WAS MUHAMMAD A SINNER?

By

The Late Allama G.L.Thakurr Dass

ذنوبِ محمدیہ

تصنیف

علامہ جی ایل ٹھاکر داس

بجواب ِ خیالات مرزا غلام احمد قادیانی



Rev.G.L.Thakurr Dass

1852-1910


ذنوبِ محمدیہ

مرقومہ علامہ جی ایل ٹھاکر داس

سورہ محمد کی آیت ۱۹ میں حضرت محمد ﷺ کو یہ ہدایت کی گئی ہے وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ یعنی بخشش مانگ اپنے گناہ کے واسطے ه(گناہ) ایمان والو ں کے ۔ اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ خدا کے سامنے حضرت محمدﷺ اور اس کے مومن یکساں گنہگار بخشش کے محتاج ہیں۔

مگر مرزا غلام احمد قادیانی نے اس آیت میں ذنب کے دو قسم کے معنے کئے ہیں۔

(۱) اور لوگوں کے حق میں ذنب کے معنی گنا ہ ہیں۔

(۲) حضرت محمدﷺ کی رعایت میں معنی انسانی فطرت کی کمزوری ۔

مسٹر اکبر مسیح صاحب نے اپنے رسالہ ابطال مرزا کے صفحہ ۲۹و۵۲ میں ذنب کےمعنی پر بحث کی ہے اور عربی لغت اور قرآن سے واضح کیا ہے کہ ذنب کے معنی گناہ ہیں اور ذنب کرنے والا مجرم اور دوزخی ہے۔ اگر چہ مرزا صاحب کو ذنب کے اس معنی سے انکار نہیں۔ (صفحہ ۳۸) تاہم آیت منقولہ بالا کے یوں معنی کئے ہیں کہ " خدا سے مانگ کہ وہ تیری ذات کو جسم کی کمزوری سے محفوظ رکھے اور تجھکو تقویت بخشے کہ اس کمزوری سے مغلوب نہ ہوجائے اور بطور شفاعت کے ان مردوں اور عورتوں کے لئے بھی دعا کر جو تجھ پر ایمان لاتے ہیں تاکہ وہ ان خطاؤں کی سزا سے بچائے جاویں جو ان سے سرزد ہوچکیں (صفحہ ۳۱) تاویل مرزا جی کی اپنی طبعزاد نہیں کہی جاسکتی کیونکہ اہل اسلام نے کل انبیاء اور حضرت محمدﷺ کے بارے میں ایک تعظیمی رائے گھر چھوڑی ہوئی ہے کہ کل نبی معصوم ہیں اور استغفار ذنب کے معنی اس رائے کے دباؤ میں کرتے ہیں اور متن کا حق ادانہیں کرتے۔ اگر چہ انبیا ء اور حضرت محمدﷺ نے مثل اور آدمیوں کے گناہ کئے اور وہ بائبل اور قرآن میں مندرج ہیں اور ان کے لئے استغفار بھی بتلایا گیا ہے تو بھی یہ تعظیمی گھڑنت مقدم ہے کہ کل نبی معصوم ہیں۔ چنانچہ اس امر میں پادری سیل عقاید اسلامیہ کے صفحہ ۱۷۶ میں مسلمانوں کاعقیدہ یوں بیان کرتے ہیں کہ " عام رائے یہ ہے کہ کل نبی گناہوں سے پاک اور خواہ کبائر سے ہوں صغائر سے ہوں اور احیا نا ً اگر کچھ ضعف کے اثار ان سے سرزد بھی ہوں تو بمنزلہ ایسے قصور یا کوتاہی کے متصور ہوتےہیں جو گناہ کی حد تک نہیں پہنچتے ۔ اگر چہ قرآن کے بیانات اس عقیدہ کے برخلاف میں تو بھی یہ عقیدہ موجود ہے۔ اور مرزا جی کی تاویل ذنب پر کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ اسی پرانی لکیر پر لکیر کھینچی ہے ۔


(۱) انسانی فطرت کی کمزوری

مرزا صاحب انسانی فطرت کی کمزوری کو ذنب ہی کا رنگ بتلاتے ہیں۔ اس لئے معلوم کرنا چاہیے انسانی فطرت کی کمزوری کیاہے ؟ اس میں کیا کچھ شامل ہے؟ اس کا مخرج کیاہے؟

قرآن شریف میں اس کا ذکر یوں آیاہے ۔ ۔ يُرِيدُ اللّهُ أَن يُخَفِّفَ عَنكُمْ وَخُلِقَ الإِنسَانُ ضَعِيفًا یعنی ارادہ کرتاہے الله کہ ہلکا کرے تم سے اور پیدا کیاگیا آدمی ناتواں (سورہ نسا رکوع ۴ آیت ۲۸) اور حضرت محمدﷺ اپنی نسبت لکھتے ہیں کہ میں بھی اور آدمیوں کی طرح ایک بشر ہوں۔ سورہ رحم السجدہ ع 1 آیت ۵قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْیعنی کہ سوائے اس کے نہیں کہ میں آدمی ہو مانند تمہارے ۔لہذا بشریت کی فطرت کی فطرتی کمزوری میں حضرت محمد ﷺ مثل اور آدمیوں کے ٹھہرے اور انسانی فطرت کی کمزوری کچھ ا نبیاء ہی خصوصیت نہیں تھی۔ یاد رہے کہ دین اسلام کے اصول فطرت انسانی کی کمزوری کے لحاظ سے ایسے بنےہیں جیسے کہ مروج ہیں۔ جیسا کہ شمش العلما مولانا حافظ نذیر احمد خان صاحب نے رہبانیت پر ایک الیکچر میں اصرار کیا تھا اورجو انجمن حمایت اسلام کے ماہواری رسالہ مطبوعہ ۱۵ جون ۱۹۰۲ء کے ضمیمہ نمبر ۱۸ میں شائع ہوا تھا۔ اور اخبار نور افشاں مطبوعہ ۲۲ اگست ۱۹۰۲ء اور ستمبر ۱۹۰۲ء میں کمترین (یعنی راقم الحروف) نے اس کا جواب دیا تھا۔

