رسول عربی ﷺ نے اپنی وفات سےکچھ مدت پہلے جمعة الوداع کے موقع پر مکہ میں اہل عرب کو یہ پیغام سنایا تھا ۔ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِينًا ” آج میں نے تمہارے لئے دین کو مکمل کردیا اور اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لئے اسلام کو چنا (سورہ مائدہ آیت 5)۔
منجی عالمین سیدنا عیسیٰ مسیح نے اپنی رسالت کےابتدائی ایام میں علی الاعلان فرمایاتھا کہ آپ کی آمد کا مقصد یہ تھا کہ بنی آدم کی نجات کا کام مکمل اور پورا ہو (انجیل شریف بہ مطابق حضرت یوحنارکوع 3آیت 16 ورکوع 4 آیت 34وغیرہ) مصلوب ہونے سے ایک رات پہلے آپ نے خدا سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ بنی آدم کی نجات کا کام جو تونے مجھے کرنے کو دیا تھا اس پورا کرکے میں نے زمین پر تیرا جلال ظاہر کیا ۔” (حضرت یوحنارکوع 17 آیت 4) اور صلیب پر سے آپ نے دم واپسین اپنی زبان مبارک سے ارشاد فرمایا کہ ” پورا ہو ا اور آپ نے جان دے دی ۔” (حضرت یوحنا رکوع 19 آیت 30)۔
پس ارض ِ مقدس کے کوہ ِکلوری سے اوردشت ِ عرب کے شہر مکہ سے ایک ہی آواز بلند ہوتی ہے کہ ” پورا ہوا ” گذشتہ تیرہ صدیوں سے مسیحیت اور اسلام میں متنازعہ فیہ امر یہی رہا ہے کہ کونسا مذہب جامع کامل اور عالمگیر ہے؟کس دین کے اصول بنی نوع انسان کی اقوام وملل کی روحانی اقتضاؤں کو پورا کرتے ہیں؟ کس مذہب کا بانی انسان ِ کامل ہے جو کل دنیا کی اقوام کے افراد کے لئے کامل اور اکمل نمونہ ہوسکتا ہے ؟ کونسا مذہب گم شدہ گنہگار انسان کو یہ توفیق بخش سکتا ہے کہ وہ از سر ِ نو دنیا نفس اورشیطان پر غالب آکر صراط مستقیم پرچل سکے ؟
چوتھی صدی شاہنشاہ تھیوڈوسیس اول (Theodosius 1) نے شہر دمشق میں ” مقدس یوحنا اصطباغی ” کا عالی شان گرجہ (Church Of St. John The Baptist) تعمیر کیا۔ جب اہل اسلام نے اس شہر پر قبضہ کرلیا تو انہو ں نے اس خوبصورت گرجا کے آدھے حصہ کو مسجد بنالیا۔اس گرجا کی بیرونی مشرقی دیوار کے پتھروں پر یونانی حروف میں یہ کتبہ کنندہ تھا” اے مسیح تیری بادشاہی ابدی بادشاہی ہے اور تیری حکومت پشت در پشت قائم رہتی ہے ۔”(زبور شریف 145 آیت 14) خدا کی قدرت دیکھو یہ کتبہ عرب فاتحین کےہاتھوں سے محفوظ رہا ۔ آٹھویں صدی کے شروع میں بنی امیہ نے گرجہ کی اندرونی عمارت کو شہید کرکے اس پر (حضرت یوحنارکوع 17 آیت 4) اور صلیب پر سے آپ نے دم واپسین اپنی زبان مبارک سے ارشاد فرمایا کہ ” پورا ہو ا اور آپ نے جان دے دی ۔” (حضرت یوحنا رکوع 19 آیت 30)۔
پس ارض ِ مقدس کے کوہ ِکلوری سے اوردشت ِ عرب کے شہر مکہ سے ایک ہی آواز بلند ہوتی ہے کہ ” پورا ہوا ” گذشتہ تیرہ صدیوں سے مسیحیت اور اسلام میں متنازعہ فیہ امر یہی رہا ہے کہ کونسا مذہب جامع کامل اور عالمگیر ہے؟کس دین کے اصول بنی نوع انسان کی اقوام وملل کی روحانی اقتضاؤں کو پورا کرتے ہیں؟ کس مذہب کا بانی انسان ِ کامل ہے جو کل دنیا کی اقوام کے افراد کے لئے کامل اور اکمل نمونہ ہوسکتا ہے ؟ کونسا مذہب گم شدہ گنہگار انسان کو یہ توفیق بخش سکتا ہے کہ وہ از سر ِ نو دنیا نفس اورشیطان پر غالب آکر صراط مستقیم پرچل سکے ؟
