وَالسَّلَامُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدتُّ وَيَوْمَ أَمُوتُ وَيَوْمَ أُبْعَثُ حَيًّا ذَٰلِكَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِي فِيهِ يَمْتَرُونَ
سلام ہے مجھ پر جس دن میں پیداہوا جس دن مرونگا اور جس دن اٹھ کھڑا ہونگا یہ ہے عیسیٰ ابن مریم سچی بات لوگ جس میں جھگڑتے ہیں۔
(سورہ مریم آیت 33)
ذبیُح الله
جس میں ثابت کیاگیا ہے کہ ربنا المسیح کی کفارہ بخش قربانی کے ذریعہ وہ حد ِ فاصل جو گناہ کے سبب انسان اور خدا کے درمیان حائل ہے اٹھ جاتی ہے۔ اب ہر شخص خواہ وہ کسی حیثیت کا کیوں نہ ہو بذریعہ ایمان بالکفارہ نجات اور قربت الہیٰ حاصل کرسکتا ہے۔
از
ڈاکٹر ایم۔ ایچ درانی
1952
نذر
اے ذبیُح الله آپ جو جہان کے گناہ اٹھالے جاتیں ہیں آپ کے حضور ایک گدائے بوریہ نشین آپ ہی کے گلستان کے بکھرے ہوئے پھولوں کی چند پنکھڑیاں چن کر لایا ہوں۔شہنشا ہوں کے شہنشا ہ اس نذر کو قبول فرمائیے پھیکی عبارت اور ان بے جوڑ جملوں میں اپنی تاثیر ڈال دیجئے ۔تاثیر کا سائل ہوں محتاج کو داتا دے۔
درانی
الکفارہ
لفظ کفّارہ عربی لفظ "کفر " سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ڈھانپنے کے ہیں۔عبرانی لفظ "کپیر " کا بھی یہی مطلب ہے۔ کفّارہ کے لئے جو انگریزی لفظ (Atonement)بائبل میں مستعمل ہوا ہے اس کے معنی ایک ہوجانا یا ملاپ کرلینا ہے۔الہٰیات میں وہ فعل مراد ہے جو گناہ کے سبب اور خدا کے درمیان جدائی کا پردہ حائل ہے وہ اٹھ جائے اور یو ں انسان اور خدا میں از سر نو میل میلاپ ہوجائے پس کفّارہ ایسا ذریعہ ہے جس کے باعث گنہگار الہٰی طبعیت کا حصول اورملاپ ِخداوندی حاصل کرسکتا ہے ۔
یہ امر محتاج بیان نہیں کہ حصول نجات اور تقرب الہٰی کو مذہب اور ایمان کا مقصد قرار دیا گیا ہے لیکن حیرت ہے کہ حصول نجات وغیرہ کے مختلف طریقے پیش کئے جاتے ہیں جبکہ مذاہب عالم کا مقصد ایک ہی ہو۔ بہر حال ہم مختصر اً اس رسالہ میں ایسے چشموں کا ذکر کرینگے جن کی بناپر تقرب الہٰی حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور مسیحی لٹریچر سے یہ ثابت کرینگے کہ خدا کا ملاپ جو مذہب کی غائیت ہے وہ بذریعہ ایمان بالکفّارہ حاصل ہوتاہے ورنہ ممکن نہیں کہ گنہگار الہٰی طبعیت کا حصول اور خدا تعالیٰ کا تقرب حاصل کرسکے خواہ وہ کتنی ہی جدوجہد کیوں نہ کرے۔
کفارہ بذریعہ قربانی
چنانچہ دنیا کی دینی تواریخ پر سر سری نظر ڈالنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اہل دنیا کے نذدیک خواہ وہ کسی مذہب وملت کا کیوں نہ ہو۔ قربانی ہی کو ایک ایسا ذریعہ ٹھہرایا جس کے باعث گنہگار الہی خوشنودی حاصل کرسکتا ہے۔ بالفاظ دیگر انسان کے دل پر یہ کندہ کیاگیا ہے کہ بغیر خون معافی نہیں مل سکتی گو اس خیال میں گہری صداقت ہے لیکن جانوروں کی قربانی سے الہی خوشنودی اور معافی کا حصول ممکن نہیں اس لئے قربانی گناہوں کا حقیقی اور کافی بدلہ متصور نہیں ہوسکتا ۔کیونکہ (ا)عدل پورا بدلہ چاہتا ہے گناہ چونکہ الہی بے عزتی اور انسانی حق تلفی کا باعث ہےاس لئے کسی جانور کا دکھ اٹھانا خدا اور انسان کی حق تلفی اور بے عزتی کا پورا بدلہ نہیں ہوسکتا۔
(ب) بے سمجھ اور مجبور جانور زبردستی سے ذبح کرلئے جاتے ہیں ۔ اس لئے جانوروں کی قربانی گناہوں کی معافی کے حصول کی عقلی توجہ نہیں ہوسکتی بلکہ یہ خیال مضحکہ خیز ٹھہرتا ہے۔کیونکہ انسان نے جس خود غرضی کے زیر اثر گناہ کیا وہ اسی خود غرضی کے زیر اثر ایک اور بے سمجھ مخلوق کودکھ دے کر تقاضا عدل پورا نہیں کرسکتااور نہ ہی الہی خوشنودی حاصل کرسکتا ہے ۔
(ج) فرض کیجئے اگر زید نے بکر کو نقصان پہنچایا ہو تو ممکن ہے کہ وہ اپنے صادر شدہ جرم یا خطا کا کوئی معاوضہ پیش کرے لیکن کیاوہ اس طور سے اپنی برائیوں کےنتائج کو مٹا سکتا ہے اس مظلوم کی داد رسی ہوسکتی ہے؟ہر گز نہیں کیونکہ بد عملی کا معاوضہ جانور کی قربانی خلاف ِانصاف ہے ، اس لئے کہ قربانی سے نہ تو ہر
جہ دار کی داد رسی ہوسکتی ہے اور نہ ہی قربانی سے ہر جہ دار کو کچھ فائدہ پہنچ سکتا ہے اور نہ ہی اس کے دکھوں کاکافی معاوضہ ہوسکتا ہے ۔ جس طرح انسان زمانہ ماضی اور کھوئے ہوئے اوقات واپس نہیں لاسکتا ۔ اسی طرح قربانی کے ذریعہ وہ گناہ جو دوسروں کے خلاف صاد ر ہوئے واپس نہیں آسکتے ۔
علاوہ بریں اور جو کچھ مجرم دیگا وہ بطور رشوت ہوگا۔ تاکہ اس کے بدلے حاکم کی رعایت حاصل کرکے اپنے جرم کی پاداش اور عدالت کے مواخذہ سے چھٹکارہ پائے ۔حالانکہ کفارہ کا یہ مقصد نہیں کہ انسان خدا کی نظر سے بچ جائے بلکہ یہ کہ خدا کی رضا مندی کا حصول ہو لیکن ایسے کفارہ سے الہی خوشنودی حاصل نہیں ہوسکتی ۔جو خودغرضی کے زیر اثر ہو ازیں جہت جانوروں کی قربانی کو انسان کے گناہوں کا حقیقی اور کافی بدلہ فرض کرنا باطل ٹھہرتا ہے تاوقتیکہ خود خدا اس کا نتظام نہ کرے ۔
الغرض جانوروں کی قربانی گناہوں کی معافی کے لئے حقیقی اور کامل بدل نہیں ہوسکتی "ورنہ ان کا گذراننا موقوف نہ ہوجاتا کیونکہ جب عبادت کرنے والے اک بارپاک ہوجاتے تو پھر ان کا دل انہیں گنہگار نہ ٹھہراتا بلکہ وہ قربانیاں سال بہ سال گناہوں کو یاددلاتی ہیں۔ کیونکہ ممکن نہیں کہ بیلوں او ربکروں کا خون گناہوں کو دور کرے "(انجیل شریف خطِ عبرانیوں 8باب 5آیت ،اور 10باب 1آیت )۔
اگر جانوروں کی قربانی کی ضرورت ایماندار کے لئے بطور ایما اور علامت اس وقت نہ مانی جائے جب تک کہ حقیقی کامل اور کافی قربانی تحقیق خارحی طور پذیر نہ ہو تو وہ قربانیاں یقینا ً مضحکہ خیز ٹھہرینگی ۔اور ان کے متعلق کوئی اور توجہ نہیں ہوسکتی "پس ضرور تھا کہ آسمانی چیزوں کی نقلیں تو ان کے وسیلہ سے پاک کی جائیں مگر خود آسمانی چیزیں ان سے بہتر قربانیوں کے وسیلہ سے (انجیل شریف خط ِعبرانیوں 9باب 23آیت ) "جب مسیح آئندہ کی اچھی چیزوں کا سردار کاہن ہوکر آیا تو ۔۔۔۔بکروں اور بچھڑوں کا خون لے کر نہیں بلکہ اپنا ہی خون لے کر پاک مکان میں ایک ہی بار داخل ہوگیا اور ابدی خلاصی کرائی "(انجیل شریف خطِ عبرانیوں 9باب 11تا 12آیت )"اس نے ایک ہی قربانی چڑھانے سے ان کو ہمیشہ کے لئے کامل کردیا ہے جو پاک کئے جاتے ہیں "(انجیل شریف خطِ عبرانیوں 10باب 14)۔"یہ نہیں کہ وہ اپنے آپ کو بار بار قربان کرے ۔۔۔ ورنہ بنائے عالم سے لے کر اس کو بار بار دکھ اٹھانا ضرور ہوتا مگر اب زمانوں کے آخر میں ایک بار ظاہر ہوا تاکہ اپنے آپ کو قربان کرنے سے گناہ کو مٹادے "(انجیل شریف خط ِ عبرانیوں 9باب 25تا 26آیت )۔
