مسیحی مذہب کی خوبیاں

Eastern View of Jerusalem

Uniqueness of Christianity

By

Gulam Jilani

غلام جیلانی

Published in Nur-i-Afshan June 21, 1885

نور افشاں مطبوعہ ۲۱۔جون ۱۸۸۵ء

دنیا میں سینکڑوں مذہب اوران کے ہزار ہا فرقے موجو د ہیں اور ہر ایک مذہب اور فرقے کا کوئی نہ کوئی بانی مبانی ہے اور اُس کی حسب مرضی وہ مذہب ٹھہرایا ہوا معلوم ہوتا ہے ۔ مذہب صرف ایک ہی ہونا چاہئے اور وہ خدا کی طرف سے اور اُس کی مرضی کے مطابق ٹھہرا یا ہوا ہونا چاہئے۔ کیونکہ اتنے مذہب اور فرقوں کا جو ایک دوسرے سے بالکل خلاف ہیں یہاں تک کہ ایک دوسرے کو رد کرتے ہیں خدا کی طرف سے ہونا کسی طرح ثابت نہیں ہو سکتا یہ ہر گز نہیں ہو سکتا کہ خدا ایک حکم امرفرمائے اور پھر اُس کی نفی کرے اس سے خدا کا حکم ناکامل سمجھا جائے گا کیو نکہ سب اس بات پر متفق ہیں خدا کے تمام احکام کا مل اور صادق میں اور کبھی بدلتے نہیں۔

اب اس میں یہ مشکل در پیش ہوئی کہ ہر ایک مذہب کو آزمانا پڑا اور اگر نہ آزمایا جائے تو شاید جھوٹھے ہی کوئی سچ جان کر مانا ہو اور آخر کو ذلیل ہونا پڑے اور الہٰیکچہری(عدالت) میں روسیاہ ہو کر عذب (خوش گوار)الہٰیکے نیچے آنا پڑے ۔ اس لئے ہر ایک فرد بشر پر واجب و لازم ہوا کہ مذہب کو سمجھ بوجھ کے اخیتار کرے اور اس کے آزمانے کے لئے کمال درجے کی ہوشیاری کا م میں لائیں ۔

جناب مسیح شافی حقیقی اور پیشواِ صادق نے یہ ایک کسوٹی بتلائی ہے جس سے یہ مذہبوں پیشوا پرکھے جاتے ہیں جو( متی۷: ۱۵۔۲۱)آیت تک لکھی ہے ۔ پر جھوٹھے نبیوں سے خبردار ہو جو تمہارے پاس بھیڑوں کے بھیس میں آتے ہیں پر باطن میں پھاڑنے والے بھیڑیے ہیں ۔تم اُنہیں اُن کے پھلوں سے پہچانو گے کیا کا نٹوں سے انگور یا ادنٹکٹاروں سے انجیر توڑتے ہیں ۔ اسی طرح ہر ایک اچھا درخت اچھے پھل لاتا اوربُرا درخت بُرے پھل لاتا ہے۔ اچھا درخت بُرے پھل نہیں لاسکتا اورنہ برا درخت اچھے پھل لا سکتا ہے ۔ہر ایک درخت جو اچھے پھل نہیں لاتا کاٹا اور آگ میں ڈالا جاتا ہے ۔ پس ان کے پھلوں سے تم ان کو پہچانوں گے ۔

اگر کوئی حق مذہب کا متلاشی ہو اس کو حق مذہب کے معلوم کرنے کے لئے اس سے بہتر اور کوئی کسوٹی نہیں ملے گی ۔ اے متلاشیو میں آپ لوگوں خدمت میں نہایت عجرو انکساری سے منت کرتا ہوں کہ آپ لوگ اس کسوٹی کو عقل پر لگا کے پر کھو اور دیکھو کہ ٹھیک ہے کہ نہیں ۔ اگر ٹھیک ہے تو اسی کسوٹی سےاپنے مذہب کو جس پر تم آپ قائم ہو آزما ؤ۔ اور اگر اس سے وہ ٹھیک نکلے تب تو اس کو پکڑے رکھو اگر ٹھیک نہیں تو اس پر مذہبوں کو آزماؤ اور جو اس پر پورا نکلے اس کو اخیتار کرو۔

