ذات کا بندھن


Bondage of Caste System

By

One Disciple

ایک شاگرد

Published in Nur-i-Afshan Apr 6, 1894

نور افشاں مطبوعہ ۶۔اپریل ۱۸۹۴ ء

ہندو لوگ اِس قدر ذات پرست ہيں کہ جس کا کچھ اندازہ نہيں ۔ذات کا بندھن اُن کے لئے سب سے بڑا بندھن ہے۔يہاں تک کہ اگر وہ غير ذات کے آدمی کے ساتھ لگ جائيں تو فوراً ناپاک ہو جاتے ہيں اور جب تک کہ وہ اشنان (نہا)نہ کر ليں نا پاک رہتے ہيں۔اپنے چوکے ميں غير ذات کے آدمی کو ہرگز آنے نہيں ديتے۔کتّا ،بلی اور کوئی دوسرا جانور آجائے تو کچھ مضائقہ(حرج)نہيں ليکن اگر ايک غير ذات والا آدمی چوکے پر چڑھ گيا تو وہ ناپاک ہو گيا۔اور جب تک وہ گوؤماتا کے گوبر سے لیپا نہ جائے اُن کے مطلب کا نہيں رہتا۔اُن کی ناپاکی گنگا جل(گنگا کا پانی) کے چھڑکنے سے بھی دُور ہو جاتی ہے۔

ہندوؤں ميں ذات کے کئی بڑے درجے ہيں سب سے بڑا درجہ بر ہمنوں کا ہے۔ذات کے بانی يہ ہی لوگ تھے اور اِس لئے سب سے بڑا درجہ پسند کيا۔اور باقی دوسروں کو اپنا غُلام سمجھا۔کيونکہ سب سے بڑی خرابی ذات کی خود غرضی ہے اس لئے اُن لوگوں نے اپنے مطلب اور غرض کے لئے اپنے خاندان کے علاوہ سب کو مدِھم اور نکھد ذاتوں(نکمی ذاتوں) ميں منقسم (تقسيم)کر ديا۔اور اپنے آپ کو سب سے بڑا اور افضل ٹھہرا کر اپنی پوجا کروانے لگے۔ہندو لوگ خود کہتے ہيں کہ اُن کی ذات کچا دھاگہ ہے جو يونہی ٹوٹ جاتا ہے۔اگر کسی غير ذات والے کے ساتھ بھولے سے بھی حقہ يا پانی پيا گيا تو بس ذات ٹوٹ گئی۔گنگا جا کر اور بڑی بڑی رسومات بجا لا کر پھر ذات ميں بحال ہونا پڑتا ہے۔ہندوؤں کی عزت حُرمت اور بزرگی اُن کی ذات ہے۔

ايک بات جس کو اُن کی ذات روا رکھتی ہے چاہے اُن کا ضمیر اور عقل اُس کو خلاف اور بُرا سمجھے ليکن وہ بات ضرور پوری کی جائے گی۔اگر بہت سی باتوں کاجو ہندوؤں کی ذات ميں مروج (رواج)ہيں اور وہ خود بھی ان کے بُرے ہونے کے قائل ہيں بيان کيا جائے تو يہ مضمون طویل ہو جائے گا۔غرضکہ ذات کے بندھن ميں پھنس کر ہندو لوگ اپنے ضمیر اور عقل کے خلاف بھی کام کرتے ہيں اور صرف اسی لئے کہ ذات کا رواج اُن کو مجبور کرتا ہے۔اگر نہ کريں تو ذات برادری بُرا کہے گئی۔آريا صاحبان نے اکثر باتوں کو چھوڑنے ميں بڑی جوان مردی کی ہے۔ليکن وہ بھی اکثر ذات کے بندھن ميں قيد ہو کر آپ نہيں تو مستورات(پردہ نشين عورتيں) کے سبب سے بہت سی ایسی باتوں ميں شريک ہو جاتے ہيں۔اگرچہ اُنہوں نے عقلمند ہو کر ناقص باتوں کی ترديد کی مگر ذات کی زنجیر سے نکلنا اُن کے لئے ابھی تک ذرہ مشکل نظر آتا ہے۔ايسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ چاہتے ہيں کہ قابل نقص باتوں کو بھی چھوڑديں اور ساتھ ہی ذات ميں بھی شامل رہيں۔چنانچہ ايسا ہی اب تک وہ کرتے ہيں۔ليکن ذات کا بندھن اُن کو بھی مضبوطی کے ساتھ جھکڑے رکھتا ہے۔

