بعض خیالاتِ محمدی پر سرسری نظر


A Quick Look on the Teaching of Muhammad

By

Bahadur Masih Minad

بہادر مسیح مناد

Published in Nur-i-Afshan Aug 24, 1894

نور افشاں مطبوعہ ۲۴اگست ۱۸۹۴ ء

قومِ محمدی جو دنیا کی قوموں میں مہذب زکی اور فہیم(فہم سے بھرپور) قوم کہلاتی ہے۔ بلکہ اپنے تئیں خدا پرست اَور اہلِ کتاب میں سے ایک ہونے کا دعوےٰ کرتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے  کہ اُس کے خیالات و احکاماتِ دینیہ (دین کے احکام)اورریواجیہ (دُنیاکے رسوم ورواج)سب نہیں تو بہت کچھ دوسرے اہل ِ کتاب کے خیالات واحکامات کے ساتھ مطابق و متفق بھی ہوں۔ کیونکہ وہ ایک ہی ازلی و ابدی اَور بے تبدیل خُدا ہے۔ جس کو سب اہلِ کتاب جاننے اَور ماننے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اس لیے ضرور ہےکل احکام و کلام جو اُس نے انسان کی بھلائی و بہبودی کے واسطے فرمائے ایک ہی اصول پر مبنی ہوں۔ نہ کہ وہ ایک کو کچھ ۔ اَور دوسرے کو کچھ فرمائے۔ جو اُس کی عدالت قدو سیت کے محض خلاف بلکہ غیر ممکن ہے۔ کیونکہ وہ انسان نہیں ہے جس کو آیندہ کی کچھ خبر نہیں۔ جیسا بعض کا خیال ہے ’’اُس خدا نے اگر تمہیں یوں فرمایا۔ تو ہماری اُمت کے واسطے ہماری کتاب میں ہم کو یوں فرمایا۔ کیونکہ وہ قادرِ مطلق ہے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ بے شک وہ قادرمطلق ہے۔ اس میں کچھ کلام نہیں۔ مگر وہ اپنی الہی صفات کاملہ جو اُس نے جو اپنے پاک کلام میں ظاہر و آشکار فرمائیں پابند بھی ہے۔ ایسا کہ اُن میں سے ایک کے بھی خلاف کرنا اُس کی ذات ِ خاص کے بالکل خلاف۔ اَور نہائت ہی غیر ممکن ہے۔ بلکہ اُس قادرِ قدوس کا شروع آفرینش عالم(دُنیاکی پیدائش) یعنی آدم کے گنہگار ہو جانے کے زمانہ سے تا حال کل برتاؤاس کی ایک صفت کے بھی خلاف ظہور میں نہ آیا۔اَور نہ آ سکتا ہے۔ اگرچہ بعض وقت بعض باتیں اُس نے اپنے اِرادہ کا ازلی اَور کلام کے پورا ہونے کے لیے اپنے نبیوں کی معرفت تشبیہاً و علامتاً[1] مذکور بھی کرائیں۔ جن کا عمل میں لانا اُس وقت میں نہائت ضروریات سے تھا۔ مگر اُن کا کامل ثبوت یا نتیجہ بھی اس کے پاک کلام سے ہو بہو (بالکل ویساہی)ظاہر ہے۔ جس کو ہر انسان بے تعصب مطالعہ کرکے بخوبی معلوم کر سکتا ہے۔ بلکہ بہتوں کو اس کی حقیقت سے کماحقہ (جیسااس کا حق ہے)آگاہی ہو گی۔ اَور ہوتی جاتی ہے۔ مگر ماننا یا نہ ماننا امرِدیگر ہے۔ چنانچہ خود یسوع مسیح نے انجیل (متی ۵: ۱۷۔۱۸)میں یہ فرمایا’’ یہ خیال مت کرو کہ میں توریت یا نبیوں کی کتاب کو منسوخ کرنے کو آیا ہوں۔ میں منسوخ کرنے کو نہیں ۔ بلکہ پوری کرنے کو آیا ہوں۔ کیونکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں۔ کہ جب تک آسمان و زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا شوشہ توریت کا ہرگز نہ مٹے گا۔ جب تک سب کچھ پورا نہ ہو‘‘۔

