دنیا میں غالباّاس سے زیادہ محیر العقول کوئی امر نہیں ہوگا کہ علم وتہذیب سے دُور افتادہ ملک کنعان (موجودہ ‏فلسطین) کے ایک جاہل اور حقیر صوبہ گلیل کے ایک معمولی غریب گھرانے میں ایک ایسی شخصیت پیدا ہوئی جس کی تعلیم ‏اور شخصیت نے دنیا کی کایا پلٹ دی ۔ انہوں نے غالباّ صرف تین سال تک گلیل کے مچھوؤں اور دہقانوں میں توبہ اور پروردگار ‏کی محبت اور دین ِ الہٰی کی تبلیغ فرمائی۔لیکن یہ تعلیم اس قدر دل پذیر اور موثر ثابت ہوئی کہ چند سالوں کے اندر اس کی گونج ہم ‏کو اقصائے عالم تک سنائی دیتی ہے ۔ چار صدیوں کے اندر اندر انہوں نے شاہ وگدا، عالم وجاہل ،آقا اور غلام کو اپنا گرویدہ اور ‏شیدائی بنالیا۔انہوں نے دوہزارسال کے عرصہ میں دنیا کے تمام ممالک میں کروڑوں انسانوں کا میل اپنے خالق سے کرادیا اور ‏ایسی مقدس اور برگزیدہ ہستیاں پیدا کردیں جو زمین کا نمک تھیں۔قیاصرہ نے جورو ظلم ،عقوبت وتعذیب کے ذریعہ اُن کی ‏تعلیم کومٹانا چاہا لیکن وہ خود مٹ گئے ۔ دنیا کے سرداروں اور سلطانوں نے اُن کے خلاف پرِے باندھے لیکن وہ مغلوب نہ ‏ہوئی۔ ہر دشمن دم واپسین حسرت کے ساتھ یہی کہتا مرگیا ۔”اے گلیلی آپ فاتح رہے جہاں کہیں یہ تعلیم دی گئ اس کے ‏آفتابی نور نے ظلمت کو مٹادیا۔ جو شخص “دنیا کے نور ” کا پیرو ہوگیا اس سے تاریکی کوسوں دُور بھاگی ۔بطالت اور جہالت کا قلع ‏قمع ہوگیا اور حق کی روشنی ہر جانب پھیل گئی۔تاریخ سکندریہ کے ایک عالم کے الفاظ کی صداقت کی گواہ ہے کہ” ہمارے ‏استاد سیدنا عیسیٰ مسیح کلمة الله تمام بنی نوع انسان کے ہادی اور رہنما ہیں۔