"تمہاری خلاصی فانی چیزوں یعنی سونے چاندی کے ذریعہ سے نہیں ہوئی بلکہ ایک بے عیب اور بے داغ برے یعنی مسیح کے بیش قیمت خون سے ۔ ان (مسیح)کا علم تو بنائے عالم کے پیشتر سے تھا مگر ظہور آخر زمانہ میں تمہاری خاطر ہوا " (انجیل شریف خطِ اول حضرت پطرس 1باب آیت 18 تا 20)"کیونکہ شریعت کے اعمال سے کوئی بشر اس کے حضور راست بازنہیں ٹھہریگا۔اس لئے کہ سب نے گناہ کیا اور خدا کے جلال سے محروم ہیں۔ مگر اس کے فضل کے سبب اس مخلصی کے وسیلے سے جو مسیح میں ہے مفت راستباز ٹھہرائے جاتے ہیں اسے خدا نے اس کے خون کے باعث ایک ایسا کفارہ ٹھہرایا جو ایمان لانے سے فائدہ مند ہو "تاکہ جو گناہ پیشتر ہوچکے تھے اور جن سے خدا نے تحمل کرکے طرح دی تھی ان کے بارے میں وہ اپنی راستبازی ظاہر کرے " بلکہ اسی وقت اس کی راستبازی ظاہر ہوتاکہ وہ خود بھی عادل رہے اور جو مسیح پر ایمان لائے اس کو بھی راستباز ٹھہرانے والا ہے "(انجیل شریف خط ِ اہل رومیوں 3باب آیت 20،22،26)۔
مختصر یہ کہ مسیح کی کفارہ بخش قربانی کے ذریعہ وہ حد فاضل اٹھ جاتی ہے جو گناہ کی وجہ سے انسان اور خدا کے درمیان حائل تھی چونکہ مسیح ہمارے لئے موا فدیہ ہوا اور اس نے ہمیں مخلصی دلائی وہ ہمارے گناہوں کے لئے بدلہ ہوا اس لئے اس نے ہمیں مخلصی وہ ہمارے گناہوں کے لئے بدلہ ہوا اس لئے اس کی موت کے وسیلے اس کے خون بہائے جانے کے وسیلے اور مصلوب ہونے کے وسیلے معافی پاکیزگی گناہوں سے علیحدگی اور ابدی زندگی ملتی ہے۔
کفارہ بوسیلہ اعمال حسنہ
اعمال حسنہ کے ذریعہ نجات کی توقع رکھنا ایک خوش کن خیال ہے۔ کیونکہ بادی النظر میں اعمال حسنہ کے ذریعہ سے نجات پانا نہایت سہل او ربے حد مرغوب معلوم ہوتا ہے چنانچہ جب حضرت انسان اپنے تصور کے بادلوں پر سوار ہو کر قربت الہی حاصل کرنے کے لئے اطاعت ،ضبط نفس او رنیابت الہی وغیرہ کے مرحلے طے کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ تو وہ گناہ جو انسان کے اندر بستا ہے اس سے وہ متاثر ہوکر احکام الہی پر بلاکم وکاست جیسا کہ اس پر فرض ہے عمل نہیں کرسکتا ۔یا یوں کہیں کہ انسان جو مرکب من الخطا ہے وہ اپنی قوت بہیمی ،قوت سبعی اور قوت شہوانی کے باعث مذکور ہ مرحلوں کے طے کرنے کی بجائے گناہ میں پھنس کر اپنے معینہ فرائض کے ادا کرنے سے بھی قاصر ہوجاتاہے ۔
متعقدین اعمال حسنہ کو یہ محسوس کرلینا چاہیے کہ اگر بنظر تعمق دیکھا جائے تو کیا ازروئے عقل او رکیا ازروئے نقل اعمال حسنہ کے ذریعہ نجات پانا نہایت ہی مشکل ہے۔ ممکن نہیں کہ انسان اعلیٰ سبیل سے تو اتر نیکی کرتا جائے اور اس سے بدی سرزد نہ ہو۔ اور جب قوائے ثلثہ کے نتائج اور اثرات سےمتاثر ہوکر انسان احکام الہی پر عمل نہیں کرسکتا تو سزا ہی کا مستحق ہوگا چونکہ انسان ظاہربین اور حاضر پسند واقع ہوا ہے لہذا اس کا سفلی اور حستی امور کی طرف جلد مائل ہوجانا بدیہی اور روحانی وللی امور کی طرف بدیر بزحمت چنانچہ ایک باخبر صوفی نے اس مطلب کو یوں ادا کیا ہے۔
درمیان قعر دریا تختہ مبدم کردہ
باز میگوئی کہ دامن ترمکن ہشیار باش
یہی وجہ ہے بجز ربنا المسیح کے ہر انسان خواہ وہ نبی ہو یا ولی کبھی نہ کبھی اپنے خدا کی حکم عدولی کرکے گنہگار اور عاصی ہوگیا اور ابوالبشر آدم کی طرح اپنے خدا کے آگے یہ کہتا ہوا گرا ربناَظلمناَ انفسنا وَانِ لم لَغفَر لمناَونزَ حمناَ لکو نن الخاَسرین (ترجمہ ) اے ہمارے رب ہم نے برا کیا اپنی جان کا اور اگر تو نہ بخشے ہم کو او رہم پر رحم نہ کرے تو ہم ہوجا ویں نامراد (سورة اعراف ۲ع)۔
یہ امر مبرہن ہے کہ جیسے اندھا بینائی کی طرف سے مردہ اور عاری ہے ویسے ہی گنہگار بھی روحانی زندگی میں نشوونما پانے کی طرف سےمردہ ہے اس لئے ضرور ہے کہ وہ پہلے گناہ اور اس کے اثر سے بالکل رہائی پائے ورنہ ممکن نہیں۔ انسان کا ملاپ حق تعالیٰ سے ہو ،غرض جیسے اندھا کوبینائی کی ضرورت ہے ویسے گنہگار کو روحانی زندگی کی ضرورت ہے اس کی نو پیدروحانی زندگی خدا کی روح کے ساتھ وابستہ ہوکر نشوونما پائے ۔
چنانچہ جس طرح پتھر میں از خود زندگی ظاہر نہیں ہوسکتی کیونکہ اس میں کوئی باطنی اصول زندگی موجود نہیں جس کی وجہ سے وہ خود بخود بذریعہ نشوونما حیوانی طبقہ میں داخل ہوجائے ۔جب تک جان کا دخل خارجا ًبیجان پتھر میں اس کو بڑھاؤ کی صورت میں نہ لائے بیجان شے بدستور لاتبدیل رہےگی۔ اسی طرح گنہگار انسان جس کا دل مردہ ہے اسے حیات ابدی او رالہی طبعیت کے حصول کی ضرورت ہے۔
پس یہ امر ذہن نشین کرلینا چاہیئے کہ انسان میں اس وقت حقیقی اور بے لوث پاکیزگی کا مادہ پیدا نہیں ہوسکتا تا آں کہ وہ پہلے تمام امور میں یقین او رایمان کی مشعل سے الہی پاکیزگی حاصل نہ کرلے کیونکہ زندگی بذات خود اپنے حوالی میں کسی قسم کا انقلاب پیدا نہیں کرسکتی ۔ تاوقتیکہ پہلے اس کی اندرونی گہرائیوں پرشان الہی جاوہ گر نہ ہو کوئی نئی دنیا خارجی وجود اختیار نہیں کرسکتی جب تک کہ اس کا وجود پہلے انسان کی ضمیر میں مشکل نہ ہو ۔ اسی طرح کوئی شخص نیکی نہیں کر سکتا تاوقتیکہ وہ پہلے پاکیزگی کےچشمہ سے وابستہ نہ ہو جو بذریعہ ایمان بالکفارہ حاصل ہوسکتا ہے۔
چونکہ گناہوں کے سبب انسان کی طبعیت بگڑ جاتی ہے اور بگڑی ہوئی طبعیت سے نیکی کا صدور محال ہے اس لئے طبعی پاکیزگی حاصل کئے بغیر خدا تعالیٰ کا ملاپ اور حیات ابدی کا حصول غیر ممکن ہے ۔نیز اس سے یہ بھی ماننا پڑے گا کہ گنہگار اپنی طرف سے الہی بے عزتی اور انسانی حق تلفی کا پورا بدلہ دینے اور تقاضائے عدالت کو پورا کرنے کے قابل نہیں رہتا نہ گنہگار اپنی بگڑی ہوئی طبعیت کو از خود سدھارسکتا ہے کیونکہ برا آدمی برے خزانہ سے اچھی چیزیں نہیں نکال سکتا ہم تو سب کے سب ایسے ہیں جیسے ناپاک چیز اور ہماری تمام راستبازی ناپاک لباس کی مانند ہے (کتاب مقدس صحیفہ حضرت یسعیاہ 64باب 6آیت )۔
"پس جس طرح حبشی اپنےچمڑے کو یا چیتا اپنےداغوں کو بدل سکے تو تم بھی جو بدی کے عادی ہونیکی کرسکو گے "(کتاب مقدس صحیفہ حضرت یرمیاہ 13باب 23آیت )حالانکہ حیات ابدی حاصل کرنے کے لئے پاک طبعیت کا حصول ضروری ہے "اس پاکیزگی کے طالب رہو جس کے بغیر کوئی خداوند کو نہ دیکھے گا "(انجیل شریف خط ِعبرانیوں 12باب 14 آیت )۔مبارک ہیں وہ جو پاک دل ہیں کیونکہ وہ خدا کو دیکھیں گے ۔(انجیل شریف بہ مطابق حضرت متی 5باب 8 آیت)۔
