Is Miracle part of Inspiration?
By
Rev K.C.Chatterji
پادری کے سی چیٹرجی
Published in Nur-i-Afshan July 11, 1889
نورافشاںمطبوعہ ۱۱۔جولائی ۱۸۸۹ء
اس سوال کے مختلف جو اب دئیے گئے ہیں بعضو ں کے خیال میں یہ ہے کہ معجزہ بالکل ضرور نہیں ہے لیکن بعض سوچتے ہیں کہ معجزہ نہایت ضروری ہے۔ میرا یقین اس دوسر ی رائے کے ساتھ متفق ہے اور میں خیال کرتا ہوں کہ معجزہ کے سوائے الہٰام بار سالت قطی ثبوت کو نہیں پہنچتا الہٰام یا رسالت سے یہاں و ہ انکشاف یا مکاشفہ یا الہٰام مراد ہے جو سیدھا خدا کی طرف سے غیر فطری طور پر ہے نبی پر ظاہر ہوتا ہے یا و ہ کامل اور بے نقص خدا کی مرضی کا ظہور جو نبی یارسول کو سیدھا خدا کی طرف سےملتا ہے اس قسم کے الہٰام یا وحی کا تمام غیر فطری مذہبو ں کے بانی کا رو ں نے دعویٰ کیا ہے ۔مثلاً ایسا دعویٰ بائبل کے تمام نبیوں سے اور اہلِ اسلام کے پیغمبر سے بھی دیکھا جاتا ہے ہندو مذہب کے مُنی (زاہد ،تپسوی)اورر کھیوں کی نسبت بھی ایسا ہی یقین ہے ہمار ی سمجھ میں اگر ا س قسم کا الہٰام خدا کی طرف سےممکن ہے یا وقوع میں آیا ہے تو یہ بھی ضرورہے کہ معجزہ اُس کے ساتھ ہو کیونکہ بغیر معجزہ کے اس قسم کا الہٰام قابل اعتبار نہیں ہو سکتا ۔ الہٰام کا مطلب بھی یہ ہے کہ ہم پر وہ بات ظاہر کی جائے جس کو ہم عقل سے نہیں پا سکتے سو وہ ذاتی عقل سے بعید ہے اور عقل اُس کے ثبوت دینے میں قاصرہے۔ پس اس واسطے ضرور ہے کہ اور کو ئی وسیلہ ہو یا نشان اُ س کی تصدیق کے واسطے ہو کہ وہ سچ مچ خدا کی طرف سے ہے نہ کہ اُن کی بگڑی ہو ئی عقل کا نتیجہ ہے اور و ہ نشان معجزہ کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا۔
میں اقر ار کر تا ہوں کہ الہٰام نبیوں کے دل میں القا (خدا کی طرف سے دل میں ڈالی ہوئی بات)ہو سکتا ہے بے ظہو ر معجزہ کے خدا ئے قادر مطلق ہے اور انسان کے دلوں کا ایسا ہی مالک ہے جیسے اُن کے اجسام کا و ہ اپنی عام پر ور دگاری میں ہمیشہ انسان کے دل میں خیال اور فکر پیدا کرتا ہے اس طرح اگر وہ چاہے تو اعجازی طو ر پر کسی خاص امر کی نسبت انسان کے د ل میں خیال پید ا کر سکتا ہے ایسے خیال کا نام الہٰام ہے۔ جب ایسا خیال انسان کے دل میں پیدا ہو گیا ہے تو ہم کس دلیل سے جان سکتے ہیں کہ وہ خیال خدا کی طرف سے ہے نہ کہ انسان کے دماغ کا نتیجہ کو ئی دلیل موجو د نہیں ہے خود اُسی آدمی کو جس کے دل میں خیال پید ا ہوا ہے اطمینان نہیں ہو سکتا کہ یہ خیال خدا کی طرف سے ہے اور اس کی ذات سے نہیں پیدا ہوا ثبوت اتنا ہے کہ اس کے دل میں خیال پیدا ہوا ہے مگر وہ یہ نہیں جانتا کہ اس خیال کا چشمہ کو ن سا ہے جب تک کہ خدا کی طرف سے ہو نے کا کوئی خاص نشان ظاہر نہ ہو ۔ مثلاً کسی نبی یا رسول کے دل میں یہ خیال پیدا ہو ا ہے کہ کل دُنیا کے گناہوں کے لئے کفارہ کیا گیا ہے کس طرح وہ نبی یا اُس کے سننے والے جان سکتے ہیں کہ یہ خیال خدا کی طرف سے ہے ۔