مگر جائے غور ہے کہ محمدی اکثر احکامات دینیہ و خیالات ریواجیہ میں دوسرے اہلِ کتاب کے ساتھ آسمان و زمین کافرق نظر آتا ہے۔ بلکہ سچ کہا جاے تو بہت کچھ غیر اقوام کے خیالات کے ساتھ ملتے ہوے ثابت ہوئے ہیں۔ جو اہلِ کتاب کے لیے غیر ممکن عمل ہے۔ چنانچہ ان میں بعض کا مختصر ذکر مختصر مقابلہ کے ساتھ درج ذیل ہے۔ جن کی بابت راقم نہائت ادب کے ساتھ ملتمس(عرض کرنےوالا) ہے۔ کہ کوئی صاحب اُن کو پڑھنے سے رنجیدہ خاطرنہ ہوں۔ بلکہ برائے نوازش اُن کی حقیقت سے پوری اگاہی (مناسب ہے) عنائت فرمائیں۔

(۱)۔بعض احکامات شرعی کا مقابلہ

۱۔ بابت ہمدردی (انسانی) قران میں مرکوزہے ’’ محمد رسول اللہ کا ہے۔ اَور جو لوگ ساتھ اُس کے ہیں سخت ہیں اوپر کفار کے۔ اَور رحم دل ہیں درمیان اپنے‘‘( سورہ الفتح رکوع ۴ )۔پھر ’’ نہ پکڑیں مسلمان کافروں کو دوست سواے مسلمانوں کے‘‘ (سورہ آلِ عمران رکوع ۳) ۔

ہندو بھی آخر بؔرن شُدر(ہندوؤں میں ایک ذات کانام) کو نہائت حقیر و ذلیل خیال کرتے ہیں۔ ایسا کہ سوائے غلامی کے( شاشتر منواوہیاء ۔۱۔ اشلوک ۸۱)مذہبی کسی فرض میں اس کا کوئی حصہ نہیں۔ بلکہ اس کو دھرم کا اُپدیش(نصیحت) کرنے والا نرک (جہنم)میں جاتا ہے۔ ( اوہیاء۔ ۴۔اشلوک ۸۱)

اَور ذرا سی سخت زبانی اَور مغروری کرنے پر شُدر برن کو نہائت سخت سزا دینے کا حکم ہے۔(اوہیاء۔۸۔ اشلوک۲۷۰۔۲۷۲۔ تک)

مگر تعلیم انجیل انسانی ہمدردی کی بابت بلا امتیاز کسی کافر یا شُدر کے یہ فرمائی ہے۔

’’ پر میں ( مسیح) تمہیں کہتا ہوں کہ اپنے دشمنوں کو پیار کرو۔ اَور جو تم پر لعنت کریں اُن کے لیے برکت چاہو۔ جو تم سے کینہ رکھیں اُن کا بھلا کرو۔ اَور جو تمہیں دکھ دیں یا ستائیں اُن کے لیے دعا مانگو۔ تاکہ تم باپ کے جو آسمان پر ہے فرزند ہو ۔ کیونکہ وہ اپنے سورج کو بدوں و نیکوں پر طالع کرتا ہے۔ اَور راستوں اَور نا راستوں پر مینہ برساتا ہے۔ کیونکہ اگر تم اُنہیں کو پیا ر کرو جو تمہیں پیار کرتے ہیں تو تمہارے لیے کیا اجر ہے۔ کیا محصول لینے  والےبھی ایسا نہیں کرتے۔ اگر تم فقط اپنے بھائیون کو سلام کرو تو کیا زیادہ کیا۔ کیا محصول لینے والے ایسا نہیں کرتے۔ پس تم کامل ہو جیسا تمہارا باپ جو آسمان پر ہے۔ (متی۵: ۴۴۔۴۷تک)۔

تعلیم انسانی ہمدردی ہرسہ مذکورہ بالا میں خود انصاف کرے کہ کون محدود اَور کون غیر محدوداور صفات ِخدا کے موافق ہے۔

