Successor of Moses
By
One Disciple
ایک شاگرد
Published in Nur-i-Afshan Jan 19, 1894
نور افشاں مطبوعہ ۱۹جنوری ۱۸۹۴ ء
جب موسیٰ خُدا کے فرمان کے مطابق نبوہ کے پہار پر چڑھ گيا۔اور وہيں مر گيا۔تو بنی اسرائيل کی رہبری یشوع نے کی۔جس کو موسیٰ نے اپنی حين حيات (جیتے جی)ميں مقرر کر ديا تھا۔اور جس حکمت اور طاقت کے ساتھ موسیٰ بنی اسرائيل کو چاليس (۴۰)برس تک جنگل اور بيابان ميں لئے پھرا۔ویسی ہی حکمت اور دانائی کے ساتھ اس کے بعد یشوع بنی اسرائیل کا راہبر (راستہ دکھانے والا)ہوا۔ اور معجزوں اور نشانیوں کے ساتھ خُداوند نے اس کے ذریعہ سے بنی اسرائیل کی ہدایت فرمائی۔چونکہ اب بیابان کا سفر بنی اسرائیل طے کر چکے تھے۔اور موعودہ ملک کے نزديک آگئے تھے۔یشوع نے جو ايک بہادر شخص بھی تھا۔ديگر غیر اقوام کو جو وہاں مُقیم(قيام پذير) تھیں مغلوب(شکست دينا) کيا اور يکے بعد ديگرے (ايک کے بعددوسروں)اُن پر غالب آيا۔اور خُدا کی مدد سے ہر ايک قوم کو فتح کرتا ہو امنزلِ مقصود پر تمام بنی اسرائیل سمیت جا پہنچا۔مناسب معلوم ہوتا ہے کہ چند واقعات کا ذکر بھی اِس موقع پر کيا جائے۔جو بنی اسرائيل کے ملک کنعان پر قابض ہونے سے پہلے واقع ہوئے۔تاکہ معلوم ہو کہ خُدا اپنے بندوں کی ہر صورت سے امداد کرتا۔ اور اُن کی زندگی بھر اُن کی مدد کرتا۔ يہاں تک کہ اُن کے دُشمن حيران رہ جاتے ۔اور اُن کی مخالفت کی تیزی بے کار ٹھہرتی اور وہ پريشان ہو کر برباد ہو جاتے۔اور خُدا کے بندے اُن پر فتح پاتے۔جِس طرح پر دريائے قلزم موسیٰ کے وسیلے دو حصہ ہو گيا تھا۔اُسی طرح سے دريائے يردن يشوع کے وسیلہ سے دو حصہ ہو گيا۔اور وہ پار ہو گئے۔
يريحو شہر کا فتح ہونا
جب بنی اسرائیل مُلک کنعان ميں پہنچ گئے۔تو وہ من جو وہ بيابان ميں کھايا کرتے تھے آسمان سے برسنا بند ہو گيا۔اور وہ اُس مُلک کے عمدہ اور نفيس پھل اور حاصلات(پيداوار) کھانے لگے۔اور آگے بڑھتے بڑھتے يريحو شہر تک پہنچے۔یہ ايک بڑا عاليشان شہر تھا۔جس کی شہر پناہ نہایت مضبوط تھی۔تعجب(عجیب) کی بات ہے ۔کہ سات دفعہ بنی اسرائیل اس کے چوگرد گھومے۔اور اُس کی ديواريں اپنے آپ گر پڑیں۔اور بنی اسرائیل اُس پر قابض ہوگئے۔اِس طرح پر خُدا نے اُن کو غیر قوم کےلوگوں پر اپنی ہی مدد سے کامل(مکمل) فتح دی۔اور اُن کا ملک بنی اسرائيل کو بخشا۔اُس ملک ميں مختلف اقوام آباد تھيں۔ايک دوسرے کے بعد سب بنی اسرائیل سے مغلوب کی گئيں۔اور وہ تمام ملک ان کی ملکیت بن گيااور بنی اسرائیل کے بارہ فرقوں کے مطابق وہ سر زمين عليحدہ عليحدہ تقسيم کی گئی۔
