Messianic Hope
By
Kedarnath
کیدارناتھ
Published in Nur-i-Afshan Feb 19, 1891
نور افشاں مطبوعہ ۱۹ فروری۱۸۹۱ء
(۲۔ سموئیل ۲۴: ۱۳۔۱۴)
اس بیان کا شروع یوں ہوتا ہے کہ بعد اس کے خداوند کا غصہ اسرائیل پر بھڑکا کہ اس نے داؤد کے دل میں ڈالا کہ ان کا مخالف ہو کے کہے کہ جا اور اسرائیل اور یہود اکو گن( ۲۔سموئیل ۱:۲۴)۔
مخالفان مذہب عیسوی اس آیت میں اس نے کا مشاراً الیہ (جس کی طرف اشارہ کیا گیا ہو)خدا وند کو ٹھہرا کر ا ۔تواریخ کی ۱:۲۱ سے جہاں لکھا ہے کہ شیطان اسرائیل کے مقابلہ میں اُٹھا پاک کلام میں مخالفت ثابت کرتے ہیں۔ لیکن یہ ان کی قواعد زبا ن (زبان کے اصول) سے صریح (بالکل) ناواقفی ہے کیونکہ قریباً ہر ایک زبان میں محض اشارہ حسن کلام میں داخل ہے پھر جو پہلی آیت میں مقدر ہے وہ تواریخ میں موجود ہے پس مخالفت نہ رہی اب ہم داؤد بادشاہت میں مسیح کا ایما ہے۔ اس طرح اس کی زندگی ہم مسیحیوں کی زندگی کی ایما(اشارہ)ٹھہرسکتی ہے۔ اگر ہم اس بات کا لحاظ رکھیں کہ دنیا کے سفر میں انسان کو قسم قسم کے واقعات کا پیش آنا ضروری ہے اور کہ انسان کی حالت یکساں نہیں یہ صرف خداوند کی صفت ہے جس میں بدلنے اور پھر جانے کا سایہ بھی نہیں ( ملاکی ۶:۳، یعقوب ۱۷:۱چنانچہ داؤد کی سوانح عمری اس مدعا کی شاہد ہے ایک وقت وہ ساؤل کے مارنے سے باز رہا۔ ۱۔سموئیل ۶:۲۴اور ۲۶:۱۱ اور ایک وقت وہ زنا میں مبتلا ہوا۔ ۲۔سموئیل۴:۱۱اور یا کو قتل کرایا۔
۲ ۔سموئیل۱۵:۱۱ایک وقت وہ خداکے صندوق کے آگے ناچا۔ ۲ ۔سموئیل۱۴:۶اور ایک وقت خدا کی مرضی کے برخلاف اسرائیل کو شمار کرایا۔ ۔۲۔سموئیل۱:۲۴ اور باوجود منع کرنے کے بھی باز نہ آیا۔۲۔سموئیل۴:۲۴ پر تو بھی وہ دل سے خدا کے حضور راستباز تھا۔ ۱۔سلاطین ۱۴:۳دریافت کرنا چاہیے کہ وہ راستبازی داؤد میں کیا تھی جس نے باوجود اس قدر سخت کمزوریوں کے بھی اسے اس چٹان پر قائم رکھا جس کا وہ آپ ۱۸ زبور کی ۲ میں ذکر کرتا ہے۔ اس کا جواب اسی ۲ ۔سموئیل کے ۱۰:۲۴میں موجود ہے کہ داؤد کا دل بے چین ہو گیا اور داؤد نےکہا کہ میں خداوند کا گنہگار ہوں ۔ ۲ ۔سموئیل ۱۳:۱۲ پر یہ اقرار وہ اقرار نہیں ہے جو یہودہ اسکریوطی کو ہلاکت تک پہنچاتا ہے۔ متی ۴:۲۷ بلکہ پطرس کے ہم اشکباروں کو نجات کے چشمہ تک لے جاتا ہے۔ متی۲۶:۷۵اس اقرار کو ہم مسیحانہ اُمید کہہ سکتے ہیں اور یہی ہماری آیتوں کا موضوع ہے آؤ تھوڑ ی دیرکے لئے اس پر غور کریں۔ اور وہ تین غور ہیں۔
اوّل ۔مسیحانہ اُمید کی تعریف