(۱) جاننا چاہیے کہ قرآن کے مطابق اگر خدا نے انسان کو کمزور پیدا کیا ہے تو انسان کی فطرت کی کمزوری کو کمزوری نہیں کہہ سکتے اور نہ اس کے فعل فعل بد ہوسکتے ہیں اور نہ ان کا تدراک درکا ر ہے ۔ کیونکہ یہ فطرتی کمزوری تو صریحاً منشا الہیٰ ہے ۔ اور اصول اسلامیہ بھی اسکے مساوی کہے جاتے ہیں۔

(۲) یہ انسانی فطرت کی کمزوری فقط نبیوں ہی میں نہیں بلکہ کل نوع انسان میں بتلائی گئی ہے ۔ آیت منقولہ میں نوع انسانی کا صریحاً ذکر ہے اور نبی بہ سبب انسان ہونے کے اس فطرتی کمزوری کے حصہ دار تھے۔ لہذا فطرتی کمزوری کی وجہ سے صرف نبیوں ہی کو نہیں بلکہ کل بنی آدم کو معصوم کہنا چاہیے اور جس جس نے گناہ کیا اس کو گنہگار جاننا چاہیے خواہ نبی ہو اور خواہ کوئی اور ۔

(۳) یہ فطرتی کمزوری ایک حالت ہے ۔ اور خدا نے انسان کو کمزور حالت میں پیدا کیا ہے لہذا انسان اس کے دفیعہ کے لئے کیوں معانی مانگے اورکس سے مانگے ؟ یہ کمزوری تومنشا الہیٰ ہے اور اس کو دور کرنے کے لئے دعا کرنا منشا الہیٰ کے خلاف ہوگا۔ پس اگر مرزا جی والی انسانی کمزوری کا اشارہ قرآن والی انسانی فطرتی ناتوانی کی طرف ہے تب تو مرزا جی کی چال درست نہیں اور محمد ﷺ کی معافی غلط تھی۔

(۴) اس موقعہ پر یہ جتا دینا مناسب ہے کہ قرآن کی یہ تعلیم بائبل کی تعلیم کے مطابق نہیں ہے بائبل کا یہ اظہار ہے کہ " خدا نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا " (توریت شریف کتاب پیدائش رکوع ۱ آیت ۲۷)۔ "خدا نے انسان کو راست بنایا اور انہوں نے بہت سی بندشیں تجویز کرکے باندھیں "(بائبل مقدس واعظ رکوع ۷ آیت ۱۹)ان بندشوں میں سے ایک بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ " خدا نے انسان کو ضعیف بنایا بائبل کے بیان سے یہ حاصل ہے کہ انسان نے گناہ کرکے اپنے آپ کو ضعیف بنالیا کہ نیکی کرنے کی قابلیت اس میں نہ رہی ۔ مگر خدا نے اس کو پاک اور راست فطرت دی تھی۔ پس اگر


محمد ﷺ اس گری ہوئی کمزورفطرت کے لئے دعا کرتے تھے کہ بحال ہوجاوے تب تو اچھا کرتے تھے اور اس سے یہ بات قائم ہوگی کہ آپ کو اپنی فطرت انسانی ذنب کے سبب سے کمزور محسوس ہوتی تھی۔