يشوع کی زندگی کا خاتمہ
جب بنی اسرائيل ملک کنعان ميں آباد ہو گئے۔اور زمين تقسيم ہو چُکی۔اور امن و ايمان سے رہنے لگے۔تو يشوع تمام فرقوں کو نصیحت کر کے(۱۱۰) برس کا بوڑھا ہو کر رحلت کر گيا۔
بنی اسرائیل کے آنے سے پیشتر ملک کنعان ميں بُت پرست لوگ آباد تھے۔اور بنی اسرائیل کو مناسب تھاکہ جب وہ ملک اُن کو ملا تھا۔تو وہ بُت پرستی کی بیخ کنی (جڑ سے اُکھارنا) کرتے اور اُن بت پرستوں سے ملک کو پاک کرتے۔ ليکن اُنہوں نے ایسا نہ کيا۔بلکہ اُن کو جُوں کا تُوں رہنے ديا۔اِس لئے خُداوند کا فرشتہ بوکیم نامی ايک جگہ ظاہر ہوا۔اور اُس نے بنی اسرائیل کو کہا۔’’کہ خُداوند فرماتا ہے ۔کہ ميں نے تمہارے حق ميں تمہارے باپ دادوں کے عہد کو پورا کيا۔اور تم کو زمين مصر سے نکال کر اس ملک ميں پہنچايا۔پر تم نے عہد شکنی(وعدہ خلافی) کی۔کہ اِس سر زمين کے باشندوں کے ساتھ عہد باندھا۔اور اُن کے مذبحوں کو نہ ڈھايا۔اور بُت پرستی کو دُور نہ کيا۔اس واسطے خُداوند فرماتا ہے کہ ميں اُن کو (دُشمنوں کو)تمہارے آگے سے دفع نہ کروں گا۔بلکہ وہ تمہاری پسلیوں کے کانٹے ۔اور اُن کے معبود تمہارے لئے پھندے ہو ں گے ۔چنانچہ ایسا ہی ہوا ۔اکثر وہ لوگ اُن کے دُشمن ہو گئے۔اور بنی اسرائیل اکثر اوقات اُن کے ساتھ بُت پرستی ميں شريک ہو گئے۔ اور خُدا کو فراموش کر کے بُتوں کی پرستش کرنے لگے‘‘۔ليکن جب وہ ايسے گناہ ميں گرفتار ہو گئے۔ تو خُدا نے اُن کو سزا دی۔ اور وہ ملک کنعان ميں بھی جس کی انتظاری (۴۰) برس سے زيادہ عرصہ تک کرتے رہتے تھے تکلیف اور دقت ميں پڑے۔اگرچہ اب وہ ملک اُن کو مل چکا تھا۔ليکن بُت پرستی ميں مشغول (مصروف)ہونے کے سبب سے غير قوم ان کو تکلیف دینے لگے۔اور خُدا نے ان کو اُن کے قبضہ ميں کر ديا۔تاکہ دُکھ پائيں۔ليکن جب وہ خُدا کی طرف پھرتے تھےاور بُت پرستی سے ہاتھ اُٹھاتے تھے۔تو اُن کے دُشمن مغلوب ہوجاتے تھے۔اور اُن پر غالب آ جاتے تھے۔پر جب وہ پھر اُس ميں مبتلا ہوتے تھے۔ تو اور نئی آفت ميں پھنس جاتے تھے۔ اُن کی زندگی کے حالات نہایت غور کے لائق ہيں۔اور تعجب انگیز(حيرت انگیز) یہ بات نظر آتی ہے۔کہ بار بار خُدا کی رحمت اور شفقت عجیب طور سے اُن پر ظاہر ہوتی ہے۔ليکن وہ بار بار گناہ ميں گرفتار ہوجاتے ہيں۔باوجود اِس کے کہ خُدا نےاُن کو غلامی کی حالت سے چھڑا کر ايک عمدہ ملک کی ميراث عنایت فرمائی۔تو بھی ان کی حالت نہ بدلی۔بسا(بعض) اوقات خُدا کے احکام کے بر خلاف چلے۔