ایک سرگرم طبیعت کا آدمی شاید مان لے کہ ایسا خیال خدا کی طرف سے ہے لیکن کوئی عقلمند آدمی اُس کو قبول نہیں کر سکتا جب تک کہ اُس کو کوئی سندنہ ملے ۔ اس بات کو اچھی طرح سمجھا نے کے لئے میں ایک مثال دیتا ہوں پچھلے زمانہ میں نبیوں پر ظاہر ہو گیا تھا کہ شہر عور اور بابل جو اُن دنوں میں نہایت شان و شوکت میں تھے برباد ہو جائیں گے یا بنی اسرائیل اسیر کئے جائیں گے ایسا خیال نبیوں کے دلوں میں اُٹھنا کچھ عجیب نہیں تھا کیونکہ شہر برباد ہو جایا کرتے ہیں اور قومیں بھی اسیر ہو جایا کرتی ہیں اس کا نبی کے د ل میں پیدا ہو جا نا اُس کی سچائی کا ثبو ت نہیں ہے اُس کی سچائی تب ہی منظور ہو ئی جب کہ اُن کی کلام کے مطابق وہ شہر غارت ہوئے اور بنی اسرائیل مقید پیشن گوئی کا پورا ہو نا اُس کی سچائی کا ثبوت ہے لیکن اس قسم کا ثبو ت ہم الہٰامی تعلیم کی نسبت نہیں پاسکتے اُس کے لئے کو ئی اور ثبوت درکا ر ہوگا اور و ہ ثبوت میری دانست میں سوائے معجزہ کے اور کچھ نہیں ہو سکتا ۔
اور ایک مثال سنو اٹھارہ سو بر س ہو ئے ملک یہو دا میں ایک شخص صادق زندگی کی عجیب لیاقت کا ظاہر ہو ا اُس نے بہت سی باتیں خدا کی ذات اور صفات اور انسان کی جال چلن کی نسبت سکھائیں اُس کے ساتھ ساتھ اُس نے یہ بھی فرمایا کہ میری پیدائش کے پیشتر ازل میں خد ا کے ساتھ جلال کی حالت میں تھا میں خدا کا اکلوتا بیٹا ہو ں دنیا اور کچھ اس میں ہے میرے وسیلہ بنا ہے میں آسمان سے اُتر ہوں اور انسان کی شکل اور ذات کو اختیار کر لیا ہے تا کہ میں خدا کا بر ہ ہوکر دنیا کا گناہ اپنے اوپر اُٹھا لوں میں عام آدمیوں کی مانندنہیں ہو ں میرا علاقہ آدم زادسے عجیب وعجازی ہے میرے ہی وسیلہ سے انسا ن خدا کے پاس پہنچ سکتا ہے میں ایک پوشیدہ بادشاہی کا سر ہوں جس میں ہر قوم اور ہر ملک کے لو گ شامل ہیں میں صلیبی موت اُٹھا کرآسما ن پر واپس جاؤں گا تا کہ اپنے لو گوں کی رہائش کے لئے مکان تیارکر وں دنیا کی اخیر میں پھر میں آؤں گا اور سب مردو ں اور زند وں کا انصاف کر ؤں گا اس وقت سارے جو
قبر و ں میں ہیں میری آواز سنے گے اور نکلیں گے جنہو ں نے نیکی کی ہے زندگی کی قیامت کے واسطے اور جنہوں نے بدی کی ہے سزاکی قیامت کے لئے اس عجیب بیان کے تصدیق میں اگر یہ شخص کو ئی نشان نہ دکھلائے بلکہ فقظ اپنے کلام کے زور سے وقت بو قت اور جگہ بجگہ اس کو بیان کرتا ہے تب ہم اس آدمی کی نسبت کیا سوچیں گےبلاشک اور بلاشبہ ہر ایک عقل مند آدمی اُس کو پاگل اور دیوانہ سمجھے گا اور خیال کرے گا اس کے دماغ میں خلل ہے سوائے ا س کے اور کیا اس کی نسبت خیال کرسکتے ہیں ۔