He was raised on the third day
By
Rev,K.C.Chatterji
پادری کے۔سی۔چٹرجی
Published in Nur-i-Afshan May 30, 1889
نور افشاں مطبوعہ ۳۰۔مئی ۱۸۸۹ء
بعض بعض مسیح کلیسیا میں چند روز ہو ئے ایسڑ کی نماز ہوئی اور اب بھی اتوار کی نماز میں ایسٹر کے اوپر اشارہ ہوتا ہے یہ نماز مسیح کے مردوں میں سے جی اُٹھنے کے یادگا ر کی نماز ہے ۔ سو میں نور افشاں کے پڑھنے والوں کی خدمت میں چند باتیں مسیح کے جی اُٹھنے کی بابت پیش کرتا ہوں۔
اس ماجرہ کا بیاں چاروں انجیل میں پایا جاتا ہے۔ متی رسول بیان کرتا ہے کہ خداوند یسوع مسیح مردوں میں سے جی اُٹھ کر پہلے ایماندار عورتوں کو دکھائی دیا اور کہا تم سب خوش ہو ۔ لوقا اور یوحنا بیان کرتا ہے کہ جب وہ جی اُٹھنے کے بعد ایماندار مردوں سے پہلے ملاتب فرمایا تم پر سلام اس فرق کا سبب ایک مشہور مسیحی کے معلم یو ں بیان کرتا ہے۔
’’ عورتوں کا ایمان مضبوط تھا وہ صرف مسیح کے دکھ اور موت کے سبب سے غمگین تھیں ۔ اور اس واسطے خداوند نے اُن کو کہا تم سب خوش ہو ۔ مردوں کا ایمان سُت ہو گیا تھاوہ سوچتے تھے کہ مسیح بنی اسرائیل کو مخلصی بخشے گا اس واسطے اُس کے مرجانے سے نا اُمید ہو کر حیران ہوتے تھے اُن کا دل شک و شبہ سے بھر گیا تھا اس واسطے مسیح نے اُن کو دیکھ کر کہا تمہیں سلام یعنی تمہارے دل میں سلامتی ہو مت گھبراؤ‘‘۔
شک شبہ کو دل سے دور کرو ۔دیکھومیں جیتا ہوں یہ کلام سلامتی کا ہمارے لئے بھی ضرور ہے۔ نیچر کے قاعدوں کی پائداری پر اعتقاد اس قدر بڑھ گیا ہے اور مخالف ِدین مسیحی کے اعتراض مسیح کے جی اُٹھنے پر اس قدر ظاہر ہورہا ہے کہ خوا مخواہ اُس کی نسبت دل میں گھبراہٹ پیدا ہو تی ہے ۔ اور اُس کو مان لینا نہایت مشکل معلوم ہوتا ہے۔سلامتی تب ہی دل میں پیدا ہو سکتی ہے ۔ جب اُس کے جی اُٹھنے پر پورا یقین ہو اور یہ یقین تب ہی پو را ہو سکتا ہے جب ہم پورا اعتقا د مندرجہ ذیل باتوں پر رکھیں ۔ اول مسیح کی عجیب شخصیت پر دوم انسان کی گواہی کی معتبری پر ۔
پہلا مسیح کے جی اُٹھنے کے ماجر ے پر یقین کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم مسیح کی عجیب شخصیت پر یقین کریں کہ مسیح کی شخصیت عجیب تھی وہ ایسا ایک شخص تھا جس میں انسانیت اور الوہیت اکٹھی سکونت کرتی تھیں وہ بے گناہ انسان تھا اور اپنے کام کاج سے اور گفتگو سے اور اقرارسے اپنی بے گناہی ظاہر کی اُس میں الوہیت کا کمال موجود تھا ۔اُ س نے اپنے کام اور کلام سے خدا کے برابر ہونا ظاہر کیا۔ سوائے اُس کے ہم کو یاد رکھنا چاہئے کہ مسیح کا جی اُٹھنا ایسے ایک آدمی کا جی اُٹھنا ہے جس کی موت فوق العادت ہے اُ س نے کانٹوں کا تاج پہن لیا لیکن وہ تاج دنیا کا قہر تھا جو اُس کے سر پر رکھا گیا۔ وہ صلیب پر لٹک گیا تاکہ وہ زمین اور آسمان کے بیچ کھڑا ہو وہ دو چوروں کے بیچ میں رکھا گیا تا کہ آخری عدالت کا نشان ہو ۔اُس د ن اُس کے داہنے ہاتھ پر بھیڑ ہوں گی اور بائیں ہاتھ پر بکر یاں جیسے کہ تائب اور بے تائب چور کھڑے کئے گئے تھے آسمان کی ہو ا اُس کے متھے پر لگی اور اُ س نے آسمان کا دروازہ مغفور گناہگاروں کے لئے کھولا۔
مرنا اُس کے لئے ایک فوق العادت کام تھا مشہود دہریارو ہو نے ٹھٹے سے مسیح کی موت کی بابت یوں بیان کیا ہے ۔ کہ اُس کی موت خدا کی موت ہے ۔ اگرچہ یہ بات اُس نے ٹھٹے سے کہی ہے ۔ تو بھی عیسائیوں کا عقیدہ پہلے تین انجیلوں میں بیان ہو ا ہے کہ مسیح مرنے کے وقت اونچی آواز سے چلایا اس کو سن کر رومی صوبہ دار نے کہا کہ یہ شخص سچ مچ خدا کا بیٹا ہے۔ علاوہ بریں یاد رکھنا چاہئے کہ مسیح نے اپنی جان خوشی سے دی اُ س نے خو د فرمایا میں اپنی جان بھیڑوں کے لئے دیتا ہوں مجھے اختیار ہے کہ میں اُسے دے دوں اور مجھے اختیار ہے کہ میں پھر اُسے اٹھالوں ۔ یہ تو سچ ہے کہ لوگوں نےاُسے پکڑا اور رسی سے باندھا لیکن وہ بندھا ہو ا زیادہ اپنی مرضی اور خوشی سے تھا ۔خدا کی مرضی اور دنیا کی محبت کی ڈورااُس پرآ ماد ہ مضبوط تھی اور اُنہیں کے سبب سے جیسے بھیڑاپنے بال کتر نے والوں کے سامنے چپ چاپ رہتی ہے اُس طرح وہ اپنے پکڑنے اور ستانےوالوں کے سامنے چپ چاپ رہا اُس کی عقل اور سمجھ آخر تک قائم رہی و ہ مرتے وقت مغلوب نہ ہو ا بلکہ موت پر غالب رہا یہ بھی یاد رکھنا مناسب ہے کہ مسیح کا جی اُٹھنا پیشن گوئیوں کی کلام کے مطابق تھا ۔پولُس رسول کہتا ہے کہ وہ گاڑا گیا ۔اور تیسرے دن کتابوں کے موافق جی اُٹھا پھر دوسر ی جگہ اُس وعدہ کو جو باپ دادو ں سے کیا گیا تھا خدا نے ہمارے لئے جو اُن کی اولاد ہیں بالکل پورا کیا کہ یسوع کو پھر جلایا اگر ہم غور سے نبوت کی کتابیں پڑھیں تو اکثر ہم یہ دیکھیں گے کہ یسوع کی موت اور دکھ کا بیان ہے اور بعد اُس کا جلال کا جس میں و ہ جی اُٹھ کر داخل ہوا ۔ پطرس کا بیان کہ اس کو خدا نے موت کے بندکھول کر اُٹھایا کیونکہ ممکن نہ تھا کہ وہ اُس کے قبضہ میں رہے ۔
دوسرا مسیح کے جی اُٹھنے کا یقین معتبر گواہی پرموقوف ہے ۔پیشتر کہ ہم اس گو اہی کی طرف متوجہ ہو ں ہم اُن خیالوں کا بیان کر یں گے جو مسیح کے زندہ ہو نے اور آسمان کے چڑھ جا نے کی بابت ممکن ہے ۔