّارِ فَعَاقَبۡتُمۡ فَاٰتُوا الَّذِیۡنَ ذَہَبَتۡ اَزۡوَاجُہُمۡ مِّثۡلَ مَاۤ اَنۡفَقُوۡا وَ اتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیۡۤ اَنۡتُمۡ بِہٖ مُؤۡمِنُوۡنَ (۱۱)
’’مومنو میرے اور اپنےدشمنوں کو دوست نہ بناؤ۔ اگر تم میری راہ میں جہاد کرنے کو اور میری مرضی کی تلاش میں نکلے ہو تو ان کو دوست نہ بناؤ۔ قیامت کے دن نہ تمہارے رشتے کام آئیں گے اور نہ تمہاری اولاد۔ الله تم کو ان کی دوستی سے منع کرتا ہے جو دین پر تم سے لڑے ۔ مومنو۔ جب تمہارے پاس ایماندار عورتیں ہجرت کرکے آئیں تو ان کافروں کی طرف واپس نہ لوٹاؤ۔ نہ وہ کافروں کو حلال ہیں اور نہ کافر اُن کو حلال ہیں۔ اگر تمہاری عورتوں میں سے کوئی عورت تمہارے ہاتھ سے نکل کر کافروں میں جا ملے تم کافروں کو کھپا مارو‘‘۔
(سورہ ممتحنہ آیت ۱۰۔۱۱ ؛ سورہ انفال ع ۲، سورہ نسا ء ع ۱۷وغیرہ وغیرہ)۔
ہم آیات قرآنی کے اقتباسات کرکے اس رسالہ کوطول نہیں دینا چاہتے۔ ناظرین کو اپنے رسالہ’’ دین ِ فطرت ۔ اسلام یا مسیحیت ‘‘ کی فصل پنجم کی طرف متوجہ کرتے ہیں جہاں ان آیات پر بحث کی گئی ہے ۔
(۳)
خواجہ کمال الدین مرحوم کہتے ہیں
’’ فضلائے مسیحیت نے مذہب ِ محبت کی فہرست میں اسلام کو داخل کرنے سے تامل کیا ہے ۔ ان لوگوں کے دلوں میں شاید ا ن جنگوں کا خیال ہوگا جن کی اجازت اسلام دیتا ہے لیکن موجودہ جنگ نے اس ہذیان کامنہ بند کردیا ہے جو اسلام کے خلاف عیسائی مشنری پراپا غنڈا اس امر میں کیاکرتا تھا۔ خدا تعالیٰ نےجنگ ِ عظیم پیدا کرکے ان پادریوں کے ہاتھ سے سب ان کے مفروضہ معتقدات خاک میں ملادئے ۔ جون ۱۹۱۷ء میں لندن کا بشپ پادریوں کی ایک جماعت کو گلے میں صلیب لٹکائے ہوئے لندن کے بازاروں میں سے پھرتا ہوا ہائیڈ پارک میں لے گیا۔ وہاں اس نے تقریر کی کہ اس جنگ میں شریک ہونا اور اپنے ملک کو بچانا ہی مذہب ہے ۔ پھر اس نے نہایت ہی کمزور طریق پر مسیح کے خطبہ ہی کی ان آیات کی کچھ توضیح بھی کی جو شمولیت جنگ سے روکتی تھی ‘‘۔
(ینا بیع صفحہ ۱۸۳)
ہمارا جواب یہ ہے کہ اگر لندن کے بشپ یاکسی پادری نے لوگوں کو لڑائی کرنے پر ابھارا تو اپنے آقا کی تعلیم کی صریح (صاف)خلاف ورزی کی۔ معترض کو خود اقبال ہے کہ ’’ اس نے نہایت ہی کمزور طریق پر مسیح کے خطبہ ‘‘ سے استد لال کیا۔ مسیحیت جنگ کو ناجائز قرار دیتی ہے چنانچہ تمام دنیا کی بین الاقوامی مشنری کانفرنس نے جو اپریل ۱۹۲۸ء میں یروشلیم میں منعقد ہوئی تھی جنگ کے متعلق یہ قرار داد شائع کی کہ
’’ چونکہ مسیحیت صلح کے شہزادے کی روح کا اظہار ہے اور عالمگیر مذہب ہونے کی وجہ سے قومی اور نسلی امتیازات کا اس میں دخل نہیں ہے اور چونکہ سب تسلیم کرتے ہیں کہ جنگ اس روح کے غالب ہونے میں سدِ راہ ہے یہ بین الاقوامی مشنری کانفرنس سب کو دعوت دیتی ہے کہ لگاتار کوشش او ر دعا کے ذریعہ تمام روئے زمین کی اقوام کو اس امر پر راغب کریں کہ جنگ کو تر ک کرنا ہر ایک قوم کے لائحہ عمل کا جزو ہو جائے اور بین الاقوامی تنازعات پُر امن طریقوں سے فیصلہ پائیں اور اس ذہنیت اور روح کا خاتمہ ہوجائے جو جنگ کی اصل اور حقیقی جڑ ہے ‘‘۔
ہر شخص اس امر کو تسلیم کرے گا کہ انجیل جلیل او رکلمة الله کے خطبات کی بنا پر کوئی شخص لوگوں کو لڑائی کے لئے ابھار نہیں سکتا لیکن قرآن شریف میں صاف طور پر رسول عربی کو حکم ملتا ہے کہ ’’ مسلمانوں کو لڑائی پر ابھار اور کافروں اور منافقوں پر سختی کر‘‘۔اور ان کو ’’ یہاں تک قتل کر کہ فتنہ یعنی غلبہ کفر جاتا رہے اور تمام دین الله کا ہوجائے ‘‘۔
(۴)
اہل ِ اسلام یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ ان اسلامی جنگوں کا
’’تعلق حفاظت اور خود اختیاری سے ہے ۔مذہب کی خاطر جنگ کرنا نہ تو اشاعت مذہب کے لئے جائز ہے نہ کسی کو زبردستی مذہب میں داخل کرنے کے لئے ‘‘۔
(ینا بیع صفحہ ۱۸۴)
مولانا مرتضیٰ احمد خان بھی کہتے ہیں
’’ قرآن حکیم میں جس طرح نماز، روزہ، حج اور زکوٰة ایسے فرائض اساسی کی ادائيگی کے لئے مسلمانوں کو جا بجا صاف اور صریح احکام دئیے گئے ہیں اسی طرح حضرت باری تعالیٰ عزاسمہ (اس کے نام کی عزت وتعریف ہو) نےمسلمانوں کو دین مبین کی حفاظت اور اپنے ناموس جانوں اور اموال کی مدافعت کےلئے جا بجا قتال فی سبیل الله کی تاکید کی ہے‘‘ ۔
(روزنامہ احسان ۳۱ دسمبر ۱۹۳۴ء)۔
لیکن قرآن کے الفاظ اور بالخصوص آیت قتال کے الفاظ صاف اور واضح ہیں۔
فَاِذَا انۡسَلَخَ الۡاَشۡہُرُ الۡحُرُمُ فَاقۡتُلُوا الۡمُشۡرِکِیۡنَ حَیۡثُ وَجَدۡتُّمُوۡہُمۡ وَ خُذُوۡہُمۡ وَ احۡصُرُوۡہُمۡ وَ اقۡعُدُوۡا لَہُمۡ کُلَّ مَرۡصَدٍ ۚ فَاِنۡ تَابُوۡا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَخَلُّوۡا سَبِیۡلَہُمۡ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ
’’جب حرمت کے مہینے گذر جائیں تو مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کرو۔ ان کو پکڑو اور گھیرو اور ہر گھات کی جگہ میں ان کے لئے بیٹھو۔ پھر اگر وہ توبہ کریں (یعنی مسلمان ہوجائیں)اور نماز پڑھیں اور زکوٰة دیں تو تم ان کی راہ چھوڑدو (جہاں چاہیں پھریں)‘‘
(سورہ توبہ آیت ۵ ترجمہ فیض بخش ایجنسی)
قَاتِلُوا الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ لَا بِالۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ لَا یُحَرِّمُوۡنَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗ وَ لَا یَدِیۡنُوۡنَ دِیۡنَ الۡحَقِّ مِنَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ حَتّٰی یُعۡطُوا الۡجِزۡیَۃَ عَنۡ یَّدٍ وَّ ہُمۡ صٰغِرُوۡنَ
’’ اہل کتاب میں سے جو لوگ الله اور آخری دن پر ایمان نہیں لاتے اور الله اور اس کے رسول کی حرام کی ہوئی شئے کو حرام نہیں جانتے اور دین حق (اسلام) قبول نہیں کرتے تم مسلمان ایسوں سے مقابلہ کرو یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھوں سے جزیہ دیں اور ذلیل ہوکر رہیں‘‘۔
(توبہ آیت ۲۹)
اس عذر کے متعلق مرحوم حافظ نذیر احمد دہلوی کے الفاظ غور طلب ہیں اور اس کو عذر لنگ(غلط اور لغو عذر) ثابت کرتے ہیں۔ مرحوم اسلامی جنگوں کے دفاعی دستور العمل پر بحث کے دوران میں فرماتے ہیں کہ
’’پیغمبر صاحب کی زندگی میں مخالفین اسلام کے ساتھ لڑائيوں کا سلسلہ برابر جاری رہا۔ لڑائیاں بظاہر دو قسم کی تھیں۔ حرب ِ مدافعت کہ دشمن مسلمانوں پر چڑھ کر آئے اور مسلمانوں نے ان کو مار ہٹایا اور حرب ِ تغلب(غلبے کی لڑائی) کہ مسلمان انتقام کے لئے یا تحفظ ِ آیندہ کی غرض سے اظہار ِ شوکت وجلادت (بہادری ،چالاکی)کے لئے دشمنوں پر چڑھ کر گئے ۔ مارا،لوٹا،کھسوٹا، باندھا، جکڑا، سالماً غانماً واپس آئے۔ گو بظاہر لڑائی کی دو قسمیں تھیں حرب ِمدافعت اور حرب ِ تغلب مگر ازبس کہ حرب ِ تغلب بھی تحفظ آیندہ کے لئے کی جاتی تھی ہم حرب تغلب کو بھی حرب مدافعت کی قسم میں داخل سمجھتے ہیں‘‘۔
(امہات الامتہ صفحہ ۹۳)
(۵)
پس قرآنی آیات اور رسول عربی کی جنگیں اور غزوات مرحوم خواجہ صاحب اور ان کے ہم خیال اصحاب کےعذر کو نا معقول ثابت کرتے ہیں۔کہ
’’اشاعت ِ مذہب کی خاطر جنگ کرنا نہ تو جائز ہے ‘‘۔ اور نہ کسی کو زبردستی مذہب کے اندر رکھنا جائز ہے ۔ قرآن احادیث اور اسلامی تاریخ ثابت کرتی ہے کہ اشاعت اسلام کی خاطر جنگ کرنا اور مسلمانوں کو بذریعہ تلوار حلقہِ اسلام میں رکھنا جائز ہے کیونکہ مرتد(اسلام سے پھرے ہوئے) کی سزا قتل ہے ۔ مولانا ظفرعلی خان ایڈیٹر زمیندار لاہور نے مارچ ۱۹۲۵ء کی اشاعتوں میں اس مسئلہ پر طویل بحث کرکے یہ ثابت کردیاہے کہ اگر کوئی شخص اسلام کے دائرہ کو چھوڑنا چاہے تو ازروئے اسلام وہ محروم الارث اورمستوجب قتل ہے ۔ کفار کو بزور سیف (تلوار کے زور سے)اسلام میں داخل کرنا اور جو مسلمان ہوچکے ہیں ان کو بزور ِ سیف اسلام کے دائرہ کے اندر رکھنا غیر منصفانہ احکام اور جانبدار انہ رویہ ہے ۔ کسی شخص یا مذہب کو روا نہیں کہ وہ کسی انسان کی ضمیر پر جبر روا رکھے ایسے مذہب کو عالمگیری کا دعویٰ زیب نہیں دیتا۔ لیکن اسلام اس قسم کا جبر روا رکھتا ہے ۔مرتد اس دنیا میں قتل کا اور آئندہ جہان میں دوزخ کا مستوجب ہے۔ (بقر آیت ۲۱۷) قرآنی حکم ہے کہ
وَ اِنۡ فَاتَکُمۡ شَیۡءٌ مِّنۡ اَزۡوَاجِکُمۡ اِلَی الۡکُفَّارِ فَعَاقَبۡتُمۡ فَاٰتُوا الَّذِیۡنَ ذَہَبَتۡ اَزۡوَاجُہُمۡ مِّثۡلَ مَاۤ اَنۡفَقُوۡا ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیۡۤ اَنۡتُمۡ بِہٖ مُؤۡمِنُوۡنَ
’’اگر ایماندار عورتیں ہجرت کرکے آئیں تو انہیں کافروں کی طرف نہ لوٹاؤ۔ لیکن اگر تمہاری عورتوں میں سے کوئی عورت تمہارے ہاتھ سےنکل کر کافروں میں جاملے تو تم کافروں کو کھپا مارو‘‘ ۔
(سورہ ممتحنہ آیت ۱۱)
(۶)
کوئی مذہب عالمگیر نہیں ہوسکتا جو بنی نوع انسان کےدلوں اور ضمیروں پر جبر روا رکھتا ہے ۔رسول ِ عربی اور آپ کے صحابہ خلفائے راشدین نے ان احکام پر عمل کیا۔ چنانچہ جب رسول عربی نےمعاذ بن جبل کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجا تو آپ نے اس کو حکم دیاکہ
عن معاذ بن جبل ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال لہ حین بعثہ الی الیمن: ایما رجل ارتد عن الاسلام فادعہ، فان تاب، فاقبل منہ، وان لم یتب، فاضرب عنقہ، وایما امرأة ارتدت عن الاسلام فادعہا، فان تابت، فاقبل منہا، وان ابت فاستتبہا“۔
’’ جو شخص اسلام سے مرتد ہوجائے اس کو اسلام کی طرف بلانا۔ اگر وہ توبہ کرے تو قبول کرلینا ورنہ گردن ماردینا ۔ اگر کوئی عورت مرتد ہ ہوجائے تو اس کو بھی اسلام کی طرف بلانا اگر توبہ کرےتو بہتر ورنہ اس کی بھی گردن ماردینا‘‘۔ )مجمع الزوائد: ۲۶۳، ج:۶(
جب حضرت ابوبکر خلیفہ ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ
’’ جس قوم نے جہاد فی سبیل الله کو چھوڑا اس کو خدا نے ذلت میں ڈالا۔ میں نے خلافت کو محض اس واسطے قبول کیا کیونکہ مجھے خوف پیدا ہوگیاتھا کہ کہیں فتنہ اور فتنہ کے بعد ارتداد (روگردانی ) نہ ہوجائے ‘‘۔
(تاريخ الخلفا مصنفہ جلال الدین سیوطی صفحہ ۴۴)
رسول عربی کی وفات کے بعد
’’ اکثر اہل عرب مرتد ہوگئے۔ انہوں نے نماز پڑھنے اور زکوٰة دینے سے انکار کردیا۔ لوگوں میں نفاق پیدا ہوگیا۔ عرب مرتد ہوگئے اور انصار جدا ہوگئے ۔ حضرت ابوبکر نے خالد بن ولید کو بھیجتے وقت ہدایت فرمائی کہ مرتدین سے پانچ امور کی نسبت جنگ کرنا اگر کوئی ان میں سے ایک سے بھی انکار کرے تو اس سے ایسا ہی جنگ کرنا کہ وہ پانچوں سے انکاری ہے یعنی لا الہ الله اور محمد عبدہ ورسولہ ، نماز پڑھنا، زکوٰة دینا اور روزہ رکھنا ہے ۔ خالد وبن ولید روانہ ہوئے ۔ مخالفین میں سے گروہ بنی اسد وعطفا وغیرہ بہت سے قتل ہوئے اور بہت سے قید اور باقی اسلام پر قائم ہوگئے ‘‘۔
(تاريخ الخلفا صفحہ ۴۷تا۴۹)
جب تک سیف غالب رہی نفاق اور ارتداد(اسلام چھوڑجانا) مغلوب رہا۔
قرآن گواہ ہے کہ رسول عربی اپنی حین حیات میں منافقین کےہاتھوں نالاں(روتا ہوا،تنگ ،فریادی) رہے تھے آپ نے ان کو بزور ِ سیف مسلمان کیا تھا۔ آپ نے منافقین کے ساتھ جو رویہ اختیار کیا اس سے آپ عرب کے مختلف قبائل کو چندے یک جا جمع کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے لیکن جونہی آپ کی آنکھ بند ہوئی ۔ مختلف قبائل میں مثل سابق اختلاف اور جنگ برپا ہوگئے ۔ آنحضرت کی وفات کے بعد کی سو(۱۰۰) سا ل کی تاريخ کے اوراق ان قبائل کی باہمی عداوتوں اندرونی تفرقوں اور خانہ جنگیوں کے خون سے لال نظر آتے ہیں۔ آپ کی وفات کے پچاس(۵۰) سال کے اندر آپ کے کلمہ گو مسلمانوں نے آپ کے خلفاء حضرت عثمان اور حضرت علی کو شہید کردیا اور آپ کے نواسوں اور ان کی اولاد کے خون سے اپنےہاتھ رنگے۔ تاریخ پڑھنے والاحیران رہ جاتا ہے کہ اور آنکھیں مل کر پوچھتا ہے کہ کیا یہ وہی اسلام ہے جس نے ساتویں (۷)صدی میں اہل عرب کو یک جا کردیاتھا۔ پھر کیا وجہ ہے کہ پچاس (۵۰)سال کے اندر اندر اس کی ترقی مسدود ہوگئی؟اس کا جواب یہ ہےکہ ان قبائل کا اسلام صرف سطحی اسلام تھا کیونکہ وہ بزور ِ شمشیر مسلمان کئے گئے تھے۔
(۷)
مرزائے قادیان نے اسلام میں اصلاح کرنی چاہی تاکہ نئی روشنی کے لوگ اسلامی اصول کو مان سکیں۔اس مقصد کو زیر نظر رکھ کر اس نے جہاد کے عدم جواز کا فتویٰ دے دیا اور کہا ازروئے قرآن جہاد بالسیف جائز نہیں ۔ چنانچہ اس کا ایک شعر ہے ۔
دشمن ہے وہ خدا کا جو کرتا ہے اب جہاد
منکر نبی کا ہے جو یہ رکھتا ہے اعتقاد
اس پر غیر مرزائی کہتے ہیں کہ
’’مرزا صاحب کو یہ حق کس طرح حاصل ہوگیاکہ خدا نے جس بات کو حلال کیاہے اسے حرام کردیں۔ اگر ان کو ایسا ہی کرنا تھا تو ان کو چاہئے تھاکہ قرآن میں کتر بیونت(کانٹ چھانٹ) کرنے کی بجائے کوئی جعلی قرآن بنالیتے۔ قرآن میں بے سروپا تاویلات کو کوئی گنجائش نہیں‘‘۔
(زمیندار ۶ جولائی ۱۹۳۵ء)
’’قرآن پاک کی تعلیم پر بے باکانہ(بے باکی سے،شوخی سے) خط ِ نسخ (ایک عربی خط کانام )کھینچنا کسی مسلمان اور حضرت ختمی مرتبت ﷺ کے سچے متبع (پیروی کرنے والے)کا کام نہیں ہوسکتا ۔ قرآن کے ایک حصہ کا انکار جیساکہ جہاد وقتال کے بارے میں کیا گیا ہے کلام ربانی کا انکار یعنی اسلام کا انکار ہے ‘‘۔
(احسان ۳۱ دسمبر ۱۹۳۴ء)
مرزائے قادیان کے مرید یہی رونا روتے ہیں کہ
’’تبلیغ دین کے لئے تلوار کی ضرورت مسلمانوں کے دماغوں پر مسلط رہی ‘‘۔
( پیغام صلح ۲۳ جون ۱۹۲۸ء)
اس کے جواب میں مولوی ثناء الله امر تسری لکھتے ہیں ۔
’’ چونکہ مسلمان قرآن وحدیث دونو کومانتے ہیں۔ اس لئے ان کاعقیدہ ہے الجھاد فی ماض الی یو مہ القیامة یعنی جہاد قیامت تک جاری رہے گا۔ اہل حدیث اس حدیث کو بھی ظاہر کرتے اور مانتے ہیں جس میں ارشاد ہے کہ اسلام کی بلندی جہاد میں ہے۔ اہل حدیث قرآن مجید کی اس آیت پر بھی ایمان رکھتے ہیں جس میں ارشاد ہے کہ جو لوگ دنیا پر آخرت کو ترجیح دیتے ہیں وہ الله کی راہ میں جہاد کیا کریں۔ مگر اہل ِ حدیث اس جہاد کے لئے ضروری جانتے ہیں کہ امام وقت (امیر) کے حکم کے ماتحت ہو جیسا ارشاد ہے کہ امیر وقت کے حکم کے ماتحت جہاد کیا جائے ۔ چونکہ مسئلہ جہاد کے متعلق آیات اور احادیث بکثرت وارد ہیں اس لئے جو آج کل کاریفامر (اصلاح کار)اس مقدس فعل کو منسوخ قرار دیتا ہے اہل حدیث اس کو خودغرض اور خوشامدی جانتے ہیں‘‘۔
(اہل حدیث امر تسر ۳ اگست ۱۹۲۸ء)
(۸)
اگر ہم اسلامی تاریخ پر ایک سطحی نظر ڈالیں تو اسلام کے ان ریفرمروں کے دعووں کا پول کُھل جاتا ہے ۔ سورہ توبہ آیت ۲۹ (جس کا اقتباس اوپر کیا گیا ہے ) کی بنا پر عیسائیوں سے نہ صرف جزیہ وصول کیا جاتا تھا بلکہ ان پر ایسی شرائط عائد کی جاتی تھیں جن سے کھلم کھلی بے عزتی ہو مثلاً جزیہ کی شرائط میں ذیل کے امورشامل تھے:۔
(۱) وہ پاک کتاب (قرآن) پر حملہ نہ کریں اور نہ اس کو محرف(تحریف کیا گیا ) گردانیں۔
(۲)وہ رسول عربی کو کذاب(جھوٹوں کا بادشاہ) نہ کہیں اور نہ ا س کی طرف حقارت سے اشارہ کریں۔
(۳)دین اسلام پر کوئی حرف نہ لگائیں اور نہ اس کے خلاف تقریریں کریں۔
(۴) کسی مسلمان عورت کے ساتھ نکاح یا زنا نہ کریں۔
(۵)کسی مسلمان کو دین اسلام سے نہ پھیریں اور نہ مسلمانوں کواور نہ ان کے مقبوضات کو نقصان پہنچائیں۔
(۶)وہ مسلمانوں کےدشمنوں کی مدد نہ کریں اور نہ جاسوسوں کو پناہ دیں۔
ان فرائض کے علاوہ چھ اور شرائط تھیں کہ
(۱)وہ خاص قسم کے کپڑے پہنیں جن سے ان کی امتیاز ہوجائے اور زناّ ر(وہ تاگہ یا زنجیر جو عیسائی ،مجوسی اور یہودی کمر میں باندھتے ہیں ) بھی پہنیں۔
