اچھاروزہ دار

God Fast

Published in Nur-i-Afshan July 09, 1889

اچھا روزہ دار

نورافشاں مطبوعہ ۹جولائی ۱۸۸۹

 آج کل رمضان کا مہینا اور مسلمانوں کے روزوں کے دن ہیں ۔ روزے کے معنی جیسے کہ سمجھے جاتے ہیں کھانے اور پینے کی چیزوں سے کنارہ کشی کرنا اور کھانے اور پینے کی خواہشو ں کو وقت معین تک روک رکھنا ہے ۔ لیکن اگر روزے کاصرف یہی مطلب ہو اور بس تو اس کام سے کیا فائدہ ہوسکتا ہے ۔ البتہ ظاہری روزہ یو یہی ہے پر اس کے ساتھ باطن کی کا روائی بھی تعلق رکھتی ہے ۔ روزہ رکھنا اچھا ہے پر جو باطن سے تعلق رکھتا ہو نہ کہ صرف ظاہری ہو اور لوگوں کے دکھانے کے واسطے رکھا جائے خداوند یسوع مسیح نے (متی ۶ :۱۶۔۱۹ ) یہ باتیں روزے کے بارے میں فرمائیں ۔ ’’پھر جب تم روزہ رکھو مکاروں کی مانند اپنا چہرہ اُدس نہ بناؤ کیونکہ وہ اپنا منہ بگاڑتے ہیں کہ لوگ انہیں روزہ دار جانیں میں تمہیں سچ ہو کہتا ہو ں کہ وہ اپنا بدلہ پاچکے ۔ پر جب تو روزہ رکھے اپنے سر پر چکنا لگا اور منہ دھو تا کہ آدمی نہیں بلکہ تیرا باپ جو پوشیدگی میں دیکھتا ہے ظاہر میں تجھے روزہ دار جانے یعنی کہ ظاہر ی روزہ دنیا کے دکھانے کے لئے نہ رکھو ۔ پر وہ روزہ رکھو جو دل سے تعلق رکھتا ہو اور پوشیدہ یعنی آدمی سے واقف ہو کے تیری تعریف اس میں نہ کرے تو اُس پوشیدہ روزے کا بدلہ خدا سے پائے گا ۔

 صرف کھانے اور پینے کی خواہش کے مارنے سے روزہ نہیں ہوتا بلکہ بُری خواہشو ں کو جو آدمی کے دل میں پنہاں (پوشیدہ)  ہیں مارنے سے روزہ اصلی ہوتا ہے ۔

کھانے یا نہ کھانے سے دل کی بُری خواہش نہیں مرتیں

کھانے  یا نہ کھانے سے  دل کی بُری خواہش نہیں مرتیں روزے کی غرض اصلی یہی  ہے کہ اُن بُری خواہشوں کو دبا یا جائے  جو دل میں پنہاں رہ  کر اور وقت بہ وقت پیدا ہو کر گناہ جتنی ہیں ۔ روزے میں صرف روٹی کی خواہش سے دل کو بازنہ رکھنا چاہئے پر اُس کو ہر ایک بُری فکر اور گندے خیال سے باز رکھنا چاہئے ۔ اور صرف دل بلکہ اپنےسب غصوؤ ں کا جن سے فعل بد صادر ہوتے ہیں روزہ رکھنا چاہئے ۔ مثلا ً آنکھ کا روزہ کہ آنکھ جو شہوت کی نظر کو پسند کرتی ہے اور دل کو فعل بد کی طرف رجوع دلاتی ہے اپنے قابو میں لانا چاہئے ۔ اور زبان کا روزہ کہ زبان کو جو شرارت کا عالم ہے اور کفر اور شرک نکا لتی ہے قابو کی جائے ۔ اور کان کا روزہ کہ کان جو بُری باتیں سننے اور قبول کرنے کو پسند کرتا ہو قا بو میں کیا جائے ۔ غر ض اپنے تمام عضو ؤں کی بُری خواہشیں روکی جائے اور صرف ایک خواہش روحی تقا ضہ پورا کرنے والی پیدا جس سے یہ روح خالق کی مقبول نظر ہو جائے ۔

