The Reality of the Hebrew Word Machamadim
By
Rev.Mulawi Abduhla Bin Habib Alqureshi
پادری مولوی عبداللہ بن حبیب القریشی
Published in Nur-i-Afshan November 21, 1889
نور افشاں مطبوعہ ۲۱۔ نومبر ۱۸۸۹ء
رسالہ مبشر انجیل کے صیغہ مراسلات میں لفظ ’’محمدیم ‘‘ کی نسبت ایک مسلم عالم کے وہم کا ازالہ جناب پادری ٹامس ہاول صاحب نے خوب کیا ہے ۔ اس مسلم عالم کے دعوے کا ماحصل (حاصل )یہ ہے کہ کتاب (غزل الغزلات ۵: ۱۶) میں بزبان عبرانی جو لفظ ‘‘ محمد یم ‘‘ واقع ہے و ہ محمد صاحب نبی عرب کا نام ہے جو بطور بشارت محمد صاحب کے لئے کتب سابقہ میں آیا ہے ۔
واہ سجان اللہ محمدصاحب کی بشارت کے ثبوت کے لئے کیا عجیب و غریب استدلال (دلیل)ہے ۔ یہ استدال ایسا ہے جیسا کہ کبیر صاحب کا کوئی شاگر د اپنے گر و کبیر صاحب کی الوہیت اور بشارت قرآن سے اس طور ثابت کرے ۔
ا۔ قرآن سورہ ر عد ( ۱۳) آیت ۹۔
عٰلِمُ الۡغَیۡبِ وَ الشَّہَادَۃِ الۡکَبِیۡرُ الۡمُتَعَالِ
ترجمہ ۔ اللہ صاحب ظاہر اور باطن کا جاننے والا کبیر بزرگ ہے ۔ اب اگر اس محمدی عالم کا استدلال جہت (جدوجہد)بشارت محمد صاحب بائبل کے لفظ ’’محمدیم ‘‘ سے درست ہو تو کبیر کے مر ید کا استدلال قرآن کے آیت مذکور ہ سے اپنے گروجی کے لئے بطر یق اولٰی درست ہوگا کیونکہ بعینہ لفظ کبیر موجود ہے۔
ب ۔ قرآن سورہ حج (۲۲) آیت ۶۱۔
ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ ہُوَ الۡحَقُّ وَ اَنَّ مَا یَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِہٖ ہُوَ الۡبَاطِلُ وَ اَنَّ اللّٰہَ ہُوَ الۡعَلِیُّ الۡکَبِیۡرُ
ترجمہ ۔ پھر سبب اس کے اللہ صاحب وہی سچا ہے اور ماسواا س کے وہ پکارتے ہیں وہ باطل ہے اور تحقیق وہی ش بڑا کبیر ہے ۔
اگر کوئی محمدی کہے کہ کتاب مقدس میں مخرج(خارج ہونے کی جگہ) حمد سے مشتقات (وہ لفظ جو کسی دوسرے لفظ سے بنا یا گیا ہو)محمدیم وغیرہ محمد صاحب کابشارتی نام ہے تو کیا کوئی کبیر پنتھی یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ بائبل اور قرآن میں مادہ کبر سےت جہاں جہاں لفظ کبیر آیا ہے وہ ہمارے گر و جی کا بشارتی نام ہے ؟
بائبل میں لفظ کبیر (ایوب ۱۵: ۱۰ ) (۱۔سموئیل ۱۹: ۱۳۔۱۶ ) میں آیا ہے۔
ج ۔ قرآن سورہ لقمان ( ۳۱) آیت ۲۹ ۔ آیت بعینہ سورہ حج والی آیت کی مانند ہے صرف اتنا فرق ہے کہ ہوا لباطل کی جگہ الباطل ہے ۔
د۔ قرآن سورہ سبا( ۳۴) آیت ۲۲
وَ ہُوَ الۡعَلِیُّ الۡکَبِیۡرُ
ترجمہ ۔ اور وہ ( خدا ) بڑا کبیر ہے ۔
کتاب مقدس میں محمد نہیں بلکہ محمدیم ہے لیکن یہاں قرآن میں تو کبیر ین (بصیغہ جمع) بھی نہیں بلکہ بجنسہ کبیر ہی موجود ہے ۔
ہ۔ قرآن سورہ مومن (۴۰) آیت ۱۲
فَالۡحُکۡمُ لِلّٰہِ الۡعَلِیِّ الۡکَبِیۡرِ
یعنی حکم اللہ صاحب بڑے کبیر کا ہے۔
اب کیا یہ بھی کچھ سمجھ ہے کہ کبیر جو لفظ جلال کےواسطے بطور صفت کے قرآن میں جابجا واقعہ ہے اُس سے کبیر صاحب کا بشارتی نام مراد ہو اور کیا یہ بھی کچھ اجتہادیا علمیت ہے کہ عبرانی مادہ حمد کی مشتقات مثل محمد یم ۔ محمدہا ۔ محمد ہم وغیر ہ وغیرہ بمعنی مرغوب چیزیں ۔ نفیس چیزیں ۔ دل پذیر چیزیں ۔جہاں جہاں کتاب مقدس میں ہوں و ہ محمد صاحب کا بشارتی نام ہو۔
اگرر بط کلامی اور سیاق عبارت اور الفاظ کےمعنوں سے کچھ سر وکار نہ ر کھو اور صرف کسی لفظ سے جہاں کہیں ملے بشارت اور پیشنگوئی ثابت کر و تو اس طور سے کتاب مقدس میں صرف یہ نہیں کہ محمد کا نام محمد یم سے نکلتا ہے بلکہ اُن کے والدین اور خلفا ء کے نام اور مکہ و مدینہ وغیرہ بحمد اللہ سب بائبل سے ثابت ہو سکتے ہیں ۔ کیونکہ (یرمیاہ ۳۴: ۲۶ ) میں عبد اللہ نام آیا ہے تو و ہ اس قاعدہ سے محمد صاحب کے والد ماجد کا نام ہو گا ۔اور ( پیدائش ۱۲: ۸) میں جو بیت اللہ مذکو رہے تو یہ اُن کا خانہ کعبہ ہو گا ۔ ( دانی ایل ۳: ۲۔۳) میں لفظ مد ینہ موجود ہے تو وہ محمد کے مدفن مدینہ منورہ کا نام اگلی کتابوں میں بطور بشارت لکھا گیا ہو گا ۔ اور جہاں جہاں کتاب مقد س میں مخارج بکر،عمر،علو سے جوجو مشتقات آئے ہوں اُن سے خلفاء ابوبکر عمر علی مراد ہوں گے ۔