حضرت داؤد کی زندگی


Life of David

By

One Disciple

ایک شاگرد

Published in Nur-i-Afshan Feb 9, 1894

نور افشاں مطبوعہ ۹فروری ۱۸۹۴ ء

ساؤل بنی اِسرائيل کا بادشاہ تھا۔ليکن اُس کی چال خُداوند کو پسند نہ ہوئی۔کيونکہ وہ خُداکی مرضی پر نہ چلا۔اِس لئے خُدا نے اُس کو مردود (نالائق)کر ديا۔

داؤد کا بادشاہ ہونے کے لئے ممسوح ہونا۔

اور بيت لحم کے يسی نامی ايک شخص کے بيٹوں ميں سے اُس کے سب سے چھوٹے بیٹے داؤد نامی کو بادشاہ ہونے کے لئے چُن ليا۔اور سموئيل قاضی کو بھيجا کہ ۔اُس کو ممسوح (مسح)کرے کہ وہ بادشاہ ہو۔اگرچہ يسّی کے سات بيٹوں ميں ۔الياب۔ابی ندب اور ساما وغيرہ بڑے خوبصورت اور جوان تھے۔ليکن اُن ميں سے داؤد چنا گيا۔اور وہ خُدا کی طرف سے بنی اسرائيل کا بادشاہ ٹھہرا۔ليکن چونکہ ساؤل اب تک بنی اسرائيل کا بادشاہ تھا۔داؤد کو فوراً تخت نہ ملا۔بلکہ بد دستور سابق وہ اپنی بھیڑ بکرياں چرايا کرتا تھا۔مگر داؤد گانے بجانے کے کام ميں بڑا ہوشيار تھا۔اور ساؤل کو ايک گانے والے شخص کی ضرورت پڑی ۔لوگوں نے اُسے داؤد کی خبر دی اور اُس نے اُسے بُلاليا اور وہ اُس کے حضورگايا کرتا تھا۔

فلستی بہادر

انہی ايّام ميں بنی اِسرائيل کی لڑائی فلستی نامی ایک قوم سے ہوئی ۔اس قوم میں ايک شخص جاتی جوليؔت کر کے بڑا پہلوان اور بہادر تھا۔اُس نے بنی اِسرائيل کو حقارت کی اور اپنے زور کی شیخی کی ۔اور بنی اسرائيل ميں سے کسی کا حوصلہ نہ پڑا کہ اُس کا مقابلہ کرے۔ليکن داؤد نے صرف ايک فلاخن (وہ رسی کا پھندہ جس ميں رکھ کرپتھر پھینکتے ہيں)سے اُس کا مقابلہ کيااور اس کو مار ديا۔اس پر داؤد کی بڑی تعريف ہوئی۔کيونکہ اُس نے ايک بڑے بہادر دشمن کو مغلوب( زير۔شکست خوردہ)کيا تھا۔اور بنی اسرائيل کی عورتوں نے داؤد کی ساؤل سے بھی بڑھ کر تعريف کی۔

ساؤل کی داؤد سے دُشمنی

اِس لئے ساؤل داؤد کی طرف ضّد اور دشمنی سے ديکھنے لگا۔اور درپے (پیچھا کرنا)ہوا کہ اُس کو مار ڈالے۔کئی دفعہ اُس کو جان سے مار ڈالنا چاہا۔ليکن خُدا نے داؤد کو بچايا۔اور اگر چہ ساؤل داؤد کے قبضہ ميں کئی بار آگيا۔ليکن اُس نے اپنے دُشمن کو نہ مارا۔اور داؤد باوجود اُس کی طرف سے ايسے سلوک ہونے کے پھر بھی اُس کی عزت ويسے ہی کرتا رہا۔ليکن ساؤل کا غصہ اور مخالفت مرتے دم تک نہ گيا۔اور آخر کار وہ اپنی بُری زندگی سے جو ہميشہ دوڑ دُھوپ ميں کٹی اپنی تلوار سے آپ ہی قتل ہوا۔

