Sin includes crime and impurity
By
Once Disciple
ایک شاگرد
Published in Nur-i-Afshan September 29, 1887
نور افشاں مطبوعہ ۲۹۔ستمبر۱۸۸۷ء
جُرم کا علاقہ تو عدل سے ہے ۔اور نجاست پاکیز گی کے خلاف ہے ۔ان دونوں باتوں پر ہر ایک گنہگار کا دل گواہی دیتا ہے ۔ضمیر شاہد ہے کہ عدل کے نزدیک تو مجرم اور خدا کی پاک نظروں میں نجس عدل الہٰی کے پورا کرنے کے لیے ہمار ا جُرم مسیح خداوند پر لگایا گیا ہے ۔الّا ہم اپنی نجاست سے ویسے ہی لائق جہنم اور سزاوار دوزخ معلوم ہوتے ہیں ۔اس کو ایسا ہی سمجھنا چاہیے جیسے کوئی شخص مجسٹریٹ کی عدالت سے مجرم قرار پاکر سزا یاب ہوجائے ۔ قانون کا دعویٰ تو پورا ہوگیا ۔لیکن خطاکاری یا نجاست دور نہ ہوئی ۔خدا کا کلام ہم کو ایسا ہی سکھلاتا ہے کہ گناہ اور کل گنا ہ اور سب کچھ جو اس کی خاصیت میں ہے نہ صرف پاک اور قدوس خدا کی نظروں میں نفرت انگیز ہے بلکہ اس کے غضب اور قہر کا مقصد اور سزا دلانے کی بنیاد ہے ۔بعض لوگوں خصوصاً اِن پلاجین کا قول ہے کہ
’’گناہ شریعت کی پہچان کے بعد ارادناً بُرائی کاکرناہے ۔وہ ہماری اپنی راست مرضی کافعل ہے خدا کی نظروں میں سزا کے لائق کس طرح ہوسکتا ہے‘‘ ۔
(۱)یہ وہمی خیا ل ہے۔(۲) عام لوگ بھی نیک کو نیک اور بد کو بد کہتے ہیں ۔(۳) ہماری ہماری راست مرضی نہیں ،کیونکہ پاکیزگی میں ایسے خیالات اور افعال نہیں ہوتے۔(۴) کلیسیا جامع اور کلام الہٰی کی تعلیم کے خلاف ہے کیونکہ کلام اللہ میں یہ تعلیم ہے کہ انسان گناہ میں پیدا ہوتے ہیں اور غضب کے فرزند ہوکر دنیا میں آتے ہیں ۔گناہ میں جُرم اورنجاست ضرور ہے جو اصلی اور اندرونی اور ذاتی بُرائی سے مملو ہے ۔ہماری خود مرضی کے افعال سے نہیں۔
ذرا سا غور اور تعمق(باریک بینی ) سے معلوم ہوسکتا ہے کہ گنا ہ میں جُرم اور نجاست ضرور شامل ہیں ۔جُرم تو ربنّا یسوع المسیح کے کفارہ سے دور ہوا اور نجاست اس پر ایمان لانے اور روح القدس کا بپتسمہ پانے سے دور ہوسکتی ہے ۔کیونکہ وہی تمام پاکیزگی اور پوترتائی کا چشمہ ہے اور یہ بغیر مسیح پر ایمان لائے حاصل نہیں ہوسکتی ۔کیونکہ اول عدالت کو پور ا کرنا ضرور ہے جس کو ربنّا مسیح نے پورا کیا۔