The Muslim Festival of Sirhind
By
Rev. Jamil Singh
جمیل سنگھ
Published in Nur-i-Afshan Jun 25, 1891
نور افشاں مطبوعہ ۲۵جون ۱۸۹۱ ء
یہ میلہ ایک خانقاہ پر جو بندگی صاحب کی خانقاہ کہلاتی ہے بمقام سر ہند جو ایک بڑا مشہور شہر ہو گزر ا ہے ہر سال جمع ہوتا ہے ۔ دور و نزدیک کے بے شمار مسلمان صاحبان جوق در جوق پیر صاحب کی قبر کی زیارت اور اُس پر نذریں چڑھانے کے واسطے چلے آتے ہیں ۔ بتاشے ریوڑی اور پیسے نذریں چڑھاتے اور منتیں مانتے اور مرادیں چاہتے ہیں۔ یہ جگہ سرہند قدیم کے کھنڈرات میں ایک ویران مقام ہے۔ نہ کوئی سایہ دار درخت اور نہ لوگوں کو پانی کا آرام ہے۔ پیاس کے مارے یہ مقام گویا کربلا بن جاتا ہے۔ اگر کچھ پانی ہے بھی تو وہ بالکل کیچڑ ہے۔ گرمی سے لوگوں کا ناک میں دم آجاتا ہے ۔ سر پر سورج کی گرمی اور تپش اور نیچے سے گردو دھول پاؤں سے سرتک آتی ہے۔ لوگ پسینہ پسینہ گردو غبار سے بھرے ہوئے پیر صاحب کی قبر کے ارد گرد جمع ہو کر نذریں چڑھانے اور خوشیاں مناتے ہیں ۔ اور زردار سرخ اور رنگا رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے مستورات گروہ کی گروہ پیر صاحب کی خانقاہ پر سر جُھکا کر اور نذریں چڑھا کر واپس آتے وقت فقیروں سے گھیری جاتی ہیں۔ جن کو وہ دو دو چار چار بتاشےیا ریوڑئیں یا یا دو چار کوڑیاں دے کر پیچھا چھڑاتی ہیں اور وہاں سے نکل کر گیت گاتی ہوئی آس پاس کے کھنڈرات میں جا بیٹھتی ہیں اور پیر صاحب کی ثنا گاتی ہیں۔ ان عورتوں کے ایسے جھوٹے اعتقاد اور بھروسے کو دیکھ کر افسوس آتا ہے کہ یہ بے چاری بھولی بھیڑیں کس طرح شیطان کے چنگل میں بڑی ہیں۔ جس نے اُن کو قبر پرستی اور پیر رستی کی طرف ایسا لگایا ہے کہ ان کو سوا اُس کے اور کچھ خیال اور اُمیدہی نہیں اُن کے لئے جو کچھ کیا ہے سو پیر ہی نے کیا ہے اور جو کچھ کر سکتا ہے سو پیر ہی کر سکتا ہے۔ اس ملک میں جتنا کہ عورتیں پیروں ،دیوی دیوتوں اور فقیروں کی معتقد (پیرو)ہیں اتنا مرد نہیں ۔ اُس کا سبب ظاہر ہے کہ عورتوں کو ابھی اتنی تعلیم نہیں ملی جتنی کہ مردوں کو مل چکی ہے۔ افسوس صدا فسوس کہ لکھو کھا بلکہ کروڑ ہاں عورتیں علم سے بے بہرہ ہو کر جہالت اور ضلالت میں گرفتار ہیں ۔ عورتوں کی تعلیم کی بڑی ضرورت ہے۔ کیونکہ عورتوں پر بہت کچھ منحصر ہے۔ اگرچہ مشن کی سو بیٹیوں نے مستورات کی تعلیم کی طرف بہت کچھ توجہ کی ہے۔ اور ہر ایک شہر میں اُن کے لئے مدارس قائم کئے ہیں۔ مگر بعض کو تاہ اندیش صاحبان واویلا مچاتے ہیں کہ مشن اسکولوں میں اپنے لڑکے لڑکیوں کو نہ بھیجو خواہ وہ بے علم ہی کیوں نہ رہ جا ئیں۔
ایسی گمراہی اور بت پرستی اور توہمات میں تو چاہے پڑے ہیں مگر علم سے روشنی حاصل نہ کریں۔
بندگی صاحب کی بابت عجیب باتیں سننے میں آئیں جن میں سے ایک دو قصے ناظرین کی خاطر یہاں درج کرتا ہوں ۔ایک عمر رسیدہ مسلمان کی زبانی یوں سننے آیا کہ جب کہ یہ شہر سرہند آباد تا ان دنوں میں بندگی صاحب ہندو مسلمانوں کے لڑکوں کو پڑھایا کرتے تھے۔ اور بڑے ریاضتی اور عبادتی شخص تھے۔ ایک دفعہ کا کر ہے کہ گنگا اشنان کا وقت آیا۔ اور ایک ہندو لڑکے نے اپنے والدین کے ساتھ گنگا جانے کی رخصت طلب کی۔ بندگی صاحب نے اجازت نہ دی۔ لڑکا ہر چند بضد ہو اپر رخصت نہ ملی۔ لیکن آخر کو جب کہ لڑکے نے زیادہ دق کیا تو اُنہوں نے کہا کہ تم گنگا میں غسل کرنا چاہتے ہو ہم تم کو وہاں غسل کروا دیں گے ۔ ٹھیک جس روز کہ اشنان کا موقعہ تھا۔ اُس لڑکے سے فرمانے لگے کہ تم سچ مچ گنگا کا اشنان کرنا چاہتے ہو؟ اس نے کہا کہ اب کیا ہو سکتا ہے۔ اشنان تو آج ہے۔ اور میں کس طرح اب وہاں پہنچ سکتا ہوں۔ اس پر بندگی صاحب نے فرمایا آؤ تم ابھی گنگا کا اشنان کر آؤ گے۔ پاس ایک چھوٹا سا تالاب تھا وہاں لے جا کر لڑکے سے کہا کہ غوطہ مار۔ جب لڑکے نے غوطہ مارا تو وہیں گنگا میں پہنچ گیا۔ اور والدین کے ساتھ خوب اشنان کیا ۔جاتے وقت بندگی صاحب نے سات کوڑیاں لڑکے کو دے کر فرمایا تھا۔ کہ ہماری یہ کوڑیاں بھی گنگا مائی کو دیتے آنا۔ اور کہنا۔ یہ بندگی صاحب نے دی ہیں ۔وہاں پر جب وہ کوڑیاں لڑکے نے گنگا مائی کو دینی چاہیں تو وہیں گنگامائی نے اپنا چوڑ والا ہاتھ نکال کر اور کوڑیاں لے کے غائب ہو گئی۔ غسل کرنے کے بعد جب لڑکے نے آخری غوطہ لگایا تو فوراً اُسی تالاب میں بندگی صاحب کے پاس آ نکلا۔ اُس کے والدین اور لوگوں کو بڑا تعجب ہو ا اور بندگی صاحب کے پاس آکر اس طلسمات کی بابت دریافت کرنے لگے۔ اُس نے کہا کہ میں اس تالاب میں ابھی پھر گنگا کو بلا سکتا ہوں۔ اور دیکھو میں ابھی وہی کوڑیاں اسی وقت منگواتا ہوں یہ کہہ کر پکارا کہ اے گنگامائی میری وہی سات کوڑئیں جو فلانے لڑکے نے میری طرف سے تم کو دی ہیں وہ مجھ کو واپس دے دے ،اُسی وقت وہی ہاتھ اُسی تالاب میں سے نکلا اور کوڑیاں بندگی صاحب کو دے کر غائب ہو گیا۔ اس پر اُس وقت( ۱۶۰ )ہندؤں نے جنیئو توڑ ڈالے۔ اور محمد صاحب کا کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گئے۔ یہ قصہ سن کرہمیں بڑا تعجب آتا ہے۔ کہ ہندؤں کی گنگا مائی بندگی صاحب کی ایسی تابعدار ہو گئی۔ اس قصہ کی بناوٹ میں ذرہ بھی شک نہیں اور نہ کوئی صاحب علم یقین کر ے گا۔
ایک اور عجیب بات سُنی گئی کہ بندگی صاحب کے مکان کے نزدیک ایک پیپل کا درخت تھا۔ اگر کسی ہندو کی لاش جلانے کے واسطے اُس کے نیچے سے ( کیونکہ اس محلہ کا راستہ وہیں سے تھا ) چلی جاتی تو وہ لاش ہرگز نہ جلتی چاہے سینکڑوں من لکڑیاں وہاں کیوں نہ جلائی جائیں۔ افسوس کہ ایسی ویسی کہانیا ں قصے جوڑ جوڑ کر لوگ ناحق انسان پرستی کرنے لگ جاتے ہیں ۔ جو خدا کے حکم کے بالکل برخلاف ہے۔ اور یوں خدا کے سامنے قصور کرکے گنہگار ٹھہرتے ہیں۔
اس میلے میں انجیل کی بشارت بھی دی گئی اور سچے خدا کی پرستش کی ضرورت بتائی گئی اور سمجھا یا گیا کہ خدا کی پرستش قبر پرستی اور انسان پرستی سے نہیں ہوتی ۔ بلکہ روح اور راستی سے ہوتی ہے۔ لیکن منادی کی طرف لوگ کم رجوع ہوتے تھے۔ دینی کتابیں بھی فروخت کی گئیں ۔ لیکن دیکھنے میں آیا کہ مسلمان عیسائی مذہب کی کتابوں کا پڑھنا بُرا سمجھتے میں اور یسوع مسیح کا نام سن کر ہی کتاب رکھ کر چلے جاتے اور کہنے لگتے ہیں۔ کہ ان کتابوں کا پڑھنا ہم کو جو مسلمان ہیں مناسب نہیں ۔ہمارے خداوند یسوع مسیح کا فرمانا کیا ہی حق ہے۔ جیسا کہ اُس نے فرمایا ’’ کیونکہ جو کوئی بُرائی کرتا ہے درنور سے دُشمنی رکھتا ہے اور نور کے پاس نہیں آتا تا ایسا نہ ہو کہ اُ س کے کام فاش ہو جائیں ۔ پروہ جو حق کرتا ہے نور کے پاس آتا ہے تاکہ اُس کے کام ظاہر ہوں کہ وہ خدا کی مرضی سے ہیں ‘‘( یوحنا ۳: ۲۰۔۲۱ )۔