واقعات توریت و قرآن میں صریح مخالفت


The Events of Torah Contradict in Quran

By

One Disciple

ایک شاگرد

Published in Nur-i-Afshan Feb 19, 1891

نور افشاں مطبوعہ۸جنوری ۱۸۹۱ ء

تفسیر قادری ترجمہ تفسیر حسینی میں لکھا ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام کے قصہ میں اور اوریا ہ کی عورت کے ساتھ آپ کے نکاح کرنے میں بہت اختلاف ہے۔ بعض مفسروں نے یہ قصہ اس طرح بیان کیا ہے کہ شرع اور عقل اسے قبول کرنے سے انکار کرتی ہے ۔ جو کچھ صحت کے ساتھ معلوم ہو اہے وہ یہ ہے کہ اوریاہ نے ایک عورت کے ساتھ اپنے نکاح کا پیام دیا اور قریب تھا کہ اس کا نکاح ہو جائے۔ عورت کے ولیوں(مالک،شوہر) کو اس کے ساتھ کچھ خرخشہ (جھگڑا)پڑا تھا اس لئے نکاح نہ ہونے دیا۔ حضرت داؤد نے اپنے ساتھ نکاح کا پیام بھیجا اور حضرت داؤد کے ننانوے بی بیاں تھیں ۔ عتاب الہٰی داؤد پر اس لئے ہوا کہ اوریاہ کے پیام دینے کے بعد حضرت داؤد نے پیام دیا اور اس سے نکاح کرلیا ۔ جبرائیل اور میکائیل دو متخاصین (مخالف)کی صورت پر اپنے اپنے ساتھ فرشتوں کا ایک ایک گروہ بشکل انسان لے کے داؤد کے پاس آئے اور بیان کیا کہ میرے اس بھائی کے پاس ننانوے بھیڑیں ہیں اور میری ایک ہی بھیڑ ہے اس نے غلبہ کر کے وہ بھی لے لی داؤد نے کہا کہ اگر یہ کیفیت واقعی ہے تو اس نے ظلم کیا۔ جب حضرت داؤد نے یہ بات کہی تو وہ کھڑے ہوئے اور نظرسے غائب ہو گئے۔ پس حضرت داؤد سوچ میں گئے اور مغفرت مانگی ۔ دیکھو تفسیر سورہ ضٓ۔

اب اس بیان کا ( جس کو مفسر صحت کے ساتھ معلوم کیا ہوا بتاتا ہے مقابلہ ۲۔سموئیل اا،۱۲ باب سے کریں تو معلوم ہو جائے گا۔ کہ مصنف اور مفسر قرآن صحیح واقعات انبیائے سابقین معلوم کرنے میں کس قدر قاصر ہیں۔

وَ یَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ مَا لَا یَضُرُّہُمۡ وَ لَا یَنۡفَعُہُمۡ وَ یَقُوۡلُوۡنَ ہٰۤؤُلَآءِ شُفَعَآؤُنَا عِنۡدَ اللّٰہِ

ترجمہ:یعنی پوجتے ہیں اللہ کے سوا اس چیز کو جو نہ ان کا بُرا کرے اور نہ بھلا کرے اور کہتے ہیں یہ ہمارے سفارشی ہیں اللہ کے پاس  )سورہ یونس آیت۱۸)۔یہ مشرکان عرب کی نسبت کہا گیا اور اس آیت قرآنی سے چار باتیں ثابت ہوتی ہیں۔ اوّل یہ کہ وہ اپنے بتوں کو نہ اپنا اور نہ غیر کا خالق و مالک بتاتے تھے۔ اور نہ ان کو ذات الہٰی کے برابر جانتے تھے۔ سوم یہ کہ وہ ذات الہٰی کی الوہیت کے منکر بھی نہ تھے اور چوتھے یہ کہ وہ لوگ ان اصنام معتقدہ(بتوں پر ایمان ) کو اپنا شافع عند اللہ (سفارشی) بتا نے کے باعث مشرک کہلائے۔ اب ناظرین غور کریں کہ حضرت محمد صاحب حجرا سود مکی میں وہ صفت ثابت کرتے جو مخصوص بذات الہٰی ہے یعنی علم غیب ۔