(۲)ذنوبِ محمدﷺ بقول مرزا غلام احمد

مرزا جی لکھتے ہیں کہ لفظ ذنب کا اطلاق انسانی فطرت کی کمزوری پر بھی ہوتا ہے (ابطال مرزا صفحہ ۳۶)۔ مگر آپ نے حضرت محمد ﷺ کی انسانی فطرت کی کمزوری کی کوئی مثال نہیں دی جس کو دور کرنے اور جس سے محفوظ رکھے جانے کے لئے وہ دعا کیا کرتے اور صرف گول مول بات بنائی ہے ۔ جاننا چاہیے کہ حضرت محمد ﷺ کی یتیمی اور لڑکپن کی غریبی اور ناخواندہ ہونا تو انسانی ذات کی کمزوریا ں نہیں ہوسکتی تھیں۔ ایسی حالت دنیا میں اور ہزاروں کی ہوتی ہے ۔ اور یہ صرف بیرونی حالات کی تبدیلیوں کا اثر یا دباؤ تھا جن کے دور ہوجانے سے خوشحالی ہوجاتی ہے۔ چنانچہ حضرت محمد ﷺ بھی ابو طالب کی ہمدردی اور مہربانی سے اچھی حالت میں ہوگئے تھے اور اس نے آپ کی شادی خدیجہ نام ایک مالدار بیوہ سے کرادی تھی اور اس بندوبست سے آپ مکہ کے دولتمندوں کے برابر ہوگئے تھے۔ مگر ذنوب کی فطرت کے لئے دعائیں تو بعد شروع ریات کی گئی تھیں۔ اور بقول مرزا صاحب انسانی ذات کی کمزوریوں کے واسطے کی گئی تھیں۔ علاوہ اس مذکورہ حالت کے یہ بھی خیال رہے کہ حضرت محمد اپنے انسانی وجود میں صاحب حوصلہ اور جنگی مرد اور بہت عورتوں پر قادر آدمی تھے۔آپ کی انسانی ذات کی یہ سب خوبیاں قرآن میں ملتی ہیں۔ پھر وہ کمزوری کیا تھی جس کو ذنب یعنی گناہ جا نکے بخشش مانگا کرتے تھے ؟ حضرت محمد ﷺ اپنی بابت قرآن میں ایک خاص بات کا ذکر کرتے ہیں جس کو آپ کی انسانی کمزوری کہا جاسکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ شیطان کے اور جادو کے مغلوب تھے اور ان کے اثر سے ڈرتے اور پناہ مانگا کرتے تھے ۔چنانچہ سورہ آل اعراف ع ۲۲ آیت ۲۰۰وَإِمَّا يَنزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّهِ یعنی اور اگر وسوسہ ڈالے تجھ کو شیطان کی طرف سے وسوسہ ڈالنے والا پس پناہ پکڑ الله کی ۔ پھر سورہ الفلق اور سورہ الناس (قرآن کی آخری سورتیں )میں ہے قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ مِن شَرِّ مَا خَلَقَ وَمِن شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ َمِن شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِي الْعُقَدِ وَمِن شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَیعنی پناہ پکڑتا ہوں میں صبح کے پروردگار کی برائی پھونکنے والوں کی سے بیچ گرہوں کے اور برائی حسد کرنے والوں کی سے حب حسد کرے ظاہر ہے کہ اس کمزوری کے لئے استغفار نہیں کرتے تھے خدا کی پناہ مانگا کرتے تھے لہذا استغفا ِ ذنوب سے اس کمزوری کو جدا رکھنا چاہیے یہ کمزوری البتہ اندیشہ ناک تھی اور متقاضی ہے کہ لوگوں حضرت محمد کے بارے میں بڑے محتاط ہوئے ۔ مگر خیر اس کمزوری کو جانے دو کیونکہ ۔

انسانی فطرت کی کمزوری کو ہم مسیحی بھی مانتے ہیں۔ اور مرزا جی اپنے اس قول سے کہ "لفظ ذنب کا اطلاق انسانی فطرت کی کمزوری پر بھی ہوتاہے " مسیحی تعلیم کو قبول کرتے ہیں کہ انسان نسلاً بھی گنہگار ہے اور حضرت محمدﷺ اس صیغہ سے باہر نہیں ہیں۔ یعنی نسلاً گنہگار ٹھہرتےہیں انسان کی فطرتی کمزوری سوائے اس کے اور کچھ نہیں ہے کہ گناہ کے سبب انسان بذاتہ کمزور اور لاچار ہوگیا ہے ۔ گناہ کا تسلط ہے کہ اس کی فطرت ہی گناہ آلودہ ہوگئی ہے ۔ اور اس کے برے نتیجوں سے محفوظ رہنے کے لئے روح القدس کی مدد مانگنا بہت ہی ضروری امر ہے۔ انسان کی یہ کمزور فطرت اس کے


اعمالی گناہوں کا موجب ہوتی ہے مشاہدہ سے اور بائبل سے یہ حقیقت ظاہر ہے ۔پروردگار نے دیکھا کہ زمین پر انسان کی بدی بہت بڑگئی اور اس کے دل کے تصور اور خیال زور بروز صرف بدہی ہوتے ہیں (توریت شریف کتاب پیدائش رکوع ۷ آیت ۵)۔ "انسان کو ن ہے کہ پاک ہوسکے ؟ اور وہ جو عورت سے پیدا ہوا کیا ہے کہ صادق ٹھہرے(بائبل مقدس صحیفہ حضرت یعقوب رکوع ۱۵ آیت ۱۴) "دیکھ میں نے برائی میں صورت پکڑی اور گناہ کے ساتھ میری ماں نے مجھے پیٹ میں لیا۔ " (زبور شریف رکوع ۵۱ آیت ۵)"میرے جسم میں کوئی نیکی بسی ہوئی نہیں (انجیل شریف خط اہل رومیوں رکوع ۷ آیت ۱۸)ان میں ہم بھی سب کے سب پہلے اپنے جسم کی خواہشوں میں زندگی گذارتے اور جسم اور عقل کے ارادے پورے کرتے تھے اور دوسروں کی مانند طبعی طور پر غضب کے ماتحت تھے۔(انجیل شریف خط افسیوں رکوع ۲ آیت ۲)۔انسان کی فطرتی کمزوری یہ ہے ۔ اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ (۱) نیک کام مجھ سے بن نہیں پڑتے ۔(خط رومیوں رکوع ۷ آیت ۱۸) اور (۲) یہ ہے کہ طبعی طور پر غضب کے ماتحت ہیں۔"گناہ انسان میں ایک عادت یا طبعیت ثانی ہوگیا ہے اور وہ خود اس کو بدل نہیں سکتا ۔ چنانچہ اس کی چیتے کے داغوں کے ساتھ تشبہیہ دی گئی ہے ۔ دیکھو (صحیفہ حضرت یرمیاہ رکوع ۱۳ آیت ۲۳)۔ پس اگر مرزا صاحب اپنے قول پر قائم ہیں کہ حضرت محمدﷺ میں ذنب یعنی انسانی فطرت کی کمزوری تھی تو انسانی فطرت کی کمزوری یہ ہے جو ہم نے بائبل سے ثابت کی ہے اور اس سے حضرت محمدﷺ کا مثل دیگر آدمیوں کے نسلاً یا فطرة ذنب ہونا ثابت ہے ۔ اور حضرت محمدﷺ کا مغفرت مانگنا ظاہر کرتا ہے کہ آپ اپنی اس طبعی کمزور حالت کو خوب محسوس کرتے تھے اور ہم مانتے ہیں کہ اچھا کرتے تھے ۔ بشرطیکہ توبہ کے لائق پھل لاتے رہے تھے۔

