If Jesus is not the Savior then who is?
By
One Disciple
ایک شاگرد
Published in Nur-i-Afshan March 12, 1889
نور افشاں مطبوعہ ۱۲۔ مارچ ۱۸۸۹ء
عزیز ایک مضمون بعنواں آ۔ مان مسیح کو فرزند خدا جان اسی پر چے میں شائع ہوا تھا۔ پڑھاہے تو معلوم ہو گا کہ ا س کےانجا م میں ایک جملہ اس قسم کا تھا کہ اگر مسیح کی الوہیت کا قائل ہوا چاہے تو خدا کے حضور گر کر روح اور راستی سے یوں دعا کر کہ’’ اے خدا وند اگر چہ یہ بات سچ ہے تو میرے دل کوپھیر‘‘ اُسی طرح میں اب پھر دیا دلاتا ہوں کہ اگر توارست پسند ہے اور تجھے ’’خوشیوں کی سیری ‘‘ درکاری تو سجدہ کر اور پھر کہہ کہ ’’اے خداوند اگر نجات مسیح سے ہے تو میرے دل کو پھیر ۔ اس رازعمیق تہ تک پہنچنے کا یہی طریق ہے۔
جن باتوں کا ذکر ا س ہدیہ میں ہےوہ نئی تو نہیں بلکہ بہت پُرانی ۔ اور مجھے یقین ہےکہ اکثر تیرے مطالعہ سے گذر چکی ہوں گی یا تیرےپنبہ در گو ش(بے خبر) کا نوں نے کسی نہ کسی مناد کی زبان پر سے گذرتی سُنی ہو گئی ۔ لیکن کیا میں یہ سمجھ کر کہ یہ مضمون مضموں کہیں ہے خاموش بیٹھار ہوں اور خواب ربودہ(غفلت) کو آواز دے کر نہ جگاؤ ں کہ نسیم(صبح کی ٹھنڈی ہوا) جاگو کمر باندھو اُٹھاؤ بسترکہ رات کم ہے ۔
یا کیا جب تک حُسن لیاقت اور تیزی طبع دکھا نے کے لئے من کھڑت یا لوگوں کے کہنے کے مطابق عقلی اور منطقی دلائل نئے ڈھنگ اورنئی طرز پر تیار نہ کر سکوں چپ چاپ رہوں ۔ نہیں نہیں میں غنچہ نہیں کہ لب بند رہوں پر میں بلبل بن کراُس ہمیشہ بہار حقیقی گل پر جاں و دل نثار کروں گا اور جس طرح بن پڑ ے گا ۔ جان توڑ توڑکر بھی اُس کی مدح سرائی کروں گا ۔ اگر چہ میرے مذہب یہی دعوت تیرے سامنے کرتے کرتے آرام سے سوگئے اور تو نے ماننا تھا سونہ مانا تو بھی میرا قلم نہ رُکے گا ۔ اور میں ایک یا پانچ یا دس کو کام میں لانے سے باز نہ آؤں گا ۔ شائد تو جاگ اُٹھے اور پولُس صفت بنے اور اُمید واثق ہےکہ اگر بر گذیدہ ہے تو ایک نہ ایک دن بچ ہی جائے گا ابھی شروع شروع میں یہ قندزہر سا لگتا ہے۔لیکن انجام بخیر ہو گا کیونکہ تو جانتا ہے کہ کوئی سائنس ایسی نہیں جس نے بچپن کے زمانے میں ٹھوکر یں نہ کھائی ہوں ۔ کوئی ایجاد ایسا نہیں کہ جس نے دقتیں نہ اُٹھائی ہوں ۔علوم فنون اپنے اپنے وقت پر تیری مخالفت کا نشانہ رہ چکے ہیں اور تمام مذہب شروع شروع میں بدعتوں کی مارسہہ چکے ہیں لیکن انجام کا جن کی تر دیدوترمیم کی جاتی تھی ایک مرتبہ وہی تسلیم و تصدیق کو پہنچ گے گو جھوٹے تھے تو کیا یہی مذہب جو حقیقت میں سچا اور راست ہے جس کے حق میں یوں کہا ہے کہ ’’دوزخ کا اختیار اس چلے گا تیرے دل پر تاثیر پذیر نہ ہو گا ؟ مترک تاریخ کو پڑھ اور تیری آنکھیں کھل جائیں گی ۔ تعصب کی چربی جو آنکھوں میں چھائی ہوئی ہےاور نقصان و فوائد کے سوچنے کا موقع نہیں دیتی بالکل اُٹھ جائے گی یہ عقل کی پیروی یہ لکیر کا فقیر ہونا جواب بصیرت دل کے لئے موت کا حکم رکھتا ہے سراسر دور ہوجائے گا ۔اب ذرا پولس کی سوانح عمری پر غور کرمیں مختصراً بیان کرتا ہوں کہ وہ مسیحیت کے قدیم ترقی کے سامنے کیسی سخت سد راہ ہو ا تھا۔ آفتاب صداقت کی شعاعوں کو لوگوں پر گرنے نہ دیتا تھا۔مسیحیت کے استیصال کے لیے جگہ جگہ شہر شہر پھرتا تھا ۔ بے گناہوں کا خون کرنے کی اجازت دیتا تھا۔ جب خود قائل ہو ا تو جسے بُرا جانتا تھا وہی بھلا دکھائی دینے لگا ۔ جب حقیقت سمجھ میں آگئی تب اُس کے مشتہر(اعلان) کرنے کیسی کیسی اذیتیں سہیں اور کیسے کیسے رنج جھیلے ۔ مسیح کے لئے جان کو ہتھیلی پر لئے پھر تار ہا ۔ وہ ایسے لوگوں کو بھی یہ خوشخبری پہنچانے سے باز نہ آیا جو شرارت اور بدکاری کی بدمستی میں نصیحت کو مداخلت بے جا تصور کرتے تھے جو جوانی کے دلولوں اور بے جا اُمنکوں کے جوش سے ناصح کو جُوتا پیزار کر نا ذرا سی تفریح طبع خیال کرتے تھے ۔ متعصبوں کے معبودوں میں جاجا کر انجیل سُنایا کیا ۔ میرے دل میں یہی اُمید ہے کہ شاید تجھے تو پینے کی میخ پرلات ماررہا ہے وہی موثر صد ا دی جائے کہ اے فلاں پینے کی کیل پرلات مار نا تیرے لئے اچھا نہیں۔ یہ گمان نہ کر کہ میں تجھے ورغلا تا ہوں ۔ پر میرے دل میں محبت جوش مارتی ہے تیری قابل رحم حالت پر بہت ترس آتا ہے ا س لئے جو نعمت مجھ کو مفت ملے جس سے میری روح کو میری حاصل ہوئی تجھے بھی دیا چاہتا ہوں ۔ میرا اور میرے ہم خدمت بھائیوں کا حال بعینہ ویسا ہے جیسا اُس پیاسے کا جس کا مدت کے بعد پانی ملے اور وہ اپنے عزیزوں کو خبر دے ۔فر ض کرکہ عرب کی ریگستان میں خط ا ستوا کے قریب و جوار میں تاجر وں کا قافلہ پیاس کے مارے مایوسی کی حالت میں العطش العطش کہہ کہہ کر چلاتا ہواور یکے بعد دیگرے گر گر جاتا ہوایک ایک پانی پانی کہہ کہہ کر بیہوشی کی حالت میں براتا ہو ۔ ایسے وقت میں اگر کسی رفیق کو تازگی وہ زندگی بخش چشمہ مل جائے تو کیا وہ اپنے ہم راہوں کو جو نجات کا نفع نقصان بے دیکھے ۔ بے تو شہ بے زاوراور رہنے ملک عدم ہو ر ہے ہیں خبر نہ دے گا کہ ا ٓؤ پی لوپی لو چشمہ مل گیا۔
اگر ہم ناقص نہ ہوتے تو ہمارے خالق کو ہم سے ہم کلام ہونے میں دریغ نہ ہوتا لیکن تو بھی وہ ہم پر اپنی مرضی ظاہر کرتا ہے ۔لیکن ایک خاص طریق سے اور وہ طریق الہٰام ہے اور الہٰام بائبل ہے ۔ بائبل کے الہٰامی ہونے کے ثبوت میں تو میں کچھ کوشش نہیں کروں گا کیونکہ انہیں دنوں اور اسی پرچہ میں ایک مدلل شخص جو مجھ سے کہیں زبردست [1]لکھنے والا ہے بائبل کے ثبوت میں قلم کو کام میں لارہا ہے اس کی تحریر کو پڑھ اور امید ہے کہ یہ بات سمجھ میں آجائے گی ۔پس میں بائبل کو الہٰامی قرار دے کر آگے بڑھتا ہوں اور تجھے اول سے آخر تک کہیں کہیں بائبل کی سیر کراتا ہوں ۔آپہلے پیش گوئی پرغور کریں ۔
