قرآن سے انجیل کی قدامت اور اصلیت

Eastern View of Jerusalem

The Reliability of the Gospel from Quran

By

Kidarnath

کیدارناتھ

Published in Nur-i-Afshan April 25, 1889

نور افشاں مطبوعہ ۲۵۔اپریل ۱۸۸۹ء

 واضح ہو کر عیسائی علماء نے کمال تحقیقات کر کے بخوبی ثابت کر دیا ہے کہ انجیل مروجہ حال وہی انجیل ہے جو( ۹۶ء؁ )تک تصنیف ہو کر تمام وکمال شائع ہو چکی تھی۔ چنانچہ قدیم تراجم سرونی وانگلو ساکسن وغیر ہ اور پرانے قلمی نسخاجات الگز ندریہ دوم اس ثبو ت کے وسائل مو جو د ہیں ۔ حاجت نہیں کہ مکرر ان کی تکر ار کی جائے مگر زمانہ حال کے محمدی اکثر یہ حیلہ پیش کرتے ہیں کہ یہ انجیل وہ انجیل نہیں ہے ۔ جو زمانہ قدیم حضرات حواریو ں میں تھی ۔

لہٰذا اب میں خاص اُنہیں کے اطمینان کے واسطے چند ثبو ت جو کہ میرے ہی ذہن ناقص میں متخیل (خیال کیا گیا)میں بیان کرتاہوں۔ یاد رکھنا چاہئے کہ میں اپنے دلائل میں صرف اسی پر اکتفاکر و ں گا کہ انجیل مو جو د حال کی موجودگی زمانہ محمد میں ثابت ہو جائے اور بس ۔ معلوم ہونا چاہئے کہ انجیل کیا ہے؟

یعنی خدا قیامت میں اپنی پنڈلی کھول کر دکھلائے گا

 انجیل کے معنی لغت میں خوشی اوراصطلاح میں اُس کتاب کے کہتے ہیں جو خداوند یسوع مسیح کے حالات پر مشتمل ہے ۔ اور وہ چار حصوں میں محدود ہیں۔

پہلے میں چاروں اناجیل ، دوسرے میں اعمال الرسل، تیسرے میں خطوط اور چوتھے میں مکاشفہ ہے۔

مکاشفہ نبوت کی کتاب ہے ۔ خطوط تعلیمات عیسوی کے مفسر ہیں۔ اعمال میں رسولوں کی کا ر گزاری ہے ۔ انجیلوں میں مسیح کی سوانحِ عمری گویاز وہ بیج جو کشت زار(سرسبز کھیت)انجیل میں بویا گیا۔ یہ آبیاری اعمال نہال سر سبز نظر آیا ۔ خطوط میں اُس کے پھول خوشبو پُہنچاتے ہیں ۔ پھر مکاشفہ میں پھل لگے ہوئے پاتے ہیں ۔

 پس اس سلسلہ متناسبہ پر غور کرنے سےصاف معلوم ہو سکتا ہے کہ ہر چار حصص(حصہ کی جمع) آپس میں کیسا علاقہ متحدہ رکھتے جس میں نہ افراط کو دخل ہے اور نہ تفریط کو گنجائش جب الحکم( مکاشفہ ۲۲: ۱۸ ۔ ۱۹ )

 اب ساری انجیل کا لُب لباب ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔

 خداوند مسیح کی معجزانہ پیدائش، اُس کی تعلیمات اور معجزات موت اور جی اُٹھنا، آسمان پر تشریف لے جانا ۔ وحدت فی التثلیث، ابنیت کفارہ ۔ مسیح عدالت کرے گا۔ اسی کی قدامت اور اصلیت ثابت کرنا ہمارا مدعا ہے۔