۲۔ بابت تعلیم دینی

قرانی میں مذکور ہے۔ ’’ نہیں زبردستی بیچ دیں گے‘‘( سورہ بقرہ رکوع ۳۴)۔ مگر بعد کی آیات ذیل نازل ہوئیں۔ ’’ اے نبی جھگڑا کر کافروں اَور منافقوں سے اَور سختی کر اوپر اُن کے‘‘( سورہ التحریم رکوع۱)۔ پھر’’ لڑو اُن سے یہاں تک کہ نہ رہے کفر اَور ہو جائے دین بالکل واسطے اللہ کے‘‘ (سورہ البقرہ رکوع ۲۴)۔

تعلیم دینی غیروں کے لیے ہندووں میں ندارد(کورا،خالی) ہے جیسا اوپر مذکور ہوا۔

مگر انجیل تعلیم دینی کی بابت یہ فرماتی ہے۔ قول خداوند مسیح ’’ دیکھو میں تمہیں بھیڑوں کی مانند بھیڑیوں کے بیچ میں بھیجتا ہوں۔ پس تم سانپوں کی طرح ہوشیار اَور کبوتروں کی مانند بے بد (بے آزار)ہو‘‘ (متی۱۰: ۱۶) اَور اُن سے برتاؤ کی بابت جو خدا کے کلام سے برگشتہ ہو جاتے ہیں یہ مرقوم ہے۔ ’’ مناسب نہیں کہ خداوند کا بندہ جھگڑا کرے۔ بلکہ سب سے نرمی کرے۔ اَور سکھلانے پر مستعد۔ اَور دکھوں کا سہنے والا ہووے ۔ اَور مخالفوں کی فروتنی سے تادیب(تنبیہ،ادب سکھانا) کرے۔ کہ شائد خدا انہیں توفیق بخشے تاکہ وہ سچائی کو پہچانیں اَور وہی جنہیں شیطان نے جیسا شکار کیا ہے۔ بیدار ہو جاکر اُس کے پھندے سے چھوٹیں۔ تاکہ خدا کی مرضی کو بجا لائیں‘‘ (۲۔تیمتھیس۲: ۲۴۔۲۶ تک)۔

کلام ِخدا بائبل کے کسی مقام سے دین کی بابت سختی کرنے کا اشارہ بھی نہیں پایا جاتا۔اور نہ عقل گوارا کرتی ہے کہ سختی کے ذریعہ کسی انسان کی دلی تبدیلی ممکن ہے ۔ہاں نرمی و ملائمیت اَور بردباری (صبر،برداشت)سے ممکن ہے۔

۳۔ بابت نکاح

قران میں مذکور ہے۔’’ پس نکاح کرو جو خوش لگیں تم کو عورتوں سے۔دودو ،اَور تین  تین، اَور چار چار۔ پس اگر ڈرو تم یہ کہ نہ عدل کرو گے تم پس ایک اُن میں سے یا جس کے مالک ہوں دہنے ہاتھ تمہارے‘‘ (سورہ آلِ عمران رکوع ۲)۔

ہندووں میں بھی ایک عورت سےزیادہ بیاہ کرنے کی ممانت نہیں ہے۔ اگر’’ ایک آدمی کی چار پانچ زوجہ ہوں اُن سب میں ایک پتردان (بیٹادینے والی)ہو تو اُس کے ہونے سے سب زوجہ پتردان کہلاتی ہیں۔ اس بات کو منو جی نے کہا ہے‘‘( شاستر منوادہیاعہ ۹۔ اشلوک ۱۸۳)۔

