Muslim’s and their Sermons
By
Hanif Masih
حنیف مسیح
Published in Nur-i-Afshan June 19, 1884
نور افشاں مطبوعہ ۱۹ جون ۱۸۸۴ ء
ناظرین کو یاد ہو گا کہ ہم کئی ایک مرتبہ یہ کہہ چکے ہیں کہ صداقت کا ایک نیچرل اصول ہے کہ خود کو سات پردوں میں سے ظاہر کر دیا کرتی ہے اور خواہ کوئی اس کی کتنی ہی مخالفت کیوں نہ کرے یہ ہمیشہ غالب آجایا کرتی ہے ۔مگر ہمارے مسلم بھائی اس بات کی سچائی سے یا تو عموماً ناواقف ہیں یا اس پر عمل کرنے کا حلف اٹھا چکے ہیں ۔ہر کس وناکس(ہرشخص ادنیٰ واعلیٰ) اس سے آگاہ ہو گا کہ بظاہر تو دین اسلام شکست کھا چکا ہے روشنی علوم و فنون و ترقی عقل و ذکا و تہذیب و شائستگی اخلاق واطوار نے اس بات کو بخوبی ثابت کر دیا ہے کہ وہ مذہب جو کہ آج عرصہ چودہ سو(۱۴۰۰) سال کا ہوا ہے عرب کے نبی نے اس ملک میں جاری کیا تھا اس زمانہ کے قابل نہیں اور نہ ایسا اصلاح پذیر ہی ہے کہ کچھ تراش خراش کر کے اسے قبولیت کے لائق ہی کر سکتے ہیں۔ ہاں اسی مذہب کے پیرایہ میں(یا یوں کہیں کہ نام میں )بالکل نئی اور اس کی اصلیت کے خلاف اصول منوا کے صرف نام کی خاطر وہ مذہب جیوے تو جیوے ورنہ دراصل تو مر چکا ہے ۔ چنانچہ اس حالت سے آگاہ ہو کر تعلیم یافتہ اشخاص میں سے بعض اس میں ساعی(کوشش کرنے والا) بھی ہو رہے ہیں۔ مگر اس پر بھی مسلمان اور ان کے واعظ اکثر اپنی حالت زار سے چشم پوشی کر کے اکثر مسیحی دین کی مخالفت پر کمر بستہ ہو جایا کرتے ہیں ۔اور ایسا کرنے سے گویا صاف اقرار کرتے ہیں کہ ہمارا جانی دشمن یہی مذہب ہے اگر یہ غارت ہو جائے تو ہمارے مذہب کو اتنی ضرب اور چوٹ نہ لگے گی ۔اس بات کی صداقت اگر کسی کو دریافت کرنی منظور ہو تو مسلم واعظوں میں سے کسی کے واعظ میں جا کر ذرا سی دیر کھڑا ہو اور وہ فوراً دیکھ لے گا کہ اگر ان کی واعظ میں کوئی خوبی یا کشش ہے تو صرف یہی ہے کہ مسیحی دین اور اس کے پیروؤں اور خادموں کے حق میں بیہودہ گوئی کرنا اور ناشائستہ الفاظ استعمال کرنا ۔اس سے صداقت اور سچائی تو جو ٹپکتی ہے وہ اظہر من الشمس(روز روشن کی طرح عیاں) ہی ہے ۔ ہاں البتہ ایک بات کے تو ہم بھی قائل ہیں کہ مسلمان اکثر خوش ہو جایا کرتے ہیں۔ سچ ہے کہ جب کسی کا کچھ اور زور نہیں چلتا تو اپنی بُری طبیعت کی سیری د شنام (گالی گلوچ)اوربدگوئی سے ہی کر لیا کرتا ہے ۔