(ا)
دیکھو یہ کیسا وسیع میدان ہے ۔ کیسا پر فضا مکان ہے۔ سطع زمین پر گھاس کس انداز سے جمی ہے اور اُ س پر شبنم کے قطر ے کیسے سُہانے دکھائی دیتے ہیں گو یا سبز مخمل پر ہوتی جڑے ہیں ۔ درخت کس طرز سے سر کشیدہ پہلوبہ پہلو کھڑے ہیں ۔ بر گ و گل صنعت ایزدی کا مظہر اور ہر بیل لوٹا اُس کی قدرت کا ملہ اور جس کو نمائی کا منظر ہو ا ہے ۔ چہار جانب سے دریا بہتے ہیں اور چاندی کے سے پانی سے باغ بہشت نشان کو سیراب کرتے ہیں ۔ ان کےکناروں پر حیوانات مطلق آرام کررہے ہیں۔ گرگ (بھیڑیا)گو سفند سے ہم کلام ہے ۔ آہواور پلنگ میں اتحاد تمام ہے ۔ باز، چکور سے کھیلتا ہے کبوتر کھٹکے گربہ کو دیکھتا ہے ۔ لیکن ایک مخلوق عجیب شکل غریب صورت نظر آتا ہے جس کے بشرے کے شرف کے آثار ظاہر ہیں ۔ اُس کی رفتار گفتار سے عبودیت(بندگی ) کے اطوار صاد رہیں سر سے پاؤں تک ا س میں کوئی عجیب نہیں کوئی نقص نہیں ۔ وہ تو خدا کےنام پر فدا اور اس کے جلوہ کا شیدا نظر آتا ہے اس کی اور ا ُس کی شکل میں بہت کچھ مشابہت بھی پائی جاتی ہے لے دیکھو یہ تو اُس کے (خدا کے) ساتھ ہمکلام بھی ہورہا ہے ۔ لیکن ہائے یہ کیا غضب ہونے لگا یہ کیا آفت مچنے لگی! ۔
ایک دشمن پیچھے کھڑا گرا دینے کی سعی کر رہا ہے پاؤں تلے کی مٹی نکال رہا ہے ۔ وائے قسمت وہ گرادیا۔
(۲)
یوں تو زندگی میں طرح طرح کے حادثہ واقعہ ہوتے رہتے ہیں اور قسم قسم کی تکلیفیں جھیلنے پڑتے ہیں ۔ لیکن جو غم اول اول اپنے زاوبوم کو چھوڑتے وقت اُٹھانا پڑتا ہے وہ تلوار کی طرح کانٹے اور تیر کی طرح چھید نے والا ہوتا ہے۔ خصوصاً اُس وقت جب پھر لوٹ کر آنے عزیزوں کو دیکھنے اور فیقوں سے ملنے کی اُمید بالکل قطع ہو جائے ۔ہاں ایسا زخم ہے جس کا داغ ہرگز مٹ نہیں سکتا یہ ایسا کا نٹا ہے جو ہمیشہ کھٹکتا رہتا ہے جس کی کاوش عمر ساتھ ہی ختم ہوتی ہے حُب وطن مہر والدین دوستوں کی محنت عزیزوں کی الفت آدمی کو رسی کی طرح جکڑ دیتی ہے۔ زمانے کی گردشیںسہتا ہے اور کچھ پراد نہیں کرتا ۔افلاس دتنگی کے طوفان آتے ہیں اورآ آ کرخوب ٹکر اتے ہیں ۔ دشمنوں کے طعنوں کی برداشت کرتا ہے ۔ حاسدوں کے حسد کو اٹھاتا ہے۔ لیکن دیکھ یہاں ایک شخص ہے جس کا من و سال کو ئی پچھتر (۷۵)سال کا ہو گا ۔ وہ اپنی جو رواز بھتیجے کولئے باقی عزیز و اقر با کو چھوڑ ے جس ملک میں پیدا ہوا جس شہر میں پالا پوسا گیا جہاں بچپن کا زمانہ خرچ کیا کچھ حصہ جو انی کا کا ٹا ۔ اُس جگہ سے منہ موڑےدوسرے ملک کو جار ہا ہے تاسف اور اُداسی کےآثار اس کی صورت پُرانوار پر ذرا بھی پیدا نہیں کسی طرح کا غم اور کسی قسم کا رنج اُس کے چہرے سے ہویدا(عیاں) نہیں ۔ اس کے دل میں ایک نہایت عجیب تسلی ہے جس کے سبب سے اُ س کی صورت بشاش نظر آتی ہے ۔ یہ شخص خدا کا فرمانبردار ہے ۔ ا س کا نام ابراہیم خیل اللہ ہے وہ تسلی جس کی خوشی کی اُمید میں گھر بار چھوڑے جاتا ہے یہ ہے کہ دنیا کے سب گھر انے تجھ سے برکت پائیں گے ۔ کیا ابراہیم سے ؟ نہیں پر اُس کی نسل سے ۔ اور وہ نسل مسیح عیسی ہے ۔ کیا یہی وعدہ کا فرزند ہے؟ ہاں یہ وہی نسل ہے جس کی بابت اور پڑھ آیا ہے ۔ ابراہیم نیک آدمی تو تھا لیکن بذاتہ اس لایق نہ تھا کہ و ہ اس قسم کی کی برکت دیتا کہ ہم بچ جاتے ۔ یہ خدا وند مسیح ہی ہے جس کے طفیل سے قومیں بر کت پر برکت پائی ہیں ۔یہی مبارک نام جس کی بر کت سے وحشی آدمی، دیوانہ ہوشیار ، بےعقل عقلمند ہو جاتے ہیں۔ یہ بھوکے لئے روٹی پیا سے کے لئے پانی ۔ ناداں کے لئے دانائی کو ر چشم کے لئے بینائی ہے ۔ ذرا لگے ہاتھ یورپ اور امریکہ کے ملکوں کو ۔ ایشیا اور افرایقہ کے ملکوں سے مقابلہ کرکے دیکھ لیں کہ کیا فرق ہے ۔
کہ اُن قوموں کوکس قدر ترقی اور بر کت ہاتھ آئی اور کس قدر افریقہ اور ایشا کی قوموں پر و فوقیت پائی ۔ یہی انگریز جواب ملکوں پر حکمران ہیں ۔ جن کی علوم وفنون کو قومیں آنکھوں سے لگاتی ہیں ۔ جن کے ایجادوں سے صد ہا لوگ مستفیض ہو تے وہ مسیح کو قبول کرنے سے پہلے کیا تھے ۔ امریکہ جواب سے قریب چار سو سال وور نامعلوم تھا۔ جس میں وحشیوں کا دور دور اتھا ۔ جس میں اندھیراراج کرتا تھا۔ وہی اب ایسے ایسےعجائبات پیدا کر رہا ہے جو ہمارے باپ دادوں نے نہ کبھی دیکھے اور نہ کبھی سُنے تھے ۔دور نہ جا گھرہی میں دیکھ کہ آ ج کے ہندوستان اور مسلمانوں کے عہد ہ سلطنت کے ہندوستان میں کیا فرق ہے ۔آتو بھی اسی چشمے سے اور آسودہ ہو ۔
(۳)
ان پیشن گوئیوں کی صداقت تب سمجھ میں آتی ہے جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اکثر اُن میں سے پوری ہو چکے ہیں مثلاًیعقوب جب اُس کی مسافرت کے دن پورے ہو چکے اور وہ عالم بقا کو رحلت کرنے کے نزدیک پہنچا ْ تب اپنے بیٹوں کو بر کت دیتے وقت یہودا کی طرف جس کی نسل میں مسیح پیدا ہوا مخاطب ہو کر یوں کہا ہے تیرے بھائی تیری مدح کر یں گے تیرے باپ کی اولاد تیر ے حضور جھکے گی یہودا شیر ببر کا بچہ بلکہ پُرانے شیرببر کی مانند جھکتا اور بیٹھتا ہے یہودا سے ریاست کا عصا جدانہ ہوگا حاکم اُس کے پاؤں کے درمیان سے جاتا نہ رہے گا جب تک سیلانہ آئے اور قومیں اُس کے سامنے اکٹھی ہوں گی ۔