طوالت کے خوف سے اس پر مفصل تبصرہ نہیں کیا جاسکتا تاہم مختصر اہم مباحث کی طرف اشارہ کردینا ضروری ہے او روہ یہ ہے کہ انسان اپنی نیکیوں کے ذریعہ اپنی خطاؤں کی تلافی نہیں کرسکتا ۔ کیونکہ نیکیوں کی کثرت کے سبب بدیوں کی پاداش سے بچ جانا خلاف عقل ہے ۔ اس لئے کہ اس میں ہر جہ دار کی کی داد رسی نہیں ہوتی نہ ہرجہ کے ملنے اور نہ ہرجہ کے بدلے کی صورت میں۔
(الف ) کیونکہ گنہگار سے بدیاں اوروں کے حق میں سرزد ہوں گی اور اسی طرح نیکیاں بھی دوسروں کے حق میں ۔
(ب) زیادہ نیکیوں والےگنہگار کے لئے سزا مفروض نہیں ہوسکتی ۔
(ج) بدکردار سے نیکیوں کا صدور ممکن نہیں تاوقتیکہ اس ک طبعی اصلاح پیشتر سے نہ ہواور طبعی اصلاح کے بعد بدی کی طرف میلان نہیں ہوسکتا ۔ پس گنہگار کا کوئی نیک عمل اس کی پہلی بد عملی کے اثر کے زوال کی علت نہیں ہوسکتا اور شد کو نشد نہیں کرسکتا ۔ مثلا ً اگر زید نے بکر کو قتل کیا یا کسی کے دل کو دکھایا وہ زنا وغیرہ کا مرتکب ہوا تو اس کا آئندہ نیک کام نہ گزشتہ اوقات کو واپس لا سکتا ہے او رنہ گزشتہ بد کرداریوں اور ان کے مکروہ نتائج کو مٹا سکتا ہے ۔
اگر گنہگار کی بگڑی ہوئی طبعیت سے نیکی کا صدور ممکن مانیں تو گناہ اور نیکی میں کوئی فرق نہ رہے گا گنہگار جو اپنے گناہوں کے باعث الہی غضب کا مورد ٹھہرتا ہے جب تک وہ اپنے گناہوں سے پاک اور ان کی پاداش سے بری نہ ہوجائے اس کا کوئی فعل خدائے قدوس وعادل کی نگاہ میں مقبول وپسندیدہ نہ ہوگا ورنہ گناہ خدا کی نفرت کا باعث نہ ہوگا۔
سچ تو یہ ہے کہ جتنے نیک کاموں کا صدور انسان سے ممکن ہے وہ سب کے سب فرائض میں داخل ہیں۔ اس لئے فرائض سے زیادہ کوئی ایسا نیک کام نہیں ہوسکتا جو گذشتہ بدکرداریوں کا معاوضہ ہوسکے ۔ مثلا ً ایک فیاض شخص نے طیش میں آکر زید کو مارڈالا اب کیا اس کی سخاوت او رنیکی اسےخون کے جرم سے بچا سکتی ہے ؟اگر وہ اپنی نیکی کی بنا پر رحم کا خواستگار ہو تو کیا حاکم وقت بغیر سزادئے اسے چھوڑ دیگا ۔ ہر گز نہیں بلکہ منصف مزاج حاکم یہ کہے گا اعمال حسنہ میں تم نے اپنافرض اداکیا۔ اس سے تمہارے گناہ کی معافی نہیں ہوسکتی ۔ اور جرم اپنی جگہ ہے اور نیکی اپنی جگہ ۔
پس یہ امر ہر طرح سے قبول کرنے کے لائق ہے کہ ہمارے نیک اعمال ہمارے بے شمار گناہوں کو مٹا نہیں سکتے ۔ بلکہ نیکی کرنا ہمارا فرض ہے ۔چنانچہ ربنا المسیح نے فرمایا کہ " جب تم سب حکموں کی تعمیل کرچکو تو کہو ہم نکمے نوکر ہیں جو ہم پر کرنا فرض تھا وہی کیا ہے ۔(انجیل شریف بہ مطابق حضرت لوقا 17 باب 10 آیت )۔
چونکہ نیک کام بجائے خود ضروری ہیں یعنی نیکی کا امکان رکھتے ہوئے نیک کام نہ کرنا بھی گناہ ہے ۔"تم اپنی شیخیوں پر فخر کرتے ہو ۔ایسا سب فخر برا ہے پس جو کوئی بھلائی کو جانتا ہے او رنہیں کرتا اس کے لئے یہ گناہ ہے " (انجیل شریف خط حضرت یعقوب 4باب 16،15 آیت )۔الغرض جو کچھ کرنا لازم تھا اگر وہ کرلیا تو اس گناہ سے بچ گئے ورنہ گنہگار ٹھہرے لیکن ایک بدی سے بچ جانا دوسرے گناہوں کا بدلہ نہیں ہوسکتا ۔
خدا تعالیٰ کی طرف سے رحم کا افادہ اگر گنہگار کی نیکیوں کے ساتھ مشروط مانا جائے تو وہ حقیقی رحم اور فضل نہیں ہوسکتا بلکہ عدل کوبالکل باطل کرکے اسے توغیر مقید انطہور بنائے گا ۔ اور خود اپنی حقیقت کے خلاف مقید الظہور ٹھہریگا ۔پھر طرفہ یہ کہ جس شرط سے رحم الہیٰ کو مشروط فرض کیاگیا تھا وہ بھی تقاضائے عدالت کو پورا نہیں کرسکتا ۔ بلکہ اس کی صورت ایسی ہی ہوگی جیسے کوئی مجرم سزا سے بچنے کے لئے نیکیوں کی دولت گویا رشوت کے طور پر پیش کرے تاکہ وہ قاضی کی رعایت حاصل کرکے جرم کی پاداش اور عدالت کے مواخذہ سےچھٹکا را پائے ۔ اگر رحم الہیٰ کا مستحق وہی مانا مائے جس کے پاس کچھ نیک اعمال ہو ں تو اس طرح پررحم کا مستحق ٹھہرنے کے لئے مجرم کے نیک اعمال اس کے لئے باعث فخر ٹھہرینگے کیونکہ اس امر میں دوسرے گنہگاروں پر اس کی ترجیح کا باعث نیک اعمال ہی ہونگے ۔
اس سے خلاف عقل مشاہدہ یہ ماننا پڑے گا کہ رحم کا کچھ بدلہ پیش نہ کرسکنے والا رحم کا مستحق نہیں ہوسکتا ۔ بلکہ معاوضہ پیش کرنے والا ہی رحم کا مستحق ہوسکتا ہے اگر نجات بخش ایمان کے ساتھ طبعیت کی تبدیلی او رنیکی کی طرف طبعی میلان لازمی نہ ہو تو ایسا ایمان نجات بخش کیسے متصور ہوسکتا ہے ؟کیونکہ اگر وہ علت گناہ سے نہ چھڑائے تو اس کے نتیجہ میں ابدی ہلاکت سے بچانے میں کس طرح موثر ہوگا اور جس ایمان سے نیک کرداری کی طرف طبعیت مائل نہ ہو ایسے ایمان کو خدا ئے قدوس کے ساتھ کیا مناسبت ہوسکتی ہے ؟کیونکہ "خدا نور ہے اس میں ذرا بھی تاریکی نہیں اگر ہم کہیں کہ ہماری اس کی شراکت ہے اور پھر تاریکی میں چلیں تو ہم جھوٹے ہیں اور حق پر عمل نہیں کرتے "(انجیل شریف خط اول حضرت یوحنا 1 باب 5تا 6 آیت )۔جو کوئی اس میں قائم رہتا ہے وہ گناہ نہیں کرتا جو کوئی گناہ کرتا ہے نہ اس نے اسے دیکھا اور نہ جانا ہے ۔ (انجیل شریف خط اول حضرت یوحنا 3 باب 6آیت )۔
پس گناہوں کے سبب سے گنہگار کی طبعیت کا بگڑ جانا بدی ہے اور بگڑی ہوئی طبعیت سے حقیقی نیکی کا صدور ممکن نہیں اگر گنہگار کی بگڑی ہوئی طبعیت سے نیکی کا صدور مان بھی لیا جائے تو اس سے گنہگار کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔ او رنہ ہی اس کو جس کے خلاف اس سے گناہ سرزد ہوئے بلکہ اس کے کسی نیک عمل سے خدا تعالیٰ کو بھی نفع نہیں ہوسکتا ۔کیونکہ ایسا مفروضہ شان الوہیت کے منافی ہے ۔ پس بد عملی کا معاوضہ حسنات کو ماننا خلاف انصاف ہے۔
کفارہ اور سزا
سزا وہی ایک عدالتی امر ہے جو بذات خود تشفی بخش نہیں مجرم کو سزا ملنے سے مظلوم کی تسکین نہیں ہوسکتی یعنی ہر جہ دار کو ہر جہ نہیں پہنچتا ۔مثلاً اگر زید نے بکر کو قتل کیا اب اگر اس جزم کی پاداش میں زید کو کافی سزا دی جائے تو بھی بکر کی زندگی واپس نہیں آسکتی ۔ او رنہ ہی ا س کی بیوی کے بیوہ اور اس کے بچوں کے یتیم ہوجانے کے نقصان کی تلافی ہوسکتی ہے۔ اگر چہ سزا کی غرض وغائت یہ ہوتی ہے کہ خطا کار کو آئندہ کے لئے باز رکھا جائے ۔ اس لئے سزا کفارہ کا بدل نہیں ہوسکتی جہاں تک کفارہ کا تعلق ہے سزا کافی نہیں ہوسکتی او رنہ ہی حقیقی کفارہ کا متراد ف قرار دی جاسکتی ہے ۔سزا اگرمناسب طور پر بھی دی جائے تو اس کا نتیجہ جسمانی تکلیف پہنچانا ہی ہوگا۔ تاکہ وہ آئندہ بدی کا مرتکب نہ ہو ۔ اس سے صرف انتظامی حیثیت سے روک تھام ہوتی ہے نہ کہ روحانی بلکہ اکثر مجرم سزا کے بعد پہلے کی بہ نسبت نہایت سخت دل اور جرائم پیشہ ہوجاتے ہیں۔ بفرض محال اگر کوئی سزا یافتہ نیکی کی طرف راغب ہو تو وہ حقیقی نیکی نہ ہوگی۔ کیونکہ حقیقی نیکی الہی محبت پر مبنی ہے اس لئے اگر مجرم سزا کے ڈر سے کوئی اچھا کام کرے تو وہ حقیقی نیکی نہیں کہلائیگی ۔ نیز ایسے شخص کا بدیوں سے بار رہنا الہی محبت کی خاطر نہ ہوگا۔ بلکہ سزا سے بچنے کے لئے