ذات کے غُلاموں پر اس بات ميں اِفسوس آتا ہے۔کہ وہ خود مانتے ہيں کہ آدمی سرشت ميں اُتم (اعلیٰ فطرت)ہے ۔باوجود اس کے وہ آدمی کی قدر کتّے اور بلّی سے بھی کم کرتے ہيں۔

مُسلمانوں میں

اگرچہ ذات کی امتياز مسلمانوں ميں ایسی سختی کے ساتھ نہيں پَر تو بھی مانی جاتی ہے ۔ اُ ن ميں بھی ذات غير ذات والے کے ساتھ کھانے پینے سے ٹوٹ جاتی ہے ۔اور پھر شامل ہونے کے لئے پھر کلمہ پڑھنا پڑتا ہے ۔اُن ميں بھی بانی ذات سب سے افضل سمجھے جاتے ہيں وہ سيّدخاندان ہے۔ جس کی تعظیم باقی تمام فرقے بڑی عزت سے کرتے ہيں ۔

مسلمانوں ميں بھی ذات کےفرقوں کے اِختلاف کے سبب سے مختلف دستورات و رسومات مروّج ہيں ۔اور اُن کے پابند ہو کر وہ اُن کو بجالاتے ہيں ۔ اور آپس ميں چھوٹی بڑی ذاتيں مانتے ہيں اور عزت اور بے عزتی خيال کر تے ہيں ۔يہ اِس قسم کا خيال صرف اِس ملک کے مسلمانوں کا زيادہ تر ہے ۔شايد اس کا سبب يہ ہو کہ ان کا ميل جول صديوں سے ہندوؤں کے ساتھ رہا ہے اور اُن کے ديکھا ديکھی بہت سی باتيں ان ميں بھی رواج پکڑ گئی ہيں۔

سکھّوں ميں

اگرچہ سکھ لوگ حقيقت ميں ہندو ہی ہيں ليکن مذہبی عقيد ے کے لحاظ سے اِن ميں اور ہندوؤں ميں بڑا اختلاف ہوگيا ہے ۔بہت باتوں ميں وہ ہندوؤں کے ساتھ ہندو ہيں اور بہت باتوں ميں وہ اُن سے بالکل الگ ہيں ۔ عام طور سے تو وہ ہندو ہيں اور دوسرے ہندوؤں ميں ملے جُلے برتاؤ کرتے ہيں ليکن مذہبی اعتبار سے وہ ہندوؤں سے بالکل عليحدہ ہيں۔ان ميں اعلیٰ ذات سوڈھیوں کی ہے ۔اور وہ سکھوں کے بانيوں کی اولاد ہيں ۔ اس لئے سکھوں ميں اِس کی بڑی تعظیم ہے ۔اور اُن کو پوجا چڑھتی ہے ۔ہندوؤں میں سے لوگ سکھ ہو جاتے ہيں اور امرت چھک کر کيس(یعنی لمبے بال)

سر پر رکھ اِس فرقے ميں شامل ہو جاتے ہيں ۔اگرچہ اس مذہب کے بانيوں نے ذات کی امتياز کو توڑنا چاہا تھا جيسا کہ اُن کی کتاب سے پايا جاتا ہے

’’نہ جات ہے نہ پات ہوتی ہے ۔نہ جات پات ہوتی ہے ۔نہ رنگ ہے نہ روپ ہے نہ رنگ روپ ہوتا ہے ‘‘

ليکن يہ امتياز ٹوٹ نہ سکی بلکہ جيسا ہندوؤں کے فرقے ہيں ويسا سکھوں کے بھی ہيں ۔اور وہ بھی ذات کے بندھن ميں قيد ہيں ۔