اگر وہ ہمارے ہی موافق گوشت اور استخوان(ہڈی) سے بنا ہوا ہواور اپنی زندگی میں ایسی ہی باتیں ظا ہر کرتا ہو جیسے عام انسان کی زندگی میں دکھائی دیتی ہیں بلاشک ہم اس نسبت سو چیں گے کہ اگر چہ یہ آدمی دین دار اور خدا پر ست ہے تو بھی کسی طرح نہ کسی طرح اُس کے دماغ میں خلل آ گیا اور اس خلل کے جوش سے اس قسم کی گفتگو کر رہا ہے لیکن اگر و ہ شخص اس اپنے عجیب دعویٰ کی تصدیق میں معجزہ کو دکھائے ایسا معجزہ جو فقط الہٰی مدد ظاہر ہو سکتا ہے تو ہم بلاشک اُس کی گفتار کو معتبر جانے گے اور اُس پر یقین کرئے گے سوائے معجزہ کے ہمیں اور کوئی صورت نظر آتی جس سے ہم اُس کی رسالت یا الہٰام قبول کر یں ۔
بعض کہتے ہیں کہ تعلیم کی خوبی اور صداقت الہٰام کی پوری شہادت میں ہیں اس بات کو منظور نہیں کرسکتا میں اقرار کرتا ہوں کہ تعلیم کی خوبی اور صداقت خود اُس کی سچائی پر دلالت کرتی ہے یعنی یہ ظاہر کرتی ہے کہ وہ تعلیم خدا کی مرضی اور حکم کے مطابق ہے کیونکہ سچائی آپ میں اپنی گو اہی ہے لیکن ہرگز تعلیم کی خوبی اور صداقت تعلیم دینے والے رسالت یا الہٰام پر دلالت نہیں کرتی یعنی وہ ثابت نہیں کرسکتی کہ تعلیم دینے والا خدا کی طرف سے خاص طورپر بھیجا ہوا ہے یا الہٰام یا وحی سے بول رہا ہے اس سے فقط یہ ظاہر ہو تا ہے کہ تعلیم دینے والا نیک بندہ ہے جو خدا کے راہ کی ہدایت کرتا ہے۔ دنیا میں اس قسم کے ہزار ہا دینی معلم ہیں جو نیک اور بے نقص تعلیم دیتے ہیں لیکن ہم اُن کو رسول نہیں کہہ سکتے جب تک کہ وہ کوئی سند پیش نہ کریں جس سے ظاہر ہو کہ وہ تعلیم خدا کی طرف سے سیدھی اُ س کو حاصل ہے۔ مثلا تیرہ سو (۱۳۰۰)بر س ہوئے کہ ایک عالی دماغ اورسر گر م آدمی بُت پر ست عربیوں میں ظاہر ہوا اور اُ س نےاُن کو بڑے زوراور قوت کے ساتھ توحید اور وحدانیت کی تعلیم دی یہ تعلیم نہایت خوب اور سچی ہے اس کو سُنتے ہی اُس ملک کے لو گوں نے قبول کر لیا یہ ایسی تعلیم ہے جس کو ہماری عقل اور تمیز تسلیم کر لیتی ہے اور قرار دیتی ہے کہ یہ تعلیم خدا کی مرضی اور حکم کے موافق ہے لیکن اس سے یہ نہیں ثابت ہو تا کہ اس تعلیم کا دینے والا اس کو سیدھا خدا کی طرف سے بذریعہ وحی یعنی جبرائیل فرشتہ سے حاصل کرتا رہا اگر اُس نے اس اس طور پر حاصل کیا تو اور کسی سند سے ثابت ہو گا ۔لیکن اس سے ہر گز نہیں کہ وہ عمدہ تعلیم اور سچی ہے گمان تو یہ ہے کہ محمد صاحب نے اس تعلیم کو نیچر پر غور کرنے سے اور اپنے دل کی گو اہی پر فکر کر نے سے یقین کیا اور یہ ہی بہتوں کا گمان ہے کہ اُنہوں نے اس تعلیم کو یہودی اور عیسائیوں سے حاصل کیا یہ گمان ہمارے دل سے ہر گز نہ جائے گا جب تک کوئی کامل نشان نظرنہ پڑے جس اس گمان کا بطلان ثابت ہو ا اور یہ ظاہر ہو کہ ضرور یہ بات محمد صاحب کے اوپر خدا کی طرف سے فطرتی طور پر نازل ہو ئی ۔
