ہستیِ خدا

Eastern View of Jerusalem

The Entity of God

By

Labho Mall

پادری لبھومل

Published in Nur-i-Afshan September 29, 1887

نور افشاں مطبوعہ ۲۹۔ ستمبر۱۸۸۷ء

احمق اپنے دل میں کہتا ہے کہ خدا نہیں ہے (زبور ۱۴: ۱) ۔

صاحبو ہستی خدا بنا ہر مذہب کی ہے ۔اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ بعض لوگ مثل دہریہ وملحد(لامذہب ،خداکونہ ماننے والا) کے منکرہستی واجب الوجود(جس کی ذات اپنے وجو د میں کسی کی محتاج نہ ہو۔اللہ تعالیٰ) کے ہیں پر قول گروہ قلیل(کم ،تھوڑا) گرو کثیر(زیادہ ) کو توڑ نہیں سکتا ۔

یہ سچ ہے کہ ہستی واجب الوجود کو پایہ ثبوت پر پہنچنا سہل(آسان) نہیں تاہم اس کا رد کرنا اس سے زیادہ ترمحال وناقابل یقین ہے۔ دہریہ وملحد جو مقر (اقرار کرنے والے ،حامی کار)ہیں کہ یہ عالم اتفاقاًعدم (نیستی ،غیر حاضری)سے حالت ہستی میں نمایاں ہوا اس کی تردید سسرو حکیم یوں کرتا ہے کہ

’’اگرچہ ہستی واحد الوجود میرے احاطہ فہم میں نہیں آتی تاہم میں یقین نہیں کرسکتا کہ یہ عجیب عالم خود بخود بن گیا ہو۔ہاں اگر کوئی مجھ کو دکھلائے کہ لکڑی کے حروف کا ٹکڑا گلی یادہانی ظروف میں ڈال کر زمین پر گرانے سے پولیٹکل یا سوشل (سیاسی یا معاشی)مضمون بن جاتے ہیں ۔جن سے کہ ہر کوئی پڑھ کر مطلب نکال لے تب تو البتہ میں بھی مان لوں گا کہ یہ عالم خود بخود اتفاقاً بن گیا ورنہ نہیں ‘‘۔

’’احمق اپنے دل میں کہتا ہے کہ خدانہیں‘‘

لہٰذا ظاہر ہے کہ جو لوگ باوجود ہوئے ایسی پختہ دلائل کے ہستی واجب الوجود کے منکر ہوتے ہیں ٹھیک مصداق(وہ چیز جو کسی کی صفائی ثابت کرے ، شہادت) ہمارے متن کے ہیں۔ بعض کا خیال یہ ہے کہ خالق مخلوق سے الگ نہیں بشرطیکہ کوئی خالق ہو ۔پر معلوم نہیں کہ یہ نتیجہ انہوں نے کہاں سے نکالا کیونکہ موجودات میں تو ایسا دیکھا نہیں جاتا کیونکہ جب ہم کسی لطیف گلی یادھاتی ظروف کو دیکھتے ہیں تو اس میں اس کا بنانے والا تو نظر نہیں آتا ۔ گھڑے میں کبھی کمہار دیکھا نہیں جاتا ۔نہ صندوق میں بٹھریئی ۔البتہ صنعت(دست کاری) میں صانع(بنانے والا) کی حکمت قدرت وہاتھ کی صفائی تو نظر پڑتی ہے ۔پر صانع سدا صنعت سے الگ ہوتاہے اس کے وجود کی صورت جیسی صنعت میں محسوس نہیں ہوتی ۔لہٰذا یہ خیال کرنا کہ خالق مخلوق سے الگ نہیں باطل ہے اور ان ملحدوں پر ہمارے متن کی آیت صادق آتی ہے کہ ’’احمق اپنے دل میں کہتا ہے کہ خدانہیں‘‘ ۔

ثالثاً اور وں کا خیال ہے کہ ہستی واجب الوجود لوگوں کا وہم ہے نہ حقیقت ،کیونکہ آج تک کسی نے اقرار نہیں کیا کہ میں نے خدا کو دیکھا ہے ۔پس جو چیز کبھی دیکھی نہیں کئی ۔اس کی موجودگی باہستی کا کیوں کر یقین ہو۔ایسو ں سے میں یہ سوال کرتا ہوں کہ آیا آپ کا خیال ہر شئے کی نسبت ایسا ہی ہے ۔ یامحض اس کے واسطے اکثر تجربہ میں آیا ہے کہ ایسے لوگ ذیل کی حقیقتوں کےقائل ہوتے ہیں ۔مثلاً کہتے ہیں کہ فلاں زمانہ میں فلاں بادشاہ عادل یاظالم گزرا ہے اور اس امر کی نسبت ان کا خیال مثل عوام کے ہوتا ہے ۔درحالیکہ بادشاہ مذکورہ کو نہ انہوں نے نہ ان کے باپ نے کبھی دیکھا لیکن پھر بھی یقین کرتے ہیں کہ فلاں بادشاہ فلاں زمانہ میں ہوگزراہے ۔

