Religious Workmen
By
Disciple
ایک شاگرد
Published in Nur-i-Afshan Dec 06, 1890
نور افشاں مطبوعہ۶ نومبر ٫۱۸۹۰
ہمارے عنوان سے ناظرین متعجب ہوں گے اور خیال کریں گے کہ مذہبی پیشہ ور کون ہوتے ہیں اور اُن سے کیا مُراد ہے۔بہتر ہو گا کہ ہم اِس مطلب کو ایک ہنگامہ کی کیفیت کا مختصر بیان کرنے سے جو ایشیا کے ایک مشہور قدیم شہر افسس میں واقع ہوا ظاہرو آشکارا کریں۔پولس رسول نے جبکہ دو برس تک اِس شہر میں جو بُت پرستی و جادو گر ی کا ایک محصور قلعہ تھا انجیل کی منادی کر کے بہت لوگوں کو مسیحی دین کا معتقدبنایااور جادوگروں نےاپنی قیمتی کتابیں جوپچاس ہزار روپیہ کی تھیں لوگوں کے آگے جلا دیں اور اس طرح وہاں خداوند کا کلام نہایت بڑھ گیا اور غالب ہوا تو اس وقت وہاں اِس راہ کی بابت بڑا فساد اُٹھا کیونکہ دیمتیریس نامی ایک سُنار جو ارتمس دیوی کے رو پہلے مندر بناتا تھا اور اس پیشہ والوں کو بہت کموا(فائدہ دلوانا) دیتا تھااُس نے اُن کو اور غیروں کو جو ویسا (مذہبی پیشہ )کام کرتے تھے جمع کر کے کہا کہ اے مردو تُم جانتے ہو کہ ہماری فراغت اسی کام کی بدولت ہے اور تم دیکھتے اور سُنتے ہو کہ صرف افسس میں نہیں بلکہ تمام ایشیا کے قریب میں اِس پولس نے بہت سے لوگوں کو ترغیب دے کر گمراہ کر دیا ہے کہ کہتا ہے یہ جو ہاتھ کے بنائے ہیں خدا نہیں ہیں۔سو صرف یہی خطرہ نہیں کہ ہمارا پیشہ بےقدرہو جائے بلکہ بڑی دیوی ارتمس کا مندر بھی ناچیز ہو جائے گا اور اس کی بزرگی جسے تمام ایشیا اور ساری دُنیا پوجنی ہے جاتی رہے گی۔جب انہوں نے یہ سُنا تو غصہ سے بھر گئے اور چلا کے کہا کہ افسیوں کی ارتمس بڑی ہو۔ دیمتیریس سُنارجو اِس مفسدہ (جھگڑے)کا سرغنہ تھا ایک مذہبی پیشہ آور آدمی تھا۔اِس قسم کے لوگ مذہب کے پردہ میں ہمیشہ اپنی ذاتی و جسمانی اغراض و فوائدکے حصول میں سرگرم ومستغرق (مصروف)رہتے ہیں اور حسب الخواہ (مرضی کے مطابق)مطلب نکالتے ہیں ۔وہ خوب جانتے ہیں کہ ہماری فراغت اسی کام کی بدولت ہے اور اس کے برخلاف تعلیم دینے والے کو اپنا قطعی دشمن جان کر مقدور بھر اُس کو ایذا پہنچانے اور اپنے ہم پیشوں کو اس کی مخالفت پر آمادہ کرنے میں بدل و جان سعی کرتے ہیں۔کیا اِس زمانہ میں مُلک ہند میں بھی اِس قِسم کے مذہبی پیشہ ور پائے جاتے ہیں؟ہم یقیناًکہہ سکتے ہیں کہ انجیل کی مخالفت کرنے والے زیادہ تر یہی لوگ اس ملک کے تمام بڑے شہروں خصوصاً تیرتھوں زیادہ نگاہوں اور درگاہوں میں آج کل بکثرت موجود ہیں۔