(۲)ان کی عمارتیں مسلمانوں کی عمارتوں سے نیچی ہوں ۔
(۳)وہ ناقوس(سنکھ جو ہندو پوجا کرتے وقت بجاتے ہیں) نہ بجائیں،نہ اپنی کتب مقدسہ پڑھیں اور نہ سیدنا مسیح کے دعووں کو پیش کریں۔
(۴)اپنے مردوں کو بغیر نوحہ کئے خاموشی سے دفن کریں۔
(۵) وہ گھوڑوں پر سوار نہ ہوں بلکہ خچروں اور گدھوں کو سواری کے لئے استعمال کریں۔
(۶)وہ علانیہ شراب خواری اور خنازیر سے پرہیز کریں اور لوگوں کو علانیہ صلیب نہ دکھائیں۔
موخرالذکر چھ شرائط کا عہد ناموں میں ہونا لازمی نہ تھا لیکن اگر وہ عہد ناموں میں درج ہوتیں تو وہ پہلی چھ شرائط کی طرح لازمی قرار دی جاتیں۔جو عہد نامے عیسائيوں کے ساتھ کئے گئے وہ ظاہر کرتے ہیں کہ فاتح مسلمان جزیہ اور تلوار پیش کرتے تھے۔ چنانچہ خالد بن ولیدکو کہتاہے کہ ’’ابوبکر صدیق نے مجھے حکم دیاکہ جب میں یماؔمہ سے واپس آؤں تو عراق کے عرب اور غیر عرب کے پاس جاؤں۔ان کو خدا اور رسول کی طرف دعوت دوں بہشت کی خوشخبری سناؤں اور جہنم سے ڈراؤں۔ اگر وہ مان لیں تو ان کو وہی حقوق حاصل ہوں گے جو مسلمان کو حاصل ہیں۔ جب میں حیؔرا میں آیا تو وہاں کے سرکردہ اشخاص میرے پاس حاضر ہوئے ۔ میں نے ان کو خدا اور رسول کی دعوت دی۔ جب انہوں نے ماننے سے انکار کیا میں نے ان کے سامنے تلوار اور جزیہ پیش کیا۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہم میں طاقت نہیں کہ آپ کے ساتھ جنگ کریں۔ آپ ہمار ے ساتھ جزیہ کی ان شرائط پر صلح کرلیں جو دیگر اہل کتاب نے مان لی ہیں ‘‘ ۔ حضرت ابوبکر کا قول ہے کہ
’’ جس قوم نے جہاد چھوڑ دیا وہ عذاب میں پھنس گئی ‘‘۔
(طبرانی)
مسوپوتامیہ کے شہروں کےعیسائيوں کے ساتھ علاوہ دیگر شرائط کے یہ شرطیں تھیں کہ وہ نئے گرجے اور عبادت خانے تعمیر نہیں کریں گے۔ گر جا گھروں کے گھنٹے نہیں بجائيں گے ۔ عید قیامت کے بعد سوموار کے تہوار کو علانیہ نہیں منائيں گے اور نہ صلیب کو علانیہ دکھائیں گے ۔ بنو تغلب کے عیسايئوں کے ساتھ یہ شرط کی گئی کہ وہ اپنے بچوں کو بپتسمہ دلوا کر مسیحیت کے دائرہ میں داخل نہیں کریں گے ۔ حضرت عمر بن خطاب نے اپنی خلافت کے زمانہ میں اہل کتاب کو عرب سے نکال دیا کیونکہ انہوں نے سنا تھا کہ رسول الله نے کہا ہے کہ عرب میں دو مذاہب یکجا نہیں رہ سکتے ۔ اگر چہ بخران کے مسیحیوں کے ساتھ حضرت محمد صاحب نے عہد کیا تھا تاہم حضرت عمر نےان کو عرب سے بدر کردیا ۔ خلفاء نے نہ صرف نئے گرجا گھروں کو تعمیر نہ ہونے دیا ۔بلکہ انہوں نے ان گر جاؤں کو جو موجود تھے مسجدوں میں تبدیل کردیا اور بے شمار گرجا گھروں کو شہید کردیا۔ چنانچہ خلیفہ حاکم نے چالیس ہزار(۴۰۰۰۰) گر جاؤں اور خانقاہوں کو مسمار کردیا ۔
’’خلیفہ عمر ثانی نے تو یہاں تک حکم دے دیا کہ عیسائی ریشمی لباس زیب تن نہ کریں۔ اپنی پیشانی پر سے بال
کٹوائیں۔ سڑک کے ایک کنارے ہوکر چلا کریں۔ خلیفہ متوکل نے تمام عیسائيوں کو گلو بند باندھنے کا حکم دیا‘‘
( تاریخ الخلفا صفحہ ۲۳۳)
یہ بھی حکم دیاکہ ان کی سواری کی کاٹھی لکڑی کی ہو۔ ان کے عبادت خانے مسمار کردئے جائیں ۔ ان کے گھروں میں سے دس (۱۰)فیصدی مسمار کردئے جائیں اور ان کی جگہ ایک مسجد تعمیر کردی جائے ۔ ان کے گھر وں کی چوکھٹوں پر شیاطین کی صورتیں لکڑی کی بنا کر لٹکائی جائیں۔ اُن کو کوئی سرکاری عہدہ نہ دیا جائے جس سے وہ مسلمانوں پر حکم چلا سکیں۔ ان کے لڑکے اسلامی درس گاہوں میں داخل نہ کئے جائیں اور نہ کوئی مسلمان کسی عیسائی لڑکے کو پڑھائے۔کھجور والے اتوار کے روز صلیب کا استعمال ممنوع قرار دیا گیا۔ اس نے حکم دیا کہ عیسائيوں کی قبر یں کھو د کر زمین کے ساتھ ہموار کی جائیں تاکہ وہ مسلمانوں کی قبروں کے مشابہ نہ ہوں۔ حکم ہوا کہ اسلامی عدالتوں میں کسی عیسائی کی گواہی قبول نہ کی جائے ۔ شاید ناظرین یہ خیال کریں کہ ہم نے خلفاء میں سے ایسے لوگوں کے کارنامے بتلائے ہیں جو بدنام کنندہ نکو مانے چند تھے بلکہ ہم نے صرف ان خلفاء کی نسبت لکھا ہے جو اسلامی نقطہ ء نگاہ سے قابل قدر ہستیاں ہیں۔ ہلاکوں خاں کے مسلمان جانشینوں نے گرجاؤں کوشہید کردیا۔ پادریوں کو طرح طرح کے عذاب دے کر قتل کردیا۔ خانقاہوں کو برباد کردیا۔ ہزاروں عورتوں اور بچوں کو غلام بنالیا۔ عیسائیوں کو حکم دیاکہ مسلمان ہوجائیں۔ خربندہ خان نے ان عیسائيوں کے جو مسلمان نہیں ہوئے تھے اعضائے تناسل کو کاٹ دیا ان کی آنکھیں نکلوادیں۔ تیمور لنگ کے زمانہ میں ایذا رسانی کا یہ حال تھاکہ عیسائی خال خال(بہت کم) نظر آتے تھے۔ بغداد ،موصل وغیرہ شہر جن میں ہزار وں عیسائی آباد تھے ان سے یکسر خالی ہوگئے ۔ مصر میں بھی عیسائيوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا گیا۔ مملوک سلطان الناصر محمد نے گرجا ؤں کو شہید کردیا اور شاہی فرمان جاری کردیا کہ جو عیسائی جہاں ملے قتل کردیا جائے اور اس کا مال واسباب چھین لیا جائے ۔
ہم چند ممالک کی مثالوں سے واضح کرتے ہیں کہ تلوار کا اسلام کی اشاعت کے ساتھ گہرا تعلق ہے ۔ عبدالله بن قیس نے ۶۷۴ء میں کرؔیٹ (Crete) پر حملہ کیا اور اس کے بعد ۸۲۵ء تک اسلامی افواج گاہے گاہے (کبھی کبھار ) لوٹ مار کرتی تھیں لیکن اس سال انہوں نے جزیرہ کو فتح کر لیا اور باشندوں کو مسلمان بنالیا۔۹۲۱ء میں عیسائیوں نے اس جزیرہ کو فتح کیا اور اس کے بعد کی سات (۷)صدیوں تک وہاں کے باشندے عیسائی رہے ۔ ۱۶۴۵ء میں ترکوں نے اس کو دوبارہ فتح کرلیا اور باشندوں کو مسلمان بنالیا۔ ۱۹۲۰ء میں یہ جزیرہ یونان کے قبضہ میں آگیا اور اب اس جزیرہ کی ایک بڑی اکثریت عیسائيوں کی ہے ۔ اسی طرح جزیرہ کپرس (Cyprus) پر مسلمانوں نے ۶۴۷ء سے ۹۶۶ء تک حملے کر کے فتح کرلیا اور باشندوں کو مسلمان بنالیا۔ ۱۸۷۸ء میں سلطان عبدالحمید ثانی نے یہ جزیرہ انگلستان کے سپرد کردیا اور اب اس جزیرہ میں مسلمانوں کی تعداد قلیل ہے ۔ اسی طرح سؔسلی میں مصر کے مسلمان نے ۶۵۲ء سے پے در پے حملے کئے اور ۹۶۲ء میں اس پرقابض ہوئے اور تمام باشندوں کو مسلمان بنالیا۔ جب ۱۰۶۰ء میں مسلمانوں کو شکست ہوئی تو اس کے باشندوں نے پھر اپنا آبائی مذہب اختیار کرلیا۔ یہی حال ہسپانیہ کا ہوا۔ جب وہ خلفاء کے زیر نگین (ماتحت)تھا تو لوگ مسلمان ہوگئے تھے، لیکن جب ۱۶۱۰ء میں مسلمان فاتحین وہاں سے نکال دئیے گئے تو وہاں کے باشندوں نے اپنا قدیم مذہب پھر اختیار کرلیا اور اب وہاں مسلمانوں کا نام ونشان بھی نظر نہیں آتا۔
(۹)
جو اِصحاب اس غلطی میں مبتلا ہیں کہ اسلام نے دنیا میں اخوت ومساوات کا رشتہ قائم اور مضبوط کردیا ہے ہم ان کی توجہ سید مقبول احمد صاحب بی ۔ اے کی کتاب ’’فلسفہ مذہب ‘‘ کی طرف مبذول کرتے ہیں۔ سید صاحب لکھتے ہیں کہ
’’ ایک عام غلط فہمی کا ازالہ کہ اسلامی اخوت دنیا کے لئے باعث ِ امن ہے ضروری ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ اسلام نے خود اپنی جداگانہ قومیت دنیا میں بنالی ہے جس کے صرف یہ معنی ہیں کہ قوموں کےشمار میں ایک عجیب معجون مرکب قوم کا اضافہ ہوگیا ہے ۔جس کاتعلق دوسری غیر مسلم قوموں سے بالکل اسی طرح ہے جس طرح دوسری مخالف اور مختلف قوموں میں ۔ اس لئے جب تک وہ خیر القرون(اسلام کا ابتدائی دور) جس کی امید صرف ظہور امام مہدی کےوقت کی جاسکتی ہے یعنی جب تک دنیا میں صرف ایک مذہب اسلام پھیل جائے گا اور تمام مذاہب مفقود(غائب) یا اسلام میں جذب ہوجائیں گے ہم سے دور ہے اس وقت تک اسلام کے وجود سے دنیا کے امن میں کسی اضافہ کی امید رکھنا عبث ہے ۔۔۔۔۔۔ اسلام نے بجائے اس کے کہ قومیت کی لعنت کو کم کرے ایک اور قوم کااضافہ کرکے ان کو بڑھادیا ہے ۔ نہ صرف یہ بلکہ وہ افتراق (جدائی ،اختلاف) جو ایک قوم میں پہلے سے نہ تھا اور نہ ہونا چاہئے اس قوم میں اسلام پھیلنے پر پیدا ہوگیا ۔یعنی وہ ایک قوم دو قوموں میں جلد تقسیم ہوجاتی ہے جو ایک دوسرے کے ساتھ وہی معاشرت رکھتے ہیں جو متضاد قوموں میں ہوتی ہے ۔۔۔۔۔ خود ہمارے ملک کو دیکھو مسلمانان ِ ہند کو اپنی قوم ہند کی ترقی سے کوئی سروکار نہیں۔ وہ بحیثیت مجموعی ایک جدا گانہ قوم ہے جن کی زبان جدا ، معاشرت جدا ، روایات جدا ، وہ اپنے ملکی لٹریچر (ادب )سے نابلد(ناواقف) ، ہندوستان کی ہی ترقی سے متنفر (نفرت کرنے والا)، اپنے ملکی آباو اجداد کی اولاد ہونے سے عار (عیب،شرم)، اپنے سرزمین کے آثار عظیم سے بے خبرو معرا اور ان کو اگر لے دے کر کچھ دیا ہے تو ہارون رشید اور تیمور کی داستان یاد ہے ۔ اگر ان کو کسی کےا نتساب سے فخر ہے تو وہ عرب وعجم ہے ‘‘۔
(رسالہ نگار مئی ۱۹۲۸ء)
فصل چہارم
اصول ِ مساوات
(۱)
ہم نے اپنے رسالہ ’’مسیحیت کی عالمگیر ی‘‘ کے باب ِ دوم کی فصل اوّل میں یہ ثابت کردیاہے کہ انجیل جلیل کا ایک ایک ورق مساوات کے سنہرے اصول سے مزین (آراستہ)ہے ۔ انجیل کے عالمگیر اصول ِ محبت اخوت ومساوات سے کوئی شخص یا طبقہ مستثنیٰ(الگ) نہیں کیاگیا۔ انجیلی اصول مساوات نے ہر طرح کی تفریق اور درجہ بندی کو مٹادیا۔ غلام اور آزاد ، غریب اور دولتمند، اعلیٰ اور ادنیٰ ،عالم اور جاہل ، مرد اور عورت کا امتیاز غرض یہ کہ ہر قسم کے امتیازات اس دنیا سے رخصت ہوگئے ۔( متی۵ باب ، ۷ باب ،۱۸ باب ،۲۲باب ، ۲۵ باب، مرقس ۱۲ باب ، لوقا۶ باب ، ۱۰ باب ، یوحنا۱۳ باب ، ۱۵ باب، رومیوں ۲ باب ، ۵ باب ، ۶ باب ، ۸باب، ۱۲ باب ،۱۳ باب ، ۱۔کرنتھیوں۱ باب ، ۱۳ باب، ۲۔کرنتھیوں ۵باب ، ۶باب ، افسیوں ۴ باب ، ۵باب ، گلتیوں۴باب ، ۵باب، کلسیوں ۳باب، ۱۔یوحنا۲ باب ، ۳باب، ۴باب وغیرہ وغیرہ )۔
(۲)
غلامی اور اصول مساوات
لیکن اسلام میں مساوات کےاصول نہیں ملتے ۔ غلامی اور درجہ بندی اصول مساوات کے منافی ہیں۔ اسلام میں رسول عربی نے غلامی کی قبیح رسم کو قدیم عرب سے لیا۔ گو قرآن نے حکم دیا کہ غلاموں سے سختی نہ کی جائے ۔ (نساء آیت ۴۰) اور آپ نے ان کو آزاد کرنا کار ِثواب قرار دے دیا لیکن قرآن وحدیث میں ہم کو کوئی ایسی بات نہیں ملتی جس سے ظاہر ہو کہ ان کا منشا یہ ہے کہ غلامی کی رسم صفحہ ہستی سے نابود ہوجائے ۔ یہی وجہ ہے کہ جس طرح زمانہ جاہلیت میں دستور تھا اسلام میں بھی غلام خریدے اور تحفہ کے طور پر دئے جاسکتے ہیں اور ورثہ میں مل سکتے ہیں۔ ہاں آزاد مسلمان غلام نہیں بنایا جاسکتا ۔ لیکن کا فر جو جنگ میں ہاتھ آجائیں وہ غلام کئے جاسکتے ہیں۔ شریعت اسلامی کے مطابق غلام جائداد کے طور پر شمار کئے جاتے ہیں اور ان کی خریدوفروخت ہوسکتی ہے ۔ ان کا درجہ گھر کے دیگر حیوانوں کے برابر قرار دیا گیا ہے ۔ مالک اپنے غلاموں اور باندیوں(باندی کی جمع ،لونڈی) کو فروخت کرسکتا ہے ۔ ان کو رہن کرسکتا ہے ۔ ان سے کام کراکے اجرت وصول کرسکتا ہے اور دیگر ذریعہ سے ان کی آمدنی حاصل کرسکتا ہے ۔ غلام کسی شے کا مالک نہیں۔ وہ جائداد کا وارث نہیں۔ غلام اور باندی کا درجہ جسمانی اور اخلاقی طور سے دیگر انسانوں سے کم ہے ۔ عدالت میں اس کی شہادت قابل قبول نہیں ۔ اگر کوئی آزاد مسلمان کسی غلام کو قتل کردے تو وہ بازا ر کے نرخ کے مطابق مقتول غلام کی قیمت ادا کردے ۔ حنفی اور شافعی مذاہب کے مطابق غلام دوسے زيادہ نکاح نہیں کرسکتا خواہ وہ آزاد بھی کیا گیا ہو۔ اگر غلام شادی کرنا چاہے تو وہ مالک کو رضا مند ہونے پر مجبور نہیں کرسکتا ۔ غلامی کی قبیح رسم تمام اسلامی ممالک میں مروج رہی ہے یا موجود ہے ۔ آج کے روز سعودی عرب کے قطعہ میں جو خالص اسلامی ملک ہے ۔ غلامی کی رسم قانونی طور پر نافذ ہے ۔
(۳)
درجہ بندی اور اصول ِ مساوات
اگرچہ قرآن کی نظر میں سب مسلمان برابر ہیں اور لکھاہے کہ
اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ اَتۡقٰکُمۡ
’’ تم میں سب سے زیادہ بزرگ الله کے نزدیک وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہے ‘‘۔
(حجرات آیت ۱۴۰)
تاہم ابتدا ہی سے اسلامی سوسائٹی میں اس اصول کو نظر انداز کردیا گیا اور درجہ بندی موجود ہوگئی۔ رسول عربی کی دنیاوی ترقی اور کامیابی کا یہ نتیجہ ہوا کہ نسل کے فخر کا خاتمہ ہونے کی بجائے قریش کے قبائل کی قدو منزلت بڑھ گئی اور اس قبیلہ کا شخص دیگر تمام قبائل کے شرفا ء سے زیادہ شریف النسب خیال کیا جاتا تھا۔ جب اسلام غیر عرب ممالک میں پھیلا تو عرب اپنے آپ کو غیر عرب سے برتر خیال کرنے لگے ۔ رسول عربی کی وفات کے تین(۳) صدیاں بعد موالی (مولیٰ کی جمع غلام ،نوکر)کی جماعت باقاعدہ قائم ہوگئی اور لوگ اپنے ناموں کو ترک کرکے عربی نام رکھنے لگ گئے اور اپنے لئے عربی نسب نامے وضع کرکے عرب کہلانے لگے ۔ اس درجہ بندی کے سوال نے شادی بیاہ کے معاملات میں اہم صورت اختیار کرلی ۔ حضرت محمد کی وفات کے ڈیڑھ سو (۱۵۰)سال تک کسی موالی کو یہ جرات نہ تھی کہ کسی خالص عربی نژاد(نسل) لڑکی سے بیاہ کی درخواست کرے ۔ حنفی مذہب عرب اور غیر عرب میں مساوات کے اصول کا قائل نہیں ۔ شافعی مذہب کا بھی یہی وطیرہ ہے ۔ مہاجرین اور انصار کے خاندانوں کی نسلیں اور بنو ہاشم کے خاندان (جو آنحضرت کے قریبی رشتہ دار تھے )کی نسلیں اپنے آپ کو دیگر قبائل سے بلند وبالا خیال کرتی تھیں ۔ خلفائے عباسیہ کے زمانہ میں ان کے اس دعویٰ کو بلا چون وچرا تسلیم کیاگیا حالانکہ وہ خلفاء کے وظیفہ خوار ہوتے تھے۔ لیکن حق تو یہ ہے کہ
گرنسب راجزملت کردہ رخنہ درکار ِ اخوت کردہ
(۴)
طبقہ ء نسواں اور اصول ِ مساوات
عورات(عورت کی جمع خواتین) کے متعلق قرآنی احکام مرد اور عورت کی مساوات کے اصول کے خلاف ہیں۔ اور اسلامی ممالک میں عورتوں کی پست حالت کے ذمہ وار ہیں۔ اسلام نے عورتوں کے لئے ایک خاص حد مقرر کردی ہے جس سے وہ تجاوز نہیں کرسکتیں جس کا نتیجہ عورات کی جہالت توہم پرستی اور قوم کی تنزلی ہے کیونکہ قوم کی ترقی بیش تر اس کی عورات پر منحصر ہوتی ہے ۔
قرآن میں عورتوں کو تاکید کی گئی ہے کہ وہ پردہ کیاکریں (احزاب۳۳، ۵۳، ۵۹وغیرہ)۔اس حکم کے خلاف دورِ حاضرہ کے اسلامی ممالک کے مسلمان بغاوت کرتے ہیں۔ مثلاً اخبار الجرؔیدہ میں ایک مسلمان توفیق دائب کہتاہے
’’ کیا تم پردہ کے اس لئے حامی ہو کہ قرآن میں اس کا حکم ہے ۔ اگر یہ بات ہے تو تم کیوں ایک حکم کو مانتے ہو اور دوسروں کو طاق نسیان پر رکھ دیتے ہو۔ تم کیوں شرابی اور بے نمازی کو دُرّے نہیں لگاتے ۔ تم چور کے ہاتھ کیوں نہیں کاٹتے اور زنا کاروں کو سنگسار کیوں نہیں کرتے ‘‘۔
مصری عالم منؔصور فہمی پردے کے خلاف ایک مدلّل مقالہ لکھ کر کہتا ہے کہ
’’ پردہ کی رسم رسول الله کے زمانہ سے پہلے رائج نہ تھی‘‘۔
صوبہ مدراس کے مجسٹریٹ مسٹر محی الدین صاحب کہتے ہیں
’’ ہم کو اس بات کافخر ہے کہ قرآن میں عورتوں کا درجہ دیگر مذاہب کے مقابلہ میں اعلیٰ اور بالا ہے ۔ اگر یہ درست ہے تو ہم کیوں ان کو جانوروں کی طرح پنجروں میں بند رکھتے ہیں۔ ہم اپنی تعداد کے نصف حصہ کو قید کرکے رکھتے ہیں اور پھر اپنی قسمت پرروتے ہیں‘‘۔
کچھ عرصہ کا ذکر ہے کہ مسز حسین صاحبہ نے بنگال ویمن ایجوکیشنل کانفرنس میں ان اسلامی پابندیوں کا ذکر کرکے مسلمانوں کی غفلت شعاری لاپرواہی اور مایوس کن سلوک پر اظہار افسوس کیا۔ اس خاتون نے پردہ کو زہریلی گیس کے نام سے موسوم کیا اور کہا
’’ ہماری بہنیں پردہ کے اندر پردہ گیس سے مررہی ہیں۔ اسلام نے دختر کشی کا خاتمہ کیا تھا لیکن یہ خیال نہیں کیا جاتا کہ عورتوں کے دل اور دماغ کو مارا جارہا ہے‘‘ ۔
ہندوستان میں پردے کے خلاف ہر طرف سے صدائے احتجاج اس قدر بلند ہورہی ہے کہ مرحوم شبلی لکھتے ہیں