چوتھی صدی شاہنشاہ تھیوڈوسیس اول (Theodosius 1) نے شہر دمشق میں ” مقدس یوحنا اصطباغی ” کا عالی شان گرجہ (Church Of St. John The Baptist) تعمیر کیا۔ جب اہل اسلام نے اس شہر پر قبضہ کرلیا تو انہو ں نے اس خوبصورت گرجا کے آدھے حصہ کو مسجد بنالیا۔اس گرجا کی بیرونی مشرقی دیوار کے پتھروں پر یونانی حروف میں یہ کتبہ کنندہ تھا” اے مسیح تیری بادشاہی ابدی بادشاہی ہے اور تیری حکومت پشت در پشت قائم رہتی ہے ۔”(زبور شریف 145 آیت 14) خدا کی قدرت دیکھو یہ کتبہ عرب فاتحین کےہاتھوں سے محفوظ رہا ۔ آٹھویں صدی کے شروع میں بنی امیہ نے گرجہ کی اندرونی عمارت کو شہید کرکے اس پر ایک عالی شان عمارت کھڑی کردی جس کی آرائش پر بارہ سویونانی صناع مامور تھے لیکن گرجا کی بیرونی دیوار ان کی دستبرد سے محفوظ رہ گئی۔ گیارہویں صدی میں اس مسجد کو آگ لگ گئی لیکن یہ دیوار بچ گئی اور اس پر کا کتبہ من وعن محفوظ رہا ۔ یہ مسجد دوبارہ تعمیر کی گئی لیکن چودہویں صدی میں تیمور کی لوُٹ کے دوران میں مسجد کو نقصان پہنچا۔ لیکن دیوار کا کتبہ جو کا توں قائم رہا۔ اس دیوار کے قریب اہل اسلام نے منارة المسیح بھی بنایاہے اور حدیث کے مطابق سیدنا عیسیٰ مسیح کی آمد ثانی اسی منارہ پر ہوگی۔ پس یہ کتبہ صدیوں سے کلیسیا کے لازوال ایمان کا خاموش گواہ رہا ہے کہ ” مسیح کی بادشاہی ابدی بادشاہی ہے اوراس کی حکومت پشت در پشت قائم رہتی ہے ۔”
جب مسلمانوں نے مسیحی دارالسلطنت قسطنطنیہ کو جس کا موجودہ نام استنبول ہے فتح کیا تو وہاں کے عالی شان گرجا سینٹ صوفیا (St. Sophia Church) کو مسجد بنادیا گیا۔ اور زمین سے ایک سو اسی فٹ اونچی جگہ پر جہاں صلیب نصب تھی ہلال کانشان قائم کردیا گیا۔ مسلمان فاتحین نے گرجا کی عمارت میں مسیحیت کے تمام نشانات مٹادئے۔ اس کے اندر قرآنی آیات لکھی گئيں۔ اسلامی منبر کھڑا کردیا گیا۔اور ایک طاق قبلہ روبنائی گئی تاکہ نماز کےوقت اس جانب نمازی منہ پھیر سکیں۔ گرجا کے مشرقی کونہ میں رنگ برنگ قیمتی شیشوں اور چمکدار پتھروں کے نقش ونگار سے منجی عالمین سیدنا مسیح کی شبیہ مبارک بنی تھی جس میں آپ نے اپنے ہاتھوں کو پھیلاکر تمام دنیا کو برکت دے رہے تھے۔ ترکوں نے اس تصویر پر نقشین بیل بوٹے بناکر اس کو چھپا دیا۔ امتداد زمانہ سے وہ بیل بوٹے مٹ گئے اور اب منجی عالمین کی مبارک شبیہ دھندلی طور پر نظر آنے لگی ہے اور آپ اس مسجد سے اپنے ہاتھ پھیلا کر تمام دنیاکو برکت دے رہے ہیں۔
1934ء میں جب اسی مسجد کے شاہی دروازہ کو صاف کیا گیا تو سیدنا مسیح کی ایک اور تصویر پیچی کاری اور جڑاؤ کام کی نکلی ۔ اس تصویر میں منجی عالمین ایک مرصع تخت پر بیٹھے ہیں۔ آپ کے ہاتھ میں ایک کتاب کھلی ہے جس پر لکھا ہے ۔” السلام علیکم میں دنیا کا نور ہوں۔”(Manchester Guardian Weekly March 16 1934 , p213).
یہ تصویر اور کتبے ہم کو یاد دلاتے ہیں کہ گو تاریخ دنیا میں بسا اوقات ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مخالف طاقتوں نے مسیحیت کے آفتاب صداقت کوچھپادیا ہے تاہم بالاآخر اس کی روشنی ہر قسم کی تاریکی پر غالب آتی ہے ۔” کلمتہ الله میں زندگی ہے اور وہ زندگی آدمیوں کا نور ہے نور تاریکی میں چمکتا ہے اور تاریکی اس پر غالب نہیں آسکتی “(انجیل شریف بہ مطابق حضرت یوحنا رکوع 1 آیت 4و5)سلطان السلاطین مسیح ازل سے ابد تک تخت نشین ہے ۔ اس کی بادشاہی ابدی بادشاہی ہے۔ اس کی حکومت پشت در پشت قائم رہتی ہے ۔ وہ تمام ممالک واقوام کو اپنی آغوش محبت میں لےکر برکت دیتا ہے اور کل بنی نوع انسان کو برکت دے فرماتاہے کہ”السلام علیکم دنیا کا نور میں ہوں جو میری پیروی کرے گا اندھیرے میں نہ چلیگا بلکہ زندگی کا نور پائیگا۔”