آنے والے زمانہ میں کسی ملنے والی چیز کے آثار کو اُمید کہتے ہیں خواہ وہ ملے خواہ نہ ملے کیونکہ دنیا با ُمید قائم ہے۔ لیکن مسیحانہ اُمید اس کے برخلاف ہے۔ یہ اُمید شرمندہ نہیں کرتی ۔ رومیوں ۵:۵ بلکہ نااُمیدی میں اُمید کے ساتھ ایمان لانے کا سبب ہے۔ رومیوں۱۸:۴شریروں کی اُمید فنا ہو گی ۔ امثال۲۸:۱۰ پر مسیحانہ اُمید زندہ اُمید ہے۔ ۱۔پطرس۳:۱ اور یہ اُمید نہ انسان سے بلکہ خدا سے لگائی گئی ہے۔ زبور۲۴:۳۱ ہاں اسی اُمید پر رسولوں نے یروشلیم کو اپنی تعلیم سے بھر دیا۔ اعمال۲۸:۵ اور اسی اُمید پر آج مسیحی تعلیم کی اشاعت عالمگیر ہو رہی ہے۔
دوم۔ مسیحانہ اُمید کی پائیداری
دنیا داروں کی اُمیدیں کمزور میں پر خداوند کے خوف میں ہماری اُمید قوی ہے۔ امثال۲۸:۱۴ ریا کار کی اُمید توڑی جاتی ہے ۔ ایوب۱۳:۸ لیکن ہماری اُمید آخر تک کامل ہے۔ عبرانیوں۱۱:۶ اور وہ اُمید گویا ہماری جان کا لنگر ہے ۔ عبرانیوں ۱۹:۶وہ کسی آزمائش کے ٹالے نہیں ٹلتی اور نہ کسی مصیبت سے ہٹائی ہٹی ہے۔
کیونکہ اس اُمید کی بنیاد خداوند ہے ۔ ۱۔تیمتھیس۱:۱ اس آگ سے جلتی بھٹی پر نظر کر و جس میں سدرک میسک اور عبد نجو ڈالے گئے۔ دانی ایل۲۱:۳ وہ اپنی اُمید گا ہ پر ثابت تھے کہ وہ انہیں بے اُمید نہ چھوڑے گا اور بچانے پر قادر ہے ۔ دانی ایل۱۷:۳ جو خدا کے بیٹے کی صورت میں ان تینوں میں بنوکدنضر کو چو تھا نظر آیا دانی ایل۲۵:۳۔
سوم ۔ مسیحانہ اُمید کن چیزوں پر لگی ہے
دنیا داروں کی اُمید ان ہی چیزوں پر موقوف ہے جنہیں وہ دیکھ سکتے یا جن سےمتمتع (فائدہ اٹھایا جا سکے)ہو سکتے وہ ان کی نفسانی خواہشوں کے نتائج ہیں یا جن کو وہ حاصل نہیں کر سکتے ۔ مثلاً تمام دنیا کی دولت اور ہفت ۔۔۔۔۔بادشاہت یا دنیوی سامان راحت پانے والے جہان میں ۔۔۔۔۔جنت اور شراب و کباب وغیرہ پر شکر خدا کہ مسیحانہ اُمید ان پر اشیا ء پر لگی ہے جن کو آنکھوں نے دیکھا اور نہ کانوں نےسنا اور نہ دل میں آئیں ۔ ۱۔کرنتھیوں ۹:۲ ہم تو خدا کے جلال پر فخر کرتے ہیں ۔ رومیوں۲:۵ اور کہ ہم اُمید سے بچ گئے رومیوں۲۴:۸ بلکہ روح کے سبب ایمان کی راہ سے راستبازی کی اُمید کے بر آنے کے منتظر ہیں۔ گلتیوں ۵:۵ اور ہمیشہ کی زندگی کی اُمید ہے۔ ططس۲:۱ اور یہی روحانی خواہشوں کے پھل ہیں ۔ حاصل کلام اس تمام بیان سے چند فوائد نکلتے ہیں ۔
۱۔ جو شخص فضل کے تحت آگیا وہ کبھی ہلاک نہیں ہو سکتا ۔ زبور۲۴:۳۷، ۲ ۔کرنتھیوں ۴:۹۔
۲۔ کوئی شخص کیسا ہی مضبوط کیوں نہ ہو پر گر پڑنے کا خوف ہے ۔ ۱۔کرنتھیوں ۱۲:۱۰
۳۔ آنے والی متعدد مصیبتوں میں سے ہلکی مصیبت کو اختیار کرنا عقل مندی کا کام ہے۔
۴۔ دُکھ سُکھ دونوں حالتوں میں صرف زندہ خدا کے ہاتھوں میں پڑنا ایمانداری کا نشان ہے۔