اور جیسی تعلیم کی خوبی اور صداقت تعلیم دینے والے کی رسالت پر دلالت نہیں کرتی اس طرح تعلیم دہندہ کی پاک اور بے عیب زندگی ا س بات کی تصدیق کے لئے کافی نہیں پہلے تو اس لئے کہ کسی بشر کی زندگی بالکل پاک اور بے عیب ثابت ہونی میری دانست میں ناممکن ہے ۔ناممکن اس لئے کہ بے عیبی اور پاکیزگی نہ صرف ظاہر ی اموار اور بیرونی حالت پر بلکہ اُس کے اندرونی خیال اور طبیعت پر موقوف ہے اُس کے اراد ہ اورنیت پر جس سے وہ بیرونی کام کرتا ہے اور کون انسان دوسرے انسان کی اندرونی حال کا فیصلہ کرسکتا ہے دل اور گردوں کا جانچنے والا فقط خدا ہے ۔دوسرافرض کرو کہ کسی آدمی کی کامل پاکیزگی اور بے عیبی ثابت ہو تو بھی یہ اُس کے الہٰام اور رسالت پر گواہی نہیں ہو سکتی فقط اتنا ہی ثابت ہوا ہے کہ وہ خداکی درگاہ میں مقبول اور پسندیدہ ہے ۔وہ سچ بولنے والا ہے ۔یعنی جیسے اُس کا یقین ہے و ہ بیان کرتا ہے ۔لیکن یہ ثابت نہیں ہو ااور اُس کا یقین ہر ایک امر میں سچا ہے اور اُس نے دھوکا نہیں کھایا یااُس کے دماغ میں کسی قسم کا خلل نہیں اور وہ جو الہٰام کا دعویٰ کرتا ہے یہ دعویٰ اس کے مالیخولیا (پاگل پن)کا نتیجہ نہیں ہے جب تک یہ ثابت نہ ہو تب تک اُس کا الہٰام کا دعویٰ ہر گز قابل پذیرا ئی نہیں ۔
تیسرا بعض کہتے ہیں کہ کسی مذہب کی پاک تاثیر اور کامیابی اُس کے الہٰامی ہونے پر دلالت کرتی ہے بے شک قبول کرتا ہو ں کہ جس مذہب کی تاثیر پاک ہے یعنی ہم کو گناہ سے الگ کر کے خدا کی طرف پہنچانا ہےوہ مذہب پاک اور خدا کی طرف سے ہے پیڑ اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے اور دوا کی خوبی اُس کے تجربہ سے لیکن ثابت نہیں ہو تا کہ وہ مذہب خدا کی طرف سے کس طور پر ہے فطری طور پر یا غیر فطری کسی مذہب کی پاک تاثیر اُس کی تعلیم پر دلالت کرتی ہے اور یہ بھی بتاتی ہے کہ اُ س کے پیر و سچے ہیں اور اُس کی تعلیم پر عمل کرتے ہیں لیکن اس سے یہ نہیں ثابت ہو تا کہ اُس مذہب کی تعلیم دینے والے نے وہ تعلیم سیدھی راہ راست خدا سے پائی ہے ۔اس بات کے لیے دیگر سندضرور ہے اور میری سمجھ میں وہ سند بجز معجزہ کے اور کچھ نہیں ہو سکتی ۔
میں اندرونی دلیل کی حقارت نہیں کرتا نہ اُس کو بے فائدہ جانتا ہوں وہ اپنی جگہ میں نہایت ضرور اور کار گرہے ایسی ضرور ہے کہ بدون(بغیر) اُس کے معجزہ بھی مصرف اور نکما ہے اُس کے وسیلہ سے تعلیم کی خوبی اور صداقت ظاہر ہوتی ہے ۔خود خداوند یسوع مسیح نے فرمایا ہے وہ شخص جو خدا کی مرضی پر چلتا ہے جانے گا کہ میری تعلیم خدا کی یقیناًسچائی کا سب سے بڑا ثبوت خود سچائی ہے جیسا پیشتر مسطور ہوا اور نیکی خود اپنے لئے سب سے پختہ دلیل ہے اندرونی دلیل سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ تعلیم کا دینے والا بندہ خدا اور نیک ہے نہ بندہ شیطان جب اس قدرثابت ہو گیا ہو تو اس وقت بیرونی دلیل کی حاجت پڑے گی و ہ معجزہ اور پیشن گو ئی ہے جب نیک اور پاک تعلیم دینے والا دعویٰ کرتا ہے کہ میری تعلیم میری اپنی نہیں نہ میں نے کسی بشر سے حاصل کی ہے بلکہ اُس کو سیدھا بذریعہ الہٰام یا وحی خدا کی طرف سے پایا ہے اور اپنے دعویٰ کے ثبوت میں معجزہ یا پیشن گو ئی پیش کرتا ہے تب ہم اُس کو خدا کا رسول یا نبی منظور کرتے ہیں نہیں تو فقط پاک مرشد یا تعلیم دہندہ جانیں گے۔