’’ یورپ کے عامیانہ تقلید نے ملک میں جونئے مباحث پیدا کردئے ہیں ان میں ایک پردہ کا مسئلہ بھی ہے ۔ دعویٰ کیاجاتا ہے کہ خود مذہب اسلام میں پردہ کا حکم نہیں اور اس سے بڑھ کر یہ کہ قرون ِ اولیٰ میں پردہ کا رواج نہ تھا۔۔۔۔۔ اس موقعہ پر عبرت کے قابل یہ امر ہے کہ اسلام کی تاریخ اور اسلام کی تعبیر کرنے والے دو گروہ ہوسکتے تھے ۔ علمائے قدیم اور جدید تعلیم یافتہ ۔ علماء کا یہ حال ہے کہ ان کو زمانہ کی موجود ہ زبان میں بولنا نہیں آتا۔ جدید تعلیم یافتہ لوگوں کے مبلغ علم کا نئے تعلیم یافتہ گروہ کے سب سے مشہور اور مستند مصنف مولوی امیر علی کی اس عبارت سے اندازہ ہوسکتا ہے جو ابھی اوپر گذر چکی ۔ لیکن بدقسمتی سے یہی دوسرا گروہ قومی لٹریچر پر قبضہ کرتا جاتا ہے اور چونکہ غیر قوموں کے کانوں میں صرف اسی گروہ کی آواز پہنچتی ہے اس لئے مسائل اور تاریخ اسلام کے متعلق آیندہ زمانہ میں اسی گروہ کی آواز اسلام کی آواز سمجھی جائے گی ‘‘۔
(مقالات شبلی صفحہ ۱۰۵)
(۵)
ایام ِ جاہلیت میں عورتوں کی حالت ناگفتہ بہ(شرم ناک) تھی۔ اسلام نے اس حالت کو کسی قدر بہتر بنادیا۔ لیکن ہم کو ایام ِ جاہلیت اور اسلام کا موازنہ اور مقابلہ کرنا مقصود نہیں بلکہ ہم کو یہ دیکھنا ہے کہ آیا اسلام میں طبقہ نسواں کی حیثیت ایسی ہے کہ وہ بمقابلہ مسیحیت ایک عالمگیر مذہب ہونے کی صلاحیت رکھ سکے ؟ ایامِ جاہلیت میں یہ دستور تھا کہ بیاہ کے لئے عورتیں خریدی جاتی تھیں ۔ زر مہر دلہن کو دیا جاتا تھا اور عورت شوہر کا مال متصور ہوتی تھی۔ اسلام میں یہ قانون بحال رکھا گیا ۔ چنانچہ قرآن میں وارد ہے کہ
وَ اٰتُوا النِّسَآءَ صَدُقٰتِہِنَّ نِحۡلَۃً
’’عورتوں کو ان کے مہر خوشی سے دو ‘‘۔
(نساء آیت۴ )
اس زر مہر کو ادا کرنے کی وجہ سے عورتیں آدمیوں کی نسبت کم درجہ خیال کی جاتی ہیں چنانچہ قرآن میں ہے کہ
اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوۡنَ عَلَی النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعۡضَہُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ وَّ بِمَاۤ اَنۡفَقُوۡا مِنۡ اَمۡوَالِہِمۡ فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلۡغَیۡبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰہُ وَ الّٰتِیۡ تَخَافُوۡنَ نُشُوۡزَہُنَّ فَعِظُوۡہُنَّ وَ اہۡجُرُوۡہُنَّ فِی الۡمَضَاجِعِ وَ اضۡرِبُوۡہُنَّ ۚ فَاِنۡ اَطَعۡنَکُمۡ فَلَا تَبۡغُوۡا عَلَیۡہِنَّ سَبِیۡلًا اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیًّا کَبِیۡرًا
’’ مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس لئے کہ الله نے ایک کو ایک پر فضیلت بخشی ہے اور اس لئے بھی کہ مردوں نے عورتوں پر اپنا مال ( زرمہر اور نان ونفقہ) خرچ کیا ہے ۔ پس نیک بخت عورتیں اپنے شوہروں کی اطاعت کرتی ہیں‘‘الخ دیکھو ترجمہ نذیر احمد ۔
(نساء آیت ۳۴)
اس آیت پر ڈاکٹر عبدالحکیم صاحب اپنی تفسیر القرآن میں لکھتے ہیں
’’ ایک حدیث شریف میں وارد ہے کہ حضرت نے فرمایا کہ اگر میں کسی کو دوسرے شخص کو سجدہ کرنے کا حکم دیتا توعورت کے لئے یہ حکم کرتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کیا کرے ۔اسلام میں سجدہ کرنا انتہا درجہ کی ذلت اور دوسرے کی اعلیٰ درجہ کی عظمت ظاہر کرنا ہے اور اپنی ساری طاقتوں اور قوتوں سے اس کے آگے جھک جانا ہوتا ہے تو گویا اس کا دوسرے الفاظ میں یہ مطلب ہے کہ عورت پر اس درجہ کی تابعداری اور خدمت گذاری اپنے خاوند کے لئے واجب ہے جو دوسرے کسی شخص کے لئے واجب نہیں‘‘۔
(صفحہ ۳۶۷)
پس قرآن کے مطابق عورتیں پست درجہ کی ہیں چنانچہ صاف لکھا ہے کہ
وَ لِلرِّجَالِ عَلَیۡہِنَّ دَرَجَۃٌ
’’ مردوں کا عورتوں کے اوپر درجہ ہے ‘‘۔
(بقر آیت ۲۲۸)
بت پرستی کے خلاف قرآن یہ دلیل لاتا ہے ۔
اَفَرَءَیۡتُمُ اللّٰتَ وَ الۡعُزّٰی وَ مَنٰوۃَ الثَّالِثَۃَ الۡاُخۡرٰی اَلَکُمُ الذَّکَرُ وَ لَہُ الۡاُنۡثٰی
’’ بھلا تم دیکھو تو لات وعزیٰ اور منات اور تیسری دیوی منات ۔ یہ تو بے انصافی کی تقسیم ہے کہ تمہارے لئے لڑکے ہوں اور الله کے لئے لڑکیاں ہوں‘‘۔
(سورہ نجم آیت ۱۹۔۲۱)
اس دلیل کی بنیاد یہ ہے کہ الله نے لڑکوں کو لڑکیوں پر فضیلت بخشی ہے ۔ لڑکیاں کم درجہ کی ہیں تم الله کے لئے لڑکیاں اور اپنے لئے لڑکے تجویز کرتے ہو۔ یہ بڑی بے انصافی ہے ۔ پھر لکھا ہے
اِنَّ الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡاٰخِرَۃِ لَیُسَمُّوۡنَ الۡمَلٰٓئِکَۃَ تَسۡمِیَۃَ الۡاُنۡثٰی
’’ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہ فرشتوں کے نام عورتوں کے سے نام رکھتے ہیں‘‘۔
(نجم آیت ۲۷)
ورثہ کے معاملہ میں ’’ مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے ‘‘(نساء آیت ۱۱)۔
شہادت کے معاملہ میں دوعورتوں کی شہادت ایک مرد کی شہادت کے برابر ہے (بقر آیت ۲۸۲)۔
قرآن میں کہیں ان شرائط کا ذکر نہیں جن کے ماتحت مرد عورت کو طلاق دے جس کا مطلب یہ ہے کہ مرد کو اختیار کُلّی حاصل ہے کہ عورت کو معقول اور نا معقول وجوہ(وجہ کی جمع) کی بنا پر طلاق دے دے۔
وَ اِنۡ عَزَمُوا الطَّلَاقَ فَاِنَّ اللّٰہَ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ
’’او ر اگر طلاق کا ار اد ہ کرلیں تو بھی خدا سنتا (اور) جانتا ہے‘‘۔
(سورہ بقرآیت ۲۲۷ )
لیکن کسی عورت کو یہ حق حاصل نہیں کہ اپنے شوہر کو معقول بنا پر بھی طلاق دے سکے۔
قرآن شوہر کو اجازت دیتا ہے کہ اپنی بیوی کو مارے پیٹے۔ چنانچہ لکھا ہے
اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوۡنَ عَلَی النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعۡضَہُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ وَّ بِمَاۤ اَنۡفَقُوۡا مِنۡ اَمۡوَالِہِمۡ فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلۡغَیۡبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰہُ وَ الّٰتِیۡ تَخَافُوۡنَ نُشُوۡزَہُنَّ فَعِظُوۡہُنَّ وَ اہۡجُرُوۡہُنَّ فِی الۡمَضَاجِعِ وَ اضۡرِبُوۡہُنَّ ۚ فَاِنۡ اَطَعۡنَکُمۡ فَلَا تَبۡغُوۡا عَلَیۡہِنَّ سَبِیۡلًا اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیًّا کَبِیۡرًا (۳۴)
’’ جو عورتیں ایسی ہوں کہ تم کو ان کی بدد ماغی کا احتمال ہو تو ان کو زبانی نصیحت کرو اور ان کو ان کی خواب گاہوں میں اکیلے چھوڑ دو اور ان کو پیٹو‘‘الخ۔ (نساء آیت ۳۴)
لیکن اگر عورتیں اپنے مردوں کی بدخوئی سے لرزاں اور ترساں ہوں تو وہ غریب کچھ نہیں کرسکتیں۔
زناکی سزا یہ ثابت کرتی ہے کہ منکوحہ عورت اپنے خاوند کا مال ہے ۔ چنانچہ اگر کوئی منکوحہ عورت زناکاری کی مرتکب ہو تو زانی اور زانیہ کی سزا سنگساری ہے لیکن اگر عورت نے بیاہ نہ کیا ہو تو اس کی سزا سو دُرّے ہیں۔ اس تمیز کی وجہ یہ ہے کہ منکوحہ عورت اپنے خاوند کا مال شمار کی جاتی ہے لیکن کنواری عورت کسی کا مال نہیں ہوتی۔
عورتیں نہ صرف مردوں سے کم درجہ رکھتی ہیں بلکہ وہ مردوں کی آلہ شہوت ہیں۔ چنانچہ قران میں ہے کہ
نِسَآؤُکُمۡ حَرۡثٌ لَّکُمۡ ۪ فَاۡتُوۡا حَرۡثَکُمۡ اَنّٰی شِئۡتُمۡ ۫ وَ قَدِّمُوۡا لِاَنۡفُسِکُمۡ
’’ تمہاری بیویاں تمہاری کھیتیاں ہیں سو تم اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو آؤ‘‘۔
(بقر آیت ۲۲۳)
ایام جاہلیت میں بیاہ کا ایک دستور یہ تھا کہ مہر دے کر بیاہ لینے کی بجائے متعہ (شیعہ مذہب میں کچھ مدت کے لیے عورت سے نکاح کرلینا)کرلیتے تھے۔ اس کا مقصد خاندان کا قیام اور بچوں کی پیدائش اور پرورش نہ تھی۔ بلکہ یہ تھا کہ جب آدمی اپنے گھر سے باہر جنگ کے لئے یا کسی اور مطلب کے لئے جائے تو کسی عورت کے وسیلے مقرری ایام کے لئے اپنی نفسانی خواہشات کی آگ کو فرو کر(بُجھانا)لے اور ایسا نکاح مردا اور عورت دونو کی رضا مندی پر موقوف ہوتا تھا اور اس میں کسی درمیانی یا ولی یا عورت کےکسی رشتہ دار کی ضرورت نہ ہوتی تھی ۔ مقررہ ایام کے بعد اجرت پانے پر عورت کا مرد سے کسی قسم کا تعلق نہ رہتا ۔ اس قسم کا بیاہ قرآن میں بھی جائز قرار دیا گیا ہے ۔ چنانچہ لکھا ہے
نِسَآؤُکُمۡ حَرۡثٌ لَّکُمۡ ۪ فَاۡتُوۡا حَرۡثَکُمۡ اَنّٰی شِئۡتُمۡ ۫ وَ قَدِّمُوۡا لِاَنۡفُسِکُمۡ
’’ وہ سب عورتیں تم کو حلال ہیں جن کو تم مال دے کر طلب کرو۔ ان عورتوں میں سے جس سے تم نے خط اٹھایا ہے ان کی مقررہ اجرت دے دو ‘‘۔ (نساء آیت ۲۳)
ضربت حیدریہ میں قاطع دلائل سے یہ ثابت کیاگیا ہے کہ یہ آیت متعہ پرنص (قرآن پاک کی وہ آئتیں جو صاف اور صریح ہوں)ہے ۔ اس قسم کے نکاح اور زناکاری میں اتنا کم فرق ہے کہ حدیث میں آیا ہے کہ رسول الله نے اس نکاح کو حرام قرار دے دیا تھا۔ لیکن جس طرح تفسیر ثعلبی میں منقول ہے کہ
’’ عمران بن حصین کہتا ہے کہ آیت متعہ کتاب الله میں نازل ہوئی اور اس آیت کے نازل ہونے کے بعد کوئی دوسری آیت نازل نہیں ہوئی جس نے اس آیت کو منسوخ کیا ہو‘‘۔
پس قرآن میں متعہ کی ممانعت کا ذکر نہیں۔ لیکن متعہ کی اجازت کا ذکر ہے ۔ اگر قرآن میں متعہ کی نسبت صریح آیت وارد نہ ہوتی تو عبدالله بن مسعود سا قرآن دان متعہ پر کیوں کر اصرار کرسکتا تھا؟ اگر آنحضرت نے اپنی حین ِحیات میں متعہ کو حرام کیا ہوتا تو خلیفہ اول کے عہد میں وہ کس طرح حلال ہوگیا؟ خلیفہ عمر نے اپنی خلافت کے نصف میں متعہ کو بند کیا۔ خلیفہ ماموں نے متعہ کو دوبارہ جاری کیا لیکن چونکہ رائے عامہ اس قسم کے نکاح کے خلاف تھی اس نے اپنے حکم کو واپس لے لیا۔ اہل سنت متعہ کو حرام قرار دیتے ہیں لیکن اس کو حرام ٹھہرانا قرآن اور تاریخ کا انکار کرنا ہے ۔
(۶)
قرآن نے عورات کی حیثیت کو یہاں تک پست کردیا ہے کہ بہشت میں بھی ان جسمانی جذبات کوروا رکھا ہے جو اس دنیا میں مردود اور مطعون(بدنام ) شمار کئے جاتے ہیں۔ اہل جنت کووَ لَہُمۡ فِیۡہَاۤ اَزۡوَاجٌ مُّطَہَّرَۃٌ’’ ستھری عورتیں ‘‘ ملیں گی (بقر آیت ۲۳۔ آل عمران آیت ۱۳۔ نساء آیت ۶۰)
کَذٰلِکَ ۟ وَ زَوَّجۡنٰہُمۡ بِحُوۡرٍ عِیۡنٍ (۵۴)
وَ زَوَّجۡنٰہُمۡ بِحُوۡرٍ عِیۡنٍ (۲۰)
وَ حُوۡرٌ عِیۡنٌ (ۙ۲۲)
’’گورے رنگ کی بڑی بڑی آنکھوں والی عورتیں جیسے چھپے ہوئے موتی ‘‘۔
(دخان آیت ۵۴ ، طورآیت ۲۰، واقعہ آیت ۲۲)
حُوۡرٌ مَّقۡصُوۡرٰتٌ فِی الۡخِیَامِ (ۚ۷۲) لَمۡ یَطۡمِثۡہُنَّ اِنۡسٌ قَبۡلَہُمۡ وَ لَا جَآنٌّ (ۚ۷۴) مُتَّکِـِٕیۡنَ عَلٰی رَفۡرَفٍ خُضۡرٍ وَّ عَبۡقَرِیٍّ حِسَانٍ (ۚ۷۶)
’’وہ خیموں میں رُکی بیٹھی ہیں اور ان سے پہلے کوئی آدمی اور جن ان سے ہم بستر نہیں ہوا۔ سبز چاندیوں اور قیمتی قالینوں پر تکیہ لگائے بیٹھی ہیں‘‘۔ (رحمنٰ آیت ۷۲، ۷۴، ۷۶)
وَ عِنۡدَہُمۡ قٰصِرٰتُ الطَّرۡفِ عِیۡنٌ (ۙ۴۸) کَاَنَّہُنَّ بَیۡضٌ مَّکۡنُوۡنٌ (۴۹)
’’وہ فراخ چشم والی نیچی نگاہ والی ہم عمر عورتیں ہوں گی گو یا وہ چھپے ہوئے انڈے ہیں‘‘۔
(صافات آیت ۴۸۔۴۹)
وَّ فُرُشٍ مَّرۡفُوۡعَۃٍ (۳۴) اِنَّاۤ اَنۡشَاۡنٰہُنَّ اِنۡشَآءً (ۙ۳۵) فَجَعَلۡنٰہُنَّ اَبۡکَارًا (ۙ۳۶) عُرُبًا اَتۡرَابًا (ۙ۳۷)
’’ ان عورتوں کو ہم نے (خدا نے ) ایک اٹھان پر اٹھایا ہے ۔ پھرہم نے ان کو کنواریاں بنایا۔ شوہروں کی پیاری ہم عمر بنایا‘‘۔
( واقعہ آیت۳۴۔ ۳۷)
اس جنت میں ان حوروں کے علاوہ غلمان بھی موجود ہیں۔
وَ یَطُوۡفُ عَلَیۡہِمۡ غِلۡمَانٌ لَّہُمۡ کَاَنَّہُمۡ لُؤۡلُؤٌ مَّکۡنُوۡنٌ (۲۴)
’’ آس پاس جوان لڑکے پھرتے ہیں گویا وہ چھپے ہوئے موتی ہیں ‘‘
(طور آیت ۲۴،واقعہ آیت۱۷)
اس بہشت میں پانی ، دودھ ، شہد اور شراب کی نہریں بہتی ہیں (محمد آیت ۱۵)۔ وہاں تخت پیالے چاندنیاں ،قالین فرش وغیرہ سب مہیا ہیں (حجرآیت۴۷ ، واقعہ آیت ۱۵، ۳۴ ؛ دہر۱۲تا۲۲ ؛ غاشیہ آیت۱۰۔۱۶)۔وہاں میوے اور پھل ہیں (بقر آیت۲۵ ؛ یسینٰ آیت ۵۷ ۔صافات آیت ۴۲ وغیرہ)۔ خوشے لٹکتے ہیں (رحمنٰ آیت ۴۸وغیرہ)۔ وہاں سفید شراب اور انواع واقسام کے شربتوں کے پیالوں کا دور چلے گا ۔ (صافات آیت ۴۲۔۴۶ طور آیت ۲۰ ۔۲۳؛ واقعہ آیت ۱۸۔۲۰)۔اہلِ جنت کو سونے چاندی کے کنگن ۔ ریشمی لباس اور موتی پہنائے جائیں گے(کہف آیت ۲۰؛ حج آیت۲۳؛ فاطر آیت۳۳ ؛ دخان آیت ۵۳)۔ ان کو پرندوں کا گوشت جس قسم کا وہ چاہیں گے ملے گا۔(طور آیت ۲۲ ؛ واقعہ آیت ۲۱)غرض یہ کہ قرآن کے مطابق بہشت ایک عشرت کدہ (عیش وعشرت کرنے کا مقام)ہے جس میں ہر قسم کی نفسانی خواہشات پوری کی جاتی ہیں۔
چہار چیز کہ غم مے برد کدام چہار؟
شراب وسبز وآبِ روان وروئے نگار
قرآنی بہشت میں یہ سب اور بہت سی دوسری عیش وعشرت کی چیز یں موجود ہیں۔ اس کی وجہ مولانا نیاز فتح پوری یہ بتاتے ہیں کہ
’’ عرب کے لوگ عورت ، شہد ، دودھ ، سونا ، چاندی ، جواہرات وغیرہ پر جان دیتے تھے ۔ان کے نزدیک ان اشیاء سے زیادہ کوئی چیز محبوب تھی ہی نہیں اس لئے اگر ان کی ترغیب کےلئے صرف یہ کہہ دیا جاتا کہ اچھے کاموں کا بدلہ ایک روحانی مسرت کی صورت میں پایا جائے گا تو وہ بالکل اس کو نہ سمجھتے اور کبھی اچھے کاموں کی طرف مائل نہ ہوتے۔ کلام مجید نے بھی عموماً وہی انداز ِ بیان اختیار کیا جس کو لوگ سمجھ سکتے تھے‘‘۔
( رسالہ نگار بابت جولائی ۱۹۲۸ء)
لیکن عالمگیر مذہب کا یہ کام نہیں ہے کہ لوگوں کے بے لگام ارادوں کو الہٰام کی صورت میں دلفریب الفاظ میں اد ا کرے بلکہ اس کا یہ فرض ہے کہ لوگوں کے خیالات تصورات جذبات اور افعال کو سدھارے اور ان کی قوتِ متخیلہ (سوچنے کی قوت)کو صراط مستقیم کی طرف چلائے۔جنت کی قرآنی تصویر یہ بات ثابت کرتی ہے کہ اسلام صرف اہل عرب کے لئے تھا اور اس میں عالمگیر ہونے کی صلاحیت ہی نہیں۔
(۷)
عالمگیر مذہب مرد اور عورت دونو کے حقوق کی یکسا حفاظت کرتا ہے اور صنف نازک (عورتوں کا طبقہ)کی صحیح قدرومنزلت کرتا ہے ۔ اس امر میں قرآن اور اسلام کی تعلیم مسیحیت کے مقابلہ میں قاصر رہتی ہے ۔ ہم نے اپنی کتاب’’دین فطرت ۔ اسلام یا مسیحیت ؟‘‘ کی فصل سو م وچہارم میں یہ ثابت کردیا ہے کہ اقوام کی شائستگی اور تہذیب کا معیار ازدواج کے قوانین اور قواعد ہیں جن اقوام میں وحدتِ ازدواج ہے اور میں اس رشتہ کے قیام وبقا پر زور دیا جاتا ہے وہ اقوام شاہراہ ِ ترقی پر گامزن ہوتی ہیں ۔لیکن جن اقوام میں کثرت ازدواج مروج ہے اور طلاق کی اجازت ہے ان میں زوال پیدا ہوجاتا ہے۔ اس بات سے کوئی صحیح العقل شخص انکار نہیں کرسکتا کہ قرآن نے کثرت ازدواجی کی اجازت دے رکھی ہے ۔ چنانچہ( سورہ نساء )میں ہے
وَاِنۡ خِفۡتُمۡ اَلَّا تُقۡسِطُوۡا فِی الۡیَتٰمٰی فَانۡکِحُوۡا مَا طَابَ لَکُمۡ مِّنَ النِّسَآءِ مَثۡنٰی وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ ۚ فَاِنۡ خِفۡتُمۡ اَلَّا تَعۡدِلُوۡا فَوَاحِدَۃً اَوۡ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ ذٰلِکَ اَدۡنٰۤی اَلَّا تَعُوۡلُوۡا (۳)
’’عورتوں میں سے جو تم کو پسند آئیں دو دو تین تین چا ر چار نکاح میں لاؤ اور اگر یہ خوف ہو کہ عدل قائم نہ رکھ سکوگے تو ایک ہی نکاح کرو یا وہ (باندیاں) جو تمہارے ہاتھوں کا مال ہوں‘‘۔ (نساءآیت ۳)
ان چار نکاحوں کے علاوہ ایک مسلمان لا تعداد لونڈیاں اور باندیاں رکھ سکتا ہے جس طرح اوپر کی آیت میں مذکور ہے پھر لکھاہے کہ
یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَحۡلَلۡنَا لَکَ اَزۡوَاجَکَ الّٰتِیۡۤ اٰتَیۡتَ اُجُوۡرَہُنَّ وَ مَا مَلَکَتۡ یَمِیۡنُکَ مِمَّاۤ اَفَآءَ اللّٰہُ عَلَیۡکَ وَ بَنٰتِ عَمِّکَ وَ بَنٰتِ عَمّٰتِکَ وَ بَنٰتِ خَالِکَ وَ بَنٰتِ خٰلٰتِکَ الّٰتِیۡ ہَاجَرۡنَ مَعَکَ ۫ وَ امۡرَاَۃً مُّؤۡمِنَۃً اِنۡ وَّہَبَتۡ نَفۡسَہَا لِلنَّبِیِّ اِنۡ اَرَادَ النَّبِیُّ اَنۡ یَّسۡتَنۡکِحَہَا ٭ خَالِصَۃً لَّکَ مِنۡ دُوۡنِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ قَدۡ عَلِمۡنَا مَا فَرَضۡنَا عَلَیۡہِمۡ فِیۡۤ اَزۡوَاجِہِمۡ وَ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُہُمۡ لِکَیۡلَا یَکُوۡنَ عَلَیۡکَ حَرَجٌ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا (۵۰)
’’اے نبی ہم نے تیرے لئے تیری عورتیں حلال کردیں جن کا مہر تو دے چکا ہے اور وہ (لونڈیاں) جو تیرے ہاتھ کا مال ہے ۔ جو خدا نے تیرے ہاتھ لگوادیا ہے ‘‘الخ۔ (احزاب آیت ۵۰)
اہل اسلام کو اجازت ہے کہ وہ اپنی باندیوں کے سامنے اپنی شرمگاہوں کی حفاظت نہ کریں۔چنانچہ قرآن میں لکھا ہے ’’ وہ جو اپنی شہوت کی جگہ کو تھامتے ہیں مگر اپنی عورتوں پر یا اپنےہاتھ کے مال پر ۔ سو ان پر الزام نہیں‘‘۔ اگر شادی شدہ عورات ’’تمہارے ہاتھ کی ملکیت ہوجائیں ‘‘۔(نساء آیت ۲۸)۔ تو وہ بھی حرم میں داخل ہوسکتی ہیں۔ ان لونڈیوں اور باندیوں کی کوئی حد مقرر نہیں کی گئی۔ اگر کسی مرد مسلمان کے ہاتھ ایک ہزار لونڈیاں لگ جائیں تو وہ ان کو اپنی مدخولہ(وہ عورت جسے گھر میں ڈال لیا ہو ۔وہ عورت جس سے صحبت کی گئی ہو) بناکر اور اپنی چار بیویوں پر اضافہ کرکے قرآن سے باہر نہیں جاتا۔دنیائے اسلام میں اسی وجہ سے بیشمار طلاق دئے جاتے ہیں۔ اور اسکے مقتدیوں اور پیشواؤں نے یہی دستور العمل اپنے پیش نظر رکھا ۔ چنانچہ تاريخ الخلفا مصنفہ علامہ جلال الدین سیوطی میں لکھا ہے کہ
’’ ابن سعد نے علی بن حسین سے روایت کی کہ امام حسن عورتوں کو طلاق بہت دیا کرتے تھے۔ سوا اس کے جن کو آپ سے محبت ہوجاتی۔ آپ نے نوے(۹۰) عورتوں سے نکاح کئے تھے۔۔۔۔۔چونکہ حضرت حسن عام طور پر نکاح کرکے طلاق دے دیا کرتے تھے اس لئے خطرہ پیدا ہوگیا تھا کہ کہیں قبائل میں عداوت نہ پڑجائے۔اس لئے حضرت علی کرم الله وجہ کو اہل کوفؔہ سے کہناپڑا کہ تم میرے بیٹے حسن کو لڑکیاں نہ دو۔ وہ طلاق بہت دیا کرتے تھے ۔۔۔۔ ابن سعد نے عبدالله بن سعد سے روایت کی ہے کہ حضرت حسن زیادہ نکاح کرنے والے خیال کے آدمی تھے اور ہمیں بوقت نکاح بہت کم اتفاق موجودگی کا ہوا ہے اور بہت کم ایسی منکوحہ عورتیں آپ کی تھیں جن سے آپ کو محبت والفت تھی‘‘
(صفحہ ۱۳۱)
’’لیکن کثرت ازدواجی کے باوجود حضرت امام صاحب نے شریعت محمدیہ کا کبھی عدول نہ کیا اور ایک وقت میں چار(۴) سے زیادہ بیویاں نہ رکھیں۔ اسی طرح خلیفہ متؔوکل کی چار ہزار(۴۰۰۰) کنیزيں تھیں اور وہ ان میں سے ہر ایک سے فائدہ اٹھا چکا تھا‘‘ (تاريخ الخلفا صفحہ ۲۳۵)۔ کلکتہ کے ماڈرن ریویو بابت جنوری ۱۹۳۴ء میں لکھا ہے کہ
’’ شاہ ابن سعود نے تاحال ایک سو پچاس (۱۵۰)ازواج سے نکاح کیا ہے گوشرع اسلام کے مطابق چار سے زائد بیویاں بیک وقت نہیں کیں‘‘۔
پس یہ کہنا عین حق ہے کہ قرآن واسلام کی رُو سے مر دکو اختیار حاصل ہے کہ وہ جس قدر عورتیں اپنی حرم سرائے میں داخل کرنا چاہے کرلے۔ ان میں عدل وغیرہ کسی قسم کی حقیقی قید نہیں ہے ۔
اخبار ’’ ہمدرد‘‘ دہلی کےایڈیٹر مرحوم مولانا محمد علی تھے ۔ اس اخبار کی اشاعت ۱۰ اپریل ۱۹۲۵ء میں ایک صاحب ’’ مکتوبِ فرنگ‘‘ کے زیر عنوان یوں رقمطراز ہیں۔
’’ ترکوں نے جس دن سے تعداد ازدواج کو قانونی پابندیوں سے روکا ہے مجھے ان کے مہذب متمدن اور ترقی یافتہ ہونے کا یقین ہو چلا ہے ۔ کم از کم میں تو ذاتی طور پر یقین نہیں کرتاکہ اسلام نے پوری آزادی کےساتھ تعداد ازدواج اس طرح جاری کیا ہو جس طرح اب ہندوستان کے علماء کرام اس کو اپنے اور دوسروں کے لئے جائز فرماتے ہیں۔ میں تو ذاتی طور پر اس کے خلاف عقیدہ رکھتا ہوں اور عملی طور پر خود ایڈیٹر ہمدرد بھی میرے عقائد سے دور نہیں ہیں صرف فرق یہ ہےکہ میں کہتا ہوں کہ موجودہ حالات میں تعداد ازدواج ایک جرم قبیح(نامناسب) ہے اور وہ کچھ کہتے نہیں ہنس کر خاموش ہوجاتے ہیں ‘‘۔
پس اس روشن خیال مسلمان کے مطابق قرآنی اجازت ’’ موجودہ حالات ‘‘ کے لئے موزوں نہیں اور’’ایک جرمِ قبیح‘‘ہے ۔ لہذا بیسویں(۲۰) صدی کے روشن دماغ مسلمانوں کی خاطر یہ کوشش کی جاتی ہے کہ کسی طرح تاویلیں کرکے کثرتِ ازدواجی کے بدنما دھبہ کو قرآن سے مٹا یا جائے ۔ ہم نے ان تاویلات پر اپنی کتاب ’’ دین فطرت ۔ اسلام یا مسیحیت ؟‘‘ کی فصل سوم وچہارم میں شرح اور بسط کے ساتھ بحث کی ہے ۔ ناظرین سے درخواست ہے کہ وہ اس کتاب کا مطالعہ کرکے خود یہ فیصلہ کرلیں کہ آیا عورات کا جو درجہ قرآن واسلام میں ہے وہ اصول ِ مساوات کے نقیض (اُلٹ،برعکس)ہے یاکہ نہیں۔
فصل پنجم
اصول ِ عبادت
خدا کی عبادت کے اصول پر نظر کرو تو یہی نتیجہ مستنبط(چنا گیا ) ہوتاہے کہ مسیحیت عالمگیر مذہب ہے ۔ اور اسلام قوم عرب کا مذہب ہے ۔ آداب وطرز ِ عبادت کی نسبت سیدنا عیسیٰ مسیح نے فرمایا ہے کہ ’’خدا روح ہے اور ضرور ہے کہ اس کے پرستار روح اور سچائی سے اس کی پرستش کریں‘‘ (یوحنا ۴: ۲۴)۔’’ہماری رسائی باپ(پروردگار) کے پاس ایک ہی روح میں ہوتی ہے ‘‘(افسیوں ۲: ۱۸)۔’’ہم ہیں جو خدا کی روح کی ہدایت سے عبادت کرتے ہیں‘‘ (فلپیوں ۳:۳)۔ خداوند خدا سب سے جو اس کو پکارتے ہیں نزدیک ہے ۔ ان سب سے جو سچائی سے اسے پکارتے ہیں‘‘(زبور ۱۴۵: ۱۸)۔پھر اوقات ِ عبادت کی نسبت انجیلی ہدایت ہے کہ ’’ ہر وقت اور ہر طرح سے روح میں دعا اور منت کرتے رہو‘‘ (افسیوں ۶: ۱۸) ۔’’دعا مانگنے میں مشغول اور شکر گزاری کے ساتھ اس میں بیدار رہو ‘‘ ( کلسیوں ۴:۲)۔’’ ہر وقت دعا مانگتے رہنا اور ہمت نہ ہارنی چاہیے (لوقا۱۸: ۱)۔’’ہر وقت جاگتے اور دعا مانگتے رہو ‘‘(لوقا۲۱: ۳۶)۔’’ دعا مانگنے میں مشغول رہو ‘‘( رومیوں ۱۲:۱۲)۔ ’’بلاناغہ دعا مانگو ‘‘(تھسلینکیوں ۵: ۱۷)۔
جائے عبادت کی نسبت کلمة الله نے اپنی زبان ِ معجز بیان سے فرمایا۔ ’’تم نہ تو اس پہاڑ پر خداوند خدا کی پرستش کرو گے اور نہ یروشلیم میں ۔۔۔۔ سچے پرستار باپ (پروردگار) کی پرستش روح اور سچائی سے کریں گے ۔ کیونکہ پروردگار اپنے لئے ایسے ہی پرستار ڈھونڈتا ہے ‘‘ ( یوحنا ۴: ۲۳)۔’’ہر کوئی اپنی جگہ میں اس کی پرستش کریں گے ‘‘ (صفنیاہ۲: ۱۱)۔’’آفتاب کے طلوع سےاس کے غروب تک میرا نام اقوام کے درمیان بزرگ ہوگا۔ اور ہر مکان پر میرے نام کے ہدئیے گذرانے جائیں گے ‘‘(ملاکی ۱: ۱۱)۔ ’’میں چاہتا ہوں کہ انسان ہر جگہ بغیر غصے اور تکرار کے پاک ہاتھوں کو اٹھا کر دعا مانگا کریں ‘‘ (۱۔تیمتھیس۲: ۸)۔’’ خدا نے دنیا اور اس کی ساری چیزوں کو پیدا کیا۔ وہ آسمان او ر زمین کا مالک ہوکر ہاتھ کے بنائے ہوئے مندروں میں نہیں رہتا ‘‘(اعمال ۱۷: ۲۴)۔ ’’باری تعالیٰ ہاتھ کے بنائے ہوئے گھروں میں نہیں رہتا۔ چنانچہ نبی کہتاہے کہ خداوند خدافرماتا ہے کہ آسمان میرا تخت ہے اور زمین میرے پاؤں کی چوکی ہے تم میرے لئے کیسا گھر بناؤگے ۔ یا میری آرام گاہ کونسی ہے ‘‘ (اعمال ۷: ۴۸۔۴۹)۔ ’’جب تم دعا مانگوتو منافقوں کی مانند نہ بنو۔ کیونکہ وہ عبادت خانوں میں اور بازاروں کے موڑوں پر کھڑے ہوکر دعا مانگنا پسند کرتے ہیں ۔ مگر جب تم دعا مانگو تو اپنی کوٹھڑی میں جاؤ او ر دروازہ بند کرکے اپنے پروردگار سے جو پوشیدگی میں ہے دعا مانگو‘‘(متی ۶: ۵۔۷)۔
اب ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ عبادت کے یہ اصول عالمگیر ہیں۔ خدا کی پرستش روح اور سچائی سے کرنی چاہیے ۔ عبادت کے لئے کوئی خاص اوقات مقرر نہیں۔ اور نہ کوئی جگہ مقرر ہے ۔ ہر وقت اور ہر جگہ انسان اپنے آسمانی باپ کی طرف رجوع کرسکتا ہے ۔ زمان ومکان کی قیود کہیں نہیں ہیں۔
(۲)
برعکس اس کے قرآن مجید میں اسلامی آداب ِ عبادت میں زمان ومکان کی قیود موجود ہیں جو ہمارے دعویٰ کی مصدق ہیں کہ اسلام عالمگیر نہیں بلکہ آنحضرت کے ہم وطن عربوں کے لئے تھا ۔
چنانچہ قرآن میں آداب عبادت کی نسبت آیا ہے ۔
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَقۡرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَ اَنۡتُمۡ سُکٰرٰی حَتّٰی تَعۡلَمُوۡا مَا تَقُوۡلُوۡنَ وَ لَا جُنُبًا اِلَّا عَابِرِیۡ سَبِیۡلٍ حَتّٰی تَغۡتَسِلُوۡا وَ اِنۡ کُنۡتُمۡ مَّرۡضٰۤی اَوۡ عَلٰی سَفَرٍ اَوۡ جَآءَ اَحَدٌ مِّنۡکُمۡ مِّنَ الۡغَآئِطِ اَوۡ لٰمَسۡتُمُ النِّسَآءَ فَلَمۡ تَجِدُوۡا مَآءً فَتَیَمَّمُوۡا صَعِیۡدًا طَیِّبًا فَامۡسَحُوۡا بِوُجُوۡہِکُمۡ وَ اَیۡدِیۡکُمۡ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَفُوًّا غَفُوۡرًا (۴۳)
’’ مسلمانو تم نماز کے پاس بحالت جنابت مت جاؤجب تک غسل نہ کرلو۔ البتہ اگر مسافرت میں ہو تو مضائقہ نہیں۔ اور اگر تم بیمار یا مسافر ہو یا کوئی تم میں سے پاخانہ سے آیا ہو یا تم نے عورتوں کوہاتھ لگایاہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تیمم کرو۔ پھر اپنے مونہوں اور ہاتھوں پر مسح کرلیا کرو‘‘الخ ۔( نساء آیت ۴۳)
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا قُمۡتُمۡ اِلَی الصَّلٰوۃِ فَاغۡسِلُوۡا وُجُوۡہَکُمۡ وَ اَیۡدِیَکُمۡ اِلَی الۡمَرَافِقِ وَ امۡسَحُوۡا بِرُءُوۡسِکُمۡ وَ اَرۡجُلَکُمۡ اِلَی الۡکَعۡبَیۡنِ وَ اِنۡ کُنۡتُمۡ جُنُبًا فَاطَّہَّرُوۡا
’’مسلمانو جب تم نماز پڑھنے کھڑے ہو تو اپنےہاتھ کہنیوں تک دھو لیا کرو۔ اور اپنے سروں پر مسح کرلیا کرو اور اپنے پاؤں کو ٹخنوں تک دھولیا کرو‘‘۔( مائدہ آیت ۶)
اوقات ِ عبادت کی نسبت قرآن میں آیا ہے ۔ کہ
وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفَیِ النَّہَارِ وَ زُلَفًا مِّنَ الَّیۡلِ
’’پس پاکی ہے الله کو جب تم شام کرو اور تیسرے پہر اور جب تم دوپہر کرتے ہو‘‘۔ اور ’’ تو دن کی دونوں طرفوں میں اور کچھ رات گئے نمازپڑھا کر‘‘۔ (ہود آیت ۱۱۴)
اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِدُلُوۡکِ الشَّمۡسِ اِلٰی غَسَقِ الَّیۡلِ وَ قُرۡاٰنَ الۡفَجۡرِ
’’سورج کے ڈھلنے کے وقت سے رات کے اندھیرے تک نماز پڑھا کر‘‘۔
( بنی اسرائیل آیت۷۸)
جائے عبادت کی نسبت حکم ہے
قَدۡ نَرٰی تَقَلُّبَ وَجۡہِکَ فِی السَّمَآءِ ۚ فَلَنُوَلِّیَنَّکَ قِبۡلَۃً تَرۡضٰہَا ۪ فَوَلِّ وَجۡہَکَ شَطۡرَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ وَ حَیۡثُ مَا کُنۡتُمۡ فَوَلُّوۡا وُجُوۡہَکُمۡ شَطۡرَہٗ
’’ پھیر لے اپنا منہ مسجد حرام کی طرف ۔ اور جہاں تم ہو اپنا منہ اس کی طرف پھیرو‘‘الخ۔
(بقر آیت ۱۴۴)
وَ اَتِمُّوا الۡحَجَّ وَ الۡعُمۡرَۃَ لِلّٰہِ فَاِنۡ اُحۡصِرۡتُمۡ فَمَا اسۡتَیۡسَرَ مِنَ الۡہَدۡیِ ۚ وَ لَا تَحۡلِقُوۡا رُءُوۡسَکُمۡ حَتّٰی یَبۡلُغَ الۡہَدۡیُ مَحِلَّہٗ فَمَنۡ کَانَ مِنۡکُمۡ مَّرِیۡضًا اَوۡ بِہٖۤ اَذًی مِّنۡ رَّاۡسِہٖ فَفِدۡیَۃٌ مِّنۡ صِیَامٍ اَوۡ صَدَقَۃٍ اَوۡ نُسُکٍ ۚ فَاِذَاۤ اَمِنۡتُمۡ فَمَنۡ تَمَتَّعَ بِالۡعُمۡرَۃِ اِلَی الۡحَجِّ فَمَا اسۡتَیۡسَرَ مِنَ الۡہَدۡیِ ۚ فَمَنۡ لَّمۡ یَجِدۡ فَصِیَامُ ثَلٰثَۃِ اَیَّامٍ فِی الۡحَجِّ وَ سَبۡعَۃٍ اِذَا رَجَعۡتُمۡ تِلۡکَ عَشَرَۃٌ کَامِلَۃٌ ذٰلِکَ لِمَنۡ لَّمۡ یَکُنۡ اَہۡلُہٗ حَاضِرِی الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ شَدِیۡدُ الۡعِقَابِ
’’الله کے لئے حج اور عمرہ کو پورا کرو۔ پھر اگر تم روکے جاؤ تو جو کچھ میسر ہو قربانی بھیج دو۔ اور اپنے سر نہ منڈاؤ جب تک قربانی اپنی جگہ نہ پہنچے ۔پھر جو کوئی تم میں سے بیمار ہو یا اس کے سر میں کوئی دکھ ہو تو چاہیے کہ وہ فدیہ دے ۔ روزہ یا صدقہ یا ذبیحہ ۔ پھر جب تم امن پاؤ تو جس نے حج کے ساتھ عمرہ ملاکر فائدہ اٹھایا ہے ۔ اس کو چاہیے کہ جوکچھ میسر ہو قربانی دے ۔پھر جس کو قربانی میسر نہ ہو و ہ حج کےدنوں میں تین روزے رکھے اور سات روزے اس وقت رکھے جب تم اپنے گھروں کو لوٹو‘‘الخ۔
(بقر آیت ۱۹۶)
لَیۡسَ عَلَیۡکُمۡ جُنَاحٌ اَنۡ تَبۡتَغُوۡا فَضۡلًا مِّنۡ رَّبِّکُمۡ فَاِذَاۤ اَفَضۡتُمۡ مِّنۡ عَرَفٰتٍ فَاذۡکُرُوا اللّٰہَ عِنۡدَ الۡمَشۡعَرِ الۡحَرَامِ
’’ جب تم میدان ِ عرفات سے واپس ہو تو مشحر الحرام کے پاس خدا کو یاد کرو۔ پھر تم طواف کو چلو جہاں سے سب لوگ چلتے ہیں۔ اور خدا سے اپنا گناہ بخشواؤ‘‘
(بقر آیت ۱۹۸)
ارباب ِ بصیرت انجیلی اور قرآنی آداب ِ عبادت کا مقابلہ کرکے خود فیصلہ کرسکتے ہیں کہ ان دونوں میں سے کونسا مذہب عالمگیر ہونے کی قابلیت رکھتا ہے ۔ اسلام کی کتاب پر لا یمسہ الا لمطھرون کا دربان بیٹھا ہے لیکن انجیل کا یہ حال ہے کہ
گیرددارو حاجب ودربان دریں درگاہ نیست
اسلامی پاکیزگی جسمانی اور ظاہری طہارت ہے ۔ جس کا باطنی اور روحانی پاکیزگی سے کسی طرح کا بھی تعلق نہیں۔ یہ پاک کتاب عربی میں ہے جو عام فہم نہیں۔ جس کا ترجمہ ہزار دقت چھپتا ہے اور وہ بھی متن سے معرا نہیں ہوتا۔ پانی سے وضو کرنا اور مٹی سے تیمم کرنا ۔ قبلہ رُخ ہوکر نماز پڑھنا اور وہ بھی صرف خاص اوقات میں اوراس پر طرہ (زیادہ)یہ کہ عربی زبان میں نماز پڑھی جائے ۔ ایک ترکی مصنف نے کیا خوب کہا ہے ۔
’’ یہ عجیب تماشہ ہے کہ ہم ایک ایسے الله کی پرستش کرتے جو سب کو عربی میں مخاطب کرتا ہے اور حق تو یہ ہےکہ وہ عربی کے سوائے تمام دیگر زبانوں سے قطعی نا آشنا ہے ‘‘۔
لیکن انجیلی احکام کے مطابق یہ ضروری نہیں کہ ہم کعبہ رُوہوں۔
’’اگر ٹخنوں کے نیچے یا اوپر پاجامہ ہوگیا تو اس سے خدا کی قربت میں کیوں فرق آنے لگا؟ سر پر عمامہ ہو یا نہ ہو روحانی قربت کو اس سے کیا واسطہ ؟خدا دستار اور شلوار اور وضو کو نہیں دیکھتا ۔ وہ خلوص نیت اور صفائی قلب کو دیکھتا ہے ۔ ایام ماہواری میں عورت نماز نہیں پڑھ سکتی گویا حایضہ کے لئے خدا اپنے کان بند کرلیتا ہے ۔ پس ہر ماہ میں قریباً ایک ہفتہ تک عورت جسمانی ناپاکی کے باعث مذہبی فریضہ کو ادا نہیں کرسکتی۔یہ کہاں کی عالمگیری ہے جو مرد اور عورت محض جسمانی ناپاکی کی وجہ سے خدا کی قربت حاصل نہیں کرسکتے ‘‘
(عالمگیر مذہب )
دل کہ پاکیزہ بود جامہ ناپاک چہ سود؟
سرکہ بے مغز بود فغزی دستار چہ سود؟
غرض یہ کہ کہ نماز کے اوقات مقرر ہیں۔ اس کے آدابِ رکوع وسجود وقعود بھی مقرر ہیں بلکہ چند اوقات ایسے بھی ہیں جن میں خدا کو سجدہ کرنا حرام ہے چنانچہ مشکواة باب اوقات النھی میں مسلم کی روایت عقبہ بن عامر سے ہے کہ تین وقت ہیں جن میں رسول ﷺ ہمیں منع کیا کرتے تھے کہ نماز پڑھنے سے ۔پہلا وقت جب سورج نکلنے لگے ۔ جب تک بلند نہ ہو۔ دوسرا وقت جب ٹھیک دوپہرہو۔ جب تک دن نہ ڈھلے ۔ تیسرا وقت جب سورج غروب ہو۔ جب تک اچھی طرح غروب نہ ہوجائے ۔ وجہ یہ بتائی کہ طلوع وغروب کے وقت سورج شیطان کے دو سینگوں کے درمیان (بین قرنی الشیطان)ہوتاہے ۔ اور دوپہر کے وقت دوزخ میں ایندھن جھونکا جاتا ہے ۔ سوائے جمعہ کے روز کے ۔(ان جھنم تسجر الایوم الجمعة) چنانچہ خوا جہ کمال الدین مرحوم بھی ۔ ’’ینابیع المسیحیت ‘‘ میں فرماتے ہیں
’’ قربان جاؤں حضرت محمد ﷺ کے ۔ اس نے اسلامی نمازوں کو اس شائبہ (آفتاب پرستی ) سے الگ کردیا اور حکم دیا کہ سورج کے طلوع زوال اور غروب کے وقت کوئی نماز فرض ہو یا نفل نہ پڑھی جائے ‘‘
(ینابیع المسیحیت صفحہ ۶۷)
گویا خدا تعالیٰ یہ نہیں جان سکتا کہ کون شمس پرست ہے اور کون خدا پرست ۔ لہٰذا جس وقت شمس پرست ’’سورج مہاراج ‘‘ کو سجدہ کریں اس وقت مومنین پر لازم ہے کہ حقیقی معبود کی پرستش کو گناہ سمجھیں!
