نجات ایمان پر منحصر ہے نہ کہ اعمال پر

Eastern View of Jerusalem

Salvation Depends on Faith not on Actions

By

Jameel Singh

جمیل سنگھ

Published in Nur-i-Afshan October 22, 1885

نور افشاں مطبوعہ ۲۲۔ اکتوبر۱۸۸۵ء

’’جو ایمان سے راستباز ہوسوو ہی جئے گا ‘‘(گلتیوں ۳: ۱۱)

 حسب وعدہ جو پچھلے پر چے نورافشاں میں کیا گیا تھا میں ناطرین کو دکھلانا چاہتا ہوں کہ نجات کے حاصل کرنے کے لئے اعمال پر بھروسہ رکھنا بالکل لاحاصل ہے اور کسی صورت سے گنہگار اعمال سے بچ نہیں سکتا اور یہ بھی دکھلانا چاہتا ہوں کہ نجات صرف ایمان سے ہو سکتی ہے اور اُس ایمان کا بھی مختصر بیان کر و ں گا تاکہ بخوبی روشن ہو جائے کہ گنہگار بچنے کے لیے ایمان کیسا ضروری امرہے ۔ اگر گنہگار بچے تو صرف اسی ہی سے بچ سکتا ہے ۔ ورنہ ہرگز نہیں ۔ پہلے میں کلام الہٰی سے وہ آیتیں نکال کر دکھلاؤں گا کہ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اعمال کی رو سے تمام آدمی گنہگار ٹھہر چکے ہیں ۔ اور پھرآدمیوں کے ظاہراًحال پر غور کر کے دکھلاؤں گا کہ اس سے ثابت ہو تا ہے کہ سب آدمی گناہ کی رغبت زیادہ رکھتے ہیں اور نیکی کی بہت کم اور نیکی کرنے میں بہت سُست بلکہ لاچار ہیں ۔ اور اگر کچھ نیکی کرتے بھی ہیں تو وہ بمنرل نیکی کے نہیں کیونکہ و ہ بھی گناہ سے ملی ہوئی ہے۔

(۱)

کلام الہٰی کی و ہ آیتیں کہ جن سے معلوم ہو تا ہے کہ تمام آدمی گنہگار ہیں اور اعمال بد میں گرفتار ہیں ۔مگر اگر کوئی کہے کہ تم کو سب کا حال کس طرح معلوم ہوا یہ بات ٹھیک ہے ۔آدمی اپنے کئے ہوئے کاموں کو بھول جاتا تو اور وں کا حال کیوں کر جان سکتا ہے پر کل دنُیا کے لوگوں کا حال تو خدا ہی جانتا ہے اور جب وہ اپنے کلام  میں ظاہر کر دے کہ تمام بنی آدم گنہگار ہیں تو پھر ایسا کہنے کی گنجائش نہیں رہے گی کہ بہت آدمی بے گناہ ہوں گے اور اپنے اعمالوں کے سبب سے بہشت میں جانے کے لائق ٹھہریں گے اور اعمال نیک سے بچ جائیں گے ۔ اس لئے ضرور ہے کہ کلام الہٰی سے دیکھا جائے ۔ لکھا ہے کہ’’ کوئی راستباز نہیں ایک بھی نہیں‘‘ (رومیوں  ۳: ۱۰) ۔’’کیونکہ کوئی انسان جاندار تیرے حضور بے گناہ نہیں ٹھہر سکتا‘‘ (زبور ۱۴۳: ۲)۔ ’’خداوند آسمان پر سے بنی آدم پر نگاہ کرتا ہے دیکھے کہ اُن میں کوئی دانش والا خدا کا طالب ہے یا نہیں و ہ سب گمراہ ہوئے ۔ وہ سب کے سب بگڑ گئے کوئی نیک کار نہیں ایک بھی نہیں‘‘ (زبور ۱۴: ۲۔ ۳)اور (زبور۵۳: ۲۔۳ ) ۔’’کیونکہ اُنہوں نے اگر چہ خدا کو پہچانا مگر تو بھی خدا ئی کے لائق اس کی بزرگی اور شکر گذاری نہ کی بلکہ باطل خیالوں میں پڑ گئے اور ان کے نافہم دل تاریک ہو گئے‘‘  (رومیوں ۱: ۲۱) ۔ان آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ سب آدمی گنہگار ٹھہر ے تو اعمال کہاں رہے اور اعمال سے بچنے کی امید بھی جاتی رہی ۔

تم فضل کے سبب ایمان لاکے بچ گئے ہو اور یہ تم سے نہیں خدا کی بخشش ہے

(۲)

