جوش

Eastern View of Jerusalem

Enthusiasm

By

Allama Talib-u-Din

طالب الدین

Published in Nur-i-Afshan Nov 26, 1891

نور افشاں مطبوعہ۲۶نومبر ۱۸۹۱ ء

ہم نے اپنے پچھلے آرٹیکل میں عرض کیا تھا کہ ارادہ کی پختگی کے لئے کئی ایک چیزوں کی ضرو رت ہے۔ اور اسی آرٹیکل میں کسی قدر یہ بھی دکھلا دیا تھا کہ اُن چیزوں میں  ایک ہمت ہے۔ اب ہم ایک اور چیز کا جوا رادہ کو قائم  رکھنے ۔ اور عمل میں لانے کے لئے نہایت ضروری ہے۔ تھوڑا سا ذکر کریں گے۔ اور وہ جو ش ہے ۔ کسی کام کا ارادہ کرنا ۔ اور اُس کے واسطے رنج و آلام (دکھ ،درد، افسوس)کے مقابلے کو تیار ہونا ۔ ارادے کو فعل (کام)میں لانے کے لئے کافی نہیں۔ اگرچہ لوہے کے گولے کی سطح نرم اور ملائم ہونے کے سبب سے رگڑ سے بالکل خالی ۔ اور حرکت کرنے کے زیادہ قابل ہوتی ہے۔ لیکن تاہم اُس گولے میں یہ قدرت نہیں ہوتی کہ ایک جگہ سے ہل کر دُوسرے جگہ جارہے ۔