پہلا یہ کہ خداوند یسوع مسیح حقیقت میں نہیں مرا بلکہ جب صلیب پر اُتارا گیا تھا تو حالت غشی میں تھا اور اُس کے شاگر دوں نے مردہ سمجھ کے یہودیوں کی رسم کے بموجب اُس کے بدن پر نکوث بوئیں ملیں اور اُس کو دفن کیا بعض لوگ سوچتے ہیں کہ اُن خوشبویو ں کے ملنے اور ٹھنڈی ہو ا کے لگنے سے جب شاگر د اس کو قبر میں رکھ کر چلے گئے تواُس کی بے ہوشی جاتی رہی تب وہ رفتہ رفتہ قوت حاصل کر کے قبر میں سے نکل آیا اور کسی پوشیدہ مکان میں جاکر چھپا رہا ہوگا کبھی کبھی اُس مکان سے نکل کر چالیس روز تک شاگردوں پر ظاہر ہو تا رہا اور بعد چالیس روز کے بالکل غائب ہو گیا اور شاگردوں کو نظر نہ آیا شاگرد بھی سمجھتے رہے کہ ہمارا خدا وند جی اُٹھا۔ آسمان پر چلا گیا۔ اس خیال کی نسبت میرا جواب یہ ہے کہ یہ صرف خیال ہی ہے کہ جس کا کچھ ثبوت نہیں ۔ انجیل نو یسوں کی شہادت کے خلاف ہے کہ و ہ سچ مچ مرگیا تھا اس کو قبول نہیں کرسکتے سوائے اس کے یہ خیال میری نظر میں بالکل ناممکن معلوم دیتا ہے کیونکہ مسیح نہ صرف مصلوب کیا گیا تھا بلکہ بھالے سے اس کا پہلو چھیدا گیا تھا۔ اگر وہ غشی کی حالت میں ہو کر قبر میں زندہ ہوا تو نہایت کمزور ہو گا ۔یہ ممکن نہیں معلوم دیتا کہ ایسے بھاری پتھر کو کہ جس کی نسبت عورتیں خیال کرتی تھیں کہ اُس نے ہمارے لئے کون ڈھلکا ئے گا خود ڈھلکا کر نکل گیا ہو ۔پہرے والوں کی آنکھ بچا کر بھاگ گیا ہو ا اور بھاگ کر کہاں گیا ا س خیال کے بموجب شاگردوں کے پاس نہیں گیا اگر دشمنوں کے پاس گیا تھا تو ممکن نہیں معلوم دیتا کہ اُنہوں نے اس کو چھپا رکھا ہوا بیچ بیچ میں چالیس روز تک اس کو شاگردوں پر ظاہر کیا ہو اور بعد اُس کو اس طرح چھپالیا ہو کہ اُس کی کچھ خبر کسی نہ ملی اور یہ سب کچھ اس نیت سے کیا ہو کہ شاگردوں کو یہ خیال ہو کہ ہمارا خدا وند جو مر گیا تھا پھر جی اُٹھا ہے بلکہ آسمان پر چڑھ گیا میری عقل میں یہ خیال محال ہے اور قرین قیاس یہ ہے کہ اگر دشمنوں کے پاس وہ جاتا تو گرفتار کر کے پھر اُسے صلیب پر دو بارہ چڑھواتے ۔
سوائے اس کے یہ خیال اخلاقی قاعدہ سے ناممکن نظر آتا ہے کیونکہ اس میں مسیح کے ذمہ میں اول درجہ کا دغا اور فریب سمجھا جاتا ہے کہ وہ جب پتھر ڈھلکا کر اپنے شاگردوں کے پاس نہ گیا بلکہ کسی مکان میں چھپ رہا ۔ اور وقتاً فوقتاًاپنے شاگردوں پر ظاہر ہو تا رہا اور بعد چالیس دن کسی مکان میں چھپ گیا ۔ کہ اْن کو نظر نہ آیا اور یہ سب کچھ اس خیا ل سے کریں کہ شاگردوں کو فریب دے کر سمجھادیں کہ میں مردوں میں سے جی اُٹھ کر آسمان پر چڑ ھ گیا۔ میری سمجھ میں ایسا کام مسیح کے ذمہ لگانا نہایت ناممکن ہے خصوصاًجب ہم سوچتے ہیں اور اُس کی پچھلی زندگی اور تعلیم پر نظر ڈالتے۔ دوسرا خیال یہ ہوسکتا ہے کہ مسیح کے شاگردوں نے اُس کی لاش کو چورالیا اور جھوٹ سے یہ مشہور کر دیا وہ مردوں میں سے جی اُٹھا ہے ۔بلکہ اُس کو چالیس دن تک اُنہوں نے وقت بوقت دیکھا ہے آخر کو اُنہیں کے سامنے وہ آسما ن پر چڑھ گیا ۔ یہ خیال ایسا ہے ناممکن ہے جیسا پہلا کیونکہ مسیح کی قبر پر نہ صرف پتھر رکھا ہوا تھا بلکہ اُس پر مُہر بھی کرد ی تھی اور پھر اپنے سپاہیوں کو تعینات(مقرر) کر دیا تھا۔ رومی سپاہیوں کا پہرہ اُس کی نگہبانی کر رہا تھا مسیح کے شاگر د قریب تمام کے کمزور کم حثییت اور کم قدر لوگ تھے و ہ یہودیوں کے خوف سے مسیح کے پاس سے بھاگ گئےتھے سوائے پطرس ،یو حنا اور کئی عورتوں کے اور کسی کا ذکر اُس کی موت کے وقت نہیں ملتا یہ بالکل نا ممکن معلوم دیتا ہے ۔کہ ایسے لوگ اُس کی لاش چورانے کے قابل ہوں یہ بات بھی ہمارے قیاس سے باہر کہ سارے شاگرد متفق ہو کر اس جھوٹ کو باندھ سکیں ۔ کیونکہ یہ بیان ہوا ہے کہ گیارہ رسولو ں نے اُس کو دیکھا اور کئی عورتوں نے اور ایک مرتبہ جب وہ آسمان پر چڑھ گیا بڑی جماعت شاگردوں کی وہاں موجود تھی۔ اخلاقی قاعدہ سے بھی یہ خیال محال نظر آتا ہے ۔کیونکہ شاگر دوں کی خاص کر رسولو ں کی زندگی اور تعلیم پر غور کرنے سے بخوبی ظاہر ہوتا کہ یہ لو گ سچے تھے او ر سچائی کے سکھانے والے تھے او ر اپنی کلام اور تعلیم کو سچے کے واسطے بڑے دکھ اور تکلیف اُٹھائی بلکہ اپنی جان تک بھی دریغ نہ کی ہم یقین نہیں کر سکتے ایسے لوگوں نے یہ سب کچھ جان بوجھ کر کیا کہ اُن کے پیغام کی بنیاد بالکل جھوٹی ہے اُن کا پیغام سچا ہو ا جھوٹا لیکن وہ بے شک اُسے سچا سمجھتے تھے۔
بعض لوگوں نے نویسو ں کے بیان میں فرق اور اختلاف دکھلایا ہے اگر اختلاف بھی ثابت ہو تو اُن کے بیان کی سچائی پر داغ نہیں لگا سکتا صرف اُن کے لفظی الہٰام پر شک پیدا ہو سکتا ہے۔
تیسرےخیال کو رو یا کا خیال کہا جاتا ہے اور یہ خیال آج کل پہلے دو خیالوں سے عالموں کے درمیان زیادہ مشہور ہے ۔کیونکہ ایک نامی اور عالم شخص رینان صاحب نے اُس کو دلچسپ عبارت کے ساتھ بیان کیا ہے وہ خیال یہ ہے کہ
’’گڈفرایڈ ے کے ماجرے سے مسیح کے شاگرد بہت دلگیر اور رنجیدہ خاطر ہو گے تھے یکایک اُن میں سےا یک عورت مریم گدلؔین جو پر جو ش اور گرم طبیعت کی تھی ۔ اپنے خیال کے بس میں آکر چلااُٹھی کہ خداوند جی اُٹھا ہے۔بجلی کی موافق یہ کلام شاگردوں کی جماعت میں پھر کئی تھی جماعت اس کے اثر میں آگئی اور کہنے لگی خداوند جی اُٹھا ہے چند روز بعد ان میں سے ایک نے کہا آؤ ہم گلیل کو جائیں وہاں ہم کو خداوند دکھلائی دے گا ۔ جب وہ گلیل میں پہنچ گے اور اُس جھیل اور اُس مکان کو دیکھا ۔ جہاں مسیح اُن کو ملتا تھا ۔ اور اُن کو تعلیم دیتا تھا اور محبت کا کلام کہتا تھا ۔تب مسیح کی ساری سر گذشت اُن کو تازہ ہوگئی اور وہ خیال کرنے لگے کہ ہم خداوند کو دیکھ رہے ہیں ۔ آخر کو گلیل کے پہاڑ پر کسی شاگرد مسیح کے اکھٹے ہو گئے ۔ ہو ا اس پہاڑ کی نہایت لطیف ہے اور طرح طرح کے دھوکہ سے بھر ی ہوئی ہے ۔ اس قسم کا ایک دھوکا اُس کے سامنے پیش ہو ا ۔ وہ سوچنے لگے کہ مسیح کی صورت اُن کے سامنے کھڑی ہے بلکہ آسمان کی طرف اُٹھ رہی ہے اُنہوں نے چلا کر کہا کہ خداوند آسمان پر چڑھ گیا۔ او ر خدا کے دہنے ہاتھ جا بیٹھا ‘‘۔