صحیح بخاری ۔ جلد اول ۔ حج کا بیان ۔ حدیث ۱۵۳۴

ان روایتوں کا بیان جو حجر اسود کے بارے میں منقول ہیں

راوی: محمد بن کثیر , سفیان , اعمش , ابراہیم , عابس بن ربیعہ , عمر

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ کَثِيرٍ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَابِسِ بْنِ رَبِيعَةَ عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ جَائَ إِلَی الْحَجَرِ الْأَسْوَدِ فَقَبَّلَهُ فَقَالَ إِنِّي أَعْلَمُ أَنَّکَ حَجَرٌ لَا تَضُرُّ وَلَا تَنْفَعُ وَلَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُکَ مَا قَبَّلْتُکَ

ترجمہ: محمد بن کثیر، سفیان، اعمش، ابراہیم، عابس بن ربیعہ، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ حجر اسود کے پاس آئے اور اس کو بوسہ دیا پھر فرمایا کہ کہ میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے نہ تو نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ نفع پہنچانا تیرے اختیار میں ہے، اگر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھتا تو تجھے کبھی بھی بوسہ نہ دیتا۔

اس حدیث پر سب کا اتفاق ہے۔ اب دیکھئے یہ کا لا پتھر ( جس کو بعض ہندو مکیشور مہا دیو کہتے ہیں ) بقول خلیفہ عمر کے اپنے چومنے والوں کو کچھ نفع نقصان نہیں پہنچا سکتا جیسا کہ مشرکان عرب کے بت نفع نقصان اپنے پر ستاروں کا نہیں پہنچاسکتے تھے۔تو بھی خلیفہ عمر نے اس کو چو ما اور سب مسلمان جو حج کے لئے جاتے اس کو ضرور چومتے ہیں اور سنت محمدیہ قرار دیتے ہیں۔ اگر چہ قرآن میں اس پتھر کا کچھ ذکر نہیں ہے۔ لیکن ہماری سمجھ میں خلیفہ عمر کا یہ کہنا کہ حجرالاسود اپنے چومنے والوں کو نہ نفع پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان پہنچا سکتا ہے درست نہیں ٹھہرتا۔ کیونکہ اسی کتاب مشکوۃ المصابیح صفحہ ۲۱۹ ۔ ایک اور حدیث پائی جاتی ہےجس کا ترجمہ یہ ہے کہ ابن عباس نے کہا کہ فرمایا رسول صلعم نے حجراسود کی شان میں کہ قسم ہے اللہ کی کہ دے گا۔ اس کو خدا قیامت کے دن دو آنکھیں کہ دیکھے گا وہ ان سے اور زبان دے گا اس کو کہ بولے گا۔ وہ اس سے اور گواہی دے گا۔ اس پر جس نے اس کو چوما سچے ارادہ سے۔ روایت کیا اس حدیث کو ترندی اور ابن ماجہ اور دارمی نے خلیفہ عمر فرماتے کہ اس پتھر کے چومنے والے کو کچھ نفع اور نقصان ہرگز نہیں پہنچتا اور محمد صاحب فرماتے ہیں کہ حجرالاسود اپنے چومنے والوں کے لئے بروز قیامت خدا کے روبرو گواہ خیر ہوگا۔ اور بااعتقاد چومنے والوں کے لئے اس کی گواہی بڑی نفع بخش ہو گی۔ اور ریاکاری کے ساتھ چومنے والوں کے حق میں اس کی شہادت باعث ضرر ٹھہرئے گی۔پس کوئی محمد ی صاحب بتلائیں کہ ان دونوں صاحبوں میں سے کس کا قول صحیح ہے۔

Leave a Comment