يہوديوں ميں

يہودی قوم ميں بھی جو ملک ِ کنعان ميں تھی ايک قسم کی ذات کی عليحدگی تھی ۔اور ديگر اقوام ميں سے وہ لوگ ايک خاص طور سے الگ کئے گئے تھے۔اورمختلف ریت و رسوم کے پابند تھے۔اور اگرچہ اِس قسم کے دستورات (دستور کی جمع)جيسا کہ مندرجہ بالا ذاتوں ميں مروّج ہيں۔ان ميں سے نہ تھے تاہم وہ ايک خاص سبب سے دوسری قوموں سے الگ کيے گئے تھے۔اِن کا برتاوُ دوسری غير اقوام کے ساتھ نہ تھا۔اور دوسری قوميں اُن کی نظروں ميں ذليل اور حقیر تھيں۔اور يہ محض اس لئے تھا کہ وہ دوسری بت پرست اقوام ميں خلط ملط(درہم برہم) ہو کر ان کی بت پرستی ميں شامل نہ ہو جائيں۔ورنہ اونچ اور نيچ کے خيال سے نہ تھا۔لہٰذا يہ ايک ذاتی فرق نہيں تھا بلکہ قوم کی عليحدگی کے لئے حکمت الٰہی کا کام ہے۔

مسیحیوں ميں

مسیحیوں ميں ذات کی کوئی تميز نہيں۔اور ذات جیسی کوئی امتياز کا جيسا کہ اور قوموں ميں ہے عيسائيوں ميں شروع سے ذکر نہيں۔کيونکہ ذات حقوق کو ايک محدود لوگوں کے لئے حد باندھتی ہے اور اس سے باہر جا نہيں سکتی۔اِس لئے يہ ازخود بڑی نقص والی تفاوت (دوری، فرق)ہے۔اور روحانی حقوق کے لئے ايسی امتياز بعيداز عقل (سمجھ ميں نہ آنے والا)ہے۔قدرتی باتوں ميں کسی شخص کو کوئی رکاوٹ کسی ذات کے فرق سے نہيں ہے اور نہ ہو سکتی ہےمثلاً کسی ہندو کو اعلیٰ ذات ہونے کے لئے قدرتی نعمتوں مثلاً پانی، ہوا،اور آگ وغيرہ کے استعمال کی خاص اجازت نہيں اور کسی ادنیٰ ذات والے ہندو کو ان قدرتی برکتوں کی کوئی کسی چيز کے لئے خاص ممانعت نہيں بلکہ سب کو يکساں حق حاصل ہے۔اِس طرح پر روحانی برکتوں ميں بلا امتياز ذات کے ہر فردبشر کو يکساں سمجھ کر برابر حق ہونا چاہيے۔اِس لئے عيسائيوں ميں کوئی اعلیٰ ذات يا ادنیٰ ذات نہيں۔بلکہ سب ايک ايمان اور ايک نجات کے متعقدہيں۔اور حقیقتاً کوئی چھُٹائی اور بڑائی نہیں۔

اِس لئے يہ مذہب عام طور سے سب کو بِلا روک ٹوک کھلم کھلا بلاہٹ عامہ سے دعوت کرتا اور جو اپنے گناہوں سے توبہ کر کے اور ذات جیسے فضول اور ردّی وسوسوں(بُرے خيالوں) اور مخمصوں(جھگڑوں) کو چھوڑ کے سچے دل سے مسیح پر ايمان لاتا ہے چاہے وہ ہندوؤں کی اعلیٰ ذات ميں سے ہو يا ادنیٰ ذات ميں سے چاہے مسلمانوں يا سکھوں، چوہڑوں اور چماروں ميں سے ہو مسیح ميں پيوند ہو کر مسیحی کليسيا کے بڑے شجر کی ايک ڈالی بنتااور اُس کو کسی خاص ذات کے لحاظ سے نہيں ديکھا جاتا بلکہ مسیح کا شاگرد سمجھ کر مسیحی جماعت ميں شامل کر ليا جاتا ہے۔اِسی خصو صیت سے مسیحی مذہب بمقابلہ دیگر(دوسرے) مذاہب کے اپنے ميں منجانب اللہ ہونے کا ايک ثبوت رکھتا ہے۔