یہ خیال ایسا ہی خام ہے جیسے پہلے دو یہ اسم با مسمی ہے ۔یعنی رینان صاحب کی رویا کا نتیجہ ہے کیونکہ اس طرح کا رویا صرف تب ہی نظر آتا ہے جب آدمی سارے دل سے اس کا مثطر اور اُمید وار ہو لیکن ہم کو معلوم ہے ۔ کہ مریم مگدلیں اور عورتیں جو اُس کے ساتھ جاتی تھیں اس رویا کی اُمید وار نہیں تھیں وہ خوشبو تیار کے مسیح کی لاش پر ملنے کو گئی تھیں سوائے اس کے رویا ایک تنہا عورت یا مرد کو نظر آ سکتا ہے ۔ لیکن انجیل نویسو ں کا بیان ہم پڑھتے ہیں کہ مسیح کم سے کم دس دفعہ اپنے شاگردوں پر ظاہر ہو ا ۔ نہ صرف تنہا آدمی کو غم اور افسو س کی حالت میں بلکہ ایک دفعہ وہ دو شاگردو ں کو نظر آیا جو عماؤس کی بستی میں جا رہے تھے ایک دفعہ دس رسولوں پھر گیارہ کو پھر سات شاگر دو ں کو جب وہ دریا میں مچھلی پکڑ رہے تھے اور پچھلے دن جب کہ وہ آسمان پر صعود کر گیا پانچ سو آدمی سے زیادہ شاگر دوں کو نظر آیا ۔اس لئے ہم اس کو رویا منظور نہیں کر سکتے پر یہ بھی غور کے لائق ہے کہ یہ نمائش خواب کے موافق نہیں تھا ۔مسیح نے اپنے ہاتھ اور پہلو شاگردوں کو دکھلائے اُنہوں نے بھونی مچھلی کا ایک ٹکڑا اور شہد کا چھتا اُس کو دیا اُس نے لے کر اُن کے سامنے کھایا۔
مسیح کی نمائش بے معنی نہیں تھیں جیسا اُس کی زندگی کے سارے کام روحانی مطلب سے بھر ے ہو ئے تھے ۔ اس طرح جی اُٹھنے کے بعد جو کچھ کیا وہ بھی نصیحت سے بھر ا ہوا ہے ۔ مثلا اُس نے شاگردو ں کے ساتھ دریا ئے گلیل کے کنارے پر روٹی کھائی اس سے یہ ظاہر ہے کہ محنت تمام ہوئی آسمانی دریا کے کنارے پر آرام ہے ۔کامل کلیسیا ہمیشہ کی ضیافت میں شامل ہو تی ہے ۔ ان نمائشوں میں مسیح نے جو کلام کہا وہ ابھی تک شاگردوں کے دلوں میں جاگتا ہے ۔ وہ زندہ کلام ہے روشنی اور قوت سے بھر ا ہو ا جو اب تک مسیحی ملکو ں میں بلکہ کل دنیا پر اثر کر رہا ہے ۔ مریم مگدلین کے روبر و مسیح نے روٹی نہیں کھائی نہ تؔوما کوپاک نوشتوں کی تعلیم دی جیسے اُن شاگردوں کو دی جو عماوس کی بستی میں جارہے تھے ۔تؔوما کی بے ایمانی کا سبب اور تھا اور عماوس کے جانے والوں کے بے ایمانی کا باعث اور تھا ۔صرف ایک ہی نمائش میں مسیح نے معجزہ دکھلایا ۔
اور مسیح آسمان پر چڑھ گیا