مگرتعلیمِ انجیل میں ایک نکاحی(منکوحہ) بیوی کے جیتے جی دوسری کی قطعی ممانعت ہے۔ بلکہ ایک بیوی کےسوائے کسی حالت میں دوسری عورت سے تعلق رکھنا حرام ٹھہرایا گیا ہے۔ چنانچہ لکھا ’’ اَور فریسی اس کی آزمائش کے لیے اُس کے پاس آئے۔ اَور اُس سے کہا ۔ کیا روا ہے۔ کہ مرد ہر ایک سبب سے اپنی جورو کو چھوڑ دے۔ اُس نے ( مسیح نے)جواب میں اُن سے کہا کیا تم نے نہیں پڑھا کہ خالق نے شروع میں اُنہیں ایک ہی مرد اَور ایک ہی عورت بنایا۔ اَور فرمایا اس لیے مرد اپنے ماں باپ کو چھوڑے گا ۔ اَور اپنی جورو سے مِلا رہے گا۔ اَور وہ دونوں ایک تن ہوں گے۔ اس لیے اب وہ دو نہیں بلکہ ایک تن ہیں۔ پس جسے خدا نے جوڑا اُسے انسان نہ توڑے‘‘ (متی ۱۹: ۳۔۶)۔ پھر ’’چاہیے کہ نگہبان بے عیب ،ایک جورو کا شوہر، پرہیزگار، صاحبِ تمیز ہو‘‘۔’’ مددگار (بھی) ایک ایک جورو کے شوہر ہوں‘‘۔(اتیمتھیس ۳: ۳۔۱۳ ) ۔ پھر قولِ مسیح ’’پر میں تمہیں کہتا ہوں  کہ جو کوئی شہوت سے کسی عورت پر (دوسری پر) نگاہ کرے گا وہ اپنے دل میں اُس کے ساتھ زنا کرچکا(متی ۵: ۲۸)۔

اگرچہ شروع آفرینش عالم اَور ظہور خداوند یسوع مسیح کے درمیان بعض اشخاص کی نسبت کلام خدابائبل سے معلوم ہوتا ہے کہ جنہوں نے کثرت ازدواج کو خلاف مرضی الہٰی پسندکیا ان کی تنبیہ اور توبہ کا اظہاربھی کلام خدا سے بخوبی ظاہر ہے۔کیونکہ ممکن نہیں کہ کوئی انسان مرضی الہٰی سے عدول (حکم توڑنا)کرکے پوری خوشی واطمینان دلی حاصل کرسکے۔

۴۔ بابت طلاق

قرانی تعلیم کے مطابق عورتوں کو طلاق دینا ہر محمدی کی طبیعت پر موقوف ہے۔ چنانچہ لکھا ہے۔ ’’ نہیں گناہ اُوپر تمہارے یہ کہ طلاق دو تم عورتوں کو جب تک نہ ہاتھ لگایا اُن کو یا نہیں مقرر کیا واسطے اُن کے مقرر کرنا ‘‘(سورہ البقر رکوع۔۳)۔ طلاق دو بارہ(۲ )’’ یہ طلاق وہ بات ہے پس بند کر رکھنا ساتھ اچھی بات کے یا نکال دینا ساتھ اچھی طرح کے‘‘ طلاق سہ بارہ (۳)۔ ’’ پس اگر طلاق[2] دی اُس کو پس نہیں حلال ہوتی واسطے اُس کے پیچھے اُس کے یہاں تلک کہ نکاح کرے اَور خصم سے سواے اُس کے۔ پس اگر طلاق دے (وہ) اُس کو پس نہیں گناہ اُوپر اُن دونوں کے‘‘ وغیرہ وغیرہ (سورہ بقرآیت ۲۳۰)۔

ہندو بھی مندوجہ ذیل عورت کو ترک کر دینا اُن کے اُوپر اَور بیاہ کر لینا اپنی مرضی پر موقوف رکھتے ہیں۔

۱۔جو عورت اپنے شوہر سے فساد کرنے والی شراب پینے والی ۔ یا دولت برباد کرنے والی ہو۔

۲۔جو عورت سادھوں کی خدمت  نہ کرنے والی۔ دشمنی رکھنے والی یا بیماریوں سے بھری ہوئی ہو۔

۳۔ جو عورت بانجھ ہو، یا اُس کی اولاد نہ جیتی ہو، یا لڑکیاں ہی جنتی ہو وغیرہ وغیرہ۔( شاستر منو۔ ادہیاعہ ۹ ۔اشلوک ۷۹۔ ا۸۔ تک)۔

