Light of the World
By
One Disciple
ایک شاگرد
Published in Nur-i-Afshan April 23, 1891
نور افشاں مطبوعہ۲۳ اپریل۱۸۹۱ ء
یسوع نے پھر اُن سے مخاطب ہوکر کہا دنیا کا نور میں ہوں۔ جو میری پیروی کرے گا وہ اندھیرے میں نہ چلے گا( یوحنا۱۲:۸)
’’ دنیا کا نُور میں ہوں ‘‘ ۔ یہ دعویٰ ایسا بھاری ہے کہ جس کو بادی النظر (پہلی نظر) میں کسی انسان خاکی بنیان(پوشاک) کی زبان سے سنتے ہی یہ خیال پیدا ہو سکتا ہے کہ مُدعی دیوانہ یا فریبی یا فریب خور دہ ہے ۔ لیکن جب ہم اُس ابن آدم کو جس کے منہ میں کبھی چھل بل ( دھوکہ اور شرارت) نہ پایا گیا اور موافق و مخالف ( قبول کرنے اور نہ کرنے والے) بالا تفاق جس کی راست گوئی و راستبازی کے قائل ہیں یہ کہتے ہوئے پاتے کہ ’’دنیاکا نُور میں ہوں‘‘۔ تو فوراً یہ امردریافت کرنے پر متوجہ ہو جاتے ہیں کہ جہان نے واقعی اُس نُور سے کچھ روشنی حاصل کی ہے یا نہیں۔ اٹھارو سو برس سے زیادہ گزرے کہ اُس نُور نے بیت لحم ملک یہودیہ سے طالع ہو کر نہ صرف ملک اسرائیل کو منور کیا بلکہ یسعیاہ کی معرفت اُس الہٰی پیشین گوئی کے مطابق کہ ’’ وہ فرماتا ہے کہ یہ تو کم ہے کہ تُو یعقوب کے فرقوں کے برپا کرنے اور اسرائیل کے بچے ہوؤں کو پھر الانے کے لئے میرا بندہ ہو بلکہ میں نے تجھ کو غیر قوموں کے لئے نور بخشا کہ تجھ سے میری نجات زمین کے کناروں تک پہنچے ‘‘(یسعیاہ۶:۴۹) ۔ زمین کے کناروں تک اُس کی نورانی شعاعیں پرتوا فگن ( روشنی ڈالنے والا) ہوئیں اور ہوتی جاتی ہیں۔ جو اہل بصیرت تواریخ و جغرافیہ ممالک یورپ امریکہ اور ایشیا و افريقہ کے حالات و کوائف سے اور تاریخ ِکلیسائے مسیحی سے واقف ہیں وہ جانتےہیں کہ اس حقیقی نُور سے کیوں کر وہ ممالک جہاں جہاں اُس کی روشنی پہنچی ہے منور اور روشن ہو گئے ہیں۔ مگر جب ہم آج کل کے اسلامی اخبارات میں ایسی خبر یں پڑھتےہیں جن کا نہ سر ہے نہ دُم ہے تو صرف یہ خیال گزرتا ہے کہ یا تو ان باتوں کے لکھنے اور شائع کرنے والے محض ناواقف ہیں یا عمداًجہلائے عوام کو دھوکہ دینا اور اپنے تقلیدی عقائد مذہب کی عظمت کا ان ناجائز و فضول طریقوں سے اُنہیں حتی الا مکان معتقد و گرویدہ بنائے رکھنا مقصود ہے۔ چنانچہ وزير ہند سیالکوٹ مطبوعہ ۵ ۔ اپریل سنہ ردان میں بحوالہ اخبار کا ر نامہ ایک آرٹیکل بعنوان ’’ امریکہ میں تجلی مہر السلام ‘‘ شائع ہوا ہے جس میں راقم آرٹیکل نے یوں خامہ فرسائی (لکھا ہے)کی ہے کہ امریکہ جس کو نئی دُنیا کہتے ہیں جس کا سراغ طلوع آفتابِ اسلام سے آٹھ سو برس بعد ملا ہے اب تک آفتابِ اسلام کا سایہ اس ملک پر نہیں پڑا تھا ۔ ظلمت نے ایسا گھیرا کہ کوئی نُور ایمان کے جلوہ سے مشرف (شرف دیا گیا)نہیں ہوا تھا۔ اب صبح صادق کی روشنی نمایا ں ہونے لگی ہے۔ ایک امیر امریکہ نے ( شہر کا نام ندارد) جن کا نام ا روپ ہے صرف تذکرہ دین ِاسلام سن کر اور بعض رسائل اسلامی دیکھ کے کلمہِ شہادت پڑھا اسلام قبول کیا ۔ اور اہل ِاسلام بمبئی سے درخواست کی ہے کہ ایک اسلامی مشن امریکہ کو روانہ کریں تاکہ وہ دعوت و تلقین اسلام کا سلسلہ جار ی کرے۔ نادانوں کو دین ِحق سے آگاہی ملے ۔ اُن کا قول ہے کہ امریکہ کے دانشمند اپنے مذہب سے نفرت کرنے لگے ہیں اور اُس کی روزافزوں بُرائیاں کر رہے ہیں جس کی وجہ سے یہ مذہب بالکل کمزور ہو رہا ہے اور یقین کیا جاتا ہے کہ تھوڑے عرصہ میں بالکل نابود ہو جائے گا۔ اب اہل علم دریافت کر سکتے ہیں کہ اس اروپ کا بیان کس قدر مخالفِ حقیقت ہے۔ وہ مسیحی امریکہ جہاں کے سرگرم اور دیندار مسیحی باشندوں کی طرف سے ہزارہا عالم و فاضل مشنری ممالک مختلفہ میں انجیلی بشارت دے رہےہیں۔ اور جو کروڑ ہا روپیہ اُن غیر ملکی مشنوں اور کتبِ مقدسہ و دیگر کتاب ہائے دینی کی اشاعت و قائمی پر خرچ کر رہے ہیں۔ اور وہ امریکہ جس میں لاکھوں دیندار مسیحی علماء سر گرمی و کامیابی کے ساتھ دین متین عیسوی کا وعظ کر رہے ہیں۔ اور علم و حکمت دولت و حکومت غرض دینی و دینوی تمام خوبیوں میں دُنیا کی تمام قوموں سے بڑھے چڑھے ہوئے ہیں کون نا سمجھ ہو گا جو ایسا خیال بھی اُن لوگوں کی نسبت کر سکے کہ وہ اپنے مذہب سے نفرت کرتے اور اُس کی روز افزوں بُرائیاں کر رہے ہیں کہ جس کی وجہ سےیہ مذہب کمزور ہورہا ہے۔ ہاں دین اسلام کی نسبت تو یہ قول صادق ٹھہرسکتا ہے کہ جن جن ممالک میں لوگ اُس کے معتقد ہیں اُن کی حالت ایسی ہے اور ایسے ہی آثار نمایاں ہیں کہ وہ تھوڑے عرصہ میں بالکل نابود ہونے والا ہے۔ دور کیوں جائیں ہندوستان ہی کو دیکھیں کہ اسلامی ہلال (اسلام کا پرچم) نے صدیوں تک اس تاریک و بت پرست ملک میں موجود رہ کر کیا روشنی پھیلائی اور کہاں تک اہل ہند کو روشن و منور اور مہذب و تعلیم یا فتہ بنایا۔ اگر مسیح آفتا ب صداقت کی روشنی اس تِيرہ وتاریک (کالا سياہ) ملک پر نہ چمکتی تو اُس حالت کا کون قیاس و اندازہ کر سکتا ہے جس پر آج کے دن وہ پہنچا ہوا ہوتا ۔
ع کہیں خاک ڈالے سے چھپتا ہے چاند
آگے چل کے راقم مضمون مسلمانوں کو صلاح دیتے ہیں کہ ایسے وقت میں ضرور ہے کہ وہ مسلمان جو انگریزی میں مکالمت ( گفتگو) کر سکتے ہیں۔ اُن کا مشن امریکہ کو روانہ کیا جائے کیونکہ یہاں کے لوگ منتظر بیٹھے ہیں کہ دین اسلام کو قبول کر کے نجات حاصل کر یں‘‘۔ کیا خوب !’’ بیل نہ کُودا کوُدی کُون یہ تماشا دیکھے کون ‘‘۔ اے اسمٰعیلی بھائیوں کیوں دیدہ و دانستہ (جان بوجھ کر) حق سے چشم پوشی (ديکھ کر ٹال جانا) کرتے اور ایسی بے سود باتیں لکھ کے اپنی خام خیالی اور کتب ِالہامیہ سے ناواقفی یا عمدیً ( انجان ہونا يا جان بوجھ کر) مخالفت ظاہر کرتے ہو۔ صرف اُسی پر ایمان لانےسے جس نے فرمایا ’’ دُنیا کا نُور میں ہوں‘‘۔ اور جس کے حق میں لکھا گیا کہ ’’ میں نے تجھ کو غیر قوموں کے لئے نُور بخشا کہ تجھ سے میری نجات زمین کے کناروں تک پہنچے‘‘۔ آپ لوگوں کو بھی فضل سے نجات مفت ( اعمال سے نہیں ) مل سکتی ہے کیونکہ ’’ آسمان کے تلے کوئی دُوسرا نام آدمیوں کو نہیں دیا گیا جس سے وہ نجات پائیں ‘‘۔ پس توبہ کرو اور متوجہ ہو کہ تمہارے گناہ مٹائے جائیں اور خداوند کے حضور سے تمہارے لئے بھی تازگی بخش ایاّم آئیں۔