لہٰذا یہ لوگ بھی اسی فہرست میں شامل ہیں کہ ’’احمق اپنے دل میں کہتا ہے کہ خدا نہیں‘‘ ۔

اکثر جب لوگ کسی جگہ سے دھواں اُٹھتے دیکھتے ہیں تو صاف یقین کرتے ہیں کہ وہاں آگ موجود ہے۔ لہٰذا امتحان پر ایسا ہی معلوم ہوتا ہے ۔باوجود یہ کہ آگ دیکھی نہیں اور اسی طرح جب کہ کوئی ایک روز کسی نہر کو خشک اور دوسرے روز آب رواں دیکھتا ہے ۔تو غالباً یہ خیال کرتا ہے کہ یاتو اوپر بارش ہوئی ہے یا برف پگل آئی ہے اور تحقیقات پر ہر دو سبب میں سے ایک ضروری ہوتاہے ۔پھر انسان اپنے وجود کی حرکات سے اپنے ہی اندر ایک قوت یعنی روح کی موجودگی کے قائل ہوتے ہیں حالانکہ اس کو نہیں دیکھتے لہٰذا باوجود ہونے ایسی پکّی دلیلوں کے جو انکار کرتا اپنے آپ کو اندھا بناتا اور دوسروں کو دھوکا دیتا ہے ۔

پس معلوم ہوا کہ نہ تو عالم خود بخود بنانہ خالق مخلوق میں ہے اور نہ ہم اس کی ہستی  سے انکار کرسکتے ہیں ۔صرف اس وجہ پر کہ اس کو کبھی کسی نے دیکھا نہیں پر پھر بھی ہم حق کے طالبوں اور اہل عقل کی خاطر چند دلائل جن سے کہ ہستی واجب الوجود پایہ ثبوت کو پہنچی ذیل میں لکھتے ہیں ۔

اوّل۔ آنکہ تمام موجودات کی ذات وصفات اور واقعات بنیاد یہ ہے کہ صانع وصنعت کے درمیان ضرور علاقہ ہے کیونکہ علت بدون(بغیرسبب) اپنے معلول(وہ چیز جس کا کوئی باعث یا سبب ہو،اصطلاح منطق میں نتیجہ یاپھل) کے علت (وجہ)ہو ہی نہیں سکتا ۔

ہم اس جگہ صانع اس کو کہتے ہیں جو کسی کو نیست سے ہست کرے یا کہ جو ہستی وجود میں تبدیل بخشتا ہے۔ صانع کو صنعت سے علاقہ رکھنے کے سبب سے دلائل موجود ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ صانع بدون صنعت کدی ہوہی نہیں سکتا اور نہ کچھ تبدیل قبول کرسکتا ہے تو بدیہی(وہ بات جس میں دلیل کی حاجت نہ ہو) ہے ۔لوسب اس کے قائل ہیں نیز ہر ملک کے لوگوں کی زبان سے بھی یہ دعویٰ ثابت ہوتاہے ۔چنانچہ وہ کونسی زبان ہے جس میں فاعل (کام کرنے والا)ومفعول(وہ اسم جس پر کوئی فعل واقع ہوا ہو) نہیں یاکہ مفعول بدون فاعل کے ہوسکتا ہے ۔عیاں راچہ بیان (ظاہر ا اور علانیہ چیز کو بیان کرنے کی ضرورت نہیں )ننھے ننھے بچے جب کسی شے کو دیکھتے ہیں تو پوچھتے ہیں کہ اس کو کس نے بنایا ۔الحاصل صاف ظاہر ہے کہ ہر دل میں یہ بات نقش ہے کہ کسی کا وجود بدون موجد(ایجاد کرنے والے) کے ہونا انہونا(اچنبھے کا )ہے ۔یعنی کوئی صنعت بدون صانع بن نہیں سکتی اور مصنوعات میں سبب وعلت بغیر کسی طرح کے تبدیل واقعہ ہرگز ہونہیں سکتا۔یہ بات تو کوئی کیسا ہی کند ذہن (بے وقوف)کیوں نہ ہو وہ بھی سمجھتا ہے ۔پھر جب موجودات کی بنا ہی میں کسی طرح تبدیل بدون بانی وسبب کے ہرگز نہیں ہوسکتی تو ان کا وجود بدون بانی وسبب کیوں کر ہوسکے گا ۔یہ تو ایسا ہوگا کہ کوئی بدون (بغیر)بنائے دیوار اس پر نقش کا ارادہ کرے پھر جو کوئی غور کی نظر سے نگاہ کرے گا ۔اس کو معلوم ہوجائے گا کہ دنیا کی ہستی سے خدا کی ہستی ثابت ہوتی ہے ۔