اوّل

کھانے اور پينے کے فرق سے۔ چونکہ نجات کا دروازہ تمام بنی آدم کے واسطے کُھلا ہے اور خُدا کی بخشش عام ہےخاص نہيں اِس لئے ہندو،مسلمان،سکھ،چوہڑےاور چمارسب نجات کے برابر خواہشمند ہيں۔صرف مسیحی مذہب اِس خواہش کو پورا کرتا ہے۔اور اُن ميں سےہر زمانہ بےشمار لوگ مسیحی ہوتے ہيں۔ليکن بعض جو ذاتوں کی پابندی کی نسبت بڑے تھے ۔ مسیحی ہوکر بھی اپنی اگلی بڑائی کو جتانے لگتے اور اُن لوگوں کے ساتھ جو ادنیٰ ذات ميں سے مسیحی ہوئے کھانا کھانا عیب تو نہيں سمجھتے پر پرہيز کرتے ہيں۔اور ضيافتوں کے موقوں پر اُن کو پرہيز کے ساتھ الگ سمجھتے اور اس طرح سے مسیحیوں کی دل شکنی کرتے اور خُداوند کے حکم کو بھول جاتے ہيں۔اور حقہ پانی ميں بھی ادنیٰ ذات سے عيسائی ہوئے بھائيوں کو شريک نہيں کرتے ۔يہ بڑی کمزوری کا نشان ہے اور مسیحی جماعت ميں يہ ہرگز نہيں ہو نا چاہئے۔

دوم

شادی بياہ کے فرق سے ۔جو اعلیٰ ذاتوں سے عيسائی ہوئے کبھی کبھی ان ميں سے کوئی کوئی اپنے لڑکے اور لڑکيوں کی شادی کے لئے دقت (مشکل)ديکھتا ہے۔وہ اپنے موافق کسی اعلیٰ ذات سے عيسائی ہوئےشخص کی تلاش کرتا ہے۔اور اگر نہيں ملتا تو شادی نہ کرنا تو منظور ليکن کسی ادنیٰ ذات سے عيسائی ہوئے شخص کے ساتھ ايسا بندوبست نہيں کرتا۔اگر کوئی کہے کہ نہيں ايسا نہيں تو ميں کہہ سکتا ہوں کہ ايسا ميرے ديکھنے ميں آيا ہے اور ميں اُس کو عيسائيوں ميں بڑی کمزوری سمجھتا ہوں۔

سوم

غير قوموں کے ذاتی لقب اپنے نام ساتھ لگانے سے۔ بعض عيسائی جو اعلیٰ ذاتوں ميں سے عيسائی ہوئے۔اکثر اپنے ناموں کے ساتھ الفاظ سيّد،پنڈت،مولانا،شيخ،بششٹ، تہاپر۔وغيرہ وغيرہ لگائے رکھتے ہيں۔جو ميری سمجھ ميں کچھ ضرور ی نہيں۔اُن سے سوا اس کے کہ يہ ظاہر ہو کہ وہ اعلیٰ ذات ميں سے عيسائی ہو ئے اور کيامتصور (تصور کرنے والا)ہے۔اور جس حال ميں کہ ہم اِن ذاتوں کو اعلیٰ نہيں سمجھتے تو ہم کيوں ان پر فخر کريں۔اگر ہم فخر کريں تو صرف مسیحی ہونے پر کريں۔کيونکہ مسیحی ہونا ايک بڑی بات ہے نہ کہ سيّد،برہمن،کھتری اور مسلمان ہونا۔

چہارم۔

غير قوموں کے ساتھ گفتگو کرتے وقت۔چونکہ ذات کا اس ملک ميں بہت رواج ہےاور اثنا(وقفہ۔درميان)گفتگو ميں سب سے پہلے يہ ذکر آتا ہے کہ آپ کی کيا ذات ہے؟اور جب کہو کہ عيسائی تو پوچھتے ہيں کہ پہلے کيا ذات تھی تو اکثر اپنی ذات چھپا کے اعلیٰ ذات بتاتے ہيں اور گناہ ميں گرفتار ہوتے ہيں۔کيونکہ اگر نيچ ذات کا ذکر کريں تو گفتگو کرنے والے کی نظر ميں بے عزت ہوں۔يہ بھی بڑی بھاری کمزوری ہے۔

Leave a Comment