لہذا ایسی راستبازی جو لالچ اور خوف پر مبنی ہو وہ کسی صورت میں بھی حقیقی نہیں ہوسکتی ۔ اور خدا تعالی ٰ کے ساتھ مجرم اپنی غیر طبعی موافقت کے باعث نجات اور قربت الہی بھی حاصل نہیں کرسکتا۔
چونکہ گنہگار ارتکاب گناہ سے خدا تعالیٰ کی عدول حکمی کرتا ہے نہ صرف یہ بلکہ اپنی زندگی میں صدہا نفوس کو دکھ پہنچانے کا موجب ہوتا ہے اس لئے اگر ملزم کو تا ابد سزا بھی دی جائے تو بھی خدا اور انسان کی بے عزتی اور حق تلفی کامعاوضہ ادا نہیں ہوسکتا۔ اگر اسے سزا دی جائے تو وہ انتقامی ہوگی نہ کہ اس کی بدکرداری کے نتائج کا کافی معاوضہ ہوسکتا ہے ۔ جس کے بعد وہ نجات کا حقدار ٹھہرے لیکن سزائے انتقامی کبھی تنبیہ نہیں کہلا سکتی کیونکہ اول کا مخرج عدالت ہے اور ثانی کا مخرج محبت ہے ۔ اس لئے تنبیہ اس عالم سے مختص ہوگی۔ اور انتقامی سزاآنے والے جہان سے،پس اس سے سزا یاب کی اصلاح نہیں ہوسکتی او رنہ ہی کسی قسم کا فائدہ ہوسکتا ہے۔ نہ خالق کے لئے نہ ظالم کے لئے اور نہ مظلوم کےلئے کیونکہ سزائے عدالت پانے کے بعد اس میں اصلاح پذیر ہونے کی قابلیت نہ رہے گی ورنہ جہنم میں نیکی وبدی کا امکان ماننا پڑے گا۔
پس اگر اس جہان میں گنہگار کے اصلاح پذیر ہونے کا امکان مان لیا جائے تو خدا تعالیٰ جو قادر مطلق اور سراسر محبت ہے ۔ وہ گنہگار کو یوم عدالت میں محض انتقامی سزا دینے کے لئے نہ چھوڑے گا۔ اور جس سے کسی طرح کا فائدہ بھی ممکن نہیں ۔ نہ تو خدا کو ،نہ ظالم کو اور نہ مظلوم کو۔ لیکن وہ جس کے سارے کام حکمت اور محبت سے پر ہیں اس سے ایسی امید نہیں کرسکتے جس طرح ایک غصیلے حاکم سے کی جاتی ہے اس کے ماسوا اگر سزا کے ذریعہ مواخذہ عدالت سے کامل بریت بھی فرض کر لیا جائے تو بھی سزا کے ذریعہ کامل نجات کا حصول ممکن نہیں کیونہ سزا کے ذریعہ گنہگار کی طبعیت الہٰی طبعیت کے تابع نہیں ہوسکتی اس لئے کہ گناہ آلودہ طبعیت سے حقیقی نیکی کا صدور ممکن نہیں جس طرح کھاری چشمے سے میٹھا پانی نہیں نکل سکتا ویسے ہی کسی متضاد شے سے متاثر طبعیت سے اس کی ضد کا صدور ممکن نہیں نیز الہٰی خوشنودی کا حاصل کرنا بھی محال ہوگا۔ او رانتہائی سزا کے ذریعہ طبعیت کی اصلاح اور کسی نوع کی پاکیزگی بھی باطل قرار د ی جائے گی۔اور یہ سزا میں گرفتار ہوکر اس سے الہٰی بے عزتی اور انسانی حق تلفی کے صدور کا امکان ماننے سے مواخذہ عدالت باطل ٹھہر ینگے ۔ بلکہ دنیا وعقبی میں سزائے نظامت اور سزائے عدالت میں کوئی فرق باقی نہ رہے گا۔
کفارہ اور توبہ
گناہوں سے توبہ کرنا اور برے افعال سے پشیمان ہونا ایک شرایفانہ فعل ہے لیکن مجرد توبہ ہی کو خدا کی خوشنودی اور گناہ سے نجات حاصل کرنے کا ذریعہ ٹھہرا لینا عادل خدا کی قدوسیت پر بٹہ لگانا ہے۔کیونکہ توبہ استغفار کا مقصد یہ ہے کہ گذشتہ گناہوں پر نادم ہونا اور آئیندہ ارتکاب گناہ سے بچنا لیکن عدالت کا تقاضہ نہ محض پچھتانے سے پورا ہوتا ہے اور نہ آئندہ افعال ناشائستہ سے باز رہنے کے ارادے سےفرض کیجئے زید کسی جرم کا مرتکب ہوا اب وہ اپنے کئے پر نادم اور پشیمان ہوکر حاکم وقت سے رحم کا خواستگار ہوتا ہے۔ لیکن کیا حاکم اس کی ندامت اور آنسووں کو دیکھ کر اسے چھوڑدے گا؟ہر گز نہیں کیونہ ایسی معافی سخت بے انصافی ہوگی ۔ جب جرم ایک با رثابت ہوچکا تو پھر قانونی تقاضا ،لابدی ہے ورنہ عدالت بے معنی ثابت ہوگی۔ یعنی اگر عدالتی تقاضہ ملحوظ نہ رکھا جائے اور مجرم سزا نہ پائے تو قانونی اصول پائمال ہوجائینگے ۔لیکن وہ جو کہ عادل ہے وہ کیونکر ایسا کرسکتا ہے جو دنیاوی حاکم بھی نہیں کرنا چاہتے اگر بالفرض محال خدا تعالیٰ ایسا کرے بھی تو کیا وہ عادل کہلاسکتا ہے او رکیا تعطل سے اس کی ذات میں نقص وارد نہ ہوگا؟ہاں ضرور ہوگا۔اس لئے بغیر تقاضائے عدل پورا کئے گنہگار کا چھوٹ جانا عقلاّ محال ہے اگر کسی کا ہاتھ آگ سے جل جائے اور بعدہ اپنی نادانی سے پشیمان ہوکر توبہ کرے تو کیا آگ کا اثر توبہ سے جاتا رہے گا؟ہر گز نہیں۔اسی طرح سے گذشتہ گناہوں پر پشیمان ہونا اپنی نادانیوں سے شرمسار ہونا ان سے توبہ کرنے وغیرہ سے مریض گناہ کو شفا نہیں مل سکتی ۔ تاوقتیکہ اس کا مناسب علاج نہ کیا جائے ۔ ہاں اگر توبہ سے مراد حقیقی توبہ اور خدا تعالیٰ ک
کے فضل پر بھروسہ رکھنا ،ہو تو عدالت کے تقاضاء کوپورا کرنے کے متعلق جو خدا تعالیٰ کی طرف سے کفارہ مسیح کو تجویز کیاگیا ہے اس پر ایمان لا کر او راپنی بے بسی کو مدنظر رکھ کر اپنے آپ کو خداوند کے مفت فضل کے سپرد کردیا جائے تب رحمت حق جوش میں آئیگی۔
تڑپ کے شان کریمی نے لے لیا بوسہ
کہا جو سر کو جھکا کر کہ گنہگار ہوں میں
رحم بلا مبادلہ
چنانچہ وہ جو توبہ ہی کو گناہ کی معافی کا ذریعہ سمجھتے ہیں وہ ساتھ ہی ساتھ خدا کے رحم کو بھی پیش کرتے ہیں اس میں سک نہیں کہ خدا رحیم ہے لیکن وہ عادل بھی ہے اس لئے کہ وہ کسی گنہگار کو بغیر تقاضاّ عدالت پورا کئے رحیم کہلانا پسند کرتا یا یوں کہیں کہ وہ رحیم ہونے کے لئے اپنی صفت عدل سے معطل نہیں ہوجاتا اگر خداوند تعالیٰ ایسا کرے بھی تو اس کا عدل قائم نہ رہے گا اور تعطل سے ا س کی ذات میں نقص وارد ہوگا۔اور ساتھ ہی ساتھ کل انسانوں پر بھی رحم کرنا ضرور ہوگا۔ یعنی بت پرستوں اور مشرکوں اور بت پرستوں کو معاف نہیں کرتا۔ ورنہ انبیاء کا معبوث ہونا کتب سماوی کا نازل ہونا ۔ یہ سب عبث ٹھہرینگے لیکن چونکہ یہ سب عبث نہیں اس لئے محض رحم سے نجات کی توقع رکھنا باطل ہے۔