مطابق تحریر بالا کے ہم بائبل میں یہ پڑھتے ہیں کہ جب خدا نے اپنی پاک مر ضی کا فوق العادت یا غیر فطری طو ر پر ظہو ر کیا تب اُن کو معجزہ او ر پیشن گوئی کے ساتھ بھیجا اور اُنہوں نے خود اپنی رسالت کے ثبو ت میں اور الہیٰ رفاقت کے ظاہر کرنے میں اُن کو پیش کیا ۔انجیل میں ہم پڑھتے ہیں کہ خدا نے رسولوں کی گواہی کو نشانوں اور عجائبات اور مختلف معجزوں اور روح القدس کی نعمتوں سے تصدیق کیا اور خود ہمارے خدا وند یسوع مسیح کی نسبت جس میں الوہیت کا کمال بستا تھا یہ بیان ہو ا کہ اس کا خدا کی طرف سے ہونا ثابت ہوا اُن معجزوں اور نشانوں اور اجنبیوں سے جو خدا نے اُ س کی معرفت دکھلائیں اور مسیح نے آپ لوگوں کے سامنے معجزوں کو قطی رسالت کے ثبو ت میں پیش کیا دیکھو (یو حنا ۵: ۲۰۔ ۲۱) مجھ پاس یوحنا کی گو اہی سے ایک بڑی گواہی ہے اس لئے کہ یہ کام جو باپ نے مجھے سونپے ہیں تا کہ پو رے کروں یعنی یہ کام جو میں کرتا ہو ں مجھ پر گو اہی دیتے ہیں کہ باپ نے مجھے بھیجا ہے۔ پھر (یوحنا ۱۰: ۲۵) یسوع نے انہیں جواب دیا کہ میں نے تو تمہیں کہا اور تم نے یقین نہ کیا جو کام میں اپنے باپ کے نام سے کرتا ہوں یہ میرے گواہ ہیں اور اسی (باب کی ۳۸ ) پر نظر کر و اگر میں اپنے باپ کا کلام کرتاہوں تو اگر چہ مجھ پر ایمان نہ لاؤ تو بھی کاموں پر ایمان لاؤ تا کہ تم جانو اور یقین کرو کہ باپ مجھ میں ہے اور میں اُس میں ہوں ۔
محمدی مذہب کے الہٰامی یا فوق العادت ہو نے کی اس قسم کی قطعی دلیل نہیں اس لئے میری سمجھ اُس کی بنیاد خام اور نا معقو ل ہے اہلِ اسلام محمد صاحب کی رسالت یعنی غیر فطری طو ر پر خدا کی طرف سے مقرر ہو کر دنیا میں آنا فقط محمدصاحب کے دعویٰ سے قبول کرتے ہیں اس قسم کا یقین میری سمجھ میں کمزور اور نامعقول ہے ۔محمدی مذہب کی قوت اور اُمید حال کے زمانہ میں کیسا ہی کیوں نہ ہوں ہمیں پورا یقین ہے کہ عقل اور تقریر کے علم میں جب محمدی لوگ ترقی کریں گے تب ضرور اُن کے یقین کی بنیاد ٹوٹ جائے گی کیونکہ ذاتی اُن کا یقین بے بنیادہے بے شک اگر محمد صاحب چاہتا تو معجزے کا دعویٰ کرتا لیکن اُنہوں نے ایسا دعویٰ نہیں کیا فقط اپنا کلام اپنی نبوت کے دعویٰ میں پیش کیا ہے ہماری سمجھ میں اس قسم کا دعویٰ تعلیم یافتہ اور شابستہ لوگ کبھی قبول نہیں کریں گے اس کا نتیجہ ان دو باتوں سے ایک ضرور ہو گا یا و ہ بالکل محمدی مذہب پر سے یقین اُٹھا لیں گے یا اُس کو ایسا بنا لیں گے جس سے فقط و ہ نیچری مذہب رہ جائے گا۔ ہرایک غیر فطری دعویٰ اور تعلیم کو رو کر دیں گا اور فقط اُس کو محمدی مذہب قرار دیں گے جس کو نیچر یا فطرت قبول کر لیتی ہے چنانچہ اُس آ ج کل ایسا ہی تعلیم یافتہ محمویوں کے بیچ میں رہا ہے یعنی سیدا حمد خان صاحب کے پیراؤ ں کے درمیان ۔