مرقس کی انجیل کے سولھویں باب اور انیسویں آیت میں یہ ماجر ایوں مرقوم ہوا ہے کہ خداوند آسمان پر اُٹھایا گیا ۔لوقااس کا ذکر انجیل کے ۲۴ باب ۵۱ آیت میں یوں کرتا ہے تب وہ انہیں وہاں سے باہر بیت عنیاہ تک لے گیا اور اپنے ہاتھ اُٹھا کر انہیں برکت دی اور ایسا ہوا کہ جب وہ انہیں برکت دے رہا تھا ان سے جد ا ہوا اور اسمان پر اُٹھایا گیا ۔مسیح کی صعود کا مفصل بیان اعمال کے پہلے باب میں ملتا ہے وہاں مسیح کے شاگردوں کے ساتھ پچھلی گفتگو کے بیان کے بعد یہ لکھا ہے ۔وہ یہ کہہ کر ان کے دیکھتے ہوئے اوپر اُٹھایا گیا اور بدلی نے اسے ان کی نظروں سے چھپالیا ۔اور اس کے جاتے ہوئے جب وہ آسمان کی طرف تک رہے تھے دیکھو دو مرد سفید پوشاک پہنے ان کے پاس کھڑے تھے اور کہنے لگے اے گلیلی مرد و تم کیوں کھڑے آسمان کی طرف دیکھتے ہو یہی یسوع جو تمہارے پاس سے آسمان پر اُٹھایا گیا ہے جس طرح تم نے اسے آسمان کی طرف جاتے دیکھا پھر آئے گا ان بیانوں سے مندرجہ ذیل مطلبوں کا ثبوت ہے ۔
(۱)مسیح کا صعود اس کی کل شخصیت کا تھا یعنی خداوند یسوع مسیح خدائے مجسم کا خدا بیٹا صاف حقیقی جسم اور عقلی روح کے ساتھ آسمان پر چڑھ گیا ۔
(۲)مسیح کا صعود علانیہ تھا شاگردوں نے کل ماجرا دیکھا انہوں نے دیکھا کہ مسیح زمین سے آہستہ آہستہ اوپر اُٹھایا گیا ۔تا وقت یہ کہ بدلی نے ان کی نظروں سے چھپالیا ۔
(۳)مسیح کا صعود مکان کی تبدیلی ہے یعنی زمین سے آسمان پر اُٹھایا گیا اس سے معلو م دیتا ہے کہ آسمان پرمکان ہے خلقت کے کون سے حصہ میں یہ مکان موجود ہے میں بتانہیں سکتا۔لیکن بائبل کی تعلیم سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ مکان محدود ہے ۔جہاں خدا کا حضور اور جلال خاص طور پر ظاہر ہے ۔اور جہاں خدا کے فرشتے جو غیر محدود نہیں ہیں ۔اور مقدسوں کی روحیں موجود ہیں ۔ہم اقرار کرتےہیں کہ بائبل میں لفظ آسمان اور معنی میں بھی مستعمل ہوا ہے ۔مثلاً سب سے نیچے کا آسمان جہاں چڑیا اُڑتی بادل پھرتے یا جہاں سے پانی برستا ہے پولار کے اس حصہ کو بھی آسمان کہاگیا ہے ۔جس میں سیارے اور ستارے چمک رہے ہیں ۔بائبل میں سیاروں کو آسمانی فوج کہاگیا ہے ۔تیسرے آسمان کے معنی وہ روحانی حالت ہے جس میں ایمان دار مسیح پر ایمان لانے کے سبب سے داخل ہوتے ہیں اس معنی میں لفظ آسمان خدا کی بادشاہت کا مساوی ہے ۔افسیوں کے خط کے دوسرے باب کی ۶ آیت میں یوں لکھا ہے اس نے ہم کو اس کے ساتھ اُٹھایا اور آسمانی مکانوں پر بیٹھایا اور فلپیوں کے تیسرے باب کی ۲۰ آیت میں بیان ہوا ہے ۔ہماری مملکت آسمان پر ہے اور سب سے پچھلے معنی جس معنی میں بیان ہوا ہے کہ مسیح آسمان پر چڑھ گیا ۔آسمان اس جگہ کانام ہے جہاں خدا بستا ہے ۔