 روزہ نماز اور زکوٰۃ یہ امر عمل الصالحات (نیک اعمال)کہلاتے ہیں اور یہ تینوں عبادت کے رکن سمجھے جاتے ہیں ۔ جو ان کو پورے طور پر عمل میں لائے  خدا کے مقبول نظر ہوتا ہے ۔انجیل مقدس میں قرنیلوس (کُرنیلیس)نامی ایک شخص کا ذکر ہے کہ وہ لوگوں کو خیرات دیتا اور خدا سے دعا مانگتا اور روزہ رکھتا تھا ۔ خدا نے اس کی وعا سنی اور اُسے قبول کیا ۔ اور کہا کہ بے شک تیری خیرات کی یادگاری اور تیری نماز اور تیرا روزہ رکھنا میرے حضور منظور ہوا پر اس بھی تو میرے حضور میں ان عملوں سے مقبول نہیں اب جو کچھ تجھے اور کرنا ہے بتلایا جائے گا ۔ اور خدا نے اُسے فرمایا کہ تو شمعون پطرس کو بُلوااور وہ تجھے بتائےگا جو تجھے کرنا واجب ہے ۔اُس شخص نے خدا کے فرمانے کے بموجب اُس کو بلوایا ۔ اور تب پطرس آیا اور اُس نے سب باتیں شروع سے قرنیلوس کو مختصر طور پر یسوع مسیح کی بابت سنائیں ۔ اور اُسے یہ خوش خبری سنائی کہ یسوع مسیح پر ایمان لانے سے گناہوں کی معافی ہو سکتی ہے ۔ اِس پر قرنیلوس نے فوراً اقرار کیا کہ میں یسوع پر ایمان لاتا ہوں اور اُسی دن وہ بپتسمہ پا کر مسیحی بن گیا ۔ قصہ مند رجہ بالا معلوم ہوا کہ قرنیلوس ایک پرہیزگا ر اور خدا پرست آدمی تھا لیکن تو بھی اُس کو وہ پرہیزگاری یعنی نماز اور خیرات اور روزہ داری نجات کے واسطے کافی نہ ہوئی ۔پر اُس کو ہدایت ہوئی کہ ایک اور کام باقی ہے جو اُس کو پورا کرنا واجب ہے کہ مسیح پر ایمان لاکر نجات پانا سواس نے خدا کے حکم کے مطابق عمل کیا اور ایمان لاکر نجات میں داخل ہوا۔ روزے میں دو باتیں مد نظر ہیں ( اول ) کہ جسمانی خواہش نہ کر اوریا د کو چھوڑ کر اپنی یاد خدا کی طرف لگانی( دوم ) خدا کے حکم ماننے کے لئے دل کو تیار اور خالی کرنا جسمانی خواہشیں نکال کے روحانی خواہشیں دل میں بھرنا۔ اگر ایسا روزہ رکھا جائے تو یہ اصل روزہ ہے اور  اُس کا رکھنے والا اچھا روزہ دارہے اور ایسا روزہ اصلیت کی طرف رجوع کہ کے خدا کی مقبولیت اور پسند یدگی کے لائق بناتا ہے ۔ جیسا کہ قرنیلوس کے حال سے معلوم ہوتا ہے اچھا روزہ دار وہ جو خدا کی مرضی پر اپنے آپ کو چھوڑتا ہے اور جو حکم خدا اُس کو فرمائے فوراً اُس کو ماننے کو تیار ہوتا ہے ۔ اچھا روزہ دار فخر نہیں کرتا اور آدمی کی بزرگی اور تعریف نہیں ڈھونڈتا بلکہ وہ ہر ایک خدا کے حکم کی تعمیل کرنے کو تیار ہوتا ہے اور ہر ایک کام میں خدا کی بزرگی اور جلال کے واسطے درپے رہتا ہے اور جو کچھ کرتا اُس کے جلال کے واسطے کرتا ہے ۔ اے بھائی محمد یواگر آپ ایسے روزہ دار ہو تو مبارک ہو پر اگر صرف ایک دستور کی بات مانتے ہو اور لوگوں کی تعریف کے خوا ہاں ہو تو خیرتمہارا تعریف پانےکا مطلب تو ادا ہو جائے گا پر اصل مطلب ضرور ہاتھ نہ آئے گا ۔