(۳)۔ ذنوبِ محمدیہ ﷺازروئے قرآن

حضرت محمدﷺ کی فطرتی کمزور حالت کا احوال تو ہم نے مرزا صاحب کے قول کی روسے معلوم کیا کہ کیا تھا۔ مگر قرآن میں آپ کی حالت کا نہیں بلکہ افعال کا ذکر ہے ۔ اس میں جہاں کہیں ذنب کا ذکر آیا ہے وہاں برے فعل سے مراد ہے اور ایسے فعل جو انسان کو مجرم اور سزا کے لائق قرار دیتے ہیں۔ سورہ یوسف ع ۳ آیت ۲۹وَاسْتَغْفِرِي لِذَنبِكِ إِنَّكِ كُنتِ مِنَ الْخَاطِئِينَیعنی بخشش مانگ اے عورت واسطے گناہ اپنے تحقیق تو ہے خطاکاروں سے ۔ اس آیت میں ذنب کرنے والے کو خطا کا ر قرار دیا ہے ۔ سورہ القصص ع 7اور نہیں پوچھے جاتے گناہوں اپنے سے مجرم لوگ۔ اس آیت میں یہ ظاہر ہے کہ آدمی گناہ (ذنب ) کرنے سے مجرم ٹھہرتا ہے ۔ اور حضرت محمدﷺ کو بھی مثل عورت مذکورہ کے ہدایت کی گئی کہ اپنے ذنوب یعنی برے کاموں کی بخشش مانگ جن کا احوال قرآن میں حسب ذیل آیا ہے ۔

اولاً لفظ ذنب فقط حضرت محمدﷺ کے گناہوں کے واسطے کوئی مخصوص لفظ نہیں بلکہ اور لوگوں کے گناہوں پر بھی بولا گیا ہے اور ہر قسم کے گناہ کے واسطے عام طور پر بولا گیا ہے دیکھو سورہ شمس آخری آیت فَدَمْدَمَ عَلَيْهِمْ رَبُّهُم بِذَنبِهِمْ فَسَوَّاهَا یعنی پس ہلاکی ڈالی ان کے اوپر ان کے رب نے بہ سبب گناہ ان کے پس برابر کردیا۔ اس آیت میں پروردگار کی اونٹنی کو مارنا دنب کہا گیا اور اس ذنب کی سزا ہلاکت ہوئی۔ پس ظاہر ہے کہ ذنب ایسے گناہ پر بولا جاتا تھا جو ہلاکت کا باعث تھا۔ اور ممکن ہے کہ حضرت محمدﷺ کے ذنوب بھی ایسے تھے جو ہلاکت کاموجب ہوتے اور اسلئے بچاؤ کے واسطے معافی مانگنے کی ہدایت کی گئی۔ پھر سورہ احزاب رکوع ۸ میں اور سورہ زمر رکوع ۵ میں یہ لفظ لوگوں کے ہر قسم کے گناہوں کے لئے بولاگیا ہے ۔


یعنی واسطے تمہارے گناہ ۔ اور یعنی تحقیق الله بخشتا ہے گناہ سارے ۔ اسی طرح یہ لفظ ذنب حضرت محمدﷺ کی محض کسی کمزور حالت سے مراد نہیں رکھتا ہے بلکہ سارے گناہوں کو شامل کرتا ہے خواہ کبیرہ تھے خواہ صغیرہ ۔ دیکھو سورہ فتح آیت ۱و۲إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًالِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ وَيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَيَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُّسْتَقِيمًایعنی تحقیق فتح دی ہم نے تجھ کو فتح ظاہر ۔ تاکہ بخشے تجھ کو خدا جو پہلے ہوئے تھے تیرے گناہ اور جو پیچھے ہوئے اور تمام کرے اپنی نعمت تجھ پر۔ اور دکھاوے تجھ کو راہ سیدھی اس کی شرح پر علماء اہل اسلام متفق نہیں ہیں۔ اور ذنب کے داغ کو حضرت محمدﷺ پر سے مٹانے کے لئے کئی ایک تاویلیں کی گئی ہیں۔ (۱)جو کچھ وحی کے آنے سے پہلے یا بعد گذرا ہے وہ خدا نے معاف کردیا۔ (۲)فتح مکہ سے پہلے یا بعد کچھ ہوا۔یا(۳) قبل از نزول اس آیت کے (۴) مفسر سلمی  نے فرمایا کہ ماتقدم سے مراد آدم کے گناہ ہیں۔ آدم کے گناہ کو آپ سے اسلئے منسوب کیاہے کہ گناہ کے وقت آپ صلب آدم میں تھے اور ماتاخر سے مراد امت کے گناہ ہیں۔ امت کے گناہوں کو بھی آپ سے منسوب کیا اس سبب سے کہ آدم کے گناہ امت کے گناہوں کے پیشرو اور موجب تھے ۔ امام صاحب یہ تاویل تو عمدہ تجویز ہے مگر کسر یہہ ے کہ یہ منسوبیت قرآن کے کسی مقام سے مصرح نہیں ہے ۔ برعکس اس کے امت کے گناہوں کی معافی اور اپنے گناہوں کی معافی مانگنے کی جدا جدا بدلیت ہوئی ہے ۔ دیکھو سورہ محمد رکوع ۱۰ امت کے گناہ حضرت محمدﷺ کے گناہ قرار دینے کی ضرورت نہیں ہے ۔ ہمارے نزدیک پہلے معنی صحیح ہیں اور باقی تاویلیں ہیں۔ حضرت محمدﷺ نے اپنے تیئں معصوم نہیں جتایا جیساکہ مقتدی جتایا چاہتے ہیں۔ کیونکہ حضرت محمد نے قرآن میں آدم اور ابراہیم اور موسیٰ کو بھی استغفار پڑھنے والے جتایا ہے۔(سورہ اعراف آیت ۲۴۰، سورہ ہود آیت ۴۹، سورہ نوح آیت ۲۹اور سورہ قصص آیت ۱۵و۱۶)۔ اس لئے اگر اپنے تیئں بھی استغفار پڑھنے والا جتایا تو اس میں کیا برا کیا ؟ کچھ نہیں وہی کیا جو اور نبیوں نے کیا تھا اور اپنے آپ کو سابقہ رسولوں کی مانند ایک رسول کہا تھا (آل عمران رکوع ۵ آیت ۱۴۴)۔

