اے ہمارے باپ

Eastern View of Jerusalem

OUR FATHER

By

Editorial

ایڈیٹر

Published in Nur-i-Afshan Feb 5, 1891

نور افشاں مطبوعہ ۵فروری۱۸۹۱ ء

اس میں شک نہیں کہ مذہب عیسوی کے علاوہ دنیا کے اکثر مذہبوں میں خدا کے بہت سے ذاتی و صفاتی نام پائے جاتے ہیں اور ان کی دینی کتابوں میں بھی خدا تعالیٰ کے اکثر نام لکھے ہوئے موجود ہیں ۔ مسلمانوں میں خدا کے ۹۹ یعنی ننانویں نام عربی زبان میں ایک وظیفہ کی کتاب موسومہ بہ جوشن کبیر میں ترتیب وار لکھے ہوئے ہیں ۔ جنہیں وہ بطور وظیفہ روز مرہ پڑھتے ہیں اکثر نام اپنے مقتدیوں اور شاگردوں کو ان کے ہادیوں اور استادوں نے خاص طور پر تعلیم کئے ہیں جنہیں وہ اسم اعظم سمجھتے اور بعض نام کے در ودو ظیفہ میں ایک مخصوص تاثیر و طاقت کے معتقدہیں ۔ محمدیوں میں یہ خیال بیشتر پایا جاتا ہے ۔ لیکن یہ ایک محض وہم و خیال ہے کہ فلاں اسم کو ہر روز فلاں وقت و مقام میں فلاں طور و طریقہ سے سویا پانسو یا ہزار دفعہ پڑھو اور یہ یا وہ مراد و مطلب حاصل ہو گا۔ ہم نے مسلمانوں کی اکثر کتابوں کو ان اسمیات(ناموں) کی تعریف و توصیف اور ترکیب و فوائد سے بھرا ہوا پایا اور آزمایا مگر بجرو سواس داوہام کے کچھ نہ دیکھا۔ مختلف مذاہب کے معلموں میں سے کسی نے یہ پیارا نام جو عنوان میں لکھا گیا اپنے پیرؤں کو کبھی نہیں سکھلایا اور نہ خود ان کے ذہن میں کبھی آیا کیونکہ انہوں نے لے پالک ہونے کی روح نہ پائی جس سے وہ ابایعنی اے باپ کہہ سکتے ۔

اے ہمارے باپ جو آسمان پر ہے

 لیکن اس معلم یکتا نے جو آسمان سے اُتر ا خاکی بنی آدم کو یہ شرف بخشا اور سکھلا یا کہ وہ خدا کو ’’اے باپ ‘‘ کہہ کے پکارتے ہیں اور جو کچھ تاثیر اس نام میں ہے محتاج بیان نہیں ۔ باپ کی محبت کا بیان جو کلام مقدس میں پایا جاتا کون اس کی انتہا تک پہنچ سکتا ہے؟ یوحنا رسول اپنے پہلے خط میں ان الفاظ کا استعمال کرتا اور کہتا ہے’’ دیکھو کیسی محبت باپ نے ہم سے کی ہے کہ ہم خدا کے فرزند کہلائیں‘‘۔ خدا ایماندروں کا باپ ہے اوروہ بلا تکلف کہہ سکتے ‘‘اے ہمارے باپ جو آسمان پر ہے‘‘ ۔ خدا کی الویت محبت کی مقتضی ہے۔ ہم خدا کی بابت خیال کر سکتے ہیں کہ وہ ہمارا پیدا کرنے والا،رحیم، حافظ و نگہبان ہے۔ باوجود اس سب کے ہم اپنی نسبت اس کی محبت کہ پہنچاننے میں قاصر رہتے ہیں۔ کمہار مٹی کے برتن کا بنانے والا ہے لیکن وہ اپنی بنائی ہوئی چیز سے اس قدر محبت نہیں رکھتا ۔

بعض اوقات حاکم ایک مجرم کے اوپر رحیم ہو کر معافی بخشتا لیکن وہ مجرم کے ساتھ اور زیادہ محبت نہیں کرتا ۔ ایک سپاہی کسی قیدی کا حافظ و نگہبان مقرر کیا جاتا تاہم وہ قیدی کو محبوب و عزیز نہیں جانتا ۔ لیکن خدا اپنے لوگوں کا اس معنی میں جو اس نام کے ہیں باپ ہے۔ بائبل خدا کی محبت کے اظہار سے معمورو بھر پور ہے۔ اس میں صرف خدا اپنی حقیقی محبت کو اپنے لوگوں کے ساتھ ایسی مثالیوں سے ظاہر کرتا ہے جو اس آدمی کی سمجھ میں جس نے اس محبت کا کچھ مذاق حاصل نہ کیا ہو خدا کی نسبت حقیر معلوم ہوں گی اور بے ساختہ اس کی زبان سے نکلےگا کہ خدا کا اپنے کو ایسی نا چیز مخلوقات سے تشبیہ دینا اس کے جلال اور عظمت کے لائق نہیں۔ مثلاً خدا اپنے کو عقاب سے تشبیہ دیتا کہ ’’ جیسے عقاب اپنے گھو نسلے کو ہلاہلاکر اپنے بچوں پر منڈلاتا ہےویسےہی اس نے اپنے بازوؤں کو پھیلایا اوران کو لے کر اپنے پروں پر اُٹھایا۔ فقط خدا وند ہی نے ان کی رہبری کی اور اس کے ساتھ کوئی اجنبی معبود نہ تھا ‘‘ (استثنا ۱۱:۳۲ ۔۱۲)پھر خداوند مرغی سے اپنی مثال دیتا اور فرماتا’’کتنی بار میں نے چاہا کہ جس طرح مرغی اپنے بچوں کو پروں تلے جمع کرلیتی ہے اسی طرح میں بھی تیرے لڑکوں کو جمع کرلوں‘‘( متی ۲۳: ۳۷ )۔پھر وہ اپنے کو دودھ پلانے والی ماں سے مشابہ کرتا اور فرماتا ’’ کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی ماں اپنے شیرخوار بچے کو بھول جائے اور اپنے رحم کے فرزند پر ترس نہ کھائے ؟ہاں وہ شاید بھول جائے پر میں تجھے نہ بھولوں گا‘‘( یسعیاہ ۴۹: ۱۵ )۔وہ اپنے کو انسان سے تشبیہ دیتا اور فرماتا ’’ تو نے دیکھا کہ جس طرح انسان اپنے بیٹے کو اٹھائے ہوئے چلتا ہے تم کو اسی طرح خداوند تیرے خداتیرے اس جگہ آپہنچنے تک سارے راستے جہاں جہاں تم گئے تم کو اٹھائے رہا ‘‘( استثنا ۱: ۳۱ )۔جب ہم ایسی مثالوں کو جو الہٰی محبت کے اظہار میں کلام مقدس میں بکثرت پائی جاتی ہیں پڑھئے تو تعجب سے بھر جاتے ۔ خاکی کیڑوں پر اس قدر اس کی محبت اور پیار کا ظاہر ہونا کیسی عجیب بات ہے۔ سچ مچ ’’ کیونکہ خدا نے دنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخش دیا  تا کہ جو کوئی اس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے‘‘( یوحنا ۱۶:۳ )۔کیا ایسی محبت الہٰی کی مثالیں اور باتیں بجز بائبل اور دین مسیحی کے اور کسی کتاب و مذہب میں پا سکتے ہیں؟

Leave a Comment