مگر تعلیم انجیل عورتوں کو طلاق دینے کی بابت سواے حرامکاری اَور ہر حالت میں منع کرتی ہے۔ چنانچہ (متی ۵: ۳۱۔ ۳۲) میں لکھا ہے۔ ’’ یہ بھی کہا گیا ۔ جو کوئی اپنی جوروکو چھوڑ دے اُسے طلاق نامہ لکھ دے ۔ پر میں (مسیح) تمہیں کہتا ہوں کہ جو کوئی اپنی جورو کو زنا کے سوا کسی اَور سبب سے چھوڑ دے اُس سے زنا کرواتا ہے۔ اَور جو کوئی اُس چھوڑی ہوئی سے بیاہ کرے زنا کرتا ہے‘‘۔ پھر(متی باب ۱۹: ۷۔۹) تک لکھا ہے۔ ’’ اُنہوں نے اُس سے ( مسیح) کہا پھر موسیٰ نے کیوں  حکم دیا کہ طلاق نامہ اسے دے کر اُسے چھوڑ دے۔ اُس نے ( مسیح ) اُن سے کہا کہہ موسیٰ نے تمہاری سخت دلی کے سبب تم کو اپنی جوروں کو چھوڑ دینے کی اجازت دی پر شروع سے ایسا نہ تھا۔ اَور میں تمہیں کہتا ہوں ۔ کہ کوئی اپنی جورو کو سوا زنا کے اَور سبب سے چھوڑ دے اور دوسری سے بیاہ کرے زناکرتا ہے اور جوکوئی اس چھوڑی ہوئی عورت کو بیاہے زنا کرتا ہے‘‘۔

۵۔قسم کھانے کی بابت

قران میں اکثر قسموں کا ذکر ہے۔ جن کے نمونہ سے محمدی اکثر بات بات میں قسم کھانے کے عادی ہیں۔ مثلاً ’’قسم اللہ کی‘‘( سورہ النساء رکوع ۹)۔ ’’قسم جان کی‘‘ ( سورہ الحجر رکوع ۵، ۶)۔’’ قسم قران کی ‘‘(سورہ یس رکوع ۱)۔ مگر لوگوں میں صلح کرنے کے لیے محمدیوں کو قسم کھانا منع ہے۔ ’’ اَور مت کرو اللہ کو نشانہ واسطے قسموں اپنی کے یہ کہ بھلائی کرو۔ اَور پرہیز گاری کرو اَورصلح کرو درمیان لوگوں کے اَور اللہ سننے اَور جاننے والا ہے‘‘( سورہ البقر رکوع ۲۸)۔

ہندوُ بھی قسم کھانا یا کھلانا بات کی سچائی ثابت ہونے کے لیے ضروری سمجھتے ہیں( ساشتر منو اوہیاء۸۔ اشلوک ۱۱۳)۔  ہندوُ بھی بعض امورات میں جھوٹی قسم کھانا ناروا خیال کرتے ہیں( اوہیاء،ایضاً۔ اشلوک ۱۱۲ )۔

مگر تعلیم انجیل قسم کھانے کو قطعی ممانعت کرتی ہے۔ چنانچہ خداوند یسوع مسیح نے انجیل (متی ۵: ۳۴ سے ۳۷ )تک یوں فرمایا ہے ’’ پر میں تمہیں کہتا ہوں ہرگز قسم نہ کھانا نہ تو آسمان کی کیونکہ وہ خدا کا تخت ہے ۔ اَور نہ زمین کی کیونکہ وہ اُس کے پاؤں کی چوکی ہےاَ ور نہ یروشلیم کی کیونکہ وہ بزرگ بادشاہ کا شہر ہے۔ اَور نہ اپنے سر کی قسم کھا کیونکہ تو ایک بال کو سفید یا کالا نہیں کر سکتا ۔پس تمہاری گفتگومیں ہاں کی جگہ ہاں اَور نہیں کی جگہ نہیں ہو۔ کیونکہ جو اس سے زیادہ ہے سو برائی سے ہوتا ہے‘‘۔