اگر کوئی حاکم مجرم کو سزادئے بغیر چھوڑدے توکیا وہ بے انصاف نہیں ٹھہریگا۔او رکیا خدا تعالی ٰ ایسے حاکم کو گنہگار نہ ٹھہرائیگا؟اگر نہیں تو احکام شرعی باطل نہیں ٹھہرینگے اگر خدا ایسے حاکم کو بے انصاف ٹھہرائیگا تو وہ جو کہ عدل کاسرچشمہ ہے بھلا اس میں بے انصافی کیونکر پائی جائیگی۔ جبکہ وہ دنیوی حاکم کے لئے مکروہ سمجھتا ہے۔ نیز خدا تعالیٰ اس نیکی کا مطالبہ کس طرح کر سکتا ہے جو خود اس کی قدوس ذات میں موجود نہیں؟کیانیکیوں کا معیار الہٰی طبعیت نہیں ؟اگر خدا تعالیٰ میں رحم کی صفت اس قدر غالب ہے کہ وہ عدل کو نظر انداز کرسکتا ہے تو انسان میں ایسی صفت کیونکر معیوب مانی جاسکتی ہے ؟الہٰی ذات میں عدل کو عنقا کرنےسے الہٰی قدسیت محفوظ نہیں رہ سکتی ۔ اس لئے محض رحم سے نجات ممکن نہیں ۔کیونکہ خدا تعالیٰ کی عدالت اٹل ہے اگر خدا تعالیٰ کی مرضی کے مطابق گناہ کی بخشش بلا معاوضہ ہوسکتی ہو تو وہ عادل اور قدوس نہ رہے گا ۔کیونکہ عدل یہ نہیں کہ گناہوں کی سزا اور انتقام کے متعلق عام شریعت دے کر بعض کو سزادئے بغیر چھوڑدے اور بعض کو سزا دے گویا کہ ان کے خلاف قدوس خدا کو نفرت نہیں۔
گنہگار ہر حالت میں ظالم ہوتا ہے اور رحم مظلوم کی طرف مائل ہوگا نہ کہ مظلوم کی حالت کو نظر انداز کردیا جائے ۔ اور ظالم پر رحم پس ضرور ہے کہ پہلے تقاضا ئے عدل پورا ہوتا کہ ظالم اور مظلوم کی حیثیتیںمساوی ہوجائیں۔ ورنہ مظلوم کی داد رسی کو نظر انداز کرنے سے ظالم پر رحم کرنا عین ظلم ہے پس رحم مذکورہ سے ظاہر ہے کہ رحم بلا مبادلہ یعنی عدل کو نظر انداز کرکے مجرم پر رحم کرنا کسی حالت اور کسی صورت میں جائیز نہیں۔
نیز گناہوں کی جتنی ایجابی صورتیں ہیں وہ سب کی سب سوار شرک کے انسانی حق تلفی کے متعلق ہیں اور دیگر گناہ یعنی عبادت الہٰی وغیرہ بجالانا سبہی حیثیت کے ہیں۔پس جبکہ ایجا بی گناہوں کے لئے رحم بلامبادلہ باطل ہے تو وہ گناہ جو صرف ذات الہٰی سے متعلق ہیں کیونکر معاف ہوسکتے ہیں جبکہ ازروئے اسلام گناہ شرک ہی ناقابل معافی ہے ،لہذا رحم بلامبادلہ ہر حالت میں باطل ٹھہریگا۔ اس میں شبہ نہیں مجرم اسی وقت رحم سے فائدہ اٹھاسکتا ہے جبکہ رحم کرنے والا رحم کرے ۔اگر نہ کرے تو وہ بے انصاف نہ ٹھہریگا کیونکہ رحم قرضہ دادنی نہیں۔ اس لئے کسی کا حق نہیں کہ ضرور اس پر رحم کیا جائے پس رحم کے لئے اعمال حسنہ ضروری نہیں ہوسکتے۔ ورنہ رحم رحم نہ رہے گا۔
رحم بامبادلہ
البتہ یہ ضرور ہےکہ جس طرح مجرم پر رحم کے لئے بدلہ ضروری ہے تاکہ عدل کا تقاضا پورا ہو ویسے ہی یہ بھی ضروری ہے کہ بدلہ خود راحم کی طرف سے ہو کیونکہ ازروئے عدل گناہ کا ہر جہ ضرور کسی پر پڑے گا۔ اگر گنہگار پر پڑے اور بلا معاوضہ نظر انداز کردیا جائے تو نہ حقیقی عدل ہوگا نہ حقیقی رحم کیونکہ جو ہر جہ یا پاداش نظر انداز ہوجائے ۔ اس سے عدل مقید الظہور نہ رہے گا۔ اور رحم کے لئے کچھ اور ادا کرنا شرط مانا جائے گا ۔تو رحم غیر مفید الظہور نہ رہا اور نہ ذات رحم پر منحصر بلکہ ادا کرے پر منحصر اور ادا کرنے والے کا حق ٹھہرا اور رحم بھی ہوگا۔ جو بہر حال غیر مقید الظہور ہوگا۔ اور حقیقی او رکامل عدل بھی ہوگا۔ جو بہر صورت مقید الظہور ہو اور آخری شق کے سوا باقی شقو ں میں تو رحم الہٰی باطل ٹھہریگا یا عدل الہٰی گنہگار کی نجات ایسے طریقہ سے ہوسکتی ہے جس میں خدا کے تمام اوصاف قائم رہیں اور ان کا اظہار بھی مناسب طریقہ سے ہو۔ یعنی نہ تو اس کا عدل اس کی رحمت کو معطل کرے اور نہ ہی اس کی رحمت اس کے عدل کو جھٹلا ئے بلکہ وہ ایسا طریقہ اختیار کرے کہ اقتضاد ء عدل بھی پورا ہوجائے اور رحم بھی جیسے کوئی جج اگر کسی جرم کی پاداش میں مجرم کو سزائے جرمانہ کرے اور مجرم اقبال جرم کرتے ہوئے رحم کی درخواست کرے اور جج اقتضاء عدل پورا کئے بغیر رحم کرے تو وہ عادل نہیں رہے گا۔ اور اس کے برعکس عدل ہی کو کام میں لائے تووہ راحم نہیں کہلائے گا ۔ ہاں اگر فاضل جج ہر جہ خود برداشت کرے یعنی مجرم کے عوض میں زر فدیہ اداکرے۔ تو محرم کے بچنے کی سبیل ہوسکتی ہے ورنہ ممکن نہیں کہ مجرم سزائے عدالت سے بچ جائے پس جب تک جج مجرم کی سزا خود نہ اٹھائے عدل اور رحم کا تقاضا پورا نہیں ہوسکتا ۔چنانچہ ربنا المسیح نے رحم اور عدل ظاہر کرنے کے لئے اپنی جان گنہگاروں کے بدلے میں دے دی حالانکہ وہ بے گناہ تھے۔ لیکن چونکہ اس کی محبت انسان سے گہری تھی۔ اور صلیب اس کی راہ میں آئی تو انہوں نے صلیب کو قبول کیا۔ برضا ورغبت صلیبی موت گوار اکی۔اس حیثیت سے وہ انسان کا نمائندہ بن کر اپنی مبارک زندگی اس فدیہ میں دی جو انسان اپنی بے بسی کے باعث ادا نہ کرسکتا تھا۔ یعنی انسان جب کہ خدا کی اطاعت اور عزت کا حق ادا نہ کرنے کے باعث مجرم تھا۔ لیکن اس جرم کی پاداش میں مسیح نے انسان کی طرف سے کفارہ بخش قربانی چڑھائی اور یوں خدا نے مسیح میں اپنا عدل اور رحم دونوں کو ظاہر کیا اور حکموں وہ دستاویز مٹا ڈالی جو ہمارے نام پر اور ہمارے خلاف تھی اور اس کو صلیب پر کیلوں سے جڑ کر سامنے سے ہٹا دیا۔ اس نے حکومتوں اور اختیاروں کو اپنے اوپر سے اتار کر ان کا برملا تماشہ بنایا اور صلیب کے سبب سے اپنی فتحیابی کا شادیانہ بجایا۔
الغرض چونکہ گناہوں کا بدلہ لازمی ہے اور خدا تعالیٰ کی عدالت اٹل ہے ۔ اس لئے رحم بلا مبادلہ تو باطل ہے ۔ مگر کگارہ مسیح سے تقاضائے عدل کے استفادہ کی صورت میں رحم بامبادلہ منافی عدل نہیں یوں عدل تو ضرور مقید الظہور ہے مگر رحم مقید الظہور نہیں یعنی نہ گنہگار اپنے کسی نیک عمل کی بنا پر رحم الہٰی کا مستحق ٹھہرتا ہے اور نہ جزو کی ادائیگی کل پر حاوی ہوکر تقاضائے عدل کو پورا کرسکتی ہے ۔ پس خدا تعالیٰ کی طرف سے رحم بامبادلہ یعنی فضل باعدل کا افادہ غیر مشروط ہے ۔ مگر فضل الہٰی سے استفادہ کے لئے بذریعہ ایمان اس پر حقیقی اور کامل بھروسہ رکھنا ضروری اور اکیلی شرط ہے اس کے فضل کے سبب اس مخلصی کے وسیلے سے جو سیدنا مسیح میں ہے مفت راستباز ٹھہرائے جاتے ہیں۔ اسے خدا نے اس کے خون کے باعث ایک ایسا کفارہ ٹھہرایا جو ایمان لانے سے فائدہ مند ہوتا کہ جو گناہ پیشتر ہوچکے تھے۔ اور جن سے خدا نے تحمل کرکے طرح دی تھی ان کے بارے میں وہ اپنی راستبازی ظاہر کرے بلکہ اسی وقت اس کی راستبازی ظاہر ہوئی ۔ تاکہ وہ خود بھی عادل رہے اور جو مسیح پر ایمان لائے اس کو بھی راستباز ٹھہرانے والا ہو۔ پس فخر کہاں رہا ؟اس کی گنجائش ہی نہیں کونسی شریعت کے سبب سے ؟کیا اعمال کی شریعت کے سبب ؟نہیں بلکہ ایمان کی شریعت سے (انجیل شریف خط اہل رومیوں 3باب 24تا 27آیت )۔
کفارہ مسیح اور اس کی اہمیت
