قرآن مسیح کے جی اُٹھنے کا اقرار کرتا ہے

Eastern View of Jerusalem

The Quran confesses the resurrection of Christ

By

Butta Singh

بوٹا سنگھ

Published in Nur-i-Afshan Feb 13, 1890

نور افشاں مطبوعہ۱۳فروری ۱۸۹۰ء

قرآن میں محمد صاحب مسیح کی موت اور اُس کے اپنی قدرت سے جی اُٹھنے کا اقرار کرتے ہیں ۔چنانچہ سورہ مریم میں یوں لکھا ہے ۔

وَ السَّلٰمُ عَلَیَّ یَوۡمَ وُلِدۡتُّ وَ یَوۡمَ اَمُوۡتُ وَ یَوۡمَ اُبۡعَثُ حَیًّا

 ترجمہ سلا متی ہو اُوپر میرے جس  دن پیدا ہو ا میں اورجس دن مروں گا  میں اور جس دن اُٹھوں گا میں زندہ ہو کر۔یہ وہی بات ہےجو یوحنا کی انجیل کے ۱۰ باب کی ۱۷اور ۱۸آیت میں مرقوم ہے کہ میں اپنی جان دیتا ہوں  تاکہ میں اُسے پھر لوں  ۔میں اُسے آپ دیتا ہوں میرا اختیار ہے کہ اُسے دوں اور میرا اختیار ہے کہ اُسے پھیر لوں ۔معلوم ہوتا ہے اس آیت کو محمد صاحب نے عیسائیوں سے سُن کر اورعبارت  تبدیل کر کے اور  بے سبب اور بے عملی  کے نتیجہ سے بے خبر ہو کر قرآن میں لکھوائی اور پھر دوسری جگہ مسیح کی موت کا انکار کیا ہے جیسا کہ سورہ النسا  میں مرقوم ہے

 وَّ قَوۡلِہِمۡ اِنَّا قَتَلۡنَا الۡمَسِیۡحَ عِیۡسَی ابۡنَ مَرۡیَمَ رَسُوۡلَ اللّٰہِ ۚ وَ مَا قَتَلُوۡہُ وَ مَا صَلَبُوۡہُ وَ لٰکِنۡ شُبِّہَ لَہُمۡ وَ اِنَّ الَّذِیۡنَ اخۡتَلَفُوۡا فِیۡہِ لَفِیۡ شَکٍّ مِّنۡہُ  مَا لَہُمۡ بِہٖ مِنۡ عِلۡمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ۚ وَ مَا قَتَلُوۡہُ یَقِیۡنًۢا بَلۡ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیۡہِ  وَ کَانَ اللّٰہُ عَزِیۡزًا حَکِیۡمًا۔

