Jesus & Mohamed
By
One Disciple
ایک شاگرد
Published in Nur-i-Afshan June 04, 1897
نور افشاں مطبوعہ ۴۔جون۱۸۹۷
محمد صاحب سے جب اہل مکہ نے کہا کہ اگر آپ ایک معجزہ بھی دکھلادیں تو ہم آپ پر ایمان لے کر آئیں گے ۔ تو محمد صاحب نے پہلے یہ جواب دیاکہ
يَوْمَ يَأْتِي بَعْضُ آيَاتِ رَبِّكَ لَا يَنفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا
یعنی اگر کوئی معجزہ کسی دن آئے تو ایمان مفید نہ ہوگا(سورہ انعام آیت ۱۵۸)۔ پھر جب لوگوں نے اصرار کرنا شروع کردیا تو بیچارے نے اپنے تمام حیلہ وحوالہ سے عاجزآکر صاف سچ بتادیا کہ
قُلْ لَوْ أَنَّ عِنْدِي مَا تَسْتَعْجِلُونَ بِهِ
یعنی معجزہ تو تم مانگتے ہو وہ میرے پاس نہیں (سورہ انعام آیت ۵۸)۔پس معلوم ہوا کہ دعویٰ بلادلیل تھا اس لئے محمد کو رسول اللہ بھی نہیں مانا جاسکتا۔
اب دیکھیں کہ جب ہمارے آقا ومولا سیدنا مسیح سے یہودیوں نے کہا کہ ” آپ کب تک ہمارے دلوں کو شک میں رکھیں گے اگر آپ مسیح ہیں تو صاف بتادے”۔ تب مسیح نے انہیں جواب دیا کہ ” پس یہُودِیوں نے اُس کے گِرد جمع ہو کر اُس سے کہا تُو کب تک ہمارے دِل کو ڈانوانڈول رکھّے گا؟ اگر تُو مسِیح ہے تو ہم سے صاف کہہ دے۔یِسُو ع نے اُنہیں جواب دِیا کہ مَیں نے تو تُم سے کہہ دِیا مگر تُم یقِین نہیں کرتے ۔ جو کام مَیں اپنے باپ کے نام سے کرتا ہُوں وُہی میرے گواہ ہیں۔ لیکن تُم اِس لِئے یقِین نہیں کرتے کہ میری بھیڑوں میں سے نہیں ہو۔میری بھیڑیں میری آواز سُنتی ہیں اور مَیں اُنہیں جانتا ہُوں اور وہ میرے پِیچھے پِیچھے چلتی ہیں۔ اور میں اُنہیں ہمیشہ کی زِندگی بخشتا ہُوں اور وہ ابد تک کبھی ہلاک نہ ہوں گی اور کوئی اُنہیں میرے ہاتھ سے چِھین نہ لے گا۔ میرا باپ جِس نے مُجھے وہ دی ہیں سب سے بڑا ہے اور کوئی اُنہیں باپ کے ہاتھ سے نہیں چِھین سکتا۔ مَیں اور باپ ایک ہیں۔یہُودِیوں نے اُسے سنگسار کرنے کے لِئے پِھر پتّھر اُٹھائے۔ 32یِسُو ع نے اُنہیں جواب دِیا کہ مَیں نے تُم کو باپ کی طرف سے بُہتیرے اچھّے کام دِکھائے ہیں ۔ اُن میں سے کِس کام کے سبب سے مُجھے سنگسار کرتے ہو؟۔یہُودِیوں نے اُسے جواب دِیا کہ اچھّے کام کے سبب سے نہیں بلکہ کُفر کے سبب سے تُجھے سنگسار کرتے ہیں اور اِس لِئے کہ تُو آدمی ہو کر اپنے آپ کو خُدا بناتا ہے۔یِسُو ع نے اُنہیں جواب دِیا کیا تُمہاری شرِیعت میں یہ نہیں لِکھا ہے کہ مَیں نے کہا تُم خُدا ہو؟۔ جب کہ اُس نے اُنہیں خُدا کہا جِن کے پاس خُدا کا کلام آیا (اور کِتابِ مُقدّ س کا باطِل ہونا مُمکِن نہیں)۔ آیا تُم اُس شخص سے جِسے باپ نے مُقدّس کر کے دُنیا میں بھیجا کہتے ہو کہ تُو کُفر بکتا ہے اِس لِئے کہ مَیں نے کہا مَیں خُدا کا بیٹا ہُوں؟۔ اگر مَیں اپنے باپ کے کام نہیں کرتا تو میرا یقِین نہ کرو۔ لیکن اگر مَیں کرتا ہُوں تو گو میرا یقِین نہ کرو مگر اُن کاموں کا تو یقِین کرو تاکہ تُم جانو اور سمجھو کہ باپ مُجھ میں ہے اور مَیں باپ میں۔
اس سے ثابت ہے کہ جناب مسیح سچے مدعی ہیں کہ یہودیوں کے سامنے اپنے معجزے اپنی صداقت میں پیش کرتے ہیں اور وہ لوگ مان کرکہتے ہیں کہ ” ہم تجھے اچھے کام کے لئے نہیں بلکہ اس لئے پتھراؤ کرتے ہیں کہ تو کفر کہتاہے کہ انسان ہوکر اپنے کو خدا کا بیٹا بناتاہے”( انجیل مقدس راوی حضرت یوحنا ۱۰ باب ۳۳آیت)۔