پر اگر قرنیلوس کی مانند اچھے روزہ دار ہو تو غور کرو کہ تم صرف ان عمل الصالحات سے نہ بچو گے بلکہ ذرہ اس سے آگے بڑھ کے دیکھو کہ نجات دہندہ کون ہے اور خدا نے کس کو اس بڑے کام کے انجام دینے کے واسطے ٹھہرا یا ہے ۔

 فرض کیا کہ تم نے  اچھی طرح نماز کا فرض بھی ادا کیا اور حتی المقدور(جس حد تک ) زکوٰۃ بھی دی اور روزہ بھی کامل طور پر رکھا پر خدا کہتا ہے کہ ایک اوربات ابھی باقی ہے اور اگر آپ اچھے روزہ دار  ہونا چاہتے ہو تو خدا کی بات سن کر جلد قبول کرو اور وہ بات جو ابھی باقی ہے میں تمہیں سناتا ہوں ۔ کہ دل سے انجیل مقدس کی خوش خبری سنوجو یہ ہے  کہ جب سب کے سب گنہگار تھے اور عمل صالحا کرنے کی طاقت نہ رہی خدا نے یسوع کو روح القدس اور قدرت سے ممسوح کیا وہ نیکی کرتا اور اُن سب کو جو شیطان کے ہاتھ سے ظالم اُٹھاتے تھے چنگاکرتا پھرا، کیونکہ  خدااُس کے ساتھ تھا ۔اور ہم اُن سب کاموں کے جو اُس نے یہودیہ کے ملک یروشلیم میں کئے گواہ ہیں ۔ اُس کو انہوں نے کاٹھ پر لٹکا کے مارڈالا اُس کو خدا نے تیسرے دن اُٹھایا اور اُسے ظاہر ہونے دیا ساری قوم پر نہیں بلکہ اُن گواہوں پر آگے سے خدا کے چنے ہوئے تھے یعنی ہم پر جنہوں نے اُس کے مردوں میں سے جی اُٹھنے کے بعد اُس کے ساتھ کھایا اور پیا ۔اور ان سے ہمیں حکم دیا کہ لوگوں میں منادی کروا اور گواہی دو کہ یہ وہی ہے جو خدا کی طرف سے مقرر ہوا کہ زندوں اور مردوں کا انصاف کرنے والا ہے ۔ سب نبی اُس پر گواہی دیتے ہیں کہ جو کوئی اس پر ایمان لائیں اس کے نام سے اپنے گناہوں کی معافی پائیں ۔ (اعمال۱۰  باب ۳۸سے ۴۳ تک) اور یہ بھی لکھا ہے کہ تاکہ جو کوئی اُس پر ایمان لاتا ہے اُس کے لئے سزا حکم نہیں لیکن جو اُس پر ایمان نہیں لاتا اُس پر سزا کا حکم ہو چکا۔ (یوحنا ۔ ۳باب۱۵ آیت ) ۔

اگر گنہگار بچانا چاہئے تو صرف یہ ہی ایک وسیلہ خداوند یسوع مسیح ہے جس کے ذریعہ سے گنہگاربچتا ہے اگر گنہگار انسان صرف عمل ہی سے بچ سکتا تو قرنیلوس خدا کے حضور میں منظور تھا اُس سے اور کیا کرنا ضرور تھا ۔پر خدا نے اسے جتا یا کہ ایک نجات دہندہ تیری نجات کا کام پورا کر چکا ہے ۔ تو اُس ذریعہ سے بچے گا نہ کہ اپنے ان نیک کاموں سے ۔

 اے روزدار واگر آپ قرنیلوس کی مانند اچھے روزدار ہو تو ان روزوں کے دنوں میں خدا کے حکم کو جو انجیل مقدس میں تمہارے لئے مرقوم ہے سنواور اُسے قبول کر و اور ایمان لا کر نجات پاؤ۔ نہیں تویہ سب محبت جو کرتے ہو رائیگاں (بے فائدہ) جائے اور دست تاسف ملو(افسوس کرنا) گے اور کچھ بن نہ پڑے گا ۔کیونکہ وقت گیا پھر ہاتھ آتا نہیں ہمیشہ دوررواں دکھا تا نہیں ۔

راقم

جمیل سنگھ



Leave a Comment