ہم اپنے مسلم بھائیوں کو جتاتے ہیں کہ اس سے ان کو کچھ فائدہ نہیں ہو سکتا اور ان کے واعظ بجائے اسلامی اخلاق کی درستی اور تہذیب کے اگران کو رام کہانی کے طور پر یہ روز روز سنا دیا کریں کہ سکندراعظم کبھی ہندوستان میں نہیں آیا تو اس سے کیا ان کی مذہبی ،مجلسی اور قومی حالت اچھی ہو سکتی ہے یا اگر بالفرض ہم اس کو بھی تسلیم کر لیں کہ مسیحی دین جو کہ صداقت کا چشمہ اور بھلائی کا منبع ہے خدا کی طرف سے نہیں تو کیا اس سے دین اسلام کی صداقت ہو سکتی ہے یا محمدی مجلسی حالت بدل سکتی ہے ؟ہرگز نہیں ۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ کسی مذہب کی صداقت مانا صداقت پر حسب موقعہ گفتگو کرنا اور طالبوں کو اس کے نقص و قبح(عیب، برائی)سے آگاہ کر دینا ناجائز یا نامناسب ہے مگر ہم زور تو اس بات پر دیتے ہیں کہ پہلے اپنی ابتر حالت کی درستی کر لو پہلے اپنے ہی داداجان کے مذہب کی اصلاح کر لو ۔پہلےاس کی صداقت کو دریافت کر لو ۔ پہلے اپنے ہی گھر کا انتظام کر لو ۔پہلے اپنے ہی لوگوں میں سے بُری عادات کو نکال دو اور ان کو خدا ترس بنادو یا مختصراً یوں کہو کہ پہلے محمدیوں کی اخلاقی تربیت کر لو ۔تب تم کو اور کام کرنے کا موقع بھی حاصل ہو جائے گا نہ کہ دس(۱۰) گالیاں رام چند کو اور پچاس (۵۰)مسیح کو اور یہی تمہارا روز کا وعظ ہو ۔ وعظ کرو تو ایسا جو کہ لوگوں کو گناہ سے قائل کر کے توبہ کی طرف رجوع کرا دے ۔نصیحت کرو تو ایسی کہ لوگوں میں خدا ترسی آجائے ۔گفتگو کرو تو ایسی کہ تمہارے اپنے مذہب کی صداقت ظاہر ہو۔ کلام کرو تو ایسا کہ جس سے خدا بھی خوش ہو اور دنیا کے خاص و عام کو فائدہ بھی ہو نہ کہ خود اپنے ہی مذہب کے بانی کی تعلیم کے خلاف جس نے کہ ایک موقعہ پر کہا تھا کہ ولاتسبو الذین یدعرن من دون اللہ فیسبواللہ عدوا
یہ مت خیال کرو کہ تم لوگوں کے واعظین کی بیہودہ گوئی اور دشنام(گالی گلوچ) دہی سے ہماری صداقت کے بھرے ہوئے مذہب کو کچھ نقصان یا ضرر پہنچ سکتا ہے ۔ دنیا کی سلطنتیں اگر اس کے خلاف ہو گئیں تو اس کو سر مد(ہمیشہ رہنے والا) اپنی جگہ سے ہلا نہ سکیں اور آج اگر چھتیس (۳۶)کروڑ اشخاص اس کے خلاف زبان درازی کریں تو اس کا کیا بگاڑ سکتے ہیں مگر ہم تو صرف رفیقانہ(دوستانہ)صلاح یہ دیتے ہیں کہ پہلے اپنے گھر کے لوگوں کو ایسے کلمہ سناؤ جن سے کہ خدا سے خوف کھا کر بدی سے باز آئیں ۔
آپس میں صلح اور میل کے ساتھ رہیں اور توبہ کریں اور یہ تسلی رکھیں کہ اگر صداقت کی جانب مذہب بنی عرب ہے تو خود اپنے آپ کو ظاہر کر دے گی یا اگر مسیحی مذہب منجانب اللہ ہے تو اس کا جڑ سے اکھڑنا ناممکن ہے ہم یقین دلاتے ہیں کہ ایسا کرنے سے زیادہ فائدہ حاصل ہو گا ۔