All Sinner’s Saves from Cross
By
Kidarnath
کیدارناتھ
Published in Nur-i-Afshan Dec 19, 1889
نور افشاں مطبوعہ۳۰جنوری۱۸۹۰ء
پیارے ایڈیٹر چند ہفتوں سے نور افشاں میں شبہ لہم کی بابت ایڈیٹوریل کالم پر مضمون نظر آتے ہیں۔جس کی علت غائی (سب علتوں کی انتہا) یہ ہےکہ کسی صورت سے شُبہ لہم کے مریض مسیح مصلوب پر ایمان لا کر اصلی مرضِ گناہ سے نجات پاکر شفا یاب ہوں اور ثنائی مطلق کے فضل سے اُمید ہے کہ ضرور اکثر بیمار ران شُبہ لہم شفا پائیں گےکیونکہ پاتے جاتے ہیں ۔در حقیقت یہ مجرب نسخہ (آزمایا ہوانسخہ)ہے۔جس کو کوئی جھٹلا نہیں سکتالیکن تو بھی بعض کوتاہ عقل (کم عقل)نا عاقبت اندیش (چھوٹی سوچ رکھنے والے)گرفتار پنجہ شُبہ لہم نہ آپ اِس آفت سے رہائی پاتے اور نہ دوسروں کو چھوٹنے دیتے ۔محمد صاحب کی حکمت پوشیدہ نہیں ۔انہوں نے اپنا مقصد حاصل کرنےکو اس فقرہ میں وہ طرز اختیار کیا کہ کبھی محمدی لوگ اُسکی اشتباہی (مشکوک) ترکیب سے بچ نہ سکیں ۔اگر ہم قرآنی تحریر کو مان لیں تو اس سے پیشتر صاف بتایا ہے کہ یہودیوں کا قول ہے کہ ہم نے مسیح کو قتل کیا ۔پس جب قاتل آپ اقبال کرتا ہے تو اب انکار کی گنجائش کہاں رہی ۔یہاں وہی مثل صادق آتی ہے کہ ‘‘ مُدعی سُست اور گواہ چُست’’۔یہودی اقرار کرتے ہیں پر مصنف قرآن اُن کی صفائی کیا چاہتا ہے ۔پھر اس سے اول ۱۵۴ ۔آیت میں آپ ہی یہودیوں پر پیغمبروں کے قتل کا ناحق الزام دیا ہے ۔بقول شخصے۔ع کبھی اقرار کرتے ہو اور کبھی انکار کرتے ہو۔او ر آپ ہی ۱۵۶ آیت میں ۱۵۴ آیت کے ثبوت کے واسطے قتلِ مسیح پر زور دیا جاتاکیونکہ جمیع قتال پیغمبران سےیہی قتل تازہ اور آخری اور اقراری تھا۔اگر یہی ثابت نہ ہوا تو اور کیونکر ثابت ہوں گے۔یہ تو قرآن کی کارروائی ہے جس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ جو کچھ اِنجیل میں بیان ہو ا ہے وہ راست اور برحق ہے۔مگر اب تیرہویں صدی کے امام صاحب کی کرتوت پر بھی غور فرمائیے ۔
جب دیکھا کہ قرآن کا دعوی انجیل مقابل سر سبز نہیں ہوتا دکھائی دیتا تب یہی چال چلے کہ لاؤ انجیل ہی میں پناہ ڈھونڈیں ۔اگرچہ انجیل جائے پناہ تو ہے مگر اُنکو جو گناہ کے بوجھ کے تلے دبے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ خدا کا غضب سر پر ہے اور لاچاری اور فروتنی سے آتے ہیں۔نہ اُن جعسازوں کے لئے جو اُس کی مخالفت پر کمر بستہ ہیں۔آپ فرماتے ہیں کہ لوقا،مرقس اور متی میں لکھا ہے کہ مسیح کی صلیب شعمون قرینی پر رکھ کر صلیب دینے لے چلے تھےاور دستور یہ تھا کہ ہر شخص جو صلیب دیا جاتھا اپنی صلیب آپ لے جاتا تھا۔نوید جاوید صفحہ ۲۔۴ سطر ۷بجواب اس کے ہم عرض کرتے ہیں کہ اُنہیں انجیلوں میں اس کا سبب بھی لکھا ہے کہ بیگار پکڑاتا کہ اُس کی صلیب لےجائے ۔معلوم ہوتا ہے کہ مسیح رات بھر تھکا ماندہ تھا قرینہ چاہتا ہے کہ جب صلیب لے کر اُس سے نہ چلا گیا تھا تب شمعون کو سپاہیوں نے بیگار پکڑ لیا۔اُس وقت میں یہ نہ کرتے تو کیا کرتے ۔مطلب صلیب دینے سے تھا نہ صرف اُٹھا لےجانے سے ۔پھر کیوں اس امر پر زور دے کر خواہ مخواہ اُسی سے صلیب اُٹھواتے حضرات سلامت اُن ظالموں سے اس قدر رعایت بھی نہ اِس خیال سے تھی کہ مسیح کو صلیب نہ ہو بلکہ اس لئے کہ جلد اس کام کو ختم کریں۔