اکثر لوگ یہودا کے نام سے واقف بھی نہیں مدح سرائی کرنا بر صرف اس یہودا سے مراد خداند مسیح ہے جس کے سامنے قومیں سجدہ کرتی ہیں ۔ وہ قوم جو غیرقوں سے نفرت کرتی تھی جس کے قانون اور انتظام ملکی نظم ونسق دوسرے ملکوں سے کچھ بھی مشابہ نہ تھے جو غیروں کے ساتھ کچھ تعلق کچھ رشتہ نہ رکھتی تھی ۔سیلا یعنی مسیح کے آنے پر اور اُس کو رد کرنے کی عوض کیسی تتر بتر ہو گئی اُن کا قومی جتھا ٹوٹ گیا ۔ ملک اُن سے چھوٹ گیا۔ لیکن مسیح کے حضو ر دنیا کی قومیں سجدہ کرتی ہیں ۔
(۴)
خدا وند خداخداوندمسیح کی آمد کی خبر حضرت موسیٰ یوں دیتے ہیں ۔ ’’میں اُن کے لئےان کے بھائیوں میں سے تجھ سا ایک نبی برپا کر ؤں گا اور اپنا کلام اُس کے منہ میں ڈالوں گا اور کچھ میں اُسے فرماؤں گا وہ سب اُ ن سے کہے گا اور ایسا ہوگا کہ جو کوئی میری باتوں کی جن میں وہ میرا نام لے گے گنہگار اور ایسا ہو گا کہ جو کوئی باتوں کو جن میں وہ میرا نام لے گے کہے گار نہ سنے گا تو میں اُس حساب اُس سے لوں گا‘‘ یہ پیشن گو ئی بھی خداوند مسیح کے حق میں ہے۔ گویا جس طرح حضرت موسیٰ بنی اسرائیل کو فرعون کی اسیری سے نکال لائے اس طرح خداوند مسیح گنہگار وں کو شیطان کی قید سے رہائی بخشتا ہے ۔ خداوند مسیح صرف خا ص اسی بات میں موسیٰ کی طرح ہے ورنہ پولوس الہٰام کی ہدات سے یوں کہتا ہے کہ موسیٰ کو اختیار کل نہ تھا پر مسیح کو اختیار کل ہے۔کیونکہ موسیٰ دیانتدار نو کر تھا لیکن مسیح باپ یعنی خدا کا بیٹا اور گھر کا مالک ہے کیا تو اُن باتوں کو جو وہ کہتا ہے نہ سنے گا ۔ ویکھ اس کا حساب تجھ سے لیا جائے گا ۔
(۵)
حضرت داؤد یوں کہتے ہیں۔
قومیں کس لئے جوش میں ہیں اور لوگ باطل خیال کرتے ہیں زمین کے بادشاہ سا منا کرتے ہیں اور سردار آپس میں خداوند کے اور ا س کے مسیح کے مخالف منصوبے باندھے ہیں آؤ ہم اُن کے بند کھول ڈالیں اور اُن کی رسی اپنے سے توڑ پھینکیں وہ جو آسمان پر تخت نشین ہے ہنسے گا اور خداوند نہیں ٹھٹھوں میں اُڑ ا ے گا تب وہ غصہ میں اُن سے باتیں کرے گا ا اور نہایت بیزار ہو کے اُنہیں پر یشانی میں ڈالے گا ۔ ’’میں نے تو اپنے بادشاہ کو کو ہ مقد س صیحوں پربیٹھایا ہے میں حکم کو آشکار کر وں گا کہ خدا وند نے میرے حق میں فرمایا تو میر ا بیٹا ہے میں آج کے دن تیرا باپ ہو ا ۔ مجھ سے مانگ کہ میں تجھے قوموں کا وارث کرو ں گا ۔ اور میں سراسر زمین تیرے قبضےمیں کردوں گا ۔ تو لوہے کے عصا توڑ لے گا ۔ کمہار کےبر تن کس طرح انہیں چکنا چور کرئے گا ۔ پس اب بادشاہ ہو شیار ہو اے زمین کے عدالت کر نے والوں تربیت لو ۔ ڈرتے ہوئےخداوند کی بندگی کر واور کا نپتے ہوئے خوشی کرو ۔ بیٹے کو چوموتا نہ ہو کہ وہ بیزا رہو اور تم راہ میں ہلک ہو جاؤ ۔ جب اُس کا قہر یکا یک بھڑکے مبارک وہ سب جس کا تو کل ا س پر ہے‘‘۔ عزیز امیں اب بند کرتا ہو ں ۔ یہاں تک ہم دیکھ چکے ہیں دوسرے پر چے میں یہاں سےشروع کر یں گے ۔