Rationalism, Religion and Miracles
By
Mr. Samuel Smith M.P
مسٹر سموائیل سمتھ ایم ۔ پی
Published in Nur-i-Afshan Jul 23, 1891
نور افشاں مطبوعہ۲۳جولائی ۱۸۹۱ ء
مسیحیت کے لئے اُس کی اُمیدوں کی عظمت سے ایک دلیل ملتی ہے۔
مسیحی مذہب کے حق میں ایک معقول دلیل اُن اُمیدوں کی عظمت سے حاصل ہوتی جنہیں وہ بنی آدم پر ظاہر کرتا ہے ۔ ان تمام مذہبی طریقوں میں سے جن میں انسان نے پرستش کی ہے۔ صرف یہی ایک ہے ۔ جو حیات ابدی کی مبارک اور یقینی اُمید دے سکتا ہے۔
بت پرست مذاہب آئندہ حالت کی نسبت صرف ایک دھندلی سی پیش خبری رکھتے تھے۔ آئندہ زندگی بہ نسبت ایک تاثیر بخش ایمان و اعتقاد کے شعراء کے لئے ایک مضمون ہی زیادہ تر تھا۔ اور یہ مسئلہ فیلسوفوں کے نزدیک بھی ایسا بے قیام تھا کہ وہ صداقت جس کا اظہار پاک نوشتے کرتے ہیں۔ یعنی زندگی اور بقاء انجیل ہی سے روشن و ظاہر ہوئی ہیں ۔ جب تک کہ مسیح کی قیامت نے مو ت کے پھاٹکوں کو کھول نہ دیا۔ غیر اقوام کے درمیان آنے والی زندگی کی نسبت کوئی یقینی اعتقاد نہ تھا۔ اور یہودیوں کے درمیان بھی یہ صرف ایک ضعیف(کمزور) اعتقاد تھا۔ اُس وقت سے اب تک جہاں کہیں مسیح کی انجیل کی خوشخبری پہنچی ہے۔ زندگی اور بقاء کی منادی کی گئی ہے ۔ آئندہ حالت کی نسبت مسیحی الہٰام انسانی خیال کی تصویروں سے کس قدر زیادہ افضل و اعلیٰ ہے !ور جؔل کے الیسین فیلڈز ۔ یا محمد کے نفسانی بہشت کا مکاشفات کے نئے یروشلیم کے ساتھ مقابلہ کرو۔ مقدم الذکر میں ہم نر وجن کے بہادروں کو سایہ دار درخت زاروں کے درمیان ۔ اُن اگلے کھیلوں میں مشغول۔ اور اُن گھوڑوں اور اسلحہ میں دل بہلاتے ہوئے پاتے ہیں جن سے وہ اس زمین پر لڑائی کرتے تھے۔ محمد ی بہشت اُن بت پرست خیالات سے بھی پست ہے ۔ کیونکہ وہ ایک بڑا ہی نفسانی عیش و عشرت کا بہشت ہے۔ جہاں سب طرح کی جسمانی خواہشات ایک مبالغہ آمیز مقدار پر پوری کی جاتی ہیں۔ لیکن کان لگا کر سنو کہ پٹمس کے ناظر نے مسیحی کے مکان کو بجالت جلالی کیسا دیکھا۔ ’’ اور مجھ یوحنا نے شہر مقدس نئے یروشلیم کو آسمان سے دُلہن کی مانند جس نے اپنے شوہر کے لئے سنگا ر کیا آراستہ خدا کے پاس سے اُترتے دیکھا ۔ اور میں نے بڑی آواز یہ کہتی آسمان سے سُنی کہ دیکھ خدا کا خیمہ آدمیوں کے ساتھ ہے۔ اور وہ اُن کے ساتھ سکونت کرے گا ۔ اور وہ اُس کے لوگ ہوں گے۔ اور خدا آپ اُن کا خدا ہو گا۔ اور خدا اُن کی آنکھوں سے ہر آنسو پونچھے گا ۔ اور پھر موت نہ ہوگی۔ اور نہ غم اور نہ نالہ۔ اور نہ دُکھ ہو گا۔ کیونکہ اگلی چیزیں گذر گئی ہیں‘‘( مکاشفہ ۲:۲۱ ۔ ۴ )۔ اور پھر ’’ وہ مجھے روح میں بڑے اور اُونچے پہاڑ پر لے گیا ۔ اور بزرگ شہر مقدس یروشلیم کو آسمان پر سے خدا کے پاس سے اُتر تے دکھا یا۔ اُس میں خدا کا جلال تھا اور اُس کی روشنی سب سے بیش قیمت پتھر کی مانند اس ریشم کی سی تھی جو بلور کی طرح شفاف ہو ۔۔۔اور میں نے کوئی ہیکل نہ دیکھی کیونکہ خداوند خدا قادر مطلق اور بّرہ اُ سکی ہیکل ہیں۔ اور شہر سورج اور چاند کا محتاج نہیں کہ اس میں روشنی دیں۔ کیونکہ خدا کے جلال نے اسے روشن کر رکھا ہے۔ اور بّرہ اُ س کی روشنی ہے۔ اور وہ قومیں جنہوں نے نجات پائی اُس کی روشنی میں پھر یں گی ۔ اور زمین کے بادشاہ اپنا جلال اور عزت اُس میں لاتے ہیں ۔ اور اُ س کی دروازے دن کو بند نہ ہوں گے۔ کیونکہ رات وہاں نہ ہو گی ۔ اور وہ قوموں کے جلال اور عزت کو اُ س میں لائیں گے۔ اور کوئی چیز جو نفرتی یا ناپاک اور جھوٹ ہے اُ س میں در نہ آئے گی۔ مگر صرف وہ ہی جو بّرے کی کتاب حیات میں لکھے ہوئے ہیں‘‘( مکاشفہ ۲۱: ۱۰ سے آخر تک) ۔ صحیفتہ الالہٰام کے علاوہ ہم اُس کی مانند اعلیٰ خیالات کہاں پائیں گے؟
انسانی روح کو سرفرازی بخشنے کے لائق ایسی اُیسی اُمیدیں ہم کو کہاں ملیں گی؟ منجملہ مذاہب صرف مسیحی مذہب ہی نے اس مُردہ ہڈی خانہ کو اُس کے خوف اور دہشتوں سے خالی کیا۔ اور ایماندار شخص کو یہ کہنے کے قابل بنا دیا ہے۔’’ اے موت تیرا ڈنک کہاں ہے؟ اے قبر تیری فتح کہاں ہے‘‘؟ ان پُر خوشی اُمیدوں کے ساتھ اس ضعیف اور افسردہ روشنی کا مقابلہ کرو جو تعلیم تصوف قبر پر ڈالتی ہے۔ وہ مسیح کی قیامت کو نظر انداز کرتی ۔ کیونکہ وہ اپنا نظام بغیر اُ س کے پورا خیال کرتی ہے۔ وہ اپنی بقاء کی اُمیدوں کو ۔ آئندہ حالت کی بابت اُن دھندلی اٹکلوں پر قائم کرتی ہے۔ جو عقل اور نیچر کی روشنی دے سکتی ہے۔ لیکن اس تھرتھراتی ہوئی تہی دست و تنہا قریب الانتقال جان کو کچھ تسلی نہیں بخش سکتی ۔ جو اس قدوس کے حضوری میں۔ جس کی آنکھیں بدی پر نظر نہیں کر سکتیں کھڑی ہونے والی ہے۔ وہ اُس زیربار ضمیر کے لئے کوئی بچا نے والا پیش نہیں کر سکتی ۔ جو گذشتہ زندگی کے تمام اعمال کو اس مصنف کے حضور میں جس سے کوئی چیز چھپی نہیں رہ سکتی ظاہر ہونے سے پیچھے ہٹتا ہے۔ وہ خدا کے رحم پر ایک علی العموم (عام طور پر) بھروسا رکھنے کی ترغیب دینی ہے۔ لیکن مرنے والی جان اپنے سہارے کے لئے کسی زیادہ تر مضبوط شے کی محتاج ہے۔ وہ خدا کے کسی یقینی کلام کی خواہش رکھتی ہے۔ اور یہ بجز مقدس نوشتوں کے کہیں نہیں مل سکتی ۔ وہ تسلیاں جو انسانی فلاسفی مرنے والے شخص کے پیش کر سکتی ہے۔ بمقابلہ ان دزندار کلمات کے جو ملہم دانائی نے ثبت کرائے ہیں۔ نہایت کمزور اور ضعیف ہیں۔ ہمارے مذہب کی قدروقیمت بہ نسبت ساعت موت کے اور کہیں بہتر امتحان نہیں کی جا سکتی ہے۔ کس نے کبھی کسی مرتے ہوئے مسیحی کو اپنے مذہب سے پچھتاتے سُنا؟ کس نے کبھی ایسے شخص کو جس نے مسیح کو نہایت پیار کیا۔ اور بخوبی اُس کی خدمت کی ہو افسوس کرتے معلوم کیا؟ کیا تصوف کے کسی معتقد کی نسبت ایسا کہا جا سکتا ہے؟ دالٹیر روز یواور ٹام پین اور اس بید ردملحد ڈیوڈ ہیوم کے بھی اخیر گھنٹوں کی بابت ہم نے عجیب حکایتیں سُنی ہیں۔ ہم کو شک ہے کہ مسیحیت کے اکثر مخالفوں نے ابدیت کے کنارہ پر کھڑے ہوئے ۔ اپنی گذشتہ زندگی پر اطمینان اور دلجمعی کے ساتھ نظر کی ہو۔ اور اگر اُن کو موت سے فرصت ملے تو پھر ویسی ہی زندگی بسر کر نیکو پسند کیا ہو۔ ہمیں یقین ہے کہ ان میں سے اکثر مرتے ہوئے مسیحی کی مطمئن حالت و بخرہ سے اپنی حالت و قسمت کو بخوشی بدل لینا چاہتے ۔