کاش رومیوں کا یہ قانون ہوتا کہ جو شخص اپنی صلیب نہ اُٹھا سکے اس کو معاف کردیا جائے یا اگر دوسرا صلیب اُٹھا کر مقام معہودہ (مقرر کی گئی جگہ)پر پہنچا دے تو وہی مُجرم کے بدلے مصلوب بھی ہو ۔یا کسی حالت میں مُجرم کی صلیب دوسرا شخص نہ اُٹھائےیا یہ کہ جو کچھ مسیح کے مقدمہ میں پلاطوس حاکم اور یہودی مدعیوں کی جانب سے رومی قانون کے خلاف ناجائز کاروائیاں عمل میں آئیں ۔وہ سب رومی دستور تھا باوجود اِن سب کے پھر بھی ہنوز وہی دور ہے ۔کیونکہ انجیل ہی سے شمعون کا مصلوب ہونا آپ کو ثابت کرنا ہوگا۔ پر جبکہ انجیل سے صاف ظاہر ہے کہ مسیح ہمارے گناہوں کے واسطے مارا اور گاڑا گیا اور انجیل ہی کے بموجب تیسرے دن جی اُٹھا۔تو اب اُسکو قبول کرنا بہتر ہے۔
گرفتاران پنجہ(شُبہ لُہم )اس قدر مشتبہ الحواس ہو رہے ہیں کہ اپنی ہی کتاب کے الفاظ پر غور نہیں کرتے ۔بھلا انجیل ِمقدس کی کیوں ماننے لگے ۔آج ہم چاہتے ہیں کہ اُن کو مندرجہ ذیل قرآن کی آیت پر متوجہ کریں۔ وَ یَقۡتُلُوۡنَ النَّبِیّٖنَ بِغَیۡرِ الۡحَقِّ (ترجمہ) اور مار ڈالتے تھے پیغمبروں کو ناحق ۔یاد رکھنا چاہیے کہ عربی گرائمر میں بخلاف اُردو فارسی ،انگریزی کے تمیز کمیت تین ہیں ۔یعنی(۱) واحد (۲) تثنیہ (۳) جمع۔واحدایک پر دلالت کر تا ہے ۔تثنیہ دو پر اور جمع دو سے زیادہ پر ۔اب ہم دیکھتے ہیں کہ لفظ نَّبِیّٖنَ کس کمیت کے واسطے عربی گرائمر میں وضع کیا گیا ہے اور اُس کا موضوع کیا ہے ؟اورقرآن کی مندرجہ بالا آیت میں کس معنی سے استعمال کیا گیا ہے ؟معلوم ہو کہ لفظ نبی واحدہے اُس کا تثنیہ نَّبِیّٖنَ بفتح ثالث ۔پھر دو سے زیادہ کے واسطے نَّبِیّٖنَ بالکسر ثالث۔
اگر یہ قرآنی آیت عربی گرائمر کے رو سے صحیح ہے تو ہمارے خداوند یسوع مسیح کا مصلوب ہونا اسی آیت سے محمدیوں کے واسطے ثابت ہوگیا۔کیونکہ وہ بتا نہیں سکتے کہ سوائے زکریااور یحیی کے اور کوئی نبی مقتول ہوا پس ضرورتاً یہودیوں کاوہ اقرار کہ ہم نے مسیح کو قتل کیا ۔محمدیوں کو ماننا فرض ِعین ہے اور اگر اُسے نہ مانیں تو قرآن کی یہ آیت غلط ہے ۔کیونکہ تثنیہ کے بدلے جمع کاصیغہ استعمال کیا ۔لیکن ہماری رائے میں دونوں میٹھے کی مثل پر بہتر اور انسب یہ ہے کہ جہاں تک ہو سکے قرآنی آیت کو غلط نہ ٹھہرائیں اور اسی کی ہدایت سے مصلوب مسیح پر ایمان لے آئیں ۔لیکن کوئی محمدی شاید یہ کہے کہ اگر ہم سچ کی مصلوبیت کو مان کر اس آیت کو غلطی سے محفوظ رکھیں تو شبہ لہم والی آیت کو غلط کہنا پڑے گا،اُس کا جواب یہ ہے کہ اگر آپ سچ کی مصلوبی کو مان لیں تو شُبہ لہم والی آیت بھی درست ہو سکتی ہے ۔بشرطیکہ شبہ میں نہ پڑودیکھئےوَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ میں دو نفی ما ما جس کو اُردو میں نہیں نہیں کہتے ہیں ۔پس دو نفی سے ایک اثبات حاصل ہوتا ہے ۔جناب من محمد صاحب کی ترکیب اور عثمان ترتیب کو آپ نہیں جان سکتے۔تاوقتیکہ شبہ لہم کی ضمیر کو اپنی طرف راجع نہ ہونے دو ہرگز نہیں پہچان سکتے کہ اِس کہہ مُکرنی میں کیا بھید ہے ۔کاش کہ خداوند اب تمہاری عقلوں کو روشن کے تاکہ اس شبہ لُہم کی تاریکی سے آفتاب صداقت کی روشنی میں آو۔