ثانیا ً دریافت کرنا چاہیے کہ حضرت محمدﷺ کے ذنوب کیسی باتوں یا فعلوں کو شامل کرتے تھے کہ ان کے لئے بخشش مانگنی پڑی ظاہر ہے کہ وہ ایسے نہیں تھے کہ بلابخشش مانگے بے عقوبت رہتے ورنہ معافی کی ضرورت نہ تھی۔ تاہم ذرہ اور آگے بڑھیں اور دیکھیں کہ وہ ذنوب کس قسم کے تھے سو واضح ہو کہ قرآن میں سب سے بڑا اور سب سے برا گناہ وہ ہے جس کو ضال لکھا ہے یعنی گمراہی ۔ اگر خدا کسی کوگمراہی میں ڈالے یا انسان آپ ہی اس میں پڑا رہے تو اس کے لئے بخشش نہیں عذاب یقینی ہے۔ یہ لفظ ضال پہلے ہی پہل سورہ فاتحہ کے آخر آیا میں ہے ۔ ضالین ایسے نالائق قرار دیئے گئے ہیں کہ ان سے بچے رہنے کے لئے سورہ فاتحہ میں خاص دعا مانگی گئی ہے اور ان کے بچنے کی کوئی امید نہیں۔ اور جن کو خداضلالت میں ڈالے ان کا نہ کوئی ولی ہے اور نہ کوئی اور سلیل بچنے کی ہے ۔ سورہ شوریٰ رکوع ۴یعنی جس کو گمراہ کرکے الله پس نہیں واسطے ا سکے کوئی ولی پیچھے اس کے ۔ اور بھی دیکھو سورہ مومن رکوع ۷ اب یہی لفظ ضال حضرت محمدﷺ کے حق میں بھی آیا ہے دیکھو سورہ ضحیٰ آیت ۷وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدَى یعنی اور پایا تجھ کو (گمراہ) جن کے برخلاف سورہ فاتحہ میں دعا کی گئی ہے اور سورہ فتح آیت ۱و۲کا جو اقتباس اوپر دیا گیا اس میں یہ لکھا پایا کہ " بخشے تجھ کو پروردگار تیرے ذنب دکھاوے تجھ کو راہ سیدھی ۔ تو ظاہر ہے کہ آپ کا ضال ایسا ذنب تھاکہ اگر خدا سیدھی راہ نہ دکھاتا تو آپ ہلاک ہوجاتے۔ حضرت محمﷺ نے اپنے ضال وذنب کا یہی حال خود ظاہر کیاہےکیونکہ جب وہ اپنی تمام گمراہی اور خطاکاری کو یاد کرتے تو سوائے استغفار کے اور کوئی چارہ نظر نہیں آتا تھا۔ اور اس حال میں اپنے گناہوں کی بخشش مانگنا تعریف کے لائق کام تھا۔ سب گنہگاروں کو ایسا ہی کرنا چاہیے۔


ثالثاً ۔ حضرت محمدﷺ کے ضال وذنوب کا احوال مذکورہ ہم نے قرآن سے صاف معلوم کیا اب گناہ کی نسبت علماء اسلام کا مسلم عقیدہ بھی دیکھیں کہ کیا کہتاہے۔ اور اس کے لئے ہم سیل صاحب کی کتاب عقائد اسلامیہ کے چوتھے باب سے اقتباس کرتے ہیں۔ جس میں عقائد اسلام کا تذکرہ یہ صاحب یوں لکھتے ہیں کہ " مسلمانوں میں گناہ کی تفریق ہے بعض گناہ کبیرہ میں یعنی بڑے گناہ اور بعض صغیرہ یعنی چھوٹے گنا ہ میں ، قتل اور زنا، اور خدا کی اور ماں باپ کی نا فرمانی یتیموں کو غار ت کرنا، زنا کی تہمت لگانی، جہاد سے بچنا ، شراب پینا ، رشوت دینا یا لینا، جمعہ کی نماز اور رمضان کے روزوں میں سستی کرنی، نا انصافی عیبت ، بدیانتی ، قرآن کو پڑھ کر بھول جانا سچی گواہی سے محترز ہونا یا جھوٹی گواہی دینی بے سبب جھوٹ بولنا (صراط اسلام صفحہ ۱۸)جھوٹی قسم کھانی یا سوائے خدا کے دوسروں کی قسم کھانی،ظالم حاکموں کی خوشامد کرنی ،جھوٹا فیصلہ کرنا ، کم تولنا یا ناپنا جادو قمار بازی، کفر کی رسوم کو پسند کرنا ، خدا پرستی پر فخر کرنا، مردوں کا نام لے کر چھاتی پیٹنا ، ناچنا ،گانا ، بجانا، موقعہ پاکر لوگوں کو خدا کے اوامر اور نواہی سے متنبہ کرنا، حافظ کی تعظیم نہ کرنی، داڑھی منڈانی ، جب حضرت محمدﷺ کا نام آئے درود نہ پڑھنا ۔تکمیل الایمان صفحہ ۱۸) یہ سب گناہ کبیرہ میں اور بغیر واجبی توبہ کے ان کی بخشش نہیں۔ صغائر البتہ نیک کام کرنے سے دور ہوجاتے ہیں۔(سورہ ہود آیت ۱۱و۱۳)۔