وضو کی شرط اوقات کی پابندی ،کعبہ کی سمت شناسی ایسی شرائط ہیں جن کے بغیر کوئی متشرع (شریعت پر عمل کرنے والا،پرہیزگار)مسلمان عبادت نہیں کرسکتا ۔ لیکن مسیحی روحانی تعلیم کے مطابق عیسائی ہر وقت نماز ادا کرسکتا ہے ۔ وہ ہر سمت کو اپنا قبلہ بنا سکتا ہے ۔ مسلمان سورج کے ٹھکانے کی کھوج میں ہوتا ہے یا قبلہ نماسے مدد لیتا ہے اور چاہتا ہے کہ کعبہ میری ناک کی سیدھ پر رہے ۔ اس کی نماز کے اوقات بھی مقررہ ہیں۔ اور اس کی نماز قضا بھی ہوجاتی ہے مگر عیسائی کی نماز کبھی قضا نہیں ہوتی۔ وہ تعین قبلہ میں پریشان ومضطرب نہیں رہتا ۔ نہ اس کو قضا پڑھنے کی ضرورت ہے اور نہ سجدہ سہو کرنے کی ۔
بخدا خبر ندارم چو نمازمے گذارم
کہ تمام شدرکوعے کہ امام شد فلانے
(مولانا روم)
مگر جس دین میں اسلام کی سی ظاہری پابندی ہو وہ عالمگیر ہونے کی صلاحیت نہیں رکھ سکتا ۔حج کا فریضہ بھی ہمارے اس دعویٰ کا مصدق ہے کہ رسول عربی صرف قوم عرب کے لئے ہی آئے تھے ۔ آنحضرت کے زمانہ میں حج ایک آسان بات تھی کیونکہ اہل عرب ایک مرکزی جگہ پر جمع ہوسکتے تھے۔ روئے زمین کے باشندوں کے لئے اس فرض کو ادا کرنا ایک نا ممکن بات ہے۔ عالمگیر مذہب کے اصول واحکام ایسے ہونے چاہئیں جن کی ہر قوم اور ہر ملک اور ہر زمانہ کے افراد یکساں طور پر تعمیل کرسکیں۔ یہ نہیں کہ بعض آسانی سے اس پر عمل پیرا ہوں اور دوسرے ہزار دقت سے اس پر عمل کرسکیں۔ اسی لئے مسیحیت میں نہ کوئی حج ہے نہ عمرہ نہ عرفات ہے ۔ اور نہ قبلہ بلکہ ہر مسیحی کا دل بیت الله اور خدا کا مسکن ہے چنانچہ مقدس پولوس فرماتے ہیں کہ ’’ کیا تم نہیں جانتے کہ تم خدا کا مقدس ہو۔اور خدا کا روح تم میں بسا ہوا ہے‘‘(۱۔کرنتھیوں۳: ۱۶)۔
مسیحیت ہمیں یہ تعلیم دیتی ہے کہ باری تعالیٰ ہاتھ کے بنائے ہوئے گھروں میں نہیں رہتا ۔ چنانچہ نبی کہتا ہے کہ ’’ خداوند خدا فرماتا ہے ۔ آسمان میرا تخت اور زمین میرے پاؤں تلے کی چوکی ہے تم میرے لئے کیسا گھر بناؤگے ۔ یا میری آرام گاہ کونسی ہے ‘‘ (اعمال ۷: ۴۸)۔
علی ٰ ہذا القیاس روزہ کے فریضہ پر غور کرو۔ جس کے باعث سحری سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے پینے سے پرہیز کرنا لازم ہے ۔ اوّل کھانا، پینا اشیائے خوردنی وغیرہ سے پر ہیز کرنا ایک جسمانی امر ہے ۔ جس کا تعلق حقیقی روحانیت اور قربت الہٰی سے نہیں ہے ۔ ’’کھانا ہمیں خدا سے نہیں ملائے گا۔ نہ کھائیں تو ہمارا کچھ نقصان نہیں۔ اور اگر کھائیں تو نفع نہیں‘‘ (۱۔کرنتھیوں ۸:۸)۔ علاوہ بریں اسلامی روزہ ایسا ہے کہ کل بنی نوع انسان اس کی شرائط کی تعمیل کرنے سےقاصر رہتے ہیں۔
اس کے برعکس مسیحیت نے روزہ کے لئے خاص اوقات اور مہینے مقرر نہیں کئے ۔ الله تعالیٰ فرماتا ہے ’’ خدا کی بادشاہت کھانے پینے پر نہیں بلکہ راستبازی اور میل ملاپ اور اس خوشی پر موقوف ہے جوروح القدس کی طرف سے ہوتی ہے ‘‘ (رومیوں ۱۴: ۱۷)۔ پھر ارشاد ہے ’’ میرے لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے کس لئے روزے رکھے ۔خدا تو دیکھتا ہے نہیں؟ تو اس پرلحاظ نہیں رکھتا ؟دیکھو اس طرح کا روزہ رکھنا نہیں چاہئے۔ کیا یہ وہ روزہ ہے جومجھے پسند ہے؟ ایسا دن کہ اپنی جان کو دکھ دے اور اپنے سر کو جھاؤ کی طرح جھکائے ؟ کیا وہ روزہ جو میں چاہتا ہوں یہ نہیں کہ ظلم کی زنجیریں توڑیں۔ اور جوئے کےبندھن کھولیں؟ اور مظلوموں کو آزاد کریں۔ بلکہ ہر ایک جوئے کو توڑ ڈالیں کیا یہ نہیں کہ تو اپنی روٹی بھوکوں کو کھلائے اور مسکینوں کو جو آوارہ ہیں اپنے گھر میں لائے ۔ اور جب کسی کو ننگا دیکھے تو اسے پہنائے اور تو اپنے ہم جنس سے روپوشی نہ کرے ؟‘‘ (یسعیاہ ۵۸: ۳۔۷)۔ اس کے بالمقابل قرآنی روزہ کی ہدایت ملاحظہ ہو
وَ کُلُوۡا وَ اشۡرَبُوۡا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الۡخَیۡطُ الۡاَبۡیَضُ مِنَ الۡخَیۡطِ الۡاَسۡوَدِ مِنَ الۡفَجۡرِ۪ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَی الَّیۡلِ ۚ
’’جب تک فجر کو سفید دھاگا کالے دھاگے سے صاف جدا نظر نہ آوے کھاؤ پیو۔ پھر رات تک روزہ تمام کرو ‘‘
( بقر ۱ٓیت ۱۸۷)
ناظرین خود انصاف کریں کہ روزہ کی کونسی ہدایت عالمگیر کہلانے کی مستحق ہے ۔
اسلام میں قربانی کی ہدایت اور حکم موجود ہے ۔ تاکہ الله مومنوں سے ان کے گناہ دفع کرے (حج آیت۳۹) اور اس بارے میں یہاں تک مبالغہ سے کام لیا گیا ہے کہ لکھا ہے کہ
فَقُلۡنَا اضۡرِبُوۡہُ بِبَعۡضِہَا کَذٰلِکَ یُحۡیِ اللّٰہُ الۡمَوۡتٰی ۙ وَ یُرِیۡکُمۡ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ (۷۳)
’’ خدا نے ایک مردے کو ایک قربانی کی گائے کے ٹکڑے سے زندہ کردیا‘‘۔
(بقر آیت۷۳)
خد انے قرآن میں نبی کو قربانی کے لئے حکم دیا
فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَ انۡحَرۡ (۲) اِنَّ شَانِئَکَ ہُوَ الۡاَبۡتَرُ (۳)
’’ اے نبی اپنے رب کے لئے قربانی کر۔ بیشک جو تیرا دشمن ہے وہی بے نسل ہے ‘‘۔
(کوثرآیت ۲۔۳)
لیکن حقیقت یہ ہے کہ ’’ خدا سوختنی قربانیوں اور ذبیحوں سے خوش نہیں ہوتا‘‘۔ الله تعالی ٰ فرماتا ہے ’’دیکھ حکم ماننا قربانی چڑھانے سے اور شنوا ہونا مینڈھوں کی چربی سے بہتر ہے ‘‘(۱۔سموئیل ۱۵: ۲۲)۔’’ خدا سے سارے دل اور ساری عقل اور ساری طاقت سے محبت رکھنا اور اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھنا سوختنی قربانیوں اور ذبیحوں سے بڑھ کر ہے ‘‘(مرقس ۱۲: ۳۳)۔
جانوروں کی قربانی کا اصول درحقیقت مذہب کی عالمگیریت کےمنافی ہے ۔ خود ہندوستان کو دیکھ لو ہر سال قربانی کی عید پر فساد ہوتاہے کیونکہ اہل اسلام کی قربانی سے اہل ہنود(ہندو کی جمع) کی دل آزاری ہوتی ہے ۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام کا یہ اصول اور حکم ہر ملک پر حاوی نہیں ہوسکتا ۔ اور اس سے ہمارے دعویٰ کی بھی تصدیق ہوتی ہے ۔ کہ اسلام صرف آنحضرت کےہم وطن عربوں کےلئے تھا۔ جہاں اونٹ وغیرہ کی قربانی ہوسکتی تھی۔ جن ممالک میں اونٹ یا دیگر قربانی کے جانور نہیں ہیں وہ خود ان احکام سے مستثنیٰ ہوگئے اور اسلام عالمگیر مذہب نہ رہا ۔
پس اسلامی عبادت کے سب اصولوں کاتعلق ملک ِ عرب کے ساتھ ہے ۔ اور وہ زمان ومکان کی قیود سے آزاد نہیں ہیں لہٰذا وہ عالمگیر نہیں ہوسکتے ۔
فصل ششم
اصول ِ شریعت
(۱)
ہم نے اپنے رسالہ ’’کلمتہ الله کی تعلیم‘‘ میں انجیل جلیل کے اساسی اصول پر مفصل بحث کی ہے اور کتاب ’’ مسیحیت کی عالمگیری ‘‘کے باب دوم میں یہ ثابت کردیا ہے کہ کلمتہ الله کے اصول جامع اور عالمگیر ہیں ۔ وہ اَلؔف سے لے کر یؔ تک روحانی ہیں۔ لہٰذا زمان ومکان کی قیود سے آزاد اور کل اقوام وممالک ِ عالم پر حاوی ہیں۔ کل دنیا کے مذاہب کے رسولوں اور پیغمبروں کے احکام ان کے اپنے ماحول یا مختلف معلموں کے خیالات کا مجموعہ ہیں جو ان کی قوم کے ساتھ مختص ہیں جس کی وجہ سے ان کے پیغام میں عالمگیر ہونے کی صلاحیت نہیں رہتی۔ ان اصولوں کا تعلق صرف ایک قوم کے ساتھ وابستہ تھا اور یہی وابستگی ان کو عالمگیر ہونے نہیں دیتی۔ لیکن انجیل جلیل کے اصول کسی خاص ملک قوم یا زمانہ کے لئے وضع نہیں ہوئے تھے۔ لہٰذا زمان ومکان کی قیود سے آزاد ہونے کی وجہ سے ان کا اطلاق کل اقوام وممالک وازمنہ پر ہوسکتا ہے اور ہوتا رہا ہے ۔ کلمتہ الله عالمِ روحانیت کے واحد حکمران اور تاجدار ہیں۔
(۲)
احکام ِ شرعیہ زمان ومکان کی قیود میں جکڑے ہیں
لیکن قرآن کے اصول اور اسلام کے احکام عالمگیر ہونے کی اہلیت نہیں رکھتے وہ زمان ومکان کی قیود سے آزاد نہیں بلکہ قیود شرعیہ کی زنجیروں اور دیگر پابندیوں سے جکڑے ہوئے ہیں وہ جامد اور ٹھوس ہیں جو ضرورت ِ زمانہ اور حالت ِ خاص کے مطابق نہیں ڈھالے جاسکتے ۔ ضروریات زندگی تغیر پذیر ہوتی ہیں پس وہ ہر ملک قوم اور زمانہ کے لئے یکساں نہیں ہوتیں۔ لیکن اسلامی احکام ان تغیرات کے مطابق حسب ضرورت چسپاں نہیں کئے جاسکتے ۔ کیونکہ شارع(سیدھا راستہ،شریعت سیکھانے والا) کے خواب وخیال میں بھی نہ تھا کہ اس کے احکام کا غیر عرب پر بھی اطلاق کیا جائے گا ۔ تمام دنیا کے ممالک کے لوگ اور ہر زمانہ کے مختلف افراد ایک ہی لاٹھی سے ہانکے نہیں جاسکتے۔ خود حضرت رسول عربی کی حین حیات میں آپ کو موقعہ اور محل کے مطابق اور تغیر حالات کے باعث چند احکام بدلنے پڑے تھے۔ ناسخ ومنسوخ کا مسلمہ مسئلہ اس امر پر شاہد ہے ۔
(سورہ بقرہ آیت ۱۰۰)جلال الدین نے اپنی کتاب ’’اتقان‘‘ میں بیس(۲۰) ایسی آیات لکھی ہیں جن پر ناسخ ومنسوخ کا اطلاق ہوتا ہے ۔ شاہ ولی الله اپنی کتاب ’’حجتہ البالغہ‘‘ میں اسباب نسخ پر بحث کرتے ہوئے ایک حدیث پیش کرتے ہیں کہ آنحضرت نے فرمایا
’’کلامی ینسخ کلام الله وکلام الله ینسخ کلامی وکلامہ الله ینسخ بعض بعضھا‘‘۔
’’ یعنی میر ا کلام خدا کے کلام کو منسوخ نہیں کرسکتا اور خدا کا کلام میرے کلام کو منسوخ کرتا ہے اور خدا کاکلام دوسرے کلام کو منسوخ کرتا ہے‘‘۔
پھر اس کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ
’’ کسی شے میں ایک وقت میں کوئی مصلحت یا خرابی ہوتی ہے ۔ اس کے مطابق اس کاحکم متعین ہو جایا کرتا ہے ۔ اس کے بعد ایک زمانہ آتا ہے ۔ اس میں وہ حالت اس شے کی نہیں رہتی اس لئے وہ حکم بھی اس کا نہیں رہتا۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ آغاز اسلام میں امت کے لئے کفار سے جنگ کرنے کی اجازت نہ تھی۔ اس وقت نہ لشکر تھا نہ خلافت لیکن جب آنحضرت ﷺ نے ہجرت فرمائی اور مسلمان واپس آگئے ۔خلافت کا ظہور ہوا اور دشمنانِ خدا سے مقابلہ کی قوت ہوگئی۔ تو خدا تعالیٰ نے یہ حکم نازل کیا کہ اب ان لوگوں کو لڑنے کی اجازت ہے ‘‘۔
( آیات الله الکاملہ ترجمہ حجتہ البالغہ باب ۷۳ صفحہ ۱۹۱)
جب رسول عربی اس دنیا سے کوچ کر گئے اور شریعت الہٰی میں تبدیلی کا امکان نہ رہا اور شریعت ٹھوس ہوگئی تو اب اسلامی شرع ہمیں صرف ایک خاص قسم کی رسوم ، طرز معاشرت ،اقتصادیات اور سیاسیات وغیرہ کی پابند کرتی ہے۔ جن کا تعلق پہلی صدی ہجری کے زمانہ کے ساتھ ہے جن کا اطلاق اس بیسویں(۲۰) صدی مسیحی میں مختلف ممالک اور مختلف طبائع (طبیعت کی جمع )پر نہیں ہوسکتا۔ اب تمام اسلامی ممالک اس امر کو محسوس کررہے ہیں کہ اگر وہ اقوام عالم کے ہمدوش ہوکر چلنا اور باعزت زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں تو ان کو ان تمام قیود شرعیہ سے آزاد ہونا ہوگا ۔’’جن کے آہنی پنجہ ‘‘ میں وہ اب تک جکڑے رہے ہیں ایدھمہ الله بنصرہ ۔ ان تمام اسلامی ممالک کی تاریخ زبانِ حال سے پکار کر کہہ رہی ہے کہ اسلام میں عالمگیر مذہب ہونے کی صلاحیت نہیں ہے ۔’’ جس کے کان سننے کے ہوں وہ سن لے ‘‘۔
(۳)
اس روشن حقیقت کے باوجود بعض اشخاص ایسے بھی ہیں جو دور حاضرہ میں غیر عرب ممالک میں اسلام کی اشاعت کا ڈھول بجا کر جاہل مسلمانوں سے روپیہ بٹور کر اپنا الوسید ھا کرتے ہیں۔ چنانچہ جب مرزائی جماعت نے دیکھا کہ اب اورکسی حیلے سے روپیہ ہاتھ نہیں آتا تو انہوں نے مسلمانوں کی جیبوں پر اسلام کے نام سے ڈاکہ ڈالنا شروع کردیا ہے ۔ چنانچہ اس فرقہ ضالہ کی قادیانی جماعت نے ’’تحریک جدید‘‘ کے نام سے اور لاہور ی جماعت نے ’’اشاعت اسلام ‘‘ کے نام سے ہندوستان کے مسلمانوں کو دھوکا دینا شروع کردیا ہے ۔ وہ بڑے زور شور سے دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ براعظم یورپ اور افریقہ اور امریکہ میں تبلیغ اسلام کررہے ہیں اور ان ممالک کے لوگ دھڑا دھڑاسلام کے حلقہ بگوش ہورہے ہیں ۔ ان کو دائرہ اسلام میں لانے کےلئے روپیہ کی اپیل کرتے ہیں ہر سالانہ جلسہ پر اس خانہ ساز تبلیغ کی رپورٹ بازی ہوتی ۔ احمق چندہ دہندگان کی خاطر جمعی کے لئے چند ایک ’’نو مسلموں‘‘کے نام اور تصاویر شائع کی جاتی ہیں۔ لیکن ہندوستان میں ایسے مسلمان بھی ہیں جن کے سر میں دماغ اور دماغ میں عقل ہے اور وہ اس خداداد عقل کو استعمال بھی کرتے ہیں۔ اور وقتا ً وفوقتاً مرزائی جماعت کے دو فرقوں کے پول کھول دیتے ہیں۔ چنانچہ مرحوم خواجہ کمال الدین کی انگلستانی تبلیغی تحریک کی نسبت ایک مسلمان اخبار مدینہ بجنور میں زیر عنوان’’ مکتوب لندن‘‘ یوں فرماتے ہیں
’’ تمام تحریک (یعنی انگلستان میں تبلیغ اسلام کی تحریک )ایک بڑا فریب ہے کیا آپ سمجھتے ہیں وہ اسلامی زندگی پیدا کرسکتے ہیں ۔ جس کا ڈاکٹر اقبال خواب دیکھتے ہیں یا جس کے لئے ایک مسلمان چندہ دیتا ہے مثلاً غیر ذبیحہ گوشت سے اجتناب ،طہارت بدن ،کپڑے کی پاکی، پابندی صوم صلوٰاۃ ۔ زکوٰة اورحج جنہیں ہم رکن اور اسلامی فرائض سمجھتے ہیں۔ آپ اس کے متعلق یہاں کہیں تو لوگ آپ کو خصوصاً انگریز مسلمان دقیانوس خیال(پرانے رسم ورواج) کریں گے اور آپ بھی نادم ہوں گے ۔اگر کمال الدین مشن یہاں کامیاب ہے تو یہ خود اس کی بین دلیل ہے کہ انہوں نے روح اسلام پر کوئی ظلم کیا ہے ۔ووکنگ مسجد ایک عمدہ سوشل کلب ہے ۔ فائدہ یہ ہے کہ دوسرے تھیٹر تماشہ گاہوں کی طرح وہاں خرچ کچھ نہیں۔ میں واقعی اس کے سمجھنے سے قاصر ہوں کہ یہ دیکھتے ہوئے ۔۔۔۔۔۔ لندن کے اس کلب کےلئے جس کا نام غلطی سے ووکنگ مسجد ہے روپیہ لوگ کس طرح دیتے ہیں۔ بیگم صاحبہ دام اقبالہ والیہ بھوپال نے دورانِ قیام انگلستان میں اس مسجد میں نماز پڑھنا گوارا نہ کیا اور اس فریب پر بار بار روئیں‘‘
( ۷ جنوری ۱۹۲۸ء نمبر ۵ جلد ۱۷ صفحہ ۴)۔
پس تاریخ اور دورِ حاضرہ کے حالات سے ہمارا دعویٰ ثابت ہو گیاکہ اسلام میں عالمگیر ہونے کی اہلیت سرے سے ہی نہیں ہے ۔ اور اگر کوئی مسلمان اس کو عالمگیر سمجھتا ہے تو ’’روح اسلام پر ظلم کرتا ہے ‘‘۔
انہی امور کو پیش نظر رکھ کر انگریز مسلمان۔ خصوصاً مرزائی فرقہ کی لاہوری جماعت کی مایہ ناز ہستی مرحوم لارڈ ہیڈلے اسلام میں قطع وبرید کرنا(کانٹ چھانٹ کرنا)چاہتے ہیں۔تاکہ انگریز مسلمان ہوسکیں۔ ہم ذیل میں ان کے خط کا اقتباس کرتے ہیں جو یکم جولائی ۱۹۲۷ء کے قادیانی (لاہوری) انگریزی اخبار لائٹ میں شائع ہوا تھا۔ آپ فرماتے ہیں کہ :
’’اگر آپ یارک شائر برطانیہ کے کسی کسان پر زور ڈالیں کہ وہ سؤر کا نمکین گوشت ، انڈے اور شراب کا استعمال ترک کردے ۔ حالانکہ یہ غذائیں اس کے لئے نسلوں سے مفید ثابت ہورہی ہیں اور اسے یہ کہیں کہ اگر ان اشیاء کا استعمال جاری رکھوگے تو نجات کا دروازہ تمہارے لئے بند ہوجائے گا ۔ تو آپ اسے اسلام کی صداقت اور وسیع النظری کا معتقد (پیرو)بنانے سے قاصر رہیں گے ۔ اسی طرح اگر آپ ایک مسلمان کے لئے یہ لازمی شرط قرار دیں گے کہ ہر ایک تاجردن بھر میں پانچ بار سجدہ بجالائے اور نماز پڑھے تو آپ بہت سے لوگوں کو اسلام کے حلقہ میں نہ لا سکیں گے ۔ جو کچھ عرب کے ایک باشندے کے لئے جو صحرائی گردونواح میں رہتا ہے اور ڈھیلے اور سستے کپڑے پہنتا ہے ممکن ہے ۔ وہ ایک مصروف تاجر کے لئے جو قیمتی لباس میں ملبوس ہے ۔ نا ممکن ہے ۔ ایک گیلے اور کیچڑ والے بازار میں نماز کے لئے جھکنے کا خیال ہی حماقت میں داخل ہے ۔ جو شخص ایسا کرنا چاہتاہے اسے یہ بھی سوچنا ہوگاکہ کپڑوں کی سلائی کا خرچ کس قدر اٹھے گا ۔ انگریز کے دماغ میں نہ آسکے گا کہ نجات کے لئے یہ چیز بھی ضروری ہے ۔حالات گردو پیش ناموافق ہیں اور دائمی خوشی کے حصول کا انحصار اس بات پر نہ ہونا چاہئے ۔ کہ کوئی شخص مکہ میں پیدا ہوا ہے یا انگلستان میں پس میری رائے ہے کہ ہمیں صرف خدا اور اس کے پیغمبر پر ایمان لاناچاہیے۔ اور مجھے کوئی وجہ نہیں نظر آتی کہ کیوں دوسرے عقائد لوگوں کے گلے میں ٹھونسے جائیں جب کہ ایسا کرنے سے ہم انہیں اسلام سے دور کرتے ہیں‘‘۔
(ماخوذ از پرتاپ لاہور ۱۱ ستمبر ۱۹۲۷ء)
(۴)
سید مقبول احمد صاحب لکھنو کے رسالہ نگار میں اسی مضمون پر بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں
’’ دنیا میں عموماً دو قسم کے مذاہب پائے جاتے ہیں ۔ ایک قومی اور دوسرے عمومی ۔ قومی مذاہب ہنود ، یہود ومجوس ہیں ۔ عمومی مذہب بدھ، نصرانیت اور ایک حد تک اسلام ہیں۔ پہلے قسم کے مذہب کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ایک قوم کے لئے مخصوص ہوتا ہے اور دوسری قوم میں اس کی اشاعت ممنوع و ناممکن ہوتی ہے ۔ اس کے برخلاف دوسرے قسم کے مذہب ہیں۔ مگر اسلام کی صورت دونوں کے بین بین عجیب ہے ۔ وہ اس لحاظ سے قومی مذہب ہے کہ قرآن کے ساتھ مذہب کا جزو وہ قومی شریعت بھی ہے جو بالخصوص عرب کے لئے قرآن اور زیادہ تر روایات سے تدوین کی گئی ہے ۔ کیونکہ جب کسی مذہب کے ساتھ شریعت جزو لازم ہو تو وہ قومی مذہب پایا جائے گا اس کے معنی صرف یہی ہوسکتے ہیں کہ قانون ایک خاص معاشرت کے قوم کے ساتھ مخصوص ہوگیاہے ۔ عمومی مذہب شریعت کا پابند نہیں ہوسکتا ۔ بشرطیکہ اس مذہب میں ہر قوم کو شریعت میں اختیار کا حق حاصل ہو۔ اسلام ایک عربی شریعت کا پابند بنا دیا گیا ہے ۔۔۔۔ اس نے مختلف قوموں کے کو ایک رنگ اور ایک خیال میں ڈھال کر ان کو ایک مرکز اور ایک شریعت سے وابستہ کردیا ہے ۔ ہمارے لئےتو یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کو ہم اسلام کے احسانات میں شمار کرتے رہے ہیں۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ اسلام کے اس ایک فعل نے مسلمانان ِ عالم کی ایک عجیب صورت بناکر ان کو قومی اور دُنیاوی ترقی سے خالی کردیا ہے ۔ بلکہ اسلام کی تبلیغی ترقی میں اس درجہ حارج (مزاحمت کرنے والا)ہے کہ بلاشبہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم صاف لفظوں میں اس کی خرابیوں کا اعادہ کریں‘‘
