جناب مسیح کا فضل ہو

Grace of Jesus

Published in Nur-i-Afshan April 16, 1885

جناب مسیح کا فضل ہو

نور افشاں مطبوعہ ۱۶۔اپریل ۱۸۸۵ء

اوّل ہم خدا باپ کا ہزار ان ہزار شکر اور حمدو ثنا کرتے ہیں جس نے ہم کو آج تک زندہ اور قائم رکھا اور ہمیں خوراک و پوشاک جو جودرکارتھا عنایت کیا آمین۔ اب انجیل کی معتبری کے بیان میں ہم ان دلائل کو پیش کرتے ہیں جس سے بخوبی انجیل کی معتبری ثابت ہے ۔

اوّل انجیل کی معتبری چار متفرق تواریخوں سے جو ایک دوسرے سے علاقہ رکھتیں ہیں در حقیقت میں ایک دوسرے سے نقل بھی نہیں کی گئیں تو بھی مضمون میں ایک دوسرے کے مطابق ہیں اگرچہ عبادت لفظ ایک دوسرے کے مطابق نہیں ہے تو بھی کچھ فرق اس میں نہیں پایا جاتا اکثر کسی تواریخ کو صحیح جانا جاتا ہے تو وہ ایک ہی کتاب ہے مثلاً رومی سپہ سالار بلپوافرمکنیس کی لڑائیوں کا حال پالیبس اس کے ایک رفیق نے لکھا جو کہ اُس کا ہم زمانہ تھا ۔ مسیح کی کیفیت اس کے ہم وقت چار مصنفوں نے جنہوں نے بچشم خود دیکھا یعنی متی اور یوحنا جو کہ ہمیشہ مسیح کے ساتھ رہنے والے تھے۔ تیسرا مرقس جو پطرس حواری کا رفیق تھا اور چوتھا لوقا جو پولس کا رفیق تھا۔ ایک اور تواریخ انجیل میں ہے جس کو حضرت لوقا نے تصنیف کیا ۔اکثر اس میں ذکر پولس رسول کا جو کہ مصنف کا دوست تھا قلمی ہے۔

پھر اور ہم نے دیکھا اور گواہی دیتے ہیں

دوسرے طور پر انجیل کی معتبری مضفوں کے مختلف مکانات سے ثابت ہے کہ وہ ان حقیقتو ں کے دیکھنے کا موقع کافی رکھتے تھے اور انجیل کے مصنفوں نے وہ باتیں بیان کیں جس کو انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور کانوں سے سنا نہ صرف یہ باتیں انجیل کے لکھنے والوں کو معلوم تھیں بلکہ یروشلیم اور یہودیہ دیس کے ملکوں میں واقع ہوئیں جب کہ وہ رومی سپاہیو ں کی نظر بندی میں تھے اور ان کے حاکم بڑی خبرداری سے حفاظت کرتے تھے اور یہ ماجرے ہزاروں آدمیوں کے سامنے ظاہر ہوئے جن کی بابت وہ گواہی دینے کو تیار تھے ۔تم فوراً اس بات کو مان لو گے جب میں محمد صاحب کی بابت کچھ بیان کروں گا جیسا کہ محمد ی کہتے ہیں کہ محمد صاحب ایک ہی رات میں مکہ سے یروشلیم اور وہاں سے آسمان پر پہنچ کر تمام عجائبات دیکھ کر لوٹ آئے اب ہم اس پر سوال کرتے ہیں کہ ان کو کس نے دیکھا اس سفر میں ان کے ساتھ کوئی ان کا اصحاب تھا جو گواہی دیتا ہے۔ مگر اے بھائیو جب ہم دیکھتے ہیں تو کوئی گواہ نہیں صرف ایک محمد صاحب کے کہنے پر سب یقین کرتے ہیں ،مگر دانا آدمی کب ایسی بات کو جو عین عقل کے خلاف ہے بلا ثبوت مان لےگا مگر خداوند مسیح کے تو معجزے ہزاروں ظہور میں آئے اور اس کو ہزاروں آدمیوں نے دیکھا اگر مسیح کے شاگر د ان باتوں کوقلم بند کررنے کے وقت کچھ بدل ڈالتے یا اگرعہ ان باتوں کو جو عیسائی مذہب کو رونق بخشنے والی میں کچھ بڑھا کر بیان کرتے یا وہ باتیں جو بظاہر بے عزتی کا باعث ہیں کچھ بدل ڈالتے تو ضرور یہودی لوگ جو عیسائیوں کے اب تک بر خلاف ہیں بلکہ عیسائی مذہب کو نیست ونابود کرنا چاہتے تھے تو ضرور حملہ کرتے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ انہوں نے بالکل ایسا نہ کیا ۔