محمدی ان تما م باتوں سے نکار نہیں کرتے صرف تثلیث اور ابنیت اور مسیح کی موت اور جی اُٹھنے اور کفارہ اور عدالت سے ۔ اور انہیں باتوں کوانجیل میں پڑھ کر وہ گھبرا جاتے اور بے وجہ  کہہ بیٹھتے ہیں کہ جس کی انجیل پر ایمان لانے کوہمیں قرآن حکم دیتا ہے وہ انجیل اور ہے اور یہ اور ہے ۔ اور اُن کا یہ دعویٰ وہمی قرآن سے علاقہ رکھتا ہے اُن کے گمان میں( ۱۳۰۰) بر س سے ہے اور محمد کے روبر ولکھا جا چکا تھا۔ پس مجھے حق پہنچتا ہے کہ اگر میں آیات متنازعہ فیہ کو صرف قرآن سے ثابت کردوں تو محمد یوں سے کہوں کہ یہ وہی انجیل ہے جسے تم قدیمی خیال کرتے ہو۔

تثلیث اور مسیح کی ابنیت کے واسطے

دیکھو قرآن میں سورۃ النساآیت ۱۷۱


یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ لَا تَغۡلُوۡا فِیۡ دِیۡنِکُمۡ وَ لَا تَقُوۡلُوۡا عَلَی اللّٰہِ اِلَّا الۡحَقَّ  اِنَّمَاالۡمَسِیۡحُعِیۡسَیابۡنُمَرۡیَمَرَسُوۡلُاللّٰہِوَکَلِمَتُہٗۚاَلۡقٰہَاۤاِلٰی مَرۡیَمَ وَ رُوۡحٌ مِّنۡہُ ۫ فَاٰمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہٖ ۚ وَ لَا تَقُوۡلُوۡا ثَلٰثَۃٌ  اِنۡتَہُوۡاخَیۡرًالَّکُمۡ  اِنَّمَااللّٰہُاِلٰہٌوَّاحِدٌ  سُبۡحٰنَہٗۤاَنۡیَّکُوۡنَلَہٗوَلَدٌ

’’ یعنی مسیح خدا کی روح سے تو ہے مگر بیٹا نہیں ہے۔ اور تین نہ کہو خدا صرف ایک ہے‘‘ ۔

ہم اس آیت پر کچھ اعتراض نہیں کرتے ہمارا مطلب یہ ہے کہ محمد کے زمانہ کی انجیل میں بھی تثلیث اور ابنیت درج تھی اور اب کی انجیل میں بھی درج ہے ۔ اگر عیسائیوں نے اب درج کرلی ہو تی اور قدیم انجیل میں نہ  ہوتی تو محمد کیوں پیش ازوقت قرآن میں تثلیث اورابنیت سے انکار کر تا۔ پس معلوم ہو ا کہ محمدکے وقت میں بھی جس کو( ۱۳۰۰) بر س گزرے یہی انجیل تھی جو اب ہے ۔اور نہ

صلیب کی بابت

 دیکھو سورہ النساآیت ۱۵۷


وَ مَا قَتَلُوہُ وَ مَا صَلَبُوہُ وَ لٰکِن شُبِّہَ لَہُم

’’یعنی مصلوب نہیں ہو ا ‘‘۔

اس نفی سےبھی اثبات حاصل ہوتا ہے کہ محمدی عہد کی انجیل میں بھی واقعہ صلیب اسی صورت سے مندرج تھا جس طرح حال کی انجیلوں میں یہ حال لکھا ہے اور جس شمعون قرینی نے محمد کو شبہ میں ڈالا وہی شمعون قرینی اب بھی محمدیوں کو دھوکے میں ڈالتا ہے بہر حال سمجھ کا پھر ہے اگر اب عیسائیوں نے لکھ لیا ہوتا تو محمد نے قبل از وقوع کس امر کی نفی کی بے شک وہ انجیل اسی انجیل کی اصل تھی ۔پس ثابت ہوگیا کہ یہ انجیل پہلی انجیل کی نقل ہے ۔

روح القدس کے حق میں

دیکھو قرآن میں سورہ الصف آیت ۶


وَ اِذۡ قَالَ عِیۡسَی ابۡنُ مَرۡیَمَ یٰبَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اِنِّیۡ رَسُوۡلُ اللّٰہِ اِلَیۡکُمۡ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوۡرٰىۃِ وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوۡلٍ یَّاۡتِیۡ مِنۡۢ بَعۡدِی اسۡمُہٗۤ اَحۡمَدُ

