Greek Mythology
By
One Disciple
ایک شاگرد
Published in Nur-i-Afshan June 20, 1889
نور افشاں مطبوعہ ۲۰۔جون ۱۸۸۹ء
جب ہماری نظر دنیا کے بے شمار مذاہب اور مختلف قسم کے عقیدوں پر پڑتی ہے جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس معاملے میں کتنا کچھ اختلاف رائیں ہیں ۔ توطبیعت حیران اور عقل پر یشان ہو جاتی ہے ۔ اور دل بڑے تفکر ات (فکر وسوچ بچار)میں پڑ جاتا ہے اوردل میں خیال آتا ہے کہ کیا یہ سب خیالات جو کسی نہ کسی عاقل و عالم و فاضل نے ہر ایک مذہب کی بابت ظاہر کئے ہیں ٹھیک نہ ہوں گے ۔ اگر ہماری عقل تھوڑی سی یا نامکمل ہو لیکن کیا اُن داناؤں کی عقل و فہم جو ہم سے کیسی بڑھ کر تھی اس بارے میں قابل قدر کے نہ ہو گی کیا یہ یا وہ مذہب جس کے بانی مبانی فلانے یا فلانے تھے سچا نہ ہو گا ۔ اور اگر نہیں تو کیوں کر اُن کی عقلیں جو ایسے دانا اور فاضل تھے دھوکا کھا سکتی تھیں ۔ اور جنہوں نے بڑے بڑے سائنس دریافت کئے کیا اس ایک خاص بات کے بارے میں غلطی کھا سکتے تھے ۔ تو اُس کے بارے میں ہم کو پاک کلام انجیل مقدس کی ایک آئت یاد آتی ہے ۔ (۱۔کرنتھیوں ۱:۱ ۲) میں مرقوم ہے کہ ’’دُنیا نے اپنی حکمت سے خدا وند کو نہ پہچانا ۔ بلکہ یہ بھی لکھا ہے کہ کیا خد ا نے اس دنیا کی حکمت بیوقوفی نہیں ٹھہرایا‘‘ ۔ ہاں یہ بات صاف ثابت ہوتی ہے۔ جب ہم اُ ن کے مذہبی عقائدے سے واقف ہو تے ہیں اور اُن کے اصولو ں کوپڑھتے ہیں اور داناؤں کی دانائی کی طرف ذرا غور کرتے ہیں تو کو ئی نہ کوئی غلط خیال اُن کی باتوں میں ضرور ہی ملا ہو ا پاتے ہیں جس سے یہ پاک کلام کا فرمان باکل صادق ٹھہراتا ہے ۔چنانچہ ہم اس بات کی تصدیق ذیل کے بیان سے کریں گے ۔ جس وقت کہ ملک یو نان عقل و دانائی میں تمام دنیا میں بینظیر تھااور بڑے بڑے عالم و فاضل یو نانی حکماء مو جود تھے ۔ اُس وقت اُن کا مذہب بالکل بت پر ستی تھا۔ اور اُن کے خیالات در باب مذہب بڑے عجیب و غریب تھے جن کا ہم اس وقت کچھ مختصر اً بیان کرتے ہیں ۔
اُس وقت یونانی تین قسم کے دیوتے مانتے تھے ۔
(اول ) سیلیشل یعنی آسمانی ۔
(دویم ) میریں یعنی بحری ۔
(سوم ) انضرنل یعنی دوذخی ۔
اُن کے خیال میں پہلی قسم کے دیوتے آسمان پر رہتےتھے ۔ اور دوسری قسم کے سمندر میں اور تیسری قسم کے زمین کے نیچے مہیب جگہ میں رہتے تھے ۔ اور اُن کے سوا اور بہت قسم کے چھوٹے چھوٹے دیوتے مانے جاتے تھے جو اُن کے خیال میں جنگلوں اور ندی نالوں میں سکونت کرتے تھے پہلی قسم کے دیوتے یہ تھے۔ جو پٹیر۔ اپلو۔مارس ۔مرکر ی ۔ بیکس۔ ولکن ۔ جو نو۔ میزوا۔ ونیس ۔ ڈائنا ۔ کیر س اور سیٹا او ر ان سب کے اختیار میں مختلف کام بتاتے تھے ۔ مثلاً گرج اور بجلی جب گرتی تھی تو خیال کرتے تھے ۔ کہ جو پیٹرناراض ہو گیا۔ اور سورج کی گردش کا خیال تھا کہ اپلو دیوتا اس کو چلاتا ہے ۔مارس لڑائی کا دیوتا سمجھاتا تھا ۔ وینس خوبصورتی کا ۔ مر کری چوروں کا دیوتا ۔ اور بیکس شرابیوں کا دیوتا خیال کیا جاتا تھا وغیرہ وغیر ہ ۔
دوسری قسم کے دیوتے بھی بہت تھے ۔ مگراُن میں سے نیپچیون سب کا سردار تھا اُس کی سواری کی گاڑی بڑی عجیب تھی ۔ اور اُس کے گھوڑوں کی دُمیں مچھلیوں کی دموں کی مانند تھیں ۔ اور جب کبھی وہ سیر کرتا تھا تو تمام دیوتے اُ س کےاردگرد جمع ہو جاتے تھے ۔
تیسری قسم کا دیوتا پلوٹو تھا۔ جو زمین کے نیچے مہیب جگہ میں رہتا تھا۔ اور ایک خوفناک اور ڈرونی شکل میں گندھک کے ایک بڑے تخت پر بیٹھتا تھا۔
مندرجہ بالابیان سے صاف ظاہر ہوتا ہے۔ کہ ایسے علم و عقل کے زمانے میں بھی ملک یونان ایک گہری جہالت اور تاریکی کے بڑے بھنور میں پڑا ہو ا تھا۔ اور باوجود بڑے بڑے حکماء فضلا ءکے یہ واہیات خیالات پھیل دہتے تھے ۔کیوں عقل کی روشنی نے اُن کو دور نہ کیا۔ اور اُن کی بت پر ستی کو نہ مٹایا سبب اس کا سوااس کے اور کچھ نہیں کہ دنیا کی حکمت خدا کو پہچان نہیں سکتی ۔ اور اس لئے وہ خدا کی باتوں کی حقیقت سے محروم رہے ۔ اب ایسا ہی بلکہ اس سے بد تر حال اور تمام ملکوں کا بھی ہے۔ خصوصاً ہمار ے ملک ہندوستان کا بھی اب تک یہی حال ہے ۔ کہ اپنی بت پر ستی اور وہمات پر ستی سے آنکھ نہیں کھولتا اور اگر کچھ ذرہ سی بیدار بھی ہو تا ہے لیکن پھر بھی ایک بڑی بھاری غفلت کی نیند میں خراٹے مارتا ہے۔ حالا نکہ علم و عقل نے زمانے میں بڑی ترقی حاصل کی ہے اور سینکڑوں ہزارو ں آرٹس پڑھ گئے ہیں ۔ اور بڑی بڑی ڈگریاں بھی حاصل کی ہیں ۔مگر مذہب کی بابت وہی پُرانے اور وہی خیالات بھر ے ہو ئے ہیں ۔ اگر چہ تعلیم یا فتہ نو جوانوں نے بہت کچھ سعی و کو شش بھی کی ہے ۔ اور کہیں نیچری کہیں برہمو اور کہیں کچھ بن بیٹھے ہیں ۔ مگر تاہم اپنی عقل و دانائی کے سبب سچ اور حقیقت کو پا نہیں سکتے ۔ کیو نکہ وہ اصلیت عقل کے احاط میں نہیں بلکہ عقل سے برتر اورا فضل ہےاور وہ یہ ہے کہ جب عقل اس امر میں بالکل بے کار رہ گئی تھی تو خدا کی یہ مرضی ہو ئی کہ منادی کی بیوقوفی سے ایمان والوں کو بچائے (۱ ۔کرنتھیوں ۲: ۲۱) اور وہ منادی کیا ہے ۔یہ کہ مسیح مصلوب پر ایمان لا تو تو نجات پائے گا ۔ کیو نکہ وہ تیرے گناہ کے بدلے قربان ہو ا ۔