تیسرے طور پر انجیل کی معتبری مصنفوں کی خصلت اور آبرو سے ثابت ہے کیونکہ وہ ان باتوں کے دریافت کرنے کا موقع کافی رکھتے تھے جو کہ انہوں نے بیان کیں اور ان کی تمام تصنیفات سے بے ریائی اور صفائی اور سچائی اور صاف دلی اور بے تعصبی اور بے غرضی صاف ثابت ہے کہ انہوں نے نہ کسی بات کو مبالغہ کے طور سے بیان کیا اور نہ کسی بات کو چھپایا بلکہ اپنے استاد کی فروتنی اور اپنی پست حالی اور سُست اعتقادی جو تھوڑی دیر کے لئے استاد سے الگ ہو جانا کم و کاست (کمی، گھٹاؤ)بیان کرتے ہیں اگر ہم ان کی معتبری اور لوگوں کی طرح جانیں تو بلا شبہ وہ راست باز ٹھہرتے ہیں ۔پس یہ باتیں ان کی عبارت سے ثابت ہیں کہ انہوں نے اپنے اعتقاد کے سبب بہت سی مصیبتیں اُٹھائیں جو کہ عیسا ئیوں کا ایک حق تھا ۔اب ہم غور سے دیکھتےہیں کہ انہوں نے ایسی سخت تکلیفیں کس بات کے لئے اُٹھائیں میں گذارش کرتا ہوں کہ انہوں نے ان باتوں کے لئے مصیبتیں اُٹھائیں جس کو انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور کانوں سے سنا اور انجیل نویس اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں یعنی جیسے ہم نے سنا اور اپنی آنکھو ں سے دیکھا اور تاک رکھا اور ہمارے ہاتھو ں نے چھوا اسی کی بابت ہم تم کو خبر دیتے ہیں (۱۔یوحنا ۱: ۱)۔ پھر اور ہم نے دیکھا اور گواہی دیتے ہیں(۱۔ یوحنا ۴: ۱۴)۔ پھر اور ہم نے جب اس کے یعنی مسیح کے ساتھ مقدس پہاڑ پر تھے یہ آواز آسمان پر سے آتے ہوئے سنی کہ یہ میرا پیارا بیٹا ہے (۲۔پطرس ۱: ۱۸) لیکن مسیح کے شاگرد اور گواہی دیتے ہیں کہ وہ جی اُٹھنے کے بعد چالیس(۴۰) روز ے تک ہم پر ظاہر ہوا اور ہمارے شبہے(شک) جو جو اُس کے جی اُٹھنے میں تھے دور کرتا رہا۔ ان سب باتوں سے معلوم ہو گیا کہ وہ نہ فریب کھانے والے اور نہ کھلانے و الے تھے۔ اس لئے ان کی گواہی سچ اور انجیل کی معتبری ثابت ہوئی ۔

چوتھا یاد رکھنا چاہئے کہ نہ صرف ہم مسیح کے رسولو ں کی شہادت رکھتے ہیں بلکہ ان لوگو ں کی جو کہ ابتدا ئے زمانہ میں مسیح پر ایمان لائے اور تکلیفیں اُٹھائیں یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ وہ بھی نہ فریب کھانے والے اور نہ کھلانےوالے تھے ازروئے عدالت کے ان باتوں پر ہم شک نہیں لاسکتے کہ انہو ں نے بغیر قوی دلیلوں کے مانا ہو ۔