اس عقیدہ سے بھی ظاہر ہے کہ کبیرہ گناہ بغیر توبہ کے بحشے نہیں جاتے۔اس سے یہ صریح نتیجہ حاصل ہے کہ حضرت محمدﷺ نے جو بار بار اپنے گناہوں کی بخشش مانگی اور خدا نے بھی ان کو ضال قرار دیا تو ضرور وہ گناہ کبیرہ میں سے کئی ایک کے مرتکب ہوئے تھے۔ صغیرہ کے لئے معافی درکار نہیں ۔

اہل اسلام کے لئے یہ انصاف اور سچائی سے فکر کرنے کا محل ہے کہ ایک طرف تو قرآن میں حضرت محمد کو خدا کہتا ہے کہ تو ضال (گمراہ ) تھا اور وَاسْتَغْفِرِي لِذَنبِكِ کا حکم دیتا ہے اور بموجب اس کے حضرت محمدﷺ معافی مانگتے رہے ۔ اور دوسری طرف انجیل میں سیدناعیسیٰ مسیح کو اپنا پاک اور پیارا بیٹا کہتا ہے (انجیل شریف بہ مطابق حضرت لوقا رکوع ۱ آیت ۳۵، حضرت متی رکوع ۳ آیت ۱۷)۔ اور سیدنا عیسیٰ مسیح اپنی بابت یوں فرماتےہیں کہ " تم جانو کہ ابن آدم کو زمین پر گناہ معاف کرنے کا اختیار ہے۔(حضرت متی رکوع ۹ آیت ۶) ان میں سے کون مقتداہونے کے لائق ہے۔

(۴) عصمت انبیاء اور ذنوب محمدﷺ

اہل اسلام نے عصمت انبیاء کی بابت جو عقیدہ بنایا ہوا ہے صرف ایک تعظیمی گھڑنت ہے۔

اگر حضرت محمدﷺ انبیا کی عصمت کے قائل ہوتے تو ان کے اور اپنے ذنوب کا ذکر نہ کرتے اور نہ ان کے استغفار کا۔ اور دیگر یہ کہ اگر معاف کئے جانے کی بنا پر انبیاء کی عصمت کا خیال یا لحاظ ہوتا تو ان کے قصوروں کا قرآن میں مکرر ذکر نہ سناتے بلکہ وہ صور ت اختیار کرتے جو سیدنا عیسیٰ مسیح اور آپ کے رسولوں نے انجیل شریف میں اختیار کی ہے کہ آدم اور دیگر انبیاء کی گنہگاری کا چرچا نہیں سنایا کیونکہ اس کا ذکر ہوچکا تھا بلکہ غالباً ان کی مغفور حالت کے سبب ان کی برائیوں کو یاد نہ کیا" جن کے گناہ بخشے گئے اور خطائیں ڈہانپی گئیں (زبور شریف رکوع ۳۶ آیت ۱)۔ پروردگار نے اپنے وعدے کے مطابق ان کی بدیوں کو پھریاد نہ کیا۔ بلکہ ان کے نیک نمونے پیش کئے ہیں۔(خط عبرانیوں رکوع ۱۱)۔ حضرت محمدﷺ نے جو انبیاء کی گنہگاری اور عفو


کاچرچا کیا ہے تو اس میں اپنی گنہگاری اور استغفار کے لئے ایک مستند آڑبنائی ۔ جیسا لوگوں سے جھٹلائے جانے میں (سورہ ملائیکتہ آیت ۴)۔ اور جو روئیں رکھنے میں سابقہ رسولوں کی نظریں پیش کی تھیں۔(سورہ رعد آیت ۳۸ ع۵)۔

مرزا غلام احمد صاحب قادیانی انبیاء کی عصمت قائم کرنے کے لئے انبیاء کی یہ تعریف بتلاتے ہیں۔ " انبیاء کی اپنی ہستی کچھ نہیں ہوتی بلکہ وہ اسی طرح بکلی خدا ئے تعالیٰ کے تصرف میں ہوتے جس طرح ایک کل انسان کے تصرف میں ہوتی ہے ۔ انبیاء نہیں بولتے جب تک خدا ان کو نہ بلائے اور کوئی کام نہیں کرتے جب تک خدا ان سے نہ کرائے ۔ جو کچھ وہ کہتے یا کرتے ہیں وہ خدائے تعالیٰ کے احکام کے نیچے کہتے یا کرتے ہیں۔ اور ان سے وہ طاقت سلب کی جاتی ہے ۔ جس سے خدائے تعالیٰ کی مرضی کے خلاف کوئی انسان کرتاہے۔ وہ خدا کے ہاتھ میں ایسے ہوتےہیں جیسے مردہ۔" انبیا  کو خدا نے ہر ایک قسم کی سزا سے ہمیشہ کے لئے بری ٹھہرایا ہے۔" (از رسالہ ابطال مرزا صفحہ ۷و۱۱)۔

