Mirza Ghulam Ahmad Qadiani and His False Teaching
By
G.L.Thakur Das
علامہ جی ایل ٹھاکرداس
Published in Nur-i-Afshan June 11, 1891
نور افشاں مطبوعہ۱۱جون ۱۸۹۱ ء
مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے ایک اشتہار بہ عنوان ’’ اشتہار بمقابل پادری صاحبان ‘‘ ہمارے پاس بھی بھیجا ہے۔ جس کے اصل منشاء کی بابت میں ابھی نہیں کہہ سکتا کہ کہاں تک جھوٹ ہے۔ صرف چند باتیں اس اشتہار کے جواب میں جیسا وہ ابھی ہے میرزا صاحب کی ہدایت کے لئے تحریر کرتا ہوں ۔ سو:۔
جناب میرز ا صاحب آپ خیال فرمائیے ۔ کہ چند گزرے سالوں میں آپ نے اتنے اشتہار دئیے اور کتابیں لکھیں لیکن کوئی بات بھی آپ کی بن نہ پڑی ۔ آپ ہمیشہ کہتے رہے کہ خدا نے یہ بات اور وہ بات مجھ پر ظاہر کی ہے۔ مگر وہ اشتہار نا پائیدار ٹھہرتے رہے۔ اور ساتھ ہی اپنے اس طرز سے خدا کو بھی بد نام کیا ۔ اور اس روش سے اب تک باز نہیں آتے ۔ آپ کا مُدعا تو حاصل ہو گیا ہے یعنی شہرت آپ کی اُڑ ہی گئی ہے۔ آپ کی تصنیفات اور اشتہارات سے بہتوں کو معلوم ہو گیا ہے کہ آپ کیا ہیں۔ سو اب ہم سوائے اس کے اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ ’’ تم بکو ہم سنتے ہیں‘‘ چنانچہ آپ نے اب یہ اشتہار دیا ہے کہ ’’ خدا تعالیٰ نے میرے پر ثابت کر دیا ہے کہ حضرت مسیح ابن مریم ہمیشہ کے لئے فوت ہو چکے ہیں ‘‘ ( کیوں صاحب کہا قیامت کے بھی منکر ہو گئے ؟ ) ’’ اور اس قدر ثبوت میرے پاس ہیں کہ کسی مصنف کو بجز ماننے کے چارہ نہیں ‘‘۔ شاید آپ اُن ثبوتوں سے لاعلاج ہو گئے ہو ں گے پر ہمیں بھی تو بتلایئے ۔ اور میں وعدہ کرتا ہوں کہ آپ تحقیق سے بے راہ ہو گئے ہو ں گے تو ٹھیک راستہ بتلایا جائے گا ۔ سچ پوچھیئے تو ہمیں آپ کی باتوں کا بالکل اعتبار نہیں ہے۔ کیونکہ آپ نے ہمیشہ اپنے خیالوں کے لئے ثبوت موجود ہونے کا اشتہار دیا ۔ جب وہ ثبوت دیکھے اور پرکھے گئے تو کوئی ثبوت ثبوت نہ رہا۔ کیا آپ نے براہین احمدیہ والے ثبوتوں کا حال ریویوبراہین احمدیہ میں نہیں دیکھا کہ اُن کا کیا حال ہوا؟ پھر بیٹے عمانوئیل کے ساتھ کیسی گذری؟ اور اپنے الہٰام کی سنایئے ۔ سواُمید ہے کہ ایسا ہی حال آپ کے اس اشتہار کا بھی ہو گا ۔ اور آپ خوب جان رکھیں کہ عیسائی لوگ آپ کی باتوں سے پریشان نہیں ہو سکتے بلکہ آپ کے حال پر رحم کھاتے ہیں کہ آپ اپنےوہم کے دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں اور منہ آئی بات کو خدا کی طرف سے کہہ دیتے ہیں۔
اس اشتہار میں آپ نے مسلمانوں کی خونخوار طبیعت اور عیسائیوں کی نرم مزاجی اور بردباری کا مقابلہ کیا ہے۔ چنانچہ آپ لکھتے ہیں کہ حال کے مسلمان مولوی آپ کی بات سے ’’ سخت ناراض ہیں۔ اور ہمیشہ آپ کو ان مولویوں سے بحث کے وقت یہی خطرہ اور ڈھرکہ رہتا ہے کہ بات کرتے کرتے کہیں لاٹھی بھی نہ چلا دیں‘‘۔ جب کوئی مسلمان مخالف ملنے کے لئے دیتا ہے تو اُس کے چہرہ پر ایک درندگی کے آثار ہوتے ہیں گویا خون ٹپکتاہے ۔ ہر دم غصہ سے نیلا پیلا ہوتا جاتا ہے‘‘ ۔ لیکن عیسائیوں میں وہ ’’تہذیب ہے جو عدل گستر گورنمنٹ برطانیہ نے اپنے قوانین کے ذریعہ سے مہذب لوگوں کو سکھلائی ہے اور اور ان میں وہ ادب ہے جو ایک باوقار سوسائٹی نے نمایاں آثار کے ساتھ دلوں میں قائم کیا ہے ۔
