The Way of Salvation
By
One Disciple
ایک شاگرد
Published in Nur-i-Afshan August 22, 1889
نور افشاں مطبوعہ ۲۲۔اگست ۱۸۸۹ء
جب ہم اس بات کو سوچتے ہیں کہ ایک خدا کی حضور رسائی پانے کو اس واسطے لوگوں نے انیک(ان گنت) مذہب ایجاد کئے اور بے شمار ادیان(دین کی جمع) جاری کئے تو ہم کو سخت حیرانگی ہو تی ہے کسی نے نجات کا طریقہ پُن دان (کارِخیر)جاتر ا(مقدس مقامات کی زیارت کے سفر) وغیر ہ بنایا ۔کسی نے روزہ نماز وغیر ہ ٹھہرایا کو ئی تارک الدنیا ہونا سب سے عمدہ طریقہ بتاتا ہے ۔کو ئی پوجا پاٹ ہی کو کافی کہہ سُناتا ہے مگر خلاصہ ان سب کا ان چند الفاظ میں نکل آتا ہے جو نیکی کرتا ہے ۔ سووہی عذاب ابدی سے اپنے آپ کو بچاتا ہے نہ معلوم ان فرضی ہادیوں کو جنہوں نے نجات کی یہ تعلیم دی گناہ کی خاصیت معلوم نہ تھی کہ اُنہوں نے صرف زبانی جمع خرچ پر کا م چلایا اور گناہ کی اتھاہ سمندر سے نکلنے کا کو ئی عمدہ طریقہ بتایا ۔کیا ہم ایسے آدمی کی عقل پر افسوس کا اظہار نہ کریں گے جو کسی ایسے شخص کو جواتھاہ سمندر میں غرق ہو رہا ہے کنار ے پر کھڑا یو ں پکارے کہ تم تیرناسیکھواور پھر تیرکر نکل آؤ۔ کیا اُس وقت اُس کو یہ کرنا (اگر و ہ کر سکے ) مناسب نہ ہو گا کہ لپک کر اُس کی دستگیری کرے یہ کرنا مناسب بلکہ انسب ہے ۔ مگر افسوس کیا جائے کہ سب فرضی ہادیان دین یہی پکارتے گئے کہ گناہ کے سمندر سے تیر کر بچو۔ مگر مدد کا ہاتھ کسی نے نہ بڑھایا صرف ایک ہی شخص اس قابل ٹھہرا جو پکار پکار کر یوں کہہ رہا ہے ’’اے گناہ کے تلے دبے ہو ئے لوگو میں تمہیں آرام دیتا ہو ں ( متی ۱۱: ۲۸) اے گمراہو میں تمہیں راہ ِراست پر لانے کو تیار ہوں بشرطیکہ تم آنا چاہو اور وہ شخص جنابِ مسیح ہے ۔
قریباً سب مذاہب کے لوگ یہ مانتے ہیں کہ خدا نے اول انسان کو بے گناہ پیدا کیااور کہ ایک گناہ کے سرزد ہونے سے آدمی جہنم کا وارث قرار دیا گیا ۔ پس اگر ایک گناہ کی اتنی سزاٹھہری تو کب ممکن ہے کہ ہم بے شمار گناہ کرتے ہیں ۔ اپنے دل میں نجات کی اُمید رکھیں اگر کوئی شخص باوجو دان دو باتوں کے جاننے کے کہ ایک گناہ سے آدمی جہنم کے لائق ٹھہرا اور یہ کہ بے شمار گناہ کئے ہیں پھر بھی نجات کا اُمید وار ہے تو کیا ایسا شخص بعید از عقل نہ سمجھا جائے گا ۔ مگر افسو س صد افسوس کہ لکھ بلکہ اور کرو ڑہا آدمی ایسے پائے جاتے ہیں جو اس بات کے مصداق ہیں ہم ایسے شخصوں کو یہ صلاح دیتے ہیں کہ اُس ہادی سے نجات کی دراخوست کریں جو کہتا ہے کہ جو میرے پاس آتا ہے اُسے ہر گز نکال نہ دو ں گا اور وہ جنابِ مسیح ہے ۔