آئینہ مصحف

Eastern View of Jerusalem

The Mirror

By

One Disciple

ایک شاگرد

Published in Nur-i-Afshan May 08, 1884

نور افشاں مطبوعہ ۸ مئی ۱۸۸۴ ء

لودیانہ کے ولائیتوں (بیرون ِ ملک کے باشندے)میں بیاہ کی رات ایک رسم مقرر ہے جس کو آئینہ مصحف کہتے ہیں اور وہ یوں ہے کہ جب دلہا پہلی دفعہ سسرال میں بلایا جاتا ہے تو دلہن کو اس کے ہم پہلو بیٹھا کر دونوں کے سامنے ایک بڑا سا آئینہ رکھتے ہیں اور دونوں کو ایک ہی وقت میں اس میں ایک دوسرے کی شکل دیکھنی پڑتی ہے اس کے بعد دونوں کے سامنے اسی طرح قرآن کھول کر دھر دیا جاتا ہے اور دونوں کو اس میں ایک نظر دیکھنا پڑتا ہے بانیان رسم کی مراد شائد آئینہ سے یہ ہو کہ اس کی صفائی کو دیکھ کر دلہن دلہا دونوں ایک دوسرے سے ہمیشہ اپنا دل صاف رکھیں اور تازیست(ہمیشہ) کسی طرح کی کدورت نہ آنے دیں اور قرآن بطور حلف کے ہے  کہ اس عہد پر پختہ رہیں اگر یہی مراد ہے تو ضرور ہے کہ سمدھیوں (دلہا اور دلہن کے والدین)میں سے کوئی بزرگ عورت یا مرد روائے رسم کے پہلے دلہا دلہن کو اس کے معنوں سے آگاہ کر دیا کریں تا کہ اس کا اثر ان کے دلوں پر جمے ورنہ بیاہ کے اور کھلی  تماشوں میں سے یہ بھی ایک تماشہ سمجھا جائے گا جیسا اب سمجھا جاتا ہے ۔

عام آئینہ ہمارے عیب دیکھانے کے لحاظ سے نہایت مفید

ہمیں اس وقت اس رسم سے کچھ سروکار نہیں ہماری بحث صرف عام آئینہ اور مصحف سے ہے آئینہ حقیقت میں بڑے کام کی چیز ہے کیونکہ یہ ہماری اپنی صورت ہم کو ویسی ہی دیکھاتا ہے جیسی اور لوگوں کی نظر میں ہے گویا ہمارا کوئی ظاہری عیب چھپا نہیں رکھتا ۔بعض لوگ محض اپنی خوبصورتی اور بناؤ سنگار معلوم کرنے کو آئینہ دیکھتے ہیں اور اس پر اتراتے ہیں ،لیکن دانائی یہ ہے کہ اپنے عیب اس میں دیکھ کر ان کی اصلاح میں کوشش کی جائے ورنہ آئینہ دیکھنے سے کچھ فائدہ نہیں۔ خدا کے پاک کلام میں بھی ایک آئینہ ہے جو خدا نے ہماری ہدایت کے واسطے بخشا ہے اور اس میں اگر ہم چاہیں تو روزمرہ اپنی صورت کا صحیح عکس پورا پورا دیکھ سکتے ہیں ۔ٹھیک ویسا جیسا ہم خدا کی نظر میں دکھلائی دے رہے ہیں۔ اس آئینہ میں تمام ہمارے عیوب ہمارے نقص ہمارے گناہ ہمارے خراب چال چلن کامل صفائی کے ساتھ نظر آتے ہیں اور اس سے بڑھ کر یہ کہ اگر غور کے ساتھ دیکھیں تو نہ صرف ہم کو ہماری موجودہ حالت کا عکس بلکہ اس تصویر کا عکس بھی جیسا خدا کی نظر میں ہم کو ہونا چاہئے ہو بہو نظر آئے گا ۔یعنی کلام الہٰی ہم کو صاف صاف دکھلاتی ہے کہ ہم کیسے ناپاک ،ناخوش اور نکمے ہیں اور خدا ہم کو کیسا پاک صاف، خوش اور کام کا آدمی بنانا چاہتا ہے ،لیکن افسوس کہ بہت لوگ اس کو آئینہ مصحف(وہ کتاب جس میں رسالہ یا صحائف جمع کئے جائیں) کی رسم کی طرح صرف ایک دفعہ رسمی نظر سے دیکھ چھوڑتے ہیں اور کھلی تماشے سے اس کی قدر زیادہ نہیں کرتے بہت لوگ اس کو اپنا مصلح (اصلاح کرنے والا)مانتے ہیں لیکن اس کی اصلاحوں پر غور نہیں کرتے بہت لوگ آئینہ کی طرح اس میں کبھی کبھی نظر ڈالتے ہیں اور اپنے آپ میں داغ یا دھبہ دیکھ کر اس کی درستی کی فکر نہیں کرتے اس امید پر کہ وہ داغ اپنے آپ ہی صاف ہو جائے گا۔

عام آئینہ ہمارے عیب دیکھانے کے لحاظ سے نہایت مفید ہے لیکن عیب دیکھانے کے سوا اور کچھ نہیں کر سکتا یعنی عیب کی اصلاح نہیں بتلا سکتا اور برخلاف اس کے کلام الہٰی ہمارے گناہ دیکھاتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ان کی اصلاح کی تدبیر بھی بتاتا ہے ۔بشرطیکہ پورے اعتقاد کے ساتھ اس کی ہدایتوں پر عمل کیا جائے۔

ایک صاحب لکھتے ہیں کہ میرا ایک دوست صبح کو کچہری جاتے وقت اپنے بیٹے سے کہہ گیا کہ چار بجے شام کے کچہری سے آکر تجھے گاڑی میں ہوا کھلانے لے چلوں گا بشرطیکہ تو صاف کپڑے پہن کر اس وقت تیار رہے ۔لڑکا چار بجے کے انتظار میں بے صبر ہو کر اور بر صبری کی حالت میں اپنی ماما سے تقاضا کر کے کپڑے بدلوا کر باغ میں اپنے باپ کی راہ تکنے لگا اور باپ کو دور سے دیکھ کر جلد ی میں اس کی طرف بھاگا راستہ میں کیچڑ تھا اس میں لتھر بتھر گیا باپ نے کہا تم غلیظ ہو گئے ہو اس واسطے گاڑی پر سوار ہونے کے قابل نہیں رہے لڑکے نے رو کر جواب دیا نہیں پاپا نہیں بس یوں ہی گرد سی لگ گئی ہے اور اس سے کیا ہرج ہے باپ اس لڑکے کی انگلی پکڑ کر چوبارہ پر لے گیا اور آئینہ کے روبرو کھڑا کر کے اس کی غلاظت اس کو دکھا دی آئینہ نے اپنا کام جس قدر اس سے ہو سکتا تھا کر دیا یعنی لڑکے کو اس کی غلاظت دکھلا دی اور بس اب صفائی کے واسطے لڑکے کو پانی کی ضرورت ہوئی کیونکہ پانی کے بغیر صفائی محال ہے۔

پس پیارے دوستو! خدا کا پاک کلام ہمارے لئے یہ دونوں کام کرتا ہے ہماری غلاظت ہمیں دکھلاتا ہے اور اگر ہم چاہیں تو اس  غلاظت کو پاک اور صاف بھی کر دیتا ہے بشرطیکہ ہم دل سے اس کو پیار کریں۔

Leave a Comment