مسیحی واعظوں نے اکثراِس بات کا تجربہ کیا ہو گا ۔ہم کو اجمیر دار السلطنت راجپوتانہ میں بتقریب اُس سالانہ میلہ کے جو یکم رجب سے اُس کی سات تاریخ تک خواجہ معین الدین چشتی صاحب مشہور درگاہ کی زیارت کے لئے فراہم ہوتا ہے جانے اور انجیل کی منادی کرنے کا اتفاق پڑا اور اکثر یہ ہی دیکھا کہ وہاں کی درگاہ کے خدام و متعلقین زیادہ تر مخالف تھے کیونکہ اُن کی فراغت اِسی کمائی سے تھی کہ لوگ بکثرت ہر اطراف و جوانب ہند سے آ کر منتیں گزرانتے اور نذرانے چڑھاتے ہیں اور مرزا کے آگے سربسجود ہوتے ہیں ۔ہمیں یاد ہے کہ ایک محمدی قاری صاحب جو اکثرمسیحی واعظوں کے ساتھ بھی بحث کیا کرتے خواجہ صاحب کے خُدام کو اکثر بہ طنزکہا کرتے تھے کہ ’’تمہارا خدا تو مر گیا خواجہ صاحب تمہارا خدا ہے‘‘ہم نے ناظرین سے اِس درگاہ کی سیر کرانے کا وعدہ کیا تھا دیکھو نور افشاں ۱۷۔اکتوبرصفحہ ۵ کالم ۳کا فٹ نوٹ ۔اب ناظرین خیال میں ایک خادم درگاہ ۔۔۔کے ہمراہ چلیں اور بلند دروازے سے جس کی سیڑھیوں اور گوکھوں پر بہت سے ہردرجہ کے ہم رکاب چلنے کو مستعد کھڑے ہیں داخل ہوں اور بکثرت ثقہ (معتبر)صورتیں نظر آئیں گی۔درگاہ میں مقبرہ کے نہایت عمدہ و عالیشان دروازہ میں داخل ہو کر اُس مزار کے سامنے ایک گروہ جبّہ اور عمامے پہنے تسبیحیں گلوں میں ڈالے اور ہاتھوں میں لئے ہوئے مودّب صف بستہ کھڑے ہوئے دیکھیں گے۔یہ سب مقرب خداّم ہیں اور باری باری سے یہ یہاں حاضر رہتے ہیں ۔جو خادم شروع سے تمہیں یہاں تک لایا اُس کے ساتھ دو چار ان میں سے بھی شریک ہو کر مزار کی زیارت کرانے میں مدد دیتے ہیں۔ مزار کی پائنتیوں(پاؤں کی طرف) ایک ہاتھ بھر گہرا اور گول چھوٹا پختہ گڑھا ہے جس میں زایر (زیارت کرنے والے)کو کہتے ہیں کہ اس میں ہاتھ ڈال کے جو کچھ خواجہ صاحب کی طرف سے بخشش ہو نکالو ۔ہم نے اُس میں ہاتھ ڈالا اور نکال کے دیکھا تو چند مُر جھائے ہوئے چمیلی کے پھول تھے۔سبھوں نے کہا یہ بڑی بخشش آپ عطا ہوئی ہے!مزار پر کچھ نقدی و مٹھائی وغیرہ چڑھانا ضرور پڑتا ہے۔عوام میں مشہور ہے کہ اگر کسی کے ہاتھ میں سونے یا چاندی کا چھلّہ انگوٹھی ہو اور اُس گھڑھے میں ہاتھ ڈالے جو پائیں مزار ہے تو کوئی غیبی ہاتھ اُس کو پکڑلیتا اور جب تک وہ چھلّہ انگوٹھی نذر نہ کیا جائے نہیں چھوڑتا مگر ہمارا ہاتھ کسی نہ پکڑاشایدیہ وجہ ہے کہ ہاتھ میں کوئی انگوٹھی چھلّہ نہ تھا ۔مزار کی زیارت و طواف کے بعد وہی خادم خواجہ صاحب کے وضو کرنے نماز پڑھنے چلہّ کھینچنے کی جگہیں دکھاتا جہاں ایک ایک دو دو حاضرباش مقامی مجاور (عبادت گاہ کا محافظ)موجود ہیں اور ہر جگہ کچھ باقی ہو کسی نہ کسی بہانہ سے اُن لوگوں کو بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔روز مرّہ صدہاوارد صادر اس مشہود درگاہ کی زیارت کو آتے ہیں اور میلہ کے ایام میں ہفتہ بھر تمام اطراف ہند کے لوگو ں کا یہاں بڑا ہجوم رہتا ہے۔