وہ اپنی جگہ سے تب ہی سِر کے گاجبکہ اور قوت اس کو سِر  کائےگی۔ پاؤں کے ساتھ ذرا سی ٹھوکر ۔ یا ہاتھ کے ساتھ ہلکا سا دھکا اگر مل جائے۔ تو پھر ضرور کہیں کا کہیں چلا جائے گا۔ اس طرح جس وقت جو ش اپنی قوت سے ارادے کو دھکیلتا ہے۔ تو ارادہ خیال سے سرک کر عمل کی طرف آجاتا ہے۔ اس موقع پر ہمیں ریل کی کارگذاری یا د آتی ہے۔ آپ ذرا سی تکلیف سے کوئی دو تین منٹ کے لئے ایک قیاسی(فرضی) ریلوے پلٹ فارم پر کھڑے ہو کر ایک ایسی ٹرین نظر سے گذاریں جس کی ساری گاڑیاں نئی اور ایک دوسری کے ساتھ قاعدے (ترتيب)کے مطابق پیوستہ(جُڑی ہوئی) ہوں۔ اور ان میں ایک عمدہ مضبوط انجن بھی لگا ہو۔ مگرایسے انجن میں بھاپ نہ ہو۔ یقین ہے ہمارے اشارے کے ساتھ ہی یہ نقشہ سب صاحبان کی آنکھوں کے سامنے جم گیا ہو گا۔ اب چاہے آپ ہماری التماس (درخواست)کے موافق وہاں دو منٹ کھڑے ہوں ۔ چاہے اسی جگہ سال اور صدیاں گذاردیں۔ لیکن ایک بات آپ دیکھیں گے کہ وہ ٹرین ہمیشہ اُسی جگہ پر کھڑی رہے گی۔ اُس کی گاڑیاں  دیکھنے میں ثابت  اور درست نظر آتی ہیں۔ انجن میں بھی کس طرح کا نقص (خرابی)نہیں۔ سب کچھ اپنے اپنے موقع پر ٹھیک ہے پھر یہ ٹرین چلتی کیوں نہیں؟ اس لئے کہ حرکت میں لانے والی قوت اس میں موجود نہیں۔ انجن کی عجیب ساخت ۔ اس کی نادر باریکیاں اس کی بڑی بڑی خوبیاں ۔ گو اپنی اپنی جگہ کاریگر کی صنعت (ہنر)کے گیت گارہی ہیں۔ مگر ان میں یہ قدرت نہیں کہ انجن کو ایک جگہ سے دوسری جگہ سر کا دیں۔ یہ قدرت بھاپ ہی میں ہے۔ اسی طرح ارادہ کو عمل میں لانے والی قوت جو ش ہے۔ لیکن یہ یادر کھنا چاہیے  کہ جب کسی بات کا ارادہ دل میں آتا ہے۔ تو اس کے ساتھ ہی یہ قوت بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ بلکہ اس کا ظہور ارادہ کی لذت کے ساتھ ایک نسبت رکھتا ہے۔ یعنی جتنا کوئی دلچسپ اور نفس کو پسند ہو گا۔ اسی نسبت سے یہ وصف (خوبی)بھی موجود ہو گا۔ چنانچہ انسان کا تجربہ ظاہر کرتا ہے کہ جس کام میں نفس کو لذّت کی زیادہ تو قع(اُميد) ہوتی ہے۔ دل کا جوش اس کو انجام دینے میں تند رفتار(تيز رفتار) گھوڑے کی طرح بگٹٹ  چال(ٹوٹی ہوئی باگ کے ساتھ بہت تيز چلنا) چلتا ہے۔ دائیں بائیں پس و پیش کا کچھ لحاظ نہیں کرتا ۔ پر افسوس یہ ہے کہ نفس کو اکثر بلکہ ہمیشہ لطف بُرے کاموں سے حاصل ہوتا ہے۔ پس جوش ایک طرح سب سے عمدہ اور ایک طرح سب سے بُری چیز ہے اگر وہ قابو میں ہو اور اس کا رُخ درست ہو تو نتیجہ نیک برآمد(نکلنا) ہو گا۔ اور اگر اس کا ناراست (گنا ہ گار)۔ اور عنان دل(دل کی لگام) تصرف (اختيار)سے باہر ہو ۔ تو نقصان برپا ہو گا۔ مثلاً اگر انجن کو ٹوٹی ہوئی لائن پر کھڑا کر دیں۔ اور درجہ اوّل تک بھاپ سے بھر کر چھوڑ دیں۔ تو سینکڑوں سواریوں کو اس ٹرین سے گر کر موت کی ٹرین پر سوار ہونا پڑے گا۔ پس بھاپ سے کام لینے کو دو باتیں ہونی چاہییں۔ ایک یہ کہ ریلوے لائن پختہ ہو اور دوسری یہ  کہ انجن کی قوتِ ضبط سے باہر نہ ہو۔ یا یوں کہیں کہ لائن  درست ہو اور ڈرائیور دانا ہو۔ اور جب یہ دونوں چیزیں مکمل ہوتی ہیں۔ تو ٹرین ایک سٹیشن سے دوسرے تک اور دوسرے سے تیسرے تک آتی ۔ اور انجام کار (آخر کار)صحیح و سلامت اپنے منزل مقصود (وہ جگہ جہاں پہنچنے کا ارادہ ہو)تک پہنچ جاتی ہے۔ راستے میں بہت سے دریا لہریں مارتے ۔  تلاطم (لہر کا جوش)اور طغيانی کی تند ی (پانی کے اُتار چڑھاؤ کی سختی)دکھاتے۔ اپنے شور سے ریل کے غُل(شور) کو مٹاتے ہوئے آتے ہیں۔ ہزاروں دشت و ویرانے (جنگل بيابان)قسم قسم کے خون آسام(خون پينے والا) آدم خوردرندوں سے بھرے ہوئے ملتے ہیں۔ لیکن انجن کی پُر زور بھاپ درست راستے پر چل کر۔ اور ڈرائیور کے تابع رہ کر ان تمام مشکلات پر غالب آتی ۔ اور ٹرین اور ٹرین کے ساکنوں(بیٹھنے والوں) کو بحفاظت تمام ان کی جگہ پر پہنچا دیتی ہے۔ اس طرح انسان کے کاروبار میں جو جوش ظاہر ہوتا ہے۔ اس کے لئے بھی دو چیزوں کی ضرورت ہے۔ ایک دانائی جو مثل ڈرائیور کے ہے۔ اور ایک صحت غرض جو مثل جا دٔہ مستقیم (سيدھا راستہ)کے ہے۔ جس کام کو انجام دینا  مدنظر ہوا گر وہ صحیح ۔ اور اس کو کرنے والا حکمت سے بہرہ ور(فائدہ اُٹھانے والا) ہو ۔ اور ان دونوں خوبیوں کی رفتار قوتِ جوش پر منحصر(ٹھرايا گيا) ہو۔ تو نتیجہ ضرور نیک ہو گا۔ بےشک اس بڑے بھاری کام کے سفر میں ہزاروں قسم کی صعوبتیں(مصيبتيں) پیش آئیں گی۔ جگہ جگہ ایسے سٹیشن ملیں گے۔ جہاں کے باشندے ہماری طبیعت اور ہماری خصلت (فطرت)کے موافق نہ ہوں ۔ اور شايد ان کے ہاتھوں طرح طرح کی عقوبت (سزا)بھی اُٹھانی پڑے ۔ لیکن یہ عقوبت اس سریع الزوال(جلد گھٹنے والا) ڈر کی طرح معدوم(ختم) ہو جائے گی۔ جو پُل پر سے گذرتے وقت سواریوں کے دلوں میں پیدا ہوتا کہ اب ڈوبے تب ڈوبے۔ مگر جو ں ہی دریاعبور ہوا فوراً اقرار ہو جاتا ہے ۔ مگر جہاں جوش نہیں وہاں تو چھوٹی چھوٹی تکلیفیں بھی پہاڑ نظر آتی ہیں۔ اس موقع پر ہمیں  سعدی کی وہ حکایت یا د آتی ہیں۔ جس میں ایک عجمی غلام کا ذکر ہے۔ جو بادشاہ کے ساتھ دریا کی سیر کو گیا۔ بادشاہ دریاکا تماشا دیکھنے  کے شوق سے پُر ۔ اور اس کا دل کشتی کی پختگی(مضبوطی) ۔ اور ملاح کی دانائی سے مطمئن تھا۔ لیکن یہ غلام اس خوف کے مارے کہ مبادا ڈوب جاؤں ۔ نہ صرف خود ڈر ڈر مرتا تھا۔ بلکہ اوروں کے عیش کو بھی منغص(افسردہ) کرتا تھا۔ کشتی کی دل کش رفتار ۔ مچھلیوں کا ناز سے اُچھلنا ۔ اور ذرا سا جھمکڑادیکھ کر پھر دامنِ آب (پانی کی تہ)سے منہ چھپا لینا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کا اٹھکیلیاں(شوخياں) لیتے آنا۔ لہروں کا جوش طبع دکھانا شہزادے کے لئے فرحت (خوشی)کا باعث تھا۔ مگر غلام کے لئے جس میں سیرِ دریا کا شوق نام کا نہیں موت کا نشان تھا۔ مگر جہاں جوش موجود ہے۔ وہاں کا نقشہ اور ہی طرح کا ہے۔ اس کے توضیح (وضاحت)کے لئے ہم کلامِ حق سے ایک مثال پیش کریں گے۔ پولُس ایک ادنیٰ درجہ کا آدمی تھا۔ نہ تو وہ گورنمنٹ میں کوئی اعلیٰ منصب اور مرتبہ رکھتا تھا۔ کیونکہ وہ خیمہ دوزی (خيمہ سينا)سے اپنی روزی کماتا تھا۔ اور نہ اس کی جسمانی شکل صورت میں ہی کوئی ایسی دلپسند خوبی پائی جاتی تھی ۔ جس سے وہ لوگوں پر اپنارعب جما لیتا ۔ کیونکہ اس کی سوانح عمری (زندگی کے حا لات) پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اکثر بیمار رہتا تھا۔ اس کی آنکھیں اسے ہمیشہ دُکھ دیتی تھیں۔ لیکن ایک بات اس میں تھی  جس نے اگرپا کے سارے دربار کو ہلا دیا ۔