کم ترین نے جو اب ایک مسیحی مناد ہے اس مندرجہ بالا کسوٹی پر اس مذہب کو آزمایا ہے اور اس کو پورا پایا ہے اور ملتمس (التماس کرنے والا)ہوں کہ آپ بھی اسے آزماؤ اور اس حق مذہب پر آکے نجات ابدی کے خواہاں ہو جاؤ ۔

جنابِ مسیح نہ صرف ایک قوم کا پیشوا ہے بلکہ تمام قومو ں کا

اس لئے میں اب مسیحی مذہب کی چند خوبیاں یعنی اُس کے پھل آپ کے پیشکش کر کے امید وار ہوں کہ آپ لوگ اپنی عنان توجہ مسیحی مذہب پھرا کے اُس کی خوبیوں سے مستفیض(فائد ہ اُٹھانے والا) ہو گے ۔ کیوں نہ ہو کہ جو کام خود خدا کی طرف سے ہوا اُس کا انتظام بھی اس کی طرف سے کیا جائے وہ ضرور فائدہ بخش عام ہو گا نہ صرف ایک قوم کے واسطے بلکہ سب قوموں کے واسطے مفید ہوگا ۔ اور اسی طرح اگر خدا اپنا کوئی حکم کسی نبی کے ذریعہ فرمائیں وہ نہ صرف موجود انسانوں کے واسطے ہی ہو گا بلکہ آنے والی پشتوں کے واسطے بھی لازم وواجب ہو گا اور سب کے واسطے یکسا ں فائدہ بخش ہو گا ۔

جنابِ مسیح نہ صرف ایک قوم کا پیشوا ہے بلکہ تمام قومو ں کا۔ اس کی پیروی سے نہ صرف ایک قوم کو فائدہ پہنچا ہے بلکہ قوموں کو جنہو ں نےاسے قبول کیا ہے فاعدہ کثیر پہچا ہے ۔ یہ بات اظہرمن الشمس(روز روشن کی طرح عیاں) ہے کہ جہاں جس ملک یا جس حکومت یا جس خاندان یا جس انسان میں مسیحی مذہب کا دخل ہوا اس میں اس کی ایسی تاثیر ہوئی کہ وہ ملک یا قوم یا حکومت یا خاندان یا انسان ایک جنت نشان ہو گیا ہے ۔ ملک میں امن ہو گیا قوم میں ملاپ حکومت میں انصاف خاندان میں پاکیزگی اور انسان میں خدا ترسی اور پر ہیز گاری ہوگئی ۔ یسعیاہ نبی کی معرفت جو کہا گیا تھا سو اس پر صادق آتا ہے ’’زبولون کی سر زمین اور تفتالی کی سر زمین یعنی غیر قوموں کا جلیل(گلیل) جو دریا کی یران کے پار ہے ان لوگوں نے جو اندھیرے میں بیٹھے تھے بڑی روشنی دیکھی اور اُن پر جو موت کے ملک اور سایہ میں بیٹھے نور چمکا (متی ۴: ۱۵۔۱۷)۔

یہ جلیل وہ ملک ہے جہاں خداوند یسوع مسیح اُس کے ایک شہر میں جس کا نام ناصرت تھا اوا ئل عمر میں جا کر رہا تھا اور ناصری کہلا یا تھا ۔ اور پھر بھی اکثر وہاں جا یا کرتا تھا اور بہت لوگ اُس پر ایمان لائے تھے۔ جس طرح اُس ملک میں خدواند یسوع مسیح پہنچا تھا اور اُن لوگوں پر موت کے ملک اور سایہ میں بیٹھے تھے نو ر چمکا تھا اسی طرح اور ملکوں میں بھی ہوا۔ جہاں جہاں اس کا کلام پہنچا وہاں وہی تاثیر ہوئی کہ موت کی حالت اُن پر سے اُٹھ گئی اور زندہ مخلوق بن گئے ۔