اور جہاں اس کے فرشتے اور مقدسوں کی ارواح اکٹھی ہیں جہاں سے خداوند یسوع مسیح آیا تھا اور پھر لوٹ گیا ہےے اس نے اپنے شاگردوں کو فرمایا میں تمہارے لیے ایک مکان تیار کرنے کے لیے جاتا ہوں ۔یہی معنی اس لفظ کے ہیں جب ہم خدا کو کہتے ہیں کہ ہمارا باپ جو آسمان پر ہے یا آسمان خدا کا تخت ہے اس کی ہیکل ہے اسکے رہنے کی جگہ ہے اگر مسیح کے صعود کا بد ن ہے تو ضرور اس کے لیے ایک محدود جگہ کی حاجت ہے اور جہاں مسیح کا بدن ہے وہی عیسائیوں کا آسمان ہے ۔
لیکن سارے عیسائی لوگ صعود کی اس تشریح کو قبول نہیں کرتے ۔مثلاً لوتھرن کلیسیا سمجھتے ہیں کہ مسیح کا صعود نقل مکان نہیں ہے ۔بلکہ تبدیلی حالت کی ہے اور اس صعود میں فرق ہے ۔بعض مسیحی معلموں نے اس کا مجسم ہوا اور آسمان پر چڑھ جانا یوں بیان کیا ہے کہ جب مسیح مجسم ہوا تب اس نے اس خدا کی صورت کو جو ازل سے رکھتا تھا اُتار پھینکا اور اپنے آپ کو محدود بنا کر انسان کی شکل کو اختیار کیا یہ لوگ صعود کی نسبت یوں کہتے ہیں کہ ضرور اس کے وسیلہ سے نقل مکان کرکے دنیا سے آسمان میں داخل ہوا ہم یہ بھی اقرار کرتے ہیں کہ ہمارا خداوند انسانیت کی حیثیت میں صرف ایک ہی جگہ میں موجود ہے ۔لیکن اس کی ہستی کی صورت صرف انسانی ہے نہ کہ الہٰی ۔ مشہور مفسرابراڈ صاحب نے کہا کہ
’’خدا کا اکلوتا بیٹا انسانی روح بنا اور اپنے واسطے مریم کے شکم میں ایک جسم پیدا کیا اور اسکے شکم سے انسان پیدا ہوا اس انسانی ذات میں دوحصے تھے ۔پہلے وہ چیزیں جو انسانیت کے لیے ضروری ہیں یعنی بدون(بغیر) ان کے انسان انسان نہیں ہے ۔دوسرے وہ چیزیں جو انسان میں عارضی اور متغیر ہیں مثلاً کمزوری موت اور دکھ میں مبتلا یہ دوسری خصوصیت مسیح نے صعود کے وقت بالکل اُتار پھینکی اور اب آسمان میں موجود ہے بحیثیت جلال والی انسانیت کے‘‘
وہ کہتے ہیں کہ مسیح نے ہمیشہ کے لیے خدا کی صورت کو اُتار پھینکا اور انسان کی صورت اختیار کی اور اسی انسان کی صورت میں اب و ہ آسمان پر ہے۔اور اپنی روح کے وسیلہ کلیسیا اور دنیا پر حکومت کرتا ہے مکان کی نسبت وہ دنیا سے غیرحاضر ہے لیکن قوت کے وسیلہ سے وہ اپنے لوگوں کے نزدیک اور درمیان موجود ہے ۔مسیح کی انسانیت کی قوت سے حاضری کو ہم مانتے ہیں لیکن اس بات کو نہیں مانتے کہ اس نے خدا کی صورت کو بالکل اُتار پھینکا اور انسانی روح بنا اور ہمیشہ کو انسانیت کی حالت میں رہے گا ۔اگر یہ سچ ہوتو مسیح فقط آدمی ہے اور خدا نہیں۔ مثلاً اگر ایک جوان آدمی اپنے آپ کو محدود اور چھوٹا کرتا ہوا لڑکے کی صورت تک پہنچ جائے اور اسی صورت میں ہمیشہ کو قائم رہےتو لڑکا ہی سمجھا جائے گا نہ کہ جوان اسی طرح اگر کوئی آدمی اپنی عقل کھو بیٹھے اور عقل بے جائے تو وہ بے عقل ہی کہلائے گا یاحیوان بن جائے اور فقط حیوان کی طاقت اور قوت رکھے تو اس کو حیوان کہیں گ ۔نہ انسان اسی طرح اگر خداکا بیٹا انسان بن گیا ہے اور انسانیت میں ہمیشہ کورہتا ہے تو وہ انسان ہے نہ خدا ۔
