Caiaphas and Resurrected Christ
By
One Disciple
ایک شاگرد
Published in Nur-i-Afshan Sep 3, 1891
نور افشاں مطبوعہ۳ستمبر ۱۸۹۱ ء
’’یہ وہی کائفاؔ تھا جس نے یہودیوں کو صلاح دی کہ اُمت کے بدلے ایک کامرنا بہتر ہے‘‘ (یوحنا ۸ا :۱۴ )۔
بعض اشخاص جا ہلانہ مسیحیوں کے ساتھ حُجت و بحث کرتے اور کہتے ہیں کہ گناہوں کی معافی حاصل کرنے کے لیے کفار ہ کی ضرورت نہیں ہے۔ اور مسیح کے گنا ہ گاروں کے بدلے میں اپنی جان کو قربان کرنے اوراپنا پاک لہو بہانے پر اعتراض کرتے ہیں کہ یہ کہاں کی عدالت تھی کہ گناہ تو کریں اور لوگ اور اُن کی عوض میں بے گناہ شخص کو سزا دی جائے اور پھریہ کہ ایک آدمی کےسزااور دُکھ اُٹھانے سے دوسروں کو کیونکر فائد پہنچ سکتا ہے ۔ اکثر مرتبہ خواندہ محمدیوں کی زبان سے بھی ایسی باتیں سننے میں آئی ہیں۔ لہٰذا بہتر ہوگا اور کہ ہم اُن کے لیے مذہبی عقائد کا اس امر کی نسبت کچھ ذکر کریں۔امام حسین کے کربلا میں مارے جانے ۔ اوربھو ک پیاس اور طرح طرح کی تکلیفات سہنے کا سبب محمدیوں کی کتابوں سے یہی ظاہر ہوتا ہےکہ اُن پر یہ تمام مصیبتیں اور تکلیفیں گناہ گاراُمت محمدیہ کی خاطر گزریں ۔ شیعہ وسنی ہر دو فریق کی کتابوں کو ہم نے دیکھا ۔ اور وہ اس پر متفق ہیں کہ اُ ن کی شہادت رفاہ اُمت کا باعث ہے ۔ شیعوں کی ایک کتاب ’’خلاصۃ المصائب ‘‘میں لکھا ہے کہ
’’ایک روزآنحضرت نےاپنی بیٹی فاؔطمہ کو امام حسؔین کے کرؔبلا میں قتل کئے جانے کی خبردی ۔ تووہ بہت غمگین ہوئیں ۔ آپ نے فرمایاکہ اے فاؔطمہ کیاتم راضی نہیں ہو۔یہ کہ شہادت حسؔین کی عوض تاج شفاعت اُمت عاصی (گناہ گار)کاخدا تمہارے پاب کے سر پررکھے اور تمہارا شوہر اپنے دوستوں کو آب کو ثرپلائے اور دشمنوں کو ددر کرے ۔ ملا ئکہ تمہارے منتظر حکم کھڑے ہیں ؟ اسی طرح جب حضرت نے بہت سے کلمے فرمائے تو ا نہوں نے عر ض کی کہ اے بابا جو یہ ثواب ہے ۔ہمارے دوست بروز قیامت یو ں بیچیں گے تو میں راضی ہوں‘‘ اب خواہ ایسی پیش گوئی حضرت سے ہوئی یانہیں۔ اس سے کچھ بحث نہیں ۔ لیکن صرف یہ معلوم کرانا منظور ہے کہ شفاعت گناہ گار ان کے لیے محمدیوں میں بھی کفار ہ کی ضرورت کاخیال پایاجاتا ہے ۔اکثر قوموں میں آدمیوں کی قربانی چڑھ نے کی بنا ضرورکچھ معنی تو رکھتی ہے ۔ مگر غلطی صرف یہ واقع ہوئی ہے کہ لوگوں نے اس بات کے اصلی مطلب کو نہ سمجھا کہ آدمی کی قربانی بامجبور ی۔ یاکسی محض انسان کا تمام بنی آدم کے لیے قربان ہونا ۔موجب نجات گنا ہ گار اور خوشنودی خدا وند تعالی ٰ ہوسکتا ہے یا نہیں ۔ اور یہ کہ قربان ہونے والا شخص پاک اور معصوم ،گناہ گاروں سے جدا اور آسمانوں بلند ہو ۔ اورکل انبیا ءاور اس کی شہادت وقربانی پر گواہ وشاہد ہوں ۔پھر یہ بھی ضرور ہے کہ وہ بنی آدم کا عوضی(قائم مقام،بدلہ) ہمیشہ کے لیے قبر کے پھاٹک میں بند ۔ اورموت کے قبضہ میں گرفتا ر نہ رہے ۔ بلکہ جب اپنی جان کفار ہ میں گزران چکے تو ا پنی عظمت واختیار شفاعت کا ثبوت اپنے پھر زندہ ہوجانے سے بخوبی دے سکے ۔ اب یہ سب شفیع و ذبیج کے لیے ضروری باتیں بجر خدا وند یسوع مسیح کے اور کسی میں نہیں پائی جاتیں ۔ پس صرف مسیح کا لہو ۔جس نے بے عیب ہوکے ابدی روح کے وسیلے آپ کو خداکے حضور قربانی گزرانا ۔ہمارے دلوں کو مرد ہ کاموں سے پاک کرسکتا ہے۔ تاکہ ہم زندہ خدا کی عبادت کریں ۔ اورمردوں پر اپنی نجات کا کچھ بھروسہ نہ رکھیں۔حکدہفاجفلاس