خودانکاری

Eastern View of Jerusalem

Self-Denying

By

Kidarnath

کیدارناتھ

Published in Nur-i-Afshan Dec 18, 1890

نور افشاں مطبوعہ۱۸ دسمبر ٫۱۸۹۰

پس جب ہم ایمان سے راست باز ٹھہرے تو خدا کے ساتھ اپنے خداوند یسوع مسیح کے وسیلہ سے صلح رکھیں(رومیوں ۱:۵)۔
رومیوں کے خط کی تفسیر دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ پولس رسول نے یہ خط کلیسائے روم کو لکھا اُس زمانہ میں شہر تمام دیگر شہروں سے اعلیٰ اور افضل ہے گویا کہ مختلف اقسام کی غیر اقوام کا مرکز بن رہا تھا رسول کی غرض یہ تھی کہ ایسے شہر کی مسیح کی طرف کھینچے جائیں۔اِسی طرح آج یہ خط بلکہ یہ آیت ہمارے سب کے واسطے خاص ہدایت ہے جبکہ مختلف مقامات کے مسیحیوں کی تعلیم علم الٰہی کے واسطے یہ مدرسہ مرکز ہے اور یہاں سے تیار ہو کر ہم لوگ چاروں طرف خدا کے کلام کی خدمت کے واسطے بھیجے جاتے تھے۔ لہٰذا ضرور ہے کہ تھوڑی دیر کے واسطے اِس آیت پر غور کر کے ایک دوسرے کے لئے کوئی خاص اور مفید نصیحت حاصل کریں۔اِس آیت کے دو حصے ہیں ۔پہلا حصّہ شرط ہےاور وہ سراجزایعنی جبکہ ایمان ہاں صرف ایمان ہی سے راستبازی پائی تو نتیجہ یہ ہو ا کہ مسیح کے وسیلے ہم میں اور خدا میں میل ہو ا۔پس نہ ہماری کوشش سے راستبازی ہم کو ملی اور نہ بغیرمسیح کے وسیلے ہم خدا سے میل پا سکتے ہیں تو آپ کا موضود خود انکاری لینے اپنے آپ کچھ نہ جاننا نکلتا ہے۔اب سوال پیداہوتا ہے کہ ہم کیا کریں تاکہ خود انکاری کے مرتبہ تک پہنچیں ۔تو جواب یہ ہو گا کہ نہ صرف اپنے دِلوں سے بلکہ اپنی رفتار و گفتار سے یہاں تک کہ ہر ایک کام سے یہ سیکھ لیں کہ فقط ایمان کے سبب راستباز ٹھہر کر مسیح کے وسیلے ہم میں اور خدا میں میل ہوا ۔اُس وقت ہم غیر اقوام کے لئے نمونہ بن سکتے ہیں اور ہم آپ ایمان اور مسیح سے فائدہ پا سکتے ہیں۔ 

مندرجہ ذیل دلائل سے ہم اپنے خود انکاری کے دعویٰ کو ثابت کر سکتے ہیں۔

’’ہم کیا کریں تاکہ خود انکاری کے مرتبہ تک پہنچیں ‘‘

اول۔کہ ہم اپنی بُلاہٹ پر بغیر کسی شک وشبہ کے اس طرح قائم اور مضبوط ہوں کہ اُس میں کسی صورت سے دودلا پن نہ پایا جائے اور یہ ہماری دلی حالت پر موقوف ہےکہ جب ہم یسوع مسیح سے واقف نہ تھے اور خدا کے کلام کو رد کرتے تھے اور نفسانی ہاں شیطانی خیالات میں پھنس کر اپنے جھوٹے گندی دھجی جیسے نیک اعمال پر راستباز بننا چاہتے تھے اور ناپاک وسیلوں سے خدا میں میل کیا چاہتے تھے۔اُس وقت روح پاک کے ذریعہ سے ہم کو ایمان عنایت ہوا کیونکہ ایمان بھی خدا ہی کی بخشش ہے اوریوں روح القدس کی بُلاہٹ پر ہم اُن بیہودہ خیالات سے نکال کر یسوع مسیح بُلائے گئے اور خدا سے میل ہوا۔پس اب ہمارے دل کا کیا حال ہے کیا ہم اُس میں کوئی فخر کرنے کا موقع پاتے ہیں کیا اب بھی ہم میں کوئی وہ خوبی پائی جاتی ہے جو اپنی کوشش سے حاصل کی ہو یا کوئی ایسی صورت بھی ہے کہ ہمارے ہزار بُرے کاموں اور خیالوں کو خدا ہمارے کسی نیک کام یا اچھّے خیال سے بدل ڈالے گا اگر ان وہموں سے نکل گئے ہیں تو سچ مچ ابرہام کی مانند ہم اُن میں سے بُلائے گئے اور حقیقی کنعان لینے ایمان کے سبب راستبازی میں پہنچائے گئے۔