جن لوگوں نے ایشیائی بادشاہوں کے درباروں کو دیکھا یا ان کی نسبت سناہے۔ انہیں معلوم ہوگا  کہ ان درباروں کا سماں کیسا ہوتا ہے۔ ایک مطلق العنان (خود سر)بادشاہ جس کی مرضی قوم کا قانون جس کی عنایت (مہربانی)ہزاروں کی سرفراز ی۔ جس کی دھمکی لاکھوں کی تباہی سمجھنی چاہیے مسند(تکيہ لگا کر بیٹھنے کی جگہ) حکمرانی پر متمکن (قائم)ہے۔ اور ارد گرد اراکین ِسلطنت با ترتیب اپنی اپنی جگہ گردنیں جھکائے  ۔ سینوں پر ہاتھ دھرے حکم کے منتظر کھڑے ہیں۔ اور ان سینوں کے نیچے اُن کے دل تھر تھر کانپ رہے ہیں۔ ایک سکوت(خا موشی) کا عالم چھا رہا ہے۔ سانس تک نہیں لیتے کہ مبادا اس کی ہوا سے بادشاہ کے غضب کا شعلہ بھڑک اُٹھے۔ تو سب کے سب جل کر راکھ ہی ہو جائیں۔ ایسے دربار میں جس کے ہر کونے اور گوشہ سے غضب مترشح (ٹپکنا)تھا۔ پولُس کو مجرمانہ شکل میں آنا پڑا ۔ ہتھکڑیاں پڑی ہوئی ہیں۔ زنجیروں سے جکڑا ہوا ہے۔ سرکاری پیادے دائیں بائیں تلواریں لئے کھڑے ہیں۔ اس کی تو یہ حالت اور اُدھر اس کے دشمن شاداں و فرحاں ہیں۔ چہروں سے خوشی ٹپکتی ہے۔ اور دل میں سوچتے ہیں بس اب یہ کوئی  دم (گھڑی پل)کا مہمان ہے۔ ایک آدھ لمحہ میں اس کا خون بہا اور ہم انتقام کی پیاس دل کھول کر بجھائیں گے۔ پر واہ رے جوش تیرے کیا کیا گُن گائیں۔ تیرے سامنے یہ قید ، یہ مخالفت ، یہ زنجیریں کیا کر سکتی تھیں۔ تیری آگ وہاں بھی بھڑک اُٹھی اور ہم دیکھتے ہیں  کہ پولُس کی پُر جوش اور دلیرانہ فصاحت (خوش بيانی)نے سب کے منہ بند کر دیئے ہیں۔ وہ سمجھتا ہے کہ جسم کی موت ایک پُل ہے۔اور میں اپنے روحانی اور حقیقی جوش کی قوت سے اس پر سے اب گذرا ۔ مجھے آسمان کو جانا ہے۔ جب کہ وہ میرا گھر ہے اور روحِ حق میرا رہنما۔ اور جوش مجھے چلانے والا۔ پھر موت مجھ سے کیا چھین سکتی ہے۔ کاش کہ خداوند ہمیں حکمت اور سمجھ اور جو ش عطا کرے کہ ہم سچے ارادوں کو دلیری اور شجاعت(دليری) کے ساتھ فعل(عمل) میں لائیں۔

Leave a Comment