داؤد کی زندگی کے پہلے برس حالانکہ وہ خُدا کی طرف سے اِسرائيل کا بادشاہ مقرر ہو چُکا تھا نہایت تکلیف اور دُکھ ميں کٹے۔اپنی جان بچانے کے واسطے وہ پہاڑوں اور غارُوں ميں بھاگتا پھرا۔ليکن اُس کا بھروسہ خُدا پر تھا۔اور خُدا نے آخر کار اُس کی تمام مصیبتیں رفع کيں۔اور وہ تمام بنی اِسرائيل کا بادشاہ ہو گيا۔وہ خُداکی عبادت اور بندگی ميں بھی دل وجان سے مشغول(مصروف) رہا۔اُس کو بہت شوق ہوا کہ خُدا کی عبادت کے واسطے ايک عاليشان ہیکل بنائے ليکن اُس کو خُدا سے اس کام کے لئے اجازت نہ ہوئی اور سبب يہ بتايا گيا ہے کہ وہ جنگی مرد تھا۔

داؤد کا گُناہ

بائبل خُدا کا کلام ايسا بلارورعايت حق ا ور صداقت کا اظہار کرتا ہے ۔کہ کسی کی خطا (غلطی)اور گناہ کو مطلق نہيں چھپاتا ۔کسی نبی رُسول اور بادشاہ کے گناہ پر پردہ نہيں ڈالتا ۔بلکہ صاف طور سے اُس کا بيان کرتا ہے داؤد کی زندگی کا پورا پورا حال سموئيل کی کتاب ميں مندرج ہے۔اُس ميں داؤد کا جو اُس نے اورياہ کی جورُو (بيوی)کے نا جائز طور پر لے لینے سے کيا تھا۔صاف صاف ظاہر کيا گيا ہے۔اور اُس کی بابت اِنتقامِ الہٰی یعنی اُس گناہ کی سزا کا بھی ذکر ہے ۔ جس سے خُدا عادل ،گناہ سے نفرت کرنے، اور اُس کی سزا دينےوالا ثابت ہوتا ہے۔اِفسوس کے اِنسان کا دل يہاں تک گناہ سے آلودہ ہوا کہ انسانی نسل کے وہ لوگ جن کو خُدا نے الہٰی طاقت دے کر بنی آدم ميں سے مخصوص کيا۔وہ بھی گناہ کی آلودگی سے نہ بچے۔اور معصوم نہ رہے۔کيونکہ آدم کی نسل سے تھے۔جس کی نسل ميں برگشتگی (بغاوت)کے دن سے گناہ کا زہر سرائيت(پھيل) کر گيا۔اور گناہ آنے والی تمام نسلوں ميں يکساں اور برابر ظاہر ہوتا گيا۔

ليکن خُوشی کا مقام ہےکہ عورت کی نسل سے گناہ پر غالب ہونے والا پيدا ہونے والا تھا۔اور وہ داؤد کے خاندان ميں سے برپا ہونے والا تھا۔اگرچہ وہ ايک طور سے داؤد کی اُولاد ميں سے ہوا۔ليکن داؤد اُس کو اپنا ’’خُداوند‘‘کہتا ہے کہ ’’خُداوند نے ميرے خُداوند سے کہا۔کہ تو ميرے دہنے بیٹھ جب تک کہ ميں تيرے دُشمنوں کو تيرے پاوُں کی چوکی کروں‘‘۔وہ زمين سے خاکی نہيں تھا۔ بلکہ آسمان سے روحانی اور جلالی تھا۔اور وہ ہی صرف اکيلا گناہ سے پاک ثابت ہوا۔صرف وہی دُنيا ميں معصوم ٹھہرا۔اور اِسی وجہ سے وہی نجات دہندہ ٹھہر سکتا ہے۔جو خُود گناہ سے مُبرا (پاک) ہو۔اور گنہگاروں کو جو عاجز لاچار اور بیکس ہيں نجات ابدی بخشے۔وہ آنے والا تھا۔اور داؤد کو چونکہ وہ پیغمبر تھاخُدا کی جانب سے خبر ملی تھی کہ وہ آئے گااور بنی آدم کو وہ زندگی جو اُنہوں نے کھو دِی تھی بخشے گا۔

Leave a Comment