۶۔ عورتوں کی قدر کی بابت

تعلیم ِمحمدی میں(۱) ۔عورتیں مردوں کی کھیتیاں کہلاتی ہیں( سورہ البقرہ رکوع ۲۸)۔( ۲)۔ عورتوں کے حقوق مردوں کی نسبت نصف ٹھہرائے گئے ہیں۔ (۳)۔ ایک عورت کی گواہی برابر ہے نصف آدمی کے یعنی ایک مرد کی گواہی  کے برابر دو عورتوں کی گواہی خیال کی جاتی ہے۔

(۴)۔ عورتوں کو گھروں میں بند رکھنےکی سخت تاکید کی گئی ہے۔ وغیرہ وغیرہ( سورہ النسا رکوع ۲۔ سورہ البقرہ رکوع ۳۹)۔

ہندوُ بھی عورتوں کو کم قدر اَور ذلیل خیال کرتے ہیں۔ ایسا کہ اُن کے لیے دھرم کرم بھی سوائے شوہر کی سیوا(خدمت) کرنے کے علیحدہ نہیں ٹھہرایا گیا ( شاستر منوا وہیا ۵ ۔اشلوک ۱۵۵)۔ پھر عورتوں کی عادت و خصلت بھی بد تر بیان ہوئی ایسا کہ ماں، بہن ،بیٹی کے ساتھ بھی تنہائی میں اکیلا نہ بیٹھے۔ کیونکہ پنڈتوں کو بھی عورتیں غلط راہ پر کھینچ لے جاتی ہیں (اوہیاء۲ ۔اشلوک ۲۱۳ سے ۲۱۶ تک) ہندوُ بھی عورت کی گواہی کوکم قدرخیال کرتے ہیں( اوہیا، ۸ ا۔شلوک ۷۷)۔

مگر تعلیم انجیل مرد وعورت ہر دو کے کل حقوق مساوی ظاہر کرتی ہے۔

( ۱)۔ باہمی میل و محبت ایک دوسرے کی ہمدردی و مددگاری ، عزت و فرمانبرداری پر یکساں تعلیم دیتی ہے۔ دیکھو نامہ( افسیوں ۵: ۲۲ ۔ ۲۳) تک اَور نامہ (۱۔ پطرس ۳: ۱۔۷)تک۔

(۲)۔ فرائض دینی بھی ہر دو کے مساوی اَور ایک دوسرے کو فائدہ پہنچانے والے ظاہر کرتی ہے۔ چنانچہ (۱۔کرنتھیوں ۷: ۱۶) میں مذکور ہے۔ ’’ اے  عورت کیا جانے تو اپنے خصم کو بچا ئےاَور کیا جانے تو اپنی جورو کو بچائے‘‘۔ یعنی ہر ایک کا نمونہ دوسرے کو فائدہ پہنچانے والا اَور موثر ہے۔ مسیحی دین کے موافق مرد وعورت ہر دو کی گواہی بھی یکساں خیال کی جاتی ہے۔مطلق فرق نہیں ہے۔

۷۔ نیکی و بدی

قران میں مذکور ہے۔’’ اگر پہنچتی ہے اُن کو بھلائی کہتے ہیں یہ نزدیک خدا سے ہے۔ اَور اگر پہنچتی ہے اُن کوبرائی  کہتے ہیں یہ نزدیک تیرے سے ہے۔ کہہ ہر ایک نزدیک اللہ کے سے ہے‘‘( سورہ النسا رکوع ۱۱)۔

اکثر ہندوُ بھی ایسا ہی مانتے ہیں۔ کہ ست و است پاپ و پن سب کچھ ایشور کی طرف سے ہوتا ہے۔ ( مگر اس خیال پر برائی کا خوف کہاں۔ پھر بعض کہتے ہیں ۔ کہ ایشور ست و است پاپ و پن سب سے نیارا(جداگانہ،انوکھا) ہے۔ ( تو ایسے ایشور کا ہونا یا نہ ہونا برابر ٹھہرا پس اگر اس کو مانیں تو کچھ فائدہ نہیں اگر نہ مانیں تو کوئی نقصان بھی نہیں)۔