وہ آیتیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اعمال سے آدمی بچ نہیں سکتا یہ ہیں ۔ پس کوئی آدمی شریعت پر اعمال کرنے سے اُس کے سامنے راستباز نہ ٹھہرے گا۔ (رومیوں ۳: ۲۰) ’’کوئی بشر شریعت کےکاموں سے راستباز گنانہ جائے گا ۔ (گلتیوں ۲: ۱۶) اوردیکھو(گلتیوں ۳: ۱۱) ان آیتوں سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اعمال کی شریعت سے کوئی خدا کے حضور راستباز ٹھہر کے نجات کا مستحق نہ ہو گا ۔

(۳)

 اب آدمیوں کے ظاہر ہ حال پر غور کر کے دیکھیں کہ سچ مُچ آدمی گنہگار ہیں کہ نہیں اور اپنے کاموں سے بچ سکتے ہیں کہ نہیں ۔ اگر معلوم ہو سکتا ہے کہ آدمی کے سب کام گناہ سے ملے ہوئے ہیں ۔

 (۱)اگر دنیوی کا روبار پر خیال کیا جائے تو دیکھا جاتا ہے کہ ہر ایک کام میں اکثر فریب دھوکا پایا جاتا ہے اور دروغ گوئی (جھوٹ)کا تو کچھ ٹھکانا نہیں بلکہ یہ بات مشہور ہے جو کاروباری لوگ کہا کرتے ہیں کہ’’ ہم کیا کریں بغیر جھوٹ کے ہمارا کام نہیں چلتا ‘‘ اور علاوہ ازیں جو مغروری اور غصہ اور غضب اور لالچ وغیرہ ہر ایک بشر میں پایا جاتا ہے اور دنیا کی محبت جو اعمال نیک کی دشمن ہے کسی کے دل میں جگہ نہیں رکھتی ۔

  (۲) دینی کام کی طرف غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ تین بڑے کام خاص عبادت  رکن سمجھے جاتے ہیں یعنی نماز ،روزہ اور زکوٰۃ لیکن کوئی شخص ان کو پورا نہیں کر سکتا کوئی پورا پورا نماز کا حق اور زوزے اور زکوٰۃ کا حق جیسا کہ شریعت چاہتی ہے ادا نہیں کر سکتا اور جیساچاہئے کسی سے بھی کماحقہ اُن کی تعمیل نہیں ہو سکتی ۔ کیونکہ وہ خصلت اور طبیعت موجود نہیں جن سے یہ کاروا ئی انجام پاسکتی ہےاور اگر کوئی انسان شریعت کے پورا کرنے کےلئے اُن کا قصد بھی کرتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں ریاکاری شامل ہوتی ہے اور اگر ریاکاری نہ ہو تو سُستی تو ضرور پائی جاتی ہے اور روزے میں بے اعتدالی بھری ہوئی  ہے ۔اگر کھانے پینے میں کچھ کمی زیادتی ہو جاتی ہے مگر نفس امارہ (انسا ن کی خواہش جو بُرائی کی طرف مائل کرے)تو ویسا ہے جو ش و خروش میں رہتا ہے ۔او ر سخاوت میں کنجوس پن بھرا ہوا ہے اور اگر چہ تھوڑا س سخاوت کا خیال دل میں آگیاتو کچھ کسی کو دے ڈالا ور نہ اپنی ہی آسائش کا خیال ہر ایک نفس کو لگا ہوا ہے ۔بلکہ ر عُب اور تکبر نے ہر ایک انسان کو اپنے دام (جال)میں قابو کر رکھا ہے جن سے سارے نیک کا م مرد ود ہو جاتے ہیں ۔ ان سب باتوں سے معلوم ہوا کہ انسان سچ مُچ قولاً و فعلاً گنہگار ہیں اور جب گنہگار ٹھہر چکے تو پھر کس طرح بچیں گے اور اعمال سے بچنےکا فخر کہا ں رہا ۔ اب میں اُن آیتوں کو نکال کر دکھلاؤں  گا جن سے معلوم ہوتا ہے کہ گنہگار انسان صرف ایمان سے بچ سکتا ہے ۔ ’’کیونکہ تم  فضل کے سبب ایمان لاکے بچ  گئے ہو اور یہ تم سے نہیں  خدا کی بخشش ہے ‘‘(افسیوں ۲: ۸) ۔’’جو اُس پر (خداوند یسوع مسیح ہر ) ایمان لاتا ہے ہمیشہ زندگی اُس کی ہے‘‘  (یوحنا ۵: ۲۴) ۔پر خداوند یسوع مسیح کہتا ہے کہ ’’جس نے مجھے بھیجا ہے اُس کی مرضی یہ ہے کہ ہر ایک جو بیٹے کو دیکھے اور اُس پر ایمان لائے ہمیشہ کی زندگی پائے اور میں اُسے آخری دن اُٹھاو گا ‘‘(یوحنا ۶: ۴۰) ’’لیکن یہ لکھے گئے تا کہ تم ایمان لاؤ کہ یسوع مسیح خدا کا بیٹا ہے اور تا کہ تم ایمان لاکے اُس کے نام سے زندگی پاؤ‘‘ (یوحنا ۲۰ : ۳۱) ۔’’اور ہم ایمان کے وسیلے خدا کی قدرت سے اُس نجات تک جو آخری وقت میں ظاہر ہو نے کو تیار ہے محفوظ رہتے ہیں ‘‘ (۱۔ پطرس ۱: ۵) ۔’’جو ایمان سے راستباز ہو سو ہی جئے گا ‘‘ (گلتیوں ۳: ۱۱)۔ ’’راستباز ایمان سے جئے گا‘‘ (عبرانیوں ۱۰: ۳۸) او ر (فلپیوں ۳: ۹) ایسی اور بہت آیتیں ہیں جن سے صاف معلوم ہو تا ہے کہ ہمیشہ کی زندگی یعنی ابدی نجات صرف ایمان ہی سےحاصل ہو سکتی ہے پر اتنے ہی پر اکتفاکرتا ہوں ۔

