As Rain Come Down From Heavn And Don’t Return
By
One Disciple
ایک شاگرد
Published in Nur-i-Afshan Jan 23, 1894
نور افشاں مطبوعہ ۲۳جنوری ۱۸۹۴ ء
’’جِس طرح آسمان سے بارش ہوتی اور برف پڑتی ہے اور پھر وہ وہاں نہيں جاتے ـبلکہ زمين کو بھگوتے ہيں اور اُس کی شادابی اور روئيدگی(اُگنا) کا باعث ہوتے ہيں تاکہ بونے والے کو بيج اور کھانے والے کو روٹی دے اُسی طرح ميرا کلام جو ميرے منہ سے نکلتا ہے ہوگا ـوہ ميرے پاس بے انجام نہ پھرے گا بلکہ جو کچھ ميری خواہش ہوگی اُسے پورا کرے گا ـاور اُس کام ميں جس کے لئے ميں نے اُسے بھيجا موثر ہوگا‘‘(يسعياہ ۵۵ :۱۰، ۱۱)۔
جب اِس بات پر خيال کيا جاتا ہے کہ قريب ايک سو برس سے اِس ملک ميں مسیحی مذہب کی اشاعت ہو رہی ہے اور سينکڑوں ولايتی مشنری اور اُن کے ہزاروں ديسی مسیحی مددگار صد ہا(سینکڑوں،بہت سے)مختلف طريقوں سے انجیلی تعليم لوگوں ميں پھيلانے کے لئے کوشش کر رہے ہيںـاور کروڑوں روپیہ اس کام کے لئے خرچ ہو چکا ہے تاہم اس کے بالمقا بل اِس ملک کے بہت تھوڑے لوگوں نے مسیحیت کو قبول کيا ہے تو ايک اِنسانی معمولی دل ِياس (نا اُميد)سے بھر جاتااور پست ہمتی سے مغلوب (ہارنا)ہو جاتا اور سمجھتا ہے کہ نہ معلوم کس قدر عرصہ دراز اور دولت کثير ہندوستان کو مسیحی ملک بنانے ۔اور قوموں کو مسیح کے زیرسایہ لانے میں درکار ہے۔ایسے خیال والے شخصوں کو یسعیاہ کی اس نبوت کے جو اس نے مسیح کے مبارک زمانہ کی نسبت کی تھی۔کہ’’جس طرح پانی سے سمندر بھرا ہوا ہے۔اُسی طرح زمين خُدا وند کے عرفان(پہچان) سے معمور ہو گی‘‘تکميل کو پہنچنے ميں بے قياس توقف (بہت دير)اور لامحدود عرصہ معلوم ہوتا۔ليکن وہ مسیحی جو کلامِ اللہ کے ان بکثرت وعدوں پر ۔جو مسیحی سلطنت کے تمام دنيا ميں قائم ہو جائے۔اور صُلح و سلامتی زمين پر پھيل جانے کی نسبت مرقوم ہيں۔اعتقاد کامل رکھتا ہے۔اُن کی بر وقت تکميل کے بارے ميں ۔عرصہ کی درازی۔ اور کاميابی کی کمی کے باعث کبھی مايوس ومتشکی (شک کرنا)نہيں ہوتا۔ اور بے يقين تمام جانتا ہے۔کہ بلا ريب(بے شک)وہ دن بھی آئے گا۔جب کہ’’ہر ايک گھٹنا اُس کے سامنے جُھکے گا۔اور ہر ايک زبان اقرار کرے گی کہ يسوع مسیح خُداوند ہے۔
غير اقوام کے لوگ جب ديکھتے ہيں۔کہ مسیحی مشنریوں کی حد درجہ کی کوششوں اور کمال جانفشانيوں کے مقابلہ ميں اُن کا پھل بہت تھوڑا نظر آتا ہے۔تو خيال کرتے ہيں۔کہ شايد يہ لوگ بالآخر تھک کر اِس کام سے کنارہ کش ہو جائيں گے۔اور مسیحیت کو ہندوستان ميں کبھی ترقی وغلبہ حاصل نہ ہو گا۔اور يوں وہ اپنے دلوں کو مطمين ومسرور کرتے ہيں۔مگر نہيں جانتے کہ يہ صليب کے سپاہی فتح کا کامل يقين رکھتے ہوئے ميدان ِکارزار(ميدانِ جنگ) سے کبھی نہ ٹليں گے۔اور مخالفتوں اور مشکلات کے باعث پسپا ہونے کے بجائے وہ آگے بڑھيں گے۔تا وقتيکہ يہ ظہور ميں نہ آجائےکہ تمام ہندوستان مسیح کے زيرِ فرمان ہو گيا ہے۔
اِس ميں ذرا بھی شک نہيں کہ اس ملک ميں مسیح کی بادشاہت پھيلانے کے لئے جس قدر محنت وزر صرف ہو رہا ہے۔کچھ بھی ضائع نہ ہونے پائے گا۔جيسا کہ ہم کو نيويارک(امريکہ)کے ايک کارخانہ کی کیفیت تعليم دے رہی ہے۔کہ اُس عظيم الشان شہر ميں والتہم واچ کا ايک کارخانہ تھا۔جس ميں گھڑيوں کے ڈھکنے بنائے جاتے تھے۔اِس کارخانہ کی عمارت تين منزلہ تھی اور زمين پر تختے بطور فرش جُڑے ہوئے تھے۔برسوں تک کارخانہ مذکورہ ميں ڈیڑھ ہزار ڈالر لے کر تين ہزار ڈالر کا سونا روزانہ گلايا جاتا اور کام ميں لايا جاتا تھا۔چند مہينے گزرے کارخانہ دوسری عمارت ميں منتقل کيا گيا۔اور پہلی عمارت کے وہ تختے جو فرش ميں جڑے ہوئے تھے۔بڑی حفاظت سے نکالے گئے۔ان تختوں کو جلا کر خاکستر (راکھ)کرنے۔ اور ازروئےحکمت خاک کو صاف کرنے سے کمپنی مذکورہ کو خاک سے (۶۷۰۰۰) ڈالر کا سونا دستياب ہوا۔سونے کے ذرّے جو وقتاًفوقتاً تختوں پر گرے ضائع نہ ہوئے۔بلکہ سب مجتمع(جمع) ہو کر ايک رقم کثير بن گئی۔اِسی طرح جو زور وزر اِس ملک ميں خُدا کا کام وکلام پھيلانے کے لئے صرف ہو رہا ہے۔اگرچہ وہ ذرّہ ذرّہ منتشر(بکھرنا) رہے ليکن بالاآخر مجموعی طور پر صاف ظاہر ہو جائے گا ۔ہم اُميد رکھتے اور يقين کرتے ہيں کہ وہ دن جلد آئے گا۔جبکہ ہندوستان ميں کسی غير ملکی مشن کی ضرورت نہ رہےگی۔ليکن اگر ضرورت ہو گی تو ہندوستان کے مسیحی ديگر ُبت پرست مُلکوں ميں اپنے مشنريوں کو بھیجیں گے۔