 معلوم ہو تا ہے کہ محمد نے اس آیت میں پہلا حصہ (متی ۵: ۱۸) سے نقل کر لیا ہے جس میں ہمارے خداند نے فرمایا کہ ایک نقطہ یاایک شوشہ تو ریت کا ہرگز نہ ٹلے گاجب تک سب کچھ پورا نہ ہو دوسرے حصہ کی نسبت تمام محمدی علمامتفق ہیں کہ ( یوحنا ۱۶ : ۷) سے یہ نبوت محمد کے حق میں بزبان  خداوند مسیح منقول ہو ئی ہے ۔اگر چہ ہمارے خداوند کی  مراد اس سے روح القدس ہے ۔پر تو بھی ہم محمد کے اس دعویٰ باطلہ سے ایک صداقت حاصل کر سکتے ہیں کہ گویا محمدیوں نے خود مان لیا کہ وہ آیت جس پر محمد نے (۱۳۰۰ )برس ہوئے اشارہ کیا اب بھی تمام انجیلوں میں بجنسہ(ایسے ہی) موجود ہے ۔ یہاں اس ایک دلیل سے دو دلیلیں ہاتھ آتی ہیں ۔اول یہ کہ اس آئت کی قدامت ۳۳ء؁ تک منتہی ہے ۔دوم کہ اگر عیسائی محمد کی نبوت پوشیدہ کرنا چاہتے ۔ یا ا ُنہیں پاک کلام میں کچھ دست اندازی کا موقعہ ملتا تو سب سے پہلے وہ اسی آیت کو نکلا ڈالتے اور آج محمدی اتنے کہنے کا موقعہ نہ پاتے  کہ انجیل میں محمد کی خبر ہے مگر اس سے ثابت ہو گیا کہ انجیل نویسوں یا عیسائیوں نے کبھی ایسے کافرانہ کام کا ارادہ نہیں کیا انجیل جیسی کی تیسی موجود ہے ۔

کفارہ کی بابت

صرف یہی کہنا کا فی ہو گا کہ جب واقعہ صلیب ثابت ہوا تو کفارہ اُس کا ضروری نتیجہ خود بخو د ہے ۔

مسیح سب کی عدالت کرے گا

اس کی نسبت قرآن میں ظاہراً کسی خصوصیت کے ساتھ سے اعتراض نہیں کیا گیا اس لئے وہ اس امر کا شاہد نہیں ہو سکتا کہ محمدی اس سے منکر ہیں تاہم معنوی طور پر قرآن کی آیت ذیل میں غور کرنے سے یہ اقتباس ہو سکتا ہے۔ دیکھو سورہ قلم کی یہ آیت


یَوۡمَ یُکۡشَفُ عَنۡ سَاقٍ وَّ یُدۡعَوۡنَ اِلَی السُّجُوۡدِ

 ’’یعنی خدا قیامت میں اپنی پنڈلی کھول کر دکھلائے گا ‘‘

اس سے خدا کا مجسم ہونا ثابت ہو تا ہے ۔ درحقیقت اس آیت کو ابنِ آدم سے بہت کچھ علاقہ ہے۔ دراں حالیکہ محمدی خدا کے مجسم ہو نے سے سخت انکار کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ محمد نے اگر چہ اس قیاس میں دھوکا کھایا اور تخصیص(خصوصیت،محفوظ کرنا) پنڈلی سے وہ پاک کلام کی تعلیم سے بہت دور جا پڑا ۔لیکن اس قد ر تو ضرور ثابت ہو تا ہے ۔ کہ خدا کے مجسم ہونے کا خیال اُس کے دماغ میں اسی انجیل کے معائنہ سے آگیا ۔پس اس سے بھی ثابت ہوگیا کہ یہ انجیل اُسی انجیل کی نقل ہے جو محمد کے زمانہ میں موجود تھی اورجس کا اصلی مطلب یہ ہے کہ’’ خدا نے جہان کو ایسا پیار کیا کہ اُس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخشا تاکہ جو کوئی اُس پر ایمان لائے گا ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے‘‘ ۔ (یوحنا۳: ۱۶)

<

Leave a Comment