اور خود پادری صاحبان خلق اور بردباری اور رفق اور نرمی ہمارے ان مولوی صاحبوں سے ایسی سبقت لے گئے ہیں کہ ہمیں موازنہ کرتے وقت شرمندہ ہونا پڑتا ہے‘‘۔
آپ کے اس بیان پر بھی مجھے کلام ہے ۔ اوّل یہ کہ عیسائیوں کی تہذیب اور نرم دلی کا سبب تو بتلایا مگر مسلمانوں کی غصہ در اور خونخوار طبیعت کا سبب نہ بتلایا ۔ اس بھید کو خوب ظاہر کرنا تھا۔ کیا اُن کو گورنمنٹ برطانیہ کے قوانین سکھلائے نہیں جاتے اور کیا وہ اعلیٰ سوسائٹی کی کار روایوں کو اپنے سامنے نہیں دیکھتے ہیں ؟ مگر پھر بھی تہذیب اور تادیب نہیں آتی ہے۔ اُ س کا غیر مہذب اور تُند طبیعت کا موجب قرآن ہے جس کے لئے آپ کہا کرتے تھے کہ مجھے الہٰام ہوتا ہے۔ قرآن کی تعلیم اور محمد صاحب کی زندگی کا نمونہ اس طبیعت کے بانی ہیں ( دیکھو سیرت دالحمد، اور عدم ضرورت قرآن طبع دوم فصل نہم و ضمیمہ کتاب نمبر ۲) اور جو تہذیب اور سلیم مزاجی مسلمانوں میں ہے یا ہونے لگی ہے وہ کچھ تو یہاں کے باشندے ہونے کے سبب اور کچھ مسیحی تہذیب کے سبب ہے جو مشنوں اور نیز گورنمنٹ کے ذریعہ سے پھیلائی جا رہی ہے۔
دُوسرے یہ کہ جو وجہ اپنے عیسائیوں کی نرم دلی اور دوستانہ طبیعت کی بتلائی وہ وجہ محمد صاحب نے اپنے زمانہ کے عیسائیوں کی سلیم مزاجی کی نہیں بتلائی تھی بلکہ یہ کہا تھا کہ ’’ تو پائے گا سب سے نزدیک محبت میں مسلمانوں کی وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ ہم نصاریٰ ہیں ۔ یہ سو واسطے کہ اُن میں عالم ہیں اور درویش ہیں اور یہ کہ وہ تکبر نہیں کرتے ‘‘( سورہ مائدہ رکوع ۱۱۔ آیت ۸۵ )۔سو آپ کی نئی وجہ درست نہیں معلوم ہوتی۔
تیسرے کیا آپ نے کبھی اس بات کو بخوبی سوچا ہے کہ گورنمنٹ برطانیہ کیوں ایسی ہے۔ کہ سب رعیت خوشی اور آزادگی کے ساتھ بحث اور برتاؤ کر سکتی ہے۔ اور لاٹھی چلنے کا اندیشہ دُور رہتا ہے۔ اور اگر کبھی چلتی ہے تو لوگوں کے اپنے پُرانے خمیر کے سبب چلتی ہے ۔ ایسی سلیم مزاجی گورنمنٹ میں کہاں سے آئی ۔ سو معلوم ہو کہ اس دینی شرع کا انگلش قوم پر بڑا اثر ہے کہ ’’ اپنے پڑوسی کو ایسا پیا ر کر جیسا آپ کو ‘‘ ۔ لہٰذا عیسائی مذہب اور عیسائیوں کی سلیم مزاجی گورنمنٹ برطانیہ کی تہذیب اور سلیم مزاجی کے موجب ہیں نہ کہ گورنمنٹ عیسائیوں کی سلیم مزاجی کی موجب ہے۔ ( کیا آپ کا بھی یہی مطلب ہے یا وہ جس کی تردید کی گئی ہے ؟) کیونکہ انجیل مقدس کا حکم ہے کہ ہمیشہ مستعد ہو کہ ہر ایک جو تم سے اس اُمید کی بابت جو تمہیں ہی پوچھے فروتنی اور ادب سے جواب دو ‘‘( ۱۔پطرس ۱۵:۳) ۔ میرزا صاحب یہ کیونکر ہے کہ آپ کی خیر اندیشی میں بھی بد اندیشی نمایاں ہے؟ اُمید ہے کہ آپ اپنی بات کے ثبوت بھی عیسائیوں کے سامنے پیش کریں گے ۔