A Descendant of David
By
One Disciple
ایک شاگرد
Published in Nur-i-Afshan Mar 30, 1894
نور افشاں مطبوعہ ۳۰مارچ ۱۸۹۴ ء
’’یسوع مسیح کو جو داؤد کی نسل سے ہےياد رکھ ۔کہ وہ مُردوں ميں سے جی اُٹھا۔ميری انجیل کے موافق‘‘(۲۔ تيِمُتھِيُس ۲: ۸)۔
اِس ميں شک نہيں۔کہ یسوع مسیح جسم کی نسبت داؤد کی نسل سے ہوا۔مگر مقدس رُوح کی نسبت قدرت کے ساتھ اپنے جی اُٹھنے کے بعد خُدا کا بيٹا ثابت ہوا۔ليکن یہ امر بھی قابلِ لحاظ اور اُس کی الُوہیت پر دال(دلالت) ہےکہ وہ داؤد کی اصل بھی ہے۔جيسا کہ اُس نے خود فرمايا کہ ’’مجھ يسوع نے اپنے فرشتہ کو بھيجا ۔کہ کليسياؤں ميں ان باتوں کی گواہی تم کو دے۔ميں داؤد کی اصل ونسل اور صُبح کا نورانی ستارہ ہوں‘‘(مکاشفہ ۲۲: ۱۶) پہلی حقیقت یہ کہ مسیح داؤد کی نسل سے ہوگا۔قوم يہود بخوبی آگاہ تھی۔مگر دوسری حقيقت سے کہ وہ داؤد کی اصل بھی ہو گا۔بہت کم لوگ واقف تھے۔ اور یہ ایسی گہری بات تھی کہ کيسا ہی مفصّل(تفصیل کے ساتھ) بيان اس کا کيا جاتا۔تو بھی انسان کے ناقص اور محدود فہم (عقل۔دانائی)ميں اُس کا کماحقّہ (ٹھيک ٹھاک۔جيسا اِس کا حق ہے)آجانا اور قريب الفہم(جلد سمجھ ميں آجانے والا) ہونا ايک نہايت مشکل امر تھا۔جيسا کہ ہم انجیلِ مقدس سے معلوم کرتے ہيں ۔کہ فریسیوں سے جو فی زمانہ علم وفضیلت ميں مشہور لوگ تھے جب خُداوند مسیح نے سوال کيا۔کہ’’مسیح کے حق ميں تمہارا کيا گمُان ہے۔وہ کس کا بيٹا ہے‘‘؟تو اُنہوں وہی جواب ديا جو ايک معمولی يہودی قوم کااور کوئی آدمی بھی دے سکتا تھا۔یعنی یہ کہ ’’وہ داؤد کا بیٹا ہے‘‘مگر جب خُداوند نے اُن سے کہاکہ’’پھر داؤد رُوح کے بتانے سے اُسے خُداوند کيوں کہتا ہے‘‘۔جيسا کہ زبور ميں لکھا یہ ہے کہ ’’خُداوند نے ميرے خُداوند کو کہا۔کہ جب تک ميں تيرے دُشمنوں کو تيرے پاؤں کی چوکی نہ کروں۔تو ميرے دہنے بیٹھ‘‘۔پس جب داؤد اُس کو خُداوند کہتا ہے۔تو وہ اُس کا بیٹا کيونکر ٹھہرا ۔؟تو اِس سوالِ عظيم (بڑا سوال)کو سُن کر کوئی شخص حاضرین ميں سے اُس کے جواب ميں ايک بات نہ بول سکا۔کيونکہ یہ سِرعظيم جب تک رُوح پاک کے فيضان (بڑی بخشش)سے انسان کے اُوپر ظاہر و منکشف نہ ہو وہ اِس کو ہرگز نہیں سمجھ سکتا۔اور نہ بغیر اُس کے يسوع مسیح کو خُداوند کہہ سکتا ہے۔
اب پولُس رسُول تيِمتھيُس کو اِس گاڈ مين(خُدا انسان)کے ياد رکھنے کے لئے ۔کہ وہ مُردوں ميں سے جی اُٹھا ہے۔تاکيد کرتااور لکھتا ہے کہ ’’اُس کے مُردوں ميں سے جی اُٹھنے کی تعليم ميری انجیل کے موافق ہے۔فی الحقیقت مسیح کا مُردوں ميں سے جی اُٹھنا مسیحیت کی عمارت کی محراب کا ڈاٹ ہے۔اورمسیحیت کو دُنيا کے تمام مذاہب پر اِسی لئے برتری اور فوقیت حاصل ہے۔کہ اُس کا بانی ايک ايسا قدرت والا شخص ہے۔’’جس نے موت کو نيست(تباہ) کيا۔اور زندگی اور بقا کو انجیل سے روشن کر ديا‘‘۔جب کہ انسان ايک دوسری شریعت کو اپنے عضوؤں ميں عقل کی شریعت سے لڑتے اور گناہ کی شریعت میں گرفتار ہوتے ديکھ کر آہيں مارتا اور گناہ کی مزدوری سے مخلصی ورستگاری(رہائی و نجات) حاصل کرنے کی فکر ميں لیل و نہار (صبح و شام) بے قرار ہو کر چلاتا ہے۔کہ ’’ميں تو سخت مصیبت ميں ہوں۔اِس گناہ کے بدن سے مجھے کون چھڑائےگا؟۔تو خُدا کے بے حد فضل سے یہ خوشخبری اُس کو دی گئی ۔کہ مسیح کے جی اُٹھنے سے ۔جو کامل خُدا اور کامل انسان ہے‘‘۔’’فتح نے موت کو نگل ليا۔اے موت تيرا ڈھنگ کہاں۔ اے قبر تيری فتح کہاں؟‘‘پس وہ مومنین جو اُس کو ياد رکھتے ۔کہ اُن کا خُداوند ايک زندہ خُداوند ہے۔جو فرماتا ہے کہ ’’مت ڈر ميں اِول وآخر۔اور زندہ ہوں۔اور ميں مُواتھا۔اور ديکھ ميں اب تک زندہ ہوں۔آمين۔اور عالم غیب اور موت کی کُنجیاں ميرے پاس ہيں‘‘۔وہ موت سے گزر کر اس کے ساتھ ابدی زندگی ميں داخل ہوں گے۔جہاں’’خُدا اُن کی آنکھوں سے ہر ايک آنسو پونچھے گا۔اور پھر موت نہ ہوگی۔اور نہ غم اور نہ نالہ ۔اور نہ پھر دُکھ ہوگا۔کيونکہ اگلی چيزيں گذر گئيں۔اور سب کچھ نيا کيا گيا ہے ‘‘۔