ان گزارشات کے بعد میں کفارہ مسیح او راس کی اہمیت کی طرف توجہ کرتا ہوں کہ مسیحیت میں کفارہ سبب حصول نجات قرار دیاگیا ہے یعنی نجات بذریعہ ایمان بالکفارہ حاصل ہوسکتی ہے اور نجات سے مراد آثار گناہ اور اس کے نتائج سے کامل رہائی پاکر تقرب الہٰی حاصل کرنا تاکہ ہم آگے کو گناہ کی غلامی میں نہ رہیں بلکہ الہٰی طبعیت کے تابع ہوکر پاکیزگی میں ترقی کریں۔ یا یوں کہیں کہ کفارہ مسیح ایک ایسی راہ ہے جس پر ایمان لانے سے انسان نجات خدا کی رضا مندی اور تقرب الہٰی حاصل کرتا ہے پس اگر ہم یہ سمجھنا چاہیں کہ خدا کی حقیقی رضا مندی کس طرح حاصل ہوسکتی ہے ؟ضرور ہے کہ ہم پہلے اس کی صفات پر غور کریں جب ہمیں صفات معلوم ہوجائے گی تب یہ جاننا آسان ہے کہ خدا ہم سے کیا چاہتا ہے ۔
ربنا المسیح نے ہمیں یہ تعلیم دی کہ خدا ہمارا آسمانی باپ ہے ۔ جو ہم سے محبت کرتا ہے۔ اس کا ارادہ یہ ہے کہ انسان بھی اس کے ساتھ محبت اور پاکیزگی کار شتہ پیدا کرے لہذا گنہگاروں کو بچانے کی خاطر اس نے اپنے ابن کو دنیا میں بھیجا ۔ تاکہ وہ خدا کی محبت کا مکاشفہ گناہ آلودہ دنیا پر ظاہر کرے اگرچہ خداوند تعالیٰ قادر مطلق ہے لیکن اس کی محبت بھی ویسی ہے ۔جو تمام شیطانی رکاوٹوں پر غالب آتی ہے۔۔۔۔۔۔۔اگر خدا لامحدود اور ازلی ہے تو اپنی محبت میں صادق اور لاتبدیل ہے ۔ اگر خدا حاضروناظر ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی محبت میں ہر جگہ موجود ہے ۔ اگر خدا غفار ورحیم ہے تو محض اپنی محبت کی وجہ سے اگر خدا غیور ہے تو اس کی غیرت محبت کی وجہ سے جوش زن ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ خدا کا غضب بھی آتش محبت کی چنگاریاں ہیں۔ جو ہمارے گناہوں کو بھسم کرنے کے لئے ہیں۔ تاکہ انسان توبہ کی طرف مائل ہو اور اپنے نکتہ نظر سے پلٹ کر الہٰی طبعیت کے تابع ہوجائے پس جبکہ خدا محبت ہے تو ہمارا فرض اولین یہ ہے کہ ہم خداوند اپنے خدا سے اپنے سارے دل اور اپنی ساری طاقت سے محبت رکھیں۔ خدا اور انسان سے محبت رکھنا حقیقی نیکی ہے برعکس ایسے افعال کا ارتکاب جو خدا اور انسان کی محبت کے منافی ہو بدی ہے لیکن چونکہ انسان طبعاً گنہگار ہے اس لئے وہ احکام الہٰی جیسا کہ اس پر فرض ہے عمل نہیں کرسکتا تو وہ تقرب الہٰی سے محروم رہے گا۔ اس طبعی تضاد وتحائف کے باعث ہی گنہگار مورد غضب الہٰی ہے ۔
کفارہ او ر مصالحت
توبہ کرنا یا قربانی وغیرہ دینے بجز اعتراف گناہ سے اظہار نفرت کے کوئی اور فائدہ گنہگار کو نہیں ہوتا۔ حالانکہ توبہ کا مقصد معافی حاصل کرنا تھا لیکن چونکہ توبہ اور قربانی وغیرہ سے متضرر کے نقصان کی تلافی اور تسکین نہیں ہوسکتی اس لئے مجرم تقاضائے عدالت کی رو سے مستوجب سزا ٹھہراتا ہے ۔ اس نکتہ کی وضاحت کے لئے میں یہ عرض کرونگا کہ اگر مجرم اقبال جرم بھی کرے اور آئندہ نہ کرنے کا وعدہ بھی کرے اور پشیمان ہوکر معافی بھی مانگے ۔ یہاں تک کہ ہرجہ بھی ادا کرنے کے لئے تیار ہو لیکن متضرر معاف کرنے کے لئے کسی صورت میں بھی تیار نہیں توکیا مجرم کو نہ اعتراف جرم ہے او رنہ ہی اپنے اعمال سے اظہار نفرت ،کیونکہ وہ اپنے اعمال میں کوئی غلطی نہیں دیکھتا ۔ لیکن ا س پر متضرر معاف کردیتا ہے توکیا اس صورت میں ان دونوں کا قلبی مصافحہ ہوسکتا ہے ؟ممکن نہیں کیونکہ مصالحت دلالت رکھتی ہے دلی تبدیلی پر اور کامل محبت پر جبکہ ہر دو ایک دوسرے کو لبیک کہنے کو تیار ہوں۔پس جب تک ظالم اور مظلوم کی دلی تبدیلی نہ ہوجائے ممکن نہیں کہ بطور اجتماع ضد یں ملاپ ہو روشنی اور تاریکی میں کیا شراکت اور راستبازاور بے دین میں کیا میل جول جبکہ کفارہ کا مقصد یہ ہے کہ انسان الہٰی محبت کا گرویدہ ہوکر طبعاً نیکی کرے البتہ مسیح کی قربانی پر ایمان لانے سے گنہگار شخص گناہ اور اس کے نتائج سے بھی رہائی پاتا ہے اور یوں مسیح روح القدس کے ذریعہ ایماندار میں بستا ہے ۔ ایماندار کی روح جلال سے جلال تک بدلتا جاتاہے حتیٰ کہ خداوند کے کمال کا آئینہ بنادیتاہے ۔ (انجیل شریف خط دو ئم کرنتھیوں 3باب 1و18آیت )۔علاوہ بریں کسی قسم کا نیک عمل جب
تک خطا کار کی دلی تبدیلی نہ ہو۔ اسے کوئی فائدہ پہنچا نہیں سکتا ۔ بلکہ اس کے نیک اعمال بطور رشوت مانے جائینگے ۔ اسی قسم کے افعال سے خداوند تعالیٰ کو نفرت ہے کیونکہ خدا کے ہر کام معقولیت تنظیم قدوسیت اور محبت سے پر ہوتے ہیں اس کا ارادہ یہ ہے کہ انسان بھی اس کے ساتھ محبت کا رشتہ پیدا کرے چونکہ وہ قدوس ہے اس لئے وہ چاہتا ہے کہ انسان بھی مقدس جذبات رکھے۔ مقدس کام کرے اور گھنونے افعال سے نفرت رکھے۔ ورنہ انسان اور خدا میں مصالحت ممکن نہیں کیونک اجتماع ضدین محال ہے ۔
خدا ہمارا آسمانی باپ ہے
کفارہ مسیح کو عمدگی سے سمجھانے کے لئے میں ایک اور مثال پیش کرتاہوں فرض کیجئے کہ ایک دیندار باپ اپنے بیٹے کو صحیح طریقے سے تربیت کرنا چاہتا ہے ۔ لیکن بدقسمتی سے اس کا بیٹا بد صحبت میں پڑجاتا ہے اس کے والدین انتہائی کوشش بھی کرتے ہیں کہ وہ کسی طرح بدی سے باز آئے مگر ان کا بیٹا اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے ہمہ قسم کے حیلے تراشتا ہے ۔ اگر کوئی ایسی نصحیت کرے تو کہتا ہے کہ یہی عمر کھیلنے کو دنے کی ہے ۔ اگر اس زمانہ میں عیش وعشرت نہ کی تو پھر موقع کہاں یہ دنیا چار دن کی ہے ۔ لہذا کھاو پیو مزے اڑاو کل مر ہی جانا ہے ۔ اور کبھی یہ کہتا ہے کہ میں دنیا میں کوئی انوکھا کام نہیں کررہا۔ سبھی ایسا کرتے ہیں اگر اسے کوئی یہ کہے کہ دیکھو میاں تم اپنا روپیہ فضول خرچی میں صرف کرتے ہو موجودہ یا ر اغیار ہو جائینگے اپنے بیگانے ہوجائینگے ۔ بیگانے تو بیگانے ہی ہیں ان کا ذکر کیا لہذا اب بھی سنبھل جاو۔
چنانچہ اس قسم کی نصیحتیں اس پر کچھ اثر نہیں کرتیں وہ بدستور اپنے مستقبل سے لاپروا رہتا ہے ۔لیکن اس کے والدین اپنے بیٹے کی شہر آفاق بدیاں سن سن کر کڑکڑاتے ہیں غمگین ہوتے ہیں شرمسار ہوتے ہیں۔ تو بھی اپنی محبت کی خوبی ہر وقت دکھلانے کے لئے تیار رہتے ہیں اگر اسے نشے کی حالت میں گندی نالیوں میں پڑ اپاتے ہیں۔ تو اسے اٹھالاتے ہیں۔ بعض دفعہ والدین کورٹ میں جاکر اپنے لڑکے کے معاوضہ میں جرمانہ بھی ادا کرتے ہیں۔اسی طرح جرمانوں اور قرضوں کو ادا کرتے کرتے وہ مفلس ہوجاتے ہیں تباہ وبرباد ہوجاتے ہیں۔تو بھی اپنی محبت کی خوبی ہر وقت دکھلاتے ہیں کہ کسی طرح ان کا بیٹا بچ جائے ۔