پانچویں انجیل کی معتبری اس طرح پر ثابت ہے کہ جو لوگ عیسائی نہ تھے انہو ں نے انجیل کے مضمونوں پر صاف صاف اقرار کیا ہے جیسا کہ چھوٹا پلمنی قریباً ستر(۷۰) برس بعد وفات مسیح کے عیسائی لوگوں کا بیان کرتا ہے کہ صوبہ میں ایک گروہ تھا جو مسیح کو خدا جان کر عبادت کرتے تھے اور مورخ طالیتس ظاہر کرتا ہے کہ عیسائی لوگ روم میں بادشاہ نیروکے ہاتھ سے سنائے گئے تھے ۔یہ قریب ۳۴ء؁ میں بعد وفات مسیح کے واقع ہوا پھر وہی مورخ ذکر کرتا ہے کہ پنتوس پلاطوس کے وقت مسیح ملک یہودیہ میں مارا گیا مورخ سوتو نیس اور یہودی مورخ یوسیفس ان باتوں کی پر گواہی دیتے ہیں جو کہ انجیل میں مندرج ہیں صرف یہی نہیں بلکہ اور دین عیسوی کے جانی دشمنوں نے بھی انجیل میں مندرج ہیں راست نہ ہوتیں تو وہ لوگ کبھی اقرار نہ کرتے ۔

چھٹویں ان خاص باتوں کی گواہی کے سوا جو انجیل میں مندرج ہیں ہم اس میں بہت کیفیتیں دیکھتے ہیں جو کہ یونانی اور لاطینی مصنفوں کی کتابوں سے ثابت ہیں اکثر شہروں اور قوموں کا ذکر انجیل میں ہے جن کا بیان قدیم مورخوں نے کیا ہے جیسے یروشلیم ،قیصریہ، دمشق، ترسس ،افسس، اسکندریہ ،فلپی اور روم وغیرہ شہروں کا ذکر اس میں مندرج ہے اگر انجیل اس زمانہ میں جس کا ہم دعویٰ کرتے ہیں تصنیف نہ ہوتی تو یونانی اور لاطینی تواریخوں سے اس کا مطابق ہونا غیر ممکن تھااس سے بھی اس کی معتبری کامل ثابت ہوئی ۔

ساتوں نہ یونانی اور رومی مورخوں کی گواہی سے ثابت ہے بلکہ اُس زمانہ کے مقبروں سے اورسکہ اور تمغہ اب تک موجود ہیں جو اٹھارسو(۱۸۰۰) برس سے زمین میں سے گڑے ہوئے نکالے جاتے ہیں ۔ہر ایک پر وہی لکھا ہوا ہے جو کہ انجیل میں موجود ہے ۔اے بھائیو ان سب باتوں سے انجیل کی معتبری ثابت ہوئی اس کے تمام کرنے سے پیشتر دو ایک مثالیں میں اور قلم بند کرتا ہوں جو کہ انجیل کےاحوال میں پائی جاتی ہیں۔ اعمال کی کتاب میں ایک شخص اخیا کا صوبہ دار کہلاتا ہے بعضوں کی یہ رائےہے کہ نائب ہونا چاہئے اگر وہ صوبہ اہل مجلسی تھا ۔ تو بھی پطرس بادشاہ نے اخیا کو صوبہ دار شاہی مشہور کیا مگر مو تو نیس مورخ کی تصنیف میں ایک جملہ ملتا ہے جو انجیل کو پایہ ثبوت تک پہنچا تا ہے ۔ کیونکہ اس سے معلوم ہے کہ شہنشاہ کلاڈیس نے صوبہ اہل مجلسی کیا اعمال میں ایک آیت ہے سر جیس پولوس ان ٹی پی ٹاس یعنی کپرس کا صوبہ دار عرصہ چند روزکا ہوا کہ ایسے سکے ملے ہیں جن پروہی لقب سر جیس پولوس ان ٹی نی ٹاس پایا جاتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسولوں کے اعمال میں جو کچھ بیان ہے وہ درست ہے ۔

Leave a Comment