مرزا جی کی اس تعریف نبی اور بریت سزا سے بھی کوئی نبی بے گناہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔

اول تو مرزا نے یہ تعریف انبیاء کی حضرت محمد کے قول کی بنا پر تجویز کی جو اپنے بھلے برے کاموں کو خدا ہی کے ذمے لگادیا کرتے تھے۔ اور لوگوں کو سمجھا تھے کہ محمدکو بدی کرنے کا کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔ مثلاً زینب کے بارے میں یہ حکم سنایا ۔ سورہ احزاب آیت ۳۷و۳۸ع ۲) وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللَّهَ وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِيهِ وَتَخْشَى النَّاسَ وَاللَّهُ أَحَقُّ أَن تَخْشَاهُ فَلَمَّا قَضَى زَيْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاكَهَا لِكَيْ لَا يَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِي أَزْوَاجِ أَدْعِيَائِهِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ مَفْعُولًامَّا كَانَ عَلَى النَّبِيِّ مِنْ حَرَجٍ فِيمَا فَرَضَ اللَّهُ لَهُ ترجمہ: اور جس وقت کہ تو کہتاتھا واسطے اس شخص کے کہ نعمت رکھی ہے الله نے اوپر اس کے اور نعمت رکھی ہے تونے اوپر اس کے تھام رکھ اوپر اپنے اپنی بی بی کو اورڈر خدا سے اور چھپاتا تھا اپنے جی میں جو کچھ کہ الله ظاہر کرنے والا ہے اس کا ۔ اور ڈرتا تھا تو لوگوں سے اور الله بہت لائق ہے اس کے کہ ڈرے تو اس سے ۔ پس جب ادا کرلی زید نے اس سے حاجت بیاہ دیا ہم نے تجھے اس کو تاکہ نہ ہووئے اوپر ایمان والوں کے تنگی بیچ، بیبیوں اور لیپالکوں ان کے جب ادا کرلیں۔ ان سے حاجت اور ہم حکم خدا کا کیا گیا ۔ نہیں ہے اوپر نبی کے کچھ تنگی بیچ اس چیز کے مقرر کیا ہے الله نے واسطے اس کے یہی حال دیکھئے کہ اپنی خواہش پوری کرنے کے لئے اپنے تیئں الله کے حکم کے بس میں بے بس بتلادیا۔

اسی طرح مصری کنیزک مریم کے بارے میں اس کو اپنے لئے حلال کرنے کا حکم سنادیا تھا۔ اور آخر میں کہہ دیاکہ سورہ تحریم آیت ۱و۲ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبْتَغِي مَرْضَاتَ أَزْوَاجِكَ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ قَدْ فَرَضَ اللَّهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ أَيْمَانِكُمْیعنی اے نبی کیو ں حرام کرتا ہے اس چیز کو کہ حلال کیا ہے خدا نے واسطے تیرے تحقیق مقرر کردیا ہے الله نے واسطے


تمہارے کھولنا تمہاری قسموں کا ۔ اس میں بھی حضرت محمدﷺ اپنی ایک اور خواہش پوری کرنے چاہتے تھے اور اس کے لئے اپنے تئیں بقول مرزا بالکل خدا کے تصرف میں بتلادیا۔

ان دونوں موقعوں پر حضرت محمد ﷺ جو لوگوں سے ڈر کے مارے بات چھپاتے او رایک چیز کو حرام تصور کرتے تھے تو یہ بھی خدا ئے تعالیٰ ہے کی عنایت کی طرف منسوب ہونا چاہیے کیونکہ حضرت محمدﷺ تو خود بولنے او رکام کرنے میں مردہ ہونگے۔

پھر سورہ اعراف آیت ۱۸۸ ع قُل لاَّ أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلاَ ضَرًّا إِلاَّ مَا شَاء اللّهُ کہ نہیں اختیار رکھتا ہے میں واسطے جان اپنی کے نفع کا اور نہ ضرر کا مگر جو چاہے الله یہ کیفیت حضرت محمدﷺ کے نبی ہونے کی ہے جس نے اپنے بھلے برے قول وفعل کو خدا کے ذمے لگایا اور اس نامور کی کارگذاری کی بنا پر مرزا جی نے اسی طرح کل انبیاء کو خدا کے تصرف میں بے بس اور مردہ بتلایا ہے اور اس صورت میں تو بے شک خدا مجبور ہے کہ ان کو ان کے گناہو ں کی سزا سے بری رکھے۔ مگر انبیاء سابقین کے بارے میں ایسا گمان غلط ہے انہوں نے اپنے برے کام خدا کے ذمے نہیں لگائے اور نہ ان کے جواز کے لئے اپنے تیئں خدا کے بس میں بے بس جتایا بلکہ اپنے گناہوں کی معافی مانگتے رہے ۔ اور معافی کی بنا پر وہ سزا سے بری کئے گئے تھے۔