علاوہ بریں ان کی شرمندگی وجہ یہ تھی کہ وہ دیندار تھے۔ او ریہ کہ اپنے بچے سے گہری محبت رکھتے تھے۔ اگر والدین بھی اپنے بیٹے ہی کی طرح ہوتے تو وہ اپنے بیٹے کے ساتھ شراب پیتے جو ا کھیلتے اور چوری کرتے اپنے بیٹوں کی شرارتوں سے خوش ہوتے لیکن چونکہ وہ نیک تھے اس لئے وہ اپنی بے عزتی سے خوف زدہ ہوتے ہیں اور محبت اورپاکیزگی کی وجہ سے اپنے بیٹے کو گناہ کے گڑھے سے نکالنا چاہتے تھے۔لیکن بیٹا ہے کہ اسے کسی قسم کی پروا ہ نہیں مختصر یہ کہ وہ اپنی عزت اپنا وقار اپنی دولت اپنی تندرستی کھو بیٹھے ہیں۔ اب اس لڑکے کے لئے کس طرح کفارہ پیش کیا جائے اس نے نہ صرف خودکو برباد کیا بلکہ اپنے والدین کو بھی تباہ کیا۔ اب ممکن نہیں کہ وہ دولت جو اس نے بیہود گیوں میں اڑائی دی اور وہ وقت جو اس نے لہو ولعب میں کھو دیا کسی طرح واپس آسکے ۔ اب نا ممکن ہے کہ اس کی تعلیمی نقصان کی بھی تلافی ہوسکے ۔ کیونکہ وقت اور موقعہ گذر چکا صرف ایک ہی طریقہ ہے جسکی بنا پر وہ شرمسار ہوکر اپنے باپ کے ساتھ رشتہ محبت از سر نو جوڑ سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر کوئی اسے اس کے بوڑھے باپ کے بستر کے پاس لے جائے اور کہے کہ دیکھو تمہارا یہ ضعیف باپ تمہاری وجہ سے روتے روتے اندھا ہوگیا اور تمہاری فکر میں گھل گیا۔ اب کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا ۔ تمہاری وجہ سے ان کی صحت او رمالی حالت تباہ ہوگئی۔ ان کی عزت او ران کا وقار مٹ گیا دیکھو وہ تم سے کس قدر محبت کرتے ہیں اور تمہارا خیال کس قدر کرتے ہیں کہ صرف یہی ایک موقع ہے انہیں راضی کرلو۔
ممکن ہے کہ وہ اپنے والدین کی شکستہ حالت دیکھ کر بدیوں سے پھرے ممکن ہے کہ وہ اپنے باپ کی پاکیزگی دیکھ کر اپنے گناہوں سے نفرت کرے ممکن ہے کہ وہ اپنے باپ کی محبت کی خوبی دیکھ کر اپنے گناہوں سے نادم ہو۔ اور اس شرمندگی کو محسوس کرے جو اس کے والدین نے اس کے لئے اٹھائی۔ یہی ایک ایسا طریسہ
ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے باپ کی محبت او رپاکیزگی کو معلوم کرسکتا ہے یہی ایک ارادہ ہے جس پر وہ چل کر اپنے باپ کی روح اس کی روح اس کی محبت اور پاکیزگی کو اپنے دل میں آنے دے گا۔ صرف یہی ایک ایسا استدلال ہے اور جو اس پر اثر کرسکتا ہے کہ کس طرح باپ کی محبت اورپاکیزگی نے ناکردہ گناہ برداشت کئے ۔
محبت الہٰی
یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ ہم مثال مذکورہ میں ایک قانون پاتے ہیں کہ محبت اورپاکیزگی کا جوہر ایثار ہے ۔خدا جو کہ محبت او رپاکیزگی کا سرچشمہ ہے بھلا اس کا پدرانہ دل کب یہ گوارا کرسکتا ہے کہ جس کو اس نے اشرف المخلوقات بنایا اور وہ دوزج کا ایندھن بن جائے ۔ جیسے باپ اپنے بیٹوں پر ترس کھاتا ہے ویسے خدا تعالیٰ بھی گنہگاروں پر ترس کھاتا ہے خدا جو کہ محبت ہے کیا وہ ایک دینوی باپ کے مقابلے میں اپنے بچوں کے گناہوں پر کم افسوس کرتا ہوگا؟خدا قدوس ہے کیا وہ اپنے بچوں کے گناہوں پر بہ نسبت دینوی باپ کے کم غمگین ہوتا ہے ۔"تم میں ایسا کون سا آدمی ہے کہ اس کا بیٹا اس سے روٹی مانگے تو وہ اسے پتھر دے ؟یا اگر مچھلی مانگے تو اسے سانپ دے پس جبکہ تم برے ہوکر اپنے بیٹوں کو اچھی چیزیں دینی جانتے ہو تو تمہارا باپ (پروردگار) جو آسمان پر ہے اپنے مانگنے والوں کو اچھی چیزیں کیوں نہ دے گا ؟ماناکہ انسان بڑا سرکش ہے لیکن اس کی محبت اس قدر گہری ہے کہ ہماری خطا ئیں اس کی راہ میں حائل نہیں ہوسکتیں چونکہ خدا محبت ہے بنی نوع انسان کوپیار کرتا ہے اس لئے اس کی محبت ہر طرح کا ایثار کرنے کے لئے تیار ہے خدا کو دنیاسے دشمنی نہ تھی۔ بلکہ محبت اس لئے اس نے اپنا اکلوتا بیٹا ( نعوذ باالله روحانی بیٹا نہ جسمانی بیٹا ) بخش دیا ۔ تاکہ جو کوئی اس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہوبلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے (انجیل شریف بہ مطابق حضرت یوحنا 4باب 1آیت ) ہم نے محبت کو اسی سے جانا کہ اس نے ہمارے واسطے اپنی جان دی " (انجیل شریف خط اول حضرت یوحنا 3باب 16آیت )۔لیکن چونکہ بنی نوع انسان اپنے گناہوں میں ماہی بے آب کی طرح تڑ پ رہا تھا اور زبان حال سے پکار رہا تھا کہ الله مجھے کوئی آکر بچا ئے۔
انسان نے گناہوں کے بندھن سے رہائی پانے کے لئے سخت جدوجہد کی تو بھی دنیاسے گناہ مفقود نہ ہوسکا بلکہ ۔
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
واہ خداکی محبت ۔۔۔۔۔ کیاہی عمیق ہےکہ عین اس عالم میں جبکہ انسان کی کشتی حیات منجدھار میں پھسی تھی خدا انسانی جامہ پہن کر ہمارے درمیان آیا۔ وہ خدا جو ہمارے گناہوں کے باعث دور تھا۔ جس کے بے پایاں جاہ وجلال سے آنکھیں چند ھیاجاتی تھیں۔ المسیح میں ایک خوش منظر میں آتا ہے جیسے سورج کی کرن جوش قزح میں خدا کی لا متناہی محبت مسیح میں ایسی ظہور پذیر ہے جسے ہم آنکھوں سے دیکھ سکتے ۔ کانوں سے سن سکتے اور دل سے محسوس کرسکتے ہیں خدا جو گناہ سے نفرت رکھتاہے اور گنہگاروں کو پیار کرتا ہے اسکا پورا تصور مسیح میں ہوتا ہے وہ خدا جسے گناہ سے نفرت ہے المسیح میں ان سے محبت کرتا ہے جو محبت کے لائق نہ تھے۔ گناہ نے ہماری صورت بگاڑدی ۔ہم خلق کئے گئے خدا کے ساتھ تھے لیکن گناہ نے اس کی پاکیزگی رشتہ کو توڑدیا۔ لیکن مسیح نے اپنی جان گنہگاروں کے بدلے فدیہ میں دیدی ۔ او ریوں وہ حد فاصل جو گناہ کی وجہ سے انسان اور خدا کے درمیان تھی اٹھ جاتی ہے ۔ اب انسان بذریعہ ایمان بالکفارہ قربت الہٰی حاصل کرسکتا ہے ۔
نجات
تم کو ایمان کے وسیلے فضل ہی سے نجات ملی ہے تو یہ تمہاری طرح سے نہیں بلکہ خدا کی بخشش ہے اور نہ اعمال کے سبب سے تاکہ کوئی فخر نہ کرے ۔ (انجیل شریف خط افسیوں 2باب 8تا 9آیت ) ۔او ریہ ایمان رکھنے کے سبب سے کہ جب ہمارے منجی خدا کی مہربانی اور انسان کے ساتھ اس کی الفت ظاہر ہوئی تو اس نے ہم کو نجات دی مگر راستباز ی کے کاموں کے سبب سے نہیں جو ہم نے خود کئے بلکہ اپنی رحمت کے مطابق نئی پیدائش کے غسل اور وح القدس کے ہمیں نیا بنانے کے وسی
وسیلے سے جسے اس نے ہمارے منجی سیدنا مسیح کی معرفت ہم پر افراط سے نازل کیا۔ (انجیل شریف بہ مطابق خط طیطس 3باب 4تا 6)۔پس فخر کہاں ا سکی گنجائش ہی نہیں۔