یہ کلام انگلستان میں پہنچا وہاں بھی یہی تاثیر ہوئی کہ اُس ملک کی بےدینی اور بُت پرستی دور ہو گئی ۔ اور جہا ں موت کا سایہ تھا کہ زندہ آدمی کو بت کے سامنے جلادیا کرتے تھے وہاں ایسا نور چمکا کہ یہ سب باتیں بالکل چھوڑدیں اور اب وہ ملک کیسا ہے۔ بُت پرستی کا تو وہاں نام ونشان نہیں اس کے برعکس وہ ملک ہر طرح کی عقل و علم سے بھر پور نظر آتا ہے ۔اور سچے خدا کی پرستش کرنے والا کہلاتا ہے اور ہندوستان کو ہیدن ورلڈ یعنی بت پرستی کی مملکت کہتا ہے ۔

یہ کلام امریکہ میں پہنچاوہاں بھی اُس سےکچھ کم فائدہ نہیں ہوا وہاں کے غلام آزاد کئے گئے اور سچے مذہب کے قبول کرنے سے ہر طرح کی ترقی اُن لوگوں میں ہوئی جو کل دنیا کو معلوم ہے کہ اُس کے ذہن میں یہاں تک رسائی پیدا ہوئی کہ آج دنیا میں علم و ہنر میں اپنا نظیر (مثال)نہیں رکھتے ۔ یہ کلام ہندو ستان میں بھی یورپ اور امریکہ کے خدا پرست اور دینددار بندو ں کی معرفت آ پہنچا ۔ جو در حقیقت یسعیاہ نبی کے فرمانے کے موافق موت کا ملک تھا ۔جس میں صدہا جانیں نا حق موت کے منہ میں جاتی تھیں ۔ سینکڑ وں آدمی تیرتھوں (مقدس مقام یا مندر جہاں لوگ جاترا کے لیے جائیں ایسے مقام عموماً پوتر دریاؤں کے کنارے ہوتے )میں جا کے گاڑیوں اورر تھوں کے نیچے گر کے خود کشی کرتے تھے ہزاروں دیوتوں کے آگے چڑھائے جاتے تھے۔ سینکڑوں شیر خوار لڑکیاں پیدا ہوتے ہی گلانپت کے(گلا ڈباکر) ماری جاتی تھیں صدہا عورتیں ستی ہو جاتی تھیں [1]۔ان سب باتوں سے ہندوستان موت کا ملک نہیں تو اور کیا تھا یہ سب باتیں مسیحی مذہب کی تعلیم ہی سے دور کی گئیں ۔

مسیحی مذہب میں نہ صرف یہ ہے خوبی ہے کہ وہ خدا کا سچا رستہ بتاتا ہے بلکہ دنیاوی نعمتیں علم و ہنر و اور کام میں یہ دیانتدداری اور سچائی جو نہایت ضرور ہیں اپنے ساتھ لاتا ہے ۔یہ نہ صرف موت کو اٹھاتا ہے بلکہ نور چمکاتا ہے ۔ اندھیرا ترک نہیں ہوتا اور اُس کو جنبش نہیں ہوئی جب تک کہ روشنی اُس پر نہ چمکے اسی طرح بُرے اور گناہ کے کام تب ہی تک فروع (مذہبی اصطلاع میں وہ مسائل جو عمل سے متعلق ہوں )پاتے ہیں جب تک کہ ان کوبُرا اور جھوٹا ثابت کرنے والا نہ ہو اور اس کو دور کرنے کی کوشش نہ کرے ۔جھوٹے مذہب نھی تب تک رونق پاتے رہیں گے جب تک کہ سچے سے مقابلہ نہ کئے جائے ۔