سلا متی ہو اُوپر میرے جس دن پیدا ہو ا میں اورجس دن مروں گا

 ترجمہ ۔۔۔ اور بے سبب کہنے اُن کے کہ تحقیق  ہم نے مار ڈالا  مسیح  عیسیٰ  بیٹے مریم  کے کو۔پیغمبر اللہ کا تھا اور نہیں مارا اُس کو  نہ سولی دی اُس کو  اور لیکن شبہہ ڈالا گیا واسطے اُن کے  اور تحقیق  جو لوگ کہ اختلاف  کیااُنہوں نے بیچ اُس کے البتہ بیچ شک کے ہیں ۔اُس سے نہیں واسطے اُن کے ساتھ اُس کے کچھ علم  مگر پیروی  کرنا گمان کا اور نہ مارنا اس کو  بہ یقین بلکہ کااُٹھا لیا اُس کو اللہ نےطرف اپنی اوراللہ ہی غالب حکمت والا ہے ۔۔اس آیت کی مولانا عبد القادر صاحب یوں تشریح کرتے ہیں  کہ یہود کہتے  ہیں کہ ہم نے مارا عیسی ٰ اور مسیح  اور رسول  خدا نہیں ہے ۔اللہ نے اُن کی خطا فرمائی اور فرمایا  کہ  اُس کو ہرگز نہیں  مارا حق تعالیٰ نے اُن کی ایک صور ت بنا دی اس صورت کو سولی پر چڑھا دیا ۔اے ناظرین اب ملا خط فرمادیں کہ ایک جگہ  ہے  تو مسیح  کی موت  کا اقرار ہے اور دوسری جگہ انکار۔ لیکن اس اختلاف کے رفع کرنے کے لئے محمدی عالم اپنی من گھڑت یوں  تشریح  کرتے ہیں۔کہ مسیح چوتھے آسمان سے جب د جال کو مارنے  کے لئے آئیں گے تو مریں گے  اور مکہ میں مدفون  ہو کر قیامت کو پھر زندہ ہوں گے۔اے محمدی صاحباں ایسی من گھڑت باتوں کا کوئی ثبوت بھی ہے؟کیا قرآن سے اس بات کا ثبوت دے سکتے ہو؟ نہیں میرے عزیزو قرآن میں یہ  کہیں نہیں لکھا  کہ مسیح آسمان سے آکر مریں گے او ر پھر قیامت  کو زندہ کئے جائیں گے۔اب میرے محمدی  بھائیوں  کو دو باتوں   پر غور  کر نا لازم ہے ۔ اول یہ کہ مسیح مصلوب  نہیں ہوااور حق تعالی ٰ  نے اُس کی ایک صورت  اُن کو بنا دی تو خد ا نے  فریب کیا گویا  خدا فریب دہندہ ٹھہرا جیسا کہ سورہ آل عمران  میں لکھا  ہے ۔

وَ مَکَرُوۡا وَ مَکَرَ اللّٰہُ  وَ اللّٰہُ خَیۡرُ الۡمٰکِرِیۡنَ

ترجمہ اور مکر کیا انہوں نے اور مکر کیا اللہ نے اور اللہ  ہی بہتر مکر کرنے والا ۔مولانا عبدالقادر صاحب اس آیت کی  تشریح اس طرح کرتے ہیں  کہ یہود کے عالموں  نے اُس وقت  کے بادشاہ  کو بہکایا  کہ یہ شخص  توریت  کے حکم  سے خلاف  بتاتا ہے اُس نے لوگ بھیجے ۔حضرت عیسیٰ  کے پار سرک گئے ۔اس شتابی  (جلدی جلدی)میں حق تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کو آسمان پر اُٹھا لیااو ر ایک صورت  اُن کی بنا دی اُس کو پکڑ لائے  پھر سولی پر چڑھایا۔

اَے میرے محمدی بھائیو!ذرا انصاف سے تعصب کو دُور کر کے غور کرو کیا یہ فریب نہیں ہے؟کیا تمہارے خدا میں اتنی توفیق نہ تھی کہ گرفتار کنند گان مسیح کے دلوں کو تبدیل کرتا جیسا  کہ مسیحیوں کے خدا نے پولس  کے ارادوں کو اورسنحیرب کے بادشاہ کے ارادوں کو تبدیل کیا ۔لیکن معلوم ہو ا کہ آپ کا خدا مجبور تھا کہ سوائے  فریب کے حضرت عیسی ٰ  کو بچا نہیں سکتا تھا۔پس ایسا خدا  خدا ہو  نہیں  سکتا اور نہ اسکا کلام  کلامِ خدا ہوسکتا ہے ۔

دوم یہ کہ اگر اقرار کرو تو قرآن  میں بڑا بھاری اختلاف ہو گا۔کیونکہ ایک جگہ تو مسیح کی موت کا اقرار اور دوسری جگہ انکار۔پھر  جس کتاب میں ایسے  اختلاف ہوں وہ  کتاب کسی صورت میں الہامی ہو نہیں سکتی ۔پس دو طرح قرآن  خُدا کا کلام ثابت نہیں ہو سکتا ہے۔

Leave a Comment