(ماہ مئی ۱۹۲۸ء)۔
’’اگر اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے ۔۔۔۔۔ تو کیوں ہم عربی قومی خصائص(خاصیت کی جمع ،عادات) کے لئے مثلاً ختنہ ، عقیقہ ،طواف کعبہ ، سعی صفاو مروہ امتناع لحم خنزیر احکام وراثت نکاح طلاق وازدواج ۔ بیع وشرا بلکہ ایک خاص طریقہ عبادت کے لئے (جو بالتخصیص عربی زبان میں ہو)مجبور کئے جاتے ہیں۔ اور بغیر ان کے ہم مسلمان نہیں سمجھے جاتے ۔ ظاہر ہے کہ دنیا کی دوسری قوموں کا بلحاظ آب و ہوا ،مزاج ،زبان، عادات، معاشرت وتمدن وغیرہ اختلاف رکھنا ایک فطری خاصہ ہے ۔۔۔پس اگر اسلام عربی قوم کے لئے مخصوص تھا تو اس کا دوسری قوم میں پھیلانا بے معنی ہے اور اگر پھیلا یاجائے تو اس کی اول شرط یہ ہونی چاہیے کہ ایسی قوم کو پہلے عربیت میں ڈھالنا چاہیے اور اس کے بعد ان کو مسلمان کرنا چاہیے ۔۔۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جو قومیں فطرتاً عرب کے عادات اختیار کرنے کے قابل نہ تھیں۔ خصوصاً جو سرد ملکوں مثلاً یورپ کے رہنے والی تھیں ان کو اسلام لانے میں ہمیشہ تکلف ہواا ور اسلام صرف ان ممالک میں پھیل کر رہ گیا جہاں تک عربوں کی تلوار اور سلطنت وسیع ہوئی ۔چنانچہ اہل شام ومصر وبرؔبر کو مجبوراً اپنا تمدن بدل کر مستعرب (وہ مشرقی جو مغر بی علوم کا جاننے والا ہو)قوم بننا پڑا۔ اور اہل ِ عجم نے اپنا قومی شعار زبان عربوں کے لئے نہ بدلی ۔ انہو ں نے شریعت کے قیود سے باہر ہوکر صوفیت کی بنا ڈالی ۔ اسلام کو اس خطرناک غلطی کا اس وقت تک پتہ نہ چلا ۔ جب تک عرب پر حکومت کا خمار تھا۔ مگر جب یہ خمار ٹوٹا تو اس کے ساتھ اسلام کا رشتہ ترقی بھی تار عنکبوت(مکڑی کے جالے) کی طرح ٹوٹ کر زمین پر گر پڑا اور اب یہ حالت ہے کہ اگر چہ اسلام متعدد قوموں میں پھیلا ہوا ہے اور وہ سب مل کر ایک قوم اسلام کے ماتحت ہیں۔ مگر سب حالت ِ انحطاط (تنزل،گھٹاؤ)میں پڑے ہوئے زندگی بسر کررہے ہیں‘‘۔
(رسالہ نگار لکھنو ماہ مئی ۱۹۲۸ء)۔
یہی صاحب پھر لکھتے ہیں کہ
’’ تمام وہ باتیں جن کا اثر ہر قوم وہر زمانے میں عام نہیں وہ سب مذہب کے فروغ ہیں اور اس میں احکامات دیوانی وفوجداری وجہاد ۔قومی مراسم بلکہ طریقہ عبادات بھی شامل ہیں۔ مذہب کی عملی پابندی کےلئے اگر ایک شریعت ضروری ہے تو ہم یہ چاہتے ہیں کہ اسلامی دنیا کے اندر ہر قوم وہرزمانہ میں ابو حنیفہ پیدا ہوا کریں جو اپنے ملکی حالات ومعاشرت کو پیش نظر رکھ کر اجتہاد(کوشش) کریں۔ مگر پہلی صدی ہجری کے آئمہ کے قیاسات کو مذہب کے عام اصولوں کے ساتھ دوامی (ہمیشہ رہنے والا)سمجھنا تبلیغ واشاعت کے لئے بہت برا ہے اور خود قوم اسلام کی دنیاوی ترقی کا سد باب ہے ۔ یہ ایسی غلطی ہے جس کا خمیازہ ہم نے اب تک اٹھایا ہے ۔ یورپ اور عرب کی نشست وبرخاست ولباس میں زمین وآسمان کا فرق ہے ۔ عرب اپنی مسجد میں زمین پر بیٹھ کرآسانی سے عبادت کرسکتا ہے ۔ مگر یورپ کرسی کا عادی ہے ۔ کیو ں نہ یورپ کا ابو حنیفہ عبادت کا طریقہ ان کی عادت کے موافق اجتہاد کرے۔یورپ کے ایک مشغول کاروباری سے کہو کہ وہ مغرب کے وقت جب کہ وہ اپنے کام سے راحت پاتا ہے ۔ یا ظہر کے وقت کوئی نماز ادا کرے اور اسی پر اس کے اسلام کا انحصار ہوتو وہ کیوں کر اسلام کو فطری مذہب مان سکتا ہے‘‘۔
(رسالہ نگار جون ۱۹۲۸ء)
مسلمانوں میں یہ احساس مدت سے ہے ۔ مثلاً ایک روشن خیال مسلمان مسٹر احمد نے اخبار پایونیر مطبوعہ ۱۴ نومبر ۱۹۰۸ءمیں لکھا تھا ۔
’’ میں نے ایشیا ، افریقہ ، یورپ کی اسلامی ریاستوں کی تاریخ بڑی احتیاط وتوجہ سے مطالعہ کیا ہے اور نیز انگریزی قوم کی تاریخ کا بھی۔ میں ہندستان میں پیدا ہوا اور یہیں پرورش پائی ۔اسلامی طبیعت کے رنگ ومیلان سے میں واقف ہوں اور جس نتیجہ پر میں پہنچا ہوں وہ یہ ہے اسلام میں تغیر کا خیال ہی ندارد(نیست ونابود ہونا ) ہے اور اس لئے ترقی کا جوہر بھی مفقود (معلوم نہ ہونا)ہے او ریہی باعث ہے ،کہ کوئی اسلامی قوم اس قابل نہ ہوئی کہ ترقی کی ایک حد معین تک پہنچ کر آگے قدم بڑھاسکے ۔ اسلام سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ہماری اس زندگی کے معاملات میں ہمارے طرز عمل کی ہدایت کے لئے جزئی اور تفصیلی قواعد بھی سکھلادے ۔ اسلامی سوسائٹی کی بنیاد اس خیال پر ہے کہ جو کچھ انسان کو درکار تھا سب ہمارے پاس موجود ہے ۔ جو کچھ ملنا تھا آسمان سے نازل ہوچکا ہے ۔ ہماری ساری شامتوں مصیبتوں کا باعث یہی ہے اور ہمارے زوال اور انحطا اور انجام کار نامرادی کا بھی یہی باعث ہے کہ ہم اپنے قوانین وانتظامات کو کامل تصور کر بیٹھے اور ناقابل تبدیل وترمیم ۔کتنی دفعہ ہم نے کوشش کی مگر قاصر رہے اس قانون کی نظر ثانی کرلیں ۔ جوسود لینے دینے کے خلاف ہے یا اس قانون کی جس کی بدولت مالک کے مرتے ہی جائداد کے تکے بوٹی لگ جاتے ہیں۔ انہیں وجوہ سے کثرت ازدواجی آج تک برقرار ہے اور غلامی بھی ، باندیوں کا بلانکاح حرم بنالینا بھی ۔او ریہ ہمارے معاشرتی انتظام کے گویا جزو اعظم بن گئے ہیں۔ شوہر کے اختیارات طلاق کے آگے کوئی روک نہیں مگر زوجہ کو مطلق حق نہیں کہ وہ جدائی کی طلبگار ہوسکے۔ مسلمانوں کو اس روپیہ پرسود مانگنا حرام جو قرض میں دیا گیا اس لئے دیگر ساری قومیں دولتمند ہوتی جاتی ہیں۔ حتیٰ کہ زرسراسر دیگر قوموں کے ہاتھوں میں آگیا۔ میں دلیری کے ساتھ علانیہ پکار کرکہے دیتا ہوں کہ ہرگز کوئی ترقی نہیں ہوسکتی تاوقت یہ کہ ہم یہ دیکھنے لگ جائیں کہ اصل الاصول اور ابدی دینی واخلاقی صداقتیں صرف وہی ہیں۔ جن کی تلقین مکہ شریف میں کی گئی تھی لیکن و ہ قوانین جو مدینہ النبی میں مقرر ہوئے تھے وہ صرف اہل ِعرب کے لئے موضوع تھے اور ابتدائی قرون اسلام کے لئے موضوع ہوئے تھے‘‘۔
مسٹر احمد کے اس خط کا جواب ۲۸ نومبر کے پایونیر میں ایک اور مسلمان مسٹر عسکری نے دیا۔ لیکن اس نے بھی انجام کار وہی بات کہی جو مسٹر احمد نے کہی تھی اور اپنے الفاظ میں یوں اداکی۔
’’ مذہبی اور اخلاقی صداقتیں اسلام کی اصل الاصول اور ابدی سچائیاں ہیں مگر اسلام میں جو قوانین اور معاشرتی نظامات ہیں جن کی نبی صاحب نے بیشتر اپنے زمانہ کے اہل عرب کی ہدایت کی خاطر تلقین کی تھی وہ قابل تبدیل ہیں‘‘۔
یہودی عالم ڈاکٹر مانٹی فیوری ہم کو بتاتا ہے کہ’’ یہودیت میں بھی بعینہ یہی دو عنصر تھے۔ یعنی خدا کی وحدانیت اور اخلاقی تعلیم ایک طرف اور قومی قیود مراسم دوسری طرف اور موخر الذکر امر اس مذہب کے عالمگیر ہونے میں سدِ راہ(مانع ہونا ،روک بننا) ثابت ہوا ‘‘۔اور یہی قومی قیود اسلام کو عالمگیر ہونے سے روکتے ہیں۔
(۵)
مولانا عبدالماجد بی ۔ اے مرحوم مولانا محمد علی کے اخبار’’ ہمدرد دہلی‘‘ میں بعنوان ’’ہماری بے بسی ‘‘ یہ سوال پوچھتے ہیں اور فرماتے ہیں
’’ ہم کو مذہبی آزادی ہندوستان میں حاصل ہے اس کا اندازہ روز مرہ کی چند مثالوں سے فرمائيے ۔ ہم میں سے ایک شخص حرامکاری کا مرتکب ہوتا ہے ۔ اس کے بعد وہ اپنے تئیں حد شرعی کے لئے پیش کرتا ہے کیا قانون وقت ہم کو اس کی اجازت دے گا کہ ہم اسے سنگسار کریں؟ ایک مسلمان چوری کرتا ہے ۔دوسرے مسلمان اس کا ہاتھ کاٹ ڈالنا چاہتے ہیں ۔ کیا اس اسلامی سزا دینے کے بعد وہ مسلمان خود سرکاری مجرم نہ قرار پاجائيں گے ؟ شراب کی آزادانہ تجارت اور آبکاری وافیون کے محکموں کومسلمانان ہند اگر توڑنا چاہیں تو ازروئے قانون توڑ سکتے ہیں‘‘۔
(۱۹فروری ۱۹۲۵ء)
کیا اس قسم کا اضطرار (بے قراری،بے اختیاری)اور بے چینی یہ ثابت نہیں کرتی کہ اسلامی قوانین عالمگیر نہیں ہیں۔ آج کونسی مہذب سلطنت زناکاری کی سزا سنگساری اور چوری کی سزا قطع ید سارق (ہاتھ کاٹ دینا)تجویز کرے گی ۔ یہ قوانین رسو ل عربی کے زمانہ کے اہل عرب کے لئے نہایت موزوں تھے۔ لیکن چونکہ وہ ابتدائی قرون اسلام کے لئے موضوع ہوئے تھے ۔ چودہ سو(۱۴۰۰) سال کے بعد دور ِ حاضرہ کے حالات پر ان کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔
(۶)
گذشتہ چند سالوں کے دوران میں ہندوستان کی مسلم اخبارات میں اس بات پر بڑی لے دے رہی ہے کہ مسلمان عورت کو یہ اجازت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ مذہب اسلام کوترک کرکے کوئی دوسرا مذہب اپنے نکاح کو فسخ(منسوخ کرنے ،ارادہ توڑنے) کرانے کی خاطر اختیار کرسکے ۔ بیچاری عورت ذات سے اسلام نے طلاق دینے کا حق پہلے ہی چھین رکھا تھا۔ پس اس کے لئے طلاق حاصل کرنے کے لئے ایک ہی راہ کھلی تھی کہ وہ ایسے مذہب کو ترک کرکے خاوند کی غلامی سے نجات پائے ۔ لیکن اب اہل اسلام نےشور وغل مچا کر حکومت ہند سے قانون پاس کرواکر عورت کے لئے یہ راہ ِفرار بھی بند کروادی ہے۔ اس قانون کے پاس کرانے کی جدوجہد کے سلسلہ میں مولوی محی الدین احمد صاحب بی ۔ اے۔ نے ایک مضمون رسالہ ’’پیام اسلام‘‘ جالندھر کے (جنوری ۱۹۳۵ء )نمبر میں لکھا ۔ اس میں مولوی صاحب موصوف لکھتے ہیں۔
’’آج کل تمام مسلم اخبارات میں عورتوں کے نکاح کو فسخ کرانے کے لئے تبدیل مذہب کرنے پر ایک بجا شور بپا (برپا)ہے ۔ اور اس فتنہ کو روکنے کے لئے مختلف تدابیر پیش کی جارہی ہیں۔ اس وقت سب سے زیادہ اجتماع آراء اس امر پر ہورہا ہے کہ حکومت انگریزی سے ایک خاص مسودہ قانون اس بارے میں منظور کرایا جائے جس سے اس فتنہ کا سد ِ باب ہوسکے ۔۔۔۔۔ یہ مسئلہ دراصل مسلمانوں کی موت وحیات کا مسئلہ ہے ‘‘۔
میرا ناقص خیال یہ ہے کہ جہاں تک تجویز کردہ راہ کی صحت کا تعلق ہے مجھے خوف ہے کہ یہ ع
کیں راہ کہ تومی روی بترکستان است کا مصداق ہے ۔
اگر ہم ایک مرض کا علاج کرتے ہوئے ایک دوسرے شدید تریں مرض کو خرید لیں۔تو اسے صحیح چارہ گری نہیں کہہ سکتے ۔ امت مسلمہ کا یہ متفقہ او ر متحد ہ فیصلہ ہے کہ ملت کو اپنی مذہبی تکالیف کے سلسلے میں جن کاتعلق ہمارے پرسنل لا(یعنی شریعت محمدی)سے ہو۔ خواہ وہ تکالیف کتنی ہی سنگین کیوں نہ ہوں۔حکومت کا دروازہ کھٹکھٹانا اور بذریعہ قانون رائج الوقت اس کی چارہ گری کی سعی کرنا نہ صرف انتہا درجہ کی حمیت(غیرت) دشمنی بلکہ شدید تریں نتائج سیئہ کا باعث ہے ۔ اس لئے یہ راہ کبھی اختیار نہیں کرنی چاہیے ۔ چنانچہ جن لوگوں کے دلوں میں شارد ا ایکٹ کی یاد ابھی تازہ ہے ۔ انہیں ضرور یہ بھی یاد ہوگا ۔ کہ علمائے کرام کی ایک جماعت کثیر شاردا ایکٹ کو مصالح ملیہ(قومی نیکی) کے لئے مفید سمجھنے کے باوجود اسے قبول کرنے سے انکار کرتی تھی۔ مجھے معاف کیا جائے ۔ اگر میں یہ عرض کروں کہ موجودہ مسئلہ میں حکومت سے ایک قانون بنانے کا مطالبہ بھی ایسا ہی مطالبہ ہے جو اپنے نتائج کی دور رسی کے لحاظ سے کہیں زیادہ وسیع او رکہیں زیادہ خطرناک ہے ۔ اس لئے اس مطالبہ سے جس قدر بھی جلدی ہم لوگ دست بردار ہوجائیں اسی قدر بہتر ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔ ۔>
ایک مسلمان کو مسلمان ہوتے ہوئے اپنے عوارض (عارضہ کی جمع،پیش آنے والی چیزیں ،مرض ،دکھ ،بیماریاں)کے لئے صرف کتاب وسنت ہی کے دروازہ کھٹکھٹانے کی ضرورت ہے ۔
لیکن آج ہماری سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ مسلمانوں کا ایک بہت بڑا فریق اس راہ سے بہت دور جا پڑا ہے ۔ اس کے نزدیک فکرو اجتہاد کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند ہوچکا ہے ضروریات ِ حاضرہ کے پیش نظر فقہ جدید کی تدوین یک طرف ۔ ان حضرات کے عقیدہ میں قدیم فقہوں میں عندالضرورت ترمیم وتنسیخ (ردوبدل )یا حک(کھرچنا،مٹانا) واضافہ کا خیال بھی گناہ ِ عظیم ہے ۔ اور معاملہ یہی تک ختم نہیں ہوجاتا ۔ بلکہ اس گروہ کے خیال میں قول
راحج دیکھنے کا حق بھی بجز چند نہایت ہی مخصوص صورتوں کے اس بدنصیب امت کو حاصل نہیں اور اس چار دیواری سے باہر قدم رکھنا ہی جو فقہائے متاخرین کی چند کتابوں کو چن کر بنادی گئی ہے ۔ ناقابل معانی جرم ہے ۔۔۔۔۔۔۔نتیجہ یہ ہوا کہ خدا کی یہ شریف ولطیف مخلوق یعنی عورت ۔تمام جائز اور فطری حقوق سے یکسر محروم ہوگئی ۔ ابتدا زمانہ میں فقہائے متاخرین کے فیصلے اصلی مرکز سے اور زيادہ دور جا پڑے ۔ ہندوستان میں ہندولااور ہندو رسوم وآئین کی پیدا کردہ فضانے عورت کی اس مظلومیت کو اور زیادہ کردیا اور عورت حقوق ِ وراثت تک سے جو مذاہب کی تاريخ میں اسلام کی مخصوص اور مستثنیٰ خصوصیت تھی محروم ہوگئی ۔ اور اب عہد حاضرہ کے جمود (جم جانا)دماغی نے اسے ایک لاعلاج مر ض کی شکل دے دی ہے ۔ موجودہ عدالتوں میں مسلمانوں کے پرسنل لاء کی ساری متاع متاخرین فقہا کی چند کتابیں ہی رہ گئی ہیں۔ اس لئے وہ بھی عورت کو روز افزوں تکالیف کا علاج کرنے سے قطعاً قاصر ہیں۔
پس عورت جب اپنے آپ کو مرد کے ظالمانہ پنجوں میں اس قدر مجبور محصور (مقید)پاتی ہے تو وہ اپنی مخلصی کے لئے سایہ عاطفت(مہربانی) محمدی چھوڑ کر دوسرے گوشوں میں پناہ لیتی ہے اور کون کہہ سکتا ہے کہ یہ تدبیر (فسخ نکاح کے لئے تبدیل مذہب )بھی کتب فقہ کے باب الحیل میں سے ایک انتخاب کردہ حیلہ نہیں؟
پس میں پورے ادب اور پورے زور کے ساتھ عرض کروں گا کہ اس فتنہ کی روک تھام کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ حکومت وقت کے پاؤں پڑکرایک قانون بنوالیا جائے ۔ اول تو علمائے کرام کی طرف سے ایسا مطالبہ شریعت کا ملہ اسلامیہ کی توہین ہے ۔ کیونکہ یہ مطالبہ نئے قانون کا مطالبہ نہ ہوگا بلکہ یہ شریعت حقہ اسلامیہ کے نقص وخامی کاکھلا ہوا اعتراف ہوگا۔ دوسرے شریعت ِ اسلامی کبھی گوارا نہیں کرسکتی کہ آپ اپنی ضرورتوں کے لئے دوسروں کا دروازہ کھٹکھٹائیں تیسرے اسمبلی میں جو قانون بھی مرتب ہوکر منظور ہوگا۔ اس کی بنیاد کچھ نہ کچھ ضرور مغربی اصولوں پر رکھی جائے گی ۔ جو ہمارے لئے مفید نہ ہوگی ۔نیز ایسا قانون بنواکر آپ فتنہ کا ایسا باب کھول دیں گے جو ہزاروں ایسی برائیوں کو پیدا کرنےو الا اور امت مسلمہ کے وجود ِ ناتواں کے لئے بمنزلہ ناسور کے ثابت ہوگا۔ خدارا آپ تھوڑی دیر کے لئے غور کریں کہ اگر آپ کی یہ مشکل بغیر انگریزی حکومت کے تیار کردہ قانون کے حل ہو نہیں سکتی ۔ تو آپ کی اس قسم کی دوسری صدہامصیبتوں اور کشمکشوں کا کیا بنے گا جو وجود ِ ملت کو گھن کی طرح کھارہی ہیں؟ کیونکہ ایسی تمام صورتوں میں خدا اور رسول کا دیاہوا قانون آپ کے ہاتھوں بے کار ثابت ہورہا ہے ۔ کیا ایسے ہر مقام پر آپ اس خدائی قانون وشریعت کو چھوڑ کر حکومت سے قانون بنواتے چلے جائيں گے ۔ تاآنکہ شریعت بالکل ختم ہوجائے ۔۔۔۔
کیا آپ بھی ہندوؤں کی طرح حکومت ِ وقت سے استمداد(امداد طلب کرنا) حاصل کریں گے ۔ اور اس چیز کو عملاً تسلیم کریں گے کہ ہندو مذہب کی طرح آپ کی شریعت کا دامن بھی ان چیزوں سے خالی ہے ۔ غرض یہ کہ آپ کی مصیبتوں کا کبھی اورکہیں خاتمہ نہ ہوگا۔۔۔۔۔
فرض کرو کہ آپ ایسا قانون بنوانے میں کامیاب ہوگئے تو کیا آپ اس قانون کے ذریعہ مردوں کی بے راہ روی ۔ ان کی بے روک نفس پرستی اور ہوس ناک(لالچی) ۔ ان کے غیر محدود تفوق (فوقیت)وبرتری کے خلاف اسلام اعتقاد کو بھی روک سکیں گے ؟جس نے گھر کی چار دیواری کو عورت کے لئے خوف ناک قید خانہ بلکہ جہنم بنا رکھا ہے ۔ جس نے ہماری منزل زندگی کو بالکل تباہ وبرباد کر رکھاہے اور جس نے آج ہماری اجتماعی (سوشل)زندگی پر ایک گونہ موت طاری کر رکھی ہے ۔۔۔۔۔۔
میں کہتا ہوں کہ یہ فتنہ ان حالات کا قدرتی اور طبعی نتیجہ ہے جو آپ نے صدیوں میں اپنے گردوپیش جمع کر رکھے ہیں۔ یہ خدا کا وہ قانون انتقام ہے ۔ جو مسلمانوں کی اس بد اعمالی کی پاداش (بدلہ ،معاوضہ)میں جو وہ عورت کو اس کے تمام جائز فطری خدا کے بخشے ہوئے حقوق سے محروم کر دینے کی شکل میں کررہے ہیں اس عذاب الہٰی کی صورت میں نازل ہورہا ہے ۔۔۔۔۔
ضروریات ومقتضیات (تقاضا کیاگیا)معاشرتی ومعاشی کے پیش ِ نظر مرد کو کار فرمائی اور سربراہی کا اعزاز بخشا گیاتھا جو غصب ِ حقوق اور تظلم کی شکل اختیار کرگیا۔ بدنصیب مسلم عورت بدترین قسم کی لونڈی متصور ہونے لگی۔ مرد نے جہاں اپنی خود غرضانہ کام جویوں کے لئے اپنے اوپر تفریق اورتبدیلی کی تمام راہیں کھول رکھی ہیں۔ وہاں غریب عورت پر علیٰحدگی اور تفریق کے وہ تمام جائز اور فطری دروازے بھی بند کردئے ہیں۔ جو اسلام نے اس پر کھولے تھے۔ عورت جب اپنے منزلی حالات سے مجبور ہوکر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہے تو وہ قانون بھی جو عدالت انگریزی کے اندر پرسنل لاء کہلا تا ہے اس کی دستگیری سے قاصر رہتا ہے ۔لامحالہ (ناچار،یقیناً)اسے دوسری راہوں کی تلاش کرنی پڑتی ہے ۔ پس یہ خدا کے اٹل قانون انتقام کے عین مطابق ہے ۔ جو ہمیشہ مختلف حالات میں نسل ِ انسانی پر اس کی بد اعمالیوں کے مطابق مختلف شکلوں میں نازل ہوا ہے ۔