جب سے کہ مسیحی مذہب کی روشنی چمکی تب ہی سے ہم دیکھتے ہیں کہ ہر ایک دیگر مذہبوں کو بڑی جنبش ہوئی ہے جو ایسی کہ پیشتر کبھی نہ ہوئی تھی ۔ صدہا برس کے عرصے سے محمدی مذہب جیوں کا تیوں(جیسا ہے ویسا) ہی چلاآیا تھا اور ایسی رسمیں محمدی مانتے چلے آتے تھے جن کی بابت کوئی ان کا مانع (منع کرنے والا)نہ ہوا تھا۔ مثلاً مُردوں کو ختم ودور دد لانا اور ضیافتیں کھلانی اس امید پر کہ اُن کی روحوں کو پہنچ جائے اور قبروں کی پرستش بھی قدیم سے چلی آتی تھی اور بہت سی رسومات جو بالکل عیب میں داخل ہیں صدیوں سے چلی آتی تھی پر عیسائی مذہب نے ایسی روشنی چمکائی کہ ان کو بالکل کفر اور باطل کر دکھلایا اور نیز محمدی مذہب کو بنچ دین سے ہلا دیا اور اب ان ہی دنوں میں صاحب علم اور محمدی مذہب کے عالموں کی طرف سےایک اور مذہب بنام نیچری مشہور ہوا بلکہ کئی ایک اور بھی فرقے جاری ہوگئے ہیں ۔کیا یہ سب جنبشیں مسیحی مذہب کے سبب سے نہیں ہوئیں۔ پھر صدہا برس سے برہمن لوگوں کی باتیں لوگ مانتے چلے آئے اور ان کو بڑے بزرگ اور معزز مانتے تھے یہاں تک کہ اُن کے پاؤں کی خاک دھو دھو کے پیتے تھے ،پر عیسائی مذہب نے ثابت کر د یا کہ کل انسان یکساں گنہگار ہیں اور کوئی آدمی دوسرے سے بہتر نہیں ۔اور سب ایک ہی آدمی کی اولاد ہیں ۔ تب سے برہمنوں کی مانتا (تعظیم وتکریم)کم ہوگئی اوراب صرف بے علم ہے اُن کی کچھ بات نہیں پر صاحب علم و عقل تو ان کو اپنے سے کچھ بہتر نہیں سمجھتے بلکہ یہاں تک برہمنوں کی تعظیم جاتی رہی کہ جو آگے بغیر محنت اور مشقت کے بیٹھے بٹھائےکھاتے تھے اب زمینداری اور دوکان داری اور کام کاج کرتے اوروں کی ماننداپنی روزی حاصل کرتے ہیں ۔

صدہابرس سے ہندو مذہب بے جنبش چلاآیا تھا پر اب اس میں ایسی ہل چل مچ گئی ہے کہ تھوڑے ہی عرصے میں دو اور نئے فرقے یعنی برہموسماج اور آریا سماج کے نکلے ہیں جنہوں نے اپنے نئے اصولوں سے دکھایا کہ ہندو مذہب بہت بھولا ہوا اور بگڑاہوا بن گیا تھا اور دھو کے میں پڑکے ایک نیا مذہب برہمنوں کی بھول اور شرارت سے بن گیا تھا اور اپنے لئے مذہب کے اصولوں کو بیان کر کے دعویٰ کیا کہ یہ مذہب سچاہے ۔

واضع ہو کہ مسیحی مذہب کی روشنی کے پیشتر کبھی ایسا خیال کسی کو نہ ہوا تھا ۔مسیحی روشنی نے اندھیرے کے کاموں کو ظاہر کرکے دکھلا دیا مگر افسوس صد افسوس کہ اندھیرے نے اُجالے کو پسند نہ کیا جیسا کہ (یوحنا ۱: ۵ ) میں لکھاہے کہ نو ر تاریکی میں چمکتا ہے اور تاریکی نے اُسے دریافت نہ کیا ۔ اے پڑھنے والے یہ تو مسیحی مذہب کی بیرونی خوبیاں ہیں جو اُس کی اندرونی خوبیوں کے نتیجے ہیں ۔ اب میں چند اندرونی خوبیوں کا بیان کرتا ہوں ۔