چنانچہ حکمائے یونان جو کسی مذہب وملت کے مقید(پابند،قیدی) نہیں وہ بھی اس کے قائل ہیں اور اس کو بُرہان انی (دلیل کی ایک قسم جس میں معلول سے علت کی طرف استدلال کرتے ہیں )کہتے ہیں کہ مفعول سے علت کا وجود ثابت ہو۔ ہرایک شخص جو اپنی ہستی کا قائل ہے اورمانتا ہے کہ میں ہمیشہ سے نہیں ہوں کسی وقت پیدا ہوا تھا اور یہ ظاہر ہے کہ اس کی ہستی اپنے آپ سے نہیں کسی دوسرے سے ہے اور کہ اس کا بانی اس کی ہستی کے لائق بھی ہے یعنی کہ جس طرح یہ ہے اس کو بنا بھی سکا کیونکہ وہ بنا ہوا ہے ۔پھر یہ بھی ظاہر ہے کہ آدمی کے پیدا کرنے کو بڑی دانائی قدرت توانائی وحکمت درکار ہے اور جن سے انسان کو پیدا کیا اس میں یہ صفات ضرور ہونی چاہیے ورنہ انسان کے پیدا کرنے میں ان کا ظہور کیوں کر ہوتا اور جس میں یہ قدرت ہے وہ خدا ہے اور اسی کا یہ نام وخطاب ہے اور جو قدرت فہم انسان کے پیدا کرنے کودرکار ہے ضرور لامحدود ہے اورجو انسان کے پیدا کرنے کو طاقت وقدرت رکھتا ہے ۔وہ بے شبہ سب کچھ کرسکتا ہے اور جو انسان کا پیدا کنندہ ہے وہ تمام وجود اس کا بھی ہے ۔پس جو باوجود ایسی قوی دلیلوں کے منکر ہیں ٹھیک مصداق ہمارے متن کے یہی کہ’’ احمق اپنے دل میں کہتا ہے کہ خدانہیں ‘‘۔

ثانیاً ۔ ایک دلیل اس عالم کے کارخانہ ومخلوقات کے باہمی موافقت سے ہستی واجب الوجود کے واسطے نکلتی ہے ۔

ثالثاً ۔مخلوقات میں ارادہ وحکمت نمایاں ہیں اور یہ صفت مادہ کی نہیں ۔کیونکہ مادہ ان سے خالی ہے ۔لہٰذا ضرور کوئی علیحدہ وجود ہے جس نے ان کو پیدا کیا۔

رابعاً ۔ انسان کے وجود میں ایک لطیفہ زبانی ہے یعنی روح ابدی ہے ۔یاتو مادہ سے نکلا ہوا ہے یامخلوق ہے ۔اگر یہ مانا جائے کہ مادہ سے نکلا تو محال ہے۔ کیونکہ نتیجہ اپنے سبب سے افضل نہیں ہوا کرتا کون یقین کرے گا کہ مادہ جو ٹھوس ومبرا از حرکت فہم وعلم ہے اس سے ایک ایسی لطیف شے نکلی جو گذشتہ حالات کو یاد رکھے موجودہ کو دیکھے اور مستقبل کی انتظاری کرے ۔لہٰذا صاف ظاہر ہے کہ اس کابانی اس سے افضل ہے اور وہ خدا ہے ۔

خامساً ۔ کل جہان کے مختلف اقوام کا اتفاق ہے کہ اس جہان کا کوئی خالق ضرور ہے جو واجب التعظیم ہے ۔

الحاصل باوجود ان قوی دلائل کے جو اہل فہم کے قائل کرنے کو کافی ہیں انکار کرتے ہیں ۔ان کی نسبت کیا کہا جائے سوائے اس کے جو ہمارے متن کی آئت میں مذکور ہے کہ ’’احمق اپنے دل میں کہتا ہے کہ خدا نہیں ‘‘۔