میں یہ پوچھتا ہوں کہ جب آپ عورت پرنا موافق مصاحبت (ساتھ اُٹھنے بیٹھنے)سے مخلصی اور نجات کی تمام راہیں بند کرتے ہیں تو کیا نیت کی ایک قید لگاکر آپ اس پر اسلام کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بندنہیں کررہے ؟ موجودہ صورت میں کم از کم پچاس (۵۰)ساٹھ(۶۰) فی صد کیسز ضرور ایسے ہیں جو اس حیلہ سے طلاق حاصل کرنے کے لئے بعد اسلام کی مقدّس آغوش میں پھر واپس آجاتے ہیں۔لیکن جب آپ کے مطالبہ کے مطابق نیت ہی مدار ِ فیصلہ قرار پائے گی تو ایسے پچاس (۵۰)فیصدی کیسز کی واپسی بھی نا ممکن ہوجائے گی ۔ یہ فطرت کی وہی بغاوت ہوگی۔ جس پر آپ اسے ضرورت سے زاید (زیادہ )دباکر باکرہ(کنواری لڑکی) مجبور کرینگے۔۔۔۔
وہ حقوق جو مرد نے ازراہِ جبر وتشدد غصب کردئیے ہیں عورت کو واپس دلائیں۔ ناموافق اور ناساز گار ازدواجی زندگی کی صورت میں عورت پر سابقہ پیوند سے مخلصی اور نجات اور آئندہ آزادانہ حق انتخاب کی تمام راہیں کھول دینی چاہئیں۔ علمائے اسلام کو نہایت آزادی کے ساتھ متفقہ طور پر اس امر کا اعلان کرنا چاہیے کہ آئندہ کے لئے نکاح وطلاق وغیرہ معاملات میں ان کا مدار عمل فقہ کی وہ چند کہنہ جزئیات نہ ہوں گی جو اسلام کی دعوت کے کئی سوسال بعد بعض مخصوص حالات کے ماتحت چند دماغوں نے ترتیب دے دیں۔ اور جنہیں آج وقت ومتقصنیات ِوقت نے بالکل بے کار بلکہ مضر ثابت کردیا ہے ۔
(۷)
سید مقبول احمد صاحب ۔ مولانا عبدالماجد صاحب اور مولوی محی الدین صاحب جیسے اصحاب کی ذہنیت کو مدنظر رکھ کر لکھتے ہیں:
’’جناب محمد ﷺ حضرت موسٰؑی کی طرح ایک طرف حامل ِ اسلام تھے تو دوسری طرف وہ عرب قوم کے صاحب ِ شریعت وامر بھی تھے۔ جوقرآن ان کو دیا گیا اس کا ایک حصہ اگر مذہب اسلام کے عالمگیر معرفت اعتقاد سے مخصوص تھا تو دوسرا حصہ ملت عرب کے احیاء دنیوی کےلئے مگر ہم نے کبھی اس پر غور نہ کیا کہ ایک کا مخاطب تمام عالم ہے اور دوسرے کاصرف اس زمانہ کے عرب ۔یعنی اس کا ایک حصہ ازلی وانتہائی پہلو لئے ہوئے تھا۔ جس میں عبادت حق ،خدمت حق تزکیہ نفس ،اعتقاد توحید ومعاد پر مشتمل تھا او ر دوسرا حصہ زمانی ومکانی یعنی وقتی وعرب کے لئے مخصوص تھا۔ جس میں طہارت ِ جسم ولباس ۔معاشرت کے بعض اصول مثلاً اذن لے کر دوسرے کے گھروں یا خلوت میں جانا۔ عورتوں کو بے حیائی کے ساتھ مردوں کے سامنے آنے کی ممانعت ، وراثت ، ازدواج وطلاق یا تعزیرات مثلاً قطع ید سارق وغیرہ کو محض بطور احسان مزید کے بتادیا اور نہ الہٰام درحقیقت ان معاملات کی تعلیم کے لئے مکلف(تکلیف دینے والا) نہیں‘‘۔
(رسالہ نگار ماہ مئی ۱۹۲۸ء)
حضرت نیاز مدیر رسالہ نگار فرماتےہیں۔
’’ ہر ترقی کرنے والے مذہب کی جان وسعتِ نظر وخیال ہے ۔ یعنی جب تک اس کی آغوش وسیع نہ ہوگی ترقی ممکن نہیں اور اس کی آغوش کی وسعت یہی ہے کہ شروط ِ مذہب کو آسان اور پابند یوں کوکم کیا جائے ۔نام ومقام وضع ولباس۔ معاشرت ومعیشت وغیرہ سب سے بے نیاز ہوکر اسلام کے دائرہ کو وسیع کرنا چاہیے‘‘ ۔
(رسالہ نگار مئی ۱۹۲۸ء)
پس روشن خیال مسلمان ہمارے اس دعویٰ کی تصدیق کرتے ہیں کہ قرآنی شرایع (شریعت کی جمع) ملک وقوم عرب سے مختص ہیں اور ان کا اطلاق دنیا کے دیگر ممالک پر نہیں ہوسکتا ۔ بالفاظ ِ دیگر قرآنی احکام اور اسلامی شریعت میں عالمگیر ہونے کی صلاحیت نہیں ہے ۔
فصل ہفتم
قرآن غیر مکمل کتاب ہے
ہم نے اپنی کتاب ’’ مسیحیت کی عالمگیری ‘‘ کے باب دوم میں مسیحیت کی جامعیت پر مفصل بحث کی ہے اور اپنی کتاب’’ کلمتہ الله کی تعلیم‘‘ میں شرح اوربسط (وضاحت )کے ساتھ انجیل جلیل کی تعلیم کے اصول پر نظر کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ مسیحیت ایک جامع مذہب ہے ۔ اور کلمتہ الله کے اصول کامل اور عالمگیر ہیں اور دنیا کےہر ملک وقوم کے رہنما ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
(۲)
اہل قرآن کے دعاوی
اس کے برعکس جب ہم قرآن شریف کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم پر ظاہر ہوجاتا ہے کہ وہ ایک غیر مکمل کتاب ہے ۔قرآن تو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ
وَ تَفۡصِیۡلَ کُلِّ شَیۡءٍ
’’ہر شے کی تفصیل ہے ‘‘
(یوسف آیت۱۱۱)
وَ کُلَّ شَیۡءٍ فَصَّلۡنٰہُ تَفۡصِیۡلًا
’’اس میں ہر ایک چیز کو ہم نے (خدا نے )کھول کر بیان کردیا ہے ‘‘
(بنی اسرائیل آیت ۱۲)
ہُوَ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ اِلَیۡکُمُ الۡکِتٰبَ مُفَصَّلًا
’’اسی نے (خدا نے ) تمہاری طرف (اے محمد) مفصل کتاب نازل کی ہے‘‘۔
(انعام آیت ۱۱۴)
وَ نَزَّلۡنَا عَلَیۡکَ الۡکِتٰبَ تِبۡیَانًا لِّکُلِّ شَیۡءٍ
’’وہ کتاب نازل کی جو ہرایک چیز کو بیان کردینے والی ہے‘‘۔
(نمل آیت ۸۹)
ان دعاوی کا مطلب صاف ہے کہ اس کتاب میں ہر شے کی تمام تشریحات اور تفصیلات موجود ہیں۔ لیکن مضامین کتاب ان دعاوی کی تصدیق نہیں کرتے۔ یہ ایک ایسی واضح حقیقت ہے کہ باستثنائے چند افراد تمام دُنیا کے مسلمان مانتے ہیں کہ
’’ قرآن شریف کو سمجھنے کے لئے ہم حدیث کے محتاج ہیں‘‘۔
(مقام حدیث صفحہ ۲۲)
اہل اسلام میں مٹھی بھر آدمی ہیں جو قرآن کی مذکورہ بالا آیات کو اپنی خوش فہمی کی وجہ سے حق سمجھتے ہیں اور کہتےہیں ’’ حدیث کی تشریح وتفصیل کتاب المجید کے سراسر خلاف ہے ۔۔۔۔۔ وہ ایک نہایت ہی کریہ النظر بد صورت ،زشت رُو۔ بدشکل مصنوعی چیز ہے اس کو رسول عربی سے کوئی تعلق نہیں۔ آپ کی وفات سے سینکڑوں برس پیچھے بعض خود غرض لوگوں نے از خود یہ ہزلیات (بیہودہ بات)گھڑ لیں اور سیاہ دلی سے ان کو ناحق محمد عربی کے ذمے لگادیا ہے ۔ یہ کام زیادہ تر بعض یہودی ونصاریٰ دشمنان اسلام کا معلوم ہوتاہے۔ جنہوں نے اسلام کی بیخ کنی کی یہ بہترین راہ سوچی کہ وہ مسلمانی کے لباس میں لوگوں کو قرآن حکیم کی طرف سے ہٹا کر اور طرف لگادیں‘‘
(مولوی عبدالله چکڑالوی درالزکوٰة والصدقات صفحہ ۱۲)۔
’’قرآن مجید جملہ احکام وتمام مسایل دین ِ اسلام کے بارے میں مباح (حلال)تک بھی ہر طرح کامل ،مکمل، مفصل مشرح کافی شافی وافی عافی ہے ‘‘۔
(مناظرہ مابین مولوی عبدالله چکڑالوی ومولوی ابراہیم سیالکوٹی صفحہ ۱۸)
’’اسلام کی ہر ایک چیز من کل الوجود مفصل ومشرح طور پر بیان کی گئی ہے تو اب وحی خفی یا حدیث کی کیا حاجت رہی بلک اس کا ماننا اور دین اسلام میں اس پر عمل درآمد کرنا سراسر کفر شرک ظلم فسق ہے ‘‘۔
(مناظرہ صفحہ۱۹)
’’ چونکہ یہ کتاب (قرآن)جامع تربیت جسمانی وایمانی ہے پس جو مسائل تکمیل تربیت ِ جسمانی وایمانی کے لئے ضروری اور لا بدی ہیں وہ سب کے سب قرآن مجید میں مشرح اور مفصل ہیں۔ مثلاً عبادت (مالیہ ،بدنیہ ، مرکبہ ، اعتقادیہ ، قولیہ ۔ عملیہ ۔ عموماً وخصوصاً )سب معاملات وفروع اعتقادیات وعملیات ِ وغیرہ وغیرہ ‘‘
(ترجمتہ القرآن بایات الفرقان مصنفہ مولوی عبدالله چکڑالوی جلد اول صفحہ ۳)
’’کلام الله جو حضور سرورِ کائنات ﷺ کی طرف وحی کیا گیا ایک ایسا مبین ومفصل دستور العمل (قاعدہ قانون،قانون کی کتاب)ہے جس کے ہوتے ہوئے کسی اور وحی کی مطلق ضرورت نہیں رہتی ‘‘۔
(دیباچہ برہان القرآن ،مناظرہ مابین مولوی ثناء الله اور مولوی احمد دین)
(۳)
قرآن غیر قرآن کا محتاج ہے
جس شخص نے قرآن کو سرسری نظر سے بھی دیکھاہے وہ جانتاہے کہ اہل قرآن کے یہ جملہ دعاوی کلیتہً غلط اور محض بے بنیاد ہیں ۔ چنانچہ خود علمائے اسلام نے صرف مثال کے طور پر چند ایک مسائل مرحوم مولوی عبدالله صاحب اور ان کےہم خیالوں کے پیش کئے اور پوچھا کہ بتلاؤ ان کا ذکر مفصل اور مشرح طور پر قرآن میں کہاں ہے ۔ مثلاً انہو ں نے دریافت کیاکہ نماز کے فریضہ کی تفصیل قرآن میں کہاں آئی ہے ۔ یعنی نماز کتنی دفعہ اور کس کس وقت پڑھنی چاہیے مختلف نمازوں کی رکعتوں کا تعین کیا ہے ۔ سجدوں کی تعداد کیا ہے ۔ تکبیر کہتے وقت کان پکڑنے کا حکم کہاں ہے وغیرہ وغیرہ ۔ لیکن صرف نماز کی تشریح کے مولوی عبدالله صاحب کو چار سو سے زائد صفحوں کی کتاب’’ برہان الفرقان علیٰ صلواة القرآن ‘‘لکھنے کی ضرورت لاحق ہوئی ۔ جس میں ایسے مضحکہ خیز دلائل دیئے گئے ہیں کہ اگر کوئی غیر مسلم دیتا تو یقینا ً یہ خیال کیا جاتا کہ وہ قرآن کی ہنسی کررہا ہے ۔مثلاً تکبیر کے وقت کان پکڑنے کی نسبت آپ نے قرآنی آیت
فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَ انۡحَرۡ (۲)
’’نماز پڑھ اپنے رب کی اور قربانی کر‘‘
(کوثر آیت ۲)
کو پیش کیا ۔ اس آیت کا ترجمہ یہ ہے ’’نماز پڑھ اپنے رب کی اور قربانی کر ‘‘ لیکن مولوی صاحب مرحوم اس کا یہ ترجمہ کرتے ہیں ’’تواپنے رب کی نماز پڑھا کر خاص کر (اپنے وجود کے)اونٹ (کان)کو ذبح (ذلیل وحقیر یعنی پکڑا)کر ہر تکبیر کے ساتھ‘‘۔
(تفسیر القرآن بایات الفرقان جلد سوم صفحہ ۴۵)
مرحوم کا مطلب یہ ہے کہ ’’ نحر ‘‘ اونٹ کی قربانی کو کہتےہیں مگر یہاں ذکر اونٹ کی قربانی کا نہیں بلکہ مراد اس اونٹ کی قربانی سے ہے جو انسان کے وجود میں ہے ۔ انسانی وجود کا یہ اونٹ انسان کاکان ہے کیونکہ جس طرح اونٹ سے فائدہ پہنچتا ہے اسی طرح کان سے بھی بہت نفع پہنچتا ہے ۔ اور کان کے ذبح کرنے سے مراد اس کا ذلیل کرنا یعنی پکڑنا ہے پس ثابت ہوگیاکہ نماز میں ہر تکبیر کے وقت کان پکڑنے کا حکم مفصل اور مشرح ہے ۔(صفحہ ۲۹۵ تا ۳۰۸) کیا کبھی کسی غیر مسلم نے قرآن کو کبھی اس طرح شکنجہ میں کھینچا ہے ؟
(۴)
مولاناثناء الله صاحب نے مولوی احمد الدین صاحب امرتسری سے مخاطب ہوکر بیت المقدس یروشلیم کے قبلہ ہونے کی متعلق آیت
وَ مَا جَعَلۡنَا الۡقِبۡلَۃَ الَّتِیۡ کُنۡتَ عَلَیۡہَاۤ
یعنی ’’ اے محمد جس قبلہ بیت المقدس پر تو تھا ہم نے اس کو اس لئے مقرر کیا تھا تاکہ تابعین کو غیر تابعین سے جداکردیں‘‘۔
(بقر آیت ۱۴۳)
پیش کرکے کہا
’’ مجھ ناقص العلم کو قرآن مجید میں ایسا کوئی فقرہ نہیں ملتا جس میں یہ حکم ہو کہ بیت المقدس کی طرف نماز پڑھو جس سے اس حکایت کا حکمی عنہ مل سکے ۔ آپ قرآن مجید میں ان احکام کی تلاش میں کامیاب ہوجائیں تو میں آپ کی اطلاع پہنچنے پر مشکور ہوں گا۔۔۔۔قرآن مجید میں کتے کی حرمت کے لئے کوئی خاص حکم نہیں۔ شاید آپ تلاش میں کامیاب ہوجائیں ‘‘۔
(برہان القرآن صفحہ ۹)
سوال اوّل کے جواب میں مولوی احمد الدین صاحب نے دانی ایل نبی کی کتاب کا حوالہ دیا جوقرآن میں نہیں ہے ۔ اور کتے کے حرام ہونے کے بارے میں ناظرین کی ضیافت طبع کے لئے ہم ان مولوی صاحب کی دلیل درج کرتے ہیں ’’خدا تعالیٰ نے حرمت کی دووجہیں بتائی ہیں۔ ایک رجس(پلیدگی) ہونا دوسرا فسق (نافرمانی ،گناہ)ہونا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔قرآن پاک کا یہ بیان صرف اسی صورت میں ثابت ہوسکتا ہے کہ اگر اہل کتاب فاسق(گنہگار ) ہوں اور شکاری جانور رجس سمجھے جائیں ۔ اہل کتاب کا فسق ثابت ہے۔ پس ا س سے شکاری جانوروں کا خود رجس ہونا بھی لازم آتا ہے ۔اور رجس کو خدا تعالیٰ نے حرام کیا ہے ۔ پس صرف ایک کُتا ہی حرام نہیں بلکہ تمام ذی ناب اور ذی مخلب حرام ہیں‘‘۔
( برہان القرآن صفحہ ۲۰۔۲۱)
(۵)
اسی طرح مرحوم مولوی عبدا لله صاحب سے کہا گیا کہ قرآن سے دکھلاؤ کہ گدھا حرام ہے ۔ اس پر آپ نے یہ دلیل سنائی ۔ ’’جو چیز رجس ہو یا فاسق وہ حرام ہے اور مطابق آیت
مَثَلُ الَّذِیۡنَ حُمِّلُوا التَّوۡرٰىۃَ ثُمَّ لَمۡ یَحۡمِلُوۡہَا کَمَثَلِ الۡحِمَارِ یَحۡمِلُ اَسۡفَارًا
’’یعنی ان کی مثال جن پر توریت لادی گئی پھر اسے انہوں نے نہ اٹھایا گدھے کی سی مثال ہے جو کتابیں اٹھاتا ہے ‘‘
(جمعہ آیت ۵)
کے گدھا بھی رجس میں داخل ہے کیونکہ مکذبین کتاب الله کو اس کے ساتھ تمثیل دی گئی ہے ‘‘( اشاعت القرآن صفحہ ۳۲)۔ لیکن اس آیہ شریفہ میں گدھے کو حرام نہیں بتلایا گیا بلکہ توارة شریف کے جھٹلانے والوں کو بوجھ اٹھانے کے لحاظ سے ایک گدھے سے تشبیہ دی گئی ہے۔ کیونکہ گدھے کا کام بوجھ اٹھانا ہے ۔ قرآن اپنی مثال کے لئے کس اور لادو جانور مثلاً اونٹ وغیرہ یا کسی انسان حمال وغیرہ کے ساتھ تشبیہ دے سکتا ہے ۔ اس لحاظ سے مرحوم مولوی صاحب کی دلیل کے مطابق اونٹ اور انسان حرام اور ناپاک ثابت ہوجاتے ! مولوی صاحب اپنی خود ساختہ تفسیر کے خیال میں ایسے مگن ہیں کہ وہ تاریخی حقیقت بھول گئے کہ یہ آیت مدنی ہے اور مسلمان فتح خیبر تک گدھے کا گوشت برابر کھاتے رہے۔ آپ کو اس بات کا بھی خیال نہ رہا کہ اگر گدھا رجس ہے تو اس کو چھونا ۔ گھر میں بطور پالتو جانور رکھنا ۔ اس پرسواری کرنا اس پر بوجھ لادنا سب حرام ہوئے بلکہ جو بوجھ از قسم اناج اشیائے خوردنی وغیرہ اس پر لادا جائے وہ بھی ناپاک ہوئے۔
مندرجہ بالا دلائل کو پڑھ کر جن کا علم منطق وفلسفہ سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ ہم کو غریب جماعت اہل قرآن کی بے بسی اور بیچارگی پرترس آتا ہے ۔ وہ قرآن کی حمایت میں اس کی آیات کوتوڑ مروڑ کر عقل سلیم کو پائمال کرتے ہیں تاکہ کسی نہ کسی طرح سے ان کے دل کی حسرت نکل آئے اور قرآن ایک کامل اور مفصل کتاب ثابت ہوجائے ۔ کیونکہ ان کے نزدیک
’’قرآن مجید کو مجمل (مختصر،خلاصہ)کہنا اس کو کلام ِ غیر الله ثابت کرنا ہے ‘‘۔
(ترجمتہ القرآن بآیات الفرقان مصنفہ مولوی عبدالله چکڑالوی جلد اول صفحہ ۲۱۰)
لیکن ع
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
(۶)
سرسید احمد نے مرحوم نے بھی کوشش کی کہ قرآن کو کامل کتاب سمجھیں ۔چنانچہ آپ فرماتے ہیں
’’ میں نے بقدر اپنی طاقت کے خود قرآن مجید پر غور کی اور چاہا کہ قرآن ہی سے سمجھنا چاہیے کہ اس کا نظم کن اصولوں پر واقع ہوا ہے اور جہاں تک میری طاقت میں تھا میں نے سمجھا اور میں نے پایا کہ جو اصول خود قرآن مجید سے نکلتے ہیں ان کے مطابق کوئی مخالفت علوم جدیدہ میں نہ اسلام سے ہے اور نہ قرآن سے ۔ پھر میں نے انہیں اصول پر ایک تفسیر قرآن مجید کی لکھنی شروع کی ‘‘۔
لیکن یہ کوشش نہ باور ہوسکتی تھی اور نہ ہوئی کیونکہ سرسید کے عقیدت منددوست مرحوم نواب الحسن الملک مولوی سید مہدی علی خاں کے الفاظ میں
’’ آپ نے قرآنی آیتوں کو ایسا ماؤل کردیا ہے کہ وہ تاویل ایسے درجے پر پہنچ گئی کہ اس پر تاویل کا لفظ بھی صادق نہیں ہوسکتا۔۔۔۔ نہ سیاق کلام نہ الفاظ قرآنی نہ محاورات عرب سے اس کی تائید ہوتی ہے ‘‘۔
(تحریر فی اصول التفسیر صفحہ ۳،صفحہ ۱۳ وغیرہ)
(۷)
انگریزی زبان میں ایک ضرب المثل ہے کہ جس جگہ فرشتے چلنے سے گریز کرتے ہیں وہاں بے وقوف کود پڑتے ہیں ۔ پس جائے حیرت نہیں کہ جس بات کو سرسید مرحوم جیسی زبردست ہستی نہ نباہ سکی وہاں مرزا غلا م احمدقادیانی جیسے خام خیال تحدی(لڑائی کرنا،للکارنا) کرنےسے نہ جھجکے ۔ یہ پُر لطف قصہ یوں ہے کہ ایک صاحب مولوی امام الدین نے یہ خیال پیش کیا تھا کہ قرآن بذات خود کامل کتاب نہیں ہے بلکہ مجمل ہے اور تفصیل وتشریح اور کامل ہونے کے لئے بائبل شریف کی محتاج ہے کیونکہ بائبل مقدس کے بہت سے احکام ایسے ہیں جو اس میں نہیں پائے جاتے ۔ اس پر آنجہانی مرزائے قادیانی نے بطور تحدی مولوی صاحب مرحوم کولکھا کہ
’’ آپ کے لئے یہ طریق بہتر ہے کہ چند پاک صداقتیں کسی پہلی کتاب کی جو آپ کے گمان میں قرآن میں نہیں پائی جاتیں اس عاجز کے سامنے پیش کریں پھر اگر یہ عاجز قرآن شریف سے وہ صداقتیں دکھلانے میں قاصر رہا تو آپ کا دعویٰ خود ثابت ہوجائے گا ‘‘۔
اس کے جواب میں مولوی امام الدین مرحوم نے صرف توریت مقدس کو سامنے رکھ کر مرزائے قادیانی کولکھا
’’امام الکتب والناس توریت مقدس کے ہر پانچ حصص میں شرائع منزل من الله بہت سی ایسی ہیں جن کی نسبت یقین کامل رکھتا ہوں کہ وہ قرآن عربی میں پائی نہیں جاتی ۔ازاں جملہ چند مسائل شرعیہ آپ کی درخواست پر ذیل میں لکھے جاتے ہیں :
(۱)جو کوئی شخص کسی ایسی عورت کے ساتھ وطی (جماع،صحبت)کرے کہ جس کے ساتھ وطی کرنی کسی طرح سے بھی جائزنہیں ہوسکتی مثلاً ماں۔ بہن وغیرہ سے تو ایسے شخص کی سزا کیا ہے ؟
(۲)جو شخص وطی فے الدبر(پشت،کسی چیز کا پچھلا حصہ،مقعد) کرے یا کروائے تو اس کی سزا کیا ہے ؟
(۳)جو کوئی مرد کسی حیوان سے وطی کرے تو اس کی سزا کیا ہے ؟
(۴)جو کوئی عورت کسی حیوان سے وطی کراوے تو اس کی سزا کیا ہے ؟
(۵)انسان کے جسم کے اعضا میں سے ایسے ایسے اعضا ء کون کون ہیں کہ جن کو دوسروں کی نظروں سے چھپانا چاہیے ؟
(۶)پانی کی مقدار ایسی کونسی ہے کہ جس میں اگر کوئی نجس شے پڑ جائے تو بھی پانی کو پلید نہ سمجھا جائے؟
(۷)ظروف گلی یا مسی یا چوبی وغیرہ اگر ناپاک ہوجاویں تو ان کے پاک کرنے کا طریقہ کیا ہے ؟
(۸)چا رپایوں میں سے مثلاً کتّا ،بلّا اور اونٹ، گھوڑا اور پرندوں میں سے مثلا ً چیل،کوا اورکونج اور بط اور حشرات الارض میں سے مثلاً چوہا اور گوہ اور جانوران آبی میں سے مثلاً مگر مچھ وغیرہ حلال ہیں یا حرام ؟
(۹)ذبح کرنے کا طریقہ کیا ہے ؟ یعنی کس طرح اورکس جگہ سے کس قدر کاٹا جائے؟ اور اگر تمام کاٹا جائے تو اس کے لئے کیا حکم ہے ؟
(۱۰)حیض کے دنوں کی تعداد بھی کچھ ہے یاکہ نہیں؟ تاکہ معلوم ہوکہ عورت حیض سے کتنے دنوں کے بعد پاک سمجھنی چاہیے ؟
(۱۱)نفاس(وہ خون جو عورت کو بچہ کی پیدائش کے بعد زیادہ سے زیادہ چالیس (۴۰) روز تک ٹپکتا ر ہے ) کے احکام اور اس کے دنوں کی تعداد کہ جن کے بعد عورت نجاست سے پاک ہوسکتی ہے کیا ہے ؟
(۱۲)ختنہ کرنا چاہیے یا نہیں؟ اور اگر کرناچاہیے تو کب اور کس موقع سے اور کس طرح سےکیا جائے؟
(۱۳)جو کوئی شخص خیانت کرے تو اس کی سزا کیا ہے ؟
(۱۴)زکوٰة نقد اور مویشی اور غلات (غلہ کی جمع،اناج)اور اثمار(ثمر کی جمع،پھل) کی کس کس وقت اور کس کس قدر ادا کرنی چاہیے ؟