 بعضوں نے اعتراض کیا ہے کہ پس جب عیسائیوں کی نجات صرف ایمان پر ہے تو ان کو کیا اندیشہ ہے جو چاہیں برائی کریں کیونکہ اُنہوں نے اعمال سے بچنا ہی نہیں اور اُن کے اعمال تو پوچھے ہی نہ جائیں گے ۔ ایسے لوگوں کا کہنا ان دو ڈیل کی باتوں سے نا واقف ہو نے کے سبب سے ہے ۔ اوّل و ہ کہ اُس ایمان کو نہیں جانتے جس کو عیسائی اختیار کرتے ہیں اور دوسرا خداوند یسوع مسیح کی تعلیم سے ناواقف ہیں جو اُس نے اپنے ایمانداروں کے چال چلن کے لئے ٹھہرائی ہے جن کا مختصراً بیان کرنا مناسب سمجھتا ہوں ۔ عیسائی ایمان کیا ہے ؟ کلام الہیٰ میں لکھا ہے کہ ’’اگر تو اپنے دل سے ایمان لائے کہ خدا نے اُسے پھر کے جلایا تو نجات پائے گا ‘‘ (رومیوں ۱۰ : ۹)۔ اس کے سا تھ مقابلہ کر و (متی ۱۰ : ۳۲) (لوقا۱۲: ۸ ) اور جب کوئی اُس ایمان پر کھڑا ہوتا ہے تو و ہ گناہ اور نجاست سے غسل دلایا جاتا ہے اور روح القدس کے بخشے جانے سے وہ نیا مخلوق بنا یا جاتا ہے ۔جیسا کہ لکھا ہے کہ’’ اُس نے ہم کو راستبازی کے کاموں سے نہیں جو ہم نے کئے بلکہ اپنی رحمت کے سبب نئے جنم کے غسل اور روح القدس کے سرنوبنانے کے سبب بچایا ‘‘ (ططس ۳ : ۵ )۔ اور صر ف یہ لفظی ایمان نہیں جیسا کہ لوگ سمجھتے ہیں ۔بلکہ جہاں ایمان کا ذکر ہے وہا ں اُس کے ساتھ تعلقات یعنی اُن فرائض کا بھی ذکر ہے ۔جو اگر عمل میں نہ لائے جائیں تو ایمان کی غرض پوری نہیں ہو گی ۔ مسیحی ایمان پر قائم ہو کے گنہگار کو جسم کی رو سے مرنا اور نئی اور روحانی زندگی  کی رو سے جیسا ضرور ہے ۔ اور پُرانی چال کو چھوڑ کر نئے طور پر چلتا اور سرا سر ا نیا مخلوق بن جاتا ہے اور اگر یہ وصف مسیح کے شاگرد میں نہ ہوں تو اُس میں  ایمان مطلق نہیں ہاں البتہ مردہ ایمان ہو گا جو صرف خالی بات ہے ۔ اور جس کا انجام کچھ بھی نہیں ۔ کیونکہ’’ ایمان بغیر عمل کے مردہ ہے ‘‘(یعقوب۲: ۱۷) ۔خداوند یسو ع مسیح کی تعلیم گنہگار کے واسطے جو اُس پر ایمان لاتا ہے یہ ہے ۔ اور اُ س نے سب سے کہا کہ اگر کوئی چاہے کہ میر ے پیچھے آئے تو اپنا انکا ر کر ے (لوقا ۹: ۲۳ )  (متی ۱۰: ۳۸ ) اور (مرقس ۸ : ۳۴ ) اور (لوقا ۱۴: ۲۷ ) آیتیں اس پیر وی کرنے کے یہ معنی ہیں کہ خدواند مسیح جیسی چال و چلن اور خواو رخصلت اور نشست و برخاست اور بول و چال ہوئے اور ہر ایک کام  میں پاکیزگی اور دین داری پائی جائے اور خدا کا سچا پر ستار بنے ۔