انسان کی چال
اور اُس کی نعمتوں کو فراموش(بھلانا) کر کے اپنی پُر گناہ چال کے موافق چلنے کو تيار ہو گئے۔یہ ہی حال تمام بنی آدم کی طبیعت کا ہے۔انسان کی چال خُدا کی مرضی کے بالکل بر خلاف ہے ۔روزمرہ انواع واقسام کی برکتيں شاملِ حال ديکھتے ہيں۔پھر بھی خُدا کا کچھ خيال نہیں رکھتے۔اور اس کے حکموں کو بھول جاتے۔اور جسمانی مزاج کے پیرو(پیروی کرنا) ہو کر اپنے تن من کی بُری خواہشوں کو پورا کرنے ميں خوش و شاد ہوتے ہيں۔اور جب گناہ کی سزا پاتے تو گبھراتے ۔اور بے چین ہو کر زندگی پر لعنت بھیجتے ہيں ۔پر نہيں سوچتے کہ یہ گناہ کی سزا ہے۔اور اِس سے دست بردار ہونا چاہئے۔
جب بنی اسرائيل دُشمنوں کے ہاتھ سے دُکھ اُٹھاتے تھے۔تو نہايت تنگ آگئے۔اور خُدا سے رہائی چاہی۔اُس وقت خُدا نے اُن ميں قاضی مقرر کئے۔جو اُن کو اُن کے دُشمنوں سے رہائی ديتے رہے۔اور مدت تک یہ ہی قاضی اُن پر حکومت کرتے رہے۔
پہلا بادشاہ
اور خُدا نے ان کو ايک بادشاہ ديا۔جس کا نام ساؤل تھا۔وہ دُنیا ميں پہلا بادشاہ تھا۔جو قوم يہود ميں ہوا۔ساؤل بادشاہ بن کر کچھ مدت ہی آرام سے رہا ہو گا۔کيونکہ جب اس کو معلوم ہوا ۔ کہ داؤد کی عزت اس کی بہادری کے باعث زيادہ ہوتی ہے۔تو وہ اس سے ناراض ہوا۔اور اس کو مارنے کے دِر پر ہوا۔اور اُس کے پیچھے اس کی تلاش ميں جا بجا ديوانہ وار پھرتا رہاکہ اُسے قتل کر ڈالے۔اور آخر کو اُس کی بے آرام زندگی کا خاتمہ ہوگيا۔اور وہ خُود خوشی کر کے اس تکليف زدہ زندگی سے گزر گيا۔ساؤل کے بعد داؤد بادشاہ ہوا۔داؤد نہ صرف بادشاہ تھا ۔بلکہ وہ خُدا وند کا نبی بھی تھا۔ اُس نے نجات دہندہ خُداوند یسوع مسیح کی بابت بہت کچھ خبريں بطور پیشنگوئی کے لکھیں۔جو بہت برسوں کے بعد واقع ہوئیں۔اُس نے اپنی زندگی خُدا کی ستائش اور حمد کے زبور گانے ميں صرف(گذاری) کی۔اس کی زبور کی کتاب آج تک بائبل ميں موجود ہے۔جس ميں آدمی کے حسبِ حال نصیحتیں ۔اور مختلف تعلیمات مندرج (درج)ہيں۔خوش ہونے والے کے واسطے خوشی سے بھرے ہوئے حمد کے زبور غمناک کے لئے تسلّی آمیز باتیں ہر موقعہ کی موجود ہيں۔اِس ميں خُدا پرستوں کو نيک اجر۔اور آسمانی برکتوں کے پانے کی اُميد اور بے دِينوں کو سزا اور عذاب ميں پڑنے کی خبر دی گئی ہے۔