نیچرل نالج آف گاڈ

مذکورہ بالادلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ نیچر(فطرت)بھی معرفت الہٰی حاصل کرنے کو ہماری ممد(معاون) ہوسکتی ہے۔کیونکہ کتاب نیچر کا مصنف خود خدا ہے ۔

اس خیال سے جو خدا نے انسان کے دل پر نقش کردیا ہے اور نیچرکے کاموں پر غور کرنے سے صاف نتیجہ نکلتا ہے کہ خداموجود ہے ۔

علم نیچر کی دو قسمیں ہیں یعنی لدنی ومکتبی ۔اوّل علمِ لدنی (وہ علم جوکسی کو خدا کی طرف سے براہ راست بغیر استاد حاصل ہو)وہ ہے جس کے ذریعہ انسان سنہ بلوغت کو پہنچتے ہی خدا کی نسبت سوچنے لگ جاتا ہے اور اس خیال کو کسی صورت روک نہیں سکتا گو کوشش ہی کرے ۔

ثانیاً۔ مکتبی ( مدرسہ )وہ ہے جو کارخانہ مخلوقات پر غور کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔ ان خیالات کا ذکر کلام میں بھی آیا ہے ۔چنانچہ پولُس علم لدنی کا یوں ذکر کرتا ہے کہ’’ غیراقوام شریعت کواپنے دلوں میں لکھا ہوا دکھاتی ہے ان کی تمیز گواہی دینی ہے آپس میں ایک دوسرے کو الزام دیتے ہیں‘‘۔ شریعت جو ان کے دلوں پر لکھی وہ ہے جس کو ہم نے علم لدنی بیاں کیا ۔یہ دلبر نقش ہے نہ سلگی تختی پر جن پر موسیٰ کی شریعت کندہ ہیں ۔

علم مکتبی کا پولُس یوں ذکر کرتا ہے کہ اس لیے اس کی صفات جو دیکھنے میں نہیں آتی یعنی اس کی ازلی قدرت اور خدائی دنیا کی پیدائش کے وقت سے خلقت کی چیزوں پر غور کرنے سے ایسی صاف معلوم ہوئیں کہ ان کو کچھ عذر نہیں پھر داؤد یوں کہتا ہے ۔’’آسما ن خدا کا جلال ظاہر کرتے ہیں اور فضا اس کی دستکاریاں بیان کرتے ہیں‘‘ (زبور ۱۹: ۱)۔

اور ایوب یوں بیان کرتا ہے ’’چار پاؤں(چوپائے ) سے پوچھ وہ تجھ کو بتلائیں گئے اور ہوا کے پرندوں سے وہ تجھ سے بیان کریں گے ‘‘(ایوب ۱۲: ۷۔۹)۔

غیر اقوام بھی اس کے مقر ہیں ۔چنانچہ ارسطو اگر کتاب عالم کا جو اس کے نام سے منسوب ہے مصنف مانا جائے تو وہ یوں بیان کرتا ہے

’’ اپنے افعال سے پرکھی جاتی اسی طرح خدا بھی فانی آنکھ سے پوشیدہ ہے اپنے کاموں سے پرکھا جاتا ہے ‘‘۔

 پھر سسرو کا قول ہے کہ

’’کون ایسا خبطی (پاگل)ہے کہ آسمانوں کو دیکھ کر خدا کا قائل نہ ہو اور خیال کرے کہ یہ عالم اتفاقاً بن گیا حالانکہ آثار حکمت اس میں نمایاں ہیں ‘‘۔

اس بات کے ثابت کرنے کو کہ خدا نے انسانوں کو بے شہادت نہ چھوڑا یہ دلائل کافی ہیں اور نیز اس واسطے کہ انسان خدا کی نعمت کے واسطے شکرگزار ہوں اس کی بندگی کریں اور اس کو پیار کریں سوائے اس کے یہ انسان کو ایک دوسرے کا شکار ہونے سے روکتے ہیں اور الہٰا م کے متلاشی کے واسطے ایک پستی بان ہیں۔ لہٰذا جو لوگ باوجود ان دلائل کے منکرہیں ان کا کچھ عذر قابل سماعت نہ ہوگا ۔یہ دلائل نیچرل نالج آف گاڈ کے واسطے کافی ہیں۔اس سے ہم یہ بھی معلوم کرسکتے ہیں کہ واحد خدا بہمہ صفت موصوف ہے ۔

Leave a Comment