دوم۔جس طرح ہم کو یقین ہے کہ رات کے بعد صبح اور دن کے بعد شام ضرور ہوتی ہے یا دن کو سورج اور رات کو چاندستارے آسمان میں ظاہر ہوتے ہیں یا آدمی کو مرنا ضرور ہے اور اِس بابت ہم کو کبھی شک نہیں ہوتا۔کیا اسی صورت ہم کو نہ صرف دل سے بلکہ اپنی رفتار و گفتار اور ہر ایک کام سے یقین ہے کہ خدا نے محض اپنی خوشی و مرضی سے برگزیدوں کے واسطے مسیح کے ساتھ فضل کا عہد باندھا اور یسوع مسیح نے کفارہ دیکر اپنے بیش قیمت لہو سے بہشت کی ساری کھوئی ہوئی نعمتوں کو ہمارے ہی واسطے خرید لیا اور وہ ہم کو ضرور ملیں گی اور خدائے صادق جو قادر مطلق ہے اور اپنے وعدہ میں سچا ہو اور وہ جو چاہے سوکر سکتا ہے۔اگر یہی یقین اور اِسی کے مطابق ہمارا رویہّ ہے تو سچ مچ ہم ایمان کے سبب راستبازی ہے۔

سوم۔جیسے بیمار دوا کھا کر بیماری سے چنگا ہو جاتا ہے اور پھر اپنے میں مرض کا کچھ آثار نہیں پا تا ہے۔کیا ویسے ہی ہم بھی گناہ کی بیماری میں تھے اور مسیح نے ہم کو چنگا کیا اب اپنے میں گناہ کی تاثیر نہیں پاتے ہیں بلکہ گناہ کا نام سُن کر گھبرا جاتے ہیں اور اگر کمزوری سے کبھی ٹھوکر کھاتے ہیں تو اُسی وقت سنبھالے جاتے ہیں اور وہ ساری پچھلی خراب عادتیں ہم میں نہیں ہیں تو فی الحقیقت مسیح ہم میں اور ہم مسیح میں ہیں اور وہ ہمارا وسیلہ ہے۔

چہارم۔جس طرح خدا اپنے سورج کو نیک و بد دونوں پر اُگاتا ہے اور اپنا مینہ راست و ناراست پر برساتا ہے۔کیا اُسی طرح ہم بھی اپنے دوست ودشمن دونوں کو پیار کرتے ہیں اُن کو اپنی دُعا ؤں میں بھول نہیں جاتے لعنت کے بدلے برکت چاہتے ہیں اور نہ صرف زبانی بلکہ عملی طور پر بھی محبت بتاتے ہیں اپنا آرام چھوڑ کر اُن کے دکھوں میں تکلیف اُٹھاتے ہیں ہر ایک کے رنج وراحت میں شریک ہوتے ہیں یا جہان سے کچھ بدلہ پانے کی اُمید نہیں وہاں بھی کچھ کر کے دکھاتے ہیں اگر یہ ہو تو بے شک خدا ہمارا میل ہو۔

حاصل کلام

اِس زمانہ میں جبکہ اکثروں کے خیال میں ہندوستانی کلیسیاؤں میں اصلاح کی سخت ضرورت ہے اور یہ ہمارے اوپر موقوف ہے تو اب کیا دیر ہے کہ ہم خود انکاری کا سبق نہ سیکھیں درحالیکہ ہم اسی غرض سے تعلیم پاتے ہیں مشن ہماری ساری ضروریات کو رفع کرتی ہے لازم ہے کہ ہم آج ہی سے بلکہ اِسی وقت سے اپنے آپ کو عمدہ نمونہ بنا دیں۔اگر ہم میں سے کوئی کسی کلیسیا کا پاسبان مقرر ہو تواُسے سنبھالے یا منادہو تو بہت سی روحوں کو بچانے کا ذریعہ بنے اور جس طرح ہم صرف ایمان سے راستبازٹھہرے نہ اپنے اعمال سے اور مسیح کے وسیلے خدا میں میل پایا نہ اپنی کوشش سے اُسی طرح اوروں کو بھی اپنے نمونہ سے یہ بیش بہا نعمتیں جو خدا وند ہم میں سے ہر ایک کو ایسا بنا دے مسیح کی خاطر سے۔آمین

Leave a Comment