یہ اندورنی خوبیاں خود خدواند یسوع مسیح اور اس کی تعلیم سے نکلتی ہیں ۔ اوّل خداوند یسوع مسیح ہی میں خوبیاں ہیں ۔جو خداوند یسوع کا بدن تھا اُس میں سب سے بڑی یہ خوبی تھی کہ تمام بنی آدم کے وجود میں نسلی گناہ چلا آتا ہے مگر وہ جو اس گناہ سے پاک تھا ۔ اور اُس میں قدرت الہٰی تھی اور یہ بڑی خوبی ہے کہ اُس وجود سے کوئی فعلی گناہ نہ ہوا نہ کوئی اقوالی گناہ (باتوں میں )ہوا بلکہ قول اور فعل سے ایسے کام سرزد ہونے جو خوبیوں سے بھرپور ہیں اُن سے ایسی باتیں فرمائیں جو انسان کے بچنے اور ابدی آرام میں داخل ہو نے کی خبریں تھیں ۔ اور اُس کے ایسے کام تھے جو آدمیوں کی ہر ایک مرضی اور دکھ کاٹنے اور بھوک پیاس کا نٹے اور آرام دینے کے تھے ۔ اور آخر اس ہی وجود سے وہ بھاری کام انسان کی نجات کا پورا کیا جو اُس کے آسمان سے آنے کی علت غائی(سبب) تھا ۔

پھر اُس کی تعلیم کی خوبیا ں یہ میں کہ اُن سے خدا کی ذات پاک کے پورے بھید کا پتا لگا یاجو کسی کو معلوم نہ ہو سکتا تھا جس طرح کہ لکھا ہے کہ باپ کو کسی نے نہ جا نا اکلوتا بیٹا جو باپ کی گود میں ہے اُسی نے بتا دیا ۔ اور جو تعلیم اور نصیحت دی اس کی غرض گنہگار کو دوزح سے بچانے اور ہمیشہ کی زندگی کا وارث بنانے کے بارے میں تھی ۔

اور سب سے بڑی خوبی یہ بھی تھی کہ اُس نے گنہگار و ں کے بچانے کا کا م پورا کر کے اُن کے واسطے اپنے آپ کو اُس وجود میں ہوکے ایک عمدہ نمونہ بنایا کہ جس طرز پر چل کے گنہگار بدی اور بُرائی سے بچارہے اور اس دنیا میں رہ کے اس عالم جاودانی (ازلی)میں رہنے کے لائق بنتا جائے کیا یہ پھل عیسائی مذہب کی صداقت کے گواہ نہیں ہیں اور کیا کسی اور مذہب میں پائے جاتے ہیں

پس اے ناظرین جو ابھی تک اُس سرچشمہ خوبیو ں کے پاس نہیں آیا اور نہ تو نے کسوٹی لگا کر اپنے مذہب کو آزمایا ہے۔ آ ج ہی اپنے مذہب کو آزما اور بہتر کو اختیار کرتا کہ تو عدالت کے دن آسمانی خوبیوں سے محروم نہ رہے اور آخر کو شرمندہ نہ ہو۔ خدا وند یسوع مسیح کہتا ہے کہ جو مجھ پر ا یمان لاتا ہے شرمندہ نہ ہو گا ۔ آزمااور دیکھ ۔ اگر تو اس ایمان پر کھڑا ہو تو ان سب خوبیوں میں تیری شراکت ہو گی اور تو ابدی آرام اور ہمیشہ کی زندگی مفت پائے گا ۔


[1]۔ ستی ہو نے کی رسم قبل از حکومت سرکار انگریزی ہندوستان میں جاری تھی ۔ جو یہ تھی کہ جب شوہر مرجانا تو عورت اُس کے ساتھ ہی زندہ جل جاتی اور اُس کے جلتے وقت ڈھول وغیرہ بجائے جاتے تاکہ شور وغل میں عورت کا چلانا سنانہ جائے او ر اس طرح آدمی کے ساتھ ہی جل کر خاک ہو جاتی اور بعض اوقات میں آدمی بھی عورت کے ساتھ جل جاتا اُس کو ستا کہتے تھے ۔

Leave a Comment