قرآن کے مطالعہ سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ غیر مسلمان کا مال لوٹ لینا ۔ جو حضرت محمدﷺ کو نہ مانے اس کو قتل کرنا غیر وں کی عورتوں کا لالچ کرنا۔ قسم توڑدینا۔ بدلالینا، اور کعبہ پرستی حضرت محمدﷺ جب ایسے کا م کرتے اور کرواتے تھے تو ان سے خدا کرواتا تھا اور اس لئے ایسے گناہوں کی معافی مانگنے کی بھی آپ پروانہ رکھتے ہونگے ۔ ایسے کاموں کو اپنی انسانی ذات کی کمزوری نہیں بلکہ مردانگی سمجھتے تھے ۔ اور استغفار صرف ذنوب ضال کے لئے کرتے تھے جیسا پہلے دکر آچکا ہے۔

دوم۔ مرزا جی نے جو تعریف نبی کی بیان کی ہے وہ صرف محمد ﷺ کی خاطر تاہم اس سے بھی کوئی نبی بے گناہ قرار نہیں دیا جاسکتا ۔معصومیت انبیاء دو حالتوں کے ماتحت تھی۔ ایک وہ جس میں مرزا جی نبی کو خدا کے تصرف میں مثل کل یا مردہ کے بتلاتے ہیں۔ یہ حالت الہام کی تھی ۔مگر ایسا تصرف خاص خاص صورتوں میں ہوتا تھا ۔ جیسا رویا یا خواب کی حالت میں اور تسپر بھی نبی مثل کل کے نہیں ہوجاتے تھے بلکہ جیسے وہ بیرونی عالم کی چیزوں کو اپنی حواس خمسہ سے محسوس کرتے تھے یا اور لوگ کرتے ہیں۔ اور اس مشاہدہ کو یا اس کے مطابق لوگوں کے سامنے بیان کرتے ہیں۔ اسی طرح نبی رویا یا خواب کے مشاہدوں کو محسوس کرنے کی حسس رکھتے تھے اور ان کو بیان کرنے کی فہمید رکھتے تھے۔ اور مردہ یا ناقص العقل دیواانوں کی طرح نہیں ہوجاتے تھے ۔ گو مردہ پن کی حالت کی مثال دیوانگی کی حالت کی مثال سے بہتر ہوتا ہے تاہم یہ دونوں صورتیں باطل ہیں۔ اس میں معصومیت صرف یہ تھی کہ مژدہ رسانی میں غلطی نہ کریں۔ دوسری حالت انبیاء کی اپنی اخلاقی شخصیت تھی اور عصمت زیر بحث اسی کے ماتحت تھی۔ اور مرزا جی کا یہ قول کہ انبیاء  کو خدا نے ہر ایک قسم کی سزا سے ہمیشہ کے لئے بری ٹھہرایا" اس عصمت کے متعلق ہے۔ خیال رہے کہ سزا سے بری ٹھہرانا ا ن کے حق میں کہا جاسکتا ہو جو گناہ کرچکے ہیں مگر چونکہ خدا نے ان کو بخش دیا یعنی سزا معاف کردی اس لئے ان کو مقدس کہا جاسکتا ہے ۔ مگر یہ حالت صرف انبیاء ہی پر محدود نہیں ہے بلکہ ہر ایک ایماندار کو یہ حق دیا جاتا ہے۔ اور یہ حالت بخشش والی منزل ہی پر ٹھہر نہیں جاتی بلکہ انبیاء اور ہر ایک مسیحی ایماندار جو "خدا سے پیدا ہوا ہے گناہ نہیں کرتا۔" (انجیل شریف خط اول حضرت یوحنا رکوع ۳ آیت ۹)۔ یعنی بات صرف یہی نہیں ہے کہ خدا نے اس کے گناہ معاف کردئیے اور سزا ٹال دی بلکہ بڑی بات یہ ہے کہ وہ شخص پھر گناہ نہیں کرتا۔ حضرت محمدﷺ کے نبی ہونے کی جو کیفیت ہم اوپر دکھلاچکے ہیں اسکی روسے تو وہ ان معفور


مقدسوں کی صف میں شامل نہیں ہوسکتے۔ اب مرزا صاحب یاکوئی اور عصمت انبیاء پر اس غرض سے زور نہ دیں کہ عصمت میں اوروں کو بھی سیدنا مسیح کی مانند دکھلائیں یہ زور چل نہیں ہوسکتا ۔ کیونکہ انبیاء میں عصمت کی دونوں حالتیں الہیٰ ہیں مگر مسیح کی عصمت عطیہ الہیٰ نہیں ہے بلکہ الہیٰ کلمہ مجسم کی ذات مبارک کا ذاتی تقاضیٰ ہے۔ ظاہر ہے کہ بائبل اور قرآن میں فقط سیدنا عیسیٰ مسیح ایک شخص بیان کیا گیا ہے جو پیدائش میں معصوم تھے۔ جنہوں نے گناہ نہیں کیا۔ اور گناہ کی معافی نہیں مانگی۔ ایسا کرنہیں سکتا تھا۔ لہذا عصمت انبیاء کا عقیدہ اہل اسلام کی اپنی بناوٹ ہے ۔ اور مرزا جی ناحق اوربے فائدہ اس کی حمایت میں پریشان ہورہے ہیں۔ معاملہ صاف ہے کہ جس نے گناہ نہیں کیا۔معصوم ہے باقی سب عاصی ہیں۔ اس میں فرقہ فضلیہ اور امامیہ اور حشویہ اور افضیوں کی جدید رائیں کچھ حقیقت نہیں رکھتی ہیں اگلے نبیوں کا اصل احوال بائبل میں موجود ہے اور اسی کا فیصلہ کا فی ہے ۔ اور حضرت محمد ﷺ کے احوال ذنوب کے لئے قرآن کا فی سند ہے۔