Men Your Sins Are Forgiven
By
One Disciple
ایک شاگرد
Published in Nur-i-Afshan May 16, 1891
نور افشاں مطبوعہ۱۶اپریل۱۸۹۱ ء
’’اے آدمی تیرے گناہ تجھے معاف ہوئے ‘‘(لوقا ۲۰:۵)، یہ کون ہے جس کے اس کلام پر فقیہ اور فریسی خیال کرنے لگے کہ ’’ یہ کون ہے جو کفر ( بے دينی کے ا لفاظ) بکتا ہے ‘‘؟ یہ وہی ناصری ہے جس کی شہرت معجز نمائی (معجزہ دکھانے کی) کوسن کر گلیل اور یہودیہ کی ہر بستی اور یروشلیم سے يہ اشخاص اُس کی با اقتدار ( اختيار رکھنے والی) تعلیم کو سننے کے لئے آئے تھے اور اس وقت تک اس کی اعجازی ِقدرت(معجزہ کی طاقت) کے اظہار کے متوقع اورمنتظر نہ تھے کہ یکا یک ( اچانک) اس مجمع میں چھت کی طرف سے ایک دُکھی انسانیت کو لٹکایا گیا جو فالج کی بیماری کی بہ نسبت گناہ کی بیماری سے شفا یاب ہونے کی زیادہ تر محتاج تھی۔ سب کی نگاہ اس عجیب ماجرے کی طرف لگی۔’’اور خداوند نے ان کا ایمان دیکھ کر اُسے کہ’’ اے آدمی تیرے گناہ معاف ہوئے ‘‘ ۔یہ آواز تو آدمی کے لئے جس کے روح و جسم دونوں بیمار ہیں کس قدر شیریں اور تسلی بخش معلوم ہوگی ۔ لیکن کسی دوسرے آدمی کی طرف سے اس کو سن کر ضرور یہ خیال پیدا ہو سکتا کہ یہ کون ہے جو کفر بکتا ہے۔ بے شک اُن کے اس قول میں بڑی سچائی ہے کہ ’’ کون گناہوں کو معاف کر سکتا ہے مگر صر ف خدا ‘‘ ۔ آدمی کے گناہ معاف کرنا خدا ہی کاکام ہے اور اس کا م کو وہ اُس ابن آدم کی معرفت انجام دیتا ہے ۔ جو مفلوج کو یہ فرما کر کہ تیرے گناہ معاف ہوئے حکم دیتا ’’ اُٹھ اور اپنی چارپائی اُٹھا کے اپنے گھر جا ‘‘ اور وہ روحانی و جسمانی امراض سے شفا یاب ہو کے اسے جس پر پڑا تھا اُٹھا کر خدا کی ستائش کرتا ہو اپنے گھر چلا گیا اور اُس پر کفر بکنے کا الزام لگانے والے متحیر و متعجب رہ گئے اور خوف زدہ ہو کر بولے کہ آج ہم نے عجیب ماجرا دیکھا کہ ایک ابن آدم نہ صرف لوگوں کے جسمانی دُکھ دردوں سے انہیں شفاء بخشتا لیکن روحوں کا بھی مسیح ہے اور اُس کا یہ فرمانا ’’ اے آدمی تیرے گناہ معاف ہوئے ‘‘ کفر بکنا نہیں لیکن اُس کا حق اور منصب ہے اور اُسے زمین پر گناہ معاف کرنے کا اختیار حاصل ہے۔