چنانچہ جب ہم کمزو ہی تھے توعین وقت پر مسیح بے دینوں کی خاطر جان دی ( انجیل شریف خط رومیوں 5باب 3تا 6 آیت ) ۔حالانکہ ربنا المسیح تو بے گناہ تھا لیکن چونکہ اس کا رشتہ انسان سے ایسا گہرا تھا اور اس کی محبت انسان سے ایسی بڑی تھی تو ہم خیال کرسکتے ہی ہیں کہ اس کا غم انسان کے گناہ کے لئے شرم سے پر ہوگا۔ او روہ حقیقی پچتاوا توبہ ہوگی جو انسان محسوس نہ کرسکا۔ جس کے پر محبت اور دیندار والدین اپنے بیٹے کے باعث شرم اور پچتھاوا محسوس کرتے ہیں۔اس سے کہیں زیادہ پر محبت اور قدوس ابن الله نے نوع انسان کے گناہ کے لئے شرم او رپچھتاوا واسہا اس کے مطابق جب صلیب اس کی راہ میں آئی تو اس نے صلیب کو قبول کیا۔ اس سے گریز نہ کیا محض اس لئے قبول نہ کی کہ وہ اور خدا ایک ہیں بلکہ اس لئے کہ انسان کی طرف سے حقیقی پچھتاوا ظاہر کرے چونکہ یہ قربانی خود نثار محبت پر منحصر تھی اس لئے خدا نے اسے قبول کیا (انجیل شریف خط افسیوں 5باب 2آیت )۔
الغرض ربنا المسیح ہمارے لئے شکستہ خاطر ہوئے۔ ہمارے گناہ انہوں نے اٹھائے خود خدا محبت اور قدوس ہے اس لئے وہ انسانوں کے گناہوں کی شرمندگی او رالزام برداشت کرتا ہے اسی وجہ سے وہ مجسم ہوا تاکہ یہ بتلائے کہ خدا نے ہمارے گناہوں کی وجہ کس قدر شرمندگی اٹھائی ۔ چنانچہ جب ہم مسیح مصلو ب کو دیکھتے ہیں تو معلوم کرتے ہیں کہ محبت اور تقدس کے کیا معنے ہیں کس طرح والدین کی محبت اپنے بچوں کے لئے جوش زن ہوتی ہے خواہ ان کے بچے اچھے ہوں یا برے خدا کی محبت والدین کی محبت سے بہت زیادہ ہے ۔ اس کے تحمل اور معافی کی طاقتیں مقابلتہً والدین کے بہت زیادہ ہیں۔ جب کوئی اس محبت کو کامل طور سے محسوس کرلیتا ہے تو پکار اٹھتا ہے کہ " اے آسمانی باپ میں نے تیرا اور زمین کا گناہ کیا ۔ اب اس لائق نہیں رہا کہ تیرا بیٹا کہلا سکوں۔
المسیح کی موت اور اس کے دکھ اٹھانے کا بیان کتنا ہی مختصر کیوں نہ ہو لیکن جب انسان مسیح مصلوب کی محبت اور اس کی صلیب کا تصور کرتا ہے تو اس کا دل ٹوٹ جاتا ہے اور بے ساختہ کہہ اٹھتا ہے کہ میرے گناہوں کی خاطرمصلوب ہوا حقیقتاً صلیب میری تھی سزا میری تھی شرم میری تھی اور میری رسوائی تھی جو مسیح نے میرے لئے اٹھائی۔
پاکیزہ طبعیت اور کفارہ
مبادا کوئی لا ابالی سے یہ کہہ دے کہ کفارہ مسیح کے ماننے سے انسان گناہ کرنے سے بری ہوجاتا ہے لیکن ہم بتلانا چاہتے ہیں کہ کفارہ مسیح پر ایمان لانے سے انسان گناہ کی کراہت محسوس کرتا ہے ۔ خدا تعالیٰ کی محبت سے متاثر ہونے کے باوجود گناہ سے الفت رکھنا ممکن نہیں۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ کفارہ کے ماننے کے بعد گنہگار کی سیرت بدل جاتی ہے وہ گناہ کے اعتبار سے مردہ او رنیکی کے اعتبار سے زندہ ہوجاتا ہے۔ مسیح جو ہماری راست بازی ہے اس کے فضل کے ذریعہ ہماری زندگی خدا میں پیوست ہوجاتی ہے اس لئے پاکیزہ او رالہٰی طبعیت حاصل کرنے کے بعد پاکیزہ طبعیت کابگاڑ لینا ممکن نہیں ۔کیا کوئی بیمار اگر کسی مہلک بیماری سے شفا پانے کے بعد پھر اسی بیماری میں مبتلا ہونا پسند کرے گا۔ بدیں وجہ کہ وہ پہلے بھی ایک قابل ڈاکٹر کی جان نثاری اور تیمارداری کے سبب چھٹکارا پاچکا ہے ؟ہر گز نہیں تو گناہ کی ہولناک بیماری جوابدی ہلاکت کا باعث ہے اس سے بذریعہ ایمان بالکفارہ مخلصی پاکر پھر گنہگار بننے کی آرزو کیونکر ہوسکتی جبکہ حوصلہ شکن اور زہر گداز منظر پیش نظر ہو۔ غرض " حق کی پہچان حاصل کرنے کے بعد اگر ہم جان بوجھ کر گناہ کریں تو گناہوں کی کوئی اور قربانی نہیں رہی ہاں عدالت کا ایک ہولناک انتظام اور غضبناک آتش باقی ہے "(انجیل شریف خط عبرانیوں 10باب 8 آیت )۔
بلاریب مسیح کی صلیب خدا کا وہ نور ہے جو خدا کی محبت اور انسان کے گناہ کو خدا کی قدرت او رانسان کی عاجزی کو خدا کی پاکیزگی اور انسان کی نجاست کو ظاہر کرتا ہے درحقیقت مسیح ایک راز ہے اور اس کا حل اس کی قربانی ہونے والی روح میں موجود ہے ۔ اور اس راز کا حل صلیب پر ہوا۔ پس اس کو سمجھنا مسیح کو سمجھنا ہے اورخدا کو جاننا ہے۔ خدا کو جاننا عالم موجودات اور زندگی کے معانی سمجھنا ہے صلیب ہی وہ واحد کنجی ہے ۔ جسے اگر انسان اپنے ہاتھ سے جانے دے تو وہ پشیمان ہوگا۔ اور کائنات کاراز اس پر نہ کھلے گا ۔ لیکن اگر اس کنجی کو اپنے قبضہ اور اپنے دل میں رکھے تو وہ اس راز کو معلوم کرنے پر قادر ہوگا۔ یہی خدا اور انسان کے درمیان مصالحت سے جو کفارہ پر ایمان لانے سے حاصل ہوسکتی ہے۔
میرا خیال ہے کہ اب تک میں یہ ظاہر کرنے میں کسی حدتک کامیاب ہو چکا ہوں کہ کفارہ مسیح پر ایمان لانے سے خدا کی محبت کا سماں ہماری آنکھوں کے سامنے بند ھ جائے کہ جس طرح خدا نے المسیح میں ہمیں پیار کیا۔ ہماری نجات کا بندوبست کیا۔ اس کس طرح سے اپنے پاس بلاتا ہے اور کس طرح مسیح میں انسانی ذات انسانی صورت اور انسانی زبان اختیار کرتا ہے۔ اگر ہر برگ وثمر میں نقش کردگار آتے ہیں۔ توکیوں خدا کا انسانی جامہ پہننا غیر ممکن تصور کیا جائے جبکہ وہ اپنے کریکٹر کے ظاہر کرنے کے لئے کرے؟
دوستو ۔ہم صرف ابن المسیح کی قوت میں ٹھہرسکتے ہیں۔ آسمان کے نیچے کوئی دوسرا نام نہیں بخشا گیا۔ جس کے وسیلے سے ہم نجات پائیں۔ ( انجیل شریف اعمالر سل 4باب 12آیت )۔دنیا میں کوئی اور طاقت نہیں جو انسان کی مادیت کا انسداد کرکے اس میں بلند نظری پیدا کرسکے ۔ وہی ایک ایسے باغبان کی طرح ہے جو جنگلی گلاب میں اصلی گلاب کی لہر دوڑا دیتا ہے کیونکہ المسیح انسان میں بستا ہے اس میں خیال کرتا ہے اور یوں اس کے خیال ہمارے خیال ہوجاتے ہیں۔
اس کی زندگی ہماری زندگی ہوجاتی ہے۔ یہ کیسا بھاری فضل ہے کیسی گہری برکت ہے۔ کون ہے جو دنیا میں ذرہ کو اٹھا کر آفتاب کردے اور خاک کو اکسیر اعظم بنادے ۔
امداد ہم سبھوں کی کیا کیا نہ بن کی
منجی کہیں طبیب کہیں رہنما کہیں
پس اتنی بڑی نجات سے غافل رہ کر ہم کیوں کر بچ سکتے ہیں۔ اس لئے آو اور اپنی جبین نیاز آستار مسیح پر دکھ دو۔ وہی تمہاری روحوں کو سکون بخشے گا وہی تمہارے خانہ تاریک کو جگمگادے گا ۔ وہ اسی لئے ابن مریم بنا کہ ہمیں آسمانی خوشیوں سے مالا مال کرے ۔ اس نے اپنے آپ کو اس لئے پست کیاکہ ہمیں آسمانی مقاموں میں پہنچائے ۔ غرض اس سے باہر موت اور ہلاکت کی وادی ہے ۔ چنانچہ اس ظلمت کدہ کے بسنے والوں میں سے جتنوں نے اسے قبول کیا۔ اس نے انہیں نور کے فرزند بنادیا۔ عالم بالا پر خدا کی تمجید ہو اور زمین پر ا ن آدمیوں سے جن سے وہ راضی ہے صلح ۔