انجیل کے مطابق مسیح کا صعود ایک ضروری امرتھا۔
(۱)ضرور اس واسطے تھا کہ مسیح آسمان سے آیا آسمان اس کا گھر تھا اور آسمان اس کی سکونت کے لائق ہے ۔اس لیے جب تک یہ دنیا گناہوں سے پاک نہ ہوجائے جب تک نیا آسمان اور نئی زمین نہ بنے یہ دنیا اس کے رہنے کے لائق نہیں ہے ۔
(۲)مسیح کا صعود سردار کاہن کے کام کے تمام کرنے کو ضرور تھا کہ اس قربانی کے لہوکے ساتھ آسمان سے گزر کے خدا کی حضور حاضر ہو۔ضرور تھاکہ وہ آسمان پر جا کر اپنی امتوں کے واسطے خدا کے حضور سفارش کرے ۔جیسا وہ ہمارے گناہوں کے واسطے موا قبر میں ویسا ہمیں راستباز ٹھہرانے کے لیے پھر جی اُٹھا ۔یہ سب باتیں یہودیوں کے بیچ میں قربانی کی رسم سے ظاہر تھیں ان کے بیچ میں دستور تھا کہ قربانی کا جانور ہیکل کے باہر ذبح کیا جاتا تھا ۔سردار کاہن قربانی کا لہو اور خوشبو لے کر پردہ کے اندر پاکترین جگہ پردے میں داخل ہوتا تھا اور وہاں کفارہ گا ہ میں عہد کے صندوق پر چھڑک دینا تھا جو کام سردار کاہن بھی اس کام کو آسمانی ہیکل میں پورا کرے اس مضمون کا پورا بیان عبرانیوں کے خط میں کیا گیا ہے ۔
(۳)خداوند اپنے شاگردوں کو فرماتا ہے تمہارے لیے میرا جانا ہی فائدہ ہے کیونکہ اگرمیں نہ جاؤں تو تسلی دینے والا تمہارے پاس نہ آئے گا پر اگر میں جاؤں تو میں اسے تمہارے پاس بھیج دوں گا ۔اس واسطے مسیح کا جانا شاگردوں کے لیے ضرور تھا مسیح نے نجات کاکام پورا کیا ۔لیکن شاگردوں کو اس کام سے فائدہ تب ہی ہوا جب روح القدس کے وسیلہ سے اس پر ایمان لائے یہ روح القدس ہی کی مدد سے ہے۔کہ آدمی گناہوں سے مقر ہوتے ہیں اپنی لاچاری کو پہچانتے ہیں اور مسیح کے پاس نجات کی تلاش کرتے ہیں ماسوااس کے نبیوں نے روح القدس کے نزول کی نبوت کی تھی انہوں نے بیان کیا تھا کہ مسیح کے زمانہ کی ایک خاص خصوصیت یہ ہوگی ۔ضرورتھا کہ یہ نبوتیں پوری ہوں ۔روح القدس کی نعمت حاصل کرنے کے لیے مسیح کا آسمان پر چڑھ جانا ضرور تھا ۔وہ اُٹھایا گیا ۔تاکہ روح القدس کےوسیلے سے لوگوں کو توبہ اور گناہ کی معافی بخشے ہرزمانہ سے اور ہرقوم سے ان کو اکٹھا کرے اس کا م کو پورا کرنے کے لیے آسمان کا تخت سب سے اچھا تھا ۔
(۴)مسیح نے اپنے غمگین شاگردوں کو فرمایا میں جاتا ہوں تاکہ تمہارے لیے جگہ تیار کروں اور جس حال کہ میں جاتااور تمہارے لیے جگہ تیارکرتا ہوں توپھر آؤں گا اور تمہیں اپنے ساتھ لوں گا تاکہ جہاں میں ہوں تم بھی ہو اس کام کو پور ا کرنے کے لیے ضرور تھا کہ مسیح آسمان پر جائے ۔