مگر کلامِ خدا بائبل کی تعلیم سے ایسا کہیں ظاہر نہیں ہوتا کہ برائی و بھلائی، ست و است سب کا وہی کرنے  یا کرانے والا ہے۔ بلکہ اس کے کلام سے ظاہر ہے کہ وہ عادل و صادق اَور قدوس ہے۔ اَور کہ اُس کے کل کام راستی کے ہیں۔ اَور اس لیے کہ وہ برائی سے نفرت کرتا ہے۔ اَور ہر ایک کو اس کے کاموں اَور خیالوں  کےموافق ٹھیک ٹھیک بدلہ دے گا۔ کیونکہ اُس سے کوئی خیال چھپا نہیں ہے(یرمیاہ۳۲: ۱۹؛ زبور ۱۱۹: ۱۳۷؛ احبار ۲۰: ۲۶؛  ایوب ۳۴: ۱۰؛  امثال ۱۵: ۲۶؛ رومیوں ۲: ۶؛ عبرانیوں ۴: ۳)۔

بے شک کلامِ خدابائبل میں بعض آیات ایسی بھی ملتی ہیں۔ جو تھوڑی دیر کے لیے ناواقف انسان کے خیال کو کچھ حیرانی میں ڈالنے والی معلوم ہوتی ہیں۔ مگر اُن پر سوچنے  اورغور کرنے بعد بخوبی معلوم ہو جائے گا۔ کہ وہ آیات اس کی عالم والغیبی کا پورا ثبوت ہیں۔ کہ کسی شخص یا قوم کو اس کی ازحد برائی کے سبب اُ س نے اپنا پدرانہ و محبتانہ،(باپ کی سی محبت) صبر و برداشت جو اُس کے ارادہ ازلی و مرضی کے مطابق ہے۔ ( زبور ۵۶: ۱۵؛ یوحنا ۶: ۴)۔ ظاہر کرکے ہلاکت و بربادی کے لیے چھوڑ دیا۔

۸۔حلال و حرام

قران میں بعض چیزیں حرام ٹھہرائی گئیں۔ جن کا کھانا ، پینایا چھونا محمدیوں کے ایمان کے خلاف ہے( سورہ المائدہ رکوع ۱)۔

ہندو بھی بعض چیزیں کھانا یا چھونا نا جائز خیال کرتے ہیں۔ دیکھو (شاستر منوا وہیاء ۵۔ اشلوک ۵سے ۲۰)۔

محمدی ۔’’ سخت بھوک کی حالت میں کسی حرام چیز کا کھانا روا جانتے ہیں‘‘(سورہ رکوع ایضاً)

ہندو بھی سخت بھوک کی حالت میں کسی ناجائزچیز کا کھانا برا خیال نہیں کرتے بلکہ کئی دن فاقہ کے بعد کھانے کے لیے چوری کر لینا بھی روا رکھتے ہیں( اوہیاء۱۰۔ اشلوک ۱۰۳۔ اوہیاء ۱۱۔ اشلوک ۱۶)۔

مگر تعلیم انجیل میں سوائے لہو اَور گلا گھونٹی ہوئی چیز (اعمال ۱۵: ۲۹۔ ناجائز استعمال ( افسیوں ۵: ۱۸) یا جو کھانا دوسرے کی ٹھوکر کھانے کا باعث ہو (رومیوں ۱۴: ۲)۔ اَور کوئی چیز ناروا نہیں ہے۔ کیونکہ یہ امر طبعی ہے۔ جس کو جو میسر ہو یا جس کی طبیعت جوچاہے کھا کہ اپنی صحت کو قائم رکھے تاکہ مقررہ خدمت بجا لاسکے۔ کیونکہ’’ کھانا پیٹ کے لیے اَور پیٹ کھانو ں کے لیے پر خدا اُس کو اَور اُن کو نیست کرے گا‘‘ (۱۔کرنتھیوں ۶: ۱۳)۔ ’’کیونکہ خدا کی بادشاہت کھانا پینا نہیں ۔ بلکہ راستی و سلامتی اَور روح القدس سے خوش وقتی ہے‘‘ (رومیوں ۱۴: ۱۷)۔ لیکن کھانا ہمیں خدا سے نہیں ملاتا اگر کھائیں تو ہماری کچھ بڑھتی نہیں اَور جو نہ کھائیں تو گھٹتی نہیں‘‘ ( ۱۔ کرنتھیوں ۸: ۸)۔