اور پھر لکھا ہے ’’کیو نکہ ہم اُس کی کاری گری ہیں اور مسیح یسوع میں ہو کے اچھے کا موں کے واسطے پیدا ہو ئے جن کے لئے خد ا نے آ گے ہمیں تیار کیا تھا تا کہ ہم اُنہیں کیا کریں ‘‘  (افسیوں ۲ : ۱۰ ) ۔ان سب آیتوں سے معلوم ہو تا ہے کہ خداوند یسوع مسیح پر ایمان لا کر اُس کی پیروی کرنے میں کمال دینداری نیکوکاری اور پرہیز گار ی شا مل ہے ،جو نہ کہ  جیسا آج کل بعض خیال کرتے ہیں ۔ لیکن اس میں ایک بات ہے کہ پیر وی اُس شریعت کی پیروی سے بالکل فرق ہے ۔شریعت کی پیروی میں کسی کی مدد نہیں ملتی اور و ہ سخت غلامی ہے لیکن یہ پیروی مسیحی خود بخود نہیں کرنا اور نہ کر سکتا ہے بلکہ اس میں اس کے ساتھ ایک مددگار ہے جو قدم بقدم اُس کے ساتھ چلتا ہے اور اُسے  خو د ان سب عمدہ راہوں میں لئے پھر تا ہے جن میں یہ خود ہرگز چل نہیں سکتا ۔ کیونکہ بے کس لاچار گنہگار کو جب کچھ طاقت ہی نیکی کی نہیں رہی تو پھر کس طرح سے یہ کچھ نیکی کر سکے ۔ یہ بات تو صاف ہے کہ انسان بے کس لاچار ہے ،کیو نکہ نفس آمارہ اس پر ایسا غالب آیا ہو ا ہے کہ نیکی کی راہ میں اُسے چلنے سے ہر وقت روکتا ہے اور بدی کو نیکی کی صورت میں دکھلا کر ہزار ہا کو کفر کے رستے پر لئے چلا جاتا ہے ۔ تو پھر کس طرح یہ انسان پر ازنسیان اس سے خود بخود چھوٹ سکتا ہے ۔ بغیر کسی کی مد د دنیا کے کاموں میں دیکھا جاتا ہے کہ جب ایک آدمی لاچار ہوتا ہے تو دوسرے سے مدد پا کر اُس لاچارگی سے چھوٹ جاتا ہے اور اس طرح بیکس  دوسرے کسی کی مدد سے بیکسی سے رہائی پاتا ہے تو کتنا زیادہ یہ انسان گناہ اور بُرائی میں لاچار و بیکس ہو گیا ہے تو پھر کس طرح یہ خود بخود اس خطرناک حالت سے بچ نکلے گا ہر گز یہ بات نہیں ہو سکتی سو ا کسی مدد گا ر اور معاون کے کسی طرح اس کمبختی کی حالت سے چھوٹ نہیں سکتا الغرض انسان ازخود لاچار گنہگار ہو کر اپنے اعمالوں سے کسی صورت بچ نہیں سکتا تا وقت یہ کہ  کو ئی دوسرا دستگیری نہ کرے اور کہے کہ مجھ پر بھروسہ رکھ  میں تیری مدد کرتا ہوں ۔

اب اے ناظرین تو کس بات کو اختیار کئے ہوئے ہے اعمال کی شریعت  کو یا ایمان کی شریعت کو ۔ لیکن اگر تو نے اعمال کی شریعت کے بھر وسے پر آج تک اپنی عمر کو گذارا ہے تو آج یہ خیال کر کہ اعمال تجھ کو ضرورآخری دن میں بچانہ سکیں  گے کیونکہ جب وہ عدل کی ترازد میں تولے جائے گے تو ضرور بہت تھوڑے بلکہ اندیشہ ہے کہ کچھ بھی نہ نکلیں  گے اور تب وہ کمتی(کمی) کی صورت سے تو پوری نہ ہو کر سکے گا۔ اب شفیع خدا وند یسوع ایمان پر اپنے عمل تجھ کو دینے پر تیار ہے اُن کےے ساتھ تو البتہ عدالت روز حشر میں عدل کے ترازو میں پورا نکل سکتا ہے ورنہ بالکل نہیں ۔

Leave a Comment