(۱۵)کنجری کے نکاح کرنے سے جو بچہ پیدا ہو وہ خدا پاک کی جماعت میں داخل ہوسکتا ہے یا نہیں؟
اب متقضائے حمیت یہ ہے کہ مسائل مندرجہ صدر میں سے جوجو مسئلہ جس جس آیت قرآن عربی میں منصوص (قرآن کی وہ آیات جوقابل تاویل نہ ہو) ہو اس اس آیت نص (قرآن مجید کی وہ آئتیں جو صاف اور صریح ہوں)کو نقل کرکے بھیجیں ‘‘
(خط وکتابت با مرزا غلام احمد قادیانی صفحہ ۲۳تا۲۵)۔
جب مرزا صاحب کو یہ خط ملا تو بے اختیار نے زبانِ حال سے فرمایا ۔ جل تو جلال تو ۔ آئی بلا کو ٹال تو ۔ آپ نے اپنے فرشتے ٹیچی ٹیچی سے الہٰام پاکر بیماری کا عذر کرکے بات ٹال دی اور ۳۰ ستمبر ۱۸۸۹ء میں مولوی صاحب کو لکھا کہ انشاء الله میرا ارادہ ہے کہ براہین احمدیہ کے کسی محل پر آپ کا جواب الجواب لکھوں‘‘ ۔ مولوی صاحب مرحوم نے آٹھ(۸) برس انتظار کرکے ۲ نومبر ۱۸۹۷ءمیں پھر ایک لمبا چوڑا بیس(۲۰) صفحے کا خط مرزا جی کو لکھا لیکن آنجہانی نے ایسی چپ سادھ لی کہ مرگئے لیکن زبان نہ کھولی ۔ سچ ہے ۔ ایک چپ ہزار بلا کو ٹالتی ہے۔
کچھ ایسے سوئے ہیں سونے والے
کہ حشر تک جاگنا قسم ہے
(۸)
مندرجہ بالا سطور میں علمائے اسلام نے صرف وہ مسائل پیش کئے ہیں جن کاتعلق امور شرعیہ کے ساتھ ہے اور جن کی نسبت وہ خود تحدی(لڑائی کرنا،للکارنا) کے ساتھ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ قرآن میں درج نہیں ہیں۔ چونکہ اہل اسلام کا دل اور دماغ زیادہ تر شریعت کی سطح پر ہی رہتاہے لہٰذا ان علماء نے اپنی تحقیق کو شرعی امور تک ہی محدود رکھا، لیکن اگر وہ شریعت کی سطح سے بلندپروازی کرکے روحانیت کی جانب متوجہ ہوکر معرفت الہٰی کے اعلیٰ اصول کو قرآن میں تلاش کرنے کی زحمت اٹھاتے تو ان پر یہ اظہر من الشمس (روز روشن کی طرح عیاں )ہوجاتا کہ سارے کا سارا قرآن اعلیٰ اصولوں سے سرا سر خالی پڑا ہے ۔ قریباً ساٹھ (۶۰)سال کا عرصہ ہوا۔ مرحوم پادری جی ۔ ایل۔ ٹھاکر داس صاحب نے اپنے رسالہ ’’عدم ضرورت ِ قرآن‘‘ میں مفصل طور پرا س مضمون پر بحث کرکے علمائے اسلام کو چیلنج دیا تھاکہ قرآن کی وہ آیات پیش کریں جہاں ان روحانی اصول کاذکر ہے ۔ جو بائبل شریف میں موجود ہیں۔ چونکہ اس بحث کو طول دیناتحصیل حاصل ہے ۔لہٰذا ہم ناظرین کو اس کتاب کی جانب متوجہ کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ (یہ کتاب ہماری ویب سائٹ پر موجود ہے)
(۹)
حدیث قرآن کی کمی کو پورا نہیں کرسکتی
جب سے مولوی محمد علی صاحب ۔ ایم ۔ اے نے قادیان کی تاریک چار دیواری سے (جہاں علم وعقل کا دم گھٹتا ہے ) نکل کر لاہور کی علمی فضا میں سانس لینا شروع کیا ہے آپ نے اپنے پیر ’’حضرت اقدس مسیح موعود ۔ مہدی موعود حضرت مرزا غلام احمد قادیانی کرشن ثانی ‘‘ کی بعض باتوں اور فاسد(تباہ،بربادی) عقیدوں سے عملاً توبہ کرلی ہے ۔سطور بالا میں آنجہانی مرزا صاحب کے الفاظ درج کئے گئے ہیں جو یہ ظاہرکرتے ہیں کہ آپ کے خیال میں قرآن ایک مفصل اورکامل کتاب ہے جو غیر قرآن کی محتاج نہیں۔ لیکن مولوی محمد علی صاحب ایم ۔ اے اپنی کتاب’’ مقام حدیث ‘‘ میں دبی زبان سے اقرار کرتے ہیں کہ قرآن کامل کتاب نہیں (تیسرا باب) اور کہ قرآن غیر قرآن کا محتاج ہے او رکہتے ہیں
’’ کامل مکمل مفصل ومشرح کافی وافی عافی ‘‘
کتاب کیاکرتی ہے کہ جو اصل باتیں تفصیل کرنے کے قابل ہوتی ہیں انہی کو چھوڑدیتی ہے ؟ باستثنائے اہل قرآن تمام علمائے اسلام بھی اس بات کے قائل ہیں کہ قرآن غیر قرآن کا محتاج ہے چنانچہ
’’ حدیث معاذ وغیرہ کے مطابق اہل حدیث صاحبان بھی تسلیم کرتے ہیں کہ کسی فیصلہ کرنے کے لئے پہلے قرآن مجید سے حکم تلاش کرنے چاہئیں۔ اگر قرآن مجید میں نہ ملیں تو حدیث کے مطابق فیصلہ کرنا چاہیے اور اگر حدیث میں بھی اس کے متعلق احکام نہ ہوں تو اجتہاد رائے (فقہ اسلامی کی اصطلاح میں قرآن وحدیث اور اجماع پر قیاس کرکے شرعی مسائل کا اخذ کرنا ،غوروخوض سے کسی مسئلہ کا حل کرنا) کے اصول پر عمل کرنا لازم ‘‘
(برہان القرآن صفحہ ۴۰)الله اکبر ۔
چہ شکرہاست دریں شہر کہ قانع شدہ اند
شا ہباز ان طریقت بہ شکارے مگسے
پس باستثنائے چند افراد روئے زمین کے مسلمان یہ اقبال کرتے ہیں کہ قرآن شریف غیر قرآن کا محتاج ہے ۔اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ وہ ’’غیر قرآن‘‘ کیا شے ہے ؟اہل اسلام کہتے ہیں وہ حدیث ہے لیکن ساتھ ہی حدیثوں کے ایک بڑے حصے کو ناقابل اعتبار قرار دیتے ہیں ۔ اگر چہ اہل اسلام نے نہایت احتیاط کے ساتھ احادیث کی تنقید کی ہے اور اصول تنقید ۔ علم جرح (راوی کو بے اعتبار ثابت کرنا )اور تعدیل (اس کو قابل اعتبار ثابت کرنا )علم اسم الرجال (رُجل کی جمع ،بہت سے مرد)وغیرہ کو ترتیب دے کر نہایت جانفشانی کے ساتھ محنت شاقہ(سخت محنت ،دشوار محنت) کرکے جھوٹی اور سچی روایات اور احادیث میں تمیز کرنے کی کوشش کی ہے اور سب اس بات پر متفق ہیں کہ صحاح ستہ (حدیث کی چھ مستند کتابیں ۔بخاری،مسلم،ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ، نسائی)کے مجموعہ کی احادیث قابل اعتبار ہیں بالخصوص امام بخاری کے مجموعہ احادیث کو قرآن کے بعد اصح الکتب(درست ترین کتاب) قرار دے دیا ہے۔ لیکن لطف یہ ہے کہ جب غیر مسلم صحاح ستہ کی کتب اور امام بخاری کی سند پر احادیث کا حوالہ دےکر اسلام پر اور رسول عربی کی زندگی پر کوئی کتاب لکھتے ہیں تو ان کو ’’شاتم رسول ‘‘(رسول کو گالی دینے والا) کہہ کر قتل دیا جاتا ہے۔چنانچہ مرزا احمد سلطان صاحب نے اپنی کتاب’’ ہفوات المسلمین ‘‘ (تراہا بہرام خاں گلی مفتیاں ۔ دہلی) میں امام بخاری وغیرہ کی چند احادیث جمع کی ہیں۔ اپنی کتاب کے دیباچہ میں آپ لکھتے ہیں
’’ اہل سنت کی کوئی مذہبی کتاب ایسی نہیں جس میں خدا اور انبیاء اور رسل کی تفضیح (بے عزتی)نہ ہو اور سب سے زيادہ تفضیح حضور المرسلین وتقبیح امہات المومنین کی کتب اسلامی میں ہے۔۔۔۔تھوڑے تھوڑے رنگار نگ کے نمونے اس غرض سے پیش کئے جاتے ہیں کہ ہمارے غیور مسلمان ان روایات اوحادیث واہیہ وکا ذبہ(بے ہودہ اور جھوٹ) کوکتب ِ اسلامی سے خارج کریں‘‘
(ہفوات المسلمین صفحہ ۲)
سچ تو یہ ہے کہ غیور مسلمان تویک جارہے ہر سلیم ذوق والا انسان امام بخاری وغیرہم کی بعض احادیث کو پڑھ کر شرم کے مارے سرجھکائے بغیر نہیں رہ سکتا۔ خود راقم الحروف کو اپنی کتاب ’’محمد عربی‘‘ کو تالیف کرتے وقت امام بخاری کے مجموعہ کو بغور مطالعہ کرنے کا ناگوار اتفاق ہوا تھا۔ پس کتبِ احادیث خواہ وہ بخاری کی اصح الکتب ہی کیوں نہ ہو بمصداق ع
اور خود گمراہ ست کرارہبری کند۔
اس قابل نہیں کہ ان پر ایمانیات کے بارے میں کلی اعتماد کیا جاسکے ۔ اسی بناء پر اہل قرآن اور ان کے ہم خیال اصحاب یہ گوارا نہیں کرتے کہ قرآن جیسی کتاب کو احادیث کا محتاج گردانا جائے وہ کہتے ہیں کہ
’’ خدا نے قرآن کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے اور اس حفاظت کو قرآن مجید کی صداقت کی دلیل بنایاگیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اب اگر حدیثیں بھی اس ذمہ میں داخل ہیں یا اگر قرآن مجید کی طرح بحفاظت تمام ہم تک نہیں پہنچیں اور جو پہنچی ہیں ان میں رسول ِ خدا یا صحابہ کے وقت کا کوئی نوشتہ موجود نہیں جو اہل اسلام کے ہاتھوں میں متداول رہاہو۔ بلکہ وہ سب شہادت درشہادت درشہادت (کہاں تک لکھا جائے )۔کے طور پر آئی ہیں اور یوں وہ ظنی ہوگئی ہیں وہ غریب وضعیف بھی بن گئی ہیں بلکہ ان میں ترغیب وترہیب کے لئے جھوٹ بھی ملا یا گیا ہے بلکہ مختلف فرقوں نے اپنی اپنی اغراض کے لئے مختلف بھی بنالی ہیں اور ان میں موضوع حدیثیں ہی نہیں بلکہ موضوع آیات بھی بناکر شامل کی گئی ہیں تو اس سے صاف کھل جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے حدیث کو اپنی حفاظت سے نکال دیا ہے ‘‘۔
(برہان القرآن صفحہ۸۲۔۸۳)
(۱۰)
حقیقت تو یہ ہے کہ اہل اسلام نے احادیث کے جمع کرنے اور ان سے سند لینے میں اہل یہود کی پیروی کی اور ان کی دیکھا دیکھی یہ کتب بنائیں۔پس احادیث اور دیگر کتب فقہ یہودیت کی مرہون احسان ہیں۔ جو درجہ اہل یہود کے نزدیک کتب طالمود کا ہے وہی درجہ اہل اسلام کے نزدیک کتب احادیث کا ہے ۔ اہل اسلام نے اہل یہود سے راویوں کا سلسلہ وغیرہ قائم کرنا سیکھا۔ چنانچہ اہل یہود میں راویوں سے یوں سند لی جاتی تھی ’’ ربی الف نے کہا کہ اس نے ربی ب کو یوں کہتے سناکہ ‘‘ وغیرہ و غیرہ۔ جس طرح اہل یہود اپنی کتب روایات کو کلام ربانی سے مانتے ہیں اسی طرح اہل اسلام اپنی کتب احادیث کو وحی خفی(پوشیدہ،باریک) مانتے ہیں اور یہ عقیدہ انہوں نے یہودیت سے ہی سیکھا ہے کہ اگر تم دونوں مذاہب کی کتب روایات کا مقابلہ کرو تو تم دیکھو گے دونوں کی کتب روایات کےعنوانات تک یکساں ہیں۔ یہودیت میں کتب فقہ بھی ہیں جو ’’حلقہ ‘‘ کے نام سے موسوم ہیں۔ اسلامی کتب فقہ انہی کتب حلقہ کے سانچے میں ڈھالی ہوئی ہیں۔ اور تم کو بصد مشکل فقہ کا کوئی ایسا مسئلہ ملے گا جو یہودی ’’حلقہ ‘‘ کا مرہون منت نہ ہو۔
(۱۱)
قرآن بائبل کا محتاج ہے
مذکورہ بالا بحث سے دو باتیں ظاہر ہیں۔ اول یہ کہ قرآن ایک غیر مکمل کتاب ہے اور ضرور غیر قرآن کی محتاج ہے ۔ اور دوم یہ کہ احادیث کا مجموعہ اس قابل نہیں کہ قرآن کے اس نقص کو رفع کرسکے ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اہل اسلام کے لئے اس مخمصہ (جھگڑا،بکھیڑا)میں سے نکلنے کی کوئی راہ ہے یا نہیں ؟
جواباً عرض ہے کہ قرآن خود اپنے مجمل اور غیر مکمل ہونے کے نقص کو پورا کرنے کی راہ بتلاتا ہے اور چونکہ مسلمانوں نے اس راہ سے غفلت اختیار کرلی لہٰذا وہ صحیح راہ سے کوسوں دوربھٹک گئے ۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ قرآن مجید نے خود اپنی کمی محسوس کرکے آپ اس نقص کو دور کرنے کااصول بھی قائم کردیا۔ چنانچہ ملاحظہ ہو۔
فَاِنۡ کُنۡتَ فِیۡ شَکٍّ مِّمَّاۤ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکَ فَسۡـَٔلِ الَّذِیۡنَ یَقۡرَءُوۡنَ الۡکِتٰبَ مِنۡ قَبۡلِکَ ۚ
’’یعنی (اے محمد )اگر تجھ کو اس چیز میں جو ہم نے تیری طرف اتاری کچھ شک ہو تو ان لوگوں سے پوچھ لیاکرو جو بائبل کو تجھ سے پہلے پڑھا کرتے ہیں‘‘
(یونس آیت۹۴)
پھر کتاب مقدس کے انبیاء کا تذکرہ کرکے فرمایا ۔
ہَدَی اللّٰہُ فَبِہُدٰىہُمُ اقۡتَدِہۡ
’’ یہ وہ لوگ ہیں جن کو الله نےہدایت بخشی ۔ پس ان ہدایت کی پیروی کر ‘‘
(انعام آیت ۹۰)
چنانچہ رسول عربی اس حکم پر عمل بھی کرتے رہے
قُلۡ فَاۡتُوۡا بِکِتٰبٍ مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ ہُوَ اَہۡدٰی مِنۡہُمَاۤ اَتَّبِعۡہُ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ (۴۹)
’’کہہ دو کہ اگر سچے ہو تو تم خدا کے پاس سے کوئی کتاب لے آؤ جو ان دونوں (کتابوں) سے بڑھ کر ہدایت کرنے والی ہو تاکہ میں بھی اسی کی پیروی کروں ‘‘
(سورہ قصص آیت ۴۹)
پھر جو حکم الله نے آنحضرت کو دیا وہی سب مسلمانوں کو دیا اور فرمایا
فَسۡـَٔلُوۡۤا اَہۡلَ الذِّکۡرِ اِنۡ کُنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ (ۙ۴۳)
’’اے مسلمانو اگر تم کو کسی شے کا علم نہ ہو تو بائبل والوں سے دریافت کرلیاکرو‘‘۔
(سورہ النحل ۴۳)
مذکورہ بالاآیات سے ظاہر ہے۔ کہ خود رسول عربی قرآنی مشکلات کو قرآنی آیات سے حل نہ کرسکے اور آپ کو حکم ہوا کہ جب اس قسم کی مشکل آپڑے تو بائبل مقدس کی مدد لیاکرو اور آنحضرت اس حکم پر چلتے بھی رہے ۔ اور مسلمانوں کو بھی یہی حکم ہواکہ تم کو بھی جب کسی مسئلہ کی نسبت علم نہ ہو تو بائبل شریف کی طرف رجوع کیاکرو۔لیکن اہل اسلام کے علماء نے ان کو اس سیدھے رستے اور الہٰی حکم اور سنت ِنبوی سے ورغلا دیا اور الہیٰ حکم کو بمصداق وراء ظھور ہمہ پس پشت پھینک دیا او رکہا کہ تم قرآن کا حل قرآن میں ڈھونڈو یاکہہ دیاکہ تم بائبل کی بجائے حدیث رسول کی جانب رجوع کیا کرو۔ اور یہ بھول گئے کہ جب حضرت خود قرآنی مشکلات کوقرآن سے حل نہ کرسکے تو ماوشما کیوں کر کرسکیں گے اور جب رسول آپ اپنی زندگی میں یہ مرحلہ پورا نہ کرسکے تو اب حدیث رسول کس طرح اس کٹھن منزل کو طے کرسکے گی بالخصوص جب حدیث کا حال وہ ہے جو اوپر بیان ہو چکا ہے؟
اگر علمائے اسلام اس الہٰی حکم اور سنت نبوی کومحکم پکڑلیتے تو ان پر یہ ظاہر ہوجاتا کہ تمام مسائل شرعیہ جن کو وہ کتب احادیث وکتب فقہ میں تلاش کرنے میں حیران وسرگرداں(حیران وپریشان) رہتے ہیں۔ توریت مقدس میں موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے توریت کی نسبت کہا
ثُمَّ اٰتَیۡنَا مُوۡسَی الۡکِتٰبَ تَمَامًا عَلَی الَّذِیۡۤ اَحۡسَنَ وَ تَفۡصِیۡلًا لِّکُلِّ شَیۡءٍ وَّ ہُدًی وَّ رَحۡمَۃً لَّعَلَّہُمۡ بِلِقَآءِ رَبِّہِمۡ یُؤۡمِنُوۡنَ (۱۵۴)
’’ ہم نے موسیٰ کو کتاب دی جو نیکوکاروں کے لئے پورا فضل ہے جس میں ہر ایک بات کےلئے تفصیل ہے ۔ وہ ہدایت اور رحمت ہے ‘‘ (سورہ انعام آیت ۱۵۴)
امور شرعیہ جو بالتفصیل توریت میں مندرج ہیں قرآن کے مجمل احکام کو پورا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ روحانیت کے تمام اصول جن کا ذکر قرآن میں نہیں ہے کتب انبیائے سابقین میں پائے جاتے ہیں۔ کیونکہ قرآن کا یہ منشا ء ہی نہ تھا کہ اہل اسلام بائبل شریف کی تلاوت کو ترک کردیں اور صرف اسی کو پڑھیں ۔ بلکہ قرآن کا یہ منشا تھا اور واجبات میں سے تھا کہ جس طرح مسیحی انجیل جلیل کے ساتھ ساتھ انبیائے سابقین کی کتب کی تلاوت کرتے ہیں اسی طرح مسلمان ایمانداربھی قرآن شریف کے ساتھ ساتھ توریت مقدس کتب انبیائے سابقین اور انجیل جلیل کی تلاوت جاری رکھیں ۔ چنانچہ قرآن کہتا ہے
تُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡکِتٰبِ کُلِّہٖ
’’ اے مسلمانوں تم (وہ ہو جو)تمام کی تمام کی تمام بائبل پر ایمان لاتے ہو‘‘
(سورہ آل عمران آیت ۱۱۹)
لیکن احکام الہٰی کی ضد میں اور منشائے قرآنی اور سنت نبوی کے خلاف علمائے اسلام کہتے ہیں
نُؤۡمِنُ بِمَاۤ اُنۡزِلَ عَلَیۡنَا وَ یَکۡفُرُوۡنَ بِمَا وَرَآءَہٗ
’’ہم صرف قرآن پرایمان لاتے ہیں جو ہم پر نازل ہوا۔ اور اس کے علاوہ جو نازل ہوااس کو نہیں مانتے حالانکہ وہ حق ہے ‘‘۔
(سورہ بقرآیت۹۱)
خدا ایسے ہی نا فرمانبردار لوگوں کو مخاطب کرکے ڈراتا اور کہتا ہے ۔
اَفَتُؤۡمِنُوۡنَ بِبَعۡضِ الۡکِتٰبِ وَ تَکۡفُرُوۡنَ بِبَعۡضٍ ۚ فَمَا جَزَآءُ مَنۡ یَّفۡعَلُ ذٰلِکَ مِنۡکُمۡ اِلَّا خِزۡیٌ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ وَ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ یُرَدُّوۡنَ اِلٰۤی اَشَدِّ الۡعَذَابِ
’’ تم جو خدا کی کتابوں کے ایک حصہ کو مانتے ہو اور کچھ حصے کا انکار کرتے ہو جو شخص تم میں ایسا کرے گا اس کا بدلہ سوائے اس کے کیا ہے کہ اس دنیا میں اس رسوائی ہو اور قیامت میں بڑے عذاب کی طرف لوٹا یا جائے ‘‘۔
(سورہ بقرآیت۸۵)
علمائے اسلام نے الہٰی حکم اور تعذیب (دکھ دینا،عذاب کرنا)سے روگردانی کرنے کےلئے یہ حیلہ تراشا ہے کہ بائبل مقدس محرف (تحریف کیاگیا ، بدلہ گیا) ہوگئی ہے ۔ اس کے جواب میں ہم قرآنی آیت کے الفاظ میں یہ کہتے ہیں کہ
قُلۡ بِئۡسَمَا یَاۡمُرُکُمۡ بِہٖۤ اِیۡمَانُکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ
’’ تو کہہ دے اگر تمہارا یہی ایمان ہے اور تم ہی ایماندار ہو تو تمہارا ایمان تم کو برا سکھاتا ہے ‘‘
(سورہ بقر آیت ۹۳)
ہم نے تحریف کےمسئلہ پر ایک مستقل رسالہ ’’صحت کتب مقدسہ ‘‘ لکھاہے جس میں ہم نے تفصیل کے ساتھ یہ ثابت کردیا ہے ۔ کہ یہ من گھڑت الزام سراسر غلط بے بنیاد اور خلاف واقعہ ہے ہم نے بحکم
وَ زِنُوۡا بِالۡقِسۡطَاسِ الۡمُسۡتَقِیۡمِ
’’ سیدھی ترازو میں تولو‘‘
(سورہ بنی اسرائيل ۲۷)
کتاب مقدس اور قرآن شریف کی صحت کا موازنہ بھی کیا ہے۔ لہٰذا ہم یہاں اس بحث میں نہیں الجھتے بلکہ ناظرین کی توجہ اس کتاب کی جانب مبذول کرنے پر اکتفا کرتے ہیں اور قرآنی الفاظ میں مسلمانوں کو ببانگ دہل (ڈر اور خوف سے صدا یاآواز دینا)دعوت دیتے ہیں۔ یا اہل الاسلام
تَعَالَوۡا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآءٍۢ بَیۡنَنَا وَ بَیۡنَکُمۡ
’’اے مسلمانو! ایسی بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے ‘‘
(سورہ آل عمران آیت ۶۴)
کتاب مقدس ہی صرف ایک شے ہے جو یہودیوں عیسائيوں اور مسلمانوں میں یکسا ں ہے ۔
وَ اِنَّہٗ لَفِیۡ زُبُرِ الۡاَوَّلِیۡنَ (۱۹۶)
’’ بیشک یہ قرآن اگلے پیغمبروں کی کتابوں میں مذکور ہے‘‘
(سورہ شعراءآیت ۱۹۶)
قُوۡلُوۡۤا اٰمَنَّا بِالَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡنَا وَ اُنۡزِلَ اِلَیۡکُمۡ وَ اِلٰـہُنَا وَ اِلٰـہُکُمۡ وَاحِدٌ
’’ تم کہو کہ اے یہوداور عیسائیو ہم قرآن پر بھی ایمان لاتے ہیں جو ہم پر اترا اور ان کتابوں پر بھی جو تم پر اتریں اور ہمارا خدا اور تمہارا خدا ایک ہی خدا ہے‘‘
(سورہ عنکبوت آیت ۴۶)
پس اہل اسلام کو اسی عالم گیرکتاب کی طرف دعوت دیتے ہیں تاکہ وہ الہٰی احکام قرآنی آیات اور سنت نبوی کے موافق اس پر عمل کرکے نجات حاصل کریں ۔
وما علینا الا البلاغ۔
من آنچہ شرطِ بلاغ است باتومیگو ئم
تو خواہ از سخنم پند گیر خواہ ملال
ختم شدہ