بے شک احکامات توریت میں بعض حلال و حرام جانوروں کا ذکر مذکور ہے۔ جن کی عدمِ واقفیت سے بعض لوگوں نے حلال و حرام کا خیال کر لیا۔ مگر اُن مقاموں پر جہاں حلال و حرام کا ذکر مذکور ہے۔ اگر غور کیا جائے تو بخوبی معلوم ہو جاےگا ۔ کہ اُن کھانو ں پر کوئی گناہ کی بخشش و معافی کا کہیں ذکر مذکور نہیں ہے۔ اَور نہ کہیں یہودیوں کو یہ حکم صادر ہوا کہ اُن کا طریقہ غیر اقوام کو سکھایا جائے۔ سبب صرف یہ تھا  کہ خدا ئےتعالیٰ نے بنی اسرائیل کو اپنی خاص قوم قرار دیا ۔ اَور اُن کو دیگر اقوام سے علیحدہ کرکے اپنے تشبیہی احکام یعنی قربانی وغیرہ کو تشخیص(خاص) کیے ہوئے۔ جانوروں کے ذریعہ ادا کرنے کا حکم دیا۔ جب تک وہ کامل قربانی  جس کے نمونہ پر وہ گذرانی جاتی تھیں کامل طورپر ظہور میں نہ آئے ۔یعنی خداوندیسوع مسیح کی کامل قربانی جو تمام عالمِ کے گناہوں کا کفارہ ہے۔ مگر وہ قربانیاں جانوروں کی صرف یہودیوں کے لیے اُسی وقت تک موثر ہوئیں نہ کہ ہمیشہ کے لیے  کارآمد۔ وہ لفظ جس کے معنی اس کے اُن مقامات پر ابدی کا ستعمال ہوا۔ عبرانی میں اس کے کئی ایک معنوں میں سے ایک یہ ہے یعنی کسی قوم کے زمانہ قیام تک ۔ جو صرف قوم یہود کے زمانہ قیام سے مراد ہے۔

مذکورہ بالا خیالات یا احکامات شرعی پر ناظرین خود خیال کریں کہ کون کون عقلاً و نقلاً جائز یا ناجائز معلوم ہوتے اَور کون کس کس کے مطابق یا مخالف ثابت ہوتے ہیں۔

راقم

احقر ۔ بہادر مسیح۔ منّاد


[1] ۔ مثلاً احکامات توریت جس کا عمل میں لانا خاص قوم یہود کو فرمایا گیا تھا۔ اگرچہ قوم یہود منکرو مخالف ِمسیح کے ہے۔ تو بھی اُن کے کل احکامات شرعی سے اس کے ارادہ ازلی کی پوری تشبیہ و علامتیں ظاہر ہوئیں۔ جس کا اصل اصول اَور پوری کاملیت کا ذخیرہ انجیلِ مقدس  موجود ہے۔

[2] ۔الفاظ ترجمہ طلاق سہ بارہ (۳)سے مطلب صاف سمجھ میں نہیں آتا ۔جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی مرد محمدی اپنی جورو پر لفظ طلاق کا تین باربولے تو نکاح ٹوٹ جاتا ہے اور پھر وہ آپس میں جورو خصم (میاں بیوی)نہیں ٹھہر سکتے جب تک کہ عورت کسی غیر سے نکاح کرکے اور ہم بستر ہوکے اور اس سے طلاق لے کر نہ آئے اور شوہر سابق سے پھر نکاح نہ کرئے۔(تعلیم ِمحمدی